• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِيلاَئِ
۲۱-باب: ایلاء کا بیان​


1201- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: آلَى رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنْ نِسَائِهِ، وَحَرَّمَ. فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلاَلاً، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ دَاوُدَ رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مُرْسَلاً. وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ. وَالإِيلاَئُ هُوَ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لاَ يَقْرَبَ امْرَأَتَهُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ فَأَكْثَرَ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيهِ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يُوقَفُ. فَإِمَّا أَنْ يَفِيئَ، وَإِمَّا أَنْ يُطَلِّقَ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: ق/الطلاق ۲۸ (۲۰۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۷۶۲۱) (ضعیف)
(سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق توہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کرجاتاتھا، ان کے بالمقابل ''علی بن مسہر'' زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال ''ہے جسے مؤلف نے بیان کردیاہے)
۱۲۰۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء ۱؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر)حرام کرلیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کرلیا اور قسم کا کفارہ اداکردیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کوجسے انہوں نے داودسے روایت کی ہے: علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داودسے (روایت کی ہے مگر) داودنے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایلاء کیا۔اس میں مسروق اورعائشہ کے واسطے کاذکرنہیں ہے، اوریہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲- اس باب میں انس اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چارماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے،۳- جب چارماہ گزرجائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چارماہ گزرجائیں تواسے قاضی کے سامنے کھڑا کیاجائے گا، یا تورجوع کرلے یا طلاق دے دے۔ ۴-صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کاکہناہے کہ جب چارماہ گزرجائیں توایک طلاق بائن خودبخود پڑجاتی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں، اورشرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتاہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کوچارماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدارکھے گا، اور اس سے جماع نہیں کرے گا، اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرمﷺ کا یہ ایلاء لغوی اعتبارسے تھا اور مباح تھا کیو نکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا، اوراس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزیدنفقہ کا مطالبہ کیاتھا، ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑلے تو اس پر کفارئہ یمین لازم ہوگا اور کفارئہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑاپہنانایا ایک غلام آزادکرناہے، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے صوم رکھناہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي اللِّعَانِ
۲۲-باب: لعان کا بیان​


1202- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنْ المُتَلاَعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ. فَقُمْتُ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ. اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَقِيلَ لِي: إِنَّهُ قَائِلٌ. فَسَمِعَ كَلاَمِي فَقَالَ: ابْنُ جُبَيْرٍ! ادْخُلْ، مَا جَاءَ بِكَ إِلاَّ حَاجَةٌ.
قَالَ: فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَانِ! الْمُتَلاَعِنَانِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللهِ! نَعَمْ. إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ. أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ تَكَلَّمَ، تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ. وَإِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ. فَأَنْزَلَ اللهُ هَذِهِ الآيَاتِ الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ} حَتَّى خَتَمَ الآيَاتِ، فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلاَ الآيَاتِ عَلَيْهِ. وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ. فَقَالَ: لاَ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ! مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا. وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ، فَقَالَتْ: لاَ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ! مَا صَدَقَ، قَالَ: فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَحُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: م/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، ن/الطلاق ۴۱ (۳۵۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۸)، حم (۲/۱۲)، دي/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵) (صحیح) وأحرجہ کل من : خ/الطلاق ۲۷ (۵۳۰۶)، و۳۲ (۵۳۱۱)، و۳۳ (۵۳۱۲)، و۳۴ (۵۳۱۳، ۵۳۱۴)، و۳۵ (۵۳۱۵)، و ۵۲ (۵۳۴۹)، و۵۳ (۵۳۵۰)، والفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، م/اللعان (المصدر المذکور)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۷، ۲۲۵۸، ۲۲۵۹)، ن/الطلاق ۴۲ (۳۵۰۴)، و۴۳ (۳۵۰۵)، و۴۳ (۳۵۰۵)، و۴۴ (۳۵۰۶)، و ۴۵ (۳۵۰۷)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۶)، ط/الطلاق ۱۳ (۳۵)، من غیر ہذا الوجہ۔ وبسیاق آخر، انظر الحدیث الآتي۔
۱۲۰۲- سعید بن جبیر کہتے ہیں: مصعب بن زبیر کے زمانۂ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیاکہ کیاان کے درمیان تفریق کردی جائے؟تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیاجواب دوں؟چنانچہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھرآیااور اندر آنے کی اجازت مانگی ،بتایا گیاکہ وہ قیلولہ کررہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا:ابن جبیر !آجاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کرآئی ہوگی۔سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیاتوکیادیکھتاہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پرلیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی؟ کہا: سبحان اللہ ! ہاں، سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا ۔ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیاکرے؟ اگر کچھ کہتاہے تو بڑی بات کہتاہے، اورا گر خاموش رہتا ہے تووہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتاہے۔ابن عمر کہتے ہیں نبی اکرمﷺ خاموش رہے اورآپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔
پھرجب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرمﷺ کے پاس(دوبارہ) آیا اوراس نے عرض کیا: میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلاکردیاگیا ہوں۔تب اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء إِلاًّ أَنفُسُهُمْ} (النور: 6) (یعنی جولوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں۔)یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں، پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں، اوراسے نصیحت کی اور اس کی تذکیرکی اور بتایاکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پراس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے، میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں، اس کو نصیحت کی، اوراس کی تذکیرکی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا: نہیں ، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ، وہ سچ نہیں بول رہاہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ نے مرد سے ابتداء کی، اس نے اللہ کانام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگروہ جھوٹا ہو تو اس پراللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں، اس نے اللہ کانام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچاہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کردی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سہل بن سعد، ابن عباس ، ابن مسعود اور حذیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : لعان کا حکم آیت کریمہ{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاء} (النور:۶)میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجازکے سامنے پہلے مردچار بار اللہ کا نام لے کرگواہی دے کہ میں سچاہوں اورپانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو، اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چاربار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اورپانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہرسچاہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے شوہرحدقذف (زناکی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اوربیوی زنا کی سزاسے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہوجائے گی۔


