• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سِول سوسائٹی، پاکستان اور اسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207


''پشاور میں سول سوسائٹی کے نام پر'شغل سوسائٹی'کے کارندے آپے سے باہر ہو گئے۔ احتجاج کی کوریج کے دوران نشے میں دُھت افراد نے دنیا نیوز کی ٹیم کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔''

خبر کی تفصیل میں بتایا گیا کہ

''امن کمیٹی کے روپ میں بد امنی پھیلانے والے ایکشن فورم کے ارکان نے آج (۳۱؍دسمبر ۲۰۱۴ء) پشاور پریس کلب کے سامنے سانحۂ آرمی پبلک سکول کے خلاف احتجاج کی کوریج کے دوران دنیا نیوز کی ٹیم کو لاتوں، گھونسوں اور تھپڑوں سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد سے دنیا نیوز کے رپورٹر یاسر حسین، ناصر داوڑ، عمران یوسفزئی اور کیمرہ مین کامران پراچہ شدید زخمی ہو گئے۔ بدامنی پھیلانے والے 'ایکشن فورم' کے افراد نے میڈیا اور اخبار نویسوں کے خلاف غلیظ زبان بھی استعمال کی۔ شراب کے نشے میں دھت ان افراد سے شراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوئیں۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر دو افراد کو حراست میں لے لیا۔ تشدد کرنے والوں کا سربراہ ڈاکٹر عمران اپنے آپ کو سول سوسائٹی کا رکن ظاہر کرتا ہے۔''1
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
روزنامہ 'نئی بات' کی خبر میں بتایا گیا کہ

''آرمی پبلک سکول پر حملے کے خلاف '۱۲؍ ۱۶.. ایکشن فورم' کے زیر اہتمام احتجاج کے دوران شراب کے نشے میں دھت کارکنوں نے نجی ٹی وی کی ڈی ایس این جی پر حملہ کر دیا اور رپورٹر اور کیمرہ مین کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ بیچ بچاؤ کرانے والے متعدد صحافیوں پر بھی بدترین تشدد کیا۔ این جی اوز نے سول سوسائٹی کے نام پر اپنی ہڑتال اور احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے نوجوان کارکنوں کو شراب پلا کر احتجاج میں شامل کیا۔ مظاہرین نے صدر روڈ، خیبر بازار، امن چوک، گورا قبرستان، جی ٹی روڈ، یونیورسٹی روڈ، چار سدہ روڈ اور دیگر روٹس پر ٹائر جلا کر اور دھرنے دے کر سڑکیں بلاک کر دیں۔ پولیس نے مظاہرین کو روڈز کھولنے کو کہا تو اُنہوں نے انکار کر دیا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور فورم کے ممبران ثنا اعجاز، ڈاکٹر سیّد عالم محسود، گل نواز مہمند، تیمور کمال، طارق افغان، وقاص بونیری، محمد سلطان، محمد روم اور دیگر افراد کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا... پولیس نے بعد ازاں تمام افراد کو رہا کر دیا جنہوں نے امن چوک میں جلسے کا انعقاد کیا اور پشاور پریس کلب پہنچے۔ جہاں مظاہرین سرِ عام شراب نوشی کر رہے تھے اور ہاتھوں میں ڈنڈے بھی پکڑ رکھے تھے۔ اس موقع پر اخبارات اور نجی چینلوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ شراب کے نشے میں دھت ڈاکٹر عمران اورکزئی اور دیگر غنڈے اُنہیں کوریج سے روکنے کے لیے اُن پر پل پڑے جس کے نتیجے میں سینئر رپورٹر ناصر داوڑ، کیمرہ مین کامران پراچہ اور انجینئر وقار احمد شدید زخمی ہو گئے جنہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔''2
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یا لَلعجَب! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یوں سر عام 'سول سوسائٹی' کی طرف سے شراب نوشی کا مظاہرہ اور وہ بھی معصوم طالب علموں کے قتل عام پر احتجاج کے نام پر۔ یہ طلبہ اور ان کے اساتذہ کے قتل پر سوگ اور احتجاج کا مظاہرہ تھا یا شراب نوشی کا جشن منا کر شہداکے ورثا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی قبیح حرکت تھی؟ اس بھدّے اور بے حیا مظاہرے سے سول سوسائٹی کی انسان دوستی کا بھرم کھل گیا۔ان لوگوں کی مغربی سرمائے سے چلنے والی تنظیموں اور ان کی مذموم حرکات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آئیے دیکھتے ہیں یہ سول سوسائٹی اصل میں ہے کیا اور یہ کس طرح ہمارے معاشرے میں اپنے ابلیسی پنجے گاڑتی چلی جا رہی ہے۔ اصطلاحی طور پر سول سوسائٹی کے معنی ہیں: ''غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کا مجموعہ جس سے شہریوں کے مفادات اور عزم کا اظہار ہوتا ہے۔'' ایک اور توضیح کی رو سے ''سول سوسائٹی معاشرے کے ان افراد اور تنظیموں پر مشتمل ہوتی ہے جو حکومتی انتظامیہ سے آزاد ہوں۔''جبکہ کولنز انگلش ڈکشنری کے مطابق ''سول سوسائٹی آزادئ تقریر اور آزاد عدلیہ جیسے عناصر پر مشتمل ہوتی ہے جو ایک جمہوری معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ارسطو سے سول سوسائٹی تک

