• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي كِتَابَةِ الشُّرُوطِ
۸-باب: خرید وفروخت کے شرائط لکھ لینے کا بیان​


1216- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ صَاحِبُ الْكَرَابِيسِيِّ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: قَالَ لِي الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ: أَلاَ أُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ. قَالَ: قُلْتُ: بَلَى. فَأَخْرَجَ لِي كِتَابًا "هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّائُ بْنُ خَالِدِ ابْنِ هَوْذَةَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ ﷺ، اشْتَرَى مِنْهُ عَبْدًا أَوْ أَمَةً، لاَ دَائَ، وَلاَ غَائِلَةَ، وَلاَ خِبْثَةَ، بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ لَيْثٍ. وَقَدْ رَوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: خ/البیوع ۱۹ (تعلیقاً فی الترجمۃ) ق/التجارات ۴۷ (۲۲۵۱) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۴۸) (حسن)
۱۲۱۶- عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ھوذہ نے کہا: کیا میں تمہیں ایک تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے لکھی تھی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں،ضرورپڑھائیے ، پھر انہوں نے ایک تحریر نکالی، (جس میں لکھاتھا) '' یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے محمد ﷺ سے خریدی ہے''، انہوں نے آپ سے غلام یا لونڈی کی خریداری اس شرط کے ساتھ کیکہ اس میں نہ کوئی بیماری ہو، نہ وہ بھگیوڑوہو اورنہ حرام مال کا ہو، یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے ۱ ؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد بن لیث کی روایت سے جانتے ہیں۔ان سے یہ حدیث محدّثین میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے بھی ثابت ہوتاہے کہ نبی اکرمﷺکی حیات طیبہ میں تحریروں کا رواج عام تھا اورمختلف موضوعات پراحادیث لکھی جاتی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمِكْيَالِ وَالْمِيزَانِ
۹-باب: ناپ وتول کا بیان​


1217- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُسَيْنِ ابْنِ قَيْسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لأَصْحَابِ الْمِكْيَالِ وَالْمِيزَانِ إِنَّكُمْ قَدْ وُلِّيتُمْ أَمْرَيْنِ، هَلَكَتْ فِيهِ الأُمَمُ السَّالِفَةُ قَبْلَكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ. وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، مَوْقُوفًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۲۶) (ضعیف)
(سند میں ''حسین بن قیس'' متروک الحدیث راوی ہے ، لیکن موقوفا یعنی ابن عباس کے قول سے ثابت ہے جیسا کہ مرفوع روایت کی تضعیف کے بعد امام ترمذی نے خود واضح فرمایاہے )
۱۲۱۷- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپ تول والوں سے فرمایا: ''تمہارے دو ایسے کام ۱؎ کیے گئے ہیں جس میں تم سے پہلے کی امتیں ہلاک ہوگئیں'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف بروایت حسین بن قیس مرفوع جانتے ہیں ،ا ورحسین بن قیس حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔نیزیہ صحیح سندسے ابن عباس سے موقوفاً مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ناپ اور تول ۔اس حدیث کے آغاز میں امام ترمذی نے اپنے اُستاذ سعیدبن یعقوب طالقانی سے اس روایت کی سند کا جوآغاز کیا ہے تو...یہ طالقان موجودافغانستان کے شمال میں واقع ہے ، اورآج بھی وہاں سلفی اہل حدیث لوگ بحمدللہ موجودہیں اور اپنے اسلاف کے ورثہء حدیث کو تھامے ہوئے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : مثلاً شعیب علیہ السلام کی قوم جو لینا ہوتا تو پورا پورا لیتی تھی اور دینا ہوتا تو کم دیتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ مَنْ يَزِيدُ
۱۰-باب: نیلامی کا بیان​


