• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
44-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فَيَمُوتُ عَنْهَا قَبْلَ أَنْ يَفْرِضَ لَهَا
۴۴-باب: آدمی شادی کرے اور مہر مقرر کرنے سے پہلے مرجائے توکیاحکم ہے؟​


1145- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ سُئِلَ، عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَتَّى مَاتَ. فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لَهَا مِثْلُ صَدَاقِ نِسَائِهَا. لاَ وَكْسَ وَلاَ شَطَطَ. وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ وَلَهَا الْمِيرَاثُ. فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الأَشْجَعِيُّ فَقَالَ: قَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ، امْرَأَةٍ مِنَّا، مِثْلَ الَّذِي قَضَيْتَ. فَفَرِحَ بِهَا ابْنُ مَسْعُودٍ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْجَرَّاحِ. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ. حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، كِلاَهُمَا عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ: إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا حَتَّى مَاتَ، قَالُوا: لَهَا الْمِيرَاثُ، وَلاَ صَدَاقَ لَهَا، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ لَوْ ثَبَتَ حَدِيثُ بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ لَكَانَتِ الْحُجَّةُ فِيمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرُوِي عَنْ الشَّافِعِيِّ أَنَّهُ رَجَعَ بِمِصْرَ بَعْدُ عَنْ هَذَا الْقَوْلِ، وَقَالَ بِحَدِيثِ بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ.
* تخريج: د/النکاح ۳۲ (۲۱۱۵)، ن/النکاح ۶۸ (۳۳۵۶، ۳۳۵۹)، والطلاق ۵۷ (۳۵۵۴)، ق/النکاح ۱۸ (۱۸۹۱)، دي/النکاح ۴۷ (۲۲۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶۱) (صحیح)
وأخرجہ کل من : ن/النکاح ۶۸ (۳۳۶۰)، وحم (۱/۴۴۷)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۴۵- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی لیکن اس نے نہ اس کا مہر مقرر کیا اورنہ اس سے صحبت کی یہاں تک کہ وہ مرگیا،تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت کے لیے اپنے خاندان کی عورتوں کے جیسا مہر ہوگا۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ اسے عدت بھی گزارنی ہوگی اور میراث میں بھی اس کا حق ہوگا۔تو معقل بن سنان اشجعی نے کھڑے ہوکر کہا: بروع بنت واشق جوہمارے قبیلے کی عورت تھی، کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ فرمایاتھا جیسا آپ نے کیا ہے۔ تواس سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ خوش ہوئے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جراح سے بھی روایت ہے۔ ۳- یزیدبن ہارون اورعبدالرزاق نے بسند سفیان عن منصورسے اسی طرح روایت کی ہے، ۴- ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ اور بھی طرق سے مروی ہے،۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے ۲؎ یہی ثوری، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۶- اورصحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ کہتے ہیں:جن میں علی بن ابی طالب ، زید بن ثابت ، ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی عورت سے شادی کرے،اوراس نے اس سے ابھی دخول نہ کیاہو اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیاہو اوروہ مرجائے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس عورت کو میراث میں حق ملے گا،لیکن کوئی مہر نہیں ہوگا ۳؎ اور اسے عدت گزارنی ہوگی۔ یہی شافعی کابھی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں: اگر بروع بنت واشق کی حدیث صحیح ہو تو نبی اکرمﷺ سے مروی ہونے کی وجہ سے حجت ہوگی۔ اور شافعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بعد میں مصر میں اس قول سے رجوع کرلیا اور بروع بنت واشق کی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت کا شوہرعقدکے بعد مہرکے مقررکرنے سے پہلے مرجائے تو وہ پورے مہرکی مستحق ہوگی اگرچہ دخول اورخلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔
وضاحت ۲؎ : اوریہی قول صحیح اورراجح ہے۔
وضاحت۳؎ : ان لوگوں کا کہناہے کہ مہرعوض ہے تو جب شوہرعورت اور اس کے صیغے پرقابض نہ ہواتومہرلازم نہیں ہوگا جیسے بیع خریدار کے حوالہ نہ ہو تواس پر ثمن لازم نہیں ہوتا، اورحدیث کا جواب ان لوگوں نے یہ دیا ہے کہ حدیث میں اضطراب ہے کبھی یہ معقل بن سنان سے مروی ہے اورکبھی معقل بن یسارسے اورکبھی بغیرنام کی تعیین کے قبیلہ اشجع کے ایک شخص سے، کبھی اشجع کے کچھ لوگوں سے، اس کاجواب یہ دیا جاتاہے کہ یہ اضطراب قادح نہیں ہے کیونکہ یہ شک و تردد دوصحابیوں کے درمیان ہے اس کی وجہ سے حدیث میں طعن نہیں ہوسکتا۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

