أَبْوَابُ السَّفَرِ
کتاب: سفر کے احکام ومسائل
39- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ فِي السَّفَرِ
۳۹-باب: سفر میں قصرصلاۃ پڑھنے کا بیان
544- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ فَكَانُوا يُصَلُّونَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ لاَ يُصَلُّونَ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا. وَ قَالَ عَبْدُاللهِ: لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لأَتْمَمْتُهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ مِثْلَ هَذَا. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلاَةِ وَبَعْدَهَا. وَقَدْ صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَقْصُرُ فِي السَّفَرِ، وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلاَفَتِهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلاَةَ فِي السَّفَرِ. وَالْعَمَلُ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ . وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. إِلاَّ أَنَّ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: التَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ، فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلاَةَ أَجْزَأَ عَنْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۲۲۳) (صحیح)
۵۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد(سنت) صلاۃ پڑھتا تو میں ا نہی (فرائض ) کو پوری پڑھتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث بطریق:
''عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ '' بھی مروی ہے، ۳- اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سفرمیں صلاۃ سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ۱؎ ،۴- اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، انس، عمران بن حصین اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اورابوبکروعمر سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصرکرتے تھے، ۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ۷- اورعائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صلاۃ پوری پڑھتی تھیں ۲؎ ، ۸- اورعمل اسی پرہے جو نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے مروی ہے، یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفرمیں قصر کرنا رخصت ہے، اگر کوئی پوری صلاۃ پڑھ لے تو جائز ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ۵۵۱پرمولف کے یہاں آرہی ہے ، اورضعیف ومنکرہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ صحیح بخاری کی روایت ہے، اوربیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،گویاسفرمیں قصررخصت ہے اوراتمام جائزہے، اوریہی راجح قول ہے۔رخصت کے اختیارمیں سنت پرعمل اوراللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔
545- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ صَلاَةِ الْمُسَافِرِ؟ فَقَالَ: حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ: وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُثْمَانَ سِتَّ سِنِينَ مِنْ خِلاَفَتِهِ، أَوْ ثَمَانِيَ سِنِيْنَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق، وأخرج أبوداود (الصلاۃ۲۷۹/رقم۱۲۲۹) بہذا السند أیضا لکنہ بسیاق آخر (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۶۲) (صحیح)
( سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۵۴۵- ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مسافر کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں، اورمیں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یاآٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
546- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۵ (۱۰۸۹)، والحج ۲۴ (۱۵۵۶)، و۲۵ (۱۵۴۸)، و۱۱۹ (۱۷۱۴)، والجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، م/المسافرین ۱ (۶۹۰)، د/الصلاۃ ۲۷۱ (۱۲۰۲)، والحج ۲۱ (۱۷۷۳)، ن/الصلاۃ ۱۱ (۴۷۰)، و۱۷ (۴۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۱۶۶)، حم (۳/۱۱۰، ۱۱۱، ۱۷۷، ۱۸۶، ۲۳۷، ۲۶۸، ۳۷۸)، دي/الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۴۸) (صحیح)
۵۴۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دورکعتیں پڑھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تومسجدنبوی میں چارپڑھی، جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تووہاں دوقصر کرکے پڑھی ۔
وضاحت ۲؎ : ذوالحلیفہ : مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلومیٹرپرواقع ہے ، یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔
547- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ لاَ يَخَافُ إِلاَّ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۴۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳۶)، حم (۱/۲۱۵، ۲۳۶، ۲۴۵، ۲۶۲) (صحیح)
۵۴۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے ،آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔(اس کے باوجود) آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفرمیں قصرخوف کی وجہ سے نہیں ہے ، جیساکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، سفرخواہ کیسابھی پرامن ہو اس میں قصررخصت ہے۔