• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي عَالِمِ الْمَدِينَةِ
۱۸-باب: عالم مدینہ کی فضیلت کابیان​


2680- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ وَإِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رِوَايَةً يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلاَ يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذَا سُئِلَ مَنْ عَالِمُ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: إِنَّهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
وَ قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى: سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: هُوَ الْعُمَرِيُّ الزَّاهِدُ، وَاسْمُهُ عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِاللهِ، و سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مُوسَى يَقُولُ: قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ هُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالْعُمَرِيُّ هُوَ عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۷۷)، وحم (۲/۲۹۹) (ضعیف)
(سندمیں ابن جریج اور ابوالزبیر مدلس ہیں، اورروایت عنعنہ سے ہے، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کا ایک شاہد مروی ہے، مگر اس میں زہر بن محمد کثیر الغلط، اور سعید بن ابی ہند مدلس ہیں)
۲۶۸۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے :'' عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے ، لیکن( کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے،۲- سفیان بن بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے؟ توانہوں نے کہا: مالک بن انس ہیں، ۳- اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں: میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ (یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں،۴- میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ (عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں، ۵- عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں ، اور یہ عمربن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ
۱۹-باب: عبادت پرعلم وفقہ کی فضیلت کابیان​


2681- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ جَنَاحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَقِيهٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۶۳۹۵) (موضوع)
(سندمیں روح بن جناح بہت ہی ضعیف ہے، بلکہ وضع سے متہم ہے)
۲۶۸۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک فقیہ (عالم ) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پرحاوی اوربھاری ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔


2682- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِينَةِ عَلَى أَبِي الدَّرْدَائِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِي؟! فَقَالَ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: مَا جِئْتُ إِلاَّ فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضَائً لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَائِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، إِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَائِ، إِنَّ الأَنْبِيَائَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ خِدَاشٍ وَرَأْيُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ هَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: د/العلم ۱ (۳۶۴۱)، ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۵۸)، ودي/المقدمۃ ۳۲ (۳۵۴) (صحیح)
( سندمیں کثیر بن قیس ،یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم ۵۱۹)
۲۶۸۲- قیس بن کثیر کہتے ہیں : ایک شخص مدینہ سے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کرآئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابوالدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں،انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تونہیں آئے ہو؟ اس نے کہا:نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب وتلاش میں آیاہوں، ابوالدرداء نے کہا: (اچھاتوسنو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جوشخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان وزمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پرایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے ) پورا پورا حصہ لیا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ۲- یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند داود بن جمیل عن کثیر بن قیس عن ابی الدرداء عن النبی ﷺ روایت کی ہے ۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ علماء ومحدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو،علم دین حاصل کرنے والے کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجاتاہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔


2683- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلَمَةَ الْجُعْفِيِّ، قَالَ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَخَافُ أَنْ يُنْسِيَنِي أَوَّلَهُ آخِرُهُ، فَحَدِّثْنِي بِكَلِمَةٍ تَكُونُ جِمَاعًا، قَالَ: اتَّقِ اللهَ فِيمَا تَعْلَمُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَهُوَ عِنْدِي مُرْسَلٌ، وَلَمْ يُدْرِكْ عِنْدِي ابْنُ أَشْوَعَ يَزِيدَ بْنَ سَلَمَةَ وَابْنُ أَشْوَعَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۰) (ضعیف)
(سعید بن اشوع کا سماع یزید بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے)
۲۶۸۳- یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! میں نے بہت سی حدیثیں آپ سے سنی ہیں، میں ڈرتاہوں کہ کہیں بعد کی حدیثیں شروع کی حدیثوں کو بھلا نہ دیں، آپ مجھے کوئی ایسا کلمہ (کوئی ایسی بات) بتادیجئے جودونوں (اول وآخر) کو ایک ساتھ باقی رکھنے کا ذریعہ بنے۔ آپ نے فرمایا:'' جو کچھ بھی تم جانتے ہوان کے متعلق اللہ کا خوف وتقویٰ ملحوظ رکھو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ایسی ہے جس کی سندمتصل نہیں ہے، یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے۔ ۲-میرے نزدیک ابن اُشوع نے یزید بن سلمی (کے دور) کو نہیں پایا ہے، ۳- ابن اُشوع کانام سعید بن اشوع ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جن چیزوں سے تمہیں روکا گیا ہے ان سے باز رہو، اور جن چیزوں پر عمل کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل جاری رکھو، ایسا کرنا تمہارے لیے حدیثوں کے حفظ کے تعلق سے بہتر ہوگا۔