10-كِتَاب الرَّضَاعِ
۱۰-کتاب: رضاعت کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ يُحَرَّمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يُحَرَّمُ مِنَ النَّسَبِ
۱-باب: رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام ہوجاتے ہیں جونسب سے ہوتے ہیں​


1146- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنَ النَّسَبِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلاَفًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۱۸) (صحیح)
۱۱۴۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کردیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ابن عباس اورام حبیبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ہم ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔
وضاحت ۱؎ : یہ سات رشتے ہیں (۱)مائیں(۲)بیٹیاں(۳)بہنیں(۴)پھوپھیاں(۵)خالائیں(۶)بھتیجیاں(۷)بھانجیاں، ماں میں دادی نانی داخل ہے اوربیٹی میں پوتی نواسی داخل، اوربہنیں تین طرح کی ہیں: سگی ، سوتیلی اوراخیافی، اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی، اسی طرح باپ دادااورماں اورنانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اورخالائیں علی ہذا القیاس۔


1147- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح و حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ابْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ. قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا حَرَّمَ مِنَ الْوِلاَدَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، لاَ نَعْلَمُ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلاَفًا.
* تخريج: د/النکاح ۷ (۲۰۵۵)، ن/النکاح ۴۹ (۳۳۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۴۴)، دي/النکاح ۴۸ (۲۲۹۵) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الشہادات ۷ وفرض الخمس ۴ (۳۱۰۵)، والنکاح ۲۰ (۵۰۹۹) و۲۷ (۵۱۱۱)، م/الرضاع ۲ (۱۴۴۴)، ن/النکاح ۴۹ (۳۳۰۳، ۳۳۰۴، ۳۳۰۵)، ق/النکاح ۳۴ (۱۹۳۷)، ط/الرضاع ۱ (۳)، حم (۶/۶۶، ۷۲، ۱۰۲)، دي/النکاح ۴۸ (۲۲۹۱، ۲۲۹۲)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۴۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام قراردے دیئے ہیں جو ولادت (نسب) سے حرام ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ وغیرھم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ
۲-باب: دودھ کی نسبت مردکی طرف ہوگی​


1148- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ. فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللهِ ﷺ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ عَمُّكِ". قَالَتْ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ: "فَإِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. كَرِهُوا لَبَنَ الْفَحْلِ. وَالأَصْلُ فِي هَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: م/الرضاع ۲ (۱۴۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۲) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الشہادات ۷ (۲۶۴۴) وتفسیر سورۃ السجدۃ ۹ (۶۹۷۴)، و النکاح ۲۲ (۵۱۰۳)، و۱۱۱۷ (۵۲۳۹)، والأدب ۹۳ (۶۱۵۶)، م/الرضاع (المصدر المذکور) ن/النکاح ۴۹ (۳۳۰۳)، دي/النکاح ۴۸ (۲۲۹۴) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۴۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تومیں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺسے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' وہ تیرے پاس آسکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچاہیں''، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے ، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا:'' تیرے چچاہیں، وہ تیرے پاس آسکتے ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے انہوں نے لبن فحل (مرد کے دودھ ) کوحرام کہاہے۔ اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے،۳- اوربعض اہل علم نے لبن فحل (مردکے دودھ) کی رخصت دی ہے۔ پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مردکا دودھ ہو (یعنی اس عورت کاشوہر) وہ بھی شیرخوار پر حرام ہوجاتاہے اوراس سے بھی شیرخوار کارشتہ قائم ہوجاتاہے۔


