• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

11-كِتَاب الطَّلاَقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۱-کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي طَلاَقِ السُّنَّةِ
۱-باب: مسنون طلاق کا بیان​


1175- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ ابْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، وَهِيَ حَائِضٌ. فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَاللهِ بْنَ عُمَرَ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، وَهِيَ حَائِضٌ. فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا. قَالَ: قُلْتُ: فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؟ قَالَ: فَمَهْ. أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
* تخريج: خ/الطلاق ۲ (۵۲۵۲)، و ۴۵ (۵۳۳۳)، م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، د/الطلاق ۴ (۲۱۸۳، ۲۱۸۴)، ن/الطلاق ۱ (۳۴۱۸)، و ۷۶ (۳۵۸۵)، ق/الطلاق ۲ (۲۱۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۳)، حم (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹) (صحیح) و أخرجہ کل من : خ/تفسیر سورۃ الطلاق ۱ (۴۹۰۸)، والطلاق ۱ (۵۲۵۱)، و ۴۴ (۵۳۳۲)، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، م/الطلاق (المصدر المذکور) د/الطلاق ۴ (۲۱۷۹-۲۱۸۲)، ط/الطلاق ۲۱ (۵۳)، دي/الطلاق ۱ (۲۳۰۸)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۷۵- یونس بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہوتو انہوں نے کہا: کیاتم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھاتوآپ نے انہیں ''حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کرلیں''، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہوگی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی) ،بھلابتاؤ اگرو ہ عاجز ہوجاتا یا دیوانہ ہوجاتا تو واقع ہوتی یانہیں؟! ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجزہوجانے یا دیوانہ وپاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمارکی جائے گی تورجعت کے بعد بھی ضرورشمارکی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیو نکہ اگروہ واقع نہ ہو تو آپ کا ''مره فليراجعها''کہنا بے معنی ہوگا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کاحکم دیاجائے گا، لیکن ظاہریہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی، ابوداودکی ایک روایت (رقم: ۲۱۸۵) کے الفاظ ہیں ''لم يرها شيئاً''،محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہریہ کے مسلک کو اختیارکیاجائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔


1176- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الْحَيْضِ. فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلاً". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلاَقَ السُّنَّةِ، أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا: ثَلاَثًا وَهِيَ طَاهِرٌ، فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ تَكُونُ ثَلاَثًا لِلسُّنَّةِ إِلاَّ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَإِسْحَاقَ. وَقَالُوا: "فِي طَلاَقِ الْحَامِلِ": يُطَلِّقُهَا مَتَى شَائَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۷۹۷) (صحیح)
۱۱۷۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی،ان کے والدعمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے مسئلہ پوچھاتو آپ نے فرمایا:'' اُسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرلے ، پھرطہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں،۲- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ طلاقِ سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے، ۴- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاقِ سنّی ہوگی۔یہ شافعی اوراحمد بن حنبل کا قول ہے،۵- اوربعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کرکے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۶- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۷- اوربعض کہتے ہیں: اسے بھی وہ ہرماہ ایک طلاق دے گا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ
۲-باب: آدمی کے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ) دینے کا بیان​


1177- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابن عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ. فَقَالَ: "مَا أَرَدْتَ بِهَا؟" قُلْتُ: وَاحِدَةً. قَالَ: "وَاللهِ؟" قُلْتُ: وَاللهِ! قَالَ: "فَهُوَ مَا أَرَدْتَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: فِيهِ اضْطِرَابٌ. وَيُرْوَى عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَسثًا. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ فِي طَلاَقِ الْبَتَّةِ. فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً. وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَعَلَهَا ثَلاَثًا. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِيهِ نِيَّةُ الرَّجُلِ إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ، وَإِنْ نَوَى ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ لَمْ تَكُنْ إِلاَّ وَاحِدَةً. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ (فِي الْبَتَّةِ): إِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ ثَلاَثُ تَطْلِيقَاتٍ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ، يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ. وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ. وَإِنْ نَوَى ثَلاَثًا فَثَلاَثٌ.
* تخريج: د/الطلاق ۱۴ (۲۲۰۸)، ق/الطلاق ۱۹ (۲۰۵۱) دي/الطلاق ۸ (۲۳۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۱۳) (ضعیف)
(سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اورعلی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری: اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے : الارواء (رقم ۲۰۶۳)
۱۱۷۷- رکانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق ( بتّہ )د ی ہے۔آپ نے فرمایا:'' تم نے اس سے کیا مرادلی تھی؟'' ، میں نے عرض کیا : ایک طلاق مرادلی تھی، آپ نے پوچھا:'' اللہ کی قسم؟'' میں نے کہا: اللہ کی قسم!آپ نے فرمایا:''تویہ اتنی ہی ہے جتنی کاتم نے ارادہ کیاتھا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا:ـ اس میں اضطراب ہے ، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں،۳- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتّہ کو ایک طلاق قراردی ہے،۴- اور علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قراردی ہے،۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہوگی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کاقول ہے،۶- مالک بن انس قطعی طلاق( بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہوچکاہے توطلاق بتّہ تین طلاق شمار ہوگی،۷- شافعی کہتے ہیں: اگراس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی او ر اسے رجعت کا اختیار ہوگا۔ اگر دوکی نیت کی ہے تو دو ہوگی اوراگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ
۳-باب: بیوی سے تیرامعاملہ تیرے ہاتھ میں ہے کہنے کا بیان​