2684- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ أَيُّوبَ الْعَامِرِيُّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَصْلَتَانِ لاَ تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ حُسْنُ سَمْتٍ وَلاَ فِقْهٌ فِي الدِّينِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ خَلَفِ بْنِ أَيُّوبَ الْعَامِرِيِّ، وَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَرْوِي عَنْهُ غَيْرَ أَبِي كُرَيْبٍ مُحَمَّدِ ابْنِ الْعَلاَئِ وَلاَ أَدْرِي كَيْفَ هُوَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۸۷) (صحیح)
(دیکھئے: الصحیحۃ ۲۷۸،و تراجع الألبانی ۴۶۸)
۲۶۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' منافق میں د وخصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہوسکتی ہیں: حسن اخلاق اور دین کی سمجھ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ۲- ہم عوف کی اس حدیث کو صرف شیخ خلف بن ایوب عامری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ابوکریب محمد بن علاء کے سوا کسی کوہم نہیں جانتے جس نے خلف بن ایوب عامری سے روایت کی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے شخص ہیں۔


2685- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَائٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ابْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ رَجُلاَنِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ، يَقُولُ عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۷) (صحیح)
۲۶۸۵- ابوامامہ باہلی کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے سامنے دوآدمیوں کا ذکر کیاگیا ،ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے''، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اوزمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتاہے خیر وبرکت کی دعائیں کرتی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- فضیل بن عیاض کہتے ہیں ملکوت السماوات ( عالم بالا) میں عمل کرنے والے عالم اور معلم کو بہت بڑی اہمیت وشخصیت کامالک سمجھا اور پکاراجاتاہے۔


2686- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَنْ يَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَيْرٍ يَسْمَعُهُ حَتَّى يَكُونَ مُنْتَهَاهُ الْجَنَّةُ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۶) (ضعیف)
۲۶۸۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' مومن بھلائی سے ہر گز آسودہ نہیں ہوتایہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام جنت میں پہنچ جاتاہے '' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


2687- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَدَنِيُّ الْمَخْزُومِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۵ (۴۱۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۴۰) (ضعیف جدا)
(سندمیں ابرہیم بن الفضل المخزومی متروک راوی ہے)
۲۶۸۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کرلینے کا زیادہ حق رکھتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے میں حفط کے تعلق سے کمزور مانے جاتے ہیں۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

40-كِتَاب الاسْتِئْذَانِ وَالآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۰- کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب واحکام


1-بَاب مَا جَاءَ فِي إِفْشَائِ السَّلاَمِ
۱-باب: سلام کو عام کرنے کابیان​


2688- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا أَنْتُمْ فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ سَلاَمٍ، وَشُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ عَنْ أَبِيهِ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَالْبَرَائِ وَأنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۲۲ (۵۴)، د/الأدب ۱۴۲ (۵۱۹۳)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۸)، والأدب ۱۱ (۳۶۹۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۱۳)، وحم (۲/۳۹۱)، ۴۴۲، ۴۷۷، ۴۹۵، ۵۱۲) (صحیح)
۲۶۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم (صحیح معنوں میں) مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے (سچی) محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو توتم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے (وہ یہ کہ ) آپس میں سلام کوعام کرو(پھیلاؤ) '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن سلام، شریح بن ہانی عن أبیہ، عبداللہ بن عمرو، براء، انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ جنت میں داخل ہونے کے لیے بنیادی چیز ایمان ہے، اور ایمان کی تکمیل کے لیے آپسی محبت اور بھائی چارہ کا ہونا ضروری ہے، اور انہیں اگر باقی رکھنا ہے تو سلام کو عام کرو اور اسے خوب پھیلاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ السَّلاَمِ
۲-باب: سلام کی فضیلت کابیان​