1149- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح و حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ لَهُ جَارِيتَانِ. أَرْضَعَتْ إِحْدَاهُمَا جَارِيَةً وَالأُخْرَى غُلاَمًا. أَيَحِلُّ لِلْغُلاَمِ أَنْ يَتَزَوَّجَ بِالْجَارِيَةِ؟ فَقَالَ: "لاَ، اللِّقَاحُ وَاحِدٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا تَفْسِيرُ لَبَنِ الْفَحْلِ. وَهَذَا الأَصْلُ فِي هَذَا الْبَابِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۳۱۱) (صحیح الإسناد)
۱۱۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس کے پاس دولونڈیاں ہوں ، ان میں سے ایک نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا ہے اور دوسری نے ایک لڑکے کو ۔ تو کیا اس لڑکے کے لیے جائز ہے کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرے۔ انہوں نے (ابن عباس) نے کہا: نہیں۔ اس لیے کہ لقاح ایک ہی ہے ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہی اس باب میں اصل ہے۔ احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی دونوں عورتوں کا دودھ ایک ہی شخص کے جماع اور منی سے پیدا ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ
۳-باب: ایک باریا دوبار چھاتی سے دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی​


1150- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَابْنِ الزُّبَيْرِ. وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ. وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَزَادَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ الْبَصْرِيُّ عَنْ الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَقَالَ: الصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ دِينَارٍ وَزَادَ فِيهِ عَنِ الزُّبَيْرِ. وَإِنَّمَا هُوَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّبَيْرِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَقَالَتْ عَائِشَةُ: أُنْزِلَ فِي الْقُرْآنِ { عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ } فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ خَمْسٌ وَصَارَ إِلَى {خَمْسِ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ} فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ.
* تخريج: م/الرضاع ۵ (۱۴۵۰)، د/النکاح ۱۱ (۲۰۶۳)، ن/النکاح ۵۱ (۳۳۱۰)، ق/النکاح ۳۵ (۱۹۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۸۹) (صحیح)
وأخرجہ کل من : حم (۶/۲۴۷)، ودي/النکاح ۴۹ (۲۲۹۷) من غیر ہذا الوجہ۔
1150/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ. حَدَّثَنَا مَعْنٌ. حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِهَذَا. وَبِهَذَا كَانَتْ عَائِشَةُ تُفْتِي وَبَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ أَحْمَدُ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ: "لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ" و قَالَ: إِنْ ذَهَبَ ذَاهِبٌ إِلَى قَوْلِ عَائِشَةَ فِي خَمْسِ رَضَعَاتٍ فَهُوَ مَذْهَبٌ قَوِيٌّ. وَجَبُنَ عَنْهُ أَنْ يَقُولَ فِيهِ شَيْئًا. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: يُحَرِّمُ قَلِيلُ الرَّضَاعِ وَكَثِيرُهُ إِذَا وَصَلَ إِلَى الْجَوْفِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالأَوْزَاعِيِّ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَوَكِيعٍ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ هُوَ عَبْدُاللهِ بْنُ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ. وَيُكْنَى أَبَامُحَمَّدٍ، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ قَدْ اسْتَقْضَاهُ عَلَى الطَّائِفِ. وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: أَدْرَكْتُ ثَلاَثِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: م/الرضاع ۶ (۱۴۵۲)، د/النکاح ۱۱ (۲۰۶۲)، ن/النکاح ۵۱ (۳۳۰۷)، ق/النکاح ۳۵ (۱۹۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۹۷)، ط/الرضاع ۳ ( ۱۵) دي/النکاح ۴۹ (۲۲۹۹) (صحیح)