سول سوسائٹی کا تصور مغرب یا یورپ کی دین ہے۔ اس کا اوّلین تصور یونانی شہری ریاست (Polis) سے اُبھرا جس میں ''آزاد شہری قانون کی حکمرانی کے تحت مساوی سطح پر رہتے تھے۔'' اپنی تصنیف Politics (سیاست) میں ارسطو نے سول سوسائٹی کے لیے دراصل Koinonia Politics (سیاسی مقننہ) یا کمیونٹی (برادری) کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس کا مقصد 'عوام کی بہبود' بتایا گیا۔ جبکہ اس یونانی فلسفی نے انسان کی تعریف اس طرح کی تھی کہ ''یہ Zoon Politikon (سیاسی یا سماجی جانور) ہے۔'' حالانکہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر اہل مغرب نے ارسطو سے بہیمانہ اصطلاح 'سماجی جانور' (Social Animal)لے کر شرف انسانی کی توہین کی ہے۔ ارسطو کے تراجم لاطینی میں ہوئے تو سسرو نے ارسطو کی اصطلاح کا ترجمہ Societas Civilis (شہری مجلس) کیا جس نے انگریزی میں'سول سوسائٹی ' کا روپ دھار لیا۔ یاد رہے ارسطو افلاطون کا شاگرد اور سکندرِ اعظم کا اُستاد تھا۔ یہ سب صنم پرست تھے، البتہ افلاطون (Plato) کے استاد سقراط(Socratese) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مؤحد تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہیومنزم ، روشن خیالی اور سیکولرزم

قرونِ وسطیٰ میں جو یورپ کا زمانۂ جاہلیت (Dark Ages) تھا، کلاسیکل سول سوسائٹی کا تصور غائب ہو گیا اور اس کی جگہ 'منصفانہ جنگ' نے لے لی۔ یہ دور یورپ میں صد سالہ، سی سالہ اور ہفت سالہ جنگوں سے عبارت تھا۔ صد سالہ جنگ فرانس اور انگلستان کے درمیان ۱۳۳۷ء سے ۱۴۵۱ء تک لڑی گئی۔ یہ دراصل جنگوں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اسی طرح سی (۳۰) سالہ جنگ وسطی یورپ میں لڑی گئی اور معاہدہ ویسٹ فالیا (جرمنی ۱۶۴۸ء) پر منتج ہوئی۔

سی سالہ جنگ میں جو مظالم ڈھائے گئے، ان کے نتیجے میں Humanism (انسانیت نوازی)، سائنسی انقلاب اور Enlightenment (روشن خیالی) کے نعروں نے جنم لیا تھا۔ تھامس ہوبس نے Civility (سول آداب) اور Rationality (عقلیت پرستی) پر زور دیا جبکہ انگریز مفکر جان لاک کا کہنا تھا کہ ''ریاست کو سول اور فطری قوانین کی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔'' دونوں کا نظریہ تھا کہ ''شہری خوبیاں (Civic Virtues) اور حقوق (Rights) فطری قوانین سے اخذ کیے جائیں۔''

