• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57-بَاب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ الْبَصَرِ
۵۷-باب: نابیناکی فضیلت کابیان​


2400- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُوظِلاَلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ يَقُولُ: إِذَا أَخَذْتُ كَرِيمَتَيْ عَبْدِي فِي الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ جَزَائٌ عِنْدِي إِلاَّ الْجَنَّةَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو ظِلاَلٍ اسْمُهُ هِلالٌ.
* تخريج: خ/المرضی ۷ (تعلیقا عقب حدیث رقم ۵۶۵۳، وھو أیضا عن أنس نحوہ) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳) (صحیح)
۲۴۰۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ فرماتاہے: جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتاہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : انسان کوجونعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے ، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتاہے اوربندہ اس پر صبرورضاسے کام لیتاہے تواسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیزسے نوازاجائے گاوہ جنت ہے۔


2401- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يَقُولُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ: مَنْ أَذْهَبْتُ حَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ وَاحْتَسَبَ لَمْ أَرْضَ لَهُ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۸۶)، وحم (۲/۲۶۵) (صحیح)
۲۴۰۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' اللہ تعالیٰ فرماتاہے : میں نے جس کی پیاری آنکھیں چھین لیں اور اس نے اس پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو میں اسے جنت کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں دوں گا'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


2402- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَائَ أَبُو زُهَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلاَئِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ".
وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ بِهَذَا الإِسْنَادِ، إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَوْلَهُ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۷۳) (حسن)
۲۴۰۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیاجائے گا جن کی دنیامیں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کاکچھ حصہ ''عن الأعمش، عن طلحة بن مصرف، عن مسروق'' کی سند مسروق کے قول سے روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ دنیاوی ابتلاء وآزمائش کا کس قدرعظیم ثواب ہے کہ قیامت کے دن عافیت اورامن وامان میں رہنے والے لوگ اس عظیم ثواب کی تمناکریں گے۔


2403- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِاللهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوتُ إِلاَّ نَدِمَ" قَالُوا: وَمَا نَدَامَتُهُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: "إِنْ كَانَ مُحْسِنًا نَدِمَ أَنْ لاَيَكُونَ ازْدَادَ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا نَدِمَ أَنْ لاَ يَكُونَ نَزَعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِاللهِ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ، وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مَوْهَبٍ مَدَنِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۲۳) (ضعیف جداً)
(سندمیں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے)
۲۴۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو بھی مرتاہے وہ نادم وشرمندہ ہوتاہے''، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول!شرم وندامت کی کیاوجہ ہے؟'' آپ نے فرمایا:'' اگر وہ شخص نیک ہے تواسے اس بات پرندامت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکی نہ کرسکا، اور اگر وہ بد ہے تو نادم ہوتاہے کہ میں نے بدی سے اپنے آپ کو نکالاکیوں نہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں ، ۲- یحییٰ بن عبیدا للہ کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے، اور یہ یحییٰ بن عبید اللہ بن موہب مدنی ہیں۔


2404- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِاللهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ، يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ، يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ فَبِي حَلَفْتُ لأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا".
وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۲۲) (ضعیف جداً)
(سندمیں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے)
۲۴۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلب گار ہوں گے، وہ لوگوں کواپنی سادگی اورنرمی دکھانے کے لیے بھیڑ کی کھال پہنیں گے ، ان کی زبانیں شکرسے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرأت کرتے ہیں میں اپنی ذات کی قسم کھاتاہوں کہ ضرور میں ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمندآدمی بھی حیران رہ جائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔


2405- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ: لَقَدْ خَلَقْتُ خَلْقًا أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَقُلُوبُهُمْ أَمَرُّ مِنْ الصَّبْرِ، فَبِي حَلَفْتُ لأُتِيحَنَّهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا فَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۱۴۸) (ضعیف)
(سندمیں حمزہ بن أبی محمد ضعیف راوی ہیں)
۲۴۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جن کی زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہیں اور ان کے دل ایلواکے پھل سے بھی زیادہ کڑوے ہیں، میں اپنی ذات کی قسم کھاتاہوں! کہ ضرورمیں ان کے درمیان ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقل مندآدمی بھی حیران رہ جائے گا، پھربھی یہ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا جرأت کرتے ہیں؟''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58-بَاب مَا جَاءَ فِي حِفْظِ اللِّسَانِ
۵۸-باب: زبان کی حفاظت کابیان​


