• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
77-الْبَيْعُ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ
۷۷- باب: بیع میں جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں صحیح ہیں​


4641- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَعْيَا جَمَلِي؛ فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَيِّبَهُ فَلَحِقَنِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعَا لَهُ فَضَرَبَهُ؛ فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ؛ فَقَالَ: بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ، قُلْتُ: لا، قَالَ: بِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ، وَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلانَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ؛ فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، وَابْتَغَيْتُ ثَمَنَهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَأَرْسَلَ إِلَيَّ فَقَالَ أَتُرَانِي إِنَّمَا مَاكَسْتُكَ لآخُذَ جَمَلَكَ خُذْ جَمَلَكَ، وَدَرَاهِمَكَ۔
* تخريج: خ/البیوع ۳۴ (۲۰۹۷)، الاستقراض ۱ (۲۳۸۵)، ۱۸ (۲۴۰۶)، المظالم ۲۶ (۲۴۷۰)، الشروط ۴ (۲۷۱۸)، الجہاد ۴۹ (۲۸۶۱)، ۱۱۳ (۲۹۶۷)، م/البیوع ۴۲ (المساقاۃ ۲۱) (۷۱۵)، الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، د/البیوع ۷۱ (۳۵۰۵)، ت/البیوع ۳۰ (۱۲۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۴۱)، حم (۳/۲۹۹) (صحیح)
۴۶۴۱- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میرا اونٹ تھک کر چلنے سے عاجز آ گیا، تو میں نے چاہا کہ اسے چھوڑ دوں، اتنے میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، آپ نے اس کے لئے دعا کی اور اسے تھپتھپا یا، اب وہ ایسا چلا کہ اس طرح کبھی نہ چلا تھا، آپ نے فرمایا: '' اسے ایک اوقیہ(۴۰ درہم) میں مجھ سے بیچ دو''، میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''اسے مجھ سے بیچ دو'' تو میں نے ایک اوقیہ میں اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط لگائی ۱؎، جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر آپ کے پاس آیا اور اس کی قیمت چاہی، پھر میں لوٹا تو آپ نے مجھے بلا بھیجا، اور فرمایا: '' کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے کم قیمت لگائی تاکہ میں تمہارا اونٹ لے سکوں، لو اپنا اونٹ بھی لے لو اور اپنے درہم بھی''۔
وضاحت ۱؎: یہ جائز شرط تھی اس لیے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس پر معاملہ کر لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔


4642- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا، ثُمَّ ذَكَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلاَمًا مَعْنَاهُ؛ فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ؛ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَانْتَشَطَ حَتَّى كَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا جَابِرُ! مَا أَرَى جَمَلَكَ إِلا قَدْ انْتَشَطَ، قُلْتُ: بِبَرَكَتِكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: بِعْنِيهِ، وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَقْدَمَ فَبِعْتُهُ، وَكَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ؛ فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا، وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ؛ فَقُلْتُ: يَا رسول اللَّهِ! إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: "أَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟ " قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ، وَتَرَكَ جَوَارِيَ أَبْكَارًا؛ فَكَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ؛ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ، وَتُؤَدِّبُهُنَّ؛ فَأَذِنَ لِي، وَقَالَ لِي: ائْتِ أَهْلَكَ عِشَائً؛ فَلَمَّا قَدِمْتُ أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ؛ فَلامَنِي فَلَمَّا قَدِمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ؛ فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ، وَالْجَمَلَ، وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۶۴۲- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے سینچائی کرنے والے اونٹ پر بیٹھ کر جہاد کیا، پھر انھوں نے لمبی حدیث بیان کی، پھر ایک چیز کا تذکرہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اونٹ تھک گیا تو اسے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ڈانٹا تو وہ تیز ہو گیا یہاں تک کہ سارے لشکر سے آگے نکل گیا، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جابر! تمہارا اونٹ تو لگ رہا ہے کہ بہت تیز ہو گیا ہے''، میں نے عرض کیا: آپ کے ذریعہ سے ہونے والی برکت سے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: '' اسے، میرے ہاتھ بیچ دو۔ البتہ تم (مدینہ) پہنچنے تک اس پر سوار ہو سکتے ہو''، چنانچہ میں نے اسے بیچ دیا حالانکہ مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ لیکن مجھے آپ سے شرم آئی۔ جب ہم غزوہ سے فارغ ہوئے اور (مدینے کے) قریب ہوئے تو میں نے آپ سے جلدی سے آگے جانے کی اجازت مانگی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ابھی جلد شادی کی ہے، آپ نے فرمایا: '' کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ '' میں نے عرض کیا: بیوہ سے، اللہ کے رسول! والد صاحب عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما مارے گئے اور انھوں نے کنواری لڑکیاں چھوڑی ہیں، تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں ان کے پاس ان جیسی (کنواری لڑکی) لے کر آؤں، لہٰذا میں نے بیوہ سے شادی کی ہے جو انھیں تعلیم و تربیت دے گی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی اور مجھ سے فرمایا: '' اپنی بیوی کے پاس شام کو جانا''، جب میں مدینے پہنچا تو میں نے اپنے ماموں کو اونٹ بیچنے کی اطلاع دی، تو انھوں نے مجھے ملامت کی، جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم پہنچے تو میں صبح کو اونٹ لے کر آپ کے پاس گیا، تو آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت ادا کی اور اونٹ بھی دے دیا اور (مال غنیمت میں سے) ایک حصہ سب لوگوں کے برابر دیا۔