1203- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لاَعَنَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ. وَفَرَّقَ النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالأُمِّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۲) (صحیح)
۱۲۰۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا،تو نبی اکرمﷺ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی اور لڑکے کو ماں کے ساتھ کردیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ أَيْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
۲۳-باب: شوہرکی وفات کے بعدعورت عدت کہاں گزارے؟​


1204- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهَا أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللهِ ﷺ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ. وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ، قَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي. فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ، وَلاَ نَفَقَةً. قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "نَعَمْ"، قَالَتْ: فَانْصَرَفْتُ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ (أَوْ فِي الْمَسْجِدِ) نَادَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ (أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ) فَقَالَ: كَيْفَ قُلْتِ؟ قَالَتْ: فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي. قَالَ: امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ، أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرْتُهُ. فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ.
* تخريج: د/الطلاق ۴۴ (۲۳۰۰)، ن/الطلاق ۶۰ (۳۵۵۸)، ق/الطلاق ۸ (۲۰۳۱)، ط/الطلاق ۳۱ (۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۴۵)، حم (۶/۳۷۰)، دي/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۳) (صحیح)
1204/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ. أَنْبَأَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ. فَذَكَرَ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَائَتْ. وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج : انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۰۴- زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا جوابوسعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبردی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھروالوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں(ہوایہ تھا کہ)ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پران سے ملے ،توان غلاموں نے انہیں مارڈالا۔فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھاکہ میں اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کانہ تو کوئی مکان چھوڑ اہے اورنہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں''، چنانچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی۔ ( یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا: ''تم نے کیسے کہا؟میں نے وہی قصہ دہرادیاجومیں نے آپ سے اپنے شوہرکے بارے میں ذکرکیاتھا، آپ نے فرمایا:تم اپنے گھرہی میں رہویہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے''،چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اورمجھ سے اس بارے میں پوچھاتو میں نے ان کو بتایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔
محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،یہ لوگ عدت گزارنے والی عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے ہیں کہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہوجب تک کہ وہ اپنی عدت نہ گزارلے۔یہی سفیان ثوری ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارے تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے عدت گزارے، ۴- (امام ترمذی) کہتے ہیں: پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔


* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

12-كِتَاب الْبُيُوعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۲-کتاب: خریدوفروخت کے احکام ومسائل


1- بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الشُّبُهَاتِ
۱-باب: مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان​


1205- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ، لاَ يَدْرِي كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ أَمِنَ الْحَلاَلِ هِيَ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، فَمَنْ تَرَكَهَا اسْتِبْرَائً لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ فَقَدْ سَلِمَ، وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْهَا، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ كَمَا، أَنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلاَ وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ".
* تخريج: خ/الإیمان ۳۹ (۵۲)، والبیوع ۲ (۲۰۵۱)، م/المساقاۃ ۲۰ (البیوع ۴۰)، (۱۵۹۹)، د/البیوع ۳ (۳۳۲۹)، ن/البیوع ۲ (۴۴۵۸)، ق/الفتن ۱۴ (۲۹۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۲۴)، حم (۴/۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۵)، دي/البیوع ۱ (۲۵۷۳) (صحیح)
1205/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۰۵- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اوراپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑگیا یعنی انہیں اختیارکرلیاتوقریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلاہوجائے،جیسے وہ شخص جوسرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرارہاہو،قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہوجائے ، جان لوکہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں''۔دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اورانہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اسے کئی رواۃنے شعبی سے اورشعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مرادایسے امورومعاملات ہیں جن کی حلت وحرمت سے اکثرلوگ ناواقف ہو تے ہیں، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کر نے سے انسان گریزکرے، اور جوشخص حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیران میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلاہوگیا، اس میں تجارت اورکاروبار کر نے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیارکریں جو واضح طورپر حلال ہوں اورمشتبہ امورومعاملات سے اجتناب کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2- بَاب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الرِّبَا
۲-باب: سودخوری کا بیان​


1206- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهَُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/البیوع ۴ (۳۳۳۳)، ق/التجارات ۵۸ (۲۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۶)، حم (۱/۳۹۹۳، ۴۰۲) (صحیح)
۱۲۰۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے ، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پرلعنت بھیجی ہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، علی، جابر اور ابوجحیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے سود کی حرمت سے شدّت ظاہرہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے، حالانکہ مؤخرالذکردونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، لیکن صرف یک گونہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کوبھی ملعون قراردے دیا گیا، گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اورغضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سودکی بنیاد خود غرضی ،دوسروں کے استحصال اورظلم پرقائم ہوتی ہے اوراسلام ایسا معاشرہ تعمیرکرناچاہتاہے جس کی بنیاد بھائی چارہ، اخوت ہمدردی، ایثاراورقربانی پرہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّغْلِيظِ فِي الْكَذِبِ وَالزُّورِ وَنَحْوِهِ
۳-باب: جھوٹ اور جھوٹی گواہی وغیرہ پر وارد وعید کا بیان​


1207- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْكَبَائِرِ قَالَ: "الشِّرْكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَقَوْلُ الزُّورِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/الشہادات ۱۰ (۲۶۵۳)، والأدب ۶ (۶۸۷۱)، م/الإیمان ۳۸ (۸۸)، ن/المحاربہ (تحریم الدم) ۳ (۴۰۱۵)، والقسامۃ ۴۸ (۴۸۷۱)، (التحفہ: ۱۰۷۷) حم ۳/۱۳۱، ۱۳۴) والمؤلف في تفسیر النساء (۳۰۱۸) (صحیح)
۱۲۰۷- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کبیرہ گناہوں ۱؎ سے متعلق فرمایا:'' اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا(کبائرمیں سے ہیں'' ۲؎ )۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوبکرہ ،ایمن بن خریم اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پرقرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعیدواردہو۔
وضاحت ۲؎ : کبیرہ گناہ اوربھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چندایک کا تذکرہ فرمایا گیاہے، یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔یہاں مولف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید وفروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے، مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ ﷺ إِيَّاهُمْ
۴-باب: تاجروں کاذکراور نبی اکرمﷺکے ان کے نام رکھنے کا بیان​


