• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرتِ عائشہ (رضی اللہ عنہا)

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبائی فرقہ

اسی زمانہ میں ابنِ سبا نام ایک یہودی مسلمان ہو گیا ۔ یہودیوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب وہ دشمن بن کر انتقام نہیں لے سکتے تو فورا سپر ڈال کر اس کے مخلص دوست بن جاتے ہیں ۔ ابنِ سبا نے لوگوں میں یہ پھیلانا شروع کیا کہ حضرت علیؓ در اصل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مستحق جانشیں اور وصی ہیں ۔ اس نے اپنی اس بدعت کی تبلیغ کے لئے پوری کوشش کی اور جگہ جگہ جا کر اس سیاسی شورش کو بہانہ بنا کر اپنی سازش کے جال کو اس نے ہر جگہ پھیلا دیا اس نے سارے ملک کا دورہ کیا ، کوفہ بصرہ اور مصر جہاں بڑی بڑی فوجی چھاؤنیاں تھیں انقلاب پسند لوگ کچھ نہ کچھ موجود تھے، اس نے مصر کو ان انقلاب پسندوں کا مرکز بنا کر ان تمام متفرق اشخاص کو ایک رشتہ میں منسلک کر دیا ۔ اہلِ تاریخ نے ان کا نام سبائیہ رکھا ہے ۔

لوگوں کی ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اہم رول ادا کیا۔
عین حرم نبویؐ میں مسلمانوں ہی کے ہاتھوں خلیفۃ المسلمین کا قتل ایسا عظیم حادثہ تھا کہ لوگوں کے دل دہل گئے۔ بعض دشمنوں نے افواہ اڑا دی کہ اس واقعہ میں حضرت عائشہ بھی شریک ہیں ۔جبکہ ان ایام میں وہ وہاں تھیں بھی نہیں ، وہ سفرِ حج میں تھیں ۔ لیکن ان سے پوچھا گیا تو جواب دیا کہ معاذ اللہ کیا میں مسلمانوں کے امام کے قتل کا حکم دے سکتی ہوں ؟ حق یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ان کو اس سے باز رکھنے کی پوری کوشش کی مگر وہ باز نہیں آئے۔ خود حضرت عائشہ نے ایک دفعہ حضرت عثمانؓ کے تذکرہ میں فرمایا ، ’’خدا کی قسم میں نے کبھی پسند نہ کیا کہ عثمانؓ کی کسی قسم کی بے عزتی ہو ، اگر میں نے ایسا کبھی پسند کیا ہو تو ویسی ہی میری بھی ہو۔ خدا کی قسم میں نے کبھی پسند نہ کیا کہ وہ قتل ہوں ، اگر کیا ہو تو میں بھی قتل کی جاؤں ۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حضرت علیؓ کا عہد

حضرت عثمانؓ غنی کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی اور وہ اسلام کے چوتھے خلیفہ مقرر ہوئے۔ جب حضرت علیؓ خلیفہ بنے اس وقت سارے مسلمانوں میں ایک ہیجان اور تلاطم برپا تھا۔ صحابہ کرام کی ایک مختصر سی جماعت جو یہ دیکھ رہی تھی کہ جس باغ کو اس نے اپنے رگوں کے خون سے سینچا تھا وہ بر باد ہو رہا ہے ۔ اصلاح کا علم بلند کیا۔ اس جماعت میں حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہ تھیں ۔

حضرت عثمانؓ محاصرہ ہی میں تھے کہ حضرت عائشہؓ اپنے سالانہ دستور کے مطابق حج کو چلی گئیں ۔ واپس آ رہی تھیں کہ راستہ ہی میں باغیوں کے ہاتھ سے عثمان کی شہادت کی خبر معلوم ہوئی ۔ آگے بڑھیں تو حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر ملے، جو مدینہ سے بھاگے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا:
’’ہم لوگ مدینہ سے لدے پھدے بدوؤں اور عوام الناس کے ہاتھوں سے بھاگے چلے آتے ہیں اور لوگوں کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ حیران و سرگرداں ہیں نہ حق کو پہچان سکتے ہیں نہ باطل سے انکار کر سکتے ہیں اور نہ اپنی حفاظت پر قادر ہیں ۔‘‘
حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ باہم مشورہ کرو کہ اس موقع پر ہم کو کیا کرنا چاہئے، پھر یہ شعر پڑھا جس کا مطلب ہے:
’’اگر میری قوم کے سردار میری بات مانتے...تو میں ان کو اس خطرے سے باہر لے آتی‘‘
اس کے بعد وہ مکہ واپس چلی آئیں ۔ عام لوگوں کو اس حادثہ کی اطلاع ہوئی تو لوگ ہر طرف سے سمٹ سمٹ کر ان کے پاس آنے لگے۔ انہوں نے طلب اصلاح کی دعوت دی ۔ امّ المومنین نے فرمایا کہ اس قوم کی طرح کوئی قوم نہیں جو اس آیت کے حکم سے اعراض کرتی ہو:
’ ’ اگر دو مسلمان جماعتیں لڑ جائیں تو دونوں کے درمیان صلح کر دو۔ پس اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو ظلم کرنے والی سے لڑو ، یہاں تک کہ حکم الٰہی کی طرف وہ رجوع کرے اور جب رجوع کرے تو دونوں میں صلح کرا دو۔‘‘
(سورہ حجرات۔9)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دعوتِ اصلاح

