• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ رَمَى أَخَاهُ بِكُفْرٍ
۱۶-باب: اپنے مسلمان بھائی کو کافر ٹھہرا نے والا کیسا ہے؟​


2636- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى الْعَبْدِ نَذْرٌ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَ لاَعِنُ الْمُؤْمِنِ كَقَاتِلِهِ، وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَاتِلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْئٍ عَذَّبَهُ اللهُ بِمَا قَتَلَ بِهِ نَفْسَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۸۳ (۱۳۶۳)، والأدب ۴۴ (۶۰۴۷)، و۷۳ (۶۱۰۵)، والأیمان والنذور ۷ (۶۶۵۲)، م/الأیمان ۴۷ (۱۱۰)، د/الأیمان ۹ (۳۲۵۷)، ن/الأیمان ۷ (۳۸۰۱، ۳۸۰۲)، و۳۱ (۳۸۴۴) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۲)، وحم (۴/۳۳، ۳۴) (وانظر ماتقدم عند المؤلف برقم ۱۵۲۷) (صحیح)
۲۶۳۶- ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' بندہ جس چیز کا مالک نہ ہو اس چیز کی نذر مان لے تو اس نذرکاپورا کرنا واجب نہیں ۱؎ ، مومن پر لعنت بھیجنے والا گناہ میں اس کے قاتل کی مانند ہے اور جوشخص کسی مومن کو کافر ٹھہرا ئے تووہ ویساہی براہے جیسے اس مومن کا قاتل، اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر ڈالا، تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوذر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مثلا کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ میرے مریض کو شفاء دے دے تو فلاں غلام آزاد ہے، حالاں کہ اس غلام کا وہ مالک نہیں ہے، معلوم ہواکہ جو چیز بندہ کے بس میں نہیں ہے اس کی نذر ماننا صحیح نہیں اور ایسی نذرکا کچھ بھی اعتبار نہیں ہوگا۔


2637- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لأَخِيهِ كَافِرٌ فَقَدْ بَائَ بِهِ أَحَدُهُمَا".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ بَائَ: يَعْنِي أَقَرَّ.
* تخريج: خ/الأدب ۷۳ (۶۱۰۴)، م/الإیمان ۲۶ (۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳۳)، وط/الکلام ۱ (۱)، وحم (۲/۱۸، ۴۴، ۶۰) (صحیح)
۲۶۳۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اگرکسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک نے (گویاکہ) اپنے کافر ہونے کا اقرار کرلیا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- '' باء '' ''أقر'' کے معنی میں ہے، یعنی اقرار کیا۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ کسی مومن کو کافر ،کا فر ہی کہہ سکتاہے، ایک مومن دوسرے مومن کوکافر نہیں کہہ سکتا، اگر کہتا ہے تو جس کو کہا ہے وہ حقیقت میں اگر کافر کہلانے کا مستحق ہے تو وہ کافر ہے، ورنہ کہنے والا اس کے سزا میں کفر کے وبال میں مبتلاہوگا۔ اس لیے کوئی بات سوچ سمجھ کر اور زبان کو قابو میں رکھ کر ہی کہنی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ
۱۷-باب: موت کے وقت لا إلہ إلا اللہ کی گواہی دینے کی فضیلت کابیان​