1208- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ ابْنِ أَبِي غَرَزَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ فَقَالَ: "يَامَعْشَرَ التُّجَّارِ إِنَّ الشَّيْطَانَ وَالإِثْمَ يَحْضُرَانِ الْبَيْعَ، فَشُوبُوا بَيْعَكُمْ بِالصَّدَقَةِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ وَرِفَاعَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. رَوَاهُ مَنْصُورٌ وَالأَعْمَشُ وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ. وَلاَنَعْرِفُ لِقَيْسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ هَذَا.
* تخريج: د/البیوع ۱ (۳۳۲۶)، ن/الأیمان والنذور ۲۲ (۳۸۳۱)، والبیوع ۷ (۴۴۷۵)، ق/التجارات ۳ (۳۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰۳)، حم (۴/۶، ۲۸۰) (صحیح)
1208/م- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ وَشَقِيقٌ هُوَ أَبُو وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج : انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۰۸- قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) سماسرہ ۱؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا:اے تاجروں کی جماعت ! خریدوفروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑہی جاتاہے، لہذا تم اپنی خریدوفرخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیاکرو ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قیس بن ابی غرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے منصورنے بسند اعمش عن حبیب بن أبی ثابت ، اور دیگرکئی لوگوں نے بسند أبی وائل عن قیس بن ابی غرزہ سے روایت کیا ہے۔ہم اس کے علاوہ قیس کی کوئی اورحدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو، ۳- مؤلف نے بسند ابی معاویہ عن الأ عمش عن أبی وائل شقیق بن سلمۃ عن قیس بن ابی غرزہ عن النبی ﷺاسی جیسی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، ۴-یہ حدیث صحیح ہے،۵- اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سماسرہ سمسارکی جمع ہے، یہ عجمی لفظ ہے، چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا، نبی اکرمﷺنے ان کے لیے تجارکا لفظ پسندکیا جوعربی ہے، سمساراصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اورمشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کرلیاکرو۔


1209- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِينُ، مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ. وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمَهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَابِرٍ. وَهُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۹۹۴) (صحیح)
( ابن ماجہ (۲۱۳۹) اور مستدرک الحاکم (۲۱۴۲) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے ، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جوشن ہیں ، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے ، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابوحاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے ، اور ابن معین نے لیس بہ بأس ، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابوسعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں،کوتقویت مل گئی ،اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابوسعید خدری کی حدیث کوصحیح لغیرہ کہا ، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح ، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۱۷۸۲، وتراجع الألبانی ۵۲۵)


1209/م- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ. أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۰۹- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' سچا اور امانت دار تاجر( قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے، ۲- اور ابوحمزہ کانام عبداللہ بن جابرہے اوروہ بصرہ کے شیخ ہیں، ۳- دوسری سندسے سفیان ثوری نے ابوحمزہ سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔


1210- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى الْمُصَلَّى. فَرَأَى النَّاسَ يَتَبَايَعُونَ فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ!"، فَاسْتَجَابُوا لِرَسُولِ اللهِ ﷺ، وَرَفَعُوا أَعْنَاقَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ إِلَيْهِ. فَقَالَ: "إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا، إِلاَّ مَنْ اتَّقَى اللهَ وَبَرَّ وَصَدَقََ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌَ. وَيُقَالُ: إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ رِفَاعَةَ أَيْضًا.
* تخريج: ق/التجارات ۳ (۲۱۴۶) (ضعیف)
(اس کے راوی ''اسماعیل بن عبیدبن رفاعہ ''لین الحدیث ہیں)
۱۲۱۰- رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺکے ہمراہ عیدگاہ کی طرف نکلے، آپ نے لوگوں کو خرید وفروخت کرتے دیکھا تو فرمایا:'' اے تاجروں کی جماعت !''تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی بات سننے لگے اورانہوں نے آپ کی طرف اپنی گردنیں اور نگاہیں اونچی کرلیں، آ پ نے فرمایا:''تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جواللہ سے ڈرے نیک کام کرے اورسچ بولے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن عبید بن رفاعہ کو اسماعیل بن عبید اللہ بن رفاعہ بھی کہاجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ كَاذِبًا
۵-باب: سودے پرجھوٹی قسم کھانے والے کا بیان​


