• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
64-بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّغَابُنِ
۶۴-باب: سورہ تغابن سے بعض آیات کی تفسیر​


3317- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلاَدِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ} قَالَ هَؤُلاَئِ رِجَالٌ أَسْلَمُوا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ وَأَرَادُوا أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ ﷺ فَأَبَى أَزْوَاجُهُمْ، وَأَوْلاَدُهُمْ أَنْ يَدَعُوهُمْ أَنْ يَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَلَمَّا أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَأَوْا النَّاسَ قَدْ فَقُهُوا فِي الدِّينِ هَمُّوا أَنْ يُعَاقِبُوهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ}[التغابن: 14] الآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۲۳) (حسن)
۳۳۱۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے آیت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلاَدِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ } ۱؎ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس کے بارے میں اتری ہے؟ انہوں نے کہا: اہل مکہ میں کچھ لوگ تھے جو ایمان لائے تھے، اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچنے کا ارادہ کرلیاتھا، مگر ان کی بیویوں اور ان کی اولاد نے انکار کیا کہ وہ انہیں چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں، پھر جب وہ (کافی دنوں کے بعد) رسول اللہ ﷺ کے یہاں آئے اوردیکھاکہ لوگوں نے دین کی فقہ ،( دین کی سوجھ بوجھ) کافی حاصل کرلی ہے، تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو (ان کے رکاوٹ ڈالنے کے باعث ) سزادیں، اس موقع پریہ آیت نازل ہوئی ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں ، پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کرجاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے(التغابن:۱۴)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
65-بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّحْرِيمِ
۶۵-باب: سورہ تحریم سے بعض آیات کی تفسیر​