2638- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: مَهْلاً، لِمَ تَبْكِي؟ فَوَاللَّهِ لَئِنْ اسْتُشْهِدْتُ لأَشْهَدَنَّ لَكَ، وَلَئِنْ شُفِّعْتُ لأَشْفَعَنَّ لَكَ، وَلَئِنْ اسْتَطَعْتُ لأَنْفَعَنَّكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاللهِ! مَا مِنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ لَكُمْ فِيهِ خَيْرٌ إِلاَّ حَدَّثْتُكُمُوهُ إِلاَّ حَدِيثًا وَاحِدًا، وَسَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوهُ الْيَوْمَ وَقَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ النَّارَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَطَلْحَةَ وَجَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ: كَانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَالصُّنَابِحِيُّ هُوَ عَبْدُالرَّحْمَنِ ابْنُ عُسَيْلَةَ أَبُو عَبْدِاللهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: "مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ دَخَلَ، الْجَنَّةَ". فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ قَبْلَ نُزُولِ الْفَرَائِضِ وَالأَمْرِ وَالنَّهْيِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ أَهْلَ التَّوْحِيدِ سَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، وَإِنْ عُذِّبُوا بِالنَّارِ بِذُنُوبِهِمْ فَإِنَّهُمْ لاَ يُخَلَّدُونَ فِي النَّارِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "سَيَخْرُجُ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ وَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ"، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الآيَةِ {رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ} قَالُوا: إِذَا أُخْرِجَ أَهْلُ التَّوْحِيدِ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُوا الْجَنَّةَ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ.
* تخريج: م/الإیمان ۱۰ (۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۹) (صحیح)
۲۶۳۸- صنابحی سے روایت ہے کہ میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گیا جب وہ موت کی حالت میں تھے ، میں (انہیں دیکھ کر) روپڑا، انہوں نے کہا: ٹھہرو ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ قسم اللہ کی ! اگر مجھ سے گواہی طلب کی گئی تو میں(آخرت میں )تمہارے ایمان کی گواہی دوں گا، اور اگرمجھے شفاعت کا موقع دیاگیا تو میں تمہاری سفارش ضرور کروں گا اوراگر مجھے کچھ استطاعت نصیب ہوئی تو میں تمہیں ضرورفائدہ پہنچاؤں گا۔ پھرانہوں نے کہا:قسم اللہ کی! کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو اور اس میں تم لوگوں کے لیے خیر ہومگر میں نے اسے تم لوگوں سے بیان نہ کردیا ہو، سوائے ایک حدیث کے اورآج میں اسے بھی تم لوگوں سے بیان کیے دے رہاہوں جب کہ میری موت قریب آچکی ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے:'' جوگواہی دے کہ کوئی معبود (برحق) نہیں سوائے اللہ کے اور گواہی دے کہ محمد( ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ اس پر آگ کوحرام کردے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- میں نے ابن ابی عمر کوکہتے ہوئے سنا کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ آدمی ہیں اور حدیث میں مامون (قابل اعتماد) ہیں، ۳- صنابحی سے مراد عبدالرحمن بن عسیلہ ابوعبداللہ ہیں (ابوعبداللہ کنیت ہے) ،۴- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی ، طلحہ، جابر ، ابن عمر، اور زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- زہری سے مروی ہے کہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے فرمان: ''مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ دَخَلَ، الْجَنَّةَ'' (جس نے لا إلہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا) کے متعلق پوچھاگیا (کہ اس کا مطلب کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: یہ شروع اسلام کی بات ہے جب کہ فرائض اور امرو نہی کے احکام نہیں آئے تھے، ۶- بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ اہل توحید (ہرحال میں) جنت میں جائیں گے اگرچہ انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ کی سزاسے بھی کیوں نہ دوچار ہوناپڑے، کیوں کہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۱؎ ، ۷- عبداللہ بن مسعود، ابوذر، عمران بن حصین ، جابر بن عبداللہ ، ابن عباس، ابوسعید خدری، انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ بنی اکرم ﷺنے فرمایا:'' عنقریب ایساہوگا کہ توحید کے قائلین کی ایک جماعت جہنم سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہوگی ۲؎ ، ایسا ہی سعید بن جبیر ابراہیم نخعی اور دوسرے بہت سے تابعین سے مروی ہے، یہ لوگ آیت{ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ } ۳؎ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ جب اہل توحید جہنم سے نکالے اورجنت میں داخل کئے جائیں گے تو کافر لوگ آرزوکریں گے اے کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر لا محالہ جنت میں جائیں گے اور ان کی آخری آرام گاہ جنت ہی ہوگی۔
وضاحت ۲؎ : غالبا یہی وہ موحد لوگ ہوں گے جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کی سزائیں کاٹ کرجنت میں جائیں گے۔
وضاحت ۳؎ : وہ بھی وقت ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے۔ (الحجر: ۲)