2689- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَرِيرِيُّ الْبَلْخِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي رَجَائٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ؛ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "عَشْرٌ"، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "عِشْرُوْنَ"، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "ثَلاَثُونَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ.
* تخريج: د/الأدب ۱۴۳ (۵۱۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۳۰) (صحیح)
۲۶۸۹- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا:'' السلام علیکم '' نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' (اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں، پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: '' السلام علیکم ورحمۃ اللہ '' نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ( اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: '' السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' (اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوسعید اور سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ فرمان الٰہی: {وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو ، یا انہی الفاظ کو لوٹا دو (النساء: ۸۶) کے مطابق سلام کا جواب سلام کرنے والے سے اچھا دو اور اگر ایسا نہ کرسکو تو انہی الفاظ کو لوٹا دو، یا در ہے یہ حکم مسلمانوں کے لیے، یعنی خیر و برکت کی کثرت کی دعا کسی مسلمان کے حق میں ہی ہونی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الاِسْتِئْذَانَ ثَلاَثٌ
۳-باب: کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت حاصل کرنے کابیان​


2690- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ؟ قَالَ عُمَرُ: وَاحِدَةٌ، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ قَالَ عُمَرُ: ثِنْتَانِ، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، فَقَالَ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَقَالَ عُمَرُ: ثَلاَثٌ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ عُمَرُ لِلْبَوَّابِ: مَا صَنَعَ؟ قَالَ: رَجَعَ، قَالَ عَلَيَّ بِهِ، فَلَمَّا جَاءَهُ، قَالَ: مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتَ؟ قَالَ: السُّنَّةُ، قَالَ: آلسُّنَّةُ! وَاللَّهِ لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبُرْهَانٍ أَوْ بِبَيِّنَةٍ أَوْ لأَفْعَلَنَّ بِكَ، قَالَ: فَأَتَانَا، وَنَحْنُ رُفْقَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ! أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الاِسْتِئْذَانُ ثَلاَثٌ، فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلاَّ فَارْجِعْ"، فَجَعَلَ الْقَوْمُ يُمَازِحُونَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: فَمَا أَصَابَكَ فِي هَذَا مِنَ الْعُقُوبَةِ فَأَنَا شَرِيكُكَ، قَالَ: فَأَتَى عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا كُنْتُ عَلِمْتُ بِهَذَا. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ طَارِقٍ مَوْلاَةِ سَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْجُرَيْرِيُّ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ، يُكْنَى أَبَامَسْعُودٍ، وَقَدْ رَوَى هَذَا غَيْرُهُ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ وَأَبُو نَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ.
* تخريج: م/الآداب ۷ (۲۱۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۳۰) (صحیح)
۲۶۹۰- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی توانہوں نے کہا: ''السلام علیکم'' کیا میں اندر آسکتاہوں؟ عمر نے (دل میں )کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: '' السلام علیکم '' کیا میں اندر آسکتاہوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے (دل میں ) کہا: ابھی تو دوہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھرکہا: '' السلام علیکم '' کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کرچکے، پھرابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ واپس ہولیے، عمر رضی اللہ عنہ نے دربان سے کہا : ابوموسیٰ نے کیاکیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہاانہیں بلاکر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیاکیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پرعمل کیاہے ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سنت پر؟قسم اللہ کی!تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل وثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ابوسعیدخدریکہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے ،اس وقت ہم انصارکی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصارکی جماعت! کیاتم رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو،کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا: '' الاستئذان ثلاث'' (اجازت طلبی) تین بار ہے۔اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ ( یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابوسعیدخدری کہتے ہیں: میں نے اپناسرابوموسی اشعری کی طرف اونچا کرکے کہا : اس سلسلے میں جوبھی سزا آپ کوملے گی میں اس میں حصہ دارہوں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبردی ، عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کانام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابو مسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کانام منذر بن مالک بن قطعہ ہے، ۲- اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہوسکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیے۔


