• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنگساری : جاوید چوہدری کے سوالات اور مولانا الیاس کے جوابات

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
یوسف صاحب میں آپ کی بات سے 100 فیصد متفق ہوتے ہوئے صرف اس بات کا اضافہ کروں گا کہ یہ سوالات اسی طرز پر مختلف منکرین حدیث اٹھاتے رہتے ہیں جن کے جواب میں اللہ کے فضل سے علمائے اہلِ حدیث نے کتابوں کی کتابیں لکھ رکھی ہیں، لیکن مسئلہ یہی ہے کہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچائے کون؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
یوسف صاحب میں آپ کی بات سے 100 فیصد متفق ہوتے ہوئے صرف اس بات کا اضافہ کروں گا کہ یہ سوالات اسی طرز پر مختلف منکرین حدیث اٹھاتے رہتے ہیں جن کے جواب میں
  1. اللہ کے فضل سے علمائے اہلِ حدیث نے کتابوں کی کتابیں لکھ رکھی ہیں،
  2. لیکن مسئلہ یہی ہے کہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچائے کون؟

ایک طرف جہاں ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ علمائے کرام نے قرآن و حدیث کے علوم پر مستند کتابیں لکھ رکھی ہیں جن میں تمام نعصری مسائل کے حل موجود ہیں، دوسری طرف وہیں ہماری یہ بدقسمتی بھی ہے کہ ہم نے ان ذخیرہ کتب کو عوام الناس تک پہنچانے میں بوجوہ قاصر رہے ہیں۔ جملہ دینی کتابیں بھی تجارتی بنیادوں پر شائع ہوتی ہیں، جنہیں عوام الناس خریدنے سے قاصر رہتے ہیں۔ عوام تک رابطہ کا سستا ترین میڈیم، ابلاغ عامہ کے ذرائع ہین، جن پر کفار، ان کے ایجنٹوں اور بے دین مسلمانوں کا ”قبضہ“ ہے۔
جاوید چوہدری جیسے ”دین پسند“ مگر دین سے ”ناواقف“ کامیاب میڈیا پرسنز کو ”ہم“ بالعموم لفٹ نہیں کراتے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مستقل لکھنے اور بولنے والے تقریباً ایک ہزار افراد ایسے ہیں جو ہمارے 20 کروڑ عوام کے ذہن بنانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اگر ہم ایساکوئی پلیٹ فارم بنا لیں، جس کی ایک (الف) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیش ہونے والے "غیر اسلامی افکار" کو مسلسل مانیٹر کرتا رہے۔ (ب) دوسری ٹیم اس قسم کے چھپنے اور نشر ہونے والے مواد کا فوری جواب تیار کرے (ج) تیسری ٹیم اس جواب کو ایڈٹ کرکے متعلقہ میڈیا پرسن، ادارے کے علاوہ متذکرہ بالا ایک ہزار افراد تک فوری ترسیل کو ممکن بنادے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عوام الناس تک مسلسل پہنچنے والے منفی اور غیر اسلامی افکار کا توڑ پیش نہ کرسکیں۔
مگر میڈیا کی بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا کون؟
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
حضرت عیسیٰ ؑ یروشلم کے گاؤں بیت اللحم میں پیدا ہوئے' یہ یہودیوں کا گاؤں تھا' حضرت عیسیٰ ؑ پیدائشی نبی تھے' لوگ ان کا بے انتہا احترام کرتے تھے' حضرت عیسیٰ ؑ نے جوانی میں ایک عجیب منظر دیکھا' گاؤں کے مردوں نے ہاتھوں میں پتھر اٹھا رکھے تھے' یہ لوگ دائرے میں کھڑے تھے' دائرے کے عین درمیان ایک جوان عورت کھڑی تھی' لوگ ہاتھوں میں پتھر تولتے تھے' غصے سے عورت کی طرف دیکھتے تھے اورپھر پتھر اچھالنے کی پوزیشن بناتے تھے اور عورت بری طرح چلاتی تھی' حضرت عیسیٰ ؑ نے ماجرا پوچھا' بتایا گیا' یہ عورت زانی ہے اور اسے سنگسار کیا جا رہا ہے' حضرت عیسیٰ ؑ یہ سن کر پریشان ہو گئے' یہ آگے بڑھے' عورت کے قریب پہنچے اور ہجوم سے مخاطب ہوئے '' میں سزا کی تائید کرتا ہوں' اور یہ سزا بھی مذہب کے عین مطابق ہے لیکن میری بس ایک درخواست ہے' اس عورت کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے آج تک یہ گناہ نہیں کیا''
