• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
107-الشَّرِكَةُ فِي النَّخِيلِ
۱۰۷- باب: کھجور کے درخت میں حصہ داری اور شرکت کا بیان​


4704- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّكُمْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ أَوْ نَخْلٌ فَلا يَبِعْهَا حَتَّى يَعْرِضَهَا عَلَى شَرِيكِهِ۔
* تخريج: ق/الشفعۃ ۱ (۲۴۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶۵)، حم (۲/۳۰۷) (صحیح)
۴۷۰۴- جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم میں اگر کسی کے پاس کوئی زمین یا کھجور کا درخت ہو تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اپنے حصہ دار وشریک سے نہ پوچھ لے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے ثابت ہوا کہ درخت یا باغ میں حصہ داری جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
108-الشَّرِكَةُ فِي الرَّبَاعِ
۱۰۸- باب: زمین میں حصہ داری اور شرکت کا بیان​


4705- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَضَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ شَرِكَةٍ لَمْ تُقْسَمْ رَبْعَةٍ، وَحَائِطٍ لا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَبِيعَهُ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ فَإِنْ شَائَ أَخَذَ، وَإِنْ شَائَ تَرَكَ، وَإِنْ بَاعَ، وَلَمْ يُؤْذِنْهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۶۵۰ (صحیح)
۴۷۰۵- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ہر مشترک مال جو تقسیم نہ ہوا ہو جیسے زمین یا باغ، میں شفعہ کا حکم دیا، اس کے لئے صحیح نہیں کہ وہ اسے بیچے جب تک کہ حصہ دار سے اجازت نہ لے لے، اگر وہ (شریک) چاہے تو اسے لے لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے، اور اگر اس (شریک) سے اس کی اجازت لئے بغیر بیچ دیا تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
109-ذِكْرُ الشُّفْعَةِ وَأَحْكَامِهَا
۱۰۹- باب: شفعہ اور اس کے احکام کا بیان ۱؎​


4706- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ "۔
* تخريج: خ/الشفعۃ ۲ (۲۲۵۸)، الحیل۱۴(۶۹۷۷)، ۱۵(۶۹۷۸)، د/البیوع ۷۵ (۳۵۱۶)، ق/الشفعۃ ۳ (الأحکام ۸۷) (۲۴۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۷)، حم (۶/۱۰، ۳۹۰) (صحیح)
۴۷۰۶- ابو رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حق دار ہے''۔
وضاحت ۱؎: شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کر سکے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں کی جائیداد اس طرح مشترک ہو کہ دونوں کے حصے کی تعیین نہ ہو، اور دونوں کا راستہ بھی ایک ہو، دیکھئے حدیث رقم ۴۷۰۸۔


4707- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا قَالَ يَا رسول اللَّهِ! أَرْضِي لَيْسَ لأَحَدٍ فِيهَا شَرِكَةٌ، وَلا قِسْمَةٌ إِلا الْجُوَارَ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ "۔
* تخريج: ق/الشفعۃ ۲ (۲۴۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۴۰)، حم (۴/۳۸۸، ۳۸۹، ۳۹۰) (صحیح)
۴۷۰۷- شرید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میری زمین ہے، جس میں کسی کی حصہ داری اور شرکت نہیں اور نہ ہی پڑوس کے سوا کسی کا حصہ ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حق دار ہے''۔


4708- أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ مَالٍ لَمْ يُقْسَمْ فَإِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ، وَعُرِفَتْ الطُّرُقُ فَلا شُفْعَةَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸۳) (صحیح)
(یہ حدیث مرسل ہے، اس لیے کہ ابو سلمہ نے یہاں پر واسطہ کا ذکر نہیں کیا، لیکن صحیح بخاری، کتاب الشفعہ (۲۲۵۷) میں ابو سلمہ نے اس حدیث کو جابر (رضی الله عنہ) سے روایت کیا ہے)
۴۷۰۸- ابو سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر وہ مال جو تقسیم نہ ہوا ہو، اس میں شفعہ کا حق ہے۔ لہٰذا جب حد بندی ہو جائے اور راستہ متعین ہو جائے تو اس میں شفعہ کا حق نہیں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: حق شفعہ کے سلسلہ میں مناسب اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ حق ایسے دو پڑوسیوں کو حاصل ہوگا جن کے مابین پانی، راستہ وغیرہ مشتر کہوں، دوسری صورت میں یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔


4709- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنٍ وَهُوَ ابْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَضَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ وَالْجِوَارِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸۷) (صحیح)
۴۷۰۹- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے شفعہ اور پڑوس کے حق کا حکم دیا۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
109-ذِكْرُ الشُّفْعَةِ وَأَحْكَامِهَا
۱۰۹- باب: شفعہ اور اس کے احکام کا بیان ۱؎​


4706- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ "۔
* تخريج: خ/الشفعۃ ۲ (۲۲۵۸)، الحیل۱۴(۶۹۷۷)، ۱۵(۶۹۷۸)، د/البیوع ۷۵ (۳۵۱۶)، ق/الشفعۃ ۳ (الأحکام ۸۷) (۲۴۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۷)، حم (۶/۱۰، ۳۹۰) (صحیح)
۴۷۰۶- ابو رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' پڑوسی اپنے پڑوس کا زیادہ حق دار ہے''۔
وضاحت ۱؎: شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کر سکے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دونوں کی جائیداد اس طرح مشترک ہو کہ دونوں کے حصے کی تعیین نہ ہو، اور دونوں کا راستہ بھی ایک ہو، دیکھئے حدیث رقم ۴۷۰۸۔


4707- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا قَالَ يَا رسول اللَّهِ! أَرْضِي لَيْسَ لأَحَدٍ فِيهَا شَرِكَةٌ، وَلا قِسْمَةٌ إِلا الْجُوَارَ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ "۔
* تخريج: ق/الشفعۃ ۲ (۲۴۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۴۰)، حم (۴/۳۸۸، ۳۸۹، ۳۹۰) (صحیح)
۴۷۰۷- شرید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میری زمین ہے، جس میں کسی کی حصہ داری اور شرکت نہیں اور نہ ہی پڑوس کے سوا کسی کا حصہ ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' پڑوسی اپنے پڑوسی کا زیادہ حق دار ہے''۔


4708- أَخْبَرَنَا هِلالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ مَالٍ لَمْ يُقْسَمْ فَإِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ، وَعُرِفَتْ الطُّرُقُ فَلا شُفْعَةَ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۸۳) (صحیح)
(یہ حدیث مرسل ہے، اس لیے کہ ابو سلمہ نے یہاں پر واسطہ کا ذکر نہیں کیا، لیکن صحیح بخاری، کتاب الشفعہ (۲۲۵۷) میں ابو سلمہ نے اس حدیث کو جابر (رضی الله عنہ) سے روایت کیا ہے)
۴۷۰۸- ابو سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر وہ مال جو تقسیم نہ ہوا ہو، اس میں شفعہ کا حق ہے۔ لہٰذا جب حد بندی ہو جائے اور راستہ متعین ہو جائے تو اس میں شفعہ کا حق نہیں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: حق شفعہ کے سلسلہ میں مناسب اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ حق ایسے دو پڑوسیوں کو حاصل ہوگا جن کے مابین پانی، راستہ وغیرہ مشتر کہوں، دوسری صورت میں یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔


4709- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنٍ وَهُوَ ابْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَضَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ وَالْجِوَارِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸۷) (صحیح)
۴۷۰۹- جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے شفعہ اور پڑوس کے حق کا حکم دیا۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

45-كِتَاب الْقَسَامَةِ وَالْقَوَدِ وَالدِّياَتِ
۴۵- کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل


1-ذِكْرُ الْقَسَامَةِ الَّتِي كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
۱- باب: زمانۂ جاہلیت میں رائج قسامہ کا بیان ۱؎​


4710- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُومَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُوالْهَيْثَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَوَّلُ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَه رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذِ أَحَدِهِمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ؛ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدْ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ؛ فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لا تَنْفِرُ الإِبِلُ؛ فَأَعْطَاهُ عِقَالا يَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ؛ فَلَمَّا نَزَلُوا، وَعُقِلَتْ الإِبِلُ إِلا بَعِيرًا وَاحِدًا فَقَالَ: الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ؟ قَالَ: مَرَّ بِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ فَاسْتَغَاثَنِي، فَقَالَ أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لا تَنْفِرُ الإِبِلُ؛ فَأَعْطَيْتُهُ عِقَالا، فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ؛ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ؛ فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ، قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذَا شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ؛ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ! فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ هَاشِمٍ! فَإِذَا أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ؛ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ، فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ، ثُمَّ مَاتَ فَنَزَلْتُ فَدَفَنْتُهُ؛ فَقَالَ: كَانَ ذَا أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الْيَمَانِيَّ الَّذِي كَانَ أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبَلِّغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، قَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ! قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ! قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ؟ قَالَ: هَذَا أَبُوطَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلانٌ أَنْ أُبَلِّغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ؛ فَقَالَ: اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ؛ فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا خَطَأً، وَإِنْ شِئْتَ يَحْلِفْ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ أَنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ، فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ؛ فَأَتَى قَوْمَهُ؛ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ؛ فَقَالُوا: نَحْلِفُ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ! أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ، وَلاتُصْبِرْ يَمِينَهُ؛ فَفَعَلَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ؛ فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ! أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنْ الإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ؛ فَهَذَانِ بَعِيرَانِ؛ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي، وَلا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الأَيْمَانُ؛ فَقَبِلَهُمَا، وَجَائَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ رَجُلا حَلَفُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَاحَالَ الْحَوْلُ؟ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَالأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ۔
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۲۷ (المناقب ۸۷) (۳۸۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۸۰) (صحیح)
۴۷۱۰- عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کا پہلا قسامہ یہ تھا کہ بنی ہاشم کا ایک شخص تھا، قریش یعنی اس کی شاخ میں سے کسی قبیلے کے ایک شخص نے اسے نوکری پر رکھا، وہ اس کے ساتھ اس کے اونٹوں میں گیا، اس کے پاس سے بنی ہاشم کے ایک شخص کا گزر ہوا جس کے توش دان کی رسی ٹوٹ گئی تھی، وہ بولا: میری مدد کرو ایک رسی سے جس سے میں اپنے توش دان کا منہ باندھ سکوں تاکہ (اس میں سے سامان گرنے سے) اونٹ نہ بدکے، چنانچہ اس نے اسے توش دان کا منہ باندھنے کے لئے رسی دی، جب انھوں نے قیام کیا اور ایک اونٹ کے علاوہ سبھی اونٹ باندھ دیے گئے تو جس نے نوکر رکھا تھا، اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا معاملہ ہے، تمام اونٹوں میں اسے کیوں نہیں باندھا گیا؟ اس نے کہا: اس کے لئے کوئی رسی نہیں ہے، اس نے کہا: اس کی رسی کہاں گئی؟ وہ بولا: میرے پاس سے بنی ہاشم کا ایک شخص گزرا جس کے توش دان کا منہ باندھنے کی رسی ٹوٹ گئی تھی، اس نے مجھ سے مدد چاہی اور کہا: مجھے توش دان کا منہ باندھنے کے لئے ایک رسی دے دو تاکہ اونٹ نہ بدکے، میں نے اسے رسی دے دی، یہ سن کر اس نے ایک لاٹھی نوکر کو ماری، اسی میں اس کی موت تھی(یعنی یہی چیز بعد میں اس کے مرنے کا سبب بنی) اس کے پاس سے یمن والوں میں سے ایک شخص کا گزر ہوا، اس نے کہا: کیا تم حج کو جار ہے ہو؟ اس نے کہا: جا نہیں رہا ہوں لیکن شاید جاؤں، اس نے کہا: کیا تم (اس موقع سے) کسی بھی وقت میرا یہ پیغام پہنچا دوگے؟ اس نے کہا: ہاں، کہا: جب تم حج کو جاؤ تو پکار کر کہنا: اے قریش کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو پکارنا! اے ہاشم کے لوگو! جب وہ آ جائیں تو ابو طالب کے بارے میں پوچھنا پھر انھیں بتانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے سلسلے میں مار ڈالا ہے اور (یہ کہہ کر) نوکر مر گیا، پھر جب وہ شخص آیا جس نے نوکری پر اسے رکھا تھا تو اس کے پاس ابو طالب گئے اور بولے: ہمارے آدمی کا کیا ہوا؟ وہ بولا: وہ بیمار ہو گیا، میں نے اس کی اچھی طرح خدمت کی پھر وہ مرگیا، میں راستے میں اترا اور اسے دفن کر دیا۔ ابو طالب بولے: تمہاری طرف سے وہ اس چیز کا حق دار تھا، وہ کچھ عرصے تک رکے رہے پھر وہ یمنی آیا جسے اس نے وصیت کی تھی کہ جب موسم حج آیا تو وہ اس کا پیغام پہنچا دے۔ اس نے کہا: اے قریش کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ قریش ہیں، اس نے کہا: اے بنی ہاشم کے لوگو! لوگوں نے کہا: یہ بنی ہاشم ہیں، اس نے کہا: ابو طالب کہاں ہیں؟ کسی نے کہا: ابو طالب یہ ہیں۔ وہ بولا: مجھ سے فلاں نے کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ فلاں نے اسے ایک رسی کی وجہ سے مار ڈالا، چنانچہ ابو طالب اس کے پاس آئے اور بولے: تم تین میں سے کوئی ایک کام کرو، اگر تم چاہو تو سو اونٹ دے دو، اس لئے کہ تم نے ہمارے آدمی کو غلطی سے مار ڈالا ہے ۱؎ اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ تم نے اسے نہیں مارا، اگر تم ان دونوں باتوں سے انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں اس کے بدلے قتل کریں گے، وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا: ہم قسم کھائیں گے، پھر بنی ہاشم کی ایک عورت ابو طالب کے پاس آئی جو اس قبیلے کے ایک شخص کی زوجیت میں تھی، اس شخص سے اس کا ایک لڑکا تھا، وہ بولی: ابو طالب! میں چاہتی ہوں کہ آپ ان پچاس میں سے میرے اس بیٹے کو بخش دیں اور اس سے قسم نہ لیں، ابو طالب نے ایسا ہی کیا، پھر ان کے پاس ان میں کا ایک شخص آیا اور بولا: ابو طالب! آپ سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم لینا چاہتے ہو؟ ہر شخص کے حصے میں دو اونٹ پڑیں گے، تو لیجیے دو اونٹ اور مجھ سے قسم مت لیجیے جیسا کہ آپ اوروں سے قسم لیں گے، ابو طالب نے دونوں اونٹ قبول کر لیے، پھر اڑتالیس آدمی آئے اور انھوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ابھی سال بھی نہ گزرا تھا کہ ان اڑتالیس میں سے ایک بھی آنکھ جھپکنے والی نہیں رہی (یعنی سب مر گئے) ۲؎۔
وضاحت ۱؎: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔
وضاحت۲؎: ابن عباس رضی الله عنہما نے ان سب کے مر جانے کی خبر قسم کھا کر دی باوجودیکہ یہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں کہی جاتی ہیں: یہ خبر ان تک تواتر کے ساتھ پہنچی ہوگی، کسی ثقہ شخص کے ذریعہ پہنچی ہوگی، یہ بھی احتمال ہے کہ اس واقعہ کی خبر انہیں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے دی ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2- الْقَسَامَةُ
۲- باب: قسامہ کا بیان​