1178- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ أَحَدًا قَالَ (فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ) إِنَّهَا ثَلاَثٌ إِلاَّ الْحَسَنَ؟ فَقَالَ: لاَ إِلاَّ الْحَسَنَ، ثُمَّ قَالَ: اللّهُمَّ غَفْرًا إِلاَّ مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "ثَلاَثٌ".
قَالَ أَيُّوبُ: فَلَقِيتُ كَثِيرًا مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ. فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: نَسِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ بِهَذَا وَإِنَّمَا هُوَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ. وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا. وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ حَافِظًا، صَاحِبَ حَدِيثٍ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي (أَمْرُكِ بِيَدِكِ) فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: هِيَ وَاحِدَةٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. و قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: الْقَضَائُ مَا قَضَتْ. و قَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِذَا جَعَلَ أَمْرَهَا بِيَدِهَا وَطَلَّقَتْ نَفْسَهَا ثَلاَثًا، وَأَنْكَرَ الزَّوْجُ وَقَالَ: لَمْ أَجْعَلْ أَمْرَهَا بِيَدِهَا إِلاَّ فِي وَاحِدَةٍ، اسْتُحْلِفَ الزَّوْجُ، وَكَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ مَعَ يَمِينِهِ. وَذَهَبَ سُفْيَانُ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ وَعَبْدِاللهِ، وَأَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فَقَالَ: الْقَضَائُ مَا قَضَتْ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَأَمَّا إِسْحَاقُ فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: د/الطلاق ۱۳ (۲۲۰۴)، ن/الطلاق ۱۱ (۳۴۳۹) (ضعیف)
(سند میں کثیرلین الحدیث ہیں مگر حسن کا قول صحیح ہے ، جس کی روایت ابوداود (برقم ۲۲۰۵) نے بھی کی ہے)
۱۱۷۸- حماد بن زیدکا بیان ہے کہ میں نے ایوب (سختیانی) سے پوچھا: کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جس نے ''أمرك بيدك'' کے سلسلہ میں کہاہو کہ یہ تین طلاق ہے؟ انہوں نے کہا: حسن بصری کے۔ علاوہ مجھے کسی اورکاعلم نہیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ !معاف فرمائے۔ ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند کثیرمولیٰ بنی سمرہ عن ابی سلمہ عن ابی ہریرہ روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ آپ نے فرمایا:'' یہ تین طلاقیں ہیں''۔
ایوب کہتے ہیں: پھرمیں کثیرمولیٰ بنی سمرہ سے ملاتو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا مگروہ اسے نہیں جان سکے۔پھر میں قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا: وہ بھول گئے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف سلیمان بن حرب ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے، ۳- میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا توانہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے اور یہ ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے، اوروہ ابوہریرہ کی حدیث کومرفوع نہیں جان سکے، ۴- اہل علم کا ''أمرك بيدك '' کے سلسلے میں اختلاف ہے،بعض صحابہ کرام وغیرہم جن میں عمربن خطاب، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک (طلاق) ہوگی۔ اوریہی تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا بھی قول ہے،۵- عثمان بن عفان اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ فیصلہ وہ ہوگا جو عورت کہے گی،۶- ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب شوہرکہے کہ'' اس کا معاملہ اس (عورت) کے ہاتھ میں ہے''، اور عورت خود سے تین طلاق قراردے لے۔ اورشوہرانکارکرے اور کہے: میں نے صرف ایک طلاق کے سلسلہ میں کہاتھاکہ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو شوہر سے قسم لی جائے گی اور شوہر کاقول اس کی قسم کے ساتھ معتبر ہوگا،۷- سفیان اور اہل کوفہ عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں،۸- اور مالک بن انس کاکہنا ہے کہ فیصلہ وہ ہوگا جوعورت کہے گی، یہی احمد کابھی قول ہے،۹- اوررہے اسحاق بن راہویہ تو وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخِيَارِ
۴-باب: عورت کو ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے اختیاردینے کا بیان​