۱۱۵۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' ایک باریا دو بار چھاتی سے دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام فضل ، ابوہریرہ، زبیر بن عوام اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کو دیگر کئی لوگوں نے بطریق:''هشام، عن أبيه عروة، عن عبد الله بن الزبير، عن النبي ﷺ''روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:'' ایک یا دو بار دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی''۔
اور محمدبن دینا ر نے بطریق: ''هشام بن عروة، عن أبيه عروة، عن عبدالله بن الزبير، عن الزبير، عن النبي ﷺ '' روایت کیا ہے، اس میں محمد بن دینار بصری نے زبیرکے واسطے کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ غیر محفوظ ہے،۳- محدّثین کے نزدیک صحیح ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جسے انہوں نے بطریق: '' عبدالله بن الزبير، عن عائشة عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے، ۴- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: صحیح ابن زبیرکی روایت ہے جسے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے اور محمد بن دینار کی روایت جس میں : زبیرکے واسطے کا اضافہ ہے وہ دراصل ہشام بن عروۃ سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والدعروہ سے اورانہوں نے زبیر سے روایت کی ہے،۵- صحابہ کرام وغیرھم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ۶-عائشہ کہتی ہیں کہ قرآن میں(پہلے) دس رضعات والی آیت نازل کی گئی پھراس میں سے پانچ منسوخ کردی گئیں تو پانچ رضاعتیں باقی رہ گئیں، اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تومعاملہ انہیں پانچ پرقائم رہا ۲؎ ، ۷- اور عائشہ اور بعض دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اسی کا فتویٰ دیتی تھیں،اور یہی شافعی اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔ ۸- امام احمد نبی اکرمﷺکی حدیث'' ایک بار یا دو بار کے چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی'' کے قائل ہیں اورانہوں نے یہ بھی کہاہے کہ اگر کوئی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پانچ رضعات والے قول کی طرف جائے تو یہ قوی مذہب ہے۔ لیکن انہیں اس کا فتویٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی،۹- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ جب پیٹ تک پہنچ جائے تواس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک ، وکیع اور اہل کوفہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : مصّتہ اوررضعۃ دونوں ایک ہی معنی میں ہے، جب بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کرچوستاہے پھربغیرکسی عارضہ کے اپنی مرضی وخوشی سے چھاتی کوچھوڑدیتاہے تو اسے مصۃ اوررضعۃ کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : پھر یہ پانچ چوس والی آیت تلاوت منسوخ ہوگئی مگر اس کا حکم باقی رہا (عائشہ رضی اللہ عنہا کو منسوخ ہونے کا علم نہ ہوسکا) حدیث ''ایک یا دو چوس سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی'' کا مطلب یہی ہے کہ پانچ بار چوس سے ہوتی ہے یا کم از کم تین بار چوس سے ہوتی ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے، واللہ اعلم بالصواب (احتیاط یہ ہے کہ تین بار پر عمل کیاجائے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي شَهَادَةِ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ فِي الرَّضَاعِ
۴-باب: رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی کا بیان​