3318-حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا}[التحريم: 4] حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنْ الإِدَاوَةِ؛ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ} فَقَالَ لِي وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! (قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ) فَقَالَ: هِيَ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ فَقَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ؛ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ؛ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ؛ فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا؛ فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَقَالَتْ: مَاتُنْكِرُ مِنْ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ: فَقُلْتُ: فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْهُنَّ، وَخَسِرَتْ قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الأَنْصَارِ كُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَيَنْزِلُ يَوْمًا؛ فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَأَنْزِلُ يَوْمًا؛ فَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ قَالَ: وَكُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا قَالَ: فَجَاءَنِي يَوْمًا عِشَائً؛ فَضَرَبَ عَلَى الْبَابِ؛ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ؛ فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ: أَجَاءَتْ غَسَّانُ، قَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ نِسَائَهُ قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ، وَخَسِرَتْ قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ؛ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي؛ فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ: لاَ أَدْرِي هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرَبَةِ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ؛ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ قَالَ: فَدَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ قَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ؛ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ؛ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْكُونَ؛ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ؛ فَأَتَيْتُ الْغُلامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ؛ فَدَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ؛ فَلَمْ يَقُلْ: شَيْئًا قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ أَيْضًا؛ فَجَلَسْتُ، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ؛ فَأَتَيْتُ الْغُلامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ؛ فَدَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ: شَيْئًا قَالَ: فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا؛ فَإِذَا الْغُلامُ يَدْعُونِي فَقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَكَ؛ فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ ﷺ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبَيْهِ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَطَلَّقْتَ نِسَائَكَ قَالَ: لا، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَائَ؛ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ؛ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ؛ فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي؛ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ: نَعَمْ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؛ فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْكُنَّ، وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ؛ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ؛ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: لاَتُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَلاَ تَسْأَلِيهِ شَيْئًا، وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلاَ يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ صَاحِبَتُكِ أَوْسَمَ مِنْكِ، وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: فَتَبَسَّمَ أُخْرَى فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَسْتَأْنِسُ، قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي؛ فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلاَّ أُهُبَةً ثَلاثَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ؛ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ وَهُمْ لا يَعْبُدُونَهُ؛ فَاسْتَوَى جَالِسًا فَقَالَ: " أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ". قَالَ: وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا؛ فَعَاتَبَهُ اللَّهُ فِي ذَلِكَ، وَجَعَلَ لَهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ بَدَأَ بِي قَالَ: يَا عَائِشَةُ! إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ شَيْئًا؛ فَلا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ: ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ}الآيَةَ قَالَتْ: عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ؛ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۶۱ (صحیح)
3318/أ- قَالَ مَعْمَرٌ: فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لاَ تُخْبِرْ أَزْوَاجَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّمَا بَعَثَنِي اللَّهُ مُبَلِّغًا وَلَمْ يَبْعَثْنِي مُتَعَنِّتًا".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: م/الطلاق ۵ (۱۴۷۵) (حسن)
(سند میں بظاہر انقطاع ہے ، اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا ، اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکرکیا، بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے، اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے،لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (۳/۳۲۸) میں بسند ابوالزبیر عن جابرمرفوعا ہے، جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے، اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ، الصحیحۃ ۱۵۱۶)
۳۳۱۸- عبید اللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا : میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے {إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} ۱؎ (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی اللہ عنہ نے حج کیااور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا، (اسی دوران) میں نے ان سے پوچھا : امیر المؤمنین ! نبی اکرمﷺکی وہ دوبیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے {إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا}عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حیرت سے کہا: ہائے تعجب ! اے ابن عباس (تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں) (زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس نے جوبات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتادی) انہوں نے مجھے بتایا: وہ عائشہ اور حفصہ ہیں ، پھروہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا:
ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دباکر رکھتے تھے، مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں، تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں، ایک دن ایسا ہواکہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہوگیا، کیا دیکھتاہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے (سخت) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے، اس نے کہا: آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے؟ قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ ﷺ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑ ے رہتی ہیں (روٹھی اور اینٹھی رہتی ) ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا: آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی، میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا، اور میراایک انصاری پڑوسی تھا ، ہم باری باری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیاکرتے تھے، ایک دن وہ آتا اور جوکچھ ہوا ہوتا وہ واپس جاکر مجھے بتاتا، اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جاکراسے بتاتا ، ہم (اس وقت) باتیں کیاکرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں، ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آکر ، دروازہ کھٹکھٹایا ،میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا ، اس نے کہا: ایک بڑی بات ہوگئی ہے ، میں نے پوچھا : کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کرآئے ہیں؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آگیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے اپنے جی میں کہا: حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی، میں سوچا کرتاتھا کہ ایسا ہونے والا ہے، جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا، حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ (بیٹھی) رورہی تھی، میں نے پوچھا: کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم ہے، البتہ آپ اس بالاخانے پرالگ تھلگ بیٹھے ہیں، عمر کہتے ہیں: میں (اٹھ کر آپ سے ملنے) چلا، میں ایک کالے رنگ کے (دربان) لڑکے کے پاس آیااور اس سے کہا: جاؤ ، آپﷺسے عمر کے آنے کی اجازت مانگو، عمر کہتے ہیں: وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کے آنے کی خبرکی مگر آپ نے کچھ نہ کہا،میں مسجد چلا گیا (دیکھا) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رورہے تھے، میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا، (مجھے سکون نہ ملا) میری فکر وتشویش بڑھتی گئی، میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا ، میں نے کہا: جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، اس نے کہا : میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا ،لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا، عمر کہتے ہیں: میں دوبارہ مسجد میں آکر بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہوگئی، میں (سہ بارہ) لڑکے کے پاس آگیا اور اس سے کہا: جاؤ اور آپ سے عمر کے اند ر آنے کی اجازت مانگو، وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا ، کہا: میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا، (یہ سن کر) میں پلٹ پڑا، یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا، (آجائیے آجائیے) اندر تشریف لے جائیے، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہے، میں اندر چلاگیا، میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر ونشان آپ کے پہلؤں میں دیکھا ، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں، میں نے کہا: اللہ اکبر، آپ نے دیکھا ہوگا اللہ کے رسول! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے ، لیکن جب ہم مدینہ آگئے تو ہمارا سابقہ ایک ایک ایسی قوم سے پڑگیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں، ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے (ان کے طورطریقے) سیکھنے لگیں، ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کرجواب دینے لگی، مجھے یہ سخت برا لگا، کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برالگ رہاہے، قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کرجواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر (روٹھی واینٹھی) رہتی ہے، میں نے حفصہ سے کہا: کیا تم پلٹ کر رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہو ؟ اس نے کہا: ہاں، ہم میں کوئی بھی آپ سے (خفا ہوکر) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے، میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایساکیا وہ گھاٹے میں ر ہی اورناکام ہوئی،کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض وناخوش ہوجائے اور وہ ہلاک وبرباد ہوجائے؟ (یہ سن کر) آپﷺ مسکراپڑے، عمر نے کہا: میں نے حفصہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو، جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیاکرو، اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن توتم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے ۲؎ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ پھرمسکرا دیئے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں دل بستگی کی بات کروں؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، عمر کہتے ہیں: میں نے سر اٹھا یا توگھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی وفراوانی دے جو اس نے روم وفارس کودی ہے ، جب کہ وہ اس کی عبادت بندگی بھی نہیں کرتے ہیں، (یہ سن کر) آپ جم کر بیٹھ گئے، کہا: خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک وشبہہ میں پڑے ہو ئے ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں، عمر ؓ کہتے ہیں: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین (قسم کا کفارہ) اداکرنے کا حکم دیا۔
زہری کہتے ہیں: عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب مہینے کے ۲۹؍دن گزرگئے تونبی اکرم ﷺ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے، آپ نے فرمایا:'' میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والاہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لأَزْوَاجِكَ} (آخر آیت تک) عائشہ کہتی ہیں: آپ جانتے تھے، قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرلینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے، میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اورپسند کرتی ہوں۔
معمر کہتے ہیں : مجھے ایوب نے خبردی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہاکہ اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی دوسری بیویوں کونہ بتائیے گا کہ میں نے آپ کو چنا اور پسند کیا ہے، آپ نے فرمایا:'' اللہ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجاہے تکلیف پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں،(التحریم:۴)۔
وضاحت ۲؎ : مطلب یہ ہے اگراس حرکت پرنبیﷺعائشہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں توتم بھی اس بھرے میں مت آؤ، وہ توتم سے زیادہ حسن وجمال کی مالک ہیں، ان کا کیا کہنا!۔
وضاحت۳؎ : اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگرتمہیں دنیاکی زندگی اوراس کی خوش رنگیاں چاہئے ، توآؤمیں تمہیں کچھ دیدوں ، اورخوش اسلوبی سے تم کو رخصت کردوں، اوراگرتمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اورآخرت کی بھلائی چاہیں توبے شک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجرعظیم تیارکررکھاہے،(الاحزاب:۲۸، ۲۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
66-بَاب وَمِنْ سُورَةِ ن وَالْقَلَمِ
۶۶-باب: سورہ نٓ والقلم سے بعض آیات کی تفسیر​