1179- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَيَّرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَاخْتَرْنَاهُ. أَفَكَانَ طَلاَقًا؟.
* تخريج: خ/الطلاق ۵ (۵۲۶۳)، م/الطلاق ۴ (۱۴۷۷)، ن/النکاح ۲ (۳۲۰۴)، والطلاق ۲۷ (۳۴۷۱- ۳۴۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۱۴) حم ۶/۲۰۲، ۲۰۵، ۲۴۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : د/الطلاق ۱۲ (۲۲۰۳)، ق/الطلاق ۲۰ (۱۵۲)، حم (۶/۴۵، ۴۸، ۱۷۱، ۱۷۳، ۱۸۵، ۲۶۴) من غیر ہذا الوجہ ۔
1179/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ. حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ. فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُمَا قَالاَ: إِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا، فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ. وَرُوِيَ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا قَالاَ أَيْضًا: وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلاَ شَيْئَ. وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ قَالَ: إِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ. وَإِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ. و قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ. وَإِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَثَلاَثٌ. وَذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي هَذَا الْبَابِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ وَعَبْدِاللهِ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا( چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- (ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیاردینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کاکہناہے کہ اگرعورت نے خودکواختیارکرلیا تو طلاق بائنہ ہوگی۔اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہوگی اور اسے رجعت کا اختیار ہوگا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہرہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہوگایعنی کوئی طلاق واقع نہ ہوگی ۲؎ ،۴- اورعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خودکو اختیار کیا تو طلاق بائن ہوگی اور اگر اس نے اپنے شوہرکو اختیار کیا تو ایک ہوگی لیکن رجعت کا اختیار ہوگا،۵- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہرکواختیار کیا تو ایک ہوگی اور اگر خودکو اختیار کیا تو تین ہوں گی،۶- صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے،۷- البتہ احمدبن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔
وضاحت ۱؎ : استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔
وضاحت ۲؎ : اور یہی قول اس صحیح حدیث کے مطابق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثًا لاَ سُكْنَى لَهَا وَلاَ نَفَقَةَ
۵-باب: تین طلاق پائی عورت کو نہ رہنے کے لیے گھر ملے گا اور نہ کھانے پینے کاخرچہ​


