• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
80-بَاب الْمُعْتَكِفِ يَخْرُجُ لِحَاجَتِهِ أَمْ لاَ؟
۸۰-باب: معتکف اپنی ضرورت کے لیے نکل سکتاہے یانہیں؟​


804- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَائَةً عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا اعْتَكَفَ أَدْنَى إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ وَكَانَ لاَ يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلاَّ لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ. وَالصَّحِيحُ عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: ن/الطہارۃ ۱۷۶ (۱۷۹)، (۲۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۰۲ و۱۷۹۲۱)، وانظر الحدیث الآتی (صحیح)
۸۰۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺجب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میرے قریب کردیتے میں اس میں کنگھی کردیتی ۱؎ اور آپ گھر میں کسی انسانی ضرورت کے علاوہ ۲؎ داخل نہیں ہوتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح اسے دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق : ''مالك، عن ابن شهاب، عن عروة و عمرة، عن عائشة '' روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اسے بطریق : '' مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عمرة، عن عائشة '' روایت کیا ہے، اورصحیح یہ ہے کہ ابن شہاب زہری نے اسے عروہ اورعمرہ دونوں سے اوران دونوں نے عائشہ سے روایت کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ معتکف اپنے جسم کا کوئی حصہ اگرمسجدسے نکالے تو اس کا اعتکاف باطل نہیں ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : انسانی ضرورت کی تفسیرزہری نے پاخانہ اور پیشاب سے کی ہے ۔


805- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. إِذَا اعْتَكَفَ الرَّجُلُ، أَنْ لاَ يَخْرُجَ مِنْ اعْتِكَافِهِ إِلاَّ لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ، وَاجْتَمَعُوا عَلَى هَذَا أَنَّهُ يَخْرُجُ لِقَضَاءِ حَاجَتِهِ لِلْغَائِطِ وَالْبَوْلِ. ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَشُهُودِ الْجُمُعَةِ وَالْجَنَازَةِ لِلْمُعْتَكِفِ فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَعُودَ الْمَرِيضَ وَيُشَيِّعَ الْجَنَازَةَ وَيَشْهَدَ الْجُمُعَةَ إِذَا اشْتَرَطَ ذَلِكَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ هَذَا وَرَأَوْا لِلْمُعْتَكِفِ. إِذَا كَانَ فِي مِصْرٍ يُجَمَّعُ فِيهِ أَنْ لاَ يَعْتَكِفَ إِلاَّ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ لأَنَّهُمْ كَرِهُوا الْخُرُوجَ لَهُ مِنْ مُعْتَكَفِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ وَلَمْ يَرَوْا لَهُ أَنْ يَتْرُكَ الْجُمُعَةَ فَقَالُوا: لاَ يَعْتَكِفُ إِلاَّ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ. حَتَّى لاَ يَحْتَاجَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ مُعْتَكَفِهِ لِغَيْرِ قَضَاءِ حَاجَةِ الإِنْسَانِ لأَنَّ خُرُوجَهُ لِغَيْرِ حَاجَةِ الإِنْسَانِ قَطْعٌ عِنْدَهُمْ لِلاِعْتِكَافِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ أَحْمَدُ: لاَ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَلاَ يَتْبَعُ الْجَنَازَةَ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ و قَالَ إِسْحَاقُ إِنْ اشْتَرَطَ ذَلِكَ فَلَهُ أَنْ يَتْبَعَ الْجَنَازَةَ وَيَعُودَ الْمَرِيضَ.
* تخريج: خ/الاعتکاف ۳ (۲۰۲۹)، م/الحیض ۳ (۲۹۷)، د/الصیام ۷۹ (۲۴۶۸)، ق/الصوم ۶۴ (۱۷۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۷۹) (صحیح)
وأخرجہ کل من : ح/الحیض ۲ (۲۹۵)، والاعتکاف ۲ (۲۰۲۸)، و۱۹ (۲۰۴۶)، واللباس ۷۶ (۵۹۲۵)، ود/الصیام ۷۹ (۲۴۶۷)، وط/الطہارۃ ۲۸ (۱۰۲)، والاعتکاف ۱ (۱)، وحم (۶/۱۰۴)، ۲۰۴، ۲۳۱، ۲۴۷، ۲۶۲)، ودي/الطہارۃ ۱۰۷ (۱۰۸۵)، من غیر ہذا الطریق ، وبتصرف یسیر فی السیاق۔
۸۰۵- ہم سے اسے قتیبہ نے بسند لیث بن سعدعن ابن شہاب الزہری عن عروہ عن عمرہ عن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اور اہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے کہ جب آدمی اعتکاف کرے تو انسانی ضرورت کے بغیراپنے معتکف سے نہ نکلے ، اور ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ پاخانہ پیشاب جیسی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نکل سکتا ہے،۲- پھرمعتکف کے لیے مریض کی عیادت کرنے، جمعہ اور جنازہ میں شریک ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ وہ مریض کی عیادت کرسکتاہے، جنازہ کے ساتھ جاسکتاہے اور جمعہ میں شریک ہوسکتاہے جب کہ اس نے اس کی شرط لگالی ہو۔ یہ سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے،۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے ان میں سے کوئی بھی چیزکرنے کی اجازت نہیں ، ان کا خیال ہے کہ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شہر میں ہوجہاں جمعہ ہوتاہوتو مسجدجامع میں ہی اعتکاف کرے۔ اس لیے کہ یہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے معتکف سے نکلنا اس کے لیے مکروہ قرار دیتے ہیں اوراس کے لیے جمعہ چھوڑنے کو بھی جائزنہیں سمجھتے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ وہ جامع مسجدہی میں اعتکاف کرے تاکہ اسے انسانی حاجتوں کے علاوہ کسی اور حاجت سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ باقی رہے ، اس لیے کہ بغیرکسی انسانی ضرورت کے مسجدسے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے۔۴- اوراحمد کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی روسے نہ وہ مریض کی عیادت کرے گا ، نہ جنازہ کے ساتھ جائے گا۔ ۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگروہ ان چیزوں کی شرط کرلے تو اسے جنارے کے ساتھ جانے اور مریض کی عیادت کرنے کی اجازت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
81-بَاب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
۸۱-باب: ماہ رمضان کی راتوں میں قیام (تہجدپڑھنے) کا بیان​


806- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ. فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ! لَوْنَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ. فَقَالَ: إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ.
ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلاَثٌ مِنْ الشَّهْرِ وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَائَهُ فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلاَحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الْفَلاحُ قَالَ: السُّحُورُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ. فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ . وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ. وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ، عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً. و قَالَ أَحْمَدُ: رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْئٍ. و قَالَ إِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ، الصَّلاَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ. وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ إِذَا كَانَ قَارِئًا. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۱۸ (۱۳۷)، ن/السہو ۱۰۳ (۱۳۶۵)، الإقامۃ ۱۷۳ (۱۳۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۰۳)، حم (۵/۱۵۹)، دي/الصوم (۱۸۱۸) (صحیح)
۸۰۶- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ صیام رمضان رکھے توآپ نے ہمیں صلاۃ (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا(یعنی تہجدپڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزرگئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجدنہیں پڑھی)اورجب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا(یعنی تہجدپڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔ توہم نے آپ سے عرض کیا : اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (توبہترہوتا) ؟آ پ نے فرمایا: ''جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لیے پوری رات کاقیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں صلاۃ نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھرآپ نے ہمیں ۲۷ویں رات کو صلاۃ پڑھائی۔ اوراپنے گھروالوں اورا پنی عورتوں کوبھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیایہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیاچیز ہے؟ توانہوں نے کہا: سحری ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وترکے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،۴- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بناپر جو عمر، علی اوردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں ۔ یہ سفیان ثوری ، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایاہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،۵- احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،۷- ابن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ صلاۃ پڑھنے کو پسندکیا ہے،۸- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسندکیا ہے جب وہ قاری ہو۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دوقول کاذکرکیا ہے ان کے علاوہ اوربھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں واردہیں ان میں راجح اورمختاراوردلائل کے اعتبارسے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے، کیونکہ رسول اللہﷺسے صحیح سندسے یہی قول ثابت ہے دیگراقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سندسے ثابت نہیں اورنہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
82-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا
۸۲-باب: صائم کو افطار کرانے کی فضیلت کا بیان​


807- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لاَ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الصیام ۴۵ (۱۷۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۰)، حم (۴/۱۱۴-۱۱۵،۱۱۶) (صحیح)
۸۰۷- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے کسی صائم کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ صائم کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیاجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
83- بَاب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَمَا جَاءَ فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ
۸۳-باب: قیامِ رمضان (تراویح پڑھنے ) کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان​


808- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ وَيَقُولُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِك. ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ كَذَلِكَ فِي خِلاَفَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المسافرین ۲۵ (۷۵۹)، د/الصلاۃ ۳۱۸ (۱۳۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۰)، وأخرجہ کل من : خ/الإیمان ۲۷ (۳۷)، والصوم ۶ (۱۸۹۸)، والتراویح ۱ (۲۰۰۹)، ود/الصلاۃ ۳۱۸ (۱۳۷۱)، ون/قیام اللیل ۳ (۱۶۰۳)، والصیام ۳۹ (۲۱۹۸-۲۲۰۱، ۲۲۰۳-۲۲۰۴، ۲۲۱۲)، والإیمان ۲۱ (۵۰۲۷- ۵۰۲۹)، و۲۲ (۵۰۳۰) من غیر ھذا الطریق (صحیح)
۸۰۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺرمضان کے قیام(تہجدپڑھنے) کی ترغیب دلاتے، بغیرا س کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اورفرماتے :'' جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جائیں گے''،چنانچہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی اورمعاملہ اسی پر قائم رہا، پھر ابوبکر کے عہد خلافت میں اور عمر کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی سے حدیث آئی ہے،۳- یہ حدیث بطریق: '' الزهري، عن عائشة، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نبی اکرمﷺ کے عہد میں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بغیر عزیمت وتاکید کے اکیلے اکیلے ہی تراویح پڑھنے کا معاملہ رہا، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باضابطہ گیارہ رکعت تراویح باجماعت کا نظم قائم کردیا۔اس ضمن میں مؤطا امام میں صحیح حدیث موجودہے۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

7- كِتَاب الْحَجِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۷-کتاب: حج کے احکام ومناسک ۱؎


1-بَاب مَا جَاءَ فِي حُرْمَةِ مَكَّةَ
ا-باب: مکہ کی حرمت کا بیان​


809- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ: لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلاً قَامَ بِهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ وَلاَ يَحِلُّ لاِمْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ ﷺ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكَ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهِ سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ. وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالأَمْسِ. وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ". فَقِيلَ لأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ بِذَلِكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ! إِنَّ الْحَرَمَ لاَ يُعِيذُ عَاصِيًا وَلاَ فَارًّا بِدَمٍ وَلاَ فَارًّا بِخَرْبَةٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى وَلاَ فَارًّا بِخِزْيَةٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ الْعَدَوِيُّ وَهُوَ الْكَعْبِيُّ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَلاَ فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ. يَقُولُ: مَنْ جَنَى جِنَايَةً، أَوْ أَصَابَ دَمًا، ثُمَّ لَجَأَ إِلَى الْحَرَمِ، فَإِنَّهُ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ.
* تخريج: خ/العلم ۳۷ (۱۰۴)، وجزاء الصید ۸ (۱۸۳۲)، والمغازي ۵۱ (۴۲۹۵)، م/الحج ۸۲ (۱۳۵۴)، ن/الحج ۱۱۱ (۲۸۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۷)، حم (۴/۳۱)، ویأتي عند المؤلف في الدیات (برقم: ۱۴۰۶)، وحم (۶/۳۸۵) من غیر ہذا الطریق (صحیح)
۸۰۹- ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمروبن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیرسے قتال کے لیے) لشکر روانہ کررہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا،میرے دل نے اسے یادرکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا : '' مکہ (میں جنگ وجدال کرنا)اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیںکیاہے، لہذا کسی شخص کے لیے جواللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہو، یہ جائزنہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میںرسول اللہ ﷺ کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو: اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تومجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجودہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچادیں جوموجودنہیں ہیں''، ابوشریح سے پوچھاگیا:اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا ؟ کہا: اُس نے مجھ سے کہا:ابوشریح !میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتاہوں، حرم مکہ کسی نافرمان (یعنی باغی) کو پناہ نہیں دیتا اورنہ کسی کا خون کرکے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کرکے بھاگنے والے کو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوشریح رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوشریح خزاعی کانام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں،۳- اس باب میں ابوہریرہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ''ولا فارا بخربة'' کی بجائے''ولا فارا بخزية '' (زائے منقوطہ اوریاء کے ساتھ بھی مروی ہے، ۵- اور ''ولا فارا بخربة'' میں خربہ کے معنی گناہ اورجرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیایا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تواس پر حد جاری کی جائے گی۔
وضاحت ۱؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ۵ھ؁ یا ۶ھ؁میں ہوئی اوربعض نے ۹ھ؁ یا ۱۰ھ؁کہا ہے، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔
وضاحت ۲؎ : عمروبن سعید: یزیدکی طرف سے مدینہ کا گونرتھااوریزیدکی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کی خلافت کے خلاف لشکرکشی کرنا اوروہ بھی مکہ مکرمہ پرقطعاغلط تھی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
۲-باب: حج وعمرہ کے ثواب کا بیان​


810- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ. وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ حُبْشِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: ن/الحج ۶ (۲۶۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۷۴)، حم (۱/۳۸۷) (حسن صحیح)
۸۱۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو اداکرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹادیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹادیتی ہے اور حج مبرور ۱؎ کا بدلہ صرف جنت ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، اور ابن مسعودکی روایت سے غریب ہے،۲- اس باب میں عمر، عامر بن ربیعہ ، ابوہریرہ ، عبداللہ بن حبشی، ام سلمہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حج مبروروہ حج ہے جس میں حاجی اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے اوربعض نے حج مبرورکے معنی حج مقبول کے کئے ہیں ،اس کی علامت یہ بتائی ہے کہ حج کے بعدوہ انسان اللہ کا عبادت گزاربن جائے جب کہ وہ اس سے پہلے غافل رہا ہو۔اور ہرطرح کے شرک وکفراوربدعت اورفسق وفجورکے کام سے تائب ہوکراسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے۔


811- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو حَازِمٍ كُوفِيٌّ، وَهُوَ الأَشْجَعِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الأَشْجَعِيَّةِ.
* تخريج: خ/الحج ۴ (۱۵۲۱)، والمحصر ۹ (۱۸۱۹)، و۱۰ (۱۸۲۰)، م/الحج ۷۹ (۱۳۵۰)، ن/الحج ۴ (۲۶۲۸)، ق/الحج ۳ (۲۸۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۳۱)، حم (۲/۴۱۰، ۴۸۴، ۴۹۴) (صحیح) (غفر له ما تقدم من ذنبه کا لفظ شاذ ہے ،اور اس کی جگہ رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمهصحیح اور متفق علیہ ہے ، تراجع الالبانی ۳۴۲)
۸۱۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بے ہودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا ۱؎ تو اس کے گزشتہ تمام گناہ ۲؎ بخش دئے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : رفث کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں،یہاں مرادفحش گوئی اوربے ہودگی کی باتیں کرنی اوربیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزوکرنا ہے، حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائزنہیں ہے اس لیے اس موضوع پراس سے گفتگوبھی ناپسندیدہ ہے، اورفسق سے مراداللہ کی نافرمانی ہے، اورجدال سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑاہے، دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے مرادوہ صغیر(چھوٹے)گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، رہے بڑے بڑے گناہ اوروہ چھوٹے گناہ جوحقوق العبادسے متعلق ہیں تووہ توبہ حق کے ادا کئے بغیرمعاف نہیں ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّغْلِيظِ فِي تَرْكِ الْحَجِّ
۳-باب: حج ترک کرنے کی مذمت کا بیان​


812- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَبْدِاللهِ مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْبَاهِلِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلاَ عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا. وَذَلِكَ أَنَّ اللهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ:{وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً}".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَهِلاَلُ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ مَجْهُولٌ وَالْحَارِثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (ضعیف)
(سند میں ہلال اورحارث اعور دونوں ضعیف راوی ہیں)
۸۱۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' سفرکے خرچ اور سواری کامالک ہو جواسے بیت اللہ تک پہنچاسکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکرمرے یاعیسائی ہوکر، اوریہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب(قرآن) میں فرمایا ہے:''اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ۱؎ ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- اس کی سند میں کلام ہے۔ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔ اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ضعیف ہے، مگر علی رضی اللہ عنہ کے اپنے قول سے صحیح ہے، اور ایسی بات کوئی صحابی اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْحَجِّ بِالزَّادِ وَالرَّاحِلَةِ
۴-باب: سفرکے خرچ اور سواری ہونے سے حج کے واجب ہوجانے کابیان​


813- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ! مَا يُوجِبُ الْحَجَّ؟ قَالَ: الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَجُّ. وَإِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْخُوزِيُّ الْمَكِّيُّ. وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الصیام ۶ (۲۸۹۶)، ویأتي في التفسیر (برقم: ۲۹۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۸۴۴) (ضعیف جدا)
(سند میں ''ابراہیم بن یزید الخوزی'' متروک الحدیث راوی ہے)
۸۱۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر پوچھا:اللہ کے رسول! کیا چیز حج واجب کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا:'' سفرخرچ اور سواری ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے ،۳- اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ آدمی جب سفرخرچ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ كَمْ فُرِضَ الْحَجُّ
۵-باب: کتنی بار حج فرض ہے؟​


814- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ؛ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ { وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً}. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! أَفِي كُلِّ عَامٍ فَسَكَتَ. فَقَالُوا: يَارَسُولَ اللهِ! فِي كُلِّ عَامٍ؟ قَالَ: لاَ، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ. فَأَنْزَلَ اللهُ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ}. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ.
* تخريج: ق/الصیام ۲ (۲۸۸۴)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدہ (۳۰۵۵) (ضعیف)
(سند میں ابوالبختری کی علی رضی اللہ عنہ سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے)
۸۱۴- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ'' اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں''، تولوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیاحج ہرسال (فرض ہے)؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھرپوچھا: اللہ کے رسول ! کیاہرسال؟ آپ نے فرمایا:نہیں،اور'' اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہرسال ) واجب ہوجاتا اورپھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا:'' اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھاکرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تم پر شاق گزریں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے، ۲- ابوالبختری کانام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں،۳- اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ كَمْ حَجَّ النَّبِيُّ ﷺ؟
۶-باب: نبی اکرم ﷺ نے کتنے حج کئے؟​


815- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَجَّ ثَلاَثَ حِجَجٍ: حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ وَمَعَهَا عُمْرَةٌ. فَسَاقَ ثَلاَثَةً وَسِتِّينَ بَدَنَةً وَجَاءَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبَقِيَّتِهَا فِيهَا جَمَلٌ لأَبِي جَهْلٍ فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَنَحَرَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ، فَطُبِخَتْ وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ . وَرَأَيْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ فِي كُتُبِهِ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَأَيْتُهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَحْفُوظًا. و قَالَ إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلاً.
* تخريج: ق/الحج ۸۴ (۳۰۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۶) (صحیح)
۸۱۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے تین حج کئے ، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آ پ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طورپر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے ۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔رسول اللہﷺ نے انہیں نحر کیا، پھرآپ نے ہراونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کراسے پکانے کا حکم دیا ، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں ۱؎ ،۲- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی کودیکھاکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے،۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تووہ اسے بروایت ثوری عن جعفرعن أبیہ عن جابرعن النبیﷺ نہیں جان سکے ،میں نے انہیں دیکھاکہ انہوں نے اس حدیث کومحفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا:یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اورثوری نے ابواسحاق سے اورابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : ابن ماجہ کے یہاں ''عبدالرحمن بن داود'' نے ''زید بن حباب'' کی متابعت کی ہے، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت شاہد بھی موجود ہے۔


815م- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: قُلْتُ: لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَمْ حَجَّ النَّبِيُّ ﷺ؟ قَالَ: حَجَّةً وَاحِدَةً، وَاعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةٌ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةُ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةٌ مَعَ حَجَّتِهِ، وَعُمْرَةُ الجِعِرَّانَةِ إِذْ قَسَّمَ غَنِيمَةَ حُنَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ هُوَ أَبُو حَبِيبٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ جَلِيلٌ ثِقَةٌ . وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
* تخريج: خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۸)، م/الحج ۳۵ (۱۲۵۳)، د/المناسک ۸۰ (۱۹۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۳)، حم (۳/۲۵۶)، دي/المناسک ۳ (۱۸۲۸)
۸۱۵/ م- قتادۃ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: نبی اکرمﷺ نے کتنے حج کئے ؟ انہوں نے کہا: صرف ایک حج ۱؎ اور چار عمرے کئے۔ ایک عمرہ ذی قعدہ میں ، ایک عمرہ حدیبیہ ۲؎ میں اور ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ، اور ایک جعرانہ ۳؎ کا عمرہ جب آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حجۃ الوداع ہے۔
وضاحت ۲؎ : مکہ سے نومیل کی دوری پرایک جگہ کانام ہے۔ جہاں صلح حدیبیہ منعقد ہوئی تھی۔
وضاحت ۳؎ : مکہ سے نومیل کی دوری پراورایک قول کے مطابق چھ میل کی دوری پرایک جگہ کانام ہے۔
 
Top