اس عظیم فتنہ کو روکنے اور لوگوں کی اصلاح کی غرض سے حضرت عائشہؓ 700 لوگوں کے قافلہ کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہوئیں ۔ امہات المومنین اور عام مسلمان دور تک ساتھ آئے۔ لوگ ساتھ چلتے جاتے اور روتے جاتے تھے کہ آہ! اسلام پر کیا دردناک وقت آیا ہے کہ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، اور مادر اسلام اپنے بچوں کی محبت میں گھر سے نکلی ہے۔ راہ میں اور بہت سے لوگ یہ سن کر کہ حضرت عائشہؓ اس فوج کی سردار ہیں نہایت جوش و خروش سے شریک ہوتے گئے اور اس طرح منزل کے ختم ہونے پر 3000 لوگ جمع ہو گئے۔
کچھ لوگ فتنہ پھیلانے کے لئے بھی اس فوج میں گھس گئے اور طرح طرح سے سازش کرنا چاہا لیکن حضرت عائشہؓ نے اس کو دبایا۔

حضرت علیؓ اس فوج کا حال سن کر بصرہ کے ارادہ سے مدینہ سے چل پڑے تھے۔ لوگوں نے شور کیا کہ چلو بڑھو پیچھے سے علیؓ کا لشکر آ رہا ہے۔ قافلہ نے جلدی جلدی آگے قدم بڑھایا۔
حضرت عائشہؓ نے اب بصرہ کے قریب پہنچ کر واقعہ کی اطلاع کے لئے چند لوگوں کو بصرہ روانہ کیا۔ شہر کے عرب سرداروں کو خطوط لکھے، بصرہ پہونچ کر بعض رئیسوں کے گھر گئیں ۔ قبیلہ کا ایک سردار آمادہ نہ تھا۔ اس کو خود جا کر سمجھایا ، اس نے کہا ’’مجھے شرم آتی ہے کہ اپنی ماں کی بات نہ مانوں ‘‘۔
حضرت علی کی طرف سے عثمان بن حنیف بصرہ کے والی تھے انہوں نے عمران اور ابو الاسود کو تحقیقِ حال کے لئے بھیجا ۔وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور والی کی طرف سے آمد کا سبب دریافت کیا۔ حضرت عائشہ نے اس کی جواب میں حسب ذیل تقریر کی:
’’خدا کی قسم میرے رتبہ کے اشخاص کسی بات کو چھپا کر گھر سے نہیں نکل سکتے اور نہ کوئی ماں اصل حقیقت اپنے بیٹوں سے چھپا سکتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ قبائل کے آوارہ گردوں نے مدینہ پر جو حرم محترم تھا حملہ کیا اور وہاں فتنے برپا کئے اور فتنہ پردازوں کو پناہ دے رکھا ہے۔ اس بنا پر وہ خدا اور رسول کی لعنت کے مستحق ہیں ۔ علاوہ بریں انہوں نے بے گناہ خلیفۂ اسلام کو قتل کیا ، معصوم خون کو حلال جان کر بہایا، جس مال کا لینا ان کو جائز نہ تھا اس کو لوٹا، حرم محترم نبوی کی بے عزتی کی ، ماہ مقدس کی توہین کی، لوگوں کی آبرو ریزی کی، مسلمانوں کو بے گناہ مار پیٹ کی ، اور ان لوگوں کے گھروں میں زبردستی اتر پڑے جو ان کے رکھنے کے روادار نہ تھے۔ نیک دل مسلمانوں کو نہ ان سے بچنے کی قدرت ہے اور نہ ان سے محفوظ ہیں ۔ میں مسلمانوں کو لے کر اس لئے نکلی ہوں تا کہ لوگوں کو بتاؤں کہ عام مسلمان کو جس کو میں پیچھے چھوڑ آئی ہوں ان سے کیا نقصان پہنچ رہا ہے اور کن کن جرائم کے مرتکب ہیں ۔ خدا فرماتا ہے کہ ان کی سرگوشی میں کوئی زیادہ فائدہ نہیں لیکن یہ کہ یہ خیرات یا عام نیکی یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرائیں ۔