4643- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، وَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ؛ فَقَالَ: مَا لَكَ فِي آخِرِ النَّاسِ، قُلْتُ: أَعْيَا بَعِيرِي؛ فَأَخَذَ بِذَنَبِهِ، ثُمَّ زَجَرَهُ؛ فَإِنْ كُنْتُ إِنَّمَا أَنَا فِي أَوَّلِ النَّاسِ يُهِمُّنِي رَأْسُهُ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ، قَالَ: مَا فَعَلَ الْجَمَلُ بِعْنِيهِ، قُلْتُ: لا، بَلْ هُوَ لَكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: لا، بَلْ بِعْنِيهِ، قُلْتُ: لا، بَلْ هُوَ لَكَ، قَالَ: لا، بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِوُقِيَّةٍ ارْكَبْهُ؛ فَإِذَا قَدِمْتَ الْمَدِينَةَ؛ فَأْتِنَا بِهِ؛ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ جِئْتُهُ بِهِ؛ فَقَالَ لِبِلالٍ يَا بِلالُ! زِنْ لَهُ أُوقِيَّةً وَزِدْهُ قِيرَاطًا، قُلْتُ هَذَا شَيْئٌ زَادَنِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَلَمْ يُفَارِقْنِي؛ فَجَعَلْتُهُ فِي كِيسٍ؛ فَلَمْ يَزَلْ عِنْدِي حَتَّى جَائَ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ؛ فَأَخَذُوا مِنَّا مَا أَخَذُوا۔
* تخريج: خ/الشروط ۴ (۲۷۱۸ تعلیقًا)، م/البیوع ۴۲ (۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۴۳)، حم (۳/۳۱۴) (صحیح)
۴۶۶۳- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں ایک اونٹ پر سوار تھا۔ آپ نے فرمایا: ''کیا وجہ ہے کہ تم سب سے پیچھے میں ہو؟ '' میں نے عرض کیا: میرا اونٹ تھک گیا ہے، آپ نے اس کی دم کو پکڑا اور اسے ڈانٹا، اب حال یہ تھا کہ میں سب سے آگے تھا، (ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے اونٹ سے آگے بڑھ جائے اس لئے) مجھے اس کے سر سے ڈر ہو رہا تھا، تو جب ہم مدینے سے قریب ہوئے تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اونٹ کا کیا ہوا؟ اسے میرے ہاتھ بیچ دو''، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: '' نہیں، اسے میرے ہاتھ بیچ دو''، میں نے عرض کیا: نہیں، بلکہ وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے کہا: '' نہیں، بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو، میں نے اسے ایک اوقیہ میں لے لیا، تم اس پر سوار ہو اور جب مدینہ پہنچ جاؤ تو اسے ہمارے پاس لے آنا''، جب میں مدینے پہنچا تو اسے لے کر آپ کے پاس آیا، آپ نے بلال رضی الله عنہ سے فرمایا: '' بلال! انہیں ایک اوقیہ (چاندی) دے دو اور ایک قیراط مزید دے دو''، میں نے عرض کیا: یہ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے مجھے زیادہ دیا ہے، (یہ سوچ کر کہ) وہ مجھ سے کبھی جدا نہ ہو، تو میں نے اسے ایک تھیلی میں رکھا، پھر وہ قیراط میرے پاس برابر رہا یہاں تک کہ حرہ کے دن ۱؎ اہل شام آئے اور ہم سے لوٹ لے گئے جو لے گئے۔
وضاحت ۱؎: یہ واقعہ ۶۳؁ھ میں پیش آیا تھا، اس میں یزید کے لشکرنے مدینے پر چڑھائی کی تھی۔ حرہ کالے پتھروں والی زمین کو کہتے ہیں جو مدینے کے مشرقی اور مغربی علاقہ کی زمین ہے۔