یوں 'فطری قوانین' کی آڑ میں لادینیت یا سیکولرزم کی بنیاد رکھ دی گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مغرب میں دین اور دنیا کی علیحدگی

یہ دور یورپ میں ریاست کی کلیسا یا مذہب سے علیحدگی کا دور تھا جس کا اظہار 'ریشنالٹی 'یا عقلیت پرستی اور 'نیچرل لاز' یا فطری قوانین کی شکل میں ہوا۔ پاپائیت کے انسانیت کُش جبر کے نتیجے میں مذہب کو ریاست سے باہر کر دیا گیا اور سیکولرزم (لادینیت) کا دور دورہ ہوا حتیٰ کہ جمہوریت اور سیکولرزم لازم و ملزم ٹھہرے، اور لادینیت کی بنیاد پرسول سوسائٹیاں فروغ پانے لگیں۔ الہامی مذاہب یا الہامی قوانین سے قطع تعلق کر کے'فطری' یا حیوانی قوانین کے اطلاق کے نتیجے میں زنا کاری، اَغلام بازی، عریانی اور فحاشی کو فروغ ملا اور یہ اخلاقی برائیاں تہذیبِ مغرب یا سول سوسائٹی کا طرۂ امتیاز ٹھہریں۔ انسانی اخلاق معاشرے کی مادی ضرورتوں کے تابع قرار پائے، چنانچہ اخلاقیات سے عاری یورپ کی مسیحی اقوام مغربی افریقہ سے سیاہ فام مسلمانوں اور دیگر لوگوں کو غلام بنا کر براعظم امریکہ میں غلاموں کی منڈیوں میں بیچنے لگیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یورپی سامراج کی فتوحات

اٹھارویں صدی سے مسلح یورپی قزاقوں نے تاجروں کے بھیس میں ایشیا اور افریقہ پر یلغار کی۔ شرق الہند کے جزائر پر پرتگالیوں، ہسپانویوں، ولندیزیوں (ڈچ) اور انگریزوں نے قبضہ جما لیا۔ ملائی اور انڈونیشی مسلمان ان یورپی مسیحی اقوام کے غلام بن گئے۔ برصغیر کا وسیع خطہ اس زمانے میں اپنی دولت و حرفت کی بنا پر 'سونے کی چڑیا' کہلاتا تھا۔ اس پر قابض ہونے کے لیے انگلستان اور فرانس میں کشمکش رہی۔ آخر کار انگریزوں نے فرانسیسیوں کو ہندوستان کے ساحلوں سے بھگا دیا۔ انگریزوں نے یہاں سازشوں کا جال بچھایا اور ایک سو برس میں مسلم حکمرانوں سے بتدریج ہندوستان کا اقتدار چھین لیا۔ ۱۷۵۷ء میں بنگال، ۱۷۹۹ء میں میسور، ۱۸۰۳ء میں دہلی اور ۱۸۴۳ء میں سندھ پر قبضہ جما لیا۔ ۱۷۹۹ء سے پنجاب پر اور ۱۸۱۹ء سے پشاور پر سکھ قابض تھے، اُنہیں ۱۸۴۹ء میں شکست دے کر انگریزوں نے پنجاب و سرحد کو برطانوی ہند کا حصہ بنا لیا اور پھر ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی ناکام بنا کر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی برائے نام بادشاہی ختم کر کے انگریز پورے ہندوستان کے مالک بن گئے۔ آخر میں ۱۸۷۶ء میں کوئٹہ برطانوی ہند میں شامل ہوا ۔ اسی دور میں یورپ کی یونیورسٹیوں میں استشراق یا 'مطالعۂ مشرق'کے ادارے قائم ہوئے جن میں عیسائی پادری اور یہودی حاخام پیش پیش تھے۔ ان میں دین اسلام ومسلمانوں کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلانے کا کام ہوتا رہا۔