ہم اصلاح کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں جس کا خدا اور رسول نے ہر چھوٹے بڑے اور مرد و عورت کو حکم دیا ہے۔ یہ ہے ہمارا مقصد جس کی نیکی پر ہم تمہیں آمادہ کر رہے ہیں اور جس کی برائی سے تمہیں روکنا چاہتے ہیں ‘‘۔
لوگوں میں ایک عجیب کشمکش کہ کس کا ساتھ دیں ۔ ایک طرف ام المومنین تو دوسری طرف دامادِ رسول حضرت علیؓ۔ مختلف لوگ مختلف طرح سے تقریریں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ نہایت پر جلال اور بلند آواز میں گویا ہوئیں ۔حمد و نعت کے بعد ان کی تقریر کے الفاظ یہ تھے:
’’لوگو! خاموش !!خاموش!! ‘‘ اس لفظ کا سننا تھا کہ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا منھ میں زبانیں کٹ کر رہ گئی ہیں ۔
حضرت عائشہؓ نے سلسلۂ تقریر کو آگے بڑھایا:
’’تم پرمیرا مادری حق ہے اور مجھے نصیحت کی عزت حاصل ہے۔ مجھے اس کے سوا جو اپنے رب کا فرمانبردار بندہ نہیں کوئی الزام نہیں دے سکتا ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے میرے سینہ پر سر رکھے ہوئے وفات پائی۔ میں آپ کی جنتی بیویوں میں سے ایک ہوں ۔خدا نے مجھ کو دوسروں سے ہر طرح محفوظ رکھا اور میری ذات سے مومن و منافق میں تمیز ہوئی اور میرے ہی سبب سے تم پر خدا نے تیمم کا حکم نازل فرمایا۔
پھر میرا باپ دنیا میں تیسرا مسلمان ہے اور غارِ حرا میں دو کا دوسرا تھا اور پہلا شخص تھا جو صدیق کے لقب سے مخاطب ہوا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وفات پائی تو اس سے خوش ہو کر اور اس کو خلافت کا طوق پہنا کر۔ اس کے بعد جب مذہبِ اسلام کی رسی ہلنے ڈلنے لگی تو میرا باپ تھا جس نے اس کے دونوں سرے تھام لئے ، جس نے نفاق کی باگ روک دی، جس نے ارتداد کا سر چشمہ خشک کر دیا، جس نے یہودیوں کی آتش افروزی سرد کی۔ تم لوگ اس وقت آنکھیں بند کئے عذر و فتنہ کے منتظر تھے اور شور و غوغا پر گوش بر آواز تھے۔اس نے شگاف کو برابر کیا ، بیکار کو درست کیا، گرتوں کو سنبھالا، دلوں کی مدفون بیماریوں کو دور کیا، جو پانی سے سیراب ہو چکے تھے، ان کو تھان تک پہونچا دیا، جو پیاسے تھے ، ان کو گھاٹ پر لے آیا، اور جو ایک بار پانی پی چکے تھے انہیں دوبارہ پلایا۔جب وہ نفاق کا سر کچل چکا اور شرکت کے لئے لڑائی کی آگ مشتعل کر چکا، اور تمہارے سامان کی گٹھری کو ڈوری سے باندھ چکا تو خدا نے اسے اٹھا لیا‘‘۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’’ وہ اپنے بعد ایک ایسے شخص کو اپنا جانشین بنا گیا جس کی طرف اگر جھکتے تو محافظ بن جاتا، گمراہی سے اس قدر دور جتنی دور مدینہ کی دونوں پہاڑیاں ، دشمنوں کی گوشمالی اور جاہلوں سے در گزر کرتا، اسلام کی نصرت میں راتوں کو جاگا کرتا، اپنے پیش رو کے قدم بہ قدم چلا، فتنہ و فساد کے شیرازہ کو درہم برہم کیا ،قرآن میں جو کچھ تھا اس کی ایک ایک چول بٹھا دی۔‘‘
ہاں ! میں سوالیہ نشانہ بن گئی ہوں کیونکہ فوج لے کر نکلی۔ میرا مقصد اس سے گناہ کی تلاش اور فتنہ کی جستجو نہیں ہے جس کو میں پامال کرنا چاہتی ہوں ۔ جو کچھ کہہ رہی ہوں سچائی اور انصاف کے ساتھ، اتمامِ حجت اور تنبیہ کے لئے۔ خدائے پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیغمبر محمدؐ پر درود نازل کرے اور اس کا جانشین پیغمبروں کی جانشینی کے ساتھ تم پر مقرر کر دے‘‘۔