4644- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَدْرَكَنِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْتُ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا سَوْئٍ؛ فَقُلْتُ: لا يَزَالُ لَنَا نَاضِحُ سَوْئٍ يَا لَهْفَاهُ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبِيعُنِيهِ يَا جَابِرُ! قُلْتُ: بَلْ هُوَ لَكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ قَدْ أَخَذْتُهُ بِكَذَا وَكَذَا، وَقَدْ أَعَرْتُكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ؛ فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ هَيَّأْتُهُ؛ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَيْهِ؛ فَقَالَ: يَابِلالُ! أَعْطِهِ ثَمَنَهُ؛ فَلَمَّا أَدْبَرْتُ دَعَانِي؛ فَخِفْتُ أَنْ يَرُدَّهُ؛ فَقَالَ: هُوَ لَكَ۔
* تخريج: تفردہ بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۹) (ضعیف)
(سند ضعیف ہے، اور متن منکر ہے، اس لیے کہ اس کے راوی ابو زبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس کے متن میں پچھلے متن سے تعارض بھی ہے جو واضح ہے)
۴۶۴۴- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے پایا کہ میں اپنے سینچنے والے اونٹ پر سوار تھا، میں نے عرض کیا: افسوس! ہمارے پاس ہمیشہ پانی سینچنے والا اونٹ ہی رہتا ہے، تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جابر! کیا تم اسے میرے ہاتھ بیچو گے؟ '' میں نے عرض کیا: یہ تو آپ ہی کا ہے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: '' اے اللہ! اس کی مغفرت کر، اس پر رحم فرما، میں نے تو اسے اتنے اتنے دام پر لے لیا ہے، اور مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کی تمہیں اجازت دی ہے''، جب میں مدینے آیا تو اسے تیار کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بلال! انھیں اس کی قیمت دے دو''، جب میں لوٹنے لگا تو آپ نے مجھے بلایا، مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ اسے لوٹائیں گے، آپ نے فرمایا: '' یہ تمہارا ہے''۔


4645- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُونَضْرَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا نَسِيرُ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا؟ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ، يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا؟ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ! قَالَ: أَتَبِيعُنِيهِ بِكَذَا وَكَذَا؟ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ، قُلْتُ: نَعَمْ، هُوَ لَكَ، قَالَ أَبُو نَضْرَةَ: وَكَانَتْ كَلِمَةً يَقُولُهَا الْمُسْلِمُونَ: افْعَلْ كَذَا وَكَذَا، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ۔
* تخريج: خ/الشروط ۴ (۲۷۱۸ تعلیقًا)، م/الرضاع ۱۶ (۷۱۵)، ق/التجارات ۲۹ (۲۲۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۰۱)، حم (۳/۳۷۳) (صحیح)
۴۶۴۵- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ جار ہے تھے، میں سینچائی کرنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے''، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ کا ہی ہے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے''، میں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے نبی! وہ آپ ہی کا ہے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم اسے میرے ہاتھ اتنے اور اتنے میں بیچو گے؟ اللہ تمہیں معاف کرے''، میں نے عرض کیا: ہاں، وہ آپ ہی کا ہے۔
ابو نضرہ کہتے ہیں: یہ مسلمانوں کا تکیہ کلام تھا کہ جب کسی سے کہتے: ایسا ایسا کرو تو کہتے: واللہ یغفر لک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
78-الْبَيْعُ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ الْفَاسِدُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ
۷۸- باب: بیع میں اگر شرط فاسد ہو تو بیع صحیح ہو جائے گی اور شرط باطل ہوگی​


4646- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا، وَلائَهَا؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَعْتِقِيهَا فَإِنَّ الْوَلائَ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ" قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا، قَالَتْ: فَدَعَاهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۴۷۹ (صحیح)
(لیکن '' وکان زوجھا حراً '' کا لفظ شاذ ہے، محفوظ روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے)
۴۶۴۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی الله عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ''اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے''، چنانچہ میں نے انھیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے انھیں بلایا اور انھیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ رضی الله عنہا نے اپنے شوہر کی زوجیت میں نہ رہنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے شوہر آزاد تھے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی چاہیں تو اس شوہر کی زوجیت میں رہیں جن سے غلامی میں نکاح ہوا تھا، اور چاہیں تو ان کی زوجیت میں نہ رہیں۔
وضاحت ۲؎: صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے، اسی لیے تو بریرہ رضی الله عنہا کو اختیار دیا گیا، اگر وہ آزاد ہوتے تو بریرہ رضی الله عنہا کو اختیار دیا ہی نہیں جاتا، (دیکھئے حدیث رقم ۲۶۱۵ و ۳۴۷۹) اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے ولاء والی شرط کو باطل قرار دے کر باقی معاملہ (بریرہ کی بیع کو) صحیح قرار دیا۔