3319- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ؛ فَلَقِيتُ عَطَائَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ؛ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! إِنَّ أُنَاسًا عِنْدَنَا يَقُولُونَ فِي الْقَدَرِ؛ فَقَالَ عَطَائٌ: لَقِيتُ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ؛ فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ اكْتُبْ فَجَرَى بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الأَبَدِ" وَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۵۵ (صحیح)
۳۳۱۹- عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں :میں مکہ آیا، عطاء بن ابی رباح سے میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے کہا: ابومحمد! ہمارے یہاں کچھ لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، عطا نے کہا: میں ولید بن عبادہ بن صامت سے ملا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے : سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیداکیا (بنایا) پھر اس سے کہا: لکھ ، تو وہ چل پڑا، اورہمیشہ ہمیش تک جو کچھ ہونے والاتھا سب اس نے لکھ ڈالا ۱؎ ۔
اس حدیث میں ایک قصہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اوریہی تقدیرہے،توپھرتقدیرکا انکارکیوں؟ تقدیررزق کے بارے میں ہو، یا انسانی عمل کے بارے میں اللہ نے سب کو روز ازل میں لکھ رکھاہے ، فرق صرف اتناہے کہ رِزق کے سلسلے میں اس نے اپنے اختیارسے لکھاہے ، اورعمل کے سلسلے میں اس نے اپنے علم غیب کی بناپرانسان کے آئندہ عمل کے بارے میں جوجان لیااس کو لکھاہے اس سلسلے میں جبرنہیں کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
67-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْحَاقَّةِ
۶۷- باب: سورہ حاقہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3320- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرَةَ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ زَعَمَ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا فِي الْبَطْحَائِ فِي عِصَابَةٍ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَالِسٌ فِيهِمْ إِذْ مَرَّتْ عَلَيْهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرُوا إِلَيْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا اسْمُ هَذِهِ" قَالُوا: نَعَمْ هَذَا السَّحَابُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَالْمُزْنُ؟" قَالُوا: وَالْمُزْنُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "وَالْعَنَانُ" قَالُوا: وَالْعَنَانُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ؟" فَقَالُوا: لا وَاللَّهِ مَا نَدْرِي قَالَ: فَإِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ وَإِمَّا اثْنَتَانِ أَوْ ثَلاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً، وَالسَّمَائُ الَّتِي فَوْقَهَا كَذَلِكَ حَتَّى عَدَّدَهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ كَذَلِكَ" ثُمَّ قَالَ: "فَوْقَ السَّمَائِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ إِلَى السَّمَائِ وَفَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلافِهِنَّ وَرُكَبِهِنَّ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَائٍ إِلَى سَمَائٍ، ثُمَّ فَوْقَ ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِهِ وَأَعْلاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ السَّمَائِ إِلَى السَّمَائِ وَاللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ".
قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: أَلا يُرِيدُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْ يَحُجَّ حَتَّى نَسْمَعَ مِنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَهُ وَرَفَعَهُ. وَرَوَى شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكٍ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَوَقَفَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ.
* تخريج: د/السنۃ ۱۹ (۴۷۲۳)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۱۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۲۴۵۱) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن عمیرہ لین الحدیث راوی ہیں)
۳۳۲۰- عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھاہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرماتھے ، اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری، لوگ اسے دیکھنے لگے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے؟لوگوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، یہ سحاب ہے، آپ نے فرمایا:'' کیا یہ مزن ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں یہ مزن بھی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا اسے عنان ۱؎ بھی کہتے ہیں، لوگوں نے کہا: ہاں یہ عنان بھی ہے، پھر آپ نے لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے ، آپ نے فرمایا:'' ان دونوں میں اکہتر( ۷۱)بہتر(۷۲) یاتہتر (۷۳) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے، اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے، پھر آپ نے فرمایا:'' ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے (یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے (فرشتے ) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے، پھران کی پیٹھوں پر عرش ہے، عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے ( یعنی عرش اتنا موٹا ہے )اور اللہ اس کے اوپر ہے۔
عبدبن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے ، عبدالرحمن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،۳- شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا ً روایت کیا ہے ، مرفوعاً نہیں کیا،۴- عبدالرحمن ، یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ تینوں نام بدلیوں کے مختلف نام ہیں جو مختلف طرح کی بدلیوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اگرموسم حج میں یہ حدیث بیان کی جاتی اورجہمیوں کواس کا پتہ چل جاتاتوخواہ مخواہ کے اعتراضات نہ اٹھاتے۔