2639- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَعَافِرِيِّ، ثُمَّ الْحُبُلِيِّ قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُئُوسِ الْخَلاَئِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلاَّ كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ؟ فَيَقُولُ: لاَ يَارَبِّ! فَيَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ؟ فَيَقُولُ: لاَيَارَبِّ! فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، فَإِنَّهُ لاَ ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَيَقُولُ: يَارَبِّ! مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلاَّتِ؟ فَقَالَ: إِنَّكَ لاَ تُظْلَمُ قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلاَّتُ فِي كَفَّةٍ، وَالْبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ. فَطَاشَتْ السِّجِلاَّتُ وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ، فَلاَ يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَيْئٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۵ (۳۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۵۵) (صحیح)
2639/م- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ يَحْيَى بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۳۹- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے (اس کے گناہوں کے) ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے، ہردفتر حد نگاہ تک ہوگا ، پھر اللہ عزوجل پوچھے گا: کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیاتم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا:نہیں اے میرے رب ! پھر اللہ کہے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اللہ کہے گا(کوئی بات نہیں) تیر ی ایک نیکی میرے پاس ہے۔ آج کے دن تجھ پرکوئی ظلم (وزیادتی) نہ ہوگی، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر '' أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ'' ۱؎ لکھا ہوگا ۔ اللہ فرمائے گا: جاؤ اپنے اعمال کے وزن کے موقع پر ( کانٹے پر) موجود رہو، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہوگی۔آپ (ﷺ) نے فرمایا :پھر وہ تمام دفتر(رجسٹر )ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں ، پھر وہ سارے دفتراٹھ جائیں گے، اور پرچہ بھاری ہوگا۔( اور سچی بات یہ ہے کہ ) اللہ کے نام کے ساتھ (یعنی اس کے مقابلہ میں) جب کوئی چیز تولی جائے گی ، تو وہ چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہوسکتی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
۲۶۳۹/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : میں گواہی دیتاہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
18-مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ
۱۸-باب: امت محمدیہ کی فرقہ بندی کابیان​


2640- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "تَفَرَّقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ أَوْ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً". وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۷ (۳۹۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۸۲) (حسن صحیح)
۲۶۴۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاری بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، اور عوف بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے، صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، امت کے یہ فرقے کون ہیں؟ صاحب تحفہ الأحوذی نے اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ فرق مذمومہ سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جو اہل حق سے اصول میں اختلاف رکھتے ہیں، مثلاً توحید ، تقدیر، نبوت کی شرطین اور موالات صحابہ وغیرہ، کیوں کہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف کرنے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے ، جنتی فرقہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کتاب وسنت پر قائم رہنے والے اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔


2641- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ ابْنِ زِيَادٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ، حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلاَنِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً"، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مُفَسَّرٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۸۶۴) (حسن) (تراجع الالبانی ۲۴۹، والصحیحہ ۱۳۴۸)
۲۶۴۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آچکی ہے، ( یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے )یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگراپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیاہوگا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہوگا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کرباقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ نے فرمایا:'' یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جس میں ابوہریرہ کے حدیث کے مقابلہ میں کچھ زیادہ وضاحت ہے حسن غریب ہے۔ہم اسے اس طرح صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


2642- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ، فَأَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ، فَلِذَلِكَ أَقُولُ: جَفَّ الْقَلَمُ عَلَى عِلْمِ اللهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: لم یذکرہ المزي)، وحم (۲/۱۷۶، ۱۹۷) (صحیح)
۲۶۴۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:''اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مخلوق کوتاریکی میں پیداکیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کاپرتو) توجس پریہ نور پڑ گیا وہ ہدایت یاب ہوگیااور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کرگیا) تو وہ گمراہ ہوگیا، اسی لیے میں کہتاہوں کہ اللہ کے علم پر(تقدیرکا) قلم خشک ہوچکاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جاچکی ہے، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہوسکتا۔