1211- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، يُحَدِّثُ عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحَرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "ثَلاَثَةٌ لاَ يَنْظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلاَ يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ". قُلْنَا: مَنْ هُمْ؟ يَا رَسُولَ اللهِ! فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا. فَقَالَ: "الْمَنَّانُ، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۴۶ (۱۰۶)، د/اللباس ۲۸ (۴۰۷)، ن/الزکاۃ ۶۹ (۴۶۵۲)، والبیوع ۵ (۴۴۶۴)، والزینۃ ۱۰۴ (۵۳۳۵)، ق/التجارات ۳۰ (۲۲۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۰۹)، حم (۴/۱۴۸، ۱۵۸، ۱۶۲، ۱۶۸، ۱۷۸) (صحیح)
۱۲۱۱- ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ( رحمت کی نظرسے) نہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا''، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اورگھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا:''احسان جتانے والا،اپنے تہبند(ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والا ۱؎ اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوذر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود ، ابوہریرہ ، ابوامامہ بن ثعلبہ ، عمران بن حصین اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ تہبندٹخنے سے نیچے لٹکانا، حرام ہے، تہبندہی کے حکم میں شلواریاپاجامہ اورپتلون وغیرہ بھی ہے، واضح رہے کہ یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے اس کے برعکس ٹخنے بلکہ پیرتک بھی ڈھکنے ضروری ہیں۔
وضاحت ۲؎ : جھوٹی قسم کھانامطلقاًحرام ہے لیکن سودا بیچنے کے لیے گاہک کودھوکہ دینے کی نیت سے جھوٹی قسم کھانااورزیادہ بڑاجرم ہے، اس میں دو جرم اکٹھے ہو جاتے ہیں: ایک تو جھوٹی قسم کھانے کا جرم دوسرے دھوکہ دہی کا جرم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّبْكِيرِ بِالتِّجَارَةِ
۶-باب: سامانِ تجارت لے کر سویرے نکلنے کا بیان​


1212- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَائٍ، عَنْ عُمَارَةَ ابْنِ حَدِيدٍ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اللّهُمَّ! بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا". قَالَ: وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً أَوْ جَيْشًا، بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ. وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلاً تَاجِرًا. وَكَانَ إِذَا بَعَثَ تِجَارَةً بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَبُرَيْدَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَلاَ نَعْرِفُ لِصَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَائٍ، هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: د/الجہاد ۸۵ (۲۶۰۶)، ق/التجارات ۴۱ (۲۶۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۵۲)، حم (۳/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۳۲)، و (۴/۳۸۴، ۳۹۰، ۳۹۱)، دي/السیر۱ (۲۴۷۹) (صحیح) دون قولہ ''وکان إذا بعث سریۃ أو جیش، بعثہم أول النہار'' فإنہ ضعیف)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ اس کے راوی ''عمارہ بن جدید''مجہول ہیں، اور ان کے مذکورہ ''ضعیف ''جملے کا کوئی متابع وشاہد نہیں ہے، تراجع الالبانی ۲۷۷، وصحیح ابی داود ط۔ غراس ۲۳۴۵)
۱۲۱۲- صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اے اللہ ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے '' ۱؎ صخرکہتے ہیں کہ آپ جب کسی سریہ یالشکرکو روانہ کرتے تو اُسے دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔اور صخرایک تاجرآدمی تھے۔ جب وہ تجارت کا سامان لے کر (اپنے آدمیوں کو) روانہ کرتے توانہیں دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے ۔ تو وہ مال دار ہوگئے اور ان کی دولت بڑھ گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- صخر غامدی کی حدیث حسن ہے۔ہم اس حدیث کے علاوہ صخر غامدی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو،۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، بریدہ ، انس، ابن عمر، ابن عباس، اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفرتجارت ہو یا اورکوئی کام ہو ان کا آغاز دن کے پہلے پہرسے کرنا زیادہ مفیداوربابرکت ہے، اس وقت انسان تازہ دم ہوتاہے اورقوت عمل وافرہوتی ہے جو ترقی اوربرکت کا باعث بنتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الشِّرَائِ إِلَى أَجَلٍ
۷-باب: کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خرید نے کی رخصت کا بیان​