2406- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ح و حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا النَّجَاةُ؟ قَالَ: "أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۹۲۸)، وانظر حم (۴/۱۴۸)، و (۵/۲۵۹) (صحیح)
( یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحۃ رقم :۸۹۰)
۲۴۰۶- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیاصورت ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھرکی وسعت میں مقیدرہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کوواضح کیا گیا ہے ، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادرہوتے ہیں، اس لیے لایعنی اورغیرضروری باتوں سے پرہیزکرناچاہئے اور کوشش یہ ہوکہ ہمیشہ زبان سے خیرہی نکلے، ایسے لوگوں اورمجالس سے دوررہناچاہئے جن سے شرکا خطرہ ہو، بحیثیت انسان غلطیاں ضرورہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہارکریں اوراس سے مغفرت طلب کریں۔


2407- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الصَّهْبَائِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَفَعَهُ، قَالَ: "إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَائَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُولُ اتَّقِ اللهَ فِينَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ، فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا، وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۳۷) (حسن)
2407/م1- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
2407/م2- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللهِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الصَّهْبَائِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَحْسِبُهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج(م۲): انظر رقم ۲۴۰۷ (حسن)
۲۴۰۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''انسان جب صبح کرتاہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: توہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے '' ۱؎ ۔
۲۴۰۷/م۱- اس سند سے ابوسعید خدری سے موقوفا اسی جیسی حدیث مروی ہے اور یہ روایت محمد بن موسی کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف حماد بن زید کی روایت سے جانتے ہیں اس حدیث کو حماد بن زیدسے کئی راویوں نے روایت کیا ہے، لیکن یہ ساری روایتیں غیرمرفوع ہیں ۔
۲۴۰۷/م۲- اس سند سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، مگر صالح بن عبد اللہ نے شک کے ساتھ روایت کی ہے کہ شاید ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعا روایت کی ہے، پھر اسی طرح سے پوری حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں زبان کو سارے اعضاء کے سدھارکامرکزبتایاگیاہے ، حالانکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا مرکزدل ہے، توفیق کی صورت یہ ہے کہ زبان کوجسم کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے ، اس لیے مجازاًاسے سارے اعضاء کا مرکز کہا گیا، ورنہ مرکزدل ہے نہ کہ زبان ۔


2408- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ يَتَكَفَّلْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَتَكَفَّلْ لَهُ بِالْجَنَّةِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ.
* تخريج: خ/الرقاق ۲۳ (۶۴۷۴)، والحدود ۱۹ (۶۸۰۷) (تحفۃ الأشراف: ۴۷۳۶) (حسن صحیح)
۲۴۰۸- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو مجھ سے اپنی دونوں ڈاڑھوں اور دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث سہل بن سعدکی روایت سے حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ زبان اورشرمگاہ گناہوں کے صدورکااصل مرکزہیں، اسی لیے ان کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے ، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ آپﷺ نے ان دونوں کی حفاظت کی ضمانت دینے والوں کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے۔


2409- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ وَقَاهُ اللهُ شَرَّ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَشَرَّ مَابَيْنَ رِجْلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ اسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الأَشْجَعِيَّةِ، وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ هُوَ أَبُو حَازِمٍ الزَّاهِدُ مَدَنِيٌّ وَاسْمُهُ سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۲۹) (حسن صحیح)
۲۴۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شرو فساد سے بچالیا وہ جنت میں داخل ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے ،یہ عزہ ٔ اشجعیہ کے آزادکردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اورسہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کانام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔


2410- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ: "قُلْ رَبِّيَ اللهُ، ثُمَّ اسْتَقِمْ" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ ثُمَّ قَالَ: "هَذَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِاللهِ الثَّقَفِيِّ.
* تخريج: م/الإیمان ۱۴ (۳۸)، ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۴۴۷۸)، وحم (۳/۴۱۳) (صحیح)
۲۴۱۰- سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑلوں، آپ نے فرمایا:'' کہو :میرارب (معبود حقیقی) اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے؟ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا:'' اسی کا زیادہ خوف ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث سفیان بن عبداللہ ثقفی سے کئی سندوں سے مروی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59-بَاب مِنْهُ
۵۹-باب: زبان کی حفاظت سے متعلق ایک اور باب​


2411- حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي ثَلْجٍ الْبَغْدَادِيُّ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تُكْثِرُوا الْكَلاَمَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللهِ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلاَمِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللهِ الْقَلْبُ الْقَاسِي".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۱۲۳) (ضعیف)
(سندمیں ابراہیم میں قدرے کلام ہے، یہ حدیث رسول ﷺنہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال میں سے ہے جس کو ابراہیم نے حدیث رسول بنا دیا ہے، دیکھیے الضعیفۃ : ۹۰۸، و ۹۲۰)


2411/م- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ حَاطِبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۱۲۳) (ضعیف)
(سندمیں ابراہیم میں قدرے کلام ہے)
۲۴۱۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنادیتاہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والاہوگا''۔
۲۴۱۱/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابراہیم بن عبداللہ بن حاطب ہی کی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60-بَاب مِنْهُ
۶۰-باب: امر بالمعروف ، نہی عن المنکراور ذکر الٰہی آدمی کے لیے مفیدہے​


2412- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "كُلُّ كَلاَمِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لاَ لَهُ إِلاَّ أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ أَوْ ذِكْرُ اللهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۷) (ضعیف)
(سندمیں ''محمد بن یزید بن خنیس'' لین الحدیث ہیں)
۲۴۱۲- ام المومنین حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اورکا ثواب نہیں ملے گا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔


2413- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: آخَى رَسُولُ اللهِ ﷺ بَيْنَ سَلْمَانَ وَبَيْنَ أَبِي الدَّرْدَائِ، فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَائِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَائِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ: مَا شَأْنُكِ مُتَبَذِّلَةً، قَالَتْ: إِنَّ أَخَاكَ أَبَا الدَّرْدَائِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَائِ قَرَّبَ إِلَيْهِ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَائِ لِيَقُومَ، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: نَمْ فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ لَهُ: نَمْ فَنَامَ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ قَالَ لَهُ سَلْمَانُ: قُمْ الآنَ فَقَامَا فَصَلَّيَا، فَقَالَ: إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَا ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ: "صَدَقَ سَلْمَانُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعُمَيْسِ اسْمُهُ عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ وَهُوَ أَخُو عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ.
* تخريج: خ/الصوم ۵ (۱۹۶۸)، والأدب ۸۶ (۶۱۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۱۵) (صحیح)
۲۴۱۳- ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے سلمان اور ابوالدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیاوجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابوالدرداء گھرآئے تو پہلے انہوں نے سلمان رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج صوم سے ہوں۔ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ ۔ چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ تہجدپڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے ، تو سلمان نے ان سے کہا: سوجاؤ وہ سوگئے۔ پھرتہجدپڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سوجاؤ ،چنانچہ وہ سوگئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر صلاۃ پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا :'' تمہارے جسم کابھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے ، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے ، تمہاری بیوی کا بھی تم پرحق ہے ، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق اداکرو''، اس کے بعد دونوں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیاتو آپ نے فرمایا:'' سلمان نے سچ کہا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں بہت سارے فوائدہیں: ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو، عبادت کا وہی طریقہ اپناناچاہئے جومسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اوراس کی کوتاہیوں سے اسے باخبرکرنا، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا، رات کی عبادت کا اہتمام کرناوغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61-بَاب مِنْهُ
۶۱-باب: دنیاکو ناراض کر کے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کابیان​


2414- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِالْوَهَّابِ بْنِ الْوَرْدِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ، وَلاَ تُكْثِرِي عَلَيَّ، فَكَتَبَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا إِلَى مُعَاوِيَةَ: سَلاَمٌ عَلَيْكَ، أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللهِ وَكَلَهُ اللهُ إِلَى النَّاسِ" وَالسَّلاَمُ عَلَيْكَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۱۵) (صحیح)
(سندمیں ایک راوی ''رجل من أھل المدینۃ'' مبہم ہے،لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحۃ رقم: ۲۳۱۱)