2643- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "فَإِنَّ حَقَّهُ عَلَيْهِمْ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلاَيُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، قَالَ: أَتَدْرِي مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلَوْا ذَلِكَ؟" قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمْ".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ.
* تخريج: خ/الجھاد ۴۶ (۲۸۵۶)، واللباس ۱۰۱ (۵۹۶۷)، والاستئذان ۳۰ (۶۲۶۷)، والرقاق ۳۷ (۶۵۰۰)، والتوحید ۱ (۷۳۷۳)، م/الإیمان ۱۰ (۳۰)، ق/الزہد ۳۵ (۴۲۹۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۵۱) (صحیح)
۲۶۴۳- معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کاحق کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:'' اس کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں''۔ (پھر) آپ نے کہا:'' کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ جب لوگ ایسا کریں تو اللہ پر ان کاکیا حق ہے؟میں نے کہا: اللہ اوراس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:'' ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔


2644- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَعَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ وَالأَعْمَشِ كُلُّهُمْ سَمِعُوا زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَتَانِي جِبْرِيلُ فَبَشَّرَنِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: "نَعَمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ.
* تخريج: خ/الاستقراض ۳ (۲۳۸۸)، و بدء الخلق ۶ (۳۲۲۲)، والاستئذان ۳۰ (۶۲۶۸)، والرقاق ۱۳ (۶۴۴۳)، و ۱۴ (۶۴۴۴)، والتوحید ۳۳ (۷۴۸۷)، م/الإیمان ۴۰ (۹۴)، والزکاۃ ۹ (۹۴/۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۱۵)، وحم (۵/۱۵۹) (صحیح)
۲۶۴۴- ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے پاس جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تووہ جنت میں جائے گا''، میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں''،(اگرچہ اس نے زنا کیاہواور چوری کی ہو) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوالدرداء سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ زنااورچوری کی اپنی سزا کاٹ کر اپنے موحد ہونے کے صلہ میں لامحالہ جنت میں جائے گا، یا ممکن ہے رب العالمین اپنی رحمت سے اسے معاف کردے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

39-كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳۹- کتاب: علم اور فہم دین


1-بَاب إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْرًا فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ
۱-باب: جب اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتاہے تو اسے دین کی سمجھ عطاکردیتاہے​


2645- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ يُرِدُ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَمُعَاوِيَةَ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (۵۶۶۷)، وانظر حم (۱/۳۰۶) (صحیح)
۲۶۴۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے،تو اسے دین کی سمجھ عطاکردیتاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، ابوہریرہ ،اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : دین کی سمجھ سے مراد کتاب وسنت کا علم، ذخیرہ احادیث میں صحیح ، ضعیف اور موضوع روایات کا علم، اسلامی شریعت کے احکام ومسائل کا علم اورحلال وحرام میں تمیزپیدا کرنے کا ملکہ ہے، اس نظر یہ سے اگر دیکھا جائے تو صحابہ کرام ، محدثین عظام سے بڑھ کر اس حدیث کا مصداق اور کون ہوسکتاہے، جنہوں نے بے انتہائمحنت کرکے احادیث کے منتشر ذخیرہ کو جمع کیا اور پھر انہیں مختلف کتب وابواب کے تحت فقہی انداز میں مرتب کیا، افسوس صدافسوس ایسے لوگوں پر جو محدثین کی ان خدمات جلیلہ کو نظر انداز کرکے ایسے لوگوں کو فقیہ گردانتے ہیں جن کی فقاہت میں کتاب وسنت کی بجائے ان کی اپنی آراء کا زیادہ دخل ہے جب کہ محدثین کرام نے اپنی آراء سے یکسر اجتناب کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب فَضْلِ طَلَبِ الْعِلْمِ
۲-باب: علم حاصل کرنے کی فضیلت کابیان​