4711- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو: قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوسَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ الْقَسَامَةَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ۔
* تخريج: م/القسامۃ ۱ (الحدود ۱) (۱۶۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۸۷، ۱۸۷۴۷)، حم (۴/۶۲، و۵/۳۷۵، ۴۳۲، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۷۱۲، ۴۷۱۳) (صحیح)
۴۷۱۱- ایک انصاری صحابی رسول رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے قسامہ کو اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا۔


4712- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْقَسَامَةَ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ؛ فَأَقَرَّهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَضَى بِهَا بَيْنَ أُنَاسٍ مِنْ الأَنْصَارِ فِي قَتِيلٍ ادَّعَوْهُ عَلَى يَهُودِ خَيْبَرَ. ٭خَالَفَهُمَا مَعْمَرٌ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۷۱۲- کچھ صحابہ سے روایت ہے کہ قسامہ جاہلیت میں جاری تھا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے اسی حالت پر باقی رکھا جس پر وہ جاہلیت میں تھا، اور انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے سلسلے میں اسی کا فیصلہ کیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ اس کا خون خیبر کے یہودیوں پر ہے۔
٭ (ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں:) معمر نے ان دونوں (یونس اور اوزاعی) کے برخلاف یہ حدیث (مرسلا) روایت کی ہے۔


4713- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ: كَانَتْ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَقَرَّهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الأَنْصَارِيِّ الَّذِي وُجِدَ مَقْتُولا فِي جُبِّ الْيَهُودِ؛ فَقَالَتْ الأَنْصَارُ: الْيَهُودُ قَتَلُوا صَاحِبَنَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۱ (صحیح)
(یہ روایت مرسل ہے، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر مرفوع متصل ہے)
۴۷۱۳- سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ قسامہ جاہلیت میں رائج تھا، پھر اسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس انصاری کے سلسلے میں باقی رکھا جو یہودیوں کے کنویں میں مرا ہوا پایا گیا تو انصار نے کہا: ہمارے آدمیوں کا قتل یہودیوں نے کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3-تَبْدِئَةُ أَهْلِ الدَّمِ فِي الْقَسَامَةِ
۳- باب: قسامہ میں قسم کی ابتداء مقتول کے ورثاء کی طرف سے ہونے کا بیان ۱؎​


4714- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمَا؛ فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ، وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ؛ فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ، وَحُوَيِّصَةُ - وَهُوَ أَخُوهُ أَكْبَرُ مِنْهُ - وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ؛ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ كَبِّرْ، وَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَكَتَبُوا إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ قَالُوا: لا، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمْ الدَّارَ قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَائُ۔
* تخريج: خ/الصلح ۷ (۲۷۰۲)، الجزیۃ ۱۲ (۳۱۷۳)، الأدب ۸۹ (۶۱۴۳)، الدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، الأحکام ۳۸ (۷۱۹۲)، م/القسامۃ ۱ (الحدود ۱) (۱۶۶۹)، د/الدیات ۸ (۲۵۲۰، ۲۵۲۱)، ۹ (۲۵۲۳)، ت/الدیات ۲۳ (۱۴۴۲)، ق/الدیات۲۸(۲۶۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۴)، حم (۴/۲، ۳)، دي/الدیات ۲ (۲۳۹۸)، انظرالأرقام التالیۃ ۴۷۱۵-۴۷۲۳ (صحیح)
۴۷۱۴- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی الله عنہما (رزق کی) تنگی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے تو محیصہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا ہے، اور انھیں ایک کنویں میں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، یہ سن کر وہ(محیصہ) یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم ہی نے انھیں قتل کیا ہے۔ وہ بولے: اللہ کی قسم! انھیں ہم نے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، حویصہ-ان کے بڑے بھائی- اور عبدالرحمن بن سہل رضی الله عنہما ساتھ آئے تو محیصہ رضی الله عنہ نے گفتگو کرنا چاہی(وہی خیبر میں ان کے ساتھ تھے) تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو''، اور حویصہ رضی الله عنہ نے گفتگو کی پھر محیصہ رضی الله عنہ نے کی، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے (اس سلسلے میں) فرمایا: '' یا تو وہ تمہارے ساتھی کی دیت ادا کریں یا، پھر ان سے جنگ کے لئے کہہ دیا جائے''، اور یہ بات رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے انھیں لکھ بھیجی، تو انھوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انھیں قتل نہیں کیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن (رضی الله عنہم) سے فرمایا: '' تمہیں قسم کھانا ہوگی ۲؎ اور پھر تمہیں اپنے آدمی کے خون کا حق ہوگا''، وہ بولے: نہیں، آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودی قسم کھائیں گے''، وہ بولے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس (یعنی بیت المال) سے ان کی دیت ادا کی اور ان کے پاس سو اونٹ بھیجے یہاں تک کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہو گئے، سہل رضی الله عنہ نے کہا: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
وضاحت ۱؎: یعنی: قسامہ میں پہلے مقتول کے ورثاء سے کہا جائے گا کہ تم لوگ قسم کھالو تو تم کو قتل کی دیت دے دی جائے گی، اور جب ورثاء قسم سے انکار کر دیں گے تب مدعا علیھم سے قسم کھانے کو کہا جائے گا اب اگر وہ بھی قسم کھالیں گے تو دیت بیت المال سے دلائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی للہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں کیا تھا۔
وضاحت ۲؎: اسی جملہ کی باب سے مناسبت ہے۔