2414/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَتَبَتْ إِلَى مُعَاوِيَةَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۲۰) (صحیح)
(موقوف یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے صحیح ہے)
۲۴۱۴- عبدالوہاب بن ورد سے روایت ہے کہ ان سے مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا: معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک خط لکھا کہ مجھے ایک خط لکھیئے اور اس میں کچھ وصیت کیجئے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا : دعا وسلام کے بعد معلوم ہوکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :'' جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضاکاطالب ہو تو لوگوں سے پہنچنے والی تکلیف کے سلسلے میں اللہ اس کے لیے کافی ہوگا اور جو اللہ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو اسے تکلیف دینے کے لیے مقرر کردے گا''،(والسلام علیک تم پراللہ کی سلامتی نازل ہو) ۱؎ ۔
۲۴۱۴/م- اس سند سے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن یہ مرفوع نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ کی رضامندی ہرچیزپرمقدم ہے، اس لیے اگر کوئی ایساامرپیش ہوجسے انجام دینے سے اللہ کی رضامندی حاصل ہوگی لیکن لوگوں کے غیض وغضب کا سامناکرناپڑے گاتو لوگوں کو نظراندازکرکے اللہ کی رضامندی کا طالب بنے ، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اللہ کی نصرت وتائیدحاصل رہے گی، اور اگربندوں کے غیض وغضب سے خائف ہوکراللہ کی رضاکو بھول بیٹھا توایسا شخص رب العالمین کی نصرت وتائید سے محروم رہے گا، ساتھ ہی اسے انہی بندوں کے ذریعہ ایسی ایذاورتکلیف پہنچائے گاجو اس کے لیے باعث ندامت ہوگی۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

35-كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳۵- کتاب : احوال قیامت ،رقت قلب اورورع


1-بَاب مَا جَاءَ فِي شَأْن الْحِسَابِ وَالْقِصَاصِ
۱-باب: قیامت کے دن حساب اور بدلے کابیان​


2415- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ إِلاَّ سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلاَ يَرَى شَيْئًا إِلاَّ شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلاَ يَرَى شَيْئًا إِلاَّ شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ تِلْقَائَ وَجْهِهِ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ" قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقِيَ وَجْهَهُ حَرَّ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴۹ (۶۵۳۹)، والتوحید ۲۴ (۷۴۴۳)، و۳۶ (۷۵۱۲)، م/الزکاۃ ۲۰ (۱۰۱۶)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۸۵)، والزکاۃ ۲۸ (۱۸۴۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۵۲)، وحم (۴/۲۵۶) (صحیح)
2415/أ- حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ يَوْمًا بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الأَعْمَشِ، فَلَمَّا فَرَغَ وَكِيعٌ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ، فَلْيَحْتَسِبْ فِي إِظْهَارِ هَذَا الْحَدِيثِ بِخُرَاسَانَ لأَنَّ الْجَهْمِيَّةَ يُنْكِرُونَ هَذَا، اسْمُ أَبِي السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمِ بْنِ خَالِدِ بْنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ الْكُوفِيُّ.
* تخريج : تفرد بہ المؤلف (صحیح)
۲۴۱۵- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اوردونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تواسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی ، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تواسے ایسا کرنا چاہیے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۴۱۵/م- ا بوسائب کہتے ہیں: ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کرکے فارغ ہوئے تو کہا: اہل خراسان میں سے جوبھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کرکے اور اسے پھیلاکرثواب حاصل کریں۔
امام ترمذ ی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیوں کہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۲؎ ۔
ابوسائب کانام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے، اورنیک عمل کرتا رہے، کیوں کہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
وضاحت ۲؎ : جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔


2416- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ أَبُو مِحْصَنٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ الرَّحَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ، وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۴۶) (صحیح)
(سندمیں حسین بن قیس ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،دیکھیے: الصحیحۃ رقم: ۹۴۶)
۲۴۱۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آدمی کاپاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا ، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پرکہاں تک عمل کیا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اسے ہم '' عن ابن مسعود عن النبی ﷺ'' کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورحسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں، ۳- اس باب میں ابوبرزہ اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کے مطابق جن چیزوں سے متعلق استفسار ہوگا ان میں سب سے پہلے اس زندگی کے بارے میں سوال ہوگا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزار نا چاہیے، کیوں کہ اس کا حساب دینا ہے، جوانی میں انسان اپنے آپ کو محرمات سے بچائے، اس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں اللہ کی گرفت سے بچنا مشکل ہوگا، اسی طرح مال کے سلسلہ میں اسے کماتے اور خرچ کرتے وقت دونوں صورتوں میں اللہ کاڈر دامن گیر رہے، علم کے مطابق عمل کی بابت سوال ہوگا، اس سے معلوم ہواکہ دین وشریعت کا علم حاصل کرے،کیوں کہ یہی اس کے لیے مفیداورنفع بخش ہے۔