یہ تقریر اس قدر موثر تھی کہ لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ تقریر کا ایک ایک حرف دشمنوں کے دلوں میں بھی تیر بن کر پیوست ہو گیا اور بے اختیار بول اٹھے کہ خدا کی قسم سچ فرماتی ہیں ۔اور اپنی صف سے نکل کر اصلاح طلب فوج کے پہلو میں جا کر کھڑے ہو گئے ۔جو بد گمان تھے انہوں نے اس پر اعتراض کئے دوسروں نے ان کا جواب دیا۔
اب فریقین میں سوالات و جوابات شروع ہو گئے اور آخر بڑھتے بڑھتے معاملہ نے طول پکڑا۔ یہ دیکھ کر حضرت عائشہؓ نے اپنی جماعت کو واپسی کا حکم دیا۔ والیِ بصرہ کے طرفداروں میں جن لوگوں نے حضرت عائشہؓ کی تقریر سن کر اپنی رائے بدل دی تھی وہ بھی اپنی جماعت کو چھوڑ کر حضرت عائشہؓ کے لشکر گاہ میں چلے آئے۔

دوسرے دن دونوں طرف سے فوجیں آراستہ ہو کر میدان میں آئیں ۔ حکیم نام کا ایک شخص مخالف سواروں کا افسر تھا۔ اس نے خود جنگ میں پہل کی۔ اصلاح طلب فوج اب تک نیزے تانے خاموش کھڑی تھی۔ حضرت عائشہؓ برابر سکون اور صبر کی تاکید کر رہی تھیں لیکن حکیم کسی طرح باز نہ آیا اور آخر کار حملہ کر ہی بیٹھا۔ حضرت عائشہؓ نے یہ دیکھ کر اپنی فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور دوسرے میدان میں لا کر کھڑا کیا۔ مخالف اس پربھی باز نہ آئے اور پتہ لگا کر وہاں بھی پہنچے اور شورش پر آمادہ ہوئے۔ لیکن رات ہو چکی تھی واپس چلے گئے۔
صلح جو اشخاص نے چاہا کہ معاملہ صاف ہو کر طے پا جائے۔ ابو الجبر باتمیمی نے حضرت عائشہ وغیرہ سے گفتگو کی۔سب نے ان کی رائے تسلیم کی اور یہاں سے بھی ہٹ کر دوسری جگہ پڑاؤ ڈالا۔ صبح ہوئی تو والی بصرہ کی فوج پھر سامنے تھی۔ حکیم راستہ سے گزر رہا تھا اور غصّہ میں حضرت عائشہؓ کو ناشائستہ کلمات کہہ رہا تھا ایک قیسی نے پوچھا یہ ناروا کلمے کس کی نسبت کہہ رہے ہو۔ بدتمیزی سے بولا عائشہؓ کی نسبت ۔ اس نے بیتاب ہو کر کہا اے خبیث ماں کے بچّے! یہ امّ المومنین کی شان میں کہتا ہے ! حکیم نے نیزہ مارا تو اس کے سینہ کے پار تھا۔ آگے بڑھا تو ایک عورت نے یہی سوال کیا۔اس کو بھی جواب نیزہ ہی کی زبان سے ملا۔ عبد القیس کا قبیلہ حکیم کے اس فعل سے ناراض ہو کر نا طرفدار بن گیا۔
مخالفین اب پورے طور پر تیار ہو چکے تھے، انہوں نے عام حملہ شروع کر دیا۔ حضرت عائشہؓ کی طرف سے منادی قسمیں دے دے کر روک رہا تھا لیکن وہ کسی طرح نہیں مانتے تھے۔ آخر ادھر بھی لوگ اپنا بچاؤ کرنے لگے اور لڑائی شروع ہو گئی۔ فوج میں عام منادی کر ا دی کہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کی سوا اور کسی سے تعرض نہ کیا جائے اس لئے عام لوگ ہتھیار ڈال دیں ۔ لیکن حکیم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور جنگ کو برابر جاری رکھا۔ ایک دستہ نے شب کو موقع پا کر چاہا کہ چھپ کر حضرت عائشہؓ کی منزل گاہ میں پہنچ جائے اور ان کا کام تمام کر دے۔ دہلیز تک پہنچ چکا تھا کہ راز فاش ہو گیا۔آخر جنگ کا خاتمہ اصلاح پسندوں کی کامیابی پر ہوا ۔ بصرہ پر قبضہ کر لیا گیا اور شہر کے اکثر باشندوں نے اطاعت قبول کر لی۔ بصرہ کے خزانے سے سپاہیوں کی تنخواہیں تقسیم ہوئیں ۔ کوفہ، دمشق ، مدینہ وغیرہ ممتاز شہروں میں فتح نامے بھیج دئے گئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جنگ کی نوبت کیوں آئی ؟