1180- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلاَثًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ "لاَ سُكْنَى لَكِ وَلاَ نَفَقَةَ". قَالَ مُغِيرَةُ: فَذَكَرْتُهُ لإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ: لاَ نَدَعُ كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا ﷺ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ، لاَ نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ. وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ. حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ. أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ وَإِسْمَاعِيلُ وَمُجَالِدٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
1180/م- قَالَ هُشَيْمٌ: وَحَدَّثَنَا دَاوُدُ أَيْضًا عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُهَا عَنْ قَضَائِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِيهَا، فَقَالَتْ: طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ. فَخَاصَمَتْهُ فِي السُّكْنَى وَالنَّفَقَةِ. فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ سُكْنَى وَلاَ نَفَقَةً. وَفِي حَدِيثِ دَاوُدَ قَالَتْ: وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعَطَائُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَالشَّعْبِيُّ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَالُوا: لَيْسَ لِلْمُطَلَّقَةِ سُكْنَى وَلاَ نَفَقَةٌ، إِذَا لَمْ يَمْلِكْ زَوْجُهَا الرَّجْعَةَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، مِنْهُمْ عُمَرُ وَعَبْدُاللهِ: إِنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلاَثًا، لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَهَا السُّكْنَى وَلاَ نَفَقَةَ لَهَا. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا جَعَلْنَا لَهَا السُّكْنَى بِكِتَابِ اللهِ. قَالَ اللهُ تَعَالَى: {لاَ تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلاَ يَخْرُجْنَ إِلاَّ أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ} [سورة الطلاق: 1]. قَالُوا: هُوَ الْبَذَائُ، أَنْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا، وَاعْتَلَّ بِأَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ لَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ السُّكْنَى، لِمَا كَانَتْ تَبْذُو عَلَى أَهْلِهَا. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَلاَ نَفَقَةَ لَهَا، لِحَدِيثِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فِي قِصَّةِ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
* تخريج: م/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، د/الطلاق ۳۹ (۲۲۸۸)، ن/الطلاق ۷ (۳۴۳۲، ۳۴۳۳)، و ۷۰ (۳۵۷۸، ۳۵۷۹)، ق/الطلاق ۱۰ (۲۰۳۶)، حم (۶/۴۱۲، ۴۱۵، ۴۱۵، ۴۱۶)، دي/الطلاق ۱۰ (۲۳۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۵) و أخرجہ کل من : م/الطلاق (المصدر المذکور) د/الطلاق ۳۹ (۲۲۸۴)، ن/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، و ۲۱ (۳۲۴۶)، و ۲۲ (۳۲۴۷)، والطلاق ۱۵ (۳۴۴۷)، ط/الطلاق ۲۳ (۶۷)، حم (۶/۴۱۱-۴۱۷)، دي/النکاح ۷ (۲۲۲۳)، من غیر ھذا الوجہ، و بتغیر یسیر في السیاق، وانظر أیضا ما تقدم برقم : ۱۱۳۵۔
۱۱۸۰- عامربن شراحیل شعبی کہتے ہیں: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہیں نہ سکنی (رہائش) ملے گا اور نہ نفقہ(اخراجات) ''۔
مغیرہ کہتے ہیں:پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، توانہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کاکہناہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کوترک نہیں کرسکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یابھول گئی۔عمر ایسی عورت کو سکنٰی اور نفقہ دلاتے تھے۔
دوسری سند سے ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے داود نے بیان کیا شعبی کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آیااور میں نے ان سے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے متعلق پوچھاتو انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں طلاق بتہ دی توانہوں نے سکنیٰ اور نفقہ کے سلسلے میں مقدمہ کیا۔ نبی اکرمﷺنے انہیں نہ سکنیٰ ہی دلوایا اور نہ نفقہ۔ داود کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا: اورمجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے گھر میں عد ت گزاروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کایہی قول ہے۔ ان میں حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور شعبی بھی ہیں۔اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کاکہناہے کہ مطلقہ کے لیے جب اس کاشوہررجعت کا اختیارنہ رکھے نہ سکنیٰ ہوگا اور نہ نفقہ،۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہیں کہتے ہیں کہ تین طلاق والی عورت کو سکنیٰ اور نفقہ دونوں ملے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: اسے سکنیٰ ملے گا نفقہ نہیں ملے گا۔ یہ مالک بن انس ، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے،۵- شافعی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے لیے سکنیٰ کا حق کتاب اللہ کی بنیاد پر رکھاہے ، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا کوئی بے حیائی کربیٹھیں ۲؎ ، بذاء یہ ہے کہ عورت شوہرکے گھروالوں کے ساتھ بدکلامی کرے۔ نبی اکرم ﷺ کے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو سکنیٰ نہ دینے کی علت بھی یہی ہے کہ وہ گھروالوں سے بدکلامی کرتی تھیں۔ اورفاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے واقعے میں نفقہ نہ دینے کی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی روسے اسے نفقہ نہیں ملے گا۔
وضاحت ۱؎ : مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔
وضاحت ۲؎ : لیکن قرآن کا یہ حکم مطلقہ رجعیہ کے سلسلے میں ہے، کیوں کہ آیت میں آگے یہ بھی ہے { لاَ تَدْرِي لَعَلَّ اللهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا} (الطلاق:1) (یعنی: تھے نہیں معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی معاملہ پیدا کردے) یعنی ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے شوہر کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کردے، تو تین طلاق کی صورت میں رجعت کہاں ہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ لاَ طَلاَقَ قَبْلَ النِّكَاحِ
۶-باب: نکاح سے پہلے طلاق واقع نہ ہونے کا بیان​