4715- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ وَرِجَالٌ كُبَرَائُ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ؛ فَأُتِىَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ، وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ فَأَتَى يَهُودَ، وَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ قَالُوا: وَاللَّهِ! مَا قَتَلْنَاهُ؛ فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ؛ فَذَكَرَ لَهُمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ؛ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ: كَبِّرْ كَبِّرْ يُرِيدُ السِّنَّ؛ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَكَتَبُوا إِنَّا وَاللَّهِ مَاقَتَلْنَاهُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟ قَالُوا: لا، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ، قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ؛ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ بِمِائَةِ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمْ الدَّارَ قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَائُ .
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۷۱۵- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ان سے ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی الله عنہ تنگ حالی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی الله عنہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ مارے گئے، انھیں ایک کنویں یا چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے، انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے انھیں قتل نہیں کیا، پھر وہ اپنے قبیلے کے پاس آئے اور ان سے اس کا تذکرہ کیا۔ پھر وہ، ان کے بھائی حویصہ-حویصہ ان سے بڑے تھے- اور عبدالرحمن بن سہل چلے۔ (اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے) تو محیصہ نے بات کرنی چاہی (وہی خیبر میں گئے) تھے تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے محیصہ سے فرمایا: ''بڑے کا لحاظ کرو، بڑے کا لحاظ کرو''۔ آپ کی مراد عمر میں بڑے ہونے سے تھی، چنانچہ حویصہ نے گفتگو کی پھر محیصہ نے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''یا تو وہ تمہارے آدمی کی دیت دیں یا پھر ان سے جنگ کے لئے کہہ دیا جائے''، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے انھیں اس بارے میں لکھ بھیجا تو ان لوگوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے انھیں قتل نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن (رضی الله عنہم) سے کہا: ''کیا تم قسم کھاؤ گے اور اپنے آدمی کے خون کے حقدار بنو گے؟ '' وہ بولے: نہیں، آپ نے فرمایا: ''تو پھر یہودی قسم کھائیں گے''۔ وہ بولے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی اور سو اونٹنیاں ان کے پاس بھیجیں یہاں تک کہ وہ ان کے گھروں میں داخل ہو گئیں۔ سہل کہتے ہیں: ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماردی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-ذِكْرُ اخْتِلافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ سَهْلٍ فِيهِ
۴- باب: اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر​


4716- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وَحَسِبْتُ، قَالَ: وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا قَالا: خَرَجَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِذَا بِمُحَيِّصَةَ يَجِدُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلا؛ فَدَفَنَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ الْكُبْرَ فِي السِّنِّ فَصَمَتَ، وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا؛ فَذَكَرُوا لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ؛ فَقَالَ لَهُمْ: أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا؟ وَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ، وَلَمْ نَشْهَدْ، قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا قَالُوا: وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؛ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ عَقْلَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۶- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں: عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود رضی الله عنہما نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہو گئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمن ان میں سب سے چھوٹے تھے-پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمن بولنے لگے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' عمر میں جو بڑا ہے اس کا لحاظ کرو'' تو وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھی گفتگو کرنے لگے، پھر عبدالرحمن نے بھی ان کے ساتھ گفتگو کی، چنانچہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا تذکرہ کیا، تو آپ نے ان سے فرمایا: '' کیا تم پچاس قس میں کھاؤ گے، پھر اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنو گے'' (یا کہا: اپنے قاتل کے) انھوں نے کہا: ہم کیوں کر قسم کھائیں گے جب کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے، آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودی پچاس قس میں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے''، انھوں نے کہا: ان کی قس میں ہم کیوں کر قبول کر سکتے ہیں وہ تو کافر لوگ ہیں، جب یہ چیز رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے دیکھی تو آپ نے ان کی دیت خود سے انہیں دے دی۔


4717- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ أَتَيَا خَيْبَرَ فِي حَاجَةٍ لَهُمَا فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ؛ فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ؛ فَجَائَ أَخُوهُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا عَمِّهِ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَتَكَلَّمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ، وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُمْ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ لِيَبْدَأْ الأَكْبَرُ؛ فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ؛ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ، قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ، قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! قَوْمٌ كُفَّارٌ فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ قَالَ سَهْلٌ: فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الإِبِلِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۷- سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں: محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل رضی الله عنہما اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر خیبر آئے، پھر وہ باغ میں الگ الگ ہو گئے، عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا، تو ان کے بھائی عبدالرحمن بن سہل اور چچا زاد بھائی حویصہ اور محیصہ (رضی الله عنہم) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمن نے اپنے بھائی کے معاملے میں گفتگو کی حالانکہ وہ ان میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو، سب سے بڑا پہلے بات شروع کرے''، چنانچہ ان دونوں نے اپنے آدمی کے بارے میں بات کی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ نے ایک ایسی بات کہی جس کا مفہوم یوں تھا: '' تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں گے''، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک ایسا معاملہ جہاں ہم موجود نہ تھے، اس کے بارے میں کیوں کر قسم کھائیں؟ آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودی اپنے پچاس لوگوں کو قسم کھلا کر تمہارے شک کو دور کریں گے''، وہ بولے: اللہ کے رسول! وہ تو کافر لوگ ہیں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ان کی دیت ادا کی۔ سہل رضی الله عنہ کہتے ہیں: جب میں ان کے مربد (باڑھ) میں داخل ہوا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماردی۔


4718- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ - وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ - قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا خَيْبَرَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ؛ فَتَفَرَّقَا لِحَوَائِجِهِمَا فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلا؛ فَدَفَنَهُ ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ؛ فَانْطَلَقَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ سِنًّا فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرِ الْكُبْرَ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ؛ فَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَحْلِفُ؟ وَلَمْ نَشْهَدْ، وَلَمْ نَرَ، قَالَ: تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؛ فَعَقَلَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۸- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل، محیصہ بن مسعود بن زید خیبر رضی الله عنہما گئے، ان دنوں صلح چل رہی تھی، وہ اپنی ضرورتوں کے لئے الگ الگ ہو گئے، پھر محیصہ رضی الله عنہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کے پاس آئے (دیکھا کہ) وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ رہے تھے، تو انھیں دفن کیا اور مدینے آئے، پھر عبدالرحمن بن سہل، حویصہ اور محیصہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو عبدالرحمن نے بات کی وہ عمر میں سب سے چھوٹے تھے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑے کا لحاظ کرو''، چنانچہ وہ خاموش ہو گئے، پھر ان دونوں نے بات کی تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ اپنے آدمی (کے خون بہا) یا اپنے قاتل (خون) کے حق دار بنو؟ '' انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کیوں کر قسم کھائیں گے حالانکہ نہ ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہی ہم نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا: '' یہودی پچاس قس میں کھا کر تمہارا شک دور کریں گے''، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں گے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔


4719- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ إِلَى خَيْبَرَ، وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ؛ فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا؛ فَأَتَى مُحَيِّصَةُ عَلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ، وَهُوَ يَتَشَحَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلا؛ فَدَفَنَهُ، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ؛ فَانْطَلَقَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ الْكُبْرَ، وَهُوَ أَحْدَثُ الْقَوْمِ؛ فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَحْلِفُونَ بِخَمْسِينَ يَمِينًا مِنْكُمْ؟ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ"؛ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَحْلِفُ؟ وَلَمْ نَشْهَدْ، وَلَمْ نَرَ؛ فَقَالَ: أَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ؟ فَقَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؛ فَعَقَلَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۱۹- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما خیبر کی طرف چلے، اس وقت صلح چل رہی تھی، محیصہ اپنے کام کے لئے جدا ہو گئے، پھر وہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے اور وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے، انھیں دفن کیا اور مدینے آئے، عبدالرحمن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ (رضی الله عنہم) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمن بن سہل رضی الله عنہ بات کرنے لگے تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو''، وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، تو وہ چپ ہو گئے، پھر ان حویصہ اور محیصہ نے بات کی، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تم اپنے پچاس آدمیوں کو قسم کھلاؤ گے تاکہ تم اپنے قاتل (کے خون)، یا اپنے آدمی کے خون (بہا) کے حق دار بنو''، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم قسم کیوں کر کھائیں گے، نہ تو ہم وہاں موجود تھے اور نہ ہم نے انھیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ''تو کیا پچاس یہودیوں کی قسموں سے تمہارا شک دور ہو جائے گا؟ '' وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم کافروں کی قسم کا اعتبار کیوں کر کریں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔


4720- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَتَفَرَّقَا فِي حَاجَتِهِمَا فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ الأَنْصَارِيُّ؛ فَجَائَ مُحَيِّصَةُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ أَخُو الْمَقْتُولِ، وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَتَّى أَتَوْا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ؛ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ فَتَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، وَحُوَيِّصَةُ؛ فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَحْلِفُ؟ وَلَمْ نَشْهَدْ، وَلَمْ نَحْضُرْ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا، قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ؟ قَالَ: فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ بُشَيْرٌ: قَالَ لِي سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ لَقَدْ رَكَضَتْنِي فَرِيضَةٌ مِنْ تِلْكَ الْفَرَائِضِ فِي مِرْبَدٍ لَنَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۰- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی الله عنہما خیبر کی طرف نکلے پھر اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل انصاری رضی الله عنہ کا قتل ہو گیا۔ چنانچہ محیصہ، مقتول کے بھائی عبدالرحمن اور حویصہ بن مسعود رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبدالرحمن بات کرنے لگے۔ تو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو''۔ پھر محیصہ اور حویصہ رضی الله عنہما نے گفتگو کی اور عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کا معاملہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تمہیں پچاس قس میں کھانی ہوں گی، پھر تم اپنے قاتل کے (خون کے) حق دار بنو گے''، وہ بولے: ہم قسم کیوں کر کھائیں، نہ ہم موجود تھے اور نہ ہم نے دیکھا۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو پھر یہودی پچاس قس میں کھا کر تمہارے شک کو دور کریں گے''۔ وہ بولے: ہم کافروں کی قس میں کیسے قبول کریں۔ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان کی دیت ادا کی۔
بشیر کہتے ہیں: مجھ سے سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ نے کہا: دیت میں دی گئی ان اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی نے ہمارے مربد میں مجھے لات ماری۔


4721- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: وُجِدَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ قَتِيلا؛ فَجَائَ أَخُوهُ، وَعَمَّاهُ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ، وَهُمَا عَمَّا عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ قَالا: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّا وَجَدْنَا عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلا فِي قَلِيبٍ مِنْ بَعْضِ قُلُبِ خَيْبَرَ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَتَّهِمُونَ، قَالُوا: نَتَّهِمُ الْيَهُودَ، قَالَ: أَفَتُقْسِمُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا أَنَّ الْيَهُودَ قَتَلَتْهُ، قَالُوا: وَكَيْفَ نُقْسِمُ؟ عَلَى مَا لَمْ نَرَ، قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ الْيَهُودُ بِخَمْسِينَ أَنَّهُمْ لَمْ يَقْتُلُوهُ، قَالُوا: وَكَيْفَ نَرْضَى بِأَيْمَانِهِمْ؟ وَهُمْ مُشْرِكُونَ فَوَدَاهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ .
٭أَرْسَلَهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۱- سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی الله عنہم رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمن رضی الله عنہ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو''، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: ''تمہارا شک کس پر ہے؟ '' انھوں نے کہا: ہمارا شک یہودیوں پر ہے، آپ نے فرمایا: ''کیا تم پچاس قس میں کھاؤ گے کہ یہودیوں نے ہی انھیں قتل کیا ہے؟ ''، انھوں نے کہا: جسے ہم نے دیکھا نہیں، اس پر قسم کیسے کھائیں؟ آپ نے فرمایا: '' تو پھر یہودیوں کی پچاس قس میں کہ انھوں نے عبداللہ بن سہل کو قتل نہیں کیا ہے، تمہارے شک کو دور کریں گی؟ ''وہ بولے: ہم ان کی قسموں پر کیسے رضا مند ہوں جبکہ وہ مشرک ہیں، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
٭مالک بن انس نے اسے مرسلا روایت کیا ہے۔ (یعنی سہل بن ابی حثمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)


4722- قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الأَنْصَارِيَّ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا؛ فَقُتِلَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَهْلٍ؛ فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ فَأَتَى هُوَ، وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَذَهَبَ عَبْدُالرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ كَبِّرْ فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، وَمُحَيِّصَةُ؛ فَذَكَرُوا شَأْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَهْلٍ؛ فَقَالَ لَهُمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحْلِفُونَ؟ خَمْسِينَ يَمِينًا، وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ يَحْيَى: فَزَعَمَ بُشَيْرٌ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ. ٭خَالَفَهُمْ سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۲- بشیر بن یسار بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود رضی الله عنہما خیبر کی طرف نکلے، پھر وہ اپنی ضرورتوں کے لئے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل رضی الله عنہ کا قتل ہو گیا، محیصہ رضی الله عنہ آئے تو وہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے، عبدالرحمن رضی الله عنہ مقتول کے بھائی ہونے کی وجہ سے بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو''، چنانچہ حویصہ اور محیصہ رضی الله عنہما نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ''کیا تم پچاس قس میں کھاؤ گے کہ اپنے آدمی یا اپنے قاتل کے خون کے حق دار بنو؟ ''۔
مالک کہتے ہیں: یحییٰ نے کہا: بشیر نے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔
٭سعید بن طائی نے ان راویوں کے برعکس بیان کیا ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: سعید بن طائی کی روایت میں مقتول کے اولیاء سے قسم کھانے کے بجائے گواہ پیش کرنے، پھر مدعی علیہم سے قسم کھلانے کا ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے، (دیات ۲۲) بقول امام ابن حجر: بعض رواۃ نے گواہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور بعض نے کیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، حقیقت میں نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے پہلے گواہی طلب کی اور گواہی نہ ہونے پر قسم کی بات کہی، اور جب مدعی یہ بھی نہیں پیش کر سکے تو مدعا علیھم سے قسم کی بات کی، اس بات کی تائید عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔


4723- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ زَعَمَ أَنَّ رَجُلا مِنْ الأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ: أَخْبَرَهُ أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا؛ فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلا؛ فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ، وَلا عَلِمْنَا قَاتِلا فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ؛ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلا؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ؛ فَقَالَ لَهُمْ: تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ: فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ قَالُوا: لا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ. ٭خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۱۴ (صحیح)
۴۷۲۳- بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہو گئے، تو انھیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انھوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا: ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انھوں نے کہا: نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو'' ۱؎، پھر آپ نے ان سے فرمایا: ''تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہوگا''، وہ بولے: ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تو وہ قسم کھائیں گے''، وہ بولے: ہمیں یہودیوں کی قس میں منظور نہیں، پھر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو گراں گزرا کہ ان کا خون بے کار جائے، تو آپ نے انھیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔
٭ (ابوعبدالرحمن نسائی کہتے ہیں:) عمروبن شعیب نے ان (یعنی اوپر مذکور رواۃ) کی مخالفت کی ہے ۲؎۔
وضاحت ۱؎: یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی (عبدالرحمن مقتول کے بھائی) نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ ملاحظہ ہو: سابقہ احادیث۔
وضاحت ۲ ؎: عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔


4724- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ الأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ ابْنَ مُحَيِّصَةَ الأَصْغَرَ أَصْبَحَ قَتِيلا عَلَى أَبْوَابِ خَيْبَرَ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقِمْ شَاهِدَيْنِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ أَدْفَعْهُ إِلَيْكُمْ بِرُمَّتِهِ، قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! وَمِنْ أَيْنَ أُصِيبُ شَاهِدَيْنِ؟ وَإِنَّمَا أَصْبَحَ قَتِيلا عَلَى أَبْوَابِهِمْ، قَالَ: فَتَحْلِفُ خَمْسِينَ قَسَامَةً، قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! وَكَيْفَ أَحْلِفُ؟ عَلَى مَا لا أَعْلَمُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَنَسْتَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسِينَ قَسَامَةً؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! كَيْفَ نَسْتَحْلِفُهُمْ؟ وَهُمْ الْيَهُودُ؛ فَقَسَمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ عَلَيْهِمْ، وَأَعَانَهُمْ بِنِصْفِهَا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۹) (شاذ) ۱ ؎
وضاحت ۱؎: امام نسائی نے اس روایت پر نقد یہ کہہ کر کیا کہ عمروبن شعیب نے ان رواۃ کی مخالفت کی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوپر گزری روایتوں سے اس روایت میں تین جگہ مخالفت ہے: اس میں مقتول کا نام عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ ہے، اور مدعی سے قسم سے پہلے گواہ پیش کرنے کی بات ہے،، نیز اس میں یہ ہے کہ آدھی دیت یہودیوں پر مقرر کی، دوسری شق کی تائید کہیں نہ کہیں سے ہو جاتی ہے لیکن بقیہ دو باتیں بالکل شاذ ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبید اللہ بن اخنس، بقول ابن حبان: روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔
۴۷۲۴- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ کے چھوٹے بیٹے کا خیبر کے دروازوں کے پاس قتل ہو گیا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' دو گواہ لاؤ کہ کس نے قتل کیا ہے، میں اسے اس کی رسی سمیت تمہارے حوالے کروں گا''، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمیں گواہ کہاں سے ملیں گے؟ وہ تو انھیں کے دروازے پر قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: '' تو پھر تمہیں پچاس قس میں کھانی ہوں گی''، وہ بولے: اللہ کے رسول! جسے میں نہیں جانتا اس پر قسم کیوں کر کھاؤں؟ تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تو تم ان سے پچاس قس میں لے لو''، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم ان سے قس میں کیسے لے سکتے ہیں وہ تو یہودی ہیں، تو آپ نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت دے کر ان کی مدد کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-بَاب الْقَوَدِ
۵- باب: قصاص کا بیان​


4725- أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلا بِإِحْدَى ثَلاثٍ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ دِينَهُ الْمُفَارِقُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۰۲۱ (صحیح)
۴۷۲۵- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کسی مسلمان کا خون بہانا جائز تین صورتوں کے علاوہ جائز نہیں ہے: جان کے بدلے جان ۱؎، جس کا نکاح ہو چکا ہو وہ زنا کرے، جو دین چھوڑ دے اور اس سے پھر جائے''۔
وضاحت ۱؎: اسی لفظ سے '' قصاص '' کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جان ناحق لی گئی ہو۔


4726- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، وَاللَّفْظُ لأَحْمَدَ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَرُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ؛ فَقَالَ: الْقَاتِلُ يَا رسول اللَّهِ! لا وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا، ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ؛ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ۔
* تخريج: د/الدیات ۳ (۴۴۹۸)، ت/الدیات ۱۳ (۱۴۰۷)، ق/الدیات ۳۴ (۲۶۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۷) (صحیح الإسناد)
۴۷۲۶- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتل کر دیا گیا، قاتل کو نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اسے مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا ۱؎، قاتل نے کہا: اللہ کے رسول! میرا ارادہ قتل کا نہ تھا، آپ نے مقتول کے ولی سے فرمایا: '' سنو! اگر وہ سچ کہہ رہا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا تو تم بھی جہنم میں جاؤ گے''، تو اس نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ شخص رسی سے بندھا ہوا تھا، وہ اپنی رسی گھسیٹتا ہوا نکلا تو اس کا نام ذوالنسعۃ (رسی والا) پڑ گیا۔
وضاحت ۱؎: اس لیے حوالہ کر دیا کہ وہ اس کو قصاص میں قتل کر دیں، اسی سے قصاص کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔


4727- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، عَنْ عَوْفٍ الأَعْرَابِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جِيئَ بِالْقَاتِلِ الَّذِي قَتَلَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَ بِهِ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: أَتَقْتُلُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَلَمَّا ذَهَبَ دَعَاهُ، قَالَ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ، قَالَ: لا، قَالَ: أَتَقْتُلُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَلَمَّا ذَهَبَ، قَالَ: أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ؛ فَإِنَّهُ يَبُوئُ بِإِثْمِكَ، وَإِثْمِ صَاحِبِكَ فَعَفَا عَنْهُ؛ فَأَرْسَلَهُ قَالَ: فَرَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ۔
* تخريج: م/القسامۃ ۱۰ (الحدود۱۰) (۱۶۸۰)، د/الدیات ۳ (۴۴۹۹، ۴۵۰۰، ۴۵۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۹)، دي/الدیات ۸ (۲۴۰۴) وأعادہ المؤلف في القضاء ۲۶ (برقم۵۴۱۷)، وانظرالأرقام التالیۃ: ۴۷۲۸-۴۷۳۳ (صحیح)
۴۷۲۷- وائل حضرمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا تم معاف کرو گے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' کیا قتل کرو گے؟ '' اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ''جاؤ(قتل کرو)، جب وہ (قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: ''کیا تم معاف کرو گے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' کیا دیت لوگے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' تو کیا قتل کرو گے؟ ''اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: '' جاؤ(قتل کرو) '' جب وہ (قتل کرنے) چلا، تو آپ نے فرمایا: '' اگر تم اسے معاف کر دو تو تمہارا گناہ اور تمہارے (مقتول) آدمی کا گناہ اسی پر ہوگا'' ۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا اور اسے چھوڑ دیا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹتا جا رہا تھا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ بلا کچھ لیے دیے ولی کے معاف کر دینے کی صورت میں ولی اور مقتول دونوں کے گناہ کا حامل قاتل ہوگا، لیکن اس میں اشکال ہے کہ ولی کے گناہ کا حامل کیونکر ہوگا، اس لیے حدیث کے اس ظاہری مفہوم کی توجیہ کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ولی کے معاف کر دینے کے سبب رب العالمین ولی اور مقتول دونوں کو مغفرت سے نوازے گا اور قاتل اس حال میں لوٹے گا کہ مغفرت کے سبب ان دونوں کے گناہ زائل ہو چکے ہوں گے۔
وضاحت ۲؎: یہ وہی آدمی ہے جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں گزرا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6-ذِكْرُ اخْتِلافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ فِيهِ
۶- باب: اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر​


