سنگساری کی شرعی حیثیت
محترم جناب جاوید چوہدری صاحب!!
چند دنوں سے آپ کے کالمز میں اسلامی و شرعی احکامات سے متعلق باتیں دیکھنے میں آ رہی ہیں ۔ بالخصوص اسلامی حدود اور اسلامی ریاست میں نافذ کی جانی والی سزاؤں کے بارے میں ایک حکم سنگساری سے متعلق آپ کا کالم پڑھنے کو ملا ۔ چونکہ راقم ملک سے باہر اپنے دعوتی سفر پر تھا اس لیے بروقت جواب دینے میں تاخیر ہو گئی ۔ آپ کی صدق نیت اور اسلام سے متعلقہ معلومات سے آگاہی کا جذبہ یقیناً آپ کی اسلام سے محبت کی دلیل ہے ۔یہ علماء کرام کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ دینی مسائل کا جواب خندہ پیشانی سے دیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے علماء کرام سے اس بارے میں سوال کیا اور امید ہے کہ آئندہ بھی مذہبی معاملات میں علماء کی راہنمائی لیتے رہیں گے ۔جہاں تک آپ کے کالم میں ذکر کردہ سوالات کا تعلق ہے تو ان کے جوابات حاضر ہیں حسب وعدہ انہیں اپنے قارئین کے لیے شائع فرمائیں۔
نوٹ : ہمارے ذکر کردہ دلائل آپ کے تسلیم شدہ دلائل کے علاوہ ہیں ۔
سوال :
آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن مجید نے کسی جگہ زنا کاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟ اگر ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟
جواب :
دلیل نمبر1: " وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً "جو بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر اپنوں میں سے چار مرد، پھر اگر وہ گواہی دیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھر میں ، یہاں تک کہ ان کو موت اٹھا لے، یا اللہ ان کےلیے کوئی راہ مقرر کر دے ۔ )سورۃ النساء:15(
اس آیت مبارکہ میں ان عورتوں کے بارے میں جو زنا کی مرتکب ہوں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے جرم پر چار مسلمان مردوں کی شہادت قائم کی جائے اور شہادت سے ان کا جرم ثابت ہوجائے تو ان کوگھروں میں بند رکھا جائے یہاں تک کہ ان کے بار میں اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نازل ہو جائے ۔ اس کی تفسیر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الہٰی کے ذریعے یہ فرمائی ہے کہ زنا کا مرتکب شادی شدہ (محصن)ہو تو اس کو رجم (سنگسار) کیا جائے اور غیر شادی شدہ (غیر محصن) ہو تو اس کو سو 100 کوڑے لگائے جائیں۔
کان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلًا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد مائۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد مائۃ ثم نفی سنۃ. ) صحیح مسلم رقم 3200)
آپ علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے چینی سی کیفیت طاری ہوجاتی تھی اور چہرہ انور کا رنگ بدل جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ علیہ السلام پر یہی کیفیت طاری ہو گئی اور جب وحی کی یہ کیفیت ختم ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے لے لو ، مجھ سے لےلو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ مقرر کر دی ۔ شادی شدہ مرد وعورت اس کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا سو100 کوڑے لگانا اور پھر" سنگسار" کرنا ہے۔ کنوارے مرد وعورت اس کے مرتکب ہوں تو 100 کوڑے پھر ایک سال کی جلا وطنی ۔
فائدہ : غیر شادی شدہ کے لیے ایک سال کی جلا وطنی انتظامی فیصلہ ہے ۔
دلیل نمبر 2: اسی طرح سیدنا عبداللہبن عباس رضی اللہ عنہماسے بھی اس آیت کی یہی تشریح وتفسیر صحیح بخاری جلد 2ص657 پر موجود ہے۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہما... لھن سبیلا یعنی الرجم للثیب والجلد للبکر.یہ بالکل ایسے ہے جیسے نماز او رزکوٰۃ کا حکم قرآن مجید میں ہے اور نماز کیسے پڑھنی ہے؟ اور زکوٰۃ کیسے ادا کرنی ہے؟ اس کا طریقہ آپ علیہ السلام نے بتایا ہے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نمازاور زکوٰۃ کا قرآن کریم نے حکم نہیں دیاوہ خارج از ملت ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں زانی محصن[ شادی شدہ ] کی سزا رجم[ سنگسار ] ہے ۔ یہ بھی حق تعالیٰ شانہ نے " أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً " کے مجمل الفاظ میں ذکر فرمائی ہے اور پھر اس کی تشریح خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ علیہ السلام نے بذریعہ وحی فرمائی ہے۔
دلیل نمبر3: سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 41 تا 50 یہود کے " قصہ رجم" کے متعلق نازل ہوئیں۔جن کی وضاحت صحیح مسلم جلد 2ص70 پر موجود ہے ۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اول من احییٰ امرک اذا ماتوہ فامر بہ فرجم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو زندہ کیا جسے لوگوں نے بالکل چھوڑ دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر [ اس شخص کو ] رجم [ سنگسار ] کر دیا گیا ۔