3321- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلا بِبُخَارَى عَلَى بَغْلَةٍ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَائُ، وَيَقُولُ: كَسَانِيهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (ضعیف الإسناد)
(سندمیں سعد بن عثمان الرازی الدشتکی مقبول راوی ہیں،لیکن متابعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ لین الحدیث ہیں)
۳۳۲۱- عبدالرحمن بن عبداللہ بن سعد رازی سے روایت ہے کہ ان کے باب عبداللہ نے ان کو خبر دی ، انہوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو بخاریٰ میں خچر پر سوار سرپر سیاہ عمامہ باندھے ہوئے دیکھا وہ کہتا تھا: یہ وہ عمامہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھے پہنایا ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : باب سے اس حدیث کاظاہری تعلق نہیں ہے ، اسے صرف یہ بتانے کے لیے ذکرکیا گیا ہے کہ اس سے پہلے مذکورہ حدیث کی سند میں جس میں عبدالرحمن بن سعدکاذکرہے اس سے یہی عبدالرحمن بن عبداللہ بن سعدرازی مرادہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
68-بَاب وَمِنْ سُورَةِ سَأَلَ سَائِلٌ
۶۸-باب: سورہ معارج سے بعض آیات کی تفسیر​


3322- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {كَالْمُهْلِ}[المعارج: 8] قَالَ: "كَعَكَرِ الزَّيْتِ فَإِذَا قَرَّبَهُ إِلَى وَجْهِهِ سَقَطَتْ فَرْوَةُ وَجْهِهِ فِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۵۸۱ (ضعیف)
۳۳۲۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ: {يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاء كَالْمُهْلِ} ۱؎ میں مہل کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:'' اس سے مراد تیل کی تلچھٹ ہے، جب کافر اسے اپنے منہ کے قریب لائے گا توسرکی کھال مع بالوں کے اس میں گرجائے گی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کے مانند ہوجائے گا(المعارج:۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
69-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْجِنِّ
۶۹-باب: سورہ جن سے بعض آیات کی تفسیر​


3323- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْجِنِّ، وَلا رَآهُمْ انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمْ الشُّهُبُ؛ فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ فَقَالُوا: مَا لَكُمْ قَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ فَقَالُوا: مَاحَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ إِلا أَمْرٌ حَدَثَ؛ فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا؛ فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ قَالَ: فَانْطَلَقُوا يَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا يَبْتَغُونَ مَاهَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ؛ فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ النَّفَرُ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلاةَ الْفَجْرِ؛ فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ فَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَائِ قَالَ: فَهُنَالِكَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ فَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا! {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ؛ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا}؛ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ ﷺ: {قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنْ الْجِنِّ وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ}[الجن: 1].
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۵ (۷۷۲)، تفسیر سورۃ الجن (۴۹۲۱)، م/الصلاۃ ۳۱ (۴۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۵۲) (صحیح)
3323/م- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَوْلُ الْجِنِّ لِقَوْمِهِمْ: {لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا} قَالَ: لَمَّا رَأَوْهُ يُصَلِّي وَأَصْحَابُهُ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ فَيَسْجُدُونَ بِسُجُودِهِ قَالَ: تَعَجَّبُوا مِنْ طَوَاعِيَةِ أَصْحَابِهِ لَهُ، قَالُوا لِقَوْمِهِمْ: {لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا}[الجن: 19]. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۳۲۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے نہ قرآن جنوں کو پڑھ کر سنایا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے ۱؎ (ہوایہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ عکّاظ بازار جارہے تھے، (بعثت محمدی کے تھوڑے عرصہ بعد) شیطانوں اور ان کے آسمانی خبریں حاصل کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تھی اور ان پر شعلے برسائے جانے لگے تھے، تو وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے، ان کی قوم نے کہا: کیا بات ہے؟ کیسے لوٹ آئے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان دخل اندازی کردی گئی ہے، آسمانی خبریں سننے سے روکنے کے لیے ہم پر تارے پھینکے گئے ہیں، قوم نے کہا : لگتا ہے (دنیا میں) کوئی نئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے، تم زمین کے مشرق ومغرب میں چاروں طرف پھیل جاؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے اور ہمارے آسمان سے خبریں حاصل کرنے کے درمیان حائل ہوئی ( اور رکاوٹ بنی) ہے چنانچہ وہ زمین کے چاروں کونے مغربین ومشرقین میں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے، شیاطین کا جو گروہ تہامہ کی طرف نکلاتھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا ( اس وقت) آپ سوق عکّاظ جاتے ہوئے مقام نخلہ میں تھے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی صلاۃ پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے قرآن سنا تو پوری توجہ سے کان لگا کر سننے لگے، (سن چکے تو) انہوں نے کہا: یہ ہے قسم اللہ کی ! وہ چیز جوتمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے، ابن عباس کہتے ہیں: یہیں سے وہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے، (وہاں جاکر) کہا:اے میری قوم!'' إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا'' ۲؎ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرمﷺپر آیت { قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ} نازل فرمائی، اور آپ پر جن کا قول وحی کیاگیا ۳؎ ۔
اور اسی سند سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ بھی جنوں کاہی قول ہے ، انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ''لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا '' ۴؎ ۔
ابن عباس کہتے ہیں: جب انہوں نے آپ کوصلاۃ پڑھتے دیکھا اور دیکھا کہ آپ کے صحابہ آپ کی اقتداء کرتے ہوئے آپ کی طرح صلاۃ پڑھ رہے ہیں اور آپ کے سجدہ کی طرح سجدہ کررہے ہیں تو وہ آپ کے اصحاب کی آپ کی اطاعت دیکھ کر حیرت میں پڑگئے ، انہوں نے اپنی قوم سے کہا: '' لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا '' ۵؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اپنے علم کے مطابق ہے ، چونکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اس لیے شایدامام بخاری نے اس حدیث کا یہ ٹکڑااپنی صحیح میں درج نہیں کیا ہے ، اور صحیح مسلم میں اس کے فوراً بعدابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے کہ آپ ﷺنے جنوں کی دعوت پر ان کے پاس جاکر ان پرقرآن پڑھاہے ، ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ دوواقع ہیں،پہلے واقعہ کی بابت ابن عباس کی یہ روایت اوران کا یہ قول ہے ،اس کے بعد یہ ہوا تھاکہ آپ ان کے پاس تشریف لے جاکران کوقرآن سنایا تھا (کمافی الفتح )
وضاحت ۲؎ : ہم نے عجیب وغریب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتاہے ہم اس پر ایمان لاچکے (اب) ہم کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے(الجن:۱-۲)۔
وضاحت ۳؎ : ابن عباس کا یہ قول ان کے اسی دعوے کی بنیادپرہے کہ آپ جنوں کے پاس خودنہیں گئے تھے، انھوں نے آپ کی قراء ت اچانک سن لی، اس واقعہ کی اطلاع بھی آپ کوبذریعہ وحی دی گی ۔
وضاحت۴؎ : اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لیے کھڑاہوا تو قریب تھاکہ وہ بھڑ بن کر اس پر پل پڑیں(الجن:۱۹)۔
وضاحت ۵؎ : اس آیت کی کئی تفسیریں مروی ہیں، ایک تویہی ابن عباس کی تفسیر، جس کے مطابق {كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا} (الجن: 19) سے مرادصحابہ کرام ہیں،یعنی:صحابہ آپ کی اطاعت ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی بھیڑکسی بات پر پل پڑے، لیکن ابن کثیرنے اگلی آیت سے ، استدلال کرتے ہوئے یہ معنی بیان کیا ہے کہ اس سے مرادمشرک جن وانس ہیں جو آپ کو عبادت کرتے دیکھ کربھیڑبن کرپل پڑے ہیں۔


