• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سواد اعظم والی روایات کی مکمل جامع تحقیق چاہییے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم۔ سواد اعظم والی روایات مکمل جامع تحقیق چاہییے
ہمارے بہت ہی محترم بھائی @محمد نعیم یونس صاحب نقل فرماتے ہیں کہ :

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلامِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الأَعْمَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " إِنَّ أُمَّتِي لاتَجْتَمِعُ عَلَى ضَلالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الأَعْظَمِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳۸۷) (ضعیف جدا)(ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)


انس بن ما لک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا :
'' میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلا ف دیکھو تو سوا داعظم ( یعنی بڑی جما عت)کو لا زم پکڑو ''

یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہوگی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کر نے والے اقلیت ہی میں تھے ، اور وہ حق پر تھے ، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء ورسل اوران کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی ، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین ،تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں ، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر ،قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہوگا ، اوراہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تا قیامت موجود ہو گا ، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی ،ان شاء اللہ العزیز۔
اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ : ''فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الأَعْظَمِ ''کو دلیل بناکرملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اوردین سے کوسوں دوروالی اکثریت پر فخر کرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں ، اسی لیے وہ بے چارے اس آیت کریمہ : {مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ} [سورة الروم:32 ] کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن وسنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنالیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے ، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے :{وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ} [سورة الأنعام:116] ( اے نبی!آپ اگران لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیامیں اکثریت ہے (سواداعظم والے )تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکادیں گے ، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پرچلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں)
پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود معاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحبِ عقل و عدل مومن عالم نہیں کر سکتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك'' (صحیح البخاری ، کتاب التوحیدحدیث نمبر۷۴۶۰)
(میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم -قرآن و حدیث -پر قائم رہے گا ، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے ، اور ان کے خلاف کرے ، ان کا کچھ نقصان نہ ہوگا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت )آپہنچے اور وہ اسی( قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی ) حالت میں ہوں گے ، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں:
'' لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس ''(کتاب الإمارۃ)
یہاں اس روایت میں امت کی جگہ طائفہ کا کلمہ آیا ہے ، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں عصابہ کا لفظ آیا ہے ، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتاہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق ،کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہوگی، کسی دور میں کسی جگہ طائفہ کے برابر اور کسی زمانہ میں عصابہ کے برابر۔
اوریہ کہ ''وهم ظاهرون على الناس...''اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے ۔
سبحان اللہ ، نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے ، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن وسنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہو ئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور اُن کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا ، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پرغالب نظر آتے ہیں۔
امام احمدبن حنبل فرماتے ہیں: یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں؟ مندرجہ بالا صحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ ، پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا خلاف نہیں ہو سکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہور ہے ، اور اہل توحید ، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے ،اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اورجماعت ) بدعت وگمراہی سے اب بھی بچاہواہے ، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔
(لنک دیکھئے )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مشہور محقق علامہ ناصر الدین الالبانیؒ
سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (2896 ) میں سواد والی روایات کی تحقیق میں لکھتے ہیں :
(إن أمتي لن تجتمع على ضلالة، فإذا رأيتم الاختلاف فعليكم بالسواد الأعظم) .
ضعيف
رواه ابن ماجه (3950) ، وابن أبي عاصم في " السنة " (رقم 84 - بتحقيقي) ، وعبد بن حميد في " المنتخب من المسند " (133/2) ، واللالكائي في " أصول أهل السنة " (1/105/653) عن معان بن رفاعة السلامي عن أبي خلف الأعمى عن أنس مرفوعا.
قلت: وهذا إسناد واه بمرة؛ أبو خلف الأعمى قال الحافظ:
" متروك، ورماه ابن معين بالكذب ".
وقال الدارقطني في " الأفراد ": تفرد بهذا الحديث.
ومعان بن رفاعة؛ لين الحديث.
وأخرجه أبو نعيم في " أخبار أصبهان " (2/208) من طريق بقية بن الوليد عن عتبة بن أبي حكيم عن أرطاة بن المنذر عن أبي عون الأنصاري عن سمرة بن جندب مرفوعا به.
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ وفيه علل:
الأولى: الانقطاع بين أبي عون الأنصاري وسمرة بن جندب، فإن أبا عون هذا لم يذكروا له رواية عن الصحابة، بل قال ابن عبد البر:
" روى عن عثمان مرسلا ".
الثانية: جهالة حال أبي عون هذا؛ فإنه لم يوثقه غير ابن حبان، وقال الحافظ في " التقريب ":
" مقبول " يعني عند المتابعة؛ وإلا فلين الحديث.
الثالثة: ضعف عتبة بن أبي حكيم؛ قال الحافظ:
" صدوق يخطىء كثيرا ".
الرابعة: عنعنة بقية؛ فإنه كان مدلسا.
 
Top