• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ صَلاَةَ الْعِيدَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ
۳۲-باب: عیدین کی صلاۃ بغیر اذان و اقامت کے ہے​


532- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْعِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلاَ مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّهُ لاَ يُؤَذَّنُ لِصَلاَةِ الْعِيدَيْنِ، وَلاَ لِشَيْئٍ مِنْ النَّوَافِلِ.
* تخريج: م/العیدین (۸۸۷)، د/الصلاۃ ۲۵۰ (۱۱۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۶۶)، حم (۵/۹۱) ( حسن صحیح)
۵۳۲- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ عیدین کی صلاۃ ایک اور دوسے زیادہ بار یعنی متعدد بار بغیر اذان اور بغیر اقامت کے پڑھی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- ا س باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ عیدین کی صلاۃ کے لیے اذان نہیں دی جائے گی اورنہ نوافل میں سے کسی کے لیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي الْعِيدَيْنِ
۳۳-باب: عیدین میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان​


533- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِـ{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} وَ {هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ} وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَيَقْرَأُ بِهِمَا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمِسْعَرٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ. وَأَمَّا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فَيُخْتَلَفُ عَلَيْهِ فِي الرِّوَايَةِ: يُرْوَى عَنْهُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ. وَلاَ نَعْرِفُ لِحَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ رِوَايَةً عَنْ أَبِيهِ. وَحَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ هُوَ مَوْلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَرَوَى عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَحَادِيثَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ نَحْوُ رِوَايَةِ هَؤُلاَءِ. وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ بِـ{قَافٍ}،{وَاقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ} وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۶ (۸۷۸)، د/الصلاۃ ۲۴۲ (۱۱۲۲)، ن/الجمعۃ ۴۰ (۱۴۲۵)، ق/الإقامۃ ۹۰ (۱۱۲۰)، و۱۵۷ (۱۲۸۱)، ط/الجمعۃ ۹ (۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۲)، حم (۴/۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۷)، دي/الصلاۃ ۲۰۳ (۱۶۰۹) (صحیح)
۵۳۳- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ عیدین اور جمعہ میں{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} اور {هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ} پڑھتے تھے، اور بسا اوقات دونوں ایک ہی دن میں آپڑتے تو بھی انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوواقد ، سمرہ بن جندب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوراسی طرح سفیان ثوری اور مسعر نے بھی ابراہیم بن محمد بن منتشر سے ابوعوانہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، ۴- رہے سفیان بن عیینہ تو ان سے روایت میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ ان کی ایک سندیوں ہے:''عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ [عَنْ أَبِيهِ ۱؎ ] عَنْ النُّعْمَانِ''۔ اورہم حبیب بن سالم کی کسی ایسی روایت کونہیں جانتے جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہو۔ حبیب بن سالم نعمان بن بشیرکے آزاد کردہ غلام ہیں، انہوں نے نعمان بن بشیر سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔اور ابن عیینہ سے ابراہیم بن محمد بن منتشر کے واسطہ سے ان لوگوں کی طرح بھی روایت کی گئی ہے ۲؎ اورنبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ عیدین کی صلاۃ میں سورہ ''ق'' اور ''اقتربت الساعة'' پڑھتے تھے ۳؎ اوریہی شافعی بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس سندمیں ''حبیب بن سالم''اور''نعمان بن بشیرکے درمیان ''حبیب کے والد''کا اضافہ ہے ،جوصحیح نہیں ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی : بغیر''عن أبیہ''کے اضافہ کے، یہ روایت آگے آرہی ہے ۔
وضاحت ۳؎ : اس میں کوئی تضاد نہیں ، کبھی آپ یہ سورتیں پڑھتے اورکبھی وہ سورتیں، بہرحال ان کی قراء ت مسنون ہے، فرض نہیں، لیکن ایسانہیں کہ بعض لوگوں کی طرح ان مسنون سورتوں کو پڑھے ہی نہیں۔ مسنون عمل کوبغیرکسی شرعی عذرکے جان بوجھ کر چھوڑنا سخت گناہے۔


534- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُتْبَةَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ: مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقْرَأُ بِهِ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى؟ قَالَ: كَانَ يَقْرَأُ بِـ{ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ} وَ {اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/العیدین ۳ (۸۹۱)، د/الصلاۃ ۲۵۲ (۱۱۵۴)، ن/العیدین ۱۲ (۱۵۶۸)، ق/الإقامۃ ۱۵۷ (۱۲۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۱۳)، حم (۵/۲۱۸، ۲۱۹) (صحیح)
۵۳۴- عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوواقد لیثی حارث بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: عید الفطر اور عید الا ٔضحیٰ میں رسول اللہﷺ کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ {ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ} اور {اقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ}پڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


535- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ: نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۵۳۵- اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ
۳۴-باب: عیدین کی تکبیرات کا بیان​


536- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو أَبُو عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَائَةِ وَفِي الآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَائَةِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَدِّ كَثِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَاسْمُهُ: عَمْرُو بْنُ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ نَحْوَ هَذِهِ الصَّلاَةِ. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ . وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَرُوِي عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ: تِسْعَ تَكْبِيرَاتٍ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَائَةِ، وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ يَبْدَأُ بِالْقِرَائَةِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا مَعَ تَكْبِيرَةِ الرُّكُوعِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ هَذَا. وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: ق/الإقامۃ ۱۵۶ (۱۲۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۴) (صحیح)
(سندمیں کثیرضعیف راوی ہیں ،لیکن شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، دیکھئے: صحیح أبی داود ۱۰۴۵-۱۰۴۶، والعیدین۲۶/۹۸۹)
۵۳۶- عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اوردوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ ، ابن عمراور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- کثیر کے دادا کی حدیث حسن ہے اور یہ سب سے اچھی روایت ہے جو نبی اکرمﷺ سے اس باب میں روایت کی گئی ہے۔ ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- اورابوہریرہ سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے مدینے میں اسی طرح یہ صلاۃ پڑھی ،۵- اوریہی اہل مدینہ کابھی قول ہے،اوریہی مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عیدین کی تکبیروں کے بارے میں کہاہے کہ یہ نو تکبیریں ہیں۔ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہے ۱؎ اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت کرے پھر رکوع کی تکبیر کے ساتھ چار تکبیریں کہے ۲؎ کئی صحابہ کرام سے بھی اسی طرح کی روایت مروی ہے۔ اہل کوفہ کا بھی قول یہی ہے اوریہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تکبیرتحریمہ کے ساتھ پانچ ، یعنی پہلی میں چارزائدتکبیریں۔
وضاحت ۲؎ : یہ کل سات تکبیریں زائدہوئیں اس کی سندابن مسعود رضی اللہ عنہ تک صحیح ہے ، لیکن یہ موقوف ہے خودآپﷺکا عمل بارہ زوائدتکبیرات پرتھا، ولنا المرفوع ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا جَاءَ لاَ صَلاَةَ قَبْلَ الْعِيدِ وَلاَ بَعْدَهَا
۳۵-باب: صلاۃِعید سے پہلے اوراس کے بعد کوئی نفل صلاۃ نہیں ہے​


537- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ رَأَى طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الصَّلاَةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ، وَقَبْلَهَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/العیدین ۸ (۹۶۴)، و۲۶ (۹۸۹)، والزکاۃ ۲۱ (۴۳۱)، واللباس ۵۷ (۵۸۸۱)، و۵۹ (۵۸۸۳)، م/العیدین ۲ (۱۳/۸۸۴)، د/الصلاۃ ۲۵۶ (۱۱۵۹)، ن/العیدین ۲۹ (۱۵۸۸)، ق/الإقامۃ ۱۶۰ (۱۲۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۵۸)، حم (۱/۳۵۵)، دي/الصلاۃ ۲۱۹(۱۶۴۶) (صحیح)
۵۳۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن نکلے،آپ نے دو رکعت صلاۃ پڑھی، پھر آپ نے نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھی اورنہ اس کے بعد۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو اور ابوسعید سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،اوریہی شافعی،احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ عیدین کی صلاۃ کے پہلے اور اس کے بعد صلاۃ پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔


538- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْبَجَلِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، وَهُوَ ابْنُ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ خَرَجَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا وَذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَعَلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۶) (حسن صحیح)
۵۳۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ عید کے دن نکلے تو انہوں نے نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھی اور نہ اس کے بعد اور ذکر کیاکہ نبی اکرمﷺ نے ایسے ہی کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36-بَاب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ
۳۶-باب: عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان​


539- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ، وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يُخْرِجُ الأَبْكَارَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضَ فِي الْعِيدَيْنِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّى، وَيَشْهَدْنَ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ؟، قَالَ:" فَلْتُعِرْهَا أُخْتُهَا مِنْ جَلاَبِيبِهَا ".
* تخريج: خ/الحیض ۲۳ (۳۲۴)، والصلاۃ ۲ (۳۵۱)، والعیدین ۱۵ (۹۸۰)، و۲۱ (۹۸۱)، والحج ۸۱ (۱۶۵۲)، م/العیدین ۱ (۸۹۰)، والجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، د/الصلاۃ ۲۴۷ (۱۱۳۶)، ن/الحیض ۲۲ (۳۹۰)، والعیدین ۳ (۱۵۵۹)، ق/الإقامۃ ۱۶۵ (۱۳۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۰۸)، حم (۵/۸۴، ۸۵)، دي/الصلاۃ ۲۲۳ (۱۶۵۰) (صحیح)
۵۳۹- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں ، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعامیں شریک رہتیں ۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہوتوکیا کرے؟ آپ نے فرمایا:'' اس کی بہن کو چاہئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دے دے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کوصلاۃعید کے لیے عیدگاہ لے جانامسنون ہے، جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں: یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعدادزیادہ معلوم ہواور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،ظاہرہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعدکی ہوگی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔


540- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ: بِنَحْوِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَخَّصَ لِلنِّسَاءِ فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْعِيدَيْنِ. وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: أَكْرَهُ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ، فَإِنْ أَبَتِ الْمَرْأَةُ إِلاَّ أَنْ تَخْرُجَ فَلْيَأْذَنْ لَهَا زَوْجُهَا أَنْ تَخْرُجَ فِي أَطْمَارِهَا الْخُلْقَانِ، وَلاَ تَتَزَيَّنْ، فَإِنْ أَبَتْ أَنْ تَخْرُجَ كَذَلِكَ فَلِلزَّوْجِ أَنْ يَمْنَعَهَا عَنْ الْخُرُوجِ. وَيُرْوَى عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَوْ رَأَى رَسُولُ اللهِ ﷺ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ أَنَّهُ كَرِهَ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ إِلَى الْعِيدِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (التحفہ: ۱۸۱۱۸) (صحیح)
۵۴۰- اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور عیدین کے لیے عورتوں کو نکلنے کی رخصت دی ہے، اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے،۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ آج کل میں عیدین میں عورتوں کے جانے کو مکروہ سمجھتاہوں، اگر کوئی عورت نہ مانے اورنکلنے ہی پر بضد ہو توچاہئے کہ اس کا شوہر اسے پرانے میلے کیڑوں میں نکلنے کی اجازت دے اور وہ زینت نہ کرے، اوراگر وہ اس طرح نکلنے پرراضی نہ ہو تو پھر شوہرکو حق ہے کہ وہ اسے نکلنے سے روک دے،۵- عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ ان نئی چیزوں کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے نکال رکھی ہیں توانہیں مسجد جانے سے منع فرمادیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیاگیا تھا،۶- سفیان ثوری سے بھی نقل کیاگیا ہے کہ آج کل کے دور میں انہوں نے بھی عورتوں کا عید کے لیے نکلنا مکروہ قراردیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ اس بارے میں مروی احادیث کے الفاظ سے عورتوں کو عیدگاہ جانے کی سخت تاکید معلوم ہوتی ہے، ایک روایت میں تو''اَمَرَنا''(ہم کو حکم دیا)کا لفظ ہے ، اورایک میں ''اُمِرْنا''(ہم کوحکم دیاگیا)کالفظ ہے ، نیز حج اوردیگردنیاوی مجالس میں نکلنے کے سبھی قائل ہیں تو عیدگاہ کے لیے نکلنے کی یہ سارے تاویلات بے کارہیں، ہاں جوشرائط ہیں ان کی پابندی سختی سے کی جائے ، نہ کہ مسئلہ اپنی طرف سے بدل دیاجائے ،ابن حجرعائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پرفرماتے ہیں: نہ تورسول اکرم ﷺ نے دیکھا، نہ ہی منع فرمایا، یعنی عائشہ بھی روک دینے کی بات نہ کرسکیں، کیسے کرتیں؟ بات دینی مسئلہ کی تھی جس کا حق صرف اللہ اوررسول کو ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى الْعِيدِ فِي طَرِيقٍ وَرُجُوعِهِ مِنْ طَرِيقٍ آخَرَ
۳۷-باب: عید کے لیے نبی اکرمﷺ کے ایک راستے سے جانے اور دوسرے سے لوٹنے کا بیان​


541- حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى الْكُوفِيُّ، وَأَبُو زُرْعَةَ قَالاَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ الصَّلْتِ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ فِي طَرِيقٍ رَجَعَ فِي غَيْرِهِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَرَوَى أَبُو تُمَيْلَةَ وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ . قَالَ: وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلإمَامِ إِذَا خَرَجَ فِي طَرِيقٍ أَنْ يَرْجِعَ فِي غَيْرِهِ، اتِّبَاعًا لِهَذَا الْحَدِيثِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. وَحَدِيثُ جَابِرٍ كَأَنَّهُ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف من حدیث ابی ہریرۃ واخرجہ فی العیدین ۲۴(۹۸۶) بنفس الطریق لکنہ من حدیث جابر، وقال حدیث جابر أصح (ای من حدیث ابی ہریرۃ) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۳۷) (صحیح)
۵۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب عید کے دن ایک راستے سے نکلتے تو دوسرے سے واپس آتے ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابورافع رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں،۳- ابوتمیلہ اور یونس بن محمد نے یہ حدیث بطریق:'' فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، عن جابر بن عبدالله'' کی ہے، ۴- بعض اہل علم نے اس حدیث کی پیروی میں امام کے لیے مستحب قرار دیاہے کہ جب ایک راستے سے جائے تو دوسرے سے واپس آئے۔شافعی کا یہی قول ہے، اور جابر کی حدیث(بمقابلہ ابویرہرہ) گویا زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺکی پیروی میں مسلمانوں کو بھی راستہ تبدیل کرکے آناجاناچاہئے، کیونکہ اس سے ایک تو اسلام کی شان وشوکت کا مظاہر ہ ہوگا دوسرے قیامت کے دن یہ دونوں راستے ان کی اس عبادت کی گواہی دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا جَاءَ فِي الأَكْلِ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْخُرُوجِ
۳۸-باب: عیدالفطر کے دن نکلنے سے پہلے کچھ کھالینے کا بیان​


542- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، عَنْ ثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لاَيَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ، وَلاَ يَطْعَمُ يَوْمَ الأَضْحَى حَتَّى يُصَلِّيَ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الأَسْلَمِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. و قَالَ مُحَمَّدٌ : لاَ أَعْرِفُ لِثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لاَ يَخْرُجَ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ شَيْئًا، وَيُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ عَلَى تَمْرٍ، وَلاَ يَطْعَمَ يَوْمَ الأَضْحَى حَتَّى يَرْجِعَ.
* تخريج: ق/الصیام ۴۹ (۱۷۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۴) (صحیح)
۵۴۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن جب تک کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الا ٔضحی کے دن جب تک صلاۃنہ پڑھ لیتے کھاتے نہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ثواب بن عتبہ کی اس کے علاوہ کوئی حدیث مجھے نہیں معلوم،۳- اس باب میں علی اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم نے مستحب قراردیاہے کہ آدمی عید الفطر کی صلاۃ کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ نکلے اوراس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ کھجور ۱؎ کا ناشتہ کرے اور عید الا ٔضحی کے دن نہ کھائے جب تک کہ لوٹ کرنہ آجائے۔
وضاحت ۱؎ : برصغیرہندوپاک کے مسلمانوں نے پتہ نہیں کہاں سے یہ حتمی رواج بناڈالا ہے کہ سوئیاں کھاکرعیدگاہ جاتے ہیں، اور آکر بھی کھاتے کھلاتے ہیں، اس رواج کی اس حدتک پابندی کی جاتی ہے کہ ''عیدالفطر''اور''سوئیاں''لازم ملزوم ہوکررہ گئے ہیں، جیسے عیدالاضحی میں ''گوشت''،اس حدتک پابندی بدعت کے زمرے میں داخل ہے۔


