19-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ
۱۹-باب: عبادت پرعلم وفقہ کی فضیلت کابیان
2681- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ جَنَاحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَقِيهٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۶۳۹۵) (موضوع)
(سندمیں روح بن جناح بہت ہی ضعیف ہے، بلکہ وضع سے متہم ہے)
۲۶۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک فقیہ (عالم ) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پرحاوی اوربھاری ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔
2682- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَائِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِي؟! فَقَالَ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: مَا جِئْتُ إِلاَّ فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَائً لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَائِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، إِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَائِ، إِنَّ الأَنْبِيَائَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ خِدَاشٍ وَرَأْيُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ هَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: د/العلم ۱ (۳۶۴۱)، ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۵۸)، ودي/المقدمۃ ۳۲ (۳۵۴) (صحیح)
( سندمیں کثیر بن قیس ،یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم ۵۱۹)
۲۶۸۲- قیس بن کثیر کہتے ہیں : ایک شخص مدینہ سے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کرآئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابوالدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں،انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تونہیں آئے ہو؟ اس نے کہا:نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب وتلاش میں آیاہوں، ابوالدرداء نے کہا: (اچھاتوسنو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جوشخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان وزمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پرایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے ) پورا پورا حصہ لیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ۲- یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند داود بن جمیل عن کثیر بن قیس عن ابی الدرداء عن النبی ﷺ روایت کی ہے ۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ علماء ومحدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو،علم دین حاصل کرنے والے کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجاتاہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔
2683- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلَمَةَ الْجُعْفِيِّ، قَالَ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَخَافُ أَنْ يُنْسِيَنِي أَوَّلَهُ آخِرُهُ، فَحَدِّثْنِي بِكَلِمَةٍ تَكُونُ جِمَاعًا، قَالَ: اتَّقِ اللهَ فِيمَا تَعْلَمُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَهُوَ عِنْدِي مُرْسَلٌ، وَلَمْ يُدْرِكْ عِنْدِي ابْنُ أَشْوَعَ يَزِيدَ بْنَ سَلَمَةَ وَابْنُ أَشْوَعَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۰) (ضعیف)
(سعید بن اشوع کا سماع یزید بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے)
۲۶۸۳- یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! میں نے بہت سی حدیثیں آپ سے سنی ہیں، میں ڈرتاہوں کہ کہیں بعد کی حدیثیں شروع کی حدیثوں کو بھلا نہ دیں، آپ مجھے کوئی ایسا کلمہ (کوئی ایسی بات) بتادیجئے جودونوں (اول وآخر) کو ایک ساتھ باقی رکھنے کا ذریعہ بنے۔ آپ نے فرمایا:'' جو کچھ بھی تم جانتے ہوان کے متعلق اللہ کا خوف وتقویٰ ملحوظ رکھو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ایسی ہے جس کی سندمتصل نہیں ہے، یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے۔ ۲-میرے نزدیک ابن اُشوع نے یزید بن سلمی (کے دور) کو نہیں پایا ہے، ۳- ابن اُشوع کانام سعید بن اشوع ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جن چیزوں سے تمہیں روکا گیا ہے ان سے باز رہو، اور جن چیزوں پر عمل کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل جاری رکھو، ایسا کرنا تمہارے لیے حدیثوں کے حفظ کے تعلق سے بہتر ہوگا۔
2684- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ أَيُّوبَ الْعَامِرِيُّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَصْلَتَانِ لاَ تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ حُسْنُ سَمْتٍ وَلاَ فِقْهٌ فِي الدِّينِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ خَلَفِ بْنِ أَيُّوبَ الْعَامِرِيِّ، وَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَرْوِي عَنْهُ غَيْرَ أَبِي كُرَيْبٍ مُحَمَّدِ ابْنِ الْعَلاَئِ وَلاَ أَدْرِي كَيْفَ هُوَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۸۷) (صحیح)
(دیکھئے: الصحیحۃ ۲۷۸،و تراجع الألبانی ۴۶۸)
۲۶۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' منافق میں د وخصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہوسکتی ہیں: حسن اخلاق اور دین کی سمجھ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ۲- ہم عوف کی اس حدیث کو صرف شیخ خلف بن ایوب عامری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ابوکریب محمد بن علاء کے سوا کسی کوہم نہیں جانتے جس نے خلف بن ایوب عامری سے روایت کی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے شخص ہیں۔
2685- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَائٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ابْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ رَجُلاَنِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ، يَقُولُ عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۷) (صحیح)
۲۶۸۵- ابوامامہ باہلی کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے سامنے دوآدمیوں کا ذکر کیاگیا ،ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے''، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اوزمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتاہے خیر وبرکت کی دعائیں کرتی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- فضیل بن عیاض کہتے ہیں ملکوت السماوات ( عالم بالا) میں عمل کرنے والے عالم اور معلم کو بہت بڑی اہمیت وشخصیت کامالک سمجھا اور پکاراجاتاہے۔
2686- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَنْ يَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَيْرٍ يَسْمَعُهُ حَتَّى يَكُونَ مُنْتَهَاهُ الْجَنَّةُ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۶) (ضعیف)
۲۶۸۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' مومن بھلائی سے ہر گز آسودہ نہیں ہوتایہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام جنت میں پہنچ جاتاہے '' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
2687- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَدَنِيُّ الْمَخْزُومِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۵ (۴۱۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۰) (ضعیف جدا)
(سندمیں ابرہیم بن الفضل المخزومی متروک راوی ہے)
۲۶۸۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کرلینے کا زیادہ حق رکھتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے میں حفط کے تعلق سے کمزور مانے جاتے ہیں۔
* * *