1181- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ نَذْرَ لابْنِ آدَمَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَلاَ عِتْقَ لَهُ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ، وَلاَ طَلاَقَ لَهُ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَالْحَسَنِ وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَشُرَيْحٍ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ فِي (الْمَنْصُوبَةِ). إِنَّهَا تَطْلُقُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ قَالُوا: إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ إِذَا سَمَّى امْرَأَةً بِعَيْنِهَا أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا: أَوْ قَالَ: إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ كُورَةِ كَذَا، فَإِنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَ فَإِنَّهَا تَطْلُقُ. وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَكِ فَشَدَّدَ فِي هَذَا الْبَابِ وَقَالَ: إِنْ فَعَلَ، لاَ أَقُولُ هِيَ حَرَامٌ. و قَالَ أَحْمَدُ: إِنْ تَزَوَّجَ، لاَ آمُرُهُ أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ. و قَالَ إِسْحَاقُ: أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ، لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنْ تَزَوَّجَهَا لاَ أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ. وَوَسَّعَ إِسْحَاقُ فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ. وَذُكِرَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلاَقِ أَنَّهُ لاَ يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ. هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَهَائِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا؟ فَقَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يَرَى هَذَا الْقَوْلَ حَقَّا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَى بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ. فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا، فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ، فَلاَ أَرَى لَهُ ذَلِكَ.
* تخريج: ق/الطلاق ۱۷ (۲۰۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲۱)، حم (۲/۱۹۰) (حسن صحیح)
وأخرجہ کل من : د/الطلاق ۷ (۲۱۹۰)، ن/البیوع ۶۰ (۴۶۱۶)، حم (۲/۱۸۹) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۸۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذرنہیں جس کا وہ اختیارنہ رکھتا ہو، اورنہ اسے ایسے شخص کوآزادکرنے کا اختیارہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اورنہ اسے ایسی عورت کوطلاق دینے کاحق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، معاذ بن جبل ، جابر، ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،۳- یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔اورعلی بن ابی طالب ، ابن عباس ، جابر بن عبداللہ ، سعید بن المسیب،حسن ، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح ، جابر بن زید رضی اللہ عنہم ، اورفقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔اوریہی شافعی کا بھی قول ہے،۴- اورابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ ۱؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہوجائے گی ،۵- اوراہل علم میں سے ابراہیم نخعی اورشعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب و ہ کسی وقت کی تحدیدکرے ۲؎ توطلاق واقع ہوجائے گی۔اوریہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کابھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کانام لیا، یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا: اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔ تواگراس نے شادی کرلی تواُسے طلاق واقع ہوجائے گی،۶- البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہوگی،۷- اوراحمد کہتے ہیں: اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کرلے،۸- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعودکی حدیث کی روسے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں، اگر اس نے اس سے شادی کرلی، تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہوگی۔ اور غیرمنسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے،۹- اورعبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا، پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کرلے۔ توکیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے؟توعبداللہ بن مبارک نے کہا: اگروہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتاہوتو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہاہو، اب آزمایش میں پڑجانے پران کے قول پرعمل کرنا چاہے تومیں اس کے لیے ایسا کرنادرست نہیں سمجھتا۔
وضاحت ۱؎ : بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی منسوبہ، اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہویامنصوبہ سے مراد متعین عورت ہے۔ مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر ''میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق'' تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑجائے گی، حالاں کہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً یوں کہے ''إن نكحت اليوم أو غداً''(اگرمیں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ طَلاَقَ الأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ
۷-باب: لونڈی کے لیے دوہی طلاق ہونے کا بیان​


1182- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ حَدَّثَنِي مُظَاهِرُ بْنُ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "طَلاَقُ الأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ، وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: و حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ. أَنْبَأَنَا مُظَاهِرٌ بِهَذَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُظَاهِرِ بْنِ أَسْلَمَ. وَمُظَاهِرٌ لاَ نَعْرِفُ لَهُ فِي الْعِلْمِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الطلاق ۱۷ (۲۳۴۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۵۵) (ضعیف)
(سند میں مظاہرضعیف ہیں)
۱۱۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''لونڈی کے لیے دوہی طلاق ہے اور اس کی عدت دوحیض ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مظاہربن اسلم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور مظاہر بن اسلم کی اس کے علاوہ کوئی اور روایت میرے علم میں نہیں،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ اوریہی سفیان ثوری، شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُحَدِّثُ نَفْسَهُ بِطَلاَقِ امْرَأَتِهِ
۸-باب: جوشخص دل میں اپنی بیوی کی طلاق کا خیال لائے توکیسا ہے؟​