3324- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ الْجِنُّ يَصْعَدُونَ إِلَى السَّمَائِ يَسْتَمِعُونَ الْوَحْيَ فَإِذَا سَمِعُوا الْكَلِمَةَ زَادُوا فِيهَا تِسْعًا؛ فَأَمَّا الْكَلِمَةُ؛ فَتَكُونُ حَقًّا، وَأَمَّا مَا زَادُوهُ؛ فَيَكُونُ بَاطِلا؛ فَلَمَّا بُعِثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُنِعُوا مَقَاعِدَهُمْ؛ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لإِبْلِيسَ، وَلَمْ تَكُنْ النُّجُومُ يُرْمَى بِهَا قَبْلَ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُمْ إِبْلِيسُ: مَا هَذَا إِلا مِنْ أَمْرٍ؟ قَدْ حَدَثَ فِي الأَرْضِ؛ فَبَعَثَ جُنُودَهُ؛ فَوَجَدُوا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَائِمًا يُصَلِّي بَيْنَ جَبَلَيْنِ أُرَاهُ قَالَ: بِمَكَّةَ؛ فَلَقُوهُ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ: هَذَا الَّذِي حَدَثَ فِي الأَرْضِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۸۸) (صحیح)
۳۳۲۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : جن آسمان کی طرف چڑھ کر وحی سننے جایا کرتے تھے، اور جب وہ ایک بات سن لیتے تو اس میں اور بڑھا لیتے، تو جوبات وہ سنتے وہ توحق ہوتی لیکن جو بات وہ اس کے ساتھ بڑھادیتے وہ باطل ہوتی، اور جب رسول اللہ ﷺ مبعوث فرمادیئے گئے تو انہیں( جنوں کو) ان کی نشست گاہوں سے روک دیاگیا توانہوں نے اس بات کاذکر ابلیس سے کیا: اس سے پہلے انہیں تارے پھینک پھینک کر نہ مارا جاتا تھا، ابلیس نے کہا: زمین میں کوئی نیا حادثہ وقوع پذیر ہوا ہے جبھی ایسا ہوا ہے، اس نے پتا لگانے کے لیے اپنے لشکر کو بھیجا، انہیں رسول اللہ ﷺ دوپہاڑوں کے درمیان کھڑے صلاۃ پڑھتے ہوئے ملے۔
راوی کہتے ہیں : میرا خیال ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا، وہ لوگ آپ سے ملے اور جاکر اسے بتایا ،پھر اس نے کہا یہی وہ حادثہ ہے جو زمین پر ظہور پذیر ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
70-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُدَّثِّرِ
۷۰-باب: سورہ مدثر سے بعض آیات کی تفسیر​