1151- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: وَسَمِعْتُهُ مِنْ عُقْبَةَ وَلَكِنِّي لِحَدِيثِ عُبَيْدٍ أَحْفَظُ. قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَائُ فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا. فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ فُلاَنَةَ بِنْتَ فُلاَنٍ فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَائُ فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا وَهِيَ كَاذِبَةٌ. قَالَ: فَأَعْرَضَ عَنِّي. قَالَ: فَأَتَيْتُهُ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ. فَأَعْرَضَ عَنِّي بِوَجْهِهِ. فَقُلْتُ: إِنَّهَا كَاذِبَةٌ. قَالَ: "وَكَيْفَ بِهَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّهَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا. دَعْهَا عَنْكَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ "عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ" وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ "دَعْهَا عَنْكَ" وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. أَجَازُوا شَهَادَةَ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ فِي الرَّضَاعِ. و قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَجُوزُ شَهَادَةُ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الرَّضَاعِ، وَيُؤْخَذُ يَمِينُهَا. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ تَجُوزُ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لاَ تَجُوزُ شَهَادَةُ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الْحُكْمِ، وَيُفَارِقُهَا فِي الْوَرَعِ.
* تخريج: خ/العلم ۲۶ (۸۸)، والبیوع ۳ (۲۰۵۲)، والشہادات ۴ (۲۶۴۰)، و۱۳ (۲۶۵۹)، و۱۴ (۲۶۶۰)، والنکاح ۲۳ (۵۱۰۳)، د/الأقضیہ ۱۸ (۳۶۰۳)، ن/النکاح ۵۷ (۳۳۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۵)، حم (۴/۷، ۸، ۳۸۴) ، دي/النکاح ۵۱ (۲۳۰۱) (صحیح)
ٍ ۱۱۵۱- عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آکرکہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیاکہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آکرکہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیاتو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے( پھر) اپنا چہرہ پھیرلیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔آپ نے فرمایا:'' یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔اپنی بیوی اپنے سے علاحدہ کردو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کو کئی اوربھی لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے اورابن ابی ملیکہ نے عقبۃ بن حارث سے روایت کی ہے اوران لوگوں نے اس میں عبیدبن ابی مریم کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، نیزاس میں ''دعها عنك'' ( اسے اپنے سے علاحدہ کردو) کا ذکربھی نہیں ہے۔ اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے۔ انہوں نے رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت کو درست قراردیا ہے،۴- ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت جائز ہے ۔ لیکن اس سے قسم بھی لی جائے گی۔احمد اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۵- اور بعض اہل علم نے کہاہے کہ ایک عورت کی گواہی درست نہیں جب تک کہ وہ ایک سے زائدنہ ہوں۔ یہ شافعی کا قول ہے، ۶- وکیع کہتے ہیں: ایک عورت کی گواہی فیصلے میں درست نہیں۔ اوراگر ایک عورت کی گواہی سن کروہ بیوی سے علاحدگی اختیارکرلے تو یہ عین تقویٰ ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ مَا ذُكِرَ أَنَّ الرَّضَاعَةَ لاَ تُحَرِّمُ إِلاَّ فِي الصِّغَرِ دُونَ الْحَوْلَيْنِ
۵-باب: رضاعت کی حرمت دوسال سے کم کی عمرہی میں دودھ پینے سے ثابت ہوگی​


1152- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعَةِ إِلاَّ مَا فَتَقَ الأَمْعَائَ فِي الثَّدْيِ، وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الرَّضَاعَةَ لاَ تُحَرِّمُ إِلاَّ مَا كَانَ دُونَ الْحَوْلَيْنِ. وَمَا كَانَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ الْكَامِلَيْنِ، فَإِنَّهُ لاَ يُحَرِّمُ شَيْئًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۸۵) (صحیح)
۱۱۵۲- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ انتڑیوں کوپھاڑدے ۱ ؎ ، اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو'' ۲ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے کہ رضاعت کی حرمت اس وقت ہوتی ہے جب بچے کی عمر دوبرس سے کم ہو، اورجو دوبرس پورے ہونے کے بعدہو تو اس سے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی آنتوں میں پہنچ کر غذا کا کام کرے۔
وضاحت ۲ ؎ : یعنی جب بچہ دوبرس سے کم کا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ مَا يُذْهِبُ مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ
۶-باب: حق رضاعت کس چیز سے ادا ہوتاہے​