4647-أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ، وَأَنَّهُمْ اشْتَرَطُوا، وَلائَهَا فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا فَإِنَّ الْوَلائَ لِمَنْ أَعْتَقَ " وَأُتِيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ؛ فَقِيلَ: هَذَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ فَقَالَ: " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ وَخُيِّرَتْ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۳۴۸۴ (صحیح)
۴۶۴۷- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے غلامی سے آزاد کرنے کے لئے بریرہ رضی الله عنہا کو خریدنا چاہا، لوگوں نے ان کے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، انھوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''انھیں خرید کر آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے''، اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو کہا گیا: یہ تو بریرہ پر کیا گیا صدقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: '' یہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے تحفہ(ہدیہ) ہے''، اور انھیں (بریرہ کو) اختیار دیا گیا(شوہر کے ساتھ رہنے اور نہ رہنے کا)۔


4648- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عَائِشَةَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً تَعْتِقُهَا؛ فَقَالَ: أَهْلُهَا نَبِيعُكِهَا عَلَى أَنَّ الْوَلائَ لَنَا؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكِ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " لا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ فَإِنَّ الْوَلائَ لِمَنْ أَعْتَقَ "۔
* تخريج: خ/البیوع ۷۳ (۲۱۶۹)، المکاتب۲(۲۵۶۲)، الفرائض ۱۹ (۶۷۵۱)، ۲۲(۶۷۵۷)، م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، د/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳۴)، ط/العتق ۱۰ (۱۸)، حم (۲/۲۸، ۱۱۳، ۱۵۳، ۱۵۶)، وانظر أیضا حدیث رقم: ۲۶۱۵ (صحیح)
۴۶۴۸- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا نے لونڈی خریدنا چاہی تاکہ اسے آزاد کریں، تو اس کے گھر والوں (مالکان) نے کہا: ہم اسے آپ سے اس شرط پر بیچیں گے کہ ولاء (حق وراثت) ہمارا ہوگا، عائشہ رضی الله عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: '' تم اس وجہ سے مت رک جانا، کیونکہ ولاء (وراثت) تو اس کے لئے ہے جو آزاد کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
79-بَيْعُ الْمَغَانِمِ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ
۷۹- باب: تقسیم سے پہلے مال غنیمت بیچنے کا بیان​


4649- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَهَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمَغَانِمِ، حَتَّى تُقْسَمَ، وَعَنْ الْحَبَالَى أَنْ يُوطَأْنَ حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ، وَعَنْ لَحْمِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۶۴۰۸) (صحیح)
۴۶۴۹- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے تقسیم ہونے سے پہلے مال غنیمت بیچنے، حاملہ عورتوں ۱؎ کے ساتھ بچہ کی پیدائش سے پہلے جماع کرنے اور ہر دانت والے درندے کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔
وضاحت ۱؎: مال غنیمت میں ملی ہوئی لونڈیاں مراد ہیں، اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کو پانے والے مجاہد ان کے بچہ جننے کے بعد ہی ان سے مباشرت کر سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
80-بَيْعُ الْمَشَاعِ
۸۰- باب: مشترکہ مال بیچنے کا بیان​


4650- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شِرْكٍ رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ لايَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ؛ فَإِنْ بَاعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ "۔
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۸ (البیوع۴۹) (۱۶۰۸)، د/البیوع ۷۵ (۳۵۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۰۶)، حم (۳/۳۱۲، ۳۱۶، ۳۵۷، ۳۹۷)، دي/البیوع ۸۳ (۲۶۷۰)، ویأتي عندالمؤلف برقم: ۴۷۰۵ (صحیح)
۴۶۵۰- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''شفعہ ۱؎ کا حق ہر چیز میں ہے، زمین ہو یا کوئی احاطہ(باغ وغیرہ)، کسی حصہ دار کے لئے جائز نہیں کہ اپنے دوسرے حصہ دار کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ بیچے، اگر اس نے بیچ دیا تو وہ (دوسرا حصہ دار) اس کا زیادہ حقدار ہوگا یہاں تک کہ وہ خود اس کی اجازت دے دے''۔
وضاحت ۱؎: شفعہ: زمین، باغ گھر وغیرہ میں ایسی ساجھے داری کو کہتے ہیں جس میں کسی فریق کا حصہ متعین نہ ہو کہ ہمارا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے اور دوسرے کا حصہ یہاں سے یہاں تک ہے بس مطلق ملکیت میں سب کی ساجھے داری ہو، ایسا ساجھے دار اگر اپنا حصہ بیچنا چاہتا ہے تو دوسرے شریک کو پہلے بتائے، اگر وہ اسی قیمت پر لینے پر راضی ہو جائے تو اسی کا حق ہے، اگر جازت دے دے تب دوسرے سے بیچنا جائز ہوگا، اور اگر اس کی اجازت کے بغیر بیچ دیا تو وہ اس بیع کو قاضی منسوخ کرا سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
81-التَّسْهِيلُ فِي تَرْكِ الإِشْهَادِ عَلَى الْبَيْعِ
۸۱- باب: بیع میں گواہ نہ کرنے کی سہولت کا بیان​