4728- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ وَائِلٍ، قَالَ: شَهِدْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جِيئَ بِالْقَاتِلِ يَقُودُهُ وَلِيُّ الْمَقْتُولِ فِي نِسْعَةٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ، قَالَ: لا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ فَلَمَّا ذَهَبَ بِهِ فَوَلَّى مِنْ عِنْدِهِ دَعَاهُ؛ فَقَالَ لَهُ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لا، قَالَ: أَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟ قَالَ: لا، قَالَ: فَتَقْتُلُهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوئُ بِإِثْمِهِ، وَإِثْمِ صَاحِبِكَ فَعَفَا عَنْهُ، وَتَرَكَهُ فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۷۲۸- وائل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: '' کیا تم معاف کرو گے؟ '' وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' کیا دیت لوگے؟ '' وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' تو کیا تم قتل کرو گے؟ '' اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ''لے جاؤ اسے''، چنانچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھیرا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: '' کیا تم معاف کرو گے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' کیا دیت لوگے؟ '' اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: '' تو قتل ہی کرو گے؟ '' اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: '' لے جاؤ اسے''، اسی وقت رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: '' سنو! اگر اسے معاف کرتے ہو تو وہ اپنا گناہ اور تمہارے(مقتول) آدمی کا گناہ سمیٹ لے گا'' ۱؎، چنانچہ اس نے اسے معاف کر دیا، اور اسے چھوڑ دیا، پھر میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا۔
وضاحت ۱؎: مطلب یہ ہے کہ قتل سے پہلے جو گناہ اس کے سر تھا اور قتل کے بعد جس گناہ کا وہ مرتکب ہوا ہے ان دونوں کو وہ سمیٹ لے گا۔


4729- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ الْحَبَطِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ. قَالَ يَحْيَى: وَهُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
۴۷۲۹- اس سند سے بھی وائل رضی الله عنہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں۔
٭یحییٰ ۱؎ کہتے ہیں: یہ اس سے بہتر ہے۔
وضاحت ۱؎: یعنی القطان (جو راوی بھی ہیں، اور امام جرح وتعدیل بھی، وہ) فرماتے ہیں: اس حدیث کی یہ سند پچھلی سند سے بہتر ہے۔


4730- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ - وَهُوَ الْحَوْضِيُّ - قَالَ: حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَائَ رَجُلٌ فِي عُنُقِهِ نِسْعَةٌ؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ؛ فَقَتَلَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْفُ عَنْهُ فَأَبَى، وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ فَضَرَبَ بِهِ رَأْسَ صَاحِبِهِ؛ فَقَتَلَهُ فَقَالَ: اعْفُ عَنْهُ فَأَبَى، ثُمَّ قَامَ؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! إِنَّ هَذَا وَأَخِي كَانَا فِي جُبٍّ يَحْفِرَانِهَا فَرَفَعَ الْمِنْقَارَ أُرَاهُ قَالَ: فَضَرَبَ رَأْسَ صَاحِبِهِ فَقَتَلَهُ؛ فَقَالَ: اعْفُ عَنْهُ فَأَبَى، قَالَ: اذْهَبْ إِنْ قَتَلْتَهُ كُنْتَ مِثْلَهُ فَخَرَجَ بِهِ حَتَّى جَاوَزَ فَنَادَيْنَاهُ أَمَاتَسْمَعُ مَا يَقُولُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَرَجَعَ فَقَالَ: إِنْ قَتَلْتُهُ كُنْتُ مِثْلَهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَعْفُ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۸۲۷ (صحیح)
۴۷۳۰- وائل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس کی گردن میں رسی پڑی تھی، اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اتنے میں اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی یعنی میرے بھائی کے سر پر ماری، جس سے وہ مرگیا۔ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اسے معاف کر دو''، اس نے انکار کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، پھر اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مرگیا، آپ نے فرمایا: '' اسے معاف کر دو''، تو اس نے انکار کیا، پھر وہ کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مرگیا، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اسے معاف کر دو''، اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا: ''جاؤ، اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہوگے'' ۱؎، وہ اسے لے کر نکل گیا، جب دور نکل گیا تو ہم نے اسے پکارا، کیا تم نہیں سن رہے ہو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا: '' اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہوگے''، اس نے کہا: ہاں، میں اسے معاف کرتا ہوں، چنانچہ وہ نکلا، وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا یہاں تک کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
وضاحت ۱؎: یعنی: کسی جان کو مارنے میں تم اور وہ ایک ہی طرح ہوگے، تمہاری اس پر کوئی فضیلت باقی نہیں رہ جائے گی، اور اگر معاف کر دو گے تو فضل واحسان میں تم کو اس پر فضیلت حاصل ہو جائے گی، خاص طور پر جب اس نے یہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا ہے۔