2417- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلاَهُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ جُرَيْجٍ، هُوَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ مَوْلَى أَبِي بَرْزَةَ، وَأَبُو بَرْزَةَ اسْمُهُ نَضْلَةُ بْنُ عُبَيْدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۹۷) (صحیح)
۲۴۱۷- ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیاجائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- سعید بن عبداللہ بن جریج بصری ہیں اور وہ ابوبرزہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، ابوبرزہ کانام نضلہ بن عبید ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي شَأْن الْحِسَابِ وَالْقِصَاصِ
۲-باب: قیامت کے دن حساب اورقصاص کابیان​


2418- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟" قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا يَارَسُولَ اللهِ مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا، فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصَّ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا، أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۱۵ (۲۵۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۷۳)، وحم (۲/۳۰۳، ۳۳۴، ۳۷۲) (صحیح)
۲۴۱۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سوال کیا:'' کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟'' صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم ودینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن صوم وصلاۃ اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گاکہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی پہ تہمت باندھی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون بہایاہوگا، اور کسی کو مارا ہوگا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جس کی ساری نیکیاں آخرت میں چھین لی جائیں، اس سے بدلہ لینے والے باقی رہ جائیں، اور اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں، یہی حقیقی مفلس ہے، باقی وہ دنیاوی مفلس جو مال ودولت کی کمی کی وجہ سے مفلس وبے چارگی کی زندگی گزار تاہے، تو یہ ایسا ہے کہ اس کی زندگی کے سدھر نے کا امکان ہے، اور اگر نہیں بھی سدھر ی تو اس کا یہ معاملہ اس کی موت تک ہے، کیوں کہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی ملنے والی ہے۔


2419- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "رَحِمَ اللهُ عَبْدًا كَانَتْ لأَخِيهِ عِنْدَهُ مَظْلَمَةٌ فِي عِرْضٍ أَوْ مَالٍ، فَجَاءَهُ فَاسْتَحَلَّهُ قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ، وَلَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ، حَمَّلُوا عَلَيْهِ مِنْ سَيِّئَاتِهِمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۵۸) (صحیح) (الصحیحۃ ۳۲۶۵)
۲۴۱۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ ایسے بندے پررحم کرے جس کے پاس اس کے بھائی کا عزت یامال میں کوئی بدلہ ہو، پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آکے دنیا ہی میں اس سے معاف کرالے کیوں کہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہوگا اور نہ ہی درہم، پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیاجائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سرپر ڈال دیئے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث سعید مقبری کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- مالک بن انس نے ''عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔


2420- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَائِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَائِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَعَبْدِاللهِ بْنِ أُنَيْسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۱۵ (۲۵۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۷۴)، وحم (۲/۲۳۵، ۳۰۱، ۳۲۳، ۴۱۱) (صحیح)
۲۴۲۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' (قیامت کے دن) حقداروں کوان کا پورا پورا حق دیا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیاجائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوذر اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔


2421- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا الْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْعِبَادِ حَتَّى تَكُونَ قِيدَ مِيلٍ أَوْ اثْنَيْنِ" قَالَ سُلَيْمٌ: لاَ أَدْرِي أَيَّ الْمِيلَيْنِ عَنَى أَمَسَافَةُ الأَرْضِ أَمِ الْمِيلُ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ، قَالَ: "فَتَصْهَرُهُمْ الشَّمْسُ، فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى عَقِبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حِقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا"، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ أَيْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: م/الجنۃ ۱۵ (۲۸۶۴) (تحفۃ الأشراف:۱۱۵۴۳)، وحم (۶/۳) (صحیح)
۲۴۲۱- مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :'' قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کردیاجائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یادومیل کے فاصلے پر ہوگا''۔ راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کون سی میل مراد لی ہے، زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی)، ''پھر سورج انہیں پگھلادے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، بعض ایڑیوں تک، بعض گھٹنے تک، بعض کمر تک اور بعض کاپسینہ منہ تک لگام کی مانند ہو گا ۱؎ ''، مقداد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سائنسی تحقیق کے مطابق سورج زمین سے نوکروڑ میل کے فاصلے پر ہے، قیامت کے دن جب یہ صرف ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا تو اس کی حرارت کا کیا عالم ہوگا؟ یہ اللہ کے علاوہ کون زیادہ جان سکتاہے ، انسان کا حال پسینے میں یہ ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم فرمائے آمین ۔


