• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ كَمْ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ
۷-باب: نبی اکرمﷺ نے کتنے عمرے کئے؟​


816- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الثَّانِيَةِ مِنْ قَابِلٍ عُمْرَةَ الْقَضَائِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ، وَالرَّابِعَةِ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/المناسک ۸۰ (۱۹۹۳)، ق/المناسک ۵۰ (۳۰۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۸)، حم (۱/۲۴۶) (صحیح)
۸۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے چار عمرے کئے: حدیبیہ کاعمرہ ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضا کا عمرہ ، تیسرا عمرہ جعرانہ ۱؎ کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں انس ، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جعرانہ طائف اورمکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے نبی اکرمﷺ نے غزوئہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھاتھا۔


816/م- وَرَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۸) (حسن)
(یہ مرسل ہے ، لیکن سابقہ سند سے تقویت پاکر حسن لغیرہ ہے)
۸۱۶/م- ابن عیینہ نے بسندعمروبن دینا رعن عکرمہ روایت کی کہ نبی اکرمﷺ نے چارعمرے کئے، اس میں عکرمہ نے ابن عباس کاذکرنہیں کیا ہے، پھرترمذی نے اپنی سندسے اسے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ ... آگے اسی طرح کی حدیث ذکرکی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ مِنْ أَيِّ مَوْضِعٍ أَحْرَمَ النَّبِيُّ ﷺ
۸-باب: نبی اکرمﷺ نے کس جگہ سے احرام باندھا؟​


817- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا فَلَمَّا أَتَى الْبَيْدَائَ أَحْرَمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۶۱۲) (صحیح)
۸۱۷- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ نے حج کا ارادہ کیا توآپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔ (مدینہ میں) لوگ اکٹھا ہوگئے ،چنانچہ جب آپ (وہاں سے چل کر) بیداء پہنچے تو احرام باندھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، انس ، مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : آپ ﷺ نے درحقیقت ذو الحلیفہ کی مسجد میں صلاۃ کے بعد احرام باندھا، دیکھئے اگلی حدیث۔


818- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ ابْنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الْبَيْدَائُ الَّتِي يَكْذِبُونَ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَاللهِ مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ، مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الحج ۲ (۱۵۱۵)، و۲۰ (۱۵۴۱)، والجہاد ۵۳ (۲۸۶۵)، م/الحج (۱۱۸۶)، د/المناسک ۲۱ (۱۷۷۱)، ن/الحج ۵۶ (۲۷۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۰)، ط/الحج ۹ (۳۰)، حم (۲/۱۰، ۶۶، ۱۵۴) (صحیح)
۸۱۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہﷺ پرجھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ۱؎ اللہ کی قسم ! رسو ل اللہ ﷺ نے مسجد (ذی الحلیفہ ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ بات ابن عمرنے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے بیداء کے مقام سے احرام باندھاتھا۔
وضاحت ۲؎ : ان روایات میں بظاہرتعارض ہے، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجدکے اندرہی باندھاتھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیاانہوں نے اس کاذکرکیا اورجب آپ مسجدسے باہرتشریف لائے اوراپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلندآواز سے تلبیہ پکاراتودیکھنے والوں نے سمجھاکہ آپ نے اسی وقت احرام باندھاہے، پھرجب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سناانہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھاہے، گویا ہرشخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبردی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ مَتَى أَحْرَمَ النَّبِيُّ ﷺ
۹-باب: نبی اکرم ﷺ نے احرام کب باندھا؟​


819- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلاَةِ.
قَالَ: أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ عَبْدِالسَّلاَمِ بْنِ حَرْبٍ. وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلاَةِ.
* تخريج: ن/الحج ۵۶ (۲۷۵۵) (تحفۃ الأشراف: ۵۵۰۲) (ضعیف)
(سند میں خصیف مختلط راوی ہیں)
۸۱۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صلاۃ کے بعداحرام باندھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کونہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو،۳- جس چیز کو اہل علم نے مستحب قراردیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی صلاۃ کے بعد احرام باندھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي إِفْرَادِ الْحَجِّ
۱۰-باب: حج افراد کابیان​


820- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَائَةً، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ، وَأَفْرَدَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: و قَالَ الثَّوْرِيُّ: إِنْ أَفْرَدْتَ الْحَجَّ فَحَسَنٌ وَإِنْ قَرَنْتَ فَحَسَنٌ وَإِنْ تَمَتَّعْتَ فَحَسَنٌ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ مِثْلَهُ. وَقَالَ: أَحَبُّ إِلَيْنَا الإِفْرَادُ ثُمَّ التَّمَتُّعُ ثُمَّ الْقِرَانُ.
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، د/المناسک ۲۳ (۱۷۷۷)، ن/الحج ۴۸ (۲۷۱۶)، ق/المناسک ۳۷ (۲۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۱۷)، ط/الحج ۱۱ (۳۷)، دي/المناسک ۱۶ (۱۸۵۳) (صحیح الإسناد شاذ) وأخرجہ حم (۶/۲۴۳) من غیر ہذا الطریق۔
(نبی اکرمﷺ کا حج ،حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)۔
۸۲۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج افراد ۱؎ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، ۴- ابن عمر رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حج افراد کیا، ابوبکر ،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی افراد کیا، ۵- ثوری کہتے ہیں کہ حج افراد کرو تو بھی بہتر ہے، حج قران کرو تو بھی بہتر ہے اور حج تمتع کرو تو بھی بہتر ہے۔ شافعی نے بھی اسی جیسی بات کہی ، ۶- کہا:ہمیں سب سے زیادہ افراد پسند ہے پھر تمتع اور پھر قران۔
وضاحت ۱؎ حج کی تین قسمیں ہیں: افراد، قِران اورتمتع،حج افرادیہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے، اور حج قِران یہ ہے کہ حج اورعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے، اورقربانی کا جانورساتھ ، جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھرمکہ میں جاکرعمرہ کی ادائیگی کے بعداحرام کھول دے اورپھرآٹھویں تاریخ کومکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔ اب رہی یہ بات کہ آپ ﷺ نے کون سا حج کیا تھا؟توصحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیاتھا، تفصیل کے لیے حدیث رقم ۸۲۲ کا حاشیہ دیکھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ
۱۱-باب: حج اور عمرہ کے ایک ساتھ کرنے کابیان​


821- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ". قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۱۱) (صحیح)
وقد أخرجہ کل من : خ/المغازی ۶۱ (۴۳۵۴)، وم/الحج ۲۷ (۱۲۳۲)، من غیر ھذا الطریق۔
۸۲۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو '' لبيك بعمرة وحجة'' فرماتے سنا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں ، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیارکیاہے۔
وضاحت ۱؎ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حج اورعمرے دونوں کاتلبیہ ایک ساتھ پکارا۔ انس رضی اللہ عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کرلیں تو آپ سے کہا گیا ''قل عمرۃ فی حجۃ'' اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّمَتُّعِ
۱۲-باب: حج تمتع کابیان​


822- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ،عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ. قَالَ : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف و۳۴ (۱۲۵۱)، ود/المناسک ۲۴ (۱۷۹۵)، وق/الحج ۱۴ (۲۹۱۷)، و۳۸ (۲۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۴۵)، وحم (۳/۹۹)، ودي/المناسک ۷۸ (۱۹۶۴)، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد)
(سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگراحادیث سے ثابت ہے )
۸۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی ۲؎ اورسب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرمﷺ نے کونساحج کیا تھا؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیثسے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افرادکیا اوربعض سے حج تمتع اوربعض سے حج قران، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہرایک نے نبی اکرمﷺ کی طرف اس چیز کی نسبت کردی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا، اوریہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افرادکااحرام باندھا تھا اوربعدمیں آپ قارن ہوگئے تھے، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کاارشادہے'' لولا معي الهدى لأحللت ''(اگرمیرے ساتھ ہدی کاجانورنہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہوجاتا ،اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قِران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا، کیوں کہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہر حال حج قران میں بھی حاصل ہے، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی راویت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبردی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظرحج افرادتھابعدمیں آپ نے حج میں عمرہ کوبھی شامل کرلیا، اورآپ سے کہاگیا:'' قل عمرة في حجة'' اس طرح آپ نے حج افرادکو حج قِران سے بدل دیا۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کونسی قسم افضل ہے؟ تو احناف حج قرِان کوافضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کوپسندکیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے، امام احمداورامام مالک نے حج تمتع کوافضل کہاہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اورنبی اکرمﷺ نے ایک مرحلہ پراس کی خواہش کااظہاربھی فرمایاتھا اوربعض نے حج افراد کوافضل قراردیاہے۔آخری اورحق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے: ''قال عبدالله بن شقيق: كان عثمان ينهى عن المتعة وكان علي يأمربها'' اورنیچے کی روایت سے عمرکامنع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہو نے کاعلم نہیں تھا، پھرجب انہیں اس کا جوازمعلوم ہواتوانہوں نے بھی تمتع کیا۔
وضاحت ۳؎ : روایات سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے عمروعثمان رضی اللہ عنہا سے ممانعت ثابت ہے ،ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کی نہی تحریمی، لہذا یہ کہاجاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی اوّلیت تحریم کے اعتبارسے تھی۔


823- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ، وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ. فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: لاَ يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلاَّ مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللهِ. فَقَالَ سَعْدٌ: بِئْسَ مَا قُلْتَ، يَا ابْنَ أَخِي! فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ. فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲۸)، ط/الحج ۱۹ (۶۰)، دي/الحج ۱۸ (۱۸۵۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)
۸۲۳- محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہا سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کررہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا: ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت بری بات ہے جوتم نے کہی ، میرے بھتیجے !تو ضحاک بن قیس نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیاہے، اس پرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اللہﷺ نے اسے کیاہے اورآپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


824- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاللهِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلاً مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَاللهِ ابْنَ عُمَرَ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَقَالَ: عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلاَلٌ، فَقَالَ الشَّامِيُّ: إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا؛ وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ،أَأَمْرُ أَبِي يُتَّبَعُ أَمْ أَمْرُ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ وَجَابِرٍ وَسَعْدٍ وَأَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَغَيْرِهِمْ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ. وَالتَّمَتُّعُ أَنْ يَدْخُلَ الرَّجُلُ بِعُمْرَةٍ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، ثُمَّ يُقِيمَ حَتَّى يَحُجَّ فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ وَعَلَيْهِ دَمٌ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ صَامَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيُسْتَحَبُّ لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا صَامَ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ أَنْ يَصُومَ الْعَشْرَ، وَيَكُونُ آخِرُهَا يَوْمَ عَرَفَةَ، فَإِنْ لَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ صَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ فِي قَوْلِ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يَصُومُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَهْلُ الْحَدِيثِ يَخْتَارُونَ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ فِي الْحَجِّ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۸۶۲) (صحیح الإسناد)
۸۲۴- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ا ہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہاتھا، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ جائزہے۔اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تواس سے روکا ہے؟عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اوررسول اللہﷺ نے اسے کیا ہوتو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یارسول اللہﷺ کے حکم کی، تواس نے کہا:رسول اللہﷺ کے حکم کی، توانہوں نے کہا:رسول اللہﷺ نے ایسا کیا ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث ( ۸۲۲) حسن ہے،۲- اس باب میں علی، عثمان ، جابر، سعد ، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیاہے کہ حج میں عمرہ کوشامل کرکے حج تمتع کرنا درست ہے،۴- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کرکے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جواسے میسرہو قربانی لازم ہوگی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے صیام رکھے،۵- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین صیام رکھے تو ذی الحجہ کے(ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری صوم یوم عرفہ کوہو،اورصحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمراور عائشہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں کے قول کی روسے اگر وہ دس دنوں میں یہ صیام نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۶- اوربعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں صوم نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کوشامل کرکے حج تمتع کرنے کو پسندکرتے ہیں، یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّلْبِيَةِ
۱۳-باب: تلبیہ کابیان​


825- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ ﷺ كَانَتْ "لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللهِ فَلاَ بَأْسَ إِنْ شَائَ اللهُ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا قُلْنَا لاَ بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللهِ فِيهَا لِمَا جَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ "لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۵۹۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الحج ۲۶ (۱۵۴۹)، واللباس ۶۹ (۵۹۵۱)، م/الحج ۳ (۱۱۸۳)، د/الحج ۲۷ (۱۸۱۲)، ن/الحج ۵۴ (۲۷۴۸)، ق/المناسک ۱ (۲۹۸)، ط/الحج ۹ (۲۸)، حم (۲/۳، ۲۸، ۳۴، ۴۱، ۴۳، ۴۷، ۴۸، ۵۳، ۷۶، ۷۷، ۷۹، ۱۳)، دي/المناسک ۱۳ (۱۸۴۹)، من غیر ہذا الطریق، وانظر الحدیث الآتی۔
۸۲۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا تلبیہ یہ تھا < لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَشَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ >، (حاضر ہوں ، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اورسلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ، جابر ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ اوریہی سفیان ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، ۴- شافعی کہتے ہیں: اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کااضافہ کرلے تو کوئی حرج نہیں ہوگا- ان شاء اللہ- لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفاکرے۔
شافعی کہتے ہیں: ہم نے جویہ کہا کہ '' اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھالینے میں کوئی حرج نہیں تواس دلیل سے کہ ابن عمرسے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے تلبیہ یادکیا پھر اپنی طرف سے اس میں <لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ >(حاضر ہوں ، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لئے ہے) کا اضافہ کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جابربن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرمﷺ کے تلبیہ میں اپنی طرف سے '' ذا المعارج '' اوراس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرمﷺ سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائزہے، اگر جائز نہ ہوتاتو آپ منع فرمادیتے، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہا کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔


826- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ لاَشَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ.
قَالَ: وَكَانَ عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ: هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَكَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ <لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ>. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۳۱۴) (صحیح)
۸۲۶- نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکار تے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے: ''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے تھے: یہ رسول اللہﷺ کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہﷺ کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے : ''لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَائُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ''(حاضرہوں تیری خدمت میں حاضرہوں تیری خدمت میں اورخوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّلْبِيَةِ وَالنَّحْرِ
۱۴-باب: تلبیہ اور نحر(قربانی ) کی فضیلت کابیان​


827- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ: أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ.
* تخريج: ق/الحج ۱۶ (۲۹۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۰۸)، دي/المناسک ۸ (۱۸۳۸) (صحیح)
۸۲۷- ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھاگیا کہ کون ساحج افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''جس میں کثرت سے تلبیہ پکاراگیا ہو اورخوب خون بہایاگیاہو '' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی قربانی کی گئی ہو۔


828- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلاَّ لَبَّى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّى تَنْقَطِعَ الأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا". حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ، أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ. وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَى أَبُو نُعَيْمٍ الطَّحَّانُ ضِرَارُ بْنُ صُرَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَأَخْطَأَ فِيهِ ضِرَارٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: مَنْ قَالَ (فِي هَذَا الْحَدِيثِ) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، فَقَدْ أَخْطَأَ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ (وَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ ضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ) فَقَالَ: هُوَ خَطَأٌ. فَقُلْتُ: قَدْ رَوَاهُ غَيْرُهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ أَيْضًا مِثْلَ رِوَايَتِهِ. فَقَالَ: لاَ شَيْئَ. إِنَّمَا رَوَوْهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ وَرَأَيْتُهُ يُضَعِّفُ ضِرَارَ ابْنَ صُرَدٍ. وَالْعَجُّ هُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ وَالثَّجُّ، هُوَ نَحْرُ الْبُدْنِ.
* تخريج: ق/المناسک ۱۵ (۲۹۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۷۳۵) (صحیح)
۸۲۸- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جو مسلمان بھی تلبیہ پکارتاہے اس کے دائیں یابائیں پائے جانے والے پتھر، درخت اور ڈھیلے سبھی تلبیہ پکارتے ہیں ، یہاں تک کہ دونوں طرف کی زمین کے آخری سرے تک کی چیزیں سبھی تلبیہ پکارتی ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے ابن ابی فدیک ہی کے طریق سے جانتے ہیں، انہوں نے ضحاک بن عثمان سے روایت کی ہے، ۲- محمد بن منکدر نے عبدالرحمن بن یربوع سے اسے نہیں سناہے، البتہ محمدبن منکدرنے بسندسعید بن عبدالرحمن بن یربوع عن أبیہ عبدالرحمن بن یربوع اس حدیث کے علاوہ دوسری چیزیں روایت کی ہیں، ۳- ابونعیم طحان ضرار بن صرد نے یہ حدیث بطریق : '' ابن أبي فديك، عن الضحاك بن عثمان، عن محمد بن المنكدر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن يربوع، عن أبيه، عن أبي بكر، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے اور اس میں ضرار سے غلطی ہوئی ہے، ۴- احمد بن حنبل کہتے ہیں: جس نے اس حدیث میں یوں کہا: ''عن محمد بن المنكدر، عن ابن عبد الرحمن بن يربوع، عن أبيه'' اس نے غلطی کی ہے،۵- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے ضراربن صرد کی حدیث ذکر کی جسے انہوں نے ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا : یہ غلط ہے، میں نے کہا: اسے دوسرے لوگوں نے بھی انہیں کی طرح ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا: یہ کچھ نہیں ہے لوگوں نے اسے ابن ابی فدیک سے روایت کیا ہے اور اس میں سعید بن عبدالرحمن کے واسطے کاذکرنہیں کیا ہے، میں نے بخاری کو دیکھا کہ وہ ضراربن صردکی تضعیف کررہے تھے،۶- اس باب میں ابن عمر اورجابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۷- عج : تلبیہ میں آواز بلند کرنے کواور ثج : اونٹنیاں نحر(ذبح) کرنے کو کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ
۱۵-باب: تلبیہ میں آواز بلند کرنے کابیان​


829- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ خَلاَّدِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ خَلاَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالإِهْلاَلِ وَالتَّلْبِيَةِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ خَلاَّدٍ عَنْ أَبِيهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَلاَّدِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلاَ يَصِحُّ، وَالصَّحِيحُ هُوَ عَنْ خَلاَّدِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ، وَهُوَ خَلاَّدُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ خَلاَّدِ بْنِ سُوَيْدٍ الأَنْصَارِيُّ.
* تخريج: د/الحج ۲۷ (۱۸۱۴)، ن/الحج ۵۵ (۲۷۵۴)، ق/المناسک ۱۶ (۲۹۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۸)، ط/الحج ۱۰ (۳۴)، حم (۴/۵۵، ۵۶)، دي/الحج ۱۴ (۱۸۵۰) (صحیح)
۸۲۹- سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' میرے پاس جبرئیل نے آکر مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز بلندکریں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- خلادبن السائب کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے،حسن صحیح ہے۔ ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: ''خلاد بن السائب، عن زيد بن خالد، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہی ہے کہ خلادبن سائب نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، اوریہ خلاد بن سائب بن خلاد بن سوید انصاری ہیں، ۳- اس باب میں زید بن خالد ، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ مردوں کے لیے تلبیہ میں آواز بلندکرنامستحب ہے'' اصحابی'' کی قیدسے عورتیں خارج ہوگئیں اس لیے بہتریہی ہے کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز پست رکھیں۔مگروجوب کی دلیل بالصراحت کہیں نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي الاِغْتِسَالِ عِنْدَ الإِحْرَامِ
۱۶-باب: احرام کے وقت غسل کرنے کابیان​


830- حَدَّثَنَـا عَبْـدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَـادٍ، حَدَّثَنَـا عَبْـدُاللَّهِ بْنُ يَعْقُـوبَ الْمَـدَنِيُّ، عَنْ ابْـنِ أَبِـي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ تَجَرَّدَ لإِهْلاَلِهِ وَاغْتَسَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الاِغْتِسَالَ عِنْدَ الإِحْرَامِ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : دي/المناسک ۶ (۱۸۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۱۰) (صحیح)
( سند میں عبداللہ بن یعقوب مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۸۳۰- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لئے اپنے کپڑے اتارے اور غسل کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اہل علم کی ایک جماعت نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنے کو مستحب قرار دیاہے۔ یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ احرام کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، اکثرلوگوں کی یہی رائے ہے، اور بعض نے اسے واجب کہاہے۔
 
Top