4651- أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ مَرْوَانَ بْنِ الْهَيْثَمِ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ - عَنْ الزُّبَيْدِيِّ أَنَّ الزُّهْرِيَّ أَخْبَرَهُ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ - وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ، وَاسْتَتْبَعَهُ لِيَقْبِضَ ثَمَنَ فَرَسِهِ فَأَسْرَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبْطَأَ الأَعْرَابِيُّ، وَطَفِقَ الرِّجَالُ يَتَعَرَّضُونَ لِلأَعْرَابِيِّ؛ فَيَسُومُونَهُ بِالْفَرَسِ، وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ حَتَّى زَادَ بَعْضُهُمْ فِي السَّوْمِ عَلَى مَا ابْتَاعَهُ بِهِ مِنْهُ فَنَادَى الأَعْرَابِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسَ، وَإِلا بِعْتُهُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ نِدَائَهُ؛ فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؟ قَالَ: لا، وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ؛ فَطَفِقَ النَّاسُ يَلُوذُونَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِالأَعْرَابِيِّ، وَهُمَا يَتَرَاجَعَانِ، وَطَفِقَ الأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَاهِدًا يَشْهَدُ أَنِّي قَدْ بِعْتُكَهُ، قَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بِعْتَهُ، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ فَقَالَ: لِمَ تَشْهَدُ؟ قَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رسول اللَّهِ! قَالَ: فَجَعَلَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ شَهَادَةَ رَجُلَيْنِ۔
* تخريج: د/الأقضیۃ ۲۰ (۳۶۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۴۶)، حم (۵/۲۱۵) (صحیح)
۴۶۵۱- صحابی رسول عمارہ بن خزیمہ کے چچا (خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی (دیہاتی) سے ایک گھوڑا خریدا، اور اس سے پیچھے پیچھے آنے کو کہا تاکہ وہ اپنے گھوڑے کی قیمت لے لے، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور اعرابی سست رفتاری سے چلا، لوگ اعرابی سے پوچھنے لگے اور گھوڑا خریدنے کے لئے (بڑھ بڑھ کر قیمتیں لگانے لگے) انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اسے خرید چکے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اس سے زیادہ قیمت لگا دی جتنے پر آپ نے اس سے خریدا تھا، اعرابی نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو پکارا، اگر آپ اس گھوڑے کو خریدیں تو ٹھیک ورنہ میں اسے بیچ دوں، آپ نے جب اس کی پکار سنی تو ٹھہر گئے اور فرمایا: '' کیا میں نے اسے تم سے خریدا نہیں ہے؟ '' اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں نے اسے آپ سے بیچا نہیں ہے، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں اسے تم سے خرید چکا ہوں '' ۱؎، اب لوگ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور اعرابی کے ارد گرد اکٹھا ہونے لگے، دونوں تکرار کر رہے تھے، اعرابی کہنے لگا: ''گواہ لائیے جو گواہی دے کہ میں اسے آپ سے بیچ چکا ہوں ''، خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے بیچ چکے ہو، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم خزیمہ رضی الله عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ''تم گواہی کیسے دے رہے ہو''؟ انھوں نے کہا: آپ کے سچا ہونے پر یقین ہونے کی وجہ سے ۲؎، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے خزیمہ رضی الله عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا۔
وضاحت ۱؎: اگر اس خرید وفروخت میں گوا ہوں کا انتظام کیا گیا ہوتا تو وہ دیہاتی آپ صلی للہ علیہ وسلم سے گواہ طلب ہی نہیں کرتا، اس نے سوچا کہ گواہ نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر زیادہ قیمت پر بیچ دوں گا، پتہ چلا کہ خرید وفروخت میں گواہی کا ضروری نہیں، ورنہ آپ ضرور اس کا انتظام کرتے۔
وضاحت۲؎: چونکہ آپ سچے ہیں اس لیے آپ کا یہ دعوی ہی میرے لیے کافی ہے کہ آپ خرید چکے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
82-اخْتِلافُ الْمُتَبَايِعَيْنِ فِي الثَّمَنِ
۸۲- باب: بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت کے بارے میں اختلاف ہو جانے کا بیان​