یہ جنگ بالکل اتفاقی تھی ، یہ سچ ہے کہ واقعہ کے لحاظ سے حضرت عائشہؓ کو سبائیوں کے اس دعویٰ سے انکار تھا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے وفات کے وقت حضرت علیؓ کے لئے خلافت کی وصیت فرمائی تھی ۔ انہیں شکایت اس بات کی تھی کہ خلیفۂ ثالث کے قاتلین کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ۔ انہیں پتہ نہ تھا کہ مدینہ میں ایک طوفان برپا تھا ، ہر طرف شورش تھی ، لوگ خوف زدہ تھے ، حکومت وجود میں نہ تھی اور قاتلانِ عثمان بلوائیوں میں مل جل گئے تھے ۔

جب حضرت عائشہؓ مکہ سے مدینہ واپس ہو رہی تھیں ، راستہ میں ان کے ایک عزیز ملے ، ان سے حالات دریافت کئے ، تو معلوم ہو ا کہ عثمانؓ شہید کر دیئے گئے اور علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے ، لیکن ہنوز فتنہ کی گرم بازاری ہے ، یہ خبر سن کر پھر مکہ واپس ہو گئیں ، لوگوں نے واپسی کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ عثمان مظلوم شہید کر دیئے گئے اور فتنہ دبتا ہوا نظر نہیں آتا اس لئے تم لوگ خلیفۂ مظلوم کا خون رائگاں نہ جانے دو اور قاتلوں سے قصاص لیکر اسلام کی عزت بچاؤ ۔ مدینہ میں فتنہ و فساد کے آثار دیکھ کر حضرت طلحہؓ و زبیرؓ بھی مکہ چلے گئے ، حضرت عائشہؓ نے ان سے بھی وہاں کے حالات دریافت کئے ، انہوں نے بھی شور و غوغا کی داستان سنائی ، ان کے بیان سے حضر ت عائشہؓ کے ارادوں میں اور تقویت ہو گئی اور انہوں نے خلیفۂ مظلوم کے قصاص کی دعوت شروع کر دی ۔

حقیقت یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب اور حضرت علیؓ کے بعض سیاسی احکام نے عام طور پر ملک میں بد ظنی پیدا کر دی تھی ، حضرت عثمان کے قاتلوں کو پتہ نہ لگنا ، ان کے اعداء کو اپنا معاون و انصار بنانا، اور مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ تمام عمال و حکام کو بر طرف کر دینا لوگوں کو بد ظن کر دینے کے لئے نہایت کافی تھا ۔ انہی وجوہات نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو بھی حضرت عثمانؓ کے قصاص پر آمادہ کر دیا ۔ اس وقت لوگ 3 گروہ میں تقسیم ہو گئے ۔ ایک خاموش اور غیر جانب دار ، دوسرا حضرت علیؓ کا طرف دار تھا اور تیسرا حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ وغیرہ کا حامی تھا ۔دونوں گروہ چاہ رہے تھے کہ جنگ نہ ہونے پائے لیکن دونوں فریقوں میں کچھ ایسے عناصر شامل تھے ، جن کے نزدیک یہ مصالحت ان کے حق میں سمّ قاتل تھی ، حضرت علی کی فوج میں سبائی انجمن کے ارکان اور حضرