• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81- بَاب مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ الصَّلاَةِ
۸۱-باب: فضائلِ صلاۃ کا بیان​


614- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقَطَوَانِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا غَالِبٌ أَبُو بِشْرٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَائِذٍ الطَّائِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: أُعِيذُكَ بِاللهِ يَاكَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ مِنْ أُمَرَاءَ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِي، فَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَهُمْ فَصَدَّقَهُمْ فِي كَذِبِهِمْ وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلاَ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَهُمْ أَوْ لَمْ يَغْشَ فَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ فِي كَذِبِهِمْ وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ فَهُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ! الصَّلاَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ! إِنَّهُ لاَيَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلاَّ كَانَتْ النَّارُ أَوْلَى بِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ مُوسَى. وَأَيُّوبُ بْنُ عَائِذٍ الطَّائِيُّ يُضَعَّفُ، وَيُقَالُ كَانَ يَرَى رَأْيَ الإِرْجَاءِ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ مُوسَى، وَاسْتَغْرَبَهُ جِدًّا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۹) (صحیح)
۶۱۴- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اے کعب بن عجرہ! میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتاہوں ایسے امراء وحکام سے جومیرے بعد ہوں گے، جوان کے دروازے پرگیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی ، اوران کے ظلم پر ان کا تعاون کیا،تو وہ نہ مجھ سے ہے اورنہ میں اس سے ہوں اورنہ وہ حوض پر میرے پا س آئے گا۔ اور جو کوئی ان کے دروازے پرگیا یانہیں گیالیکن نہ جھوٹ میں ان کی تصدیق کی ، اورنہ ہی ان کے ظلم پران کی مدد کی، تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ عنقریب حوض کوثر پرمیرے پاس آئے گا۔ اے کعب بن عجرہ! صلاۃ دلیل ہے، صوم مضبوط ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو بجھا دیتاہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتاہے، اے کعب بن عجرہ! جوگوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا ، آگ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ہم اسے عبیداللہ بن موسیٰ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ایوب بن عائذ طائی ضعیف گردانے جاتے ہیں اورکہاجاتاہے کہ وہ مرجئہ جیسے خیالات رکھتے تھے۔ میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف عبیداللہ بن موسیٰ ہی کی سند سے جانتے تھے اور انہوں نے اسے بہت غریب حدیث جانا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دیگر ائمہ کے نزدیک مذکورہ دونوں رواۃ قابل احتجاج ہیں۔


615- و قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ مُوسَى عَنْ غَالِبٍ بِهَذَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۶۱۵- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں:ہم سے اسے ابن نمیر نے بیان کیاانہوں نے اسے عبید اللہ بن موسیٰ سے روایت کی ہے او ر عبیداللہ نے غالب سے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82- بَاب مِنْهُ
۸۲-باب: فضائلِ صلاۃ سے متعلق ایک اور باب​


616- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي سُلَيمُ بْنُ عَامِرٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ: اتَّقُوا اللهَ رَبَّكُمْ، وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ، وَصُومُوا شَهْرَكُمْ، وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ، وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ، تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ. قَالَ فَقُلْتُ لأَبِي أُمَامَةَ: مُنْذُ كَمْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ هَذَا الْحَدِيثِ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ وَأَنَا ابْنُ ثَلاَثِينَ سَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۸) (صحیح)
۶۱۶- سلیم بن عامرکہتے ہیں کہ میں نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: میں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے سنا، آپ نے فرمایا: ''تم اپنے رب اللہ سے ڈرو، پانچ وقت کی صلاۃ پڑھو، ماہ رمضان کے صیام رکھو،اپنے مال کی زکاۃ اداکرو، اور امیرکی اطاعت کرو، اس سے تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے''۔
میں نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:آپ نے کتنے برس کی عمر میں یہ حدیث رسول اللہﷺ سے سنی ہے؟ توانہوں نے کہا: میں نے آپ سے یہ حدیث اس وقت سنی جب میں تیس برس کا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

5- كِتَاب الزَّكَاةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۵-کتاب: زکاۃ وصدقات کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي مَنْعِ الزَّكَاةِ مِنَ التَّشْدِيدِ
۱-باب: زکاۃ نہ نکالنے پر وارد وعیدکا بیان ۱؎​


617- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ. قَالَ: فَرَآنِي مُقْبِلاً فَقَالَ:"هُمُ الأَخْسَرُونَ، وَرَبِّ الْكَعْبَةِ! يَوْمَ الْقِيَامَةِ" قَالَ: فَقُلْتُ: مَالِي لَعَلَّهُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْئٌ، قَالَ قُلْتُ: مَنْ هُمْ؟ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"هُمُ الأَكْثَرُونَ، إِلاَّ مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا" فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ. ثُمَّ قَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لاَ يَمُوتُ رَجُلٌ، فَيَدَعُ إِبِلاً أَوْ بَقَرًا، لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلاَّ جَاءَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا. كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولاَهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلُهُ. وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ. وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّكَنِ وَيُقَالُ : ابْنُ جُنَادَةَ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۴۳ (۱۴۶۰)، الأیمان والنذور ۳ (۶۶۳۸)، ن/الزکاۃ ۲ (۲۴۴۲)، و۱۱ (۲۴۵۸)، ق/الزکاۃ ۲ (۱۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۱)، وأخرجہ م/الزکاۃ ۹ (۳۲/۹۴)، من طریق زید بن وہب عن أبي ذر بہ (صحیح)
617م- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مُنِيرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، قَالَ: الأَكْثَرُونَ أَصْحَابُ عَشَرَةِ آلاَفٍ. قَالَ: وَعَبْدُاللهِ بْنُ مُنِيرٍ مَرْوَزِيٌّ رَجُلٌ صَالِحٌ.
* تخريج: (م) تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۲۲) (صحیح الإسناد)
۶۱۷- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا،آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھاتوفرمایا: ''رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے'' ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔میں نے عرض کیا : کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں؟تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''یہی لوگ جوبہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایسا ایساکرے- آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھرکراپنے سامنے اوراپنے دائیں اوراپنے بائیں طرف اشارہ کیا- پھرفرمایا: ''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جوبھی آدمی اونٹ اور گائے چھو ڑ کرمرااوراس نے اس کی زکاۃ ادانہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہوکر آئیں گے جتناوہ تھے ۳؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اوراپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کاآخری جانور بھی گزرچکے گاتو پھر پہلالوٹادیا جائے گا ۴؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے، ۳- علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۵؎ ، ۴- (یہ حدیث) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والدہلب سے روایت کی ہے ، نیزجابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ'' الأكثرون'' سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار (درہم یا دینار) ہوں۔
وضاحت ۱؎ : زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرارکن ہے، اس کے لغوی معنی بڑھنے اورزیادہ ہونے کے ہیں، زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہاجاتاہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اورزیادہ کرتی ہے، اورایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اورزکاۃ کو زکاۃاس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کوپاک کرتی ہے اورصاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے، اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے، اکثرعلماء کا یہ قول ہے کہ ۲ھ؁میں فرض ہوئی اورمحققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تومکہ میں ہی ہوگئی تھی مگراس کے تفصیلی احکام مدینہ ۲ھ؁میں نازل ہوئے۔
وضاحت ۲؎ : یا توآپ کسی فرشتے سے بات کررہے تھے، یا کوئی خیال آیا تو آپ نے '' هم الأخسرون ''فرمایا۔
وضاحت ۳؎ : یہ عذاب عالم حشرمیں ہوگا، حساب وکتاب سے پہلے۔
وضاحت ۴؎ : یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابرچلتا رہے گا۔
وضاحت ۵؎ : اس کی تخریج سعیدبن منصور، بیہقی ، خطیب اورابن نجارنے کی ہے، لیکن روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی محمدبن سعیدبورمی ہے جوکذاب ہے، حدیثیں وضع کرتاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ إِذَا أَدَّيْتَ الزَّكَاةَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ
۲-باب: زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپرعائد فریضہ کے ادا ہوجانے کا بیان​


618- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّهُ ذَكَرَ الزَّكَاةَ. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟ فَقَالَ:"لاَ، إِلاَّ أَنْ تَتَطَوَّعَ". وَابْنُ حُجَيْرَةَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمَصْرِيُّ.
* تخريج: ق/الزکاۃ ۳ (۱۷۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۹۱) (حسن)
(دیکھئے ''تراجع الالبانی'' حدیث رقم:۹۹)
۶۱۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ اداکردی توجوتمہارے ذمہ فریضہ تھا اُسے تم نے اداکردیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرمﷺ سے دوسری اورسندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا، تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو (یہ حدیث آگے آرہی ہے)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مال کے حق میں سے تمہارے اوپرمزیدکوئی اورضروری حق نہیں کہ اس کے نکالنے کا تم سے مطالبہ کیاجائے، رہے صدقہ فطر اور دوسرے ضروری نفقات تو یہ مال کے حقوق میں سے نہیں ہیں، ان کے وجوب کا سبب نفس مال نہیں بلکہ دوسری وقتی چیزیں ہیں مثلاً قرابت اورزوجیت وغیرہ بعض نے کہا کہ ان واجبات کا وجوب زکاۃ کے بعدہواہے اس لیے ان سے اس پر اعتراض درست نہیں۔


619- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كُنَّا نَتَمَنَّى أَنْ يَأْتِيَ الأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ، فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ ﷺ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ، إِذْ أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ! آللهُ أَرْسَلَكَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ! آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"صَدَقَ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ! آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"صَدَقَ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ! آللهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ! آللهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"نَعَمْ"، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ! بِالْحَقِّ لاَ أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا وَلاَ أُجَاوِزُهُنَّ ثُمَّ وَثَبَ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"إِنْ صَدَقَ الأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ، أَنَّ الْقِرَائَةَ عَلَى الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْهِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَأَقَرَّ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ.
* تخريج: خ/العلم ۶ (تعلیقا عقب حدیث رقم: ۶۳)، م/الإیمان ۳ (۱۲)، ن/الزکاۃ ۱ (۲۰۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۴)، حم (۳/۱۴۳، ۱۹۳)، دي/الطہارۃ ۱ (۶۵۶) (صحیح)
۶۱۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقل مند اعرابی (دیہاتی) آئے اورنبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اورآپﷺ کے سامنے دوزانوہوکربیٹھ گیا۔ اورپوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اوراس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟) ۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں، یہ صحیح ہے ، اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا، زمین اور پہاڑ نصب کئے۔ کیا اللہ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں(کیا ایسا ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں، اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں : ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں(کیا یہ صحیح ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں وہ( سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بناکربھیجاہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں(دیاہے)، اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے(کیا یہ صحیح ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا:ہاں (اس نے سچ کہا)۔ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپ کو رسول بناکربھیجاہے، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیاہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں، (دیاہے) اس نے کہا:آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو(کیا یہ سچ ہے؟)، نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''ہاں، (حج فرض ہے) اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجاہے،کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''ہاں'' (دیا ہے) تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ۳؎ ، پھریہ کہہ کر وہ واپس چل دیاتب نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے ،اوراس سندکے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کرسنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے۴؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرمﷺ کومعلومات پیش کیں تونبی اکرمﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ہمیں سورئہ مائدہ میں نبی اکرمﷺسے سوال کرنے سے روک دیاگیاتھا، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایساچالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اوروہ آکر آپ سے سوال کرے۔
وضاحت ۲؎ : اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔
وضاحت ۳؎ : اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے، مسلم کی روایت میں '' والذي بالحق لا أزيد عليهن ولا أنقص ''کے الفاظ آئے ہیں۔
وضاحت ۴؎ : یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ(استاذ کے پاس شاگردکاپڑھنا) بھی جائزہے، مولف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردیدکی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائزنہیں، صحیح یہ ہے کہ دونوں جائزہیں البتہ اخذحدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے، اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خودروایت کرتاہے اورطلبہ سنتے ہیں اورشاگرداسے روایت کرتے وقت''سمعت، سمعنا، حدثنا، حدثني، أخبرنا، أخبرني، أنبأنا، أنبأني '' کے صیغے استعمال کرتاہے، اس کے برخلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پرپڑھنے) کے طریقے میں شاگردشیخ کو اپنے حافظہ سے یاکتاب سے پڑھ کرسناتاہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگر د قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع، يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کرروایت کرتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ
۳-باب: سونے اور چاندی کی زکاۃ کا بیان​


620- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ. فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ: مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا. وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْئٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الأَعْمَشُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُمَا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ. وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: كِلاَهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ رُوِيَ عَنْهُمَا جَمِيعًا.
* تخريج: د/الزکاۃ ۵ (۱۵۷۱، ۱۵۷۴)، ن/الزکاۃ ۱۸ (۲۴۷۹، ۲۴۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۳۶)، حم (۱۱۳۱، ۱۴۸)، دي/الزکاۃ ۷ (۱۶۶۹) (صحیح) وأخرجہ : ق/الزکاۃ ۴ (۱۷۹۰)، حم (۱/۱۲۱، ۱۳۲)، ۱۴۶ من طریق الحارث عنہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۹)
۶۲۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کردی ہے ۱؎ تو اب تم چاندی کی زکاۃ اداکرو۲؎ ، ہرچالیس درہم پر ایک درہم، ایک سونوے درہم میں کچھ نہیں ہے، جب دوسو درہم ہوجائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اعمش اورابوعوانہ، وغیرہم نے بھی یہ حدیث بطریق : '' أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ ''روایت کی ہے، اور سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ اور دیگرکئی لوگوں نے بھی بطریق: '' أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ '' روایت کی ہے، ۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ابواسحاق سبیعی سے مروی یہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، احتمال ہے کہ یہ حارث اور عاصم دونوں سے ایک ساتھ روایت کی گئی ہو(توابواسحاق نے اسے دونوں سے روایت کیاہو)۳- اس باب میں ابوبکر صدیق اور عمروبن حزم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جب وہ تجارت کے لیے نہ ہوں۔
وضاحت ۲؎ : رقہ خالص چاندی کو کہتے ہیں خواہ وہ ڈھلی ہو یا غیرڈھلی۔
وضاحت ۳؎ : اس سے معلوم ہواکہ چاندی کا نصاب دوسودرہم ہے اس سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الإِبِلِ وَالْغَنَمِ
۴-باب: اونٹ اور بکری کی زکاۃ کا بیان​


621- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْهَرَوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ (الْمَعْنَى وَاحِدٌ) قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ الزُّهْرِيّ،ِ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ، فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ. فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ. وَعُمَرُ حَتَّى قُبِضَ. وَكَانَ فِيهِ فِي خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاةٌ. وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ. وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلاَثُ شِيَاهٍ. وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ. وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلاَثِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَى سِتِّينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ. فَإِذَا زَادَتْ فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ. فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ وَفِي الشَّاءِ: فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ. فَإِذَا زَادَتْ فَثَلاَثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاَثِ مِائَةِ شَاةٍ. فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلاَثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ. ثُمَّ لَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلاَ يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلاَ يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ وَلاَ يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلاَ ذَاتُ عَيْبٍ. و قَالَ الزُّهْرِيُّ: إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّائَ أَثْلاَثًا: ثُلُثٌ خِيَارٌ، وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ، وَثُلُثٌ شِرَارٌ وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ. وَلَمْ يَذْكُرِ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَبَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ. وَقَدْ رَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ. وَإِنَّمَا رَفَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۳۴ تعلیقا عقب الحدیث (رقم: ۱۴۵۰)، د/الزکاۃ ۴ (۱۵۶۸)، ق/الزکاۃ ۹ (۱۷۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۳)، دي/الزکاۃ ۶ (۱۶۶۶) (صحیح)
( سندمیں سفیان بن حسین ثقہ راوی ہیں،لیکن ابن شہاب زہری سے روایت میں کلام ہے،لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث بھی صحیح ہے )
۶۲۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ـ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے زکاۃ کی دستاویز تحریرکرائی، ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی، اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ۱؎ ، آپ وفات فرماگئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے ،ان کے بعدعمر رضی اللہ عنہ بھی اسی پرعمل پیرا رہے، یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے، اس کتاب میں تحریر تھا:'' پانچ اونٹوں میں ، ایک بکری زکاۃ ہے۔ دس میں دو بکریاں، پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے، جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دوسال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دوسال کی دواونٹوں کی زکاۃ ہے۔ اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دواونٹوں کی زکاۃ ہے۔ جب ایک سوبیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دوسال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔
اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا:چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے ، ایک سوبیس تک، اورجب اس سے زیادہ ہوجائیں تودو سو تک میں دوبکریوں کی زکاۃ ہے، اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہرسو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔ پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چارسو کو پہنچ جائیں، اور (زکاۃ والے) متفرق(مال ) کو جمع نہیں کیاجائے گا ۲؎ اورجومال جمع ہواسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا ۳؎ اورجن میں دوساجھی دار ہوں۴؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔ صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا''۔
زہری کہتے ہیں: جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے، پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی، دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی، پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے ۔ زہر ی نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر کی حدیث حسن ہے، ۲- یونس بن یزید اوردیگرکئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے ، اورزہری نے سالم سے روایت کی ہے، اوران لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاًروایت کیاہے، ۳- اوراسی پر عام فقہاء کا عمل ہے،۴- اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی اکرمﷺکی حیات طیبہ میں ہی قرآن کی طرح ''کتابتِ حدیث''کا عمل شروع ہوگیا تھا ، بیسیوں صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (قرآن کے علاوہ ) اپنے ارشادات وفرامین اوراحکام خودبھی تحریر کرائے اور بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو احادیث مبارکہ لکھنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔(تفصیل کے لیے کتاب العلم عن رسول ﷺکے باب''ماجاء فی رخصۃ کتابۃ العلم ''میں دیکھ لیں۔
وضاحت ۲؎ : یہ حکم جانوروں کے مالکوں اورمحصّلین زکاۃ دونوں کے لیے ہے، متفرق کو جمع کر نے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمیوں کی چالیس بکریاں الگ الگ رہنے کی صورت میں ہر ایک پرایک ایک بکری کی زکاۃ واجب ہو، جب زکاۃ لینے والا آئے توتینوں نے زکاۃ کے ڈرسے اپنی اپنی بکریوں کو یکجاکردیا تاکہ ایک ہی بکری دینی پڑے۔
وضاحت ۳؎ : اس کی تفسیریہ ہے کہ مثلاً دوساجھی دارہیں ہر ایک کی ایک سوایک بکریاں ہیں کل ملاکر دوسودوبکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریوں کی زکاۃہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کرلیں تاکہ ایک ایک واجب ہو ایساکرنے سے منع کیا گیا ہے۔
وضاحت ۴؎ : مثلاً دوشریک ہیں، ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں زکاۃ وصول کرنے والاآیااور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دوسوپچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ۲۵چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دوسوساٹھ روپے بنتی ہے توہزار بکریوں والااسے ڈھائی سوروپئے واپس کرے گا اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں توچالیس بکریوں والااسے دس روپیہ واپس کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الْبَقَرِ
۵-باب: گائے کی زکاۃ کا بیان​


622- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"فِي ثَلاَثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ". وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ، وَعَبْدُالسَّلاَمِ ثِقَةٌ حَافِظٌ. وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِاللهِ. وَأَبُوعُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِاللهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللهِ أَبِيهِ.
* تخريج: ق/الزکاۃ ۱۲ (۱۸۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۰۶) (صحیح)
(شواہد کی بناپر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ خصیف حافظہ کے ضعیف ہیں ، اورابوعبیدۃ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
۶۲۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا،یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دوسال کی بچھیا کی زکاۃ ہے( دانتی یعنی دودانت والی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے، اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں،۲- شریک نے بھی یہ حدیث بطریق : ''خُصَيْفٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ'' روایت کی ہے، ۳- اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے۔۴- اس باب میں معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔


623- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلاَثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۴ (۱۵۷۷، ۱۵۷۸)، ن/الزکاۃ ۸ (۲۴۵۵)، ق/الزکاۃ ۱۲ (۱۸۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۶۳)، حم (۵/۲۳۰)، دي/الزکاۃ۵(۱۶۶۴) (صحیح)
۶۲۳- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مجھے یمن بھیجا اورحکم دیا کہ میں ہر تیس گائے پر ایک سال کا بچھوا یا بچھیازکاۃ میں لوں اور ہرچالیس پر دوسال کی بچھیا زکاۃ میں لوں، اور ہر(ذمّی) بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری ۱؎ کپڑے بطورجزیہ لوں ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق:'' سفيان، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن مسروق '' مرسلاً روایت کی ہے ۳؎ کہ نبی اکرمﷺ نے معاذ کو یمن بھیجا اور اس میں '' فأمرني أن آخذ ''کے بجائے '' فأمره أن يأخذ''ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے ۴؎ ۔
وضاحت ۱؎ : معافر:ہمدان کے ایک قبیلے کانام ہے اسی کی طرف منسوب ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں گائے کے تفصیلی نصاب کاذکرہے، ساتھ ہی غیرمسلم سے جزیہ وصول کرنے کا بھی حکم ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس میں معافر کا ذکرنہیں ہے، اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے کی ہے ۔
وضاحت ۴؎ : یعنی یہ مرسل روایت اوپروالی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ مسروق کی ملاقات معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، ترمذی نے اسے اس کے شواہدکی وجہ سے حسن کہاہے۔


624- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللهِ هَلْ يَذْكُرُ عَنْ عَبْدِ اللهِ شَيْئًا؟ قَالَ: لاَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸۹) (صحیح الإسناد)
۶۲۴- عمرو بن مرّہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبیدہ بن عبداللہ سے پوچھا: کیا وہ(اپنے والد) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کوئی چیزیادرکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَخْذِ خِيَارِ الْمَالِ فِي الصَّدَقَةِ
۶-باب: صدقے میں عمدہ مال لینے کی کراہت کا بیان​


625- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنِ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ لَهُ:"إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللهِ حِجَابٌ".
وَفِي الْبَاب عَنْ الصُّنَابِحِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ اسْمُهُ نَافِذٌ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱ (۱۳۹۵)، و۴۱ (۱۴۵۸)، والمظالم ۱۰ (۲۴۴۸)، والمغازی ۶۰ (۴۳۴۷)، والتوحید ۱ (۷۳۷۲)، م/الإیمان ۷ (۱۹)، د/الزکاۃ ۴ (۱۵۸۴)، ن/الزکاۃ ۱ (۲۴۳۷)، و۴۶ (۲۵۲۳)، ق/الزکاۃ ۱ (۱۷۸۳)، (تحفۃ الأشراف: (۶۵۱۱)، حم (۱/۲۳۳)، دي/الزکاۃ ۱ (۱۶۵۵)، ویأتي آخرہ عند المؤلف في البر والصلۃ ۶۸ (۲۰۱۴) (صحیح)
۶۲۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کی طرف اپناعامل بناکر) بھیجا اور ان سے فرمایا: ''تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جارہے ہو ، تم انہیں دعوت دیناکہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اگروہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی صلاۃ فرض کی ہے، اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء ومساکین کو لوٹا دی جائے گی ۱؎ ، اگروہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کوبچانا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا ، اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں صنابحی رضی اللہ عنہ ۲؎ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ زکاۃ جس جگہ سے وصول کی جائے وہیں کے محتاجوں اورضرورت مندوں میں زکاۃ تقسیم کی جائے، مقامی فقراء سے اگرزکاۃبچ جائے تب وہ دوسرے علاقوں میں منتقل کی جائے، بظاہراس حدیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے ، لیکن امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھاہے '' أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كانوا '' اوراس کے تحت یہی حدیث ذکرکی ہے اور'' فقراؤهم ''میں ''هم'' کی ضمیرکومسلمین کی طرف لوٹایاہے یعنی مسلمانوں میں سے جوبھی محتاج ہواسے زکاۃ دی جائے، خواہ وہ کہیں کا ہو۔
وضاحت ۲؎ : صنابحی سے مرادصنابح بن اعسراحمصی ہیں جو صحابی رسول ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الزَّرْعِ وَالتَّمْرِ وَالْحُبُوبِ
۷-باب: کھیتی، پھل اور غلّے کی زکاۃ کا بیان​


626- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۴ (۱۴۰۵)، و۳۲ (۱۴۴۷)، و۴۲ (۱۴۵۹)، و۵۶ (۱۴۸۴)، م/الزکاۃ ۱ (۹۷۹)، د/الزکاۃ ۱ (۱۵۵۸)، ن/الزکاۃ ۵ (۲۴۴۷)، و۱۸ (۲۴۷۵)، و۲۱ (۲۴۸۵)، و۲۴ (۲۴۸۹)، ق/الزکاۃ ۶ (۱۷۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۰۲)، ط/الزکاۃ ۱ (۱)، حم (۳/۶، ۴۵، ۶۰، ۷۳، ۷۴، ۷۹)، دي/الزکاۃ ۱۱ (۱۶۷۳) (صحیح)
۶۲۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''پانچ اونٹوں ۱؎ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ ۲؎ چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق ۳؎ غلّے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ ، ابن عمر ، جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ اونٹوں کا نصاب ہے اس سے کم میں زکاۃ نہیں۔
وضاحت ۲؎ : اوقیہ چالیس درہم ہوتا ہے،اس حساب سے ۵اوقیہ دوسودرہم کے ہوئے، موجودہ وزن کے حساب سے دوسودرہم ۵۹۵گرام کے برابر ہے ۔
وضاحت ۳؎ : ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتا ہے پانچ وسق کے تین سوصاع ہوئے موجودہ وزن کے حساب سے تین سوصاع کاوزن تقریباً (۷۵۰) کلوگرام یعنی ساڑھے سات کوئنٹل بنتا ہے۔


627- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ وَمَالِكُ ابْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنْ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ. وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا. وَخَمْسَةُ أَوْسُقٍ ثَلاَثُ مِائَةِ صَاعٍ. وَصَاعُ النَّبِيِّ ﷺ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثٌ، وَصَاعُ أَهْلِ الْكُوفَةِ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ. وَالأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، وَخَمْسُ أَوَاقٍ مِائَتَا دِرْهَمٍ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ. يَعْنِي لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ مِنْ الإِبِلِ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مِنْ الإِبِلِ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ، وَفِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ فِي كُلِّ خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاةٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۶۲۷- اس سند سے بھی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے جیسے عبدالعزیز بن محمد کی حدیث ہے جسے انہوں نے عمروبن یحیی سے روایت کی ہے ( جو اوپرگزرچکی ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے یہ روایت اوربھی کئی طرق سے مروی ہے،۳- اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔ ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتا ہے۔ اور پانچ وسق میں تین سوصاع ہوتے ہیں۔ نبی اکرمﷺکا صاع ساڑھے پانچ رطل کا تھااور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کا، پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے ،ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ اور پانچ اوقیہ کے دو سودرہم ہوتے ہیں۔اسی طرح سے پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ جب پچیس اونٹ ہوجائیں توان میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے اور پچیس اونٹ سے کم میں ہرپانچ اونٹ پر ایک بکری زکاۃ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ لَيْسَ فِي الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ صَدَقَةٌ
۸-باب: گھوڑے اور غلام میں زکاۃ کے نہ ہونے کا بیان​


628- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ، وَلاَ فِي عَبْدِهِ صَدَقَةٌ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَيْسَ فِي الْخَيْلِ السَّائِمَةِ صَدَقَةٌ، وَلاَ فِي الرَّقِيقِ إِذَا كَانُوا لِلْخِدْمَةِ، صَدَقَةٌ، إِلاَّ أَنْ يَكُونُوا لِلتِّجَارَةِ، فَإِذَا كَانُوا لِلتِّجَارَةِ، فَفِي أَثْمَانِهِمْ الزَّكَاةُ، إِذَا حَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۴۵ (۱۴۶۳)، و۴۶ (۱۴۶۴)، م/الزکاۃ ۲ (۹۸۲)، د/الزکاۃ ۱۰ (۱۵۹۴)، ن/الزکاۃ ۱۶ (۲۴۷۰)، ق/الزکاۃ ۱۵ (۱۸۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۵۳)، حم (۲/۲۴۲، ۲۵۴، ۲۷۹، ۴۱۰، ۴۳۲، ۴۶۹، ۴۷۰، ۴۷۷)، دي/الزکاۃ ۱۰ (۱۶۷۲) (صحیح)
۶۲۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مسلمان پرنہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اوراسی پراہل علم کاعمل ہے کہ پالتو گھوڑوں میں جنہیں دانہ چارہ باندھ کرکھلاتے ہیں زکاۃ نہیں اور نہ ہی غلاموں میں ہے، جب کہ وہ خدمت کے لئے ہوں الاّ یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہوں۔ اور جب وہ تجارت کے لئے ہوں تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہوگی جب ان پر سال گزرجائے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کے عموم سے ظاہریہ نے اس بات پراستدلال کیاہے کہ گھوڑے اورغلام میں مطلقاً زکاۃ واجب نہیں گووہ تجارت ہی کے لیے کیوں نہ ہوں،لیکن یہ صحیح نہیں ہے، گھوڑے اورغلام اگرتجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ بالاجماع واجب ہے جیساکہ ابن منذروغیرہ نے اسے نقل کیاہے، لہذا اجماع اس کے عموم کے لیے مخصص ہوگا۔
 
Top