بنی اسرائیلی حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزوں سے واقف تھے' وہ جانتے تھے' آپؑ نیک روح ہیں' آپؑ نے پیدائش کے فوراً بعد بولنا شروع کر دیا تھا' آپؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے ہیں' ہاتھ لگا کر کوڑھیوں کا کوڑھ ختم کر دیتے ہیں اور آپؑ کی دعاؤں میں بہت اثر ہے' وہ جانتے تھے' ہم نے اگر غلط بیانی کی تو اس نیک انسان کی بددعا ہمیں برباد کر دے گی چنانچہ تمام لوگ پتھر نیچے پھینک کر گھروں کو واپس چلے گئے' آخر میں وہاں صرف وہ عورت اور حضرت عیسیٰ ؑ رہ گئے'عیسائی مورخین میں اس عورت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے' بعض مورخین کا خیال ہے'اس عورت کا نام میری میکڈلین تھا' یہ عورت حضرت عیسیٰ ؑ کے گھر آئی اور اس نے باقی زندگی ان کی خدمت میں گزار دی' عیسائیوں میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے' یہ خاتون بعد ازاں حضرت عیسیٰ ؑ کے عقد میں آئیں' اس میں سے اولاد نرینہ پیدا ہوئی اور یہ اولاد ''ڈاونچی کوڈ'' کی شکل میں اس وقت بھی دنیا میں موجود ہے' یہ خاتون حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں بنائی جانے والی زیادہ تر پینٹنگز میں بھی نظر آتی ہے' یہ آپ کو لیونارڈو ڈاونچی کی ''لاسٹ سپر'' میں بھی دکھائی دے گی اور یہ آپ کو حضرت مریم ؑ کے ساتھ ان تصویروں میں بھی نظر آئے گی جو اس وقت کو بیان کرتی ہیں.
جب حضرت مریم ؑ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی نعش صلیب سے اتاری اور یہ اپنے مظلوم بیٹے کا سرگود میں رکھ کر تصویرِ غم بن گئیں' یہ سب عیسائیوں کے عقائد اور روایات ہیں' ہم مسلمانوں کو ان روایات سے اختلاف ہے لیکن پتھر اور اس زانیہ کا واقعہ تمام لوگوں نے کم وبیش اس پیرائے میں پڑھا ہو گا' یہ واقعہ ثابت کرتا ہے' سنگساری کی سزا یہودی روایت تھی'(تورات میں رجم کا حکم بھی موجود ہے)' یہودی زنا کاروں کو پتھر مار کرہلاک کردیتے تھے' حضرت عیسیٰ ؑ کیونکہ نسلاً یہودی تھے چنانچہ آپ ؑ کے گاؤں میں بھی یہودی قوانین رائج تھے مگر حضرت عیسیٰ ؑ نے اس خاتون کو بچا کر یہ روایت توڑ دی' حضرت عیسیٰ ؑ 33 سال کی عمر میں آسمانوں پراٹھا لیے گئے' عیسائیت اس وقت بیت اللحم تک محدود تھی چنانچہ ہم پورے یقین سے نہیں کہہ سکتے حضرت عیسیٰ ؑ نے زنا کاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا تاہم یہودی حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کے بعد بھی زانیوں کو سنگ سار کرتے رہے۔
نبی رسالتؐ دنیا میں تشریف لائے'آپؐ نے 13 سال مکہ میں تبلیغ فرمائی اور اس کے بعد مدینہ ہجرت کر گئے' مدینہ میں اس وقت یہودیوں کا غلبہ تھا' نبی اکرمؐ کی تشریف آوری سے قبل وہاں کے زیادہ تر قوانین یہودی تھے' مسلمان شروع میں کمزور تھے' یہ تعداد میں بھی کم تھے' ان کے پاس وسائل بھی محدود تھے اور قرآن مجید بھی اس وقت تک مکمل نہیں ہوا تھا چنانچہ مسلمانوں نے مقامی قوانین کو محدود وقت کے لیے قبول کر لیا' یہ قوانین اس وقت تک جوں کے توں رہے' جب تک قرآن مجید کے احکامات نازل نہیں ہوئے' میں نے سیرت کا جتنا مطالعہ کیا (یہ مطالعہ محدود ہے) اس میں نبی اکرمؐ کی مدینہ میں موجودگی کے دوران رجم کے دو واقعات سامنے آتے ہیں' ایک مرد کو سزا دی گئی اور دوسری سزا ایک خاتون کو ملی' یہ دونوں سزائیں گرفتاری' تفتیش یا گواہوں کی بنیاد پر نہیں دی گئی تھیں' یہ ملزمان کی طرف سے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اعتراف گناہ اور ملزمان کی طرف سے سزا کی درخواست پر دی گئی تھیں.