1213- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمَرُو بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ ثَوْبَانِ قِطْرِيَّانِ غَلِيظَانِ، فَكَانَ إِذَا قَعَدَ فَعَرِقَ، ثَقُلاَ عَلَيْهِ، فَقَدِمَ بَزٌّ مِنَ الشَّامِ لِفُلاَنٍ الْيَهُودِيِّ. فَقُلْتُ: لَوْبَعَثْتَ إِلَيْهِ فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ. فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ مَايُرِيدُ. إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي، أَوْ بِدَرَاهِمِي؛ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَذَبَ، قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلهِ وَآدَاهُمْ لِلأَمَانَةِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ أَيْضًا عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ فِرَاسٍ الْبَصْرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ يَقُولُ: سُئِلَ شُعْبَةُ يَوْمًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: لَسْتُ أُحَدِّثُكُمْ حَتَّى تَقُومُوا إِلَى حَرَمِيِّ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، فَتُقَبِّلُوا رَأَسَهُ. قَالَ: وَحَرَمِيٌّ فِي الْقَوْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: أَيْ إِعْجَابًا بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: ن/البیوع ۷۰ (۴۶۳۲)، حم (۶/۱۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۰) (صحیح)
۱۲۱۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہوجاتے،شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تومیں نے عرض کیا:کاش ! آپ اس کے پاس کسی کوبھیجتے اور اس سے دوکپڑے اس وعدے پر خریدلیتے کہ جب گنجائش ہوگی توقیمت دے دیں گے ، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا،تواس نے کہا: جووہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراھم ہڑپ کرلیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''وہ جھوٹاہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اورامانت کو سب سے زیادہ اداکرنے والاہوں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲- اسے شعبہ نے بھی عمار ہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے،۳- ابوداود طیالسی کہتے ہیں: ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے کہا: میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کرسکتاجب تک کہ تم کھڑے ہوکرحرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سرنہیں چومتے اورحرمی (وہاں)لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی،۴- اس باب مین ابن عباس ،ا نس اور اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھارسوداکرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا، اسی سے باب پراستدلال ہے۔


1214- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تُوُفِّيَ النَّبِيُّ ﷺ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَخَذَهُ لأَهْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/البیوع ۸۳ (۴۶۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۸)، دي/البیوع ۴۴ (۲۶۲۴)، حم (۱/۲۳۶، ۳۶۱)، وأخرجہ کل من : ق/الرہون ۱ (۲۴۳۹)، حم (۱/۳۰۰) من غیر ہذا الوجہ (صحیح)
۱۲۱۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکی وفات ہوئی توآپ کی زرہ بیس صاع غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے لیاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1215- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ح قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، وَلَقَدْ رُهِنَ لَهُ دِرْعٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَخَذَهُ لأَهْلِهِ. وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ ذَاتَ يَوْمٍ يَقُولُ: "مَا أَمْسَى فِي آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ صَاعُ تَمْرٍ وَلاَ صَاعُ حَبٍّ. وَإِنَّ عِنْدَهُ يَوْمَئِذٍ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/البیوع ۱۴ (۲۰۶۹)، والرہون ۱ (۲۵۰۸)، ق/الرہون ۱ (الأحکام ۶۲)، (۲۴۳۷)، (تحفۃ الأشراف : ۱۳۵۵) (صحیح)
۱۲۱۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے پاس جوکی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آچکی تھی لے کر چلا، آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھروالوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ۱؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سناکہ محمدﷺکے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتاتھاجب کہ اس وقت آپ کے پاس نوبیویاں تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ اہل کتاب سے ادھاروغیرہ کا معاملہ کرنا جائز ہے، نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام میں سے کسی سے ادھارلینے کے بجائے ایک یہودی سے اس لیے ادھارلیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اہل کتاب سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے، یااس لیے کہ صحابہ کرام آپ سے کوئی معاوضہ یارقم واپس لیناپسندنہ فرماتے جبکہ آپ کی طبع غیورکویہ بات پسند نہیں تھی۔
 
Top