2646- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌَ.
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۱۸ (۲۶۹۹)، د/العلم ۱ (۳۶۴۳)، ق/المقدمۃ ۱۷ (۲۲۵)، ویأتي في القراء ت ۱۲(۲۹۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۸۶)، وحم (۲/۲۵۲، ۳۲۵، ۴۰۷)، ودي/المقدمۃ ۳۲ (۳۵۶) (صحیح)
۲۶۴۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان(وہموار) کردیتاہے '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، معلوم ہواکہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا مستحب ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے سفر کیا، اور عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث کے علم کے لیے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک مہینہ کا سفر طے کیا، علماء سلف حدیث کی طلب میں دور دراز کا سفر کرتے تھے، اگر خلوص نیت کے ساتھ علم شرعی کے حصول کی کوشش کی جائے تو اللہ رب العالمین جنت کا راستہ آسان کردیتاہے۔


2647- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْعَتَكِيُّ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ كَانَ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى يَرْجِعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۳۰) (حسن)
(اس کے تین رواۃ ''خالد بن یزید'' ابوجعفر رازی'' اور ''ربیع بن انس'' پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اورضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیاہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب ۸۷ ، ۸۸، السراج المنیر ۲۵۴، و الضعیفۃ رقم ۲۰۳۷، تراجع ا لألبانی ۳۵۴)
۲۶۴۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں(شمار) ہو گا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ علم حاصل کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔


2648- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَلَّى، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَخْبَرَةَ، عَنْ سَخْبَرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفُ الإِسْنَادِ، أَبُو دَاوُدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَلاَنَعْرِفُ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ سَخْبَرَةَ كَبِيرَ شَيْئٍ وَلاَ لأَبِيهِ، وَاسْمُ أَبِي دَاوُدَ نُفَيْعٌ الأَعْمَى، تَكَلَّمَ فِيهِ قَتَادَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۴) (موضوع)
(سندمیں ابوداود نفیع اعمی متروک الحدیث راوی ہے، دیکھئے: الضعیفۃ ۵۰۱۷)
۲۶۴۸- سخبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جوعلم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۲- راوی ابوداودنفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۳- ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیاہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں)، ابوداود کانام نفیع الاعمیٰ ہے۔ ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي كِتْمَانِ الْعِلْمِ
۳-باب: علم چھپانے کی مذمت​


2649- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ، ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/العلم ۹ (۳۶۵۸)، ق/المقدمۃ ۲۴ (۲۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۶) (صحیح)
۲۶۴۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے ، پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوکہ علم دین سے متعلق سوال کرنے والے کو دین کی صحیح بات نہ بتلانا یا دین کی معلومات حاصل کرنے سے متعلق وسائل (مثلا کتابوں وغیرہ) کا انکار کردینا سخت وعید اور گناہ کاباعث ہے، اسی طرح دین کے صحیح مسائل کو اس کی جانکاری کے باوجود چھپانا اور لوگوں کے سامنے واضح نہ کرنا باعث گناہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِيصَائِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ
۴-باب: علم (دین)حاصل کرنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنے کابیان​


2650- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ قَالَ: كُنَّا نَأْتِي أَبَا سَعِيدٍ فَيَقُولُ: مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ، وَإِنَّ رِجَالاً يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ، فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِاللهِ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: كَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ أَبَاهَارُونَ الْعَبْدِيَّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ حَتَّى مَاتَ، وَأَبُو هَارُونَ اسْمُهُ عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۲۲ (۲۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۲) (ضعیف)
(سندمیں ابوہارون العیدی عمارۃ بن جوین مشہور کذابین میں سے ہے)
۲۶۵۰- ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے )آتے، تو وہ کہتے: اللہ کے رسول ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید، رسول اللہﷺ نے فرمایا:''لوگ تمہارے پیچھے ہیں ۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں توتم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا: یحییٰ بن سعید کہتے تھے: شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قراردیتے تھے، ۲- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے، ۳- ابوہارون کانام عمارہ بن جوین ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی لوگ تمہارے افعال واقوال کے تابع ہیں، چونکہ تم نے مجھ سے مکارم اخلاق کی تعلیم حاصل کی ہے، اس لیے تمہارے بعد آنے والے تمہارے مطیع و پیروکار ہوں گے اس لیے ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔


2651- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يَأْتِيكُمْ رِجَالٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَتَعَلَّمُونَ، فَإِذَا جَائُوكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِهِمْ خَيْرًا". قَالَ: فَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا رَآنَا قَالَ مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هَارُونَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۲۶۵۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' تمہارے پاس پورب سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔ راوی حدیث کہتے ہیں: ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ جب وہ ہمیں (طالبان علم دین کو) دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق ہمیں خوش آمدید کہتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف ابو ہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ الْعِلْمِ
۵-باب: علم کے ختم ہوجانے کابیان​


2652- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ لاَيَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَزِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مِثْلَ هَذَا.
* تخريج: خ/العلم ۳۴ (۱۰۰)، والإعتصام ۸ (۷۳۰۷)، م/العلم ۵ (۲۶۷۳)، ق/المقدمۃ ۸ (۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۳)، وحم (۲/۱۶۲، ۱۹۰)، ودي/المقدمۃ ۲۶ (۲۴۵) (صحیح)
۲۶۵۲- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے ، لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کوباقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنالیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے '' ۱؎ ۔
(امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے، اورزہری نے (ایک دوسری سند سے )عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳- اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علمائے دین ختم ہوجائیں گے، جاہل پیشوا، امام اور سردار بن جائیں گے، انہیں قرآن و حدیث کا کچھ بھی علم نہیں ہوگا، پھر بھی یہ مجتہد و مفتی بن کر دینی مسائل کو بیان کریں گے، اپنے فتووں اور من گھڑت مسئلوں کے ساتھ یہ دوسروں کی گمراہی کا باعث بنیں گے۔ اے رب العالمین! اس امت کو ایسے جاہل پیشوا اور امام سے محفوظ رکھ، آمین۔


2653- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ ابْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَائِ، ثُمَّ قَالَ: "هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ، حَتَّى لاَ يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْئٍ". فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا؟ وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ، فَوَاللهِ! لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَائَنَا وَأَبْنَائَنَا، فَقَالَ: "ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَازِيَادُ، إِنْ كُنْتُ لأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَائِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ؟". قَالَ جُبَيْرٌ: فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قُلْتُ: أَلاَ تَسْمَعُ إِلَى مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَائِ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ، قَالَ: صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَائِ، إِنْ شِئْتَ لأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ؟ الْخُشُوعُ، يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلاَ تَرَى فِيهِ رَجُلاً خَاشِعًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلاَنَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ ابْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۲۸) (صحیح)
۲۶۵۳- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں ، پھر فرمایا:'' ایساوقت (آگیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیاجائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہوگا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: ( اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیاجائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا:'' اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھودے !میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتاتھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود ونصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟ '' ۱؎ (کیافائدہ پہنچایاتورات اور انجیل نے ان کو؟)۔جبیر (راوی ) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھرابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے جو کہاتھا وہ میں نے انہیں بتادیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تومیں تمہیں بتاسکتاہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیاجانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤگے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سواہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو،۳- معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے، ۴- بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کتابوں نے انہیں کیافائدہ پہنچایا ؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کوپاکر اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے ، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہوگا، کیوں کہ تمہارے اچھے علماء ختم ہوجائیں گے، اور قرآن تمہارے پاس ہوگا، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہوگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَطْلُبُ بِعِلْمِهِ الدُّنْيَا
۶-باب: علم (دین)سے دنیا حاصل کرنے والے کابیان​