2691- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ ثَلاَثًا فَأَذِنَ لِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ. وَإِنَّمَا أَنْكَرَ عُمَرُ عِنْدَنَا عَلَى أَبِي مُوسَى حَيْثُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "الاِسْتِئْذَانُ ثَلاَثٌ، فَإِذَا أُذِنَ لَكَ وَإِلاَّ فَارْجِعْ"، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ: ثَلاَثًا فَأَذِنَ لَهُ، وَلَمْ يَكُنْ عَلِمَ هَذَا الَّذِي، رَوَاهُ أَبُو مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلاَّ فَارْجِعْ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۹) (ضعیف الإسناد منکر المتن)
(اس کے راوی ''عکرمہ بن عمار'' روایت میں غلطی کرجاتے تھے، اور فی الحقیقت یہ روایت پچھلی صحیح روایت کے برخلاف ہے)
۲۶۹۱- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ کے پاس آنے کی تین بار اجازت مانگی ، توآپ نے مجھے اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ابو زمیل کانام سماک الحنفی ہے، ۳- میرے نزدیک عمر کو ابوموسیٰ کی اس بات پر اعتراض اور انکاراس وجہ سے تھا کہ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:''اجازت تین بار طلب کی جائے، اگراجازت مل جائے تو ٹھیک ور نہ لوٹ جائو۔(رہ گیا عمر کا اپنا معاملہ) تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے تین بار اجازت طلب کی تھی تو انہیں اجازت مل گئی تھی،اس حدیث کی خبر انہیں نہیں تھی جسے ابوموسیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:'' پھر اگر اندر جانے کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ رَدُّ السَّلاَمِ
۴-باب: سلام کا جواب کس طرح دیاجائے؟​


2692- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللهِ ﷺ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ" فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، فَقَالَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: وَعَلَيْكَ، قَالَ: وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَصَحُّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۰۳ (صحیح)
۲۶۹۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص مسجد میں آیا (اس وقت ) رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرماتھے۔ اس نے صلاۃ پڑھی پھر آکرآپ کوسلام عرض کیا، رسول اللہ ﷺ نے کہا ''وعليك'' (تم پر بھی سلام ہو)۔ جاؤ دوبارہ صلاۃ پڑھو کیوں کہ تم نے صلاۃنہیں پڑھی ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث عبیدا للہ بن عمر سے اور عبید اللہ بن عمر نے سعید مقبری سے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے ''عن أبيه، عن أبي هريرة'' کہا ہے ، اس میں ''فسلم عليه وقال: وعليك'' (اس نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے کہا تم پربھی سلام ہو) کا ذکر نہیں کیا، ۳-یحییٰ بن سعید کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي تَبْلِيغِ السَّلاَمِ
۵-باب: سلام بھیجنے اور اسے پہنچانے کابیان​


2693- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ؛ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ لَهَا: " إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلاَمَ " قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، وَفِي الْبَاب عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي نُمَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۲۲۱۷)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۶۸)، والأدب ۱۱۱ (۶۲۰۱)، والاستئذان ۱۶ (۶۲۴۹)، و۱۹ (۶۲۵۳)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۷)، د/الأدب ۱۶۶ (۵۲۳۲)، ن/عشرۃ النساء ۳ (۹۳۶۳)، ق/الأدب ۱۲ (۳۶۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۲۷)، وحم (۶/۱۴۶، ۱۵۰، ۲۰۸، ۲۲۴)، ودي/الاستئذان ۱۰ (۲۶۹۰) (صحیح)
۲۶۹۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:'' جبرئیل تمہیں سلام کہتے ہیں، توانہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پربھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، ۳- زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طورپر دینا چاہیے۔اوراسی طرح دیناچاہئے جیسے اُوپرذکرہواہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ
۶-باب: سلام میں پہل کرنے والے کی فضیلت کابیان​