4652- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ عَبْدُاللَّهِ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ؛ فَهُوَ مَا يَقُولُ: رَبُّ السِّلْعَةِ أَوْيَتْرُكَا "۔
* تخريج: د/البیوع ۷۴ (۳۵۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۴۶) (صحیح)
۴۶۵۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ''بیچنے اور خریدنے والے میں اختلاف ہو جائے اور ان میں سے کسی کے پاس گواہ نہ ہو تو اس کی بات کا اعتبار ہوگا جو صاحب مال (بیچنے والا) ہے ۱؎ (اور خریدار کو اسی قیمت پر لینا ہوگا) یا پھر دونوں بیع ترک کر دیں '' ۲؎۔
وضاحت ۱؎: مگر قسم کھانے کے بعد، جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
وضاحت ۲؎: خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان قیمت کی تعیین میں اگر اختلاف ہو جائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں بیچنے والا قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے اس سامان کو اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں بیچا ہے اب خریدار اس کی قسم اور قیمت کی تعیین پر راضی ہے تو بہتر ورنہ بیع کا معاملہ ہی ختم کر دیا جائے گا۔


4653- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، وَاللَّفْظُ لإِبْرَاهِيمَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَضَرْنَا أَبَاعُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَتَاهُ رَجُلانِ تَبَايَعَا سِلْعَةً؛ فَقَالَ: أَحَدُهُمَا أَخَذْتُهَا بِكَذَا وَبِكَذَا، وَقَالَ: هَذَا بِعْتُهَا بِكَذَا وَكَذَا فَقَالَ أَبُوعُبَيْدَةَ: أُتِيَ ابْنُ مَسْعُودٍ فِي مِثْلِ هَذَا فَقَالَ: حَضَرْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمِثْلِ هَذَا؛ فَأَمَرَ الْبَائِعَ أَنْ يَسْتَحْلِفَ، ثُمَّ يَخْتَارَ الْمُبْتَاعُ فَإِنْ شَائَ أَخَذَ، وَإِنْ شَائَ تَرَكَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۶۱۱) (صحیح)
(پچھلی روایت نیز دیگر متابعات و شواہد کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کے راوی '' عبدالملک بن عبید '' مجہول ہیں، اور ''ابو عبیدہ'' کا اپنے باپ '' ابن مسعود رضی الله عنہ '' سے سماع نہیں ہے)
۴۶۵۳- عبدالملک بن عبید کہتے ہیں کہ ہم ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کے پاس حاضر ہوئے، ان کے پاس دو آدمی آئے جنہوں نے ایک سامان کی خرید وفروخت کر رکھی تھی، ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اسے اتنے اور اتنے میں لیا ہے، دوسرے نے کہا: میں نے اسے اتنے اور اتنے میں بیچا ہے تو ابو عبیدہ نے کہا: ابن مسعود رضی الله عنہ کے پاس بھی ایسا ہی مقدمہ آیا تو انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کے پاس ایسا ہی مقدمہ آیا۔ تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے بائع کو قسم کھانے کا حکم دیا پھر(فرمایا: خریدار) کو اختیار ہے، چاہے تو اسے لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
83- مُبَايَعَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ
۸۳- باب: اہل کتاب(یہود و نصاریٰ) سے خرید وفروخت کرنے کا بیان​


4654-أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: اشْتَرَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا بِنَسِيئَةٍ، وَأَعْطَاهُ دِرْعًا لَهُ رَهْنًا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۶۱۳ (صحیح)
۴۶۵۴- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار اناج (غلہ) خریدا اور اسے اپنی ایک زرہ بطور رہن دی۔


4655- أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تُوُفِّيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِثَلاثِينَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ لأَهْلِهِ۔
* تخريج: ت/البیوع ۷ (۱۲۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۸)، حم (۱/۲۳۶، ۳۰۰، ۳۶۱)، دي/البیوع ۴۴ (۲۶۲۴) (صحیح)
۴۶۵۵- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گھر والوں کی خاطر تیس صاع جَو کے بدلے رہن(گروی) رکھی ہوئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
84-بَيْعُ الْمُدَبَّرِ
۸۴- باب: مدبر غلام کو بیچنے کا بیان ۱؎​