4731- أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ سِمَاكٍ ذَكَرَ أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عِنْدَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ بِنِسْعَةٍ؛ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! قَتَلَ هَذَا أَخِي؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! لَوْ لَمْ يَعْتَرِفْ أَقَمْتُ عَلَيْهِ الْبَيِّنَةَ، قَالَ: نَعَمْ، قَتَلْتُهُ، قَالَ: كَيْفَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَهُوَ نَحْتَطِبُ مِنْ شَجَرَةٍ؛ فَسَبَّنِي فَأَغْضَبَنِي فَضَرَبْتُ بِالْفَأْسِ عَلَى قَرْنِهِ؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ تُؤَدِّيهِ عَنْ نَفْسِكَ؟ قَالَ: يَا رسول اللَّهِ! مَالِي إِلا فَأْسِي وَكِسَائِي؛ فَقَالَ لَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتُرَى قَوْمَكَ يَشْتَرُونَكَ؟ قَالَ: أَنَا أَهْوَنُ عَلَى قَوْمِي مِنْ ذَاكَ؛ فَرَمَى بِالنِّسْعَةِ إِلَى الرَّجُلِ فَقَالَ: دُونَكَ صَاحِبَكَ؛ فَلَمَّا وَلَّى قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ قَتَلَهُ؛ فَهُوَ مِثْلُهُ فَأَدْرَكُوا الرَّجُلَ؛ فَقَالُوا: وَيْلَكَ إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ فَرَجَعَ إِلَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رسول اللَّهِ! حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ: إِنْ قَتَلَهُ فَهُوَ مِثْلُهُ، وَهَلْ أَخَذْتُهُ إِلا بِأَمْرِكَ؛ فَقَالَ: مَا تُرِيدُ أَنْ يَبُوئَ بِإِثْمِكَ، وَإِثْمِ صَاحِبِكَ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَإِنْ ذَاكَ، قَالَ: ذَلِكَ كَذَلِكَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
۴۷۳۱- وائل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص دوسرے کو ایک رسی میں گھسیٹتا ہوا آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے، آپ نے فرمایا: '' کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟ ''، اس نے (لانے والے نے) کہا: اللہ کے رسول! اگر یہ اقبال جرم نہیں کرتا تو میں گواہ لاتا ہوں، اس (قاتل) نے کہا: ہاں، اسے میں نے قتل کیا ہے، آپ نے فرمایا: '' اسے تم نے کیسے قتل کیا؟ '' اس نے کہا: میں اور وہ ایک درخت سے ایندھن جمع کر رہے تھے، اتنے میں اس نے مجھے گالی دی، مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماردی، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے جس سے اپنی جان کے بدلے تم اس کی دیت دے سکو''، اس نے کہا: میرے پاس سوائے اس کلہاڑی اور کمبل کے کچھ نہیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: '' کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارا قبیلہ تمہیں خرید لے گا (یعنی تمہاری دیت دے دے گا) وہ بولا: میری اہمیت میرے قبیلہ میں اس (مال) سے بھی کمتر ہے، پھر آپ نے رسی اس شخص(ولی) کے سامنے پھینک دی اور فرمایا: ''تمہارا آدمی تمہارے سامنے ہے''، جب وہ پلٹ کر چلا تو رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اسی جیسا ہوگا''، لوگوں نے اس شخص کو پکڑ کر کہا: تمہارا برا ہو، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اسی جیسا ہوگا''، یہ سن کر وہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ''اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اسی جیسا ہوگا''، میں نے تو آپ ہی کے حکم سے اسے پکڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: '' کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ تمہارا گناہ اور تمہارے آدمی کا گناہ سمیٹ لے؟ ''، اس نے کہا: کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: '' تو یہی ہوگا''، اس نے کہا: تو ایسا ہی سہی(میں اسے چھوڑ دیتا ہوں)۔


4732- أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ أَنَّ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ: إِنِّي لَقَاعِدٌ مَعَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ يَقُودُ آخَرَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
۴۷۳۲- وائل رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص دوسرے کو گھسیٹتا ہوا آیا۔ پھر(آگے حدیث) اسی طرح ہے۔


4733- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ قَتَلَ رَجُلا فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ يَقْتُلُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجُلَسَائِهِ: الْقَاتِلُ، وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ قَالَ: فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ؛ فَأَخْبَرَهُ فَلَمَّا أَخْبَرَهُ تَرَكَهُ، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ حِينَ تَرَكَهُ يَذْهَبُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَبِيبٍ؛ فَقَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ، قَالَ: وَذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ الرَّجُلَ بِالْعَفْوِ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۷۲۷ (صحیح)
۴۷۳۳- وائل رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا، اس نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، چنانچہ آپ نے اسے قتل کرنے کے لئے مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا، پھر آپ نے اپنے ساتھ بیٹھنے والوں سے فرمایا: ''قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے'' ۱؎، ایک شخص اس وارث کے پیچھے گیا اور اسے خبر دی، جب اسے یہ معلوم ہوا تو اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، جب اس نے قاتل کو چھوڑ دیا تاکہ وہ چلا جائے تو میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا ہے۔ میں نے اس کا ذکر حبیب سے کیا تو انھوں نے کہا: مجھ سے سعید بن اشوع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: انھوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے اس شخص کو معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔
وضاحت ۱؎: یہ بات آپ نے خاص ان دونوں کے بارے میں نہیں کہی تھی، کیونکہ اس میں نہ تو مذکورہ مقتول کا کوئی قصور تھا، نہ ہی اس کے ولی کا جو اس کو بدلے میں قتل کرتا بلکہ آپ نے ولی کو معافی پر ابھارنے کے لیے یہ جملہ فرمایا تھا۔


4734- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلا أَتَى بِقَاتِلِ وَلِيِّهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْفُ عَنْهُ فَأَبَى؛ فَقَالَ: خُذْ الدِّيَةَ فَأَبَى، قَالَ: اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ؛ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ فَذَهَبَ فَلُحِقَ الرَّجُلُ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اقْتُلْهُ فَإِنَّكَ مِثْلُهُ فَخَلَّى سَبِيلَهُ؛ فَمَرَّ بِي الرَّجُلُ وَهُوَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ۔
* تخريج: قش/الدیات ۳۴ (۲۶۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۱) (صحیح الإسناد)
۴۷۳۴- انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنے آدمی کے قاتل کو لے کر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اس سے فرمایا: '' اسے معاف کر دو''، اس نے انکار کیا، تو آپ نے فرمایا: ''دیت لے لو''، اس نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا: ''جاؤ، اسے قتل کر دو، تم بھی اسی جیسے ہو جاؤ گے(گناہ میں) ''، جب وہ قتل کرنے چلا تو کوئی اس شخص سے ملا اور اس سے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ''اسے قتل کر دو، تم بھی اسی طرح ہو جاؤ گے''، چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا، تو وہ شخص (یعنی قاتل جسے معاف کیا گیا) میرے پاس سے اپنی رسی گھسیٹتے ہوئے گزرا۔


4735- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحاَقَ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا جَائَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَتَلَ أَخِي، قَالَ: اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ كَمَا قَتَلَ أَخَاكَ؛ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: اتَّقِ اللَّهَ وَاعْفُ عَنِّي فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لأَجْرِكَ، وَخَيْرٌ لَكَ، وَلأَخِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَخَلَّى عَنْهُ، قَالَ: فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ لَهُ قَالَ فَأَعْنَفَهُ: أَمَا إِنَّهُ كَانَ خَيْرًا مِمَّا هُوَ صَانِعٌ بِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ: يَا رَبِّ سَلْ هَذَا فِيمَ قَتَلَنِي۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۱) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی '' بشیر '' لین الحدیث ہیں)
۴۷۳۵- بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ اس شخص نے میرے بھائی کو مار ڈالا، آپ نے فرمایا: ''جاؤ اسے بھی مار ڈالو جیسا کہ اس نے تمہارے بھائی کو مارا ہے''، اس شخص نے اس سے کہا: اللہ سے ڈرو اور مجھے معاف کر دو، اس میں تمہیں زیادہ ثواب ملے گا اور یہ قیامت کے دن تمہارے لئے اور تمہارے بھائی کے لئے بہتر ہوگا، یہ سن کر اس نے اسے چھوڑ دیا، نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے جو کہا تھا، آپ سے بیان کیا، آپ نے اس سے زور سے فرمایا: '' سنو! یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے جو وہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ معاملہ کرتا، وہ کہے گا (قیامت کے دن) اے میرے رب! اس سے پوچھ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہ واقعہ مذکورہ واقعہ کے علاوہ ہے۔
 
Top