1153- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ؟ فَقَالَ: "غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ (مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ) يَقُولُ: إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ ذِمَامَ الرَّضَاعَةِ وَحَقَّهَا. يَقُولُ: إِذَا أَعْطَيْتَ الْمُرْضِعَةَ عَبْدًا أَوْ أَمَةً، فَقَدْ قَضَيْتَ ذِمَامَهَا. وَيُرْوَى عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ أَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ فَبَسَطَ النَّبِيُّ ﷺ رِدَائَهُ حَتَّى قَعَدَتْ عَلَيْهِ. فَلَمَّا ذَهَبَتْ قِيلَ: هِيَ كَانَتْ أَرْضَعَتِ النَّبِيَّ ﷺ. هَكَذَا رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَحَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي حَجَّاجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى هَؤُلاَئِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ. وَهِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ يُكْنَى أَبَاالْمُنْذِرِ. وَقَدْ أَدْرَكَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللهِ وَابْنَ عُمَرَ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَهِيَ امْرَأَةُ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
* تخريج: د/النکاح ۱۲ (۲۰۶۴)، ن/النکاح ۵۶ (۳۳۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۵)، حم (۳/۴۵۰)، دي/النکاح ۵۰ (۲۳۰۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''حجاج بن حجاح تابعی ضعیف ہیں)
۱۱۵۳- حجاج اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے پوچھاکہ اللہ کے رسول ! مجھ سے حق رضاعت کس چیزسے اداہوگا؟ آپ نے فرمایا:'' ایک جان: غلام یا لونڈی کے ذریعہ سے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح اِسے یحیی بن سعید قطان ، حاتم بن اسماعیل اور کئی لوگوں نے بطریق: '' هشام بن عروة،عن أبيه عروة، عن حجاج بن حجاج، عن أبيه، عن النبي ﷺ''روایت کی ہے۔
اور سفیان بن عیینہ نے بطریق: '' هشام بن عروة،عن أبيه عروة، عن حجاج بن أبي حجاج، عن أبيه أبي حجاج، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیر محفوظ ہے۔ صحیح وہی ہے جسے ان لوگوں نے ہشام بن عروۃ سے اورانہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔ (یعنی: ''حجاج بن حجاج'' والی نہ کہ ''حجاج بن أبي حجاج'' والی)۳- اور ''مايذهب عني مذمة الرضاعة'' سے مراد رضاعت کاحق اور اس کا ذمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: جب تم دودھ پلانے والی کو ایک غلام دے دو، یا ایک لونڈی تو تم نے اس کا حق اداکردیا،۴- ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک عورت آئی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر بچھادی،یہاں تک کہ وہ اس پر بیٹھ گئی،جب وہ چلی گئی تو کہاگیا:یہی وہ عورت تھی جس نے نبی اکرم ﷺکو دودھ پلایا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ تُعْتَقُ وَلَهَا زَوْجٌ
۷-باب: عورت جو آزاد کردی جائے اور وہ شوہر والی ہو​
1154- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا. فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَلَوْكَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْهَا.
* تخريج: م/العتق ۲ (۱۵۰۴/۹)، د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۳)، ن/الطلاق ۳۱ (۳۴۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۷۰) (صحیح) وأخرجہ مطولا ومختصرا کل من : خ/العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، والفرائض ۲۲ (۶۷۵۸)، م/العتق (المصدر المذکور) (۵۰۴/۱۰)، حم (۶/۴۶، ۱۷۸)، دي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۷) من غیر ھذا الوجہ، وانظر أیضا مایأتي برقم ۱۲۵۶ و ۲۱۲۴ و ۲۱۲۵
۱۱۵۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: بریرہ کے شوہرغلام تھے، رسول اللہ ﷺنے بریرہ کواختیار دیا، توانہوں نے خود کو اختیار کیا، (عروہ کہتے ہیں:) اگربریرہ کے شوہرآزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نسائی نے سنن میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ آخری فقرہ حدیث میں مدرج ہے ، یہ عروہ کا قول ہے ، اور ابوداودنے بھی اس کی وضاحت کردی ہے۔