4656- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عُذْرَةَ عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ؛ فَبَلَغَ ذَلِكَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَلَكَ مَالٌ غَيْرُهُ؟ قَالَ: لا، فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي، فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَدَوِيُّ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَجَائَ بِهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ " ثُمَّ قَالَ: ابْدَأْ بِنَفْسِكَ؛ فَتَصَدَّقْ عَلَيْهَا؛ فَإِنْ فَضَلَ شَيْئٌ فَلأَهْلِكَ؛ فَإِنْ فَضَلَ مِنْ أَهْلِكَ شَيْئٌ؛ فَلِذِي قَرَابَتِكَ فَإِنْ فَضَلَ مِنْ ذِي قَرَابَتِكَ شَيْئٌ؛ فَهَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا يَقُولُ: بَيْنَ يَدَيْكَ، وَعَنْ يَمِينِكَ، وَعَنْ شِمَالِكَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۵۴۷ (صحیح)
۴۶۵۶- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنا ایک غلام بطور مدبر آزاد (یعنی مرنے کے بعد آزاد ہونے کی شرط پر) کر دیا، یہ بات رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی، تو آپ نے فرمایا: '' کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ کوئی مال ہے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' اس غلام کو مجھ سے کون خریدے گا؟ '' چنانچہ اسے نعیم بن عبداللہ عدوی رضی الله عنہ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ان (دراہم) کولے کر آئے اور اسے ادا کر دیا، پھر فرمایا: '' اپنی ذات سے شروع کرو اور اس پر صدقہ کرو، پھر کچھ بچ جائے تو وہ تمہارے گھر والوں کا ہے، تمہارے گھر والوں سے بچ جائے تو تمہارے رشتے داروں کے لئے ہے اور اگر تمہارے رشتے داروں سے بھی بچ جائے تو اس طرح اور اس طرح''، اپنے سامنے، اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے ہوئے۔
وضاحت ۱؎: مدبر: وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ اگر مدبّر کرنے والا مالک محتاج ہو جائے تو اس مدبّر غلام کو بیچا جا سکتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آدمی محتاج تھا اور اس پر قرض تھا، امام بخاری اور مؤلف نیز دیگر علماء مطلق طور پر مدبّر کے بیچنے کو جائز مانتے ہیں۔


4657- أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو مَذْكُورٍ: أَعْتَقَ غُلامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، يُقَالُ لَهُ يَعْقُوبُ: لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُ؛ فَدَعَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ يَشْتَرِيهِ فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ " وَقَالَ: " إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فَقِيرًا فَلْيَبْدَأْ بِنَفْسِهِ، فَإِنْ كَانَ فَضْلا فَعَلَى عِيَالِهِ؛ فَإِنْ كَانَ فَضْلا فَعَلَى قَرَابَتِهِ أَوْ عَلَى ذِي رَحِمِهِ، فَإِنْ كَانَ فَضْلا فَهَا هُنَا وَهَا هُنَا "۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۱۳ (۹۹۷)، د/العتق ۹ (۳۹۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۷)، حم (۳/۳۰۱، ۳۶۹) (صحیح)
۴۶۵۷- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابو مذکور نامی انصاری نے ایک یعقوب نامی غلام کو مدبر کے طور پر آزاد کیا، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے بکا کر فرمایا: '' اسے کون خریدے گا؟ '' اسے نعیم ابن عبداللہ رضی الله عنہ نے آٹھ سو درہم میں خریدا، آپ نے اس (انصاری) کو وہ (درہم) دے کر فرمایا: '' تم میں جب کوئی محتاج ہو تو پہلے اپنی ذات سے شروع کرے، پھر اگر بچے تو اپنے گھر والوں پر، پھر اگر بچے تو اپنے رشتے داروں پر، اور اگر پھر بھی بچ رہے تو ادھر ادھر'' (یعنی دوسرے فقراء پر خرچ کرے)۔


4658- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاعَ الْمُدَبَّرَ۔
* تخريج: خ/البیوع ۱۱۰ (۲۲۳۰)، د/العتق ۹ (۳۹۵۵)، ق/العتق ۱ (الأحکام ۹۴) (۲۵۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۱۶)، حم (۳/۳۰۱، ۳۷۰، ۳۹۰)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۵۴۲۰ (صحیح)
۴۶۵۸- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے مدبر (غلام) کو بیچ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
85-بَيْعُ الْمُكَاتَبِ
۸۵- باب: مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان ۱؎​