مرد ماعز بن مالک کا تعلق قبیلہ اسلم سے تھا' یہ چار بار رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر اعتراف گناہ کیا' رسول اللہ ﷺ نے اسے ہر بار واپس بھجوا دیا' یہ نہ ٹلہ تو حد نافذ کر دی' میں نے ایک کتاب میں یہ بھی پڑھا' صحابہؓ جب اسے سزا دے کر واپس آئے تو ایک صحابیؓ نے بتایا' ہم نے جب اسے پتھر مارنے شروع کیے تو وہ بھاگنے لگا' میرے ہاتھ میں اونٹ کی ران کی ہڈی تھی' میں نے اس کے سر میں ماری تو وہ گر گیا' یہ سن کر نبی اکرمؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپؐ نے فرمایا '' وہ اگر بھاگ رہا تھا تو اسے بھاگنے دینا تھا'' خاتون کا واقعہ بھی حیران کن تھا' قبیلہ غامد کی خاتون آئی' آپؐ کے کان میں عرض کیا' میں گناہ گار ہوں' آپؐ نے بات سنی ان سنی کر دی' وہ دوسرے کان کی طرف آئی' وہاں بھی یہی عرض کیا' آپؐ نے بات پھر سنی ان سنی کر دی' اس کے بعد اس نے اتنی اونچی آواز میں اپنے گناہ کا اعتراف کیا کہ وہاں موجود لوگوں نے سن لیا' آپؐ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا' عورت نے بتایا ''میں حاملہ ہوں'' آپؐ نے فرمایا' تمہارے گناہ میں بچے کا کیا قصور ہے' اسے پیدا ہونے دو' پھر آنا' عورت چلی گئی' بچہ پیدا ہوا تو پھر واپس آ گئی' فرمایا' بچے کا ماں کے دودھ پر حق ہے' یہ حق اس سے نہیں چھینا جا سکتا' یہ دودھ کی عمر گزار لے تو پھر آنا' عورت تیسری بار آئی تو بچہ اڑھائی سال کا ہو چکا تھا اور اس کے ہاتھ میں روٹی تھی' یوں عورت کو گناہ کے سوا تین سال بعد سزا دی گئی اور اس دوران بھی اسے سزا سے بچنے کے چار مواقع دیے گئے' آپؐ نے دو مواقع اس وقت دیے جب اس نے آپؐ کے کانوں میں اعتراف کیا تھا اور دو مواقع حمل اور بچے کے دودھ کی بنیاد پر فراہم کیے گئے لیکن جب خاتون کا اصرار حد سے بڑھ گیا اور اس نے کسی موقع کا فائدہ نہ اٹھایا تو فیصلہ کر دیا گیا۔
میں ملک کے علماء کرام' مفتی صاحبان' سیرت نگاروں اور مورخین کے سامنے چند سوالات رکھنا چاہتا ہوں' میرا علم محدود اور اسلامی علم انتہائی محدود ہے ' میں علماء کرام سے سیکھنا چاہتا ہوں' مجھے امید ہے' علماء کرام میرے سوالات پر ناراض بھی نہیں ہوں گے اور میرے ایمان کو بھی شک کی نظروں سے نہیں دیکھیں گے ' میرا پہلا سوال یہ ہے' کیا قرآن مجید نے کسی جگہ زنا کاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟ اگر ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمارے ملک میں سنگساری کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے؟ نبی اکرمؐ سے منسوب سزا کے اوپر بیان کردہ دونوں واقعات کب وقوع پذیر ہوئے' یہ واقعات سورۃ النور کے نزول سے پہلے کے واقعات ہیں یا سورۃ النور کی ان آیات کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوئے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی' اگر یہ دونوں واقعات آیات کے نزول سے پہلے کے ہیں تو کیا پھر رجم درست ہے؟ کیا حیات طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟ اگر نہیں تو کیا ان دو واقعات کے بعد اسلامی ریاست میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا؟ اگر واقعہ پیش آیا تو پھر مجرم کو کیا سزا دی گئی.