2422- حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ حَمَّادٌ: وَهُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوعٌ {يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ} قَالَ: يَقُومُونَ فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ آذَانِهِمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الرقاق ۴۷ (۶۵۳۱)، وتفسیر المطففین (۴۹۳۸)، م/الجنۃ ۱۵ (۲۸۶۲)، ق/الزہد ۳۳ (۴۲۷۸)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المطففین (۳۳۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۷۵۴۲)، وحم (۲/۱۲، ۱۹، ۳۱، ۶۴، ۷۰، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۲۵، ۱۲۶) (صحیح)
2422/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴۳) (صحیح)
۲۴۲۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:{يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ} ۱؎ اور کہا: ''اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کا نوں تک ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۴۲۲/م- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ (المطففین: ۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي شَأْنِ الْحَشْرِ
۳-باب: حشر ونشر کابیان​


2423- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ابْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً كَمَا خُلِقُوا، ثُمَّ قَرَأَ {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ} وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى مِنَ الْخَلاَئِقِ إِبْرَاهِيمُ، وَيُؤْخَذُ مِنْ أَصْحَابِي بِرِجَالٍ ذَاتَ الْيَمِينِ، وَذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ! أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لاَ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ".
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۴۹)، و ۴۸ (۳۴۴۷)، وتفسیر المائدۃ ۱۴ (۴۶۲۵)، ۱۵ (۴۶۲۶)، تفسیر الأنبیاء ۲ (۴۲۸۴۰)، والرقاق ۴۵ (۶۵۲۴-۶۵۲۶)، م/الجنۃ ۱۴ (۲۸۶۰)، ن/الجنائز ۱۱۸ (۲۰۸۳)، و ۱۱۹ (۲۰۸۹)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الأنبیاء (۳۱۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۲۲)، وحم (۱/۲۲۰، ۲۲۳، ۲۲۹، ۲۵۳، ۳۹۸)، ودي/الرقاق ۸۲ (۲۸۴۴) (صحیح)
2423/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ بِهَذَا الإِسْنَادِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۴۲۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہوگا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اورختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی:{كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ} ۱؎ انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایاجائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا :میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں، تو کہاجائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں نکالیں، اور جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہو یہ لوگ ہمیشہ دین سے پھرتے رہے ہیں ۲؎ ، تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو( اللہ کے) نیک بندے عیسیٰ علیہ السلام نے کہی تھی:{ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} ۳؎ ۔
۲۴۲۳/م- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔ (الانبیاء: ۱۰۴)
وضاحت ۲؎ : ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے، اور انہیں آگ میں ڈالا گیاتھا، اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا، اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگر چہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہاہو، کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے، بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔
وضاحت ۳؎ : اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔ (المائدہ: ۱۱۸)


2424- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالاً وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۹۱) (صحیح)
۲۴۲۴- معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:'' تم لوگ میدان حشر میں پیدل اور سوار لائے جاؤ گے اور اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جاؤ گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب کے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَرْضِ
۴-باب: قیامت کے دن کی پیشی کابیان​


2425- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلاَثَ عَرْضَاتٍ، فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ، وَأَمَّا الْعَرْضَةُ الثَّالِثَةُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الأَيْدِي، فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي مُوسَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۰) (ضعیف)
(حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے)
۲۴۲۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دوبار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے، اور تیسری بار ان لوگوں کے اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں اڑرہے ہوں گے، تو کوئی اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے ہوگا اورکوئی بائیں ہاتھ میں ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ حسن کاسماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں ہے، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو ''عن علي الرفاعي،عن الحسن، عن أبي موسى عن النبي ﷺ'' کی سند سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ حسن کاسماع ابوموسیٰ اشعری سے بھی ثابت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مِنْهُ
۵-باب: قیامت کے دن پیشی اور حساب سے متعلق ایک اور باب​


2426- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ: {فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا} قَالَ: "ذَلِكَ الْعَرْضُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ أَيْضًا عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.
* تخريج: خ/العلم ۳۶ (۱۰۳)، وتفسیر سورۃ الانشقاق (۴۹۳۹)، والرقاق ۴۹ (۶۵۳۶)، م/الجنۃ ۱۸ (۲۸۷۶)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الانشقاق (۳۳۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۵۴)، وحم (۶/۴۸) (صحیح)
۲۴۲۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس سے حساب وکتاب میں سختی سے پوچھ تاچھ ہوگئی وہ ہلاک ہوجائے گا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ فرماتاہے :'' جس شخص کو نامہ ٔ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا تو اس سے آسان حساب لیاجائے گا (الانشقاق: ۷)۔ آپ نے فرمایا:'' اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے، ۲-ـ ایوب نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے ۔
 
Top