4659- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَائَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا شَيْئًا؛ فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ؛ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ، وَيَكُونَ وَلاؤُكِ لِي فَعَلْتُ؛ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لأَهْلِهَا؛ فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَائَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ؛ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونَ لَنَا وَلاؤُكِ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ لَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ابْتَاعِي، وَأَعْتِقِي فَإِنَّ الْوَلائَ لِمَنْ أَعْتَقَ " ثُمَّ قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ فَمَنْ اشْتَرَطَ شَيْئًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؛ فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنْ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَأَوْثَقُ "۔
* تخريج: خ/البیوع ۶۷ (۲۱۵۵)، المکاتب ۲ (۲۵۶۱)، الشروط۳(۲۷۱۷)، م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، د/العتق ۲ (۳۹۲۹)، ت/الوصایا ۷ (۲۱۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۰)، ط/العتق ۱۰ (۱۷)، حم (۶/۸۱) (صحیح)
۴۶۵۹- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی الله عنہا عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آئیں، اپنی کتابت کے سلسلے میں ان کی مدد چاہتی تھیں، ان سے عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: تم اپنے گھر والوں (مالکوں) کے پاس لوٹ جاؤ، اب اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت (کی رقم) ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حقِ وراثت) میرے لئے ہوگا تو میں ادا کر دوں گی، بریرہ رضی الله عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے کیا تو انھوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں البتہ تمہارا ولاء (ترکہ) ہمارے لئے ہوگا، عائشہ رضی الله عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''انھیں خرید لو ۲؎ اور آزاد کر دو''۔ ولاء (وراثت) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا، پھر آپ نے فرمایا: ''کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہ ہو، تو وہ پوری نہ ہوگی گرچہ سو شرطیں لگائی گئی ہوں، اللہ کی شرط قبول کرنے اور اعتماد کرنے کے لائق ہے''۔
وضاحت ۱؎: مکاتب: وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ اگر تم اتنی اتنی رقم اتنی مدت میں، یا جب بھی کما کر ادا کر دے تو تم آزاد ہو۔
وضاحت۲؎: بریرہ رضی الله عنہا نے چونکہ ابھی تک مکاتبت (معاہدہ آزادی) کی کوئی قسط ادا نہیں کی تھی، اس لیے عائشہ رضی الله عنہا نے کل رقم ادا کر کے انہیں خرید لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
86-الْمُكَاتَبُ يُبَاعُ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ مِنْ كِتَابَتِهِ شَيْئًا
۸۶- باب: مکاتب نے اگر بدل کتابت میں سے کچھ نہ ادا کیا ہو) تو اسے بیچا جا سکتا ہے​


4660- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ يُونُسُ، وَاللَّيْثُ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: جَائَتْ بَرِيرَةُ إِلَيَّ فَقَالَتْ: يَا عَائِشَةُ! إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ؛ فَأَعِينِينِي، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا؛ فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: وَنَفِسَتْ فِيهَا ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ؛ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أُعْطِيَهُمْ ذَلِكَ جَمِيعًا، وَيَكُونَ وَلاؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا؛ فَعَرَضَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ؛ فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَائَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ؛ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونَ ذَلِكِ لَنَا فَذَكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لايَمْنَعُكِ ذَلِكِ مِنْهَا ابْتَاعِي وَأَعْتِقِي؛ فَإِنَّ الْوَلائَ لِمَنْ أَعْتَقَ فَفَعَلَتْ" وَقَامَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ النَّاسِ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنْ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ قَضَائُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ وَإِنَّمَا الْوَلائُ لِمَنْ أَعْتَقَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۶۶۰- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ رضی الله عنہا نے آ کر کہا: عائشہ! میں نے نو اوقیہ کے بدلے اپنے گھر والوں (مالکوں) سے مکاتبت کر لی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ دوں گی تو آپ میری مدد کریں۔ (اس وقت) انھوں نے اپنی کتابت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا تھا۔ ان سے عائشہ رضی الله عنہا نے کہا- اور ان میں دلچسپی لے رہی تھیں: جاؤ اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس اگر وہ پسند کریں کہ میں انھیں یہ رقم ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لئے ہوگا تو میں ایسا کروں، بریرہ رضی الله عنہا اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس گئیں اور ان کے سامنے یہ بات پیش کی، تو انھوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں لیکن وہ (ترکہ) ہمارا ہوگا، اس کا ذکر عائشہ نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: '' یہ چیز تمہیں ان سے مانع نہ رکھے، خریدو اور آزاد کر دو، ولاء (ترکہ) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا ''، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور حمد وثنا کے بعد فرمایا: ''امابعد، لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہوتیں، جو ایسی شرط لگائے گا جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ باطل ہے گرچہ وہ سو شرطیں ہوں، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ زیادہ قابل قبول اور اللہ تعالیٰ کی شرط زیادہ لائق بھروسہ ہے، ولاء (حق وراثت) اسی کا ہے جس نے آزاد کیا ''۔
 
Top