3325- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَائِ؛ فَرَفَعْتُ رَأْسِي؛ فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَائَ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَائِ وَالأَرْضِ؛ فَجُثِثْتُ مِنْهُ رُعْبًا؛ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي؛ فَدَثَّرُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ -إِلَى قَوْلِهِ- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ} قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلاَةُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرٍ وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ.
* تخريج: خ/بدء الوحي ۱ (۴)، وبدء الخلق ۷ (۳۲۳۸)، وتفسیر المدثر ۲ (۴۹۲۲)، وتفسیر ''اقراء باسم ربک'' (۴۹۵۴)، و الأدب ۱۱۸ (۶۲۱۴)، م/الإیمان ۷۳ (۱۶۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۱) (صحیح)
۳۳۲۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ وحی موقوف ہوجانے کے واقعہ کا ذکر کررہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا: میں چلاجارہاتھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سراٹھایا تو کیا دیکھتاہوں کہ وہ فرشتہ جو (غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے ، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہوگئی، میں لوٹ پڑا (گھر آکر) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو، تو لوگوں نے مجھے کمبل اڑھادیا، اسی موقع پر آیت { يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ} سے {وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ} ۱؎ تک نازل ہوئی، یہ واقعہ صلاۃ فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے،۳- اور ابوسلمہ کانام عبداللہ ہے۔(یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا)۔
وضاحت ۱؎ : اے کپڑااوڑھنے والے ، کھڑے ہوجااورلوگوں کوڈرا، اوراپنے رب کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کوپاک رکھاکر، اورناپاکی کو چھوڑدے (المدثر:۱-۵)۔


3326- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الصَّعُودُ جَبَلٌ مِنْ نَارٍ يَتَصَعَّدُ فِيهِ الْكَافِرُ سَبْعِينَ خَرِيفًا ثُمَّ يُهْوَى بِهِ كَذَلِكَ فِيهِ أَبَدًا".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، وَقَدْ رُوِيَ شَيْئٌ مِنْ هَذَا عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۵۷۶ (ضعیف)
۳۳۲۶- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' صعود جہنم کا ایک پہاڑ ہے، اس پر کافر ستر سال تک چڑھتا رہے گاپھر وہاں سے لڑھک جائے گا، یہی عذاب اسے ہمیشہ ہوتارہے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے مرفوع صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳-اس حدیث کا کچھ حصہ عطیہ سے مروی ہے جسے وہ ابوسعید سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مولف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ {سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا} ( المدثر:17)کی تفسیرمیں لائے ہیں۔


3327- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ نَاسٌ مِنْ الْيَهُودِ لأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّكُمْ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالُوا: لاَ نَدْرِي حَتَّى نَسْأَلَ نَبِيَّنَا؛ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَامُحَمَّدُ! غُلِبَ أَصْحَابُكَ الْيَوْمَ قَالَ: وَبِمَا غُلِبُوا، قَالَ: سَأَلَهُمْ يَهُودُ هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّكُمْ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ؟ قَالَ: "فَمَا قَالُوا؟"، قَالَ: قَالُوا: لا نَدْرِي حَتَّى نَسْأَلَ نَبِيَّنَا قَالَ: "أَفَغُلِبَ قَوْمٌ سُئِلُوا عَمَّا لا يَعْلَمُونَ فَقَالُوا: لا نَعْلَمُ حَتَّى نَسْأَلَ نَبِيَّنَا لَكِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا نَبِيَّهُمْ؛ فَقَالُوا: {أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً}[النساء: 153] عَلَيَّ بِأَعْدَائِ اللَّهِ إِنِّي سَائِلُهُمْ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ وَهِيَ الدَّرْمَكُ"؛ فَلَمَّا جَائُوا، قَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ؟ قَالَ: "هَكَذَا وَهَكَذَا فِي مَرَّةٍ عَشَرَةٌ وَفِي مَرَّةٍ تِسْعَةٌ " قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ" قَالَ: فَسَكَتُوا هُنَيْهَةً، ثُمَّ قَالُوا: خْبْزَةٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْخُبْزُ مِنْ الدَّرْمَكِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۱) (ضعیف)
(سندمیں مجالد ضعیف راوی ہیں)
۳۳۲۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: کچھ یہودیوں نے بعض صحابہ سے پوچھا : کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے مگر پوچھ کر جان لیں گے، اسی دوران ایک شخص نبی اکرم ﷺکے پاس آیا ، کہا: اے محمد ! آج تو تمہارے ساتھی ہار گئے، آپ نے پوچھا کیسے ہار گئے؟ اس نے کہا: یہود نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارانبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ آپ نے پوچھا انہوں نے کیاجواب دیا ؟ اس نے کہا: انہوں نے کہا: ہمیں نہیں معلوم، ہم اپنے نبی سے پوچھ کر بتاسکتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' کیا وہ قوم ہار ی ہوئی مانی جاتی ہے جس سے ایسی چیز پوچھی گئی ہو جسے وہ نہ جانتی ہو اور انہوں نے کہاہوکہ ہم نہیں جانتے جب تک کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ نہ لیں؟ (اس میں ہارنے کی کوئی بات نہیں ہے) البتہ ان لوگوں نے تو اس سے بڑھ کر بے ادبی وگستاخی کی بات کی، جنہوں نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا کہ ہمیں اللہ کو کھلے طورپر دکھادو، آپ نے فرمایا:'' اللہ کے ان دشمنوں کو ہمارے سامنے لاؤ میں ان سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوچھتا ہوں، وہ نرم مٹی ہے ، جب وہ سب یہودی آگئے تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم ! جہنم کے نگراں لوگوں کی کتنی تعداد ہے؟ آپ نے اس طرح ہاتھ سے اشارہ فرمایا:'' ایک مرتبہ دس (انگلیاں دکھائیں) اور ایک مرتبہ نو (کل ۱۹) انہوں نے کہا:ہاں ، (آپ نے درست فرمایا) اب آپ نے پلٹ کر ان سے پوچھا : جنت کی مٹی کا ہے کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: وہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے ، پھر کہنے لگے :ابوالقاسم!وہ روٹی کی ہے، آپ نے فرمایا: ''روٹی میدہ( نرم مٹی) کی ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے مجالد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ {وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلاَّ مَلَائِكَةً} (المدثر:31) کی تفسیرمیں لائے ہیں۔