دلیل نمبر 4: امام بغوی رحمہ اللہ نے اس قصہ کا خلاصہ یہ نقل کیا ہے کہ خیبر کے یہودیوں میں ایک شادی شدہ جوڑے نے زنا کا ارِتکاب کیا تھا۔ جس کے لیے ان کی شریعت[ تورات] میں رجم [ سنگساری ] کی سزا مقرر تھی مگر یہودیوں نے خواہش نفس کی پیروی میں اس پر عمل درآمد معطل کر رکھا تھا۔ جب ان کے یہاں یہ واقعہ پیش آیا تو اس خیال سے کہ " شریعت محمدی" ان کی شریعت تورات سے نرم ہے ۔ انہوں نے یہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا ۔ چنانچہ ایک وفد ان مجرموں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ جسے یہود نے بطور خاص یہ ہدایت کی تھی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مطلب کے مطابق فیصلہ کریں تو قبول کر لینا ورنہ نہیں۔ وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر شادی شدہ مرد اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو ان کی کیا سزا ہے ؟[جواب دینے سے پہلے ] آپ علیہ السلام نے فرمایا کیا تم میرا فیصلہ مانو گے؟ انہوں نے اقرار کیا۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ ان کی سزا رجم [سنگساری ] ہے ۔ ان لوگوں نے جب یہ فیصلہ سنا تو بوکھلاگئے اور تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ ان سے یہ فرمائیں کہ وہ آپ کے فیصلے کو ماننے یانہ ماننے کے بارے میں "ابن صوریہ"کو حَکم[ ثالث] بنا لیں اور ابن صوریہ کے حالات اور صفات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے ۔ آپ علیہ السلام نے یہودی وفد سے فرمایا : کیا تم اس نوجوان کو جانتے ہو؟ جو سفید رنگ کا ہے مگر ایک آنکھ سے معذور ہے؟ انہو ں نے اقرار کیا کہ ہم پہنچاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم اسے کیسا سمجھتے ہو؟ انہوں نے کہا علمائے یہود میں روئے زمین پر اس سے بڑا عالم نہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا اسے بلاؤ ، چنانچہ اسے بلایا گیا ۔ تو آپ علیہ السلام نے اسے قسم دے کر پوچھا کہ تورات میں اس جرم کی سزا کیا ہے ؟ وہ بولا قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم آپ نے مجھ کو دی ہے اگر آپ مجھے قسم نہ دیتے تو مجھے یہ ِخطرہ نہ ہوتا کہ اگر غلط بیانی کروں گا تو تورات مجھے جلا ڈالی گی میں کبھی ظاہر نہ کرتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی طرح تورات میں بھی زانی کی سزا یہی ہے کہ ان دونوں کو سنگسار کر دیا جائے۔ مگر جب ہمارے اشراف میں زنا کی کثرت ہوئی تو کچھ عرصہ تک تو یہ رہا کہ اشراف کو چھوڑ دیتے اور پسماندہ طبقے پر حد جاری کرتے لیکن ہم نے یہ طے کیا کہ رجم کی بجائے ایک ایسی سزا مقرر کر دی جائے جو شریف و وضیع سب پر جاری ہوسکے وہ تھی منہ کالاکر دینا جوتے لگانا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا "اللٰھم انی اول من احیا امرک اذااماتوہ " یااللہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انہوں نے اس کو مٹا ڈالا تھا۔ اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان دونوں کو رجم [ سنگسار ]کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ
$11 اس حکم کو "ما انزل اللہ "[ اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ] کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر عمل کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ۔ اس معاملے پر کسی قسم کی رعایت روارکھنے سے"لا تتبع اھواءھم"[ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ] کہہ کر شدت سے منع فرمایا ۔
$12 جو لوگ اس "ماانزل اللہ"سے پہلو تہی کرتے ہیں ان کو دوڑ کر کفر میں گرنے والے اور زبان سے اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود دل کا کافر فرمایا۔" الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنْ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ " ۔
$13 جو اس حکم خداوندی کو تسلیم کر کے اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر آمادہ نہ ہوں ان کو صاف صاف الفاظ میں کافر ، ظالم اور فاسق فرمایا ہے۔سورۃ مائدہ: آیت نمبر44تا 46
جب رجم کے حکم کی قرآن کریم اتنی شدومد کے ساتھ تاکید کرتا ہے اور اس سے پہلو تہی کرنے اور تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلام کے زبانی دعویدار مگر دل کے کافر ،ظالم اور فاسق کہتا ہے ۔ تو سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت یانبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی سنت ہے جس نے اس شدید اور مؤکد حکم کو منسوخ کر دیا ہو ؟