2694- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الأَسَدِيُّ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! الرَّجُلاَنِ يَلْتَقِيَانِ أَيُّهُمَا يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ؟ فَقَالَ: "أَوْلاَهُمَا بِاللهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: أَبُو فَرْوَةَ الرَّهَاوِيُّ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ إِلاَّ أَنَّ ابْنَهُ مُحَمَّدَ بْنَ يَزِيدَ يَرْوِي عَنْهُ مَنَاكِيرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۹) (صحیح)
۲۶۹۴- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پوچھاگیا : اللہ کے رسول ! جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ آپ نے فرمایا:'' ان دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے'' ۱ ؎ ۔ (وہ پہل کرے گا)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : ابوفروہ رہاوی مقارب الحدیث ہیں، مگر ان کے بیٹے محمد بن یزید ان سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ سے جس کا زیادہ لگاؤ اورتعلق ہوگا اس میں تو اضع اورخاکساری بھی زیادہ پائی جائے گی، اس لیے وہ سلام کرنے میں بھی پہل کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ إِشَارَةِ الْيَدِ بِالسَّلاَمِ
۷-باب: ہاتھ کے اشارہ سے سلام کرنا مکروہ ہے​


2695- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لاَ تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ وَلاَ بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الإِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الإِشَارَةُ بِالأَكُفِّ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ، وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ فَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۴) (حسن)
(متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ''ابن لہیعہ'' ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن مبارک کی ان سے جو روایت ہے وہ موقوف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے الصحیحۃ رقم: ۲۱۹۴)
۲۶۹۵- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں (یعنی مسلموں) سے مشابہت اختیار کرے، نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی، یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے،۲- ابن مبارک نے یہ حدیث ابن لھیعہ سے روایت کی ہے، اور اسے انہوں نے مرفوع نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہود ونصاری اور کفار کی کسی بھی فعل میں مشابہت نہ کرو، خصوصا سلام کی ان دوخصلتوں میں ممکن ہے یہ لوگ ''السلام علیکم'' اور '' وعلیکم السلام'' کہنے کے بجائے صرف اشارہ پر اکتفا کرتے رہے ہوں، زبان سے سلام ادا کرنا انبیاء کی سنت ہے، اس لیے اس سنت کو اپناتے ہوئے عذر کی جگہوں میں اشارہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ،جیسے کسی بہرے کو سلام کرنا وغیرہ، اسی طرح بعض مخصوص حالات میں صرف اشارہ پر اکتفا کرنا بھی صحیح ہے، جیسے گونگے کا سلام کرنا اور حالت صلاۃ میں اشارہ سے جواب دینا وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى الصِّبْيَانِ
۸-باب: بچوں کو سلام کرنا​


2696- حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَيَّارٍ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ ثَابِتٌ: كُنْتُ مَعَ أَنَسٍ، فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ أَنَسٌ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَمَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ثَابِتٍ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۵ (۶۲۴۷)، م/السلام ۵ (۲۱۶۸)، د/الأدب ۱۴۷ (۵۲۰۲)، ق/الأدب ۱۴ (۲۷۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۸)، ودي/الاستئذان ۸ (۲۶۷۸) (صحیح)
2696/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۶۷) (صحیح)
۲۶۹۶- سیار کہتے ہیں : میں ثابت بنانی کے ساتھ جارہاتھا ، وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا، ثابت نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ (جارہا) تھا وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا، پھرانس نے ( اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے،۲- اسے کئی لوگوں نے ثابت سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس سے بھی روایت کی گئی ہے۔
۲۶۹۶/م- اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : بچوں سے سلام کرنے میں کئی فائدے ہیں: (۱) سلام کرنے والے میں تواضع کا اظہار ہوتاہے، (۲) بچوں کو اسلامی آداب سے آگاہی ہوتی ہے، (۳) سلام سے ان کی دلجوئی بھی ہوتی ہے، (۴) ان کے سامنے سلام کی اہمیت واضح ہوتی ہے، (۵) وہ اس سے باخبر ہوتے ہیں کہ یہ سنت رسول ہے جس پر عمل کرنا بہت اہم ہے۔
 
Top