1155- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا. فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَى هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا. وَرَوَى عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: رَأَيْتُ زَوْجَ بَرِيرَةَ، وَكَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ مُغِيثٌ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَالُوا: إِذَا كَانَتِ الأَمَةُ تَحْتَ الْحُرِّ فَأُعْتِقَتْ، فَلاَ خِيَارَ لَهَا. وَإِنَّمَا يَكُونُ لَهَا الْخِيَارُ إِذَا أُعْتِقَتْ وَكَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَرَوَى الأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا. فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ. وَرَوَى أَبُو عَوَانَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ. قَالَ الأَسْوَدُ: وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: ن/الزکاۃ ۹۹ (۲۶۱۵)، والطلاق ۳۰ (۳۴۷۹)، ق/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۵۹)، حم (۶/۴۲) (المحفوظ: ''کان زوجھا عبداً'' ''حراً'' کا لفظ بقول بخاری ''وہم'' ہے) (صحیح)
(حدیث میں بریرہ کے شوہر کو ''حرا'' کہاگیا ہے، یعنی وہ غلام نہیں بلکہ آزاد تھے، اس لیے یہ ایک کلمہ شاذ ہے ، اور محفوظ اور ثابت روایت ''عبداً'' کی ہے یعنی بریرہ کے شوہر ''مغیث'' غلام تھے)۔
۱۱۵۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہرآزاد تھے، پھربھی رسول اللہ ﷺنے انہیں اختیاردیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں کہ بریرہ کا شوہرغلام تھا،۳- عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں: میں نے بریرہ کے شوہر کودیکھا ہے، وہ غلام تھے اور انہیں مغیث کہاجاتاتھا،۴- اسی طرح کی ابن عمر سے روایت کی گئی ہے،۵- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب لونڈی آزادمردکے نکا ح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو اسے اختیارنہیں ہوگا۔ اسے اختیار صرف اس صورت میں ہوگا ،جب وہ آزاد کی جائے اور وہ کسی غلام کی زوجیت میں ہو۔ یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۶- لیکن اعمش نے بطریق: ''إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة '' روایت کی ہےکہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اختیار دیا ۔
اورابوعوانہ نے بھی اس حدیث کوبطریق: '' الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة'' بریرہ کے قصہ کے سلسلہ میں روایت کیا ہے، اسود کہتے ہیں: بریرہ کے شوہر آزاد تھے،۷- تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ اوریہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : راجح روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہرغلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا ''حراً''کا لفظ وہم ہے کما تقدم۔


1156- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ وَقَتَادَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ لِبَنِي الْمُغِيرَةِ، يَوْمَ أُعْتِقَتْ بَرِيرَةُ وَاللهِ! لَكَأَنِّي بِهِ فِي طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَنَوَاحِيهَا، وَإِنَّ دُمُوعَهُ لَتَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، يَتَرَضَّاهَا لِتَخْتَارَهُ، فَلَمْ تَفْعَلْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةُ هُوَ سَعِيدُ بْنُ مِهْرَانَ، وَيُكْنَى أَبَا النَّضْرِ.
* تخريج: خ/الطلاق ۱۵ (۵۲۸۲)، ۱۶ (۵۲۸۳)، د/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۸) و۶۱۸۹) (صحیح)
و أخرجہ کل من : د/الطلاق (۲۲۳۱)، وحم (۱/۲۱۵)، ودي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۸) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۵۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں بریرہ کے شوہر بنی مغیرہ کے ایک کالے کلوٹے غلام تھے، جس دن بریرہ آزاد کی گئیں، اللہ کی قسم، گویا میں انہیں مدینے کے گلی کوچوں اور کناروں میں اپنے سامنے دیکھ رہاہوں کہ ان کے آنسو ان کی داڑھی پر بہہ رہے ہیں، وہ انہیں منارہے ہیں کہ وہ انہیں ساتھ میں رہنے کے لیے چن لیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ
۸-باب: بچہ شوہر یا مالک کاہوگا​