1183- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "تَجَاوَزَ اللهُ لأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ، أَوْ تَعْمَلْ بِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلاَقِ لَمْ يَكُنْ شَيْئٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.
* تخريج: خ/العتق ۶ (۲۵۲۸)، والطلاق ۱۱ (۵۲۶۵)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴)، م/الإیمان ۵۸ (۲۰۱)، د/الطلاق ۱۵ (۲۲۰۹)، ن/الطلاق ۲۲ (۳۴۶۴)، ق/الطلاق ۱۴ (۲۰۴۰)، حم (۲/۳۹۲، ۴۲۵، ۴۷۴، ۴۸۱، ۴۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۹۶) (صحیح)
۱۱۸۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جودل میں آتے ہیں معاف فرمادیاہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادانہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کرلے تو کچھ نہیں ہوگا ، جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ دل میں پیداہونے والے خیالات اورگزرنے والے وسوسے مواخذہ کے قابل گرفت نہیں، مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یاپنی بیوی کوطلاق دینے کاخیال آئے تومحض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي الْجِدِّ وَالْهَزْلِ فِي الطَّلاَقِ
۹-باب: سنجیدگی سے اورہنسی مذاق میں طلاق دینے کا بیان​


1184- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "ثَلاَثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّكَاحُ وَالطَّلاَقُ وَالرَّجْعَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَبْدُالرَّحْمَانِ هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيُّ. وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ.
* تخريج: د/الطلاق ۹ (۲۱۹۴)، ق/الطلاق ۱۳ (۲۰۳۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۵۴) (حسن)
(آثار صحابہ سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں)
۱۱۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اورہنسی مذاق میں کرنابھی سنجیدگی ہے نکاح ،طلاق اور رجعت '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے ، ۳-عبدالرحمن ، حبیب بن اردک مدنی کے بیٹے ہیں اور ابن ماہک میرے نزدیک یوسف بن ماہک ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سنجیدگی اورہنسی مذاق دونوں صورتوں میں ان کا اعتبارہوگا۔
اوراس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق جب وہ صراحت کے ساتھ لفظ طلاق کہہ کر طلاق دے تو وہ واقع ہوجائے گی اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے بطورکھلواڑمذاق میں ایساکہاتھا اس کے لیے کچھ بھی مفیدنہ ہوگا کیونکہ اگر اس کی یہ بات مان لی جائے تو احکام شریعت معطل ہوکر رہ جائیں گے اورہرطلاق دینے والا یا نکاح کرنے والا یہ کہہ کر کہ میں نے ہنسی مذاق میں یہ کہا تھا اپنادامن بچالے گا، اس طرح اس سلسلے کے احکام معطل ہوکررہ جائیں گے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخُلْعِ
۱۰-باب: خلع کا بیان​


1185- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ، وَهُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَائَ أَنَّهَا اخْتَلَعَتْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ. فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ ﷺ، أَوْ أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ الصَّحِيحُ أَنَّهَا أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۳۵) (صحیح)
۱۱۸۵- ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: انہوں نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں خلع لیاتوآپﷺ نے انہیں حکم دیا ( یاانہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ربیع کی حدیث کہ انہیں ایک حیض عدت گزارنے کاحکم دیا گیاصحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔


1185م- أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ. فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ. فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ عِدَّةُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثُ حِيَضٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ. قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنْ ذَهَبَ ذَاهِبٌ إِلَى هَذَا، فَهُوَ مَذْهَبٌ قَوِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۳۵) (صحیح)
۱۱۸۵/م- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا ۱؎ تو آپﷺ نے انہیں ایک حیض عدت گزار نے کاحکم دیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- مختلعہ (خلع لینے والی عورت)کی عدت کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ،صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ مختلعہ کی عدت وہی ہے جومطلقہ کی ہے، یعنی تین حیض۔ یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مختلعہ کی عدت ایک حیض ہے،۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس مذہب کو اختیارکرے تو یہ قوی مذہب ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خلع : خَلَعَ الثوب سے ماخوذہے، جس کے معنی لباس اتارنے کے ہیں، شرعی اصطلاح شرع میں عورت کامہرمیں دیا ہوا مال واپس دے کر شوہرسے علاحدگی اختیارکرلینے کوخلع کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : باب کی حدیث اسی قول کی تائید کرتی ہے کہ خلع طلاق نہیں فسخ ہے اورمختلعہ کی عدت ایک حیض ہے اورجولوگ کہتے ہیں کہ خلع فسخ نہیں طلاق ہے وہ کہتے ہیں کہ مختلعہ کی عدت وہی ہے جو مطلقہ کی عدت ہے۔ راجح قول پہلا ہی ہے جو ان دونوں حدیثوں کے موافق ہے۔
 
Top