4-بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ
۴-باب: اونٹ اور بکری کی زکاۃ کا بیان
621- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ (الْمَعْنَى وَاحِدٌ) قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيّ،ِ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ، فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ. فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ. وَعُمَرُ حَتَّى قُبِضَ. وَكَانَ فِيهِ فِي خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاةٌ. وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ. وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلاَثُ شِيَاهٍ. وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ. وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلاَثِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَى سِتِّينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ. فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ وَفِي الشَّاءِ: فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ. فَإِذَا زَادَتْ فَثَلاَثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاَثِ مِائَةِ شَاةٍ. فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلاَثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ. ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلاَ يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ وَلاَ يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلاَ ذَاتُ عَيْبٍ. و قَالَ الزُّهْرِيُّ: إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّائَ أَثْلاَثًا: ثُلُثٌ خِيَارٌ، وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ، وَثُلُثٌ شِرَارٌ وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ. وَلَمْ يَذْكُرِ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَبَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ. وَقَدْ رَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ. وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۳۴ تعلیقا عقب الحدیث (رقم: ۱۴۵۰)، د/الزکاۃ ۴ (۱۵۶۸)، ق/الزکاۃ ۹ (۱۷۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۳)، دي/الزکاۃ ۶ (۱۶۶۶) (صحیح)
( سندمیں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں،لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے،لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث بھی صحیح ہے )
۶۲۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ـ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے زکاۃ کی دستاویز تحریرکرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ۱؎ ، آپ وفات فرماگئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے ،ان کے بعدعمر رضی اللہ عنہ بھی اسی پرعمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، اس کتاب میں تحریر تھا:'' پانچ اونٹوں میں ، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دوسال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دوسال کی دواونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دواونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سوبیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دوسال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔
اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا:چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے ، ایک سوبیس تک، اورجب اس سے زیادہ ہوجائیں تودو سو تک میں دوبکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہرسو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چارسو کو پہنچ جائیں، اور (زکاۃ والے) متفرق(مال ) کو جمع نہیں کیاجائے گا ۲؎ اورجومال جمع ہواسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا ۳؎ اورجن میں دوساجھی دار ہوں۴؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا''۔
زہری کہتے ہیں: جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے، پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی، دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی، پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے ۔ زہر ی نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر کی حدیث حسن ہے، ۲- یونس بن یزید اوردیگرکئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے ، اورزہری نے سالم سے روایت کی ہے، اوران لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاًروایت کیاہے، ۳- اوراسی پر عام فقہاء کا عمل ہے،۴- اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرمﷺکی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح ''کتابتِ حدیث''کا عمل شروع ہوگیا تھا ، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (قرآن کے علاوہ ) اپنے ارشادات وفرامین اوراحکام خودبھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔(تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول ﷺکے باب
''ماجاء فی رخصۃ کتابۃ العلم ''میں دیکھ لیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ حکم جانوروں کے مالکوں اورمحصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے، متفرق کو جمع کر نے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پرایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو، جب زکاۃ لینے والا آئے توتینوں نے زکاۃ کے ڈرسے اپنی اپنی بکریوں کو یکجاکردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔
وضاحت ۳؎ : اس کی تفسیریہ ہے کہ مثلاً دوساجھی دارہیں ہر ایک کی ایک سوایک بکریاں ہیں کل ملاکر دوسودوبکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریوں کی زکاۃہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایساکرنے سے منع کیا گیا ہے۔
وضاحت ۴؎ : مثلاً دوشریک ہیں، ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والاآیااور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دوسوپچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ۲۵چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے بنتی ہے توہزار بکریوں والااسے ڈھائی سوروپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں توچالیس بکریوں والااسے دس روپیہ واپس کرے گا۔