ان دونوں واقعات میں اعتراف گناہ کے بعد سزا دی گئی' تفتیش یا گواہی کی بنیاد پر نہیں' کیا نبی اکرم ؐ کے دور میں شکایت' گواہی اور تفتیش کی بنیاد پر بھی کسی کو سنگسار کیا گیا؟ اگر نہیں تو کیا ہم تفتیش کے بعد کسی کو سنگسار کر سکتے ہیں؟ نبی اکرمؐ کے بعد چار خلفاء راشد کا دور آیا' کیا خلفاء راشدین نے کسی کو پتھر مروائے؟ حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی ریاست 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی' دنیا کی درجنوں ثقافتیں' زبانیں اور نسلیں اسلامی ریاست کے زیر سایہ آ گئیں' حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمرؓ ' حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ نے کیا سزاتجویز کی؟ کیا ان کے ادوار میں مجرموں کو پتھر مارے گئے' اگر ہاں تو کیا پتھر مارنے والوں کو خلیفہ کی رضا مندی حاصل تھی؟ زنا کے گناہ کا فیصلہ کون کر سکتا ہے؟ کیا اسلام میں زنا کے علاوہ کوئی ایسا دوسرا گناہ' کوئی ایسا دوسرا جرم موجود ہے جس کی حدود کے لیے چار گواہوں کی ضرورت ہو اور یہ چار گواہ بھی وہ لوگ ہوں جن کے تقویٰ' جن کی صداقت پر کوئی شخص اعتراض نہ کرسکے اور یہ چار صادق اور متقی لوگ اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیں' ہم نے یہ سارا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اگر کسی ایک گواہ کی صداقت یا تقویٰ چیلنج ہو جائے تو کیا اس کے باوجود حد نافذ ہو سکتی ہے؟ اور آخری سوال' مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے یا پھر یہ فریضہ عام لوگ بھی سرانجام دے سکتے ہیں؟ اگر یہ ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے تو پھر لورا لائی میں مرد اور خاتون کو سنگ سار کرنے والے لوگ کون ہیں۔
میں یہ معاملہ علماء کرام کے سامنے رکھتا ہوں' ہمیں آپ لوگوں کی رہنمائی چاہیے' آپ اس ای میل (jamshaid77@gmail.com ) پر اپنا جواب بھجوا دیجیے' اگر آپ کا جواب مدلل ہوا تو انشاء اللہ ضرور شایع ہوگا۔اللہ تعالیٰ آپ اور ہم پر رحم فرمائے۔ (تحریر جاوید چوہدری، روزنامہ ایکسپریس 21 فروری 2014ء)

پس تحریر: مجھے یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ علمائے کرام کے پاس اتنا "فالتو وقت" نہیں ہوتا کہ وہ جاوید چوہدری جیسے دین نا آشنا کالم نویسوں کے کالمز کے جوابات لکھتے پھریں۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت جاوید چوہدری پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم نویس ہے۔ لوگ اس کی تحریروں کو نہ صرف اہمیت دیتے ہیں، بلکہ درست بھی "مانتے" ہیں۔ لہٰذا دینی امور سے متعلق اس کے جتنے بھی کالم ہیں، وہ بالعموم عوام کو گمراہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اگر "میڈیا" میں موجود رہنے والے علمائے کرام بھی اس کی ایسی تحریروں کا جواب نہیں دیتے تو کل قیامت کے روز کیا جاوید چوہدری اور اس کی تحریروں سے گمراہ ہونے والے عوام الناس یہ نہیں کہیں گے کہ علمائے کرام نے ہماری رہنمائی نہیں کی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب (تحریر یوسف ثانی)
سنگساری کی شرعی حیثیت
محترم جناب جاوید چوہدری صاحب!!​
چند دنوں سے آپ کے کالمز میں اسلامی و شرعی احکامات سے متعلق باتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں ۔ بالخصوص اسلامی حدود اور اسلامی ریاست میں نافذ کی جانی والی سزاؤں کے بارے میں ایک حکم سنگساری سے متعلق آپ کا کالم پڑھنے کو ملا ۔ چونکہ راقم ملک سے باہر اپنے دعوتی سفر پر تھا اس لیے بروقت جواب دینے میں تاخیر ہو گئی ۔ آپ کی صدق نیت اور اسلام سے متعلقہ معلومات سے آگاہی کا جذبہ یقیناً آپ کی اسلام سے محبت کی دلیل ہے ۔یہ علماء کرام کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ دینی مسائل کا جواب خندہ پیشانی سے دیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے علماء کرام سے اس بارے میں سوال کیا اور امید ہے کہ آئندہ بھی مذہبی معاملات میں علماء کی راہنمائی لیتے رہیں گے ۔جہاں تک آپ کے کالم میں ذکر کردہ سوالات کا تعلق ہے تو ان کے جوابات حاضر ہیں حسب وعدہ انہیں اپنے قارئین کے لیے شائع فرمائیں۔