1218- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ شُمَيْطِ بْنِ عَجْلاَنَ، حَدَّثَنَا الأَخْضَرُ بْنُ عَجْلاَنَ، عَنْ عَبْدِاللهِ الْحَنَفِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا. وَقَالَ: "مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ؟" فَقَالَ رَجُلٌ: أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟" فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ. فَبَاعَهُمَا مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الأَخْضَرِ بْنِ عَجْلاَنَ. وَعَبْدُاللهِ الْحَنَفِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَنَسٍ، هُوَ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِبَيْعِ مَنْ يَزِيدُ فِي الْغَنَائِمِ وَالْمَوَارِيثِ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ النَّاسِ عَنِ الأَخْضَرِ بْنِ عَجْلاَنَ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۶ (۱۶۴۱)، ن/البیوع ۲۲ (۴۵۱۲)، ق/التجارات ۲۵ (۲۱۹۸)، حم (۳/۱۰۰) (صحیح)
(اس کے راوی ''ابوبکر عبد اللہ حنفی'' مجہول ہیں، لیکن طرق وشواہد کی وجہ سے حدیث صحیح لغیرہ ہے ،صحیح الترغیب ۸۳۴، وتراجع الألبانی ۱۷۸۰) واضح رہے کہ ابن ماجہ کی تحقیق میں حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
۱۲۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جوکجاوہ کے نیچے بچھایاجاتاہے اور ایک پیالہ بیچا،آپ نے فرمایا: ''یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا؟ایک آدمی نے عرض کیا: میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں'' ، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟'' توایک آدمی نے آپ کو دودرہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے صرف اخضربن عجلان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور عبداللہ حنفی ہی جنہوں نے انس سے روایت کی ہے ابوبکر حنفی ہیں ۱ ؎ ، ۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ غنیمت اور میراث کے سامان کو زیادہ قیمت دینے والے سے بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، ۴- یہ حدیث معتمر بن سلیمان اور دوسرے کئی بڑے لوگوں نے بھی اخضر بن عجلان سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : حنفی سے مراد ہے بنوحنیفہ کے ایک فرد، نہ کہ حنفی المذہب ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ الْمُدَبَّرِ
۱۱-باب: مُدبّرغلام کے بیچنے کا بیان​


1219- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ دَبَّرَ غُلاَمًا لَهُ، فَمَاتَ وَلَمْ يَتْرُكْ مَالاً غَيْرَهُ. فَبَاعَهُ النَّبِيُّ ﷺ. فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ النَّحَّامِ.
قَالَ جَابِرٌ: عَبْدًا قِبْطِيًّا مَاتَ عَامَ الأَوَّلِ. فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. لَمْ يَرَوْا بِبَيْعِ الْمُدَبَّرِ بَأْسًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ بَيْعَ الْمُدَبَّرِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ وَالأَوْزَاعِيِّ.
* تخريج: د/البیوع ۱۱۰ (۲۲۳۱)، م/الأیمان والنذور ۱۳ (۹۹۷)، ق/العتق ۱ (الأحکام ۹۴)، (۲۵۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۲۵۲۶) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/کفارات الأیمان ۷ (۶۷۱۶)، والاکراہ ۴ (۶۹۴۷)، م/الأیمان (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۱۹- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصارکے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کومدبّر ۲؎ بنادیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزا د ہو)، پھر وہ مرگیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔تونبی اکرمﷺنے اسے بیچ دیا ۳؎ اورنعیم بن عبداللہ بن نحام نے اُسے خریدا۔جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ جابر بن عبداللہ سے اوربھی سندوں سے مروی ہے۔ ۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ مدبّر غلام کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے مدبّرکی بیع کو مکروہ جاناہے۔یہ سفیان ثوری، مالک اور اوزاعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ اس شخص کانام ابومذکورانصاری تھا اورغلام کانام یعقوب ۔
وضاحت ۲؎ : مدبروہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔
وضاحت ۳؎ : بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچاتاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدبرغلام کوضرورت کے وقت بیچنا جائزہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ
۱۲-باب: مال بیچنے والوں سے بازارمیں پہنچنے سے پہلے جاکرملنے کی کراہت کا بیان​


1220- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ نَهَى، عَنْ تَلَقِّي الْبُيُوعِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/البیوع ۶۴ (۲۱۴۹)، و۷۱ (۲۱۶۴)، م/البیوع ۵ (۱۵۱۸)، ق/التجارات ۱۶ (۲۱۸۰)، حم (۱/۴۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۷۷) (صحیح)
۱۲۲۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مال بیچنے والوں سے بازارمیں پہنچنے سے پہلے جاکرملنے سے منع فریاما ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابوسعیدخدری ، ابن عمر، اورایک اور صحابی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1221- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يُتَلَقَّى الْجَلَبُ. فَإِنْ تَلَقَّاهُ إِنْسَانٌ فَابْتَاعَهُ، فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ فِيهَا بِالْخِيَارِ إِذَا وَرَدَ السُّوقَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ. وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ. وَهُوَ ضَرْبٌ مِنْ الْخَدِيعَةِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَصْحَابِنَا.
* تخريج: د/البیوع ۴۵ (۳۴۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۴۴۸) (صحیح) وأخرجہ کل من : م/البیوع ۵ (۱۵۱۹)، ن/البیوع ۱۸ (۴۵۰۵)، ق/التجارات ۱۶ (۲۱۷۹)، حم (۲/۲۸۴، ۴۰۳، ۴۸۸) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۲۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازارمیں پہنچنے سے پہلے آگے جاکر خریدلینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کرخریدلیا تو صاحب مال کو جب وہ بازارمیں پہنچے تواختیارہے(چاہے تو وہ بیچے چاہے تونہ بیچے) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازارمیں پہنچنے سے پہلے مل کرمال خریدنے کوناجائزکہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہرکی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جاملے تاکہ بھاؤکے متعلق بیان کرکے اس سے سامان سستے داموں خریدلے، ایساکرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے، چونکہ بیچنے والے کوابھی بازارکی قیمت کا علم نہیں ہوپا یا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہوسکتا ہے، اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ لاَ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ
۱۳-باب: شہری باہرسے آنے والے دیہاتی کامال نہ بیچے​


1222- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: - وَقَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: - "لاَ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزْنِيِّ جَدِّ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۳)، والبیوع ۶ (۱۵۲۰)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱)، ق/التجارات ۱۵ (۲۱۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳)، حم (۲/۲۳۸) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/البیوع ۶۴ (۲۱۵۰)، و۷۰ (۲۱۶۰)، و۷۱ (۲۱۶۲)، والشروط ۸ (۲۷۲۳)، و ۱۱ (۲۷۲۷)، م/النکاح (المصدر المذکور)، ن/البیوع ۱۶ (۴۴۹۶)، و۱۹ (۴۵۰۶)، و۲۱ (۴۵۱۰)، حم (۲/۲۷۴، ۳۹۴، ۴۸۷) من غیر ہذا الوجہ (وانظر أیضا حدیث رقم ۱۱۳۴ و ۱۱۹۰) و۱۲۲۲، و۱۳۰۴)
۱۲۲۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ۱؎ (بلکہ دیہاتی کو خودبیچنے دے'')۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں طلحہ، جابر ، انس، ابن عباس، ابو یزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمروبن عوف مزنی اور ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا دلال نہ بنے، کیونکہ ایساکرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے ،اگر باہرسے آنے والا خودبیچتاہے تو وہ مسافرہو نے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہوگا۔


1223- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ. دَعُوا النَّاسَ، يَرْزُقُ اللهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا، هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ. وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ حَاضِرٌ لِبَادٍ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: يُكْرَهُ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَإِنْ بَاعَ فَالْبَيْعُ جَائِزٌ.
* تخريج: م/البیوع ۶ (۱۵۲۲)، ق/التجارات ۱۵ (۲۱۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۴)، حم (۳/۳۰۷) (صحیح) و أخرجہ کل من : م/البیوع (المصدر المذکور)، د/البیوع ۴۷ (۲۴۴۲)، ن/البیوع ۱۷ (۴۵۰۰)، حم ۳/۳۱۲، ۳۸۶، ۳۹۲) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۲۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو(ان کاسامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑدو۔ اللہ تعالیٰ بعض کوبعض کے ذریعے رزق دیتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔۲- اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہرسے آنے والے دیہاتی کاسامان بیچے،۴- اوربعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ۵-شافعی کہتے ہیں کہ شہری کادیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اوراگروہ بیچ دے تو بیع جائز ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ
۱۴-باب: محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت کا بیان​