2654- حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَائَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَائَ أَوْ يَصْرِفَ بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْهِ أَدْخَلَهُ اللهُ النَّارَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَإِسْحاَقُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَهُمْ، تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۴۰) (حسن)
( سندمیں اسحاق ضعیف ہیں شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
۲۶۵۴- کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا : ''جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ۱؎ ،کم علم اور بے وقوفوں سے بحث وتکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- اسحاق بن یحیی بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں، ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیاگیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کے ساتھ بحث ومناظرہ کرے ان پر اپنی علمیت وقابلیت کا سکہ جمائے۔
وضاحت ۲؎ : معلوم ہواکہ علم دین حاصل کرنے والے کی نیت صالح ہونی چاہیے، وہ کسی دنیاوی حرص و طمع کے بغیر اس کے حصول کی کوشش کرے، کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا۔


2655- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَيْكٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا لِغَيْرِ اللهِ أَوْ أَرَادَ بِهِ غَيْرَ اللهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۳۳ (۲۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۷۱۲) (ضعیف)
( سند میں خالد اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان انقطاع ہے)
۲۶۵۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یاوہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرناچاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے ایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : علم دین اس لیے سیکھا جاتاہے ہے کہ اس سے اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کی جائے، لیکن اگر اس علم سے اللہ کی رضا و خوشنودی مقصود نہیں بلکہ اس سے جاہ ومنصب یا حصول دنیا مقصود ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ
۷-باب: دوسرے تک دین کی بات پہنچانے پرابھارنے کابیان​


2656- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَانِ بْنَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ نِصْفَ النَّهَارِ، قُلْنَا: مَا بَعَثَ إِلَيْهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلاَّ لِشَيْئٍ سَأَلَهُ عَنْهُ، فَسَأَلْنَاهُ، فَقَالَ: نَعَمْ، سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَائَ سَمِعْنَاهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ غَيْرَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/العلم ۱۰ (۳۶۶۰)، ق/المقدمۃ: ۱۸ (۲۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۹۴)، وحم (۱/۴۳۷)، و (۵/۱۸۳)، ودي/المقدمۃ ۲۴ (۲۳۵) (صحیح)
۲۶۵۶- ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے (لوٹے)، ہم نے کہا:مروان کوان سے کوئی چیز پوچھنا ہوگی تبھی ان کو اس وقت بلابھیجا ہوگا، پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا تھا۔ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جومجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچادے، کیوں کہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچادیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اورعقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تورکھتے ہیں ، لیکن فقیہہ نہیں ہوتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، معاذ بن جبل، جبیر بن مطعم، ابوالدرداء اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں یہ ترغیب ہے کہ علم کو حاصل کرکے اسے اچھی طرح محفوظ رکھا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے کیوں کہ بسااوقات پہنچانے والے سے کہیں زیادہ ذی علم اور عقلمند وہ شخص ہوسکتاہے جس تک علم دین پہنچایا جارہاہے، گویا دعوت و تبلیغ کا فریضہ برابر جاری رہنا چاہیے۔


2657- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَانِ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ ابْنِ عَبْدِ اللهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۸ (۲۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۱) (صحیح)
۲۶۵۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:'' اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچادیا کیوں کہ بہت سے لوگ جنہیں بات (حدیث) پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو توجہ سے سننے اور محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو عبدالملک بن عمیر نے عبدالرحمن بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا ۔


2658- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ. ثَلاَثٌ لاَيُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلاَصُ الْعَمَلِ لِلّهِ، وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ، فَإِنَّ الدَّعْوَةَ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ".
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۶۵۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے، اسے محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے ، کیوں کہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچادیتے ہیں جو ان سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان کا دل دھوکہ نہیں کھاسکتا،(۱) عمل خالص اللہ کے لیے (۲) مسلمانوں کے ائمہ کے ساتھ خیر خواہی (۳) اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑ کر رہنا ، کیوں کہ دعوت ان کا چاروں طرف سے احاطہ کرتی ہے''۔
 
Top