نوٹ : ہمارے ذکر کردہ دلائل آپ کے تسلیم شدہ دلائل کے علاوہ ہیں ۔
سوال :
آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نے کسی جگہ زنا کاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟ اگر ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟
جواب :
دلیل نمبر1: " وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً "جو بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر اپنوں میں سے چار مرد، پھر اگر وہ گواہی دیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھر میں ، یہاں تک کہ ان کو موت اٹھا لے، یا اللہ ان کےلیے کوئی راہ مقرر کر دے ۔ )سورۃ النساء:15(
اس آیت مبارکہ میں ان عورتوں کے بارے میں جو زنا کی مرتکب ہوں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے جرم پر چار مسلمان مردوں کی شہادت قائم کی جائے اور شہادت سے ان کا جرم ثابت ہوجائے تو ان کوگھروں میں بند رکھا جائے یہاں تک کہ ان کے بار میں اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نازل ہو جائے ۔ اس کی تفسیر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الہٰی کے ذریعے یہ فرمائی ہے کہ زنا کا مرتکب شادی شدہ (محصن)ہو تو اس کو رجم (سنگسار) کیا جائے اور غیر شادی شدہ (غیر محصن) ہو تو اس کو سو 100 کوڑے لگائے جائیں۔
کان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلًا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد مائۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد مائۃ ثم نفی سنۃ. ) صحیح مسلم رقم 3200)
آپ علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے چینی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ علیہ السلام پر یہی کیفیت طاری ہو گئی اور جب وحی کی یہ کیفیت ختم ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے لے لو ، مجھ سے لےلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ مقرر کر دی ۔ شادی شدہ مرد وعورت اس کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا سو100 کوڑے لگانا اور پھر" سنگسار" کرنا ہے۔ کنوارے مرد وعورت اس کے مرتکب ہوں تو 100 کوڑے پھر ایک سال کی جلا وطنی ۔
فائدہ : غیر شادی شدہ کے لیے ایک سال کی جلا وطنی انتظامی فیصلہ ہے ۔
دلیل نمبر 2: اسی طرح سیدنا عبداللہبن عباس رضی اللہ عنہماسے بھی اس آیت کی یہی تشریح وتفسیر صحیح بخاری جلد 2ص657 پر موجود ہے۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہما... لھن سبیلا یعنی الرجم للثیب والجلد للبکر.یہ بالکل ایسے ہے جیسے نماز او رزکوٰۃ کا حکم قرآن مجید میں ہے اور نماز کیسے پڑھنی ہے؟ اور زکوٰۃ کیسے ادا کرنی ہے؟ اس کا طریقہ آپ علیہ السلام نے بتایا ہے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نمازاور زکوٰۃ کا قرآن کریم نے حکم نہیں دیاوہ خارج از ملت ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں زانی محصن[ شادی شدہ ] کی سزا رجم[ سنگسار ] ہے ۔ یہ بھی حق تعالیٰ شانہ نے " أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً " کے مجمل الفاظ میں ذکر فرمائی ہے اور پھر اس کی تشریح خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ علیہ السلام نے بذریعہ وحی فرمائی ہے۔
دلیل نمبر3: سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 41 تا 50 یہود کے " قصہ رجم" کے متعلق نازل ہوئیں۔جن کی وضاحت صحیح مسلم جلد 2ص70 پر موجود ہے ۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اول من احییٰ امرک اذا ماتوہ فامر بہ فرجم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا جسے لوگوں نے بالکل چھوڑ دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر [ اس شخص کو ] رجم [ سنگسار ] کر دیا گیا ۔
دلیل نمبر 4: امام بغوی رحمہ اللہ نے اس قصہ کا خلاصہ یہ نقل کیا ہے کہ خیبر کے یہودیوں میں ایک شادی شدہ جوڑے نے زنا کا ارِتکاب کیا تھا۔ جس کے لیے ان کی شریعت[ تورات] میں رجم [ سنگساری ] کی سزا مقرر تھی مگر یہودیوں نے خواہش نفس کی پیروی میں اس پر عمل درآمد معطل کر رکھا تھا۔ جب ان کے یہاں یہ واقعہ پیش آیا تو اس خیال سے کہ " شریعت محمدی" ان کی شریعت تورات سے نرم ہے ۔ انہوں نے یہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا ۔ چنانچہ ایک وفد ان مجرموں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ جسے یہود نے بطور خاص یہ ہدایت کی تھی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مطلب کے مطابق فیصلہ کریں تو قبول کر لینا ورنہ نہیں۔ وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ان کی کیا سزا ہے ؟[جواب دینے سے پہلے ] آپ علیہ السلام نے فرمایا کیا تم میرا فیصلہ مانو گے؟ انہوں نے اقرار کیا۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ ان کی سزا رجم [سنگساری ] ہے ۔ ان لوگوں نے جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلاگئے اور تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ ان سے یہ فرمائیں کہ وہ آپ کے فیصلے کو ماننے یانہ ماننے کے بارے میں "ابن صوریہ"کو حَکم[ ثالث] بنا لیں اور ابن صوریہ کے حالات اور صفات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے ۔ آپ علیہ السلام نے یہودی وفد سے فرمایا : کیا تم اس نوجوان کو جانتے ہو؟ جو سفید رنگ کا ہے مگر ایک آنکھ سے معذور ہے؟ انہو ں نے اقرار کیا کہ ہم پہنچاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم اسے کیسا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا علمائے یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا عالم نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اسے بلاؤ ، چنانچہ اسے بلایا گیا ۔ تو آپ علیہ السلام نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ تورات میں اس جرم کی سزا کیا ہے ؟ وہ بولا قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپ نے مجھ کو دی ہے اگر آپ مجھے قسم نہ دیتے تو مجھے یہ ِخطرہ نہ ہوتا کہ اگر غلط بیانی کروں گا تو تورات مجھے جلا ڈالی گی میں کبھی ظاہر نہ کرتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی طرح تورات میں بھی زانی کی سزا یہی ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کر دیا جائے۔ مگر جب ہمارے اشراف میں زنا کی کثرت ہوئی تو کچھ عرصہ تک تو یہ رہا کہ اشراف کو چھوڑ دیتے اور پسماندہ طبقے پر حد جاری کرتے لیکن ہم نے یہ طے کیا کہ رجم کی بجائے ایک ایسی سزا مقرر کر دی جائے جو شریف و وضیع سب پر جاری ہوسکے وہ تھی منہ کالاکر دینا جوتے لگانا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا "اللٰھم انی اول من احیا امرک اذااماتوہ " یااللہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انہوں نے اس کو مٹا ڈالا تھا۔ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان دونوں کو رجم [ سنگسار ]کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ
$11 اس حکم کو "ما انزل اللہ "[ اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ] کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر عمل کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ۔ اس معاملے پر کسی قسم کی رعایت روارکھنے سے"لا تتبع اھواءھم"[ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ] کہہ کر شدت سے منع فرمایا ۔
$12 جو لوگ اس "ماانزل اللہ"سے پہلو تہی کرتے ہیں ان کو دوڑ کر کفر میں گرنے والے اور زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود دل کا کافر فرمایا۔" الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنْ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ " ۔
$13 جو اس حکم خداوندی کو تسلیم کر کے اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر آمادہ نہ ہوں ان کو صاف صاف الفاظ میں کافر ، ظالم اور فاسق فرمایا ہے۔سورۃ مائدہ: آیت نمبر44تا 46
جب رجم کے حکم کی قرآن کریم اتنی شدومد کے ساتھ تاکید کرتا ہے اور اس سے پہلو تہی کرنے اور تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلام کے زبانی دعویدار مگر دل کے کافر ،ظالم اور فاسق کہتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت یانبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی سنت ہے جس نے اس شدید اور مؤکد حکم کو منسوخ کر دیا ہو ؟