دلیل نمبر5: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ]اختلاف الفاظ کے ساتھ ] موجودہے : حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت دو شخص آئے ایک نے کہا کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے دوسرے نے کہا ہاں! یارسول اللہ واقعی ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کیجیے اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنا واقعہ بیان کروں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں بیان کرو اس نے کہا میرا یک بیٹا اس شخص کے ہاں نوکر تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم [ سنگساری ]کی سزا جاری ہوگی ، میں نے اس کے فدیہ میں اس شخص کو سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال جلاوطنی کی سزا ہے اور رجم[ سنگساری ] کی سزا اس کی بیوی پر ہے:فقال النبی صلى الله عليه وسلم والذى نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله المائۃ الشاۃ والخادم رد علیک وعلی ابنک جلد مائة وتغريب عام واغد یا انیس فاغد ا لى امرأة هذا فان اعترفت فارجمها۔
)صحیح بخاری ج2 ص 1008(
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :سنو! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا اور وہ یہ ہے کہ تیری بکریاں اور لونڈی تجھے واپس کر دی جائیں گی اور تیرے بیٹے پر سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا جاری ہوگی ا ور ہاں اے انیس! تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اس کو "رجم" کرو۔
اس حدیث مبارک میں آپ علیہ السلام نے رجم[سنگساری] کی سزاکو قسم اٹھا کر کتاب اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن مجید میں سزائے رجم[ سنگساری ] مذکور نہیں ہے تو آپ علیہ السلام اس کو کتاب اللہ کی طرف منسوب کیوں کرتے؟
سوال نمبر 2:
آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ "نبی اکرمؐ سے منسوب سزا کے [اوپر بیان کردہ دونوں] واقعات کب وقوع پذیر ہوئے'یہ واقعات سورۃ النور کے نزول سے پہلے کے واقعات ہیں یا سورۃ النور کی ان آیات کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوئے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی'اگر یہ دونوں واقعات آیات کے نزول سے پہلے کے ہیں تو کیا پھر رجم درست ہے؟"
جواب :
دلیل نمبر 1: رجم [ سنگساری ]کے موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے جبکہ وہ اسلام ہی سات ہجری میں لائے ہیں۔اسلم[ ابو ھریرۃ ] عام خیبر ۔ )عمدۃ القاری ج1 ص 331(
دلیل نمبر 2: علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے مزید کہا ہے "وابن عباس انما جاء مع امہ الی المدینۃ سنۃتسع" اس موقع پر ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ سن 9ہجری میں مدینہ کی طرف ہجرت کی ۔
دلیل نمبر 3: رجم[سنگساری ] کا ایک واقعہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور وہ سن9ہجری میں مسلمان ہوئے۔
دلیل نمبر 4: امت کے دو جلیل القدر محدث؛ علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی حنفی رحمہما اللہ دونوں فرماتے ہیں کہ اس بات پر دلیل موجود ہے کہ رجم کا حکم سورۃ النور کے نزول کے بعد ہوا "وقد قام الدلیل علی ان الرجم وقع بعد سورۃ النور"کیوں کہ سورۃ النور کا نزول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے قصہ میں ہوا تھا اور یہ واقعہ سن4،5یا 6 ہجری میں ہوا تھا ۔
)فتح الباری ج12ص120، عمدۃ القاری تحت باب رجم المحصن(
اس لیے واقعہ سن 9یا 10ھ کا ہی ہو سکتا ہے یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ سورۃ النور کے نزول کے بعد بھی یہ حکم برقرار ہے۔
سوال نمبر 3: آپ کا تیسرا سوال یہ تھا کہ" کیا حیات طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟"
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں آپ کے ذکر کردہ دو واقعات کے علاوہ بھی کئی واقعات ایسے ہیں جو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں رونما ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سزا رجم [ سنگساری ] نافذ فرمائی ۔ چنانچہ
دلیل نمبر 1: حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہما کی حدیث تفصیلاً پہلے گزر چکی کہ آپ علیہ السلا م نے زنا کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا تھا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں تمہارا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق کروں گا ۔ چنانچہ خاتون نے جب اپنے گناہ کا اقرار کیا تو " فامر بہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرجمت"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رجم [سنگساری ] کا حکم دے دیا،لہٰذا اس کو سنگسار کر دیا گیا ۔
نوٹ : یہ روایت متعدد کتب حدیث میں موجود ہے مثلاً:
1: بخاری جلد2ص1008
2: مسلم جلد2ص69
3: ابوداؤد ص606
4: نسائی ج2ص308
5: ترمذی ص172
6: ابن ماجہ ص186
7: مؤطا امام مالک ص349۔