543-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ عَلَى تَمَرَاتٍ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الْمُصَلَّى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر خ/العیدین ۴ (۹۵۳)، وق/الصوم ۴۹ (۱۷۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۸) (صحیح)
۵۴۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن صلاۃ کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں کھالیتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

أَبْوَابُ السَّفَرِ
کتاب: سفر کے احکام ومسائل


39- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ فِي السَّفَرِ
۳۹-باب: سفر میں قصرصلاۃ پڑھنے کا بیان​


544- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ فَكَانُوا يُصَلُّونَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ لاَ يُصَلُّونَ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا. وَ قَالَ عَبْدُاللهِ: لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لأَتْمَمْتُهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ مِثْلَ هَذَا. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلاَةِ وَبَعْدَهَا. وَقَدْ صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَانَ يَقْصُرُ فِي السَّفَرِ، وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلاَفَتِهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلاَةَ فِي السَّفَرِ. وَالْعَمَلُ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِهِ . وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. إِلاَّ أَنَّ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: التَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَهُ فِي السَّفَرِ، فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلاَةَ أَجْزَأَ عَنْهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۲۲۳) (صحیح)
۵۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد(سنت) صلاۃ پڑھتا تو میں ا نہی (فرائض ) کو پوری پڑھتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث بطریق:''عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ '' بھی مروی ہے، ۳- اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سفرمیں صلاۃ سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ۱؎ ،۴- اس باب میں عمر، علی، ابن عباس، انس، عمران بن حصین اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اورابوبکروعمر سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصرکرتے تھے، ۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ۷- اورعائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صلاۃ پوری پڑھتی تھیں ۲؎ ، ۸- اورعمل اسی پرہے جو نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے مروی ہے، یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفرمیں قصر کرنا رخصت ہے، اگر کوئی پوری صلاۃ پڑھ لے تو جائز ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ۵۵۱پرمولف کے یہاں آرہی ہے ، اورضعیف ومنکرہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ صحیح بخاری کی روایت ہے، اوربیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،گویاسفرمیں قصررخصت ہے اوراتمام جائزہے، اوریہی راجح قول ہے۔رخصت کے اختیارمیں سنت پرعمل اوراللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔


545- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ: سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ صَلاَةِ الْمُسَافِرِ؟ فَقَالَ: حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ: وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُثْمَانَ سِتَّ سِنِينَ مِنْ خِلاَفَتِهِ، أَوْ ثَمَانِيَ سِنِيْنَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بہذا السیاق، وأخرج أبوداود (الصلاۃ۲۷۹/رقم۱۲۲۹) بہذا السند أیضا لکنہ بسیاق آخر (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۶۲) (صحیح)
( سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
۵۴۵- ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مسافر کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں، اورمیں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں، اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یاآٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


546- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۵ (۱۰۸۹)، والحج ۲۴ (۱۵۵۶)، و۲۵ (۱۵۴۸)، و۱۱۹ (۱۷۱۴)، والجہاد ۱۰۴ (۲۹۵۱)، م/المسافرین ۱ (۶۹۰)، د/الصلاۃ ۲۷۱ (۱۲۰۲)، والحج ۲۱ (۱۷۷۳)، ن/الصلاۃ ۱۱ (۴۷۰)، و۱۷ (۴۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۱۶۶)، حم (۳/۱۱۰، ۱۱۱، ۱۷۷، ۱۸۶، ۲۳۷، ۲۶۸، ۳۷۸)، دي/الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۴۸) (صحیح)
۵۴۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دورکعتیں پڑھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تومسجدنبوی میں چارپڑھی، جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تووہاں دوقصر کرکے پڑھی ۔
وضاحت ۲؎ : ذوالحلیفہ : مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلومیٹرپرواقع ہے ، یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔


547- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ لاَ يَخَافُ إِلاَّ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۴۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳۶)، حم (۱/۲۱۵، ۲۳۶، ۲۴۵، ۲۶۲) (صحیح)
۵۴۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے ،آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔(اس کے باوجود) آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفرمیں قصرخوف کی وجہ سے نہیں ہے ، جیساکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، سفرخواہ کیسابھی پرامن ہو اس میں قصررخصت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا جَاءَ فِي كَمْ تُقْصَرُ الصَّلاَةُ
۴۰-باب: کتنے دنوں تک قصر کرنا درست ہے؟​


548- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَقَ الْحَضْرَمِيُّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ: كَمْ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِمَكَّةَ قَالَ: عَشْرًا قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ أَقَامَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ تِسْعَ عَشْرَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَنَحْنُ إِذَا أَقَمْنَا مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ وَإِنْ زِدْنَا عَلَى ذَلِكَ أَتْمَمْنَا الصَّلاَةَ. وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَامَ عَشْرَةَ أَيَّامٍ أَتَمَّ الصَّلاَةَ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ أَقَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَتَمَّ الصَّلاَةَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ. وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ قَالَ: إِذَا أَقَامَ أَرْبَعًا صَلَّى أَرْبَعًا. وَرَوَى عَنْهُ ذَلِكَ قَتَادَةُ وَعَطَائٌ الْخُرَاسَانِيُّ. وَرَوَى عَنْهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ خِلاَفَ هَذَا. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدُ فِي ذَلِكَ: فَأَمَّا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ فَذَهَبُوا إِلَى تَوْقِيتِ خَمْسَ عَشْرَةَ، وَقَالُوا: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلاَةَ. و قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلاَةَ. وَ قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ: إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ أَرْبَعَةٍ أَتَمَّ الصَّلاَةَ. وَأَمَّا إِسْحَاقُ فَرَأَى أَقْوَى الْمَذَاهِبِ فِيهِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ: لأَنَّهُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ تَأَوَّلَهُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا أَجْمَعَ عَلَى إِقَامَةِ تِسْعَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلاَةَ. ثُمَّ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمُسَافِرَ يَقْصُرُ مَا لَمْ يُجْمِعْ إِقَامَةً، وَإِنْ أَتَى عَلَيْهِ سِنُونَ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۰۸۱)، والمغازي ۵۲ (۴۲۹۹)، م/المسافرین ۱ (۶۹۳)، د/الصلاۃ ۲۷۹ (۱۲۳۳)، ن/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۴۳۹)، و۴ (۱۴۵۳)، ق/الإقامۃ ۷۶ (۱۰۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲)، حم (۳/۱۸۱، ۱۹۰)، دي/الصلاۃ ۱۸۰، ۱۵۵۰) (صحیح)
۵۴۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔ آپ نے دورکعتیں پڑھیں، یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:رسول اللہﷺ مکہ میں کتنے دن رہے، انہوں نے کہادس دن ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اورابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے سفر میں انیس دن ٹھہرے اور دورکعتیں اداکرتے رہے۔ ابن عباس کہتے ہیں؛ چنانچہ جب ہم انیس دن یا اس سے کم ٹھہرتے تو دورکعتیں پڑھتے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرتے توپوری پڑھتے، ۴- علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو دس دن ٹھہرے وہ پوری صلاۃ پڑھے، ۵- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو پندرہ دن قیام کرے وہ پوری صلاۃ پڑھے۔ اوران سے بارہ دن کا قول بھی مروی ہے، ۶- سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب چاردن قیام کرے تو چار رکعت پڑھے ۔ ان سے اسے قتادہ اور عطا خراسانی نے روایت کیاہے، اور داود بن ابی ہند نے ان سے اس کے خلاف روایت کیاہے،۷- اس کے بعد اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہوگیا۔سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن کی تحدید کی طرف گئے اوران لوگوں نے کہاکہ جب وہ پندرہ دن ٹھہر نے کی نیت کرلے تو پوری صلاۃ پڑھے، ۸- اوزاعی کہتے ہیں: جب وہ بارہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو صلاۃپوری پڑھے،۹- مالک بن انس ، شافعی، اور احمد کہتے ہیں: جب چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو صلاۃپوری پڑھے،۱۰- اوراسحاق بن راہویہ کی رائے ہے کہ سب سے قوی مذہب ابن عباس کی حدیث ہے، اس لیے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، پھریہ کہ نبی اکرمﷺ کے بعدوہ اس پر عمل پیرارہے جب وہ انیس دن ٹھہرتے توصلاۃپوری پڑھتے۔پھر اہل علم کا اجماع اس بات پر ہوگیاکہ مسافر جب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصر کرتا رہے ، اگرچہ اس پر کئی سال گزرجائیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حجۃ الوداع کے موقع کی بات ہے، آپ اس موقع سے ۴؍ذی الحجہ کی صبح مکہ میں داخل ہوئے ، ۸؍کو منی کو نکل گئے، پھر ۱۴؍کوطواف وداع کے بعد مدینہ روانہ ہوئے یہ کل دس دن ہوئے ،مگران دس دنوں میں مستقل طورپرآپ صرف ۴؍دن مکہ میں رہے ، باقی دنوں میں ادھرادھرمنتقل ہی ہوتے رہے ،اس لیے امام شافعی وغیرہ نے یہ استدلال کیا ہے جب ۴؍دنوں کی اقامت کی نیت کرلے تب پوری صلاۃ پڑھے۔
وضاحت ۲؎ : حجۃ الوداع، فتح مکہ، یا جنگ پرموک میں یہی ہواتھا، اس لیے آپ نے ۱۷،۱۸؍دنوں یادس دنوں تک قصرکیا، اس لیے امام شافعی وغیرہ کا خیال ہی راجح ہے کہ ۴؍دنوں سے زیادہ اقامت کی اگرنیت بن جائے تو قصرنہ کرے، مہاجرین کو عمرہ میں تین دنوں سے زیادہ نہ ٹھہرنے کے حکم میں بھی یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ وہ چوتھے دن مقیم ہوجاتے۔


549- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: سَافَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ سَفَرًا، فَصَلَّى تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَنَحْنُ نُصَلِّي فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۱ (۱۰۸۰)، والمغازی ۵۲ (۴۲۹۸)، د/الصلاۃ ۲۷۹ (۱۲۳۰)، (بلفظ ''سبعۃ عشر'' وشاذ)، ق/الإقامۃ ۷۶ (۱۰۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۴) (صحیح)
۵۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سفر کیا، توآپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ۱؎ ، ابن عباس کہتے ہیں: تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں د و دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ فتح مکہ کا واقعہ ہے، اس موقع پر نبی اکرمﷺ نے مکہ میں کتنے دن قیام کیا اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بخاری کی روایت میں ۱۹دن کاذکرہے اور ابوداودکی ایک روایت میں اٹھارہ اوردوسری میں سترہ دن کا ذکرہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جس نے دخول اورخروج کے دنوں کوشمارنہیں کیا اس نے سترہ کی روایت کی ہے، جس نے دخول کا شمارکیا خروج کانہیں یاخروج کا شمارکیااوردخول کا نہیں اس نے اٹھارہ کی روایت کی ہے، رہی پندرہ دن والی روایت تو یہ شاذہے اور اگر اسے صحیح مان لیاجائے تو یہ کہا جاسکتاہے کہ راوی نے سمجھا کہ اصل ۱۷دن پھر اس میں سے دخول اورخروج کوخارج کرکے ۱۵دن کی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ
۴۱-باب: سفر میں نفل پڑھنے کا بیان​


550- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: صَحِبْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرَا فَمَا رَأَيْتُهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ . قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَرَآهُ حَسَنًا. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لاَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلاَةِ وَلاَ بَعْدَهَا. وَرُوِيَ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ. ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ. فَرَأَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنْ يَتَطَوَّعَ الرَّجُلُ فِي السَّفَرِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ. وَلَمْ تَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلَّى قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا. وَمَعْنَى مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ قَبُولُ الرُّخْصَةِ، وَمَنْ تَطَوَّعَ فَلَهُ فِي ذَلِكَ فَضْلٌ كَثِيرٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَخْتَارُونَ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۷۶ (۱۲۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''ابوبُسرہ الغفاری'' لین الحدیث ہیں)
۵۵۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- براء رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے ،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تووہ اسے صرف لیث بن سعدہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اِسے حسن جانا ۱؎ ،۳- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۴- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ سفر میں نہ صلاۃ سے پہلے نفل پڑھتے تھے اورنہ اس کے بعد ۲؎ ،۵- اور ابن عمرہی سے مروی ہے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ۳؎ ،۶- پھر نبی اکرمﷺ کے بعد اہل علم میں اختلاف ہوگیا،بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے ، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۷- اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ صلاۃ سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ صلاۃ کے بعد۔سفرمیں جولوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کامقصودرخصت کوقبول کرناہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفرمیں نفل پڑھنے کو پسندکرتے ہیں ۴؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دیگرسارے لوگوں نے ان کومجہول قراردیاہے، اورمجہول کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔
وضاحت ۲؎ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس بابت سب سے صحیح اورواضح حدیث ابن عمرکی ہے ، جورقم ۵۴۴پرگزری ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دلیل نقلی بھی ہے اورعقلی بھی کہ ایک تو رسول اللہﷺاورابوبکروعمر رضی اللہ عنہما سنت راتبہ نہیں پڑھتے تھے، دوسرے اگرسنت راتبہ پڑھنی ہوتی تو اصل فرض میں کمی کرنے کاجومقصدہے وہ فوت ہوجاتا، اگرسنت راتبہ پڑھنی ہوتو فرائض میں کمی کاکیامعنی؟ رہی آپﷺ کے بعض اسفار میں چاشت وغیرہ پڑھنے کی بات ، تو بوقت فرصت عام نوافل کے سب قائل ہیں۔
وضاحت ۴؎ : عام نوافل پڑھنے کے توسب قائل ہیں مگرسنن راتبہ والی احادیث سنداً کمزورہیں۔


551- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الظُّهْرَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَطِيَّةَ وَنَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۳۳۶) (ضعیف الإسناد ، منکر المتن، لمخالفۃ حدیث رقم: ۵۴۴)
(اس کے راوی ''عطیہ عوفی ''ضعیف ہیں)
۵۵۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ سفر میں ظہر کی دورکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دورکعتیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابن ابی لیلیٰ نے یہ حدیث عطیہ اور نافع سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ابن عمر سے ۔


552- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ يَعْنِي الْكُوفِيَّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَطِيَّةَ وَنَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ: فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَهَا شَيْئًا وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَائً ثَلاثَ رَكَعَاتٍ لاَ تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلاَ فِي السَّفَرِ، هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: مَا رَوَى ابْنُ أَبِي لَيْلَى حَدِيثًا أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْ هَذَا، وَلاَ أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۳۳۷ و۸۴۲۸) (ضعیف الإسناد، منکر المتن)
(اس کے راوی''محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ''ضعیف ہیں، اوریہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)
۵۵۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفردونوں میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی ، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دورکعتیں، اورسفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دورکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دورکعتیں اور عصر کی دورکعتیں ،اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر وحضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں،یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دورکعتیں پڑھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ ابن ا بی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جومیرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیزہو، میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔
 
Top