دلیل نمبر5: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ]اختلاف الفاظ کے ساتھ ] موجودہے : حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دو شخص آئے ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے دوسرے نے کہا ہاں! یارسول اللہ واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا واقعہ بیان کروں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں بیان کرو اس نے کہا میرا یک بیٹا اس شخص کے ہاں نوکر تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم [ سنگساری ]کی سزا جاری ہوگی ، میں نے اس کے فدیہ میں اس شخص کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال جلاوطنی کی سزا ہے اور رجم[ سنگساری ] کی سزا اس کی بیوی پر ہے:فقال النبی صلى الله عليه وسلم والذى نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله المائۃ الشاۃ والخادم رد علیک وعلی ابنک جلد مائة وتغريب عام واغد یا انیس فاغد ا لى امرأة هذا فان اعترفت فارجمها۔
)صحیح بخاری ج2 ص 1008(
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سنو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ تیری بکریاں اور لونڈی تجھے واپس کر دی جائیں گی اور تیرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا جاری ہوگی ا ور ہاں اے انیس! تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اس کو "رجم" کرو۔
اس حدیث مبارک میں آپ علیہ السلام نے رجم[سنگساری] کی سزاکو قسم اٹھا کر کتاب اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن مجید میں سزائے رجم[ سنگساری ] مذکور نہیں ہے تو آپ علیہ السلام اس کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کیوں کرتے؟
سوال نمبر 2:
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ "نبی اکرمؐ سے منسوب سزا کے [اوپر بیان کردہ دونوں] واقعات کب وقوع پذیر ہوئے'یہ واقعات سورۃ النور کے نزول سے پہلے کے واقعات ہیں یا سورۃ النور کی ان آیات کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوئے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی'اگر یہ دونوں واقعات آیات کے نزول سے پہلے کے ہیں تو کیا پھر رجم درست ہے؟"
جواب :
دلیل نمبر 1: رجم [ سنگساری ]کے موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جبکہ وہ اسلام ہی سات ہجری میں لائے ہیں۔اسلم[ ابو ھریرۃ ] عام خیبر ۔ )عمدۃ القاری ج1 ص 331(
دلیل نمبر 2: علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے مزید کہا ہے "وابن عباس انما جاء مع امہ الی المدینۃ سنۃتسع" اس موقع پر ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ سن 9ہجری میں مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔
دلیل نمبر 3: رجم[سنگساری ] کا ایک واقعہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور وہ سن9ہجری میں مسلمان ہوئے۔
دلیل نمبر 4: امت کے دو جلیل القدر محدث؛ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی حنفی رحمہما اللہ دونوں فرماتے ہیں کہ اس بات پر دلیل موجود ہے کہ رجم کا حکم سورۃ النور کے نزول کے بعد ہوا "وقد قام الدلیل علی ان الرجم وقع بعد سورۃ النور"کیوں کہ سورۃ النور کا نزول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے قصہ میں ہوا تھا اور یہ واقعہ سن4،5یا 6 ہجری میں ہوا تھا ۔
)فتح الباری ج12ص120، عمدۃ القاری تحت باب رجم المحصن(
اس لیے واقعہ سن 9یا 10ھ کا ہی ہو سکتا ہے یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ سورۃ النور کے نزول کے بعد بھی یہ حکم برقرار ہے۔
سوال نمبر 3: آپ کا تیسرا سوال یہ تھا کہ" کیا حیات طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟"
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں آپ کے ذکر کردہ دو واقعات کے علاوہ بھی کئی واقعات ایسے ہیں جو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں رونما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سزا رجم [ سنگساری ] نافذ فرمائی ۔ چنانچہ