1157- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، وَعَبْدِاللهِ ابْنِ عَمْرٍو، وَالْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: م/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۸)، ن/الطلاق ۴۸ (۳۵۱۲)، ق/النکاح ۵۹ (۲۰۰۶) حم (۲/۲۳۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۴) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الفرائض ۱۷ (۶۷۵۰)، والحدود ۲۳ (۶۸۱۸)، حم (۲/۲۸۰، ۳۸۶، ۴۰۹، ۴۹۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۵۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بچہ (صاحب فراش) (یعنی شوہر یا مالک) کا ہوگا ۱؎ اورزانی کے لیے پتھر ہوں گے'' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱ - ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، عثمان ، عائشہ، ابوامامہ ، عمرو بن خارجہ، عبداللہ بن عمر، براء بن عازب اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : فراش سے صاحب فراش یعنی شوہریا مالک مرادہے کیونکہ یہی دونوں عورت کو بسترپرلٹاتے اوراس کے ساتھ سوتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : زانی کے لیے پتھرہے، یعنی ناکامی ونامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر سے مرادیہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے گا،یعنی پتھرسے مارمارکرہلاک کیاجائے گا،مگریہ قول کمزوروضعیف ہے کیونکہ رجم صرف شادی شدہ کو کیا جائے گا، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تووہ جس کی بیوی یالونڈی ہوگی اسی کی طرف بچے کی نسبت ہوگی اوروہ اسی کابچہ شمارکیاجائے گا، میراث اورولادت کے دیگراحکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ زناکاارتکاب کرنے کا دعویٰ کرے اوریہ بھی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہواہے اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہواورصاحب فراش کے ساتھ نہ ہو اس ساری صورتحال کے باوجودبچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہ ہوگااوراگراس نے اس کی نفی کردی تو پھر بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس بچہ کا نسب ماں کے ساتھ جوڑا جائے گا زانی کے ساتھ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَرَى الْمَرْأَةَ تُعْجِبُهُ
۹-باب: آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے پسندآ جائے توکیاکرے؟​


1158- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللهِ هُوَ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَى امْرَأَةً، فَدَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ فَقَضَى حَاجَتَهُ وَخَرَجَ. وَقَالَ: "إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَقْبَلَتْ، أَقْبَلَتْ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ. فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ امْرَأَةً فَأَعْجَبَتْهُ فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ، فَإِنَّ مَعَهَا مِثْلَ الَّذِي مَعَهَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَهِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ هُوَ هِشَامُ ابْنُ سَنْبَرٍ.
* تخريج: م/النکاح ۲ (۱۴۰۳)، د/النکاح ۴۴ (۲۱۵۱)، حم (۳/۳۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۹۷۵)، (صحیح) وأخرجہ : حم (۳/۳۳۰، ۳۴۱، ۳۴۸، ۳۹۵) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۵۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے ایک عورت کودیکھاتو آپ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور آپ نے اپنی ضرورت پوری کی اور باہر تشریف لاکرفرمایا:'' عورت جب سامنے آتی ہے تووہ شیطان کی شکل میں آتی ہے ۱؎ ، لہذاجب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے بھلی لگے تو اپنی بیوی کے پاس آئے اس لیے کہ اس کے پاس بھی اسی جیسی چیز ہے جو ا س کے پاس ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر کی حدیث صحیح حسن غریب ہے ،۲- ا س باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳- ہشام دستوائی دراصل ہشام بن سنبر ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ''عورت کو شیطان کی شکل میں'' اس لیے کہا کہ جیسے شیطان آدمی کو بہکاتاہے ایسے بے پردہ عورت بھی مرد کو بہکاتی ہے ۔
 
Top