دوسری طرف فرانس الجزائر (1830ء) اور تیونس (1881ء) پر اور برطانیہ مصر( 1882ء) پر قابض ہو چکا تھا۔ پھر۱۸۸۵ء کی برلن کانگرس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین اور بلجیم نے پورے براعظم افریقہ کی بندر بانٹ کر کے اسے محکوم بنا لیا۔ ادھر پہلی جنگِ عظیم کے اختتام تک برطانیہ خلیجی ریاستوں، جنوبی یمن، عراق، اُردن اور فلسطین پر جبکہ فرانس لبنان و شام پر قبضہ جما چکا تھا۔ ان تمام محکوم ممالک میں یورپی زبانوں کی تعلیم کے واسطے سے یورپی طرز کی سول سوسائٹیاں تشکیل پاتی چلی گئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مشنری ادارے ، لارڈ میکالے اور کالے انگریز

ایشیا اور افریقہ کو غلام بنانے کے ساتھ ساتھ یورپ کے مشنری ادارے یہاں پنجے گاڑنے لگے۔ اُنہوں نے یہاں شفا خانے اور تعلیمی ادارے قائم کیے جن میں یورپی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے عیسائیت کا فروغ ان کا مقصود تھا۔ عیسائیت کے ساتھ ساتھ مغرب کے سیکولر نظریات، اباحیت، لادینیت اور نام نہاد روش خیالی کو فروغ ملا۔ ۱۸۳۵ء میں لارڈ میکالے نے ہندوستان کے لیے جس نظامِ تعلیم کا خاکہ برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا، اس کا اہم نکتہ فارسی و عربی کے بجائے یہاں انگریزی کو تعلیمی و سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنا تھا۔ میکالے نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''میری اس تعلیمی اسکیم کے نتیجے میں ایسے لوگ تیار ہوں گے جو اوپر سے تو کالے ہوں گے مگر ان کے دل انگریزوں کی طرح سفید ہوں گے، چنانچہ ۱۱۲ برس بعد جب 1947ء میں ہندوستان 'آزاد' ہوا اور پاکستان وجود میں آیا تو یہاں خاصی بڑی تعداد 'کالے انگریزوں' کی جنم لے چکی تھی جو بتدریج اُمورِ حکومت، سول و فوجی افسر شاہی اور ذرائع ابلاغ پر چھاتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان جو نفاذِ اسلام اور نفاذِ اُردو کے نام پر بنا تھا، یہاں 'کالے انگریزوں' یا یوں کہہ لیں کہ 'سول سوسائٹی' نے مسلط ہو کر نہ اسلام نافذ ہونے دیا اور نہ اُردو کے بطورِ تعلیمی و دفتری زبان نفاذ کی نوبت آنے دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پاکستان میں سول سوسائٹی

پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی مغربی ابلیسی نظریات کی آما ج گاہ بنا ہوا ہے۔ ۱۹۵۰ء، ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائیوں میں سیکولرزم کے دوش بدوش یہاں سوشلزم (اشتراکیت) اور کمونزم (اشتمالیت) کے غیر اسلامی نظریات کا خوب پرچار ہوا۔ 'کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان' نے ۱۹۵۱ء میں یہاں کمیونسٹ انقلاب برپا کرنے کی ناکام کوشش کی جسے 'راولپنڈی سازش کیس' کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی خلافِ قانون قرار پائی، تاہم ۱۹۶۷ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کر کے سوشلزم کا پرچم تھاما تو کمیونسٹ اور سیکولر نظریات رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے بیشتر لوگ ان کے ہم نوا بن گئے۔ اُنہیں سیکولر ذہن کے جاہ پرست جرنیلوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی اور ان سب کی ملی بھگت کے نتیجے میں وطن عزیز دسمبر ۱۹۷۱ء میں دولخت ہو گیا۔

'نئے پاکستان' میں پی پی پی نے سیکولرزم اور سوشلزم کی خوب پذیرائی کی۔ ایوبی مارشل لا (۶۹- ۱۹۵۸ء) اور بھٹو دور (۷۷۔ ۱۹۷۱ء) میں سول سوسائٹی اور سیکولر عناصر پروان چڑھتے رہے، البتہ محبِ اسلام صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سول سوسائٹی کا کاروبار قدرے مندا رہا۔ پی ٹی وی پر آنے والی خواتین پر سر ڈھانکنے کی پابندی لگی اور حدود آرڈیننس نافذ ہوا تو مہتاب راشدی جیسی برہنہ سر عورتیں ٹی وی سے نکل گئیں۔
 
Top