3328- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُطَعِيُّ -وَهُوَ أَخُو حَزْمِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ الْقُطَعِيُّ-، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الآيَةَ: {هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ} [المدثر: 56] قَالَ: "قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى فَمَنْ اتَّقَانِي فَلَمْ يَجْعَلْ مَعِي إِلَهًا فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَسُهَيْلٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ ثَابِتٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۵ (۴۲۹۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۴) (ضعیف)
(سندمیں سہیل ضعیف راوی ہیں)
۳۳۲۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے آیت کریمہ: {هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ} ۱؎ کے بارے میں فرمایا : اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں اس کا اہل اور سزاوار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، تو جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا یا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- سہل حدیث میں قوی نہیں مانے جاتے ہیں اوروہ یہ حدیث ثابت سے روایت کرنے میں تنہا(بھی) ہیں۔
وضاحت ۱؎ : وہی (اللہ)ہے جس سے ڈرناچاہئے ، اوروہی مغفرت کرنے والاہے ،( المدثر:۵۶)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
71-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْقِيَامَةِ
۷۱- باب: سورہ القیامہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3329- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ} [القيامة: 16] قَالَ: فَكَانَ يُحَرِّكُ بِهِ شَفَتَيْهِ وَحَرَّكَ سُفْيَانُ شَفَتَيْهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُحْسِنُ الثَّنَائَ عَلَى مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ خَيْرًا.
* تخريج: خ/بدء الوحی ۴ (۵)، وتفسیر سورۃ القیامۃ ۱ (۴۹۲۷)، و۲ (۴۹۲۸)، و۳ (۴۹۲۹)، وفضائل القرآن ۲۸ (۵۰۴۴)، والتوحید ۴۳ (۷۵۲۴)، م/الصلاۃ ۳۲ (۴۴۸)، ن/الافتتاح ۳۷ (۹۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۵۶۳۷)، وحم (۱/۳۴۳) (صحیح)
۳۳۲۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ پرقرآن نازل ہوتا تو جلدی جلدی زبان چلانے (دہرانے) لگتے تاکہ اسے یاد ومحفوظ کرلیں، اس پر اللہ نے آیت {لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ} ۱؎ نازل ہوئی۔ (راوی) اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، (ان کے شاگرد) سفیان نے بھی اپنے ہونٹ ہلاکر دکھائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان نے کہا کہ سفیان ثوری موسیٰ بن ابی عائشہ کو اچھا سمجھتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : اے نبی!) آپ قرآن کوجلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں(القیامۃ:۱۶)


3330- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَبَابَةُ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرٍ قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ وَأَكْرَمُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:{وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ}".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ مِثْلَ هَذَا مَرْفُوعًا. وَرَوَى عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبْجَرَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلَهُ: وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۶۶) (ضعیف)
(سندمیں ثویر ضعیف اور رافضی ہے)


3330/م- وَرَوَى الأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلَهُ: وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَ فِيهِ عَنْ مُجَاهِدٍ غَيْرَ الثَّوْرِيِّ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُوكُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ.
وَثُوَيْرٌ يُكْنَى أَبَا جَهْمٍ وَأَبُوفَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلاقَةَ.
* تخريج : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۳۳۰- ثویر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جنتیوں میں کمتر درجے کا جنتی وہ ہوگا جو جنت میں اپنے باغوں کو، اپنی بیویوں کو، اپنے خدمت گزاروں کو،اور اپنے (سجے سجائے) تختوں (مسہریوں) کو ایک ہزار سال کی مسافت کی دوری سے دیکھے گا، اور ان میں اللہ عزوجل کے یہاں بڑے عزت وکرامت والا شخص وہ ہوگا جو صبح وشام اللہ کا دیدار کرے گا، پھر آپ نے آیت {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} ۱؎ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے اور کئی راویوں نے یہ حدیث اسی طرح اسرائیل سے مرفوعاً (ہی)روایت کی ہے،۲- عبدالملک بن ابجر نے ثویر سے ،ثویر نے ابن عمر سے روایت کی ہے، اور اسے ابن عمر کے قول سے روایت کیاہے اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔
اشجعی نے سفیان سے ،سفیان نے ثویر سے، ثویر نے مجاہد سے اورمجاہد نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے، اوران کے قول سے روایت کی ہے اور اسے انہوں نے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے، اور میں ثوری کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند میں مجاہد کانام لیا ہو،۴- اسے ہم سے بیان کیا ابوکریب نے ،و ہ کہتے ہیں : ہم سے بیان کیا عبیداللہ اشجعی نے اورعبیداللہ اشجعی نے روایت کی سفیان سے، ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور ابوفاختہ کانام سعید بن علاقہ ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس روز بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے(القیامۃ:۲۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
72-بَاب وَمِنْ سُورَةِ عَبَسَ
۷۲-باب: سورہ عبس سے بعض آیات کی تفسیر​


3331- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعيدٍ الأَمَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: هَذَا مَا عَرَضْنَا عَلَى هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أُنْزِلَ عَبَسَ وَتَوَلَّى فِي ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الأَعْمَى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَجَعَلَ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرْشِدْنِي وَعِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ رَجُلٌ مِنْ عُظَمَائِ الْمُشْرِكِينَ؛ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُعْرِضُ عَنْهُ، وَيُقْبِلُ عَلَى الآخَرِ، وَيَقُولُ: أَتَرَى بِمَا أَقُولُ بَأْسًا؛ فَيَقُولُ: لا، فَفِي هَذَا أُنْزِلَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: أُنْزِلَ عَبَسَ وَتَوَلَّى فِي ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۰۵) (صحیح الإسناد)
۳۳۳۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : {عَبَسَ وَتَوَلَّى} والی سورہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم نابینا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ، آکر کہنے لگے: اللہ کے رسول! مجھے وعظ ونصیحت فرمائیے، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس مشرکین کے اکابرین میں سے کوئی بڑا شخص موجود تھا، تو رسول اللہ ﷺ ان سے اعراض کرنے لگے اور دوسرے (مشرک) کی طرف توجہ فرماتے رہے اور اس سے کہتے رہے میں جو تمہیں کہہ رہاہوں اس میں تم کچھ حرج اور نقصان پارہے ہو؟ وہ کہتا نہیں، اسی سلسلے میں یہ آیتیں نازل کی گئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- بعض نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے،ا نہوں نے اپنے باپ عروہ سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں { عَبَسَ وَتَوَلَّى} ابن ام مکتوم کے حق میں اتری ہے اوراس کی سند میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا ۔


3332- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ هِلالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً فَقَالَتْ امْرَأَةٌ أَيُبْصِرُ أَوْ يَرَى بَعْضُنَا عَوْرَةَ بَعْضٍ قَالَ: يَا فُلاَنَةُ! لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ أَيْضًا. وَفِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۳۵) (حسن صحیح)
۳۳۳۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' تم لوگ ( قیامت کے دن) جمع کیے جاؤگے ننگے پیر، ننگے جسم، بے ختنہ کے ، ایک عورت (ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے کہا: کیا ہم میں سے بعض بعض کی شرم گاہ دیکھے گا؟ آپ نے فرمایا:'' اے فلانی! اس دن ہر ایک کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسرے کی فکر سے غافل وبے نیاز کردے گی '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ مختلف سندوں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور اسے سعید بن جبیر نے بھی روایت کیا ہے،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : سورہ عبس :۴۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
73-بَاب وَمِنْ سُورَةِ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ
۷۳-باب: سورہ'' إذا الشمس کورت''سے بعض آیات کی تفسیر​


3333- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ -وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ الصَّنْعَانِيُّ- قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْيُ عَيْنٍ فَلْيَقْرَأْ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَإِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ، وَإِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
وَرَوَى هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَالَ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْيُ عَيْنٍ فَلْيَقْرَأْ: إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَلَمْ يَذْكُرْ وَإِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ، وَإِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۳۰۲) (صحیح)
۳۳۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جسے اچھا لگے کہ وہ قیامت کادن دیکھے اور اس طرح دیکھے گویا کہ اس نے آنکھوں سے دیکھا ہے تو اسے چاہیے کہ {إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ} اور {وَإِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ} {وَإِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ} ۱؎ پڑھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہشام بن یوسف وغیرہ نے یہ حدیث اسی سند سے روایت کی ہے(اس میں ہے) آپ نے فرمایا:'' جسے خوشی ہوکہ وہ قیامت کا دن دیکھے آنکھ سے دیکھنے کی طرح اسے چاہیے کہ سورہ {إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ} پڑھے، ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں {وَإِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ} اور {وَإِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ} کا ذکر نہیں کیا ۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ یہ تینوں سورتیں قیامت کا واضح نقشہ پیش کرتی ہیں۔
 
Top