دلیل نمبر 1: حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما کی حدیث تفصیلاً پہلے گزر چکی کہ آپ علیہ السلا م نے زنا کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا تھا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں تمہارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق کروں گا ۔ چنانچہ خاتون نے جب اپنے گناہ کا اقرار کیا تو " فامر بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرجمت"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رجم [سنگساری ] کا حکم دے دیا،لہٰذا اس کو سنگسار کر دیا گیا ۔
نوٹ : یہ روایت متعدد کتب حدیث میں موجود ہے مثلاً:
1: بخاری جلد2ص1008
2: مسلم جلد2ص69
3: ابوداؤد ص606
4: نسائی ج2ص308
5: ترمذی ص172
6: ابن ماجہ ص186
7: مؤطا امام مالک ص349۔



السلام علیکم۔
یہودیوں اور کرسچن کی کتاب بائبل (جو کہ اللہ کی کتاب نہیں ھے) کے مطابق زنا کی سزا سنگسار ھے۔
یہ یہودیوں اور کرسچن کا ایمان ھے، جس پر یہ لوگ عمل نہیں کرتے۔
یہودیوں اور کرسچن نے اپنی کتاب بائبل، مسلمانوں میں رائج کرنے کے لیئے بڑی محنت اور کثیر دولت خرچ کی ھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔
نام نہاد مولوی جب، قرآن سے یہ سزا ثابت کرنے میں منہہ کی کھاتے ھیں تو بھاگ کر تاریخ اور من گھڑت روایات، جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرتے ھیں۔
اب جو شخص، قرآن پر بائبل اور تاریخ اور من گھڑت روایات اور یہود اور کرسچن کے پروپیگنڈے کو ترجیح دے، تو اس کی گمراہی میں کیا شک کیا جاسکتا ھے۔ پھر ان باتوں کو کہا جاتا ھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ھیں۔ رسول پر جھوٹ افتراء کرنے والوں کے لیئے یہ آیات کافی ھے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ۚ أُولَـٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٨۔11﴾
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا سنو! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر ۔


فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿٧٩۔2﴾
پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مولانا صاحب نے تو یہ جواب براہ راست انہیں بھیجا ہوا ہے۔ اب اسے دوبارہ بھیجنے کا فائدہ؟
اگر آپ کے تعلقات ان اخبارات سے ہیں تو ضرور کوشش کیجئے۔ اللہ اجر دے گا
میرے تعلقات تو نہیں ہیں۔
میں نے کہا آپ لکھتے ہیں تو آپ یہ کام شاید نسبتا آسانی سے کر سکیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اگر ہم ایساکوئی پلیٹ فارم بنا لیں، جس کی ایک (الف) پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیش ہونے والے "غیر اسلامی افکار" کو مسلسل مانیٹر کرتا رہے۔ (ب) دوسری ٹیم اس قسم کے چھپنے اور نشر ہونے والے مواد کا فوری جواب تیار کرے (ج) تیسری ٹیم اس جواب کو ایڈٹ کرکے متعلقہ میڈیا پرسن، ادارے کے علاوہ متذکرہ بالا ایک ہزار افراد تک فوری ترسیل کو ممکن بنادے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم عوام الناس تک مسلسل پہنچنے والے منفی اور غیر اسلامی افکار کا توڑ پیش نہ کرسکیں۔
مگر میڈیا کی بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا کون؟
سوفیصدمتفق۔
میرےخیال میں یہ کام شروع ضرورہونا چاہیےچاہےمکمل نہیں تو ’’کچھ نہ کچھ ‘‘ کی بنیادپر ہی سہی ۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے۔دیگر اراکین سےبھی گزارش ہے اس سلسلے میں اپنےخیالات کا اظہارفرمائیں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
سو فیصد متفق۔۔۔
اور یہ واقعی ہی جلد از جلد شروع ہونا چاہیئے۔مگر لائحہ طے کیا جائے اور متعلقہ سیکشن بھی۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
ایک بات سمجھ نہین آتی یہ جامعہ الرشید میں بھی جاتا ہے اور اپنے کالم میں دیوبندیوں کے خلاف یہ کہتا ہے کہ انہون نے اندرا گاندھی کو سیدہ کہا اور کتاب لکھی وہ کالم میں نے خود پرھا تھا
 
Top