1224- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ الإِسْكَنْدَرَانِيُّ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنِ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَسَعْدٍ، وَجَابِرٍ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْمُحَاقَلَةُ بَيْعُ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ. وَالْمُزَابَنَةُ بَيْعُ الثَّمَرِ عَلَى رُئُوسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا بَيْعَ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ.
* تخريج: م/البیوع ۱۷ (۱۵۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۶۸)، حم (۲/۴۱۹) (صحیح)
وأخرجہ کل من : ن/المزارعۃ ۲ (۳۹۱۵)، حم (۲/۳۹۲، ۴۸۴) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ا بن عمر، ابن عباس، زید بن ثابت، سعد ، جابر، رافع بن خدیج اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بالیوں میں کھڑی کھیتی کوگیہوں سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں،اور درخت پرلگے ہوئی کھجور توڑی گئی کھجورسے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں، ۴- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ محاقلہ اور مزابنہ کو مکروہ سمجھتے ہیں۔


1225- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ سَأَلَ سَعْدًا، عَنِ الْبَيْضَائِ بِالسُّلْتِ. فَقَالَ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟ قَالَ الْبَيْضَائُ. فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ.
وَقَالَ سَعْدٌ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يُسْأَلُ عَنِ اشْتِرَائِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ. فَقَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ: "أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟" قَالُوا: نَعَمْ، فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ.
* تخريج: د/البیوع ۱۸ (۳۳۵۹)، ن/البیوع ۳۶ (۴۵۴۹)، ق/التجارات ۴۵ (۲۴۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۵۴)، ط/البیوع ۱۲ (۲۲)، حم (۱/۱۱۵، ۱۷۱) (صحیح)
1225/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشٍ قَالَ: سَأَلْنَا سَعْدًا، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَصْحَابِنَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۲۵- عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ابوعیاش زید نے سعد رضی اللہ عنہ سے گیہوں کوچھلکااتارے ہوئے جوسے بیچنے کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون افضل ہے؟ انہوں نے کہا: گیہوں،تو انہوں نے اس سے منع فرمایا۔اور سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناآپ سے ترکھجور سے خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھاجارہاتھا۔ توآپ نے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا:'' کیاترکھجورخشک ہونے پر کم ہوجائے گا؟ ۱ ؎ '' لوگوں نے کہا ہاں(کم ہوجائے گا)، توآپ نے اس سے منع فرمایا۔مؤلف نے بسند وکیع عن مالک اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اوریہی شافعی اور ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہواکہ مفتی کے علم وتجربہ میں اگرکوئی بات پہلے سے نہ ہوتوفتوی دینے سے پہلے وہ مسئلہ کے بارے میں تحقیق کرلے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلاَحُهَا
۱۵-باب: پختگی ظاہرہونے سے پہلے پھل کو بیچنے کی کراہت کا بیان​


1226- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّى يَزْهُوَ.
* تخريج: م/البیوع ۱۳ (۱۵۳۵)، د/البیوع ۲۳ (۳۳۶۸)، ن/البیوع ۴۰ (۴۵۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۱۵)، حم (۲/۵) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/الزکاۃ ۵۸ (۱۴۸۶)، والبیوع ۸۲ (۲۱۸۳)، و۸۵ (۲۱۹۴)، و۸۷ (۲۱۹۹)، والسلم ۴ (۲۲۴۷ و۲۲۴۹)، م/البیوع ۱۳ (المصدر المذکور)، د/البیوع ۲۳ (۳۳۶۷)، ن/البیوع ۲۸ (۴۵۲۳)، ق/التجارات ۳۲ (۲۲۱۴)، ط/البیوع ۸ (۱۰)، حم (۲/۷، ۴۶، ۵۶، ۶۱، ۸۰، ۱۲۳)، دي/البیوع ۲۱ (۲۵۹۷) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کھجورکے درخت کی بیع سے منع فرمایاہے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہوجائے۔ (پختگی کو پہنچ جائے)


1227- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ السُّنْبُلِ حَتَّى يَبْيَضَّ وَيَأْمَنَ الْعَاهَةَ، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. كَرِهُوا بَيْعَ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۲۷- اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے(گیہوں اورجو وغیرہ کے ) خوشے بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پختہ ہوجائیں اورآفت سے مامون ہوجائیں، آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس، عائشہ، ابوہریرہ، ابن عباس، جابر ، ابوسعیدخدری اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ پھل کی پختگی ظاہرہونے سے پہلے اس کے بیچنے کو مکروہ سمجھتے ہیں،یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔


1228- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ وَعَفَّانُ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ حَتَّى يَسْوَدَّ، وَعَنْ بَيْعِ الْحَبِّ حَتَّى يَشْتَدَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
* تخريج: د/البیوع ۲۳ (۳۳۷۱)، ق/التجارات ۳۲ (۲۲۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳) (صحیح)
وأخرجہ : حم (۳/۱۱۵)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۲۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کوبیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ ( پختہ) ہوجائے۔ اور دانے (غلے) کوبیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سخت ہوجائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف بروایت حماد بن سلمہ ہی مرفوع جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ
۱۶-باب: حمل کے حمل کوبیچنے کا بیان​


1229- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ نِتَاجُ النِّتَاجِ. وَهُوَ بَيْعٌ مَفْسُوخٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ مِنْ بَيُوعِ الْغَرَرِ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَرَوَى عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَنَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفۃ الأشراف: ۷۵۵۲) (صحیح)
۱۲۲۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے حمل کے حمل کوبیچنے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے :۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے اس حدیث کوبطریق: ''أيوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس'' روایت کیا ہے۔ اور عبدالوھاب ثقفی وغیرہ نے بطریق: ''أيوب، عن سعيد بن جبير، ونافع، كلاهما عن ابن عمر، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے۔ اوریہ زیادہ صحیح ہے، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ حبل الحبلہ (حمل کے حمل) سے مراد اونٹنی کے بچے کابچہ ہے۔ اہل علم کے نزدیک یہ بیع منسوخ ہے اور یہ دھوکہ کی بیع میں سے ایک بیع ہے، ۴- اس باب میں عبداللہ بن عباس اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : حمل کے حمل کوبیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے اندر جو مادہ بچہ ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے پیٹ سے جو بچہ ہوگا اس کو اتنے میں بیچتاہوں،تو یہ بیع جائز نہ ہوگی کیونکہ یہ معدوم اورمجہول کی بیع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْغَرَرِ
۱۷-باب: بیع غرر(دھوکہ) کی حرمت کا بیان​


1230- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ وَبَيْعِ الْحَصَاةِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا بَيْعَ الْغَرَرِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ بُيُوعِ الْغَرَرِ بَيْعُ السَّمَكِ فِي الْمَائِ. وَبَيْعُ الْعَبْدِ الآبِقِ. وَبَيْعُ الطَّيْرِ فِي السَّمَائِ. وَنَحْوُ ذَلِكَ مِنَ الْبُيُوعِ. وَمَعْنَى بَيْعِ الْحَصَاةِ، أَنْ يَقُولَ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي: إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ بِالْحَصَاةِ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ. وَهَذَا شَبِيهٌ بِبَيْعِ الْمُنَابَذَةِ. وَكَانَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ.
* تخريج: م/البیوع ۲ (۱۵۱۳)، د/البیوع ۲۵ (۳۳۷۶)، ن/البیوع ۲۷ (۴۵۲۲)، ق/التجارات ۲۳ (۲۱۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۷۹۴)، حم (۲/۲۵۰، ۴۳۶، ۴۳۹، ۴۹۶) (صحیح)
وأخرجہ حم (۲/۳۷۶) من غیر ہذا الوجہ ۔
۱۲۳۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایاہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب مین ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ بیع غرر کو مکروہ سمجھتے ہیں،۴- شافعی کہتے ہیں: مچھلی کی بیع جوپانی میں ہو، بھاگے ہوئے غلام کی بیع ، آسمان میں اڑتے پرندوں کی بیع اور اسی طرح کی دوسری بیع، بیع غررکی قبیل سے ہیں،۵- اوربیع حصاۃ سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خرید نے والے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکری پھینک دوں تو میرے اورتیرے درمیان میں بیع واجب ہوگئی۔ یہ بیع منابذہ کے مشابہ ہے۔اور یہ جاہلیت کی بیع کی قسموں میں سے ایک قسم تھی۔
وضاحت ۱؎ : بیع غرر: معدوم ومجہول کی بیع ہے، یاایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔
 
Top