• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
84-بَاب وَمِنْ سُورَةِ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ
۸۴-باب: سورہ اقرأ باسم ربک سے بعض آیات کی تفسیر​


3348- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا {سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ} قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: لَئِنْ رَأَيْتُ مُحَمَّدًا يُصَلِّي لأَطَأَنَّ عَلَى عُنُقِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لَوْ فَعَلَ لأَخَذَتْهُ الْمَلائِكَةُ عِيَانًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ العلق ۴ (۴۹۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۴۸) (صحیح)
۳۳۴۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت { سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ } ۱؎ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابوجہل نے کہا: اگر میں نے محمد ( ﷺ) کو صلاۃ پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن کو لاتوں سے روندوں گا، یہ بات آپ نے سنی تو فرمایا:'' اگر وہ ایسا کرتاتو فرشتے اسے دیکھتے ہی دبوچ لیتے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم بھی جہنم کے پیادوں کو بلالیں گے(العلق:۱۸)۔


3349- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي فَجَاءَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ: أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا؟ أَلَمْ أَنْهَكَ عَنْ هَذَا؟ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَزَبَرَهُ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ} فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۲) (صحیح الإسناد)
۳۳۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ صلاۃ پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آگیا، اس نے کہا: میں نے تمہیں اس (صلاۃ) سے منع نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے تجھے اس (صلاۃ ) سے منع نہیں کیا تھا؟ نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ سے سلام پھیرا اور اسے ڈانٹا ، ابوجہل نے کہا: تجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ کسی کے ہمنشیں نہیں ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی {فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ} ۱؎ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:قسم اللہ کی ! اگر وہ اپنے ہم نشینوں کو بلالیتا تو عذاب پرمتعین اللہ کے فرشتے اسے دھردبوچتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اپنے ہم نشینوں کو بلاکر دیکھ لے، ہم جہنم کے فرشتوں کو بلالیتے ہیں(العلق:۱۷-۱۸)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
85-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْقَدْرِ
۸۵-باب: سورہ قدر سے بعض آیات کی تفسیر​


3350- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَ مَا بَايَعَ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: سَوَّدْتَ وُجُوهَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ يَا مُسَوِّدَ وُجُوهِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: لاَ تُؤَنِّبْنِي رَحِمَكَ اللَّهُ؛ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُرِيَ بَنِي أُمَيَّةَ عَلَى مِنْبَرِهِ فَسَائَهُ ذَلِكَ فَنَزَلَتْ: {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} يَا مُحَمَّدُ! يَعْنِي نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} يَمْلِكُهَا بَعْدَكَ بَنُو أُمَيَّةَ يَامُحَمَّدُ! قَالَ الْقَاسِمُ: فَعَدَدْنَاهَا فَإِذَا هِيَ أَلْفُ شَهْرٍ لاَ يَزِيدُ يَوْمٌ، وَلاَيَنْقُصُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، وَقَدْ قِيلَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْل، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ، وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ هُوَ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَيُوسُفُ بْنُ سَعْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ، وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۷) (ضعیف)
(سند میں اضطراب ہے، اور متن منکر ہے، جیساکہ مؤلف نے بیان کردیا ہے)
۳۳۵۰- یوسف بن سعد کہتے ہیں : ایک شخص حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلینے کے بعد گیا اور کہا: آپ نے تومسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دی، (راوی کو شک ہے ''سودت'' کہا یا ''یا مسود وجوہ المومنین '' (مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دینے والا ) کہا، انہوں نے کہا تو مجھ پر الزام نہ رکھ، اللہ تم پر رحم فرمائے، نبی اکرمﷺ کو بنی امیہ اپنے منبر پر دکھائے گئے تو آپ کو یہ چیز بری لگی، اس پر آیت {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ } ۱؎ نازل ہوئی۔ کوثر جنت کی ایک نہر ہے اور سورہ قدر کی آیات {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} ۲؎ نازل ہوئیں، اے محمد تیر ے بعد بنو امیہ ان مہینوں کے مالک ہوں گے ۳؎ قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں: ہم نے بنی امیہ کے ایام حکومت کو گنا تو وہ ہزار مہینے ہی نکلے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اس سند سے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲-یہ بھی کہاگیا ہے کہ قاسم بن فضل سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یوسف بن مازن سے روایت کی ہے، قاسم بن فضل حدانی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی نے ثقہ کہا ہے، اور یوسف بن سعد ایک مجہول شخص ہیں اور ہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے محمد ! ہم نے آپ کو کوثر دی ۔
وضاحت ۲؎ : ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ،او ر تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔
وضاحت۳؎ : سندمیں اضطراب اورمجہول راوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے متن میں سخت نکارت ہے، کہاں آیت کا نزول شب قدر کی فضیلت کے بیان کے لیے ہونا ، اورکہاں بنوامیہ کی حدث خلافت ؟ یہ سب بے تکی باتیں ہیں، نیز کہاں {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} کی شان نزول ، اورکہاں بنوامیہ کی چھوٹی خلافت۔


3351- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ وَعَاصِمٍ -هُوَ ابْنُ بَهْدَلَةَ-، سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ- وَزِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ يُكْنَى أَبَا مَرْيَمَ-يَقُولُ: قُلْتُ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: إِنَّ أَخَاكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ؛ فَقَالَ: يَغْفِرُ اللَّهُ لأَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنَّهُ أَرَادَ أَنْ لا يَتَّكِلَ النَّاسُ، ثُمَّ حَلَفَ لا يَسْتَثْنِي أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْئٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ؟! قَالَ: بِالآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَوْ بِالْعَلامَةِ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لا شُعَاعَ لَهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۷۹۳ (حسن صحیح)
۳۳۵۱- زر بن حبیش (جن کی کنیت ابومریم ہے) کہتے ہیں: میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہوکر صلاتیں پڑھتارہے وہ لیلۃ القدر پالے گا،ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمن کی مغفرت فرمائے ( ابوعبدالرحمن ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں (۲۷) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں( ۲۷) رات پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آجائیں ، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھاکر کہا:(شب قدر) یہ (۲۷) رات ہی ہے، زربن حبیش کہتے ہیں : میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہوگیا ہے کہ انہوں نے ''بالآیۃ'' کا لفظ استعمال کیا یا '' بالعلامۃ'' کا آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ۲۷ویں شب کی صبح ) سورج طلوع تو ہوگا لیکن اس میں شعاع نہ ہوگی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کئی برسوں کے تجربہ کی بنیادپرمذکورہ علامتوں کو۲۷/کی شب منطبق پانے بعد ہی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ یہ دعویٰ کیا تھا اوراس کی سندبھی صحیح ہے ، اس لیے آپ کا دعویٰ مبنی برحق ہے ، لیکن سنت کے مطابق دس دن اعتکاف کرنا یہ الگ سنت ہے، اورالگ اجروثواب کا ذریعہ ہے ، نیز صرف طاق راتوں میں شب بیداری کرنے والوں کی شب قدرتو ملے گی ہے ، مزید اجروثواب الگ ہوگا ، ہاں!پورے سال میں شب قدرکی تلاش کی بات : یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کااپنا اجتہادہوسکتاہے ، ویسے بھی شب قدرکا حصول اوراجروثواب تومتعین ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
86-بَاب وَمِنْ سُورَةِ لَمْ يَكُنْ
۸۶-باب: سورہ لم یکن سے بعض آیات کی تفسیر​


3352- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ! قَالَ: "ذَلِكَ إِبْرَاهِيمُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفضائل ۴۱ (۲۳۶۹)، د/السنۃ ۱۴ (۴۶۷۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۴)، وحإ (۳/۱۷۸، ۱۸۴) (صحیح)
۳۳۵۲- مختار بن فلفل کہتے ہیں : میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے کہا : یا'' خير البرية!'' اے تمام مخلوق میں بہتر ! آپ نے فرمایا:'' یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایساآپ ﷺنے تواضعاً اورابراہیم علیہ السلام کے لیے احتراماً فرمایاتھا، ورنہ آپ خود اپنے فرمان کے مطابق: ''سیدولدآدم''ہیں، اوریہی ہمارا عقیدہ ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے مولف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ {أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ}(البينة:7) کی تفسیرمیں لائے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
87-بَاب وَمِنْ سُورَةِ إِذَا زُلْزِلَتْ
۸۷-باب: سورہ '' إذا زلزلت'' سے بعض آیات کی تفسیر​


3353- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذِهِ الآيَةَ: {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} قَالَ: أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ أَخْبَارَهَا أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا تَقُولُ: عَمِلَ يَوْمَ كَذَا كَذَا وَكَذَا فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۲۹ (ضعیف الإسناد)
۳۳۵۳- ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہﷺ نے (سورہ زلزال کی) آیت {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} ۱؎ پڑھی، پھر آپ نے پوچھا: کیا تم لوگ جانتے ہو اس کی خبریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول زیادہ بہترجانتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' اس کی خبر یں یہ ہیں کہ اس کی پیٹھ پر یعنی زمین پر ہر بندے نے خواہ مرد ہو یا عورت جوکچھ کیا ہوگا اس کی وہ گواہی دے گی، وہ کہے گی: اس بندے نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا، یہی اس کی خبریں ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی(الزلزال:۴)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
88-بَاب وَمِنْ سُورَةِ أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ
۸۸-باب: سورہ تکاثر سےبعض آیات کی تفسیر


3354- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يَقْرَأُ: {أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ} قَالَ: "يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلاَّ مَا تَصَدَّقْتَ؛ فَأَمْضَيْتَ، أَوْ أَكَلْتَ؛ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ؛ فَأَبْلَيْتَ؟".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَن صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۳۴۲ (صحیح)
۳۳۵۴- شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت {أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ } ۱؎ تلاوت فرمارہے تھے ، آپ نے فرمایا:'' ابن آدم میرا مال ، میرامال کہے جاتاہے ( اسی ہوس وفکر میں مراجاتا ہے) مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا (التکاثر:۱)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی: ابن آدم کا حقیقی مال وہی ہے جو اس نے راہ خدامیں خرچ کیا ، یا خود کھایا پیااورپہن کربوسیدہ کردیا، اورباقی جانے والا مال تو اس کا اپنا مال نہیں بلکہ اس کے وارثین کا مال ہے۔


3355- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا زِلْنَا نَشُكُّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّى نَزَلَتْ: {أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ} قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: مَرَّةً عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَازِيٌّ، وَعَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلاَئِيُّ كُوفِيٌّ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۹۵) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں حجاج بن ارطاۃ ضعیف اور مدلس راوی ہیں)
۳۳۵۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں رہے، یہاں تک کہ سورہ {أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ } نازل ہوئی ، تو ہمیں اس پر یقین حاصل ہوا۔
ابوکریب کبھی عمرو بن ابی قیس کہتے ہیں، تو یہ عمروبن قیس رازی ہیں - اور عمر وبن قیس ملائی کوفی ہیں اور یہ ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں: اوروہ (ابن ابی لیلیٰ) روایت کرتے ہیں منہال بن عمرو سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


3356- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِيمِ} قَالَ الزُّبَيْرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَأَيُّ النَّعِيمِ؟ نُسْأَلُ عَنْهُ، وَإِنَّمَا هُمَا الأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَائُ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۲ (۴۱۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۵) (حسن)
۳۳۵۶- زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت { ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِيمِ} ۱؎ نازل ہوئی تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول ! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ ہمیں تو صرف دوہی (کالی) نعمتیں حاصل ہیں، ایک کھجور اور دوسرے پانی ۲؎ آپ نے فرمایا:'' عنقریب وہ بھی ہوجائیں گی۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہوگا(التکاثر:۸)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ان دونوں نعمتوں کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا، اور دوسرے اور بہت سی نعمتیں بھی حاصل ہوجائیں گی۔
وضاحت۳؎ : مدینہ کی کھجوریں عموماًکالی ہوتی تھیں، اورپانی کواغلباً کالا کہہ دیا جاتاتھا اس لیے ان دونوں کو عرب ''الاسودان''(دوکالے کھانے ) کہا کرتے تھے۔


3357- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ} قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَنْ أَيِّ النَّعِيمِ؟ نُسْأَلُ؛ فَإِنَّمَا هُمَا الأَسْوَدَانِ وَالْعَدُوُّ حَاضِرٌ وَسُيُوفُنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا؟ قَالَ: "إِنَّ ذَلِكَ سَيَكُونُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ هَذَا وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَحْفَظُ وَأَصَحُّ حَدِيثًا مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۲۱) (حسن)
(سندمیں ابوبکر بن عیاش کا حافظہ بڑھاپے میں کمزور ہوگیا تھا، لیکن سابقہ حدیث کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)
۳۳۵۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت {ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ } نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھاجائے گا؟ وہ تو صرف یہی دوسیاہ چیزیں ہیں (ایک کھجور دوسرا پانی ) (ہمارا ) دشمن (سامنے) حاضر وموجود ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ۱؎ ۔آپ نے فرمایا:'' (تمہیں ابھی معلوم نہیں) عنقریب ایسا ہوگا (کہ تمہارے پاس نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث سے زیادہ صحیح میرے نزدیک ابن عیینہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ محمد بن عمر سے روایت کرتے ہیں،(یعنی پچھلی روایت) سفیان بن عیینہ ابوبکر بن عیاش کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ یادرکھنے اور زیادہ صحت کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ہمیں لڑنے مرنے سے فرصت کہاں کہ ہمارے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوں اور ہم ان نعمتوں میں عیش ومستی کریں جس کی ہم سے باز پرس کی جائے۔


3358- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْعَلائِ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَمٍ الأَشْعَرِيِّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ -يَعْنِي الْعَبْدَ مِنْ النَّعِيمِ- أَنْ يُقَالَ لَهُ أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَالضَّحَّاكُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ وَيُقَالُ: ابْنُ عَرْزَمٍ وَابْنُ عَرْزَمٍ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۱۱) (صحیح)
۳۳۵۸- ضحاک بن عبدالرحمن بن عرزم اشعری کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،(وہ یہ ہیں) اس سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمہیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا؟''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ضحاک ، یہ بیٹے ہیں عبدالرحمن بن عرزب کے، اور انہیں ابن عرزم بھی کہا جاتاہے اور ابن عرزم کہنا زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
89-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْكَوْثَرِ
۸۹-باب: سورہ کوثر سے بعض آیات کی تفسیر​


3359- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "هُوَ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ" قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "رَأَيْتُ نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ، قُلْتُ: مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَهُ اللَّهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۸) (صحیح)
۳۳۵۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ارشادباری {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ } کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پرموتی کے گنبدبنے ہوئے ہیں، میں نے کہا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کوثر ہے جوا للہ نے آپ کو دی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ''کوثروہ خیرکثیرہے جونبیﷺکودی گئی ہے''اس پربعض لوگوں نے ان کے شاگرد سعیدبن جبیرسے کہا کہ'' تویہ جاتاہے کہ وہ ایک نہرہے جنت میں؟تو اس پر سعیدبن جبیر نے کہا:یہ نہربھی منجملہ خیرکثیرہی کے ہے'' گویا سعیدبن جبیر نے دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے ، ویسے جب بزبان رسالت مآب صحیح سندسے یہ تصریح آگئی کہ کوثرجنت میں ایک نہرہے تو پھرکسی اور روایت کی طرف جانے کی ضرورت نہیں (تحفۃ وتفسیرابن جریر )


3360- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذْ عُرِضَ لِي نَهْرٌ حَافَّتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ قُلْتُ لِلْمَلَكِ؟ مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَهُ اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَى طِينَةٍ؛ فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا، ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَرَأَيْتُ عِنْدَهَا نُورًا عَظِيمًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/الرقاق ۵۳ (۶۵۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴) (صحیح)
۳۳۶۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں جنت میںچلا جارہاتھاکہ اچانک میرے سامنے ایک نہر پیش کی گئی جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبدبنے ہوئے تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کیاہے؟ انہوں نے کہا: یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔ پھر انہوں نے اپنا ہاتھ مٹی تک ڈال دیا، نکالا تو وہ مشک کی طرح مہک رہی تھی، پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہی لاکر پیش کی گئی ، میں نے وہاں بہت زیادہ نور (نور عظیم) دیکھا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے آئی ہے۔


3361- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْكَوْثَرُ نَهْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ، وَمَجْرَاهُ عَلَى الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ تُرْبَتُهُ أَطْيَبُ مِنْ الْمِسْكِ، وَمَاؤُهُ أَحْلَى مِنْ الْعَسَلِ، وَأَبْيَضُ مِنْ الثَّلْجِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۹ (۴۳۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۴) (صحیح)
۳۳۶۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ''الکوثر '' جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس کے پانی کا گزر موتیوں اور یاقوت پرہوتاہے، اس کی مٹی مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہے اور اس کاپانی شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہے اور برف سے بھی زیادہ سفید ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
90-بَاب وَمِنْ سُورَةِ النَّصْرِ
۹۰-باب: سورہ نصر سے بعض آیات کی تفسیر​


3362- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ عُمَرُ يَسْأَلُنِي مَعَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَتَسْأَلُهُ وَلَنَا بَنُونَ مِثْلُهُ؛ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: إِنَّهُ مِنْ حَيْثُ تَعْلَمُ؛ فَسَأَلَهُ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} فَقُلْتُ: إِنَّمَا هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَعْلَمَهُ إِيَّاهُ، وَقَرَأَ السُّورَةَ إِلَى آخِرِهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلا مَا تَعْلَمُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۲۷)، والمغازي ۵۱ (۴۲۹۴)، و ۸۳ (۴۴۳۰)، وتفسیر سورۃ النصر ۱ (۴۹۶۹، ۴۹۷۰)، والرقاق ۵۳ (۶۵۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۵۶) (صحیح)
3362/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَتَسْأَلُهُ وَلَنَا أَبْنَائٌ مِثْلُهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۳۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کی موجود گی میں عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے (مسئلہ) پوچھتے تھے (ایک بار) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ ان ہی سے کیوں پوچھتے ہیں جب کہ ہمارے بھی ان کے جیسے بچے ہیں (کیابات ہے؟) عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا وہ جس مقام ومرتبہ پر ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر انہوں نے ان سے اس آیت {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ } کے بارے میں پوچھا، (ابن عباس کہتے ہیں:) میں نے کہا:اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر ہے،اللہ نے آپ کو آگاہ کیا ہے ، انہوں نے یہ پوری سورہ شروع سے آخرتک پڑھی، عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: قسم اللہ کی ! میں نے اس سورہ سے وہی سمجھا اور جانا جو تونے سمجھا اور جانا ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ہم سے بیان کیا محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں:ہم سے بیان کیا محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا شعبہ نے اور انہوں نے روایت کی اسے اسی سند کے ساتھ اسی طرح ابوبشر سے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں: عبدالرحمن بن عوف نے کہا: {أَتَسْأَلُهُ وَلَنَا أَبْنَائٌ مِثْلُهُ} ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے ثابت ہوگیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما دیگرصحابہ کے بچوں کے ہم عمرہو نے کے باوجودعلمی گہرائی میں ان سے بدرجہابڑھے ہوئے تھے ، کیوں نہ ہوں، ان کے لیے نبیﷺکی خاص دعاء '' اللهم علمه التأويل وفقهه في الدين'' اے اللہ ان کوتفسیرکا علم اوردین میں سمجھ (فقہ) عطافرما)۔
وضاحت ۲؎ : بات ایک ہے مگر دونوں روایتوں میں صرف چند الفاظ کا الٹ پھر ہے، پہلی روایت میں ہے ''ولنا بنون مثله'' اور اس روایت میں ہے ''وَلَنَا أَبْنَائٌ مِثْلُهُ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
91-بَاب وَمِنْ سُورَةِ تَبَّتْ يَدَا
۹۱-باب: سورہ تبت یدا سے بعض آیات کی تفسیر​


3363- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الصَّفَا فَنَادَى يَا صَبَاحَاهُ! فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ؛ فَقَالَ: إِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنِّي أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُمَسِّيكُمْ أَوْ مُصَبِّحُكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي؛ فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۹۸ (۱۳۹۴)، والمناقب ۱۳ (۳۵۲۵)، وتفیسر الشعراء ۲ (۴۷۷۰)، وتفسیر سبا ۲ (۴۸۰۱)، وتفسیر تبت یدا أبي لہب ۱ (۴۹۷۱)، و۲ (۴۹۷۲)، و۳ (۴۹۷۳)، وم/الإیمان ۸۹ (۲۰۸) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۹۴) (صحیح)
۳۳۶۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : ایک دن رسول اللہ ﷺ صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے، وہاں سے یا''صباحاه'' ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہوگئے۔ آپ نے فرمایا:'' میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں ، بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبردوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے)دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہار ستیاناس ہو ۲؎ ، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ} ۳؎ نازل فرمائی ،امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ آواز عرب اس وقت لگایاکرتے تھے جب قبیلہ حملہ والوں کو کسی خاص اوراہم معاملہ کے لیے جمع کرناہوتاتھا۔
وضاحت ۲؎ : دیگرروایات میں آتاہے کہ لوگوں کے جمع ہو جانے پر پہلے آپ نے ان سے تصدیق چاہی کہ اگرمیں ایساکہوں تو کیا تم میری بات کی تصدیق کروگے ، نہیں؟اس پرانھوں نے کہا ، کیوں نہیں کریں گے، آپ ہمارے درمیان امین اورصادق مسلم ہیں،اس پر آپ ﷺنے توحیدکی دعوت پیش کی اس دلیل سے کہ تب میری اس بات پر بھی تصدیق کرو اس پر ابولہب نے مذکورہ بات کہی۔
وضاحت۳؎ : ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا(تبت:۱)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
92-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الإِخْلاصِ
۹۲-باب: سورہ اخلاص سے بعض آیات کی تفسیر​


3364- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ -هُوَ الصَّغَانِيُّ-، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَالُوا: لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ} وَالصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ لأَنَّهُ لَيْسَ شَيْئٌ يُولَدُ إِلاَّ سَيَمُوتُ، وَلاَ شَيْئٌ يَمُوتُ إِلاَّ سَيُورَثُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لاَيَمُوتُ، وَلاَ يُورَثُ ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ قَالَ: لَمْ يَكُنْ لَهُ شَبِيهٌ، وَلا عِدْلٌ، وَلَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶) (حسن)
آیت تک صحیح ہے ، اور ''الصمد الذي إالخ) کا سیاق صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ سند میں ابوجعفر الرازی سیٔ الحفظ اور ابوسعید الخراسانی ضعیف ہیں، اور مسند احمد ۵/۱۱۳،۱۳۴، اورطبری ۳۰/۲۲۱ کے طریق سے تقویت پاکر اول حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی ۵۵۹)
۳۳۶۴- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ } ۱؎ نازل فرمائی، اور صمد وہ ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہواہو، - اس لیے (اصول یہ ہے کہ ) جو بھی کوئی چیز پیدا ہوگی وہ ضرور مرے گی اور جو بھی کوئی چیز مرے گی اس کا وارث ہو گا، اور اللہ عزوجل کی ذات ایسی ہے کہ نہ وہ مرے گی اور نہ ہی اس کاکوئی وارث ہو گا، {وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ} (اور نہ اس کا کوئی کفو (ہمسر) ہے، راوی کہتے ہیں: کفو یعنی اس کے مشابہ اور برابر کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی اس جیسا کوئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کہہ دیجئے اللہ اکیلا ہے، اللہ بے نیاز ہے(الاخلاص:۱-۲)۔


3365- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنِ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرَ آلِهَتَهُمْ فَقَالُوا: انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ قَالَ: فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ بِهَذِهِ السُّورَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ.
وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعْدٍ، وَأَبُو سَعْدٍ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ، وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ اسْمُهُ عِيسَى، وَأَبُوالْعَالِيَةِ اسْمُهُ رُفَيْعٌ، وَكَانَ عَبْدًا أَعْتَقَتْهُ امْرَأَةٌ سَابِيَةٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (ضعیف)
(یہ مرسل روایت ہے)
۳۳۶۵- ابولعالیہ (رفیع بن مہران) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ان کے (یعنی مشرکین کے) معبودوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ ہم سے اپنے رب کا نسب بیان کیجئے، آپ نے بتایا کہ جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس یہ سورہ { قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} لے کر آئے ، پھر انہوں نے اسی طرح حدیث بیان کی، اور اس کی سند میں ابی بن کعب سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ ابو سعد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ابوسعد کا نام محمد بن میسر ہے، اور ابوجعفر رازی کانام عیسیٰ ہے، ابوالعالیہ کانام رفیع ہے یہ ایک غلام تھے جنہیں ایک قیدی عورت نے آزاد کیا تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
93-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ
۹۳-باب: معوّذتین سے بعض آیات کی تفسیر​


3366- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو الْعَقَدِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ! اسْتَعِيذِي بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا؛ فَإِنَّ هَذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۱۶ (۳۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۰۳)، وحم (۶/۲۱۵) (حسن صحیح)
۳۳۶۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چاند کی طرف دیکھ کرفرمایا: عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، کیوں کہ یہ غاسق ہے جب یہ ڈوب جائے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کے ڈوبنے سے رات کی تاریکی بڑھ جاتی ہے اور بڑھی ہوئی تاریکی میں زنا ، چوریاں بدکاریاں وغیرہ زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے اس سے پناہ مانگنے کے لیے کہاگیا ہے۔


3367- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ -وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَازِمٍ- عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ آيَاتٍ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} إِلَى آخِرِ السُّورَةِ وَ { قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} إِلَى آخِرِ السُّورَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۹۰۲ (صحیح)
۳۳۶۷- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' اللہ نے مجھ پر کچھ ایسی آیتیں نازل کی ہیں کہ ان جیسی آیتیں کہیں د یکھی نہ گئی ہیں، وہ ہیں {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} آخر سورہ تک اور { قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} آخر سورہ تک۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3368- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ؛ فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ! اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ الْمَلائِكَةِ إِلَى مَلإٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ؛ فَقُلْ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ قَالُوا: وَعَلَيْكَ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ فَقَالَ: اللَّهُ لَهُ، وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ اخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، قَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ، ثُمَّ بَسَطَهَا؛ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَا هَؤُلائِ فَقَالَ: هَؤُلائِ ذُرِّيَّتُكَ؛ فَإِذَا كُلُّ إِنْسَانٍ مَكْتُوبٌ عُمْرُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ؛ فَإِذَا فِيهِمْ رَجُلٌ أَضْوَؤُهُمْ أَوْ مِنْ أَضْوَئِهِمْ قَالَ: يَا رَبِّ! مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ قَدْ كَتَبْتُ لَهُ عُمْرَ أَرْبَعِينَ سَنَةً، قَالَ: يَا رَبِّ! زِدْهُ فِي عُمْرِهِ، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي كَتَبْتُ لَهُ قَالَ: أَيْ رَبِّ فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ عُمْرِي سِتِّينَ سَنَةً قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ قَالَ: ثُمَّ أُسْكِنَ الْجَنَّةَ مَا شَائَ اللَّهُ، ثُمَّ أُهْبِطَ مِنْهَا؛ فَكَانَ آدَمُ يَعُدُّ لِنَفْسِهِ قَالَ: فَأَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: قَدْ عَجَّلْتَ قَدْ كُتِبَ لِي أَلْفُ سَنَةٍ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّكَ جَعَلْتَ لابْنِكِ دَاوُدَ سِتِّينَ سَنَةً؛ فَجَحَدَ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنَسِيَ؛ فَنَسِيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، قَالَ: فَمِنْ يَوْمِئِذٍ أُمِرَ بِالْكِتَابِ وَالشُّهُودِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ .
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۸۲ (۲۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۵۵) (حسن صحیح)
۳۳۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونک دی،تو ان کو چھینک آئی ،انہوں نے الحمد للہ کہناچاہا چنانچہ اللہ کی اجازت سے الحمد للہ کہا، (تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) پھر ان سے ان کے رب نے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے اے آدم! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت وگروہ کے پاس جاؤ اوران سے السلام علیکم کہو، انہوں نے جاکر السلام علیکم کیا ، فرشتوں نے جواب دیا، وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ آئے ، اللہ نے فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری او لاد کا آپس میں طریقہ سلام ودعا ہے،پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کرکے آدم سے کہا: ان میں سے جسے چاہو پسندکرلو، وہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہاتھ ہیں اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور آدم کی ذریت تھی، آدم نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سب تیری اولاد ہیں اور ہر ایک کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں لکھی ہوئی ہے، ان میں ایک سب سے زیادہ روشن چہرہ والاتھا ، آدم نے پوچھا : اے میرے رب یہ کون ہے؟ کہا یہ تمہارا بیٹا داود ہے، میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھ دی ہے، آدم نے کہا: اے میرے رب! اس کی عمر بڑھادیجئے ، اللہ نے کہا: یہ عمر تو اس کی لکھی جاچکی ہے ، آدم نے کہا: اے میرے رب! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال اسے دیئے دیتاہوں، اللہ نے کہا: تم اور وہ جانو ؟ چلو خیر ، پھرآدم جنت میں رہے جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا، پھر آدم جنت سے نکال باہر کردیئے گئے، آدم اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے ، ملک الموت ان کے پاس آئے تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ تو جلدی آگئے میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی ہے، ملک الموت نے کہا: ہاں (بات تو صحیح ہے) لیکن آپ نے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داود کو دے دیے تھے، توانہوں نے انکار کردیا آدم کے اسی انکار کا نتیجہ اوراثر ہے کہ ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگ گئی، آدم بھول گئے، ان کی اولاد بھی بھولنے لگ گئی، اسی دن سے حکم دے دیاگیا ساری باتیں لکھ لی جایا کریں اور گواہ بنالیے جایاکریں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، اورابوہریرہ کی اس حدیث کو زید بن اسلم نے بطریق: أبی صالح، عن أبی ہریرۃ، عن النبیﷺ'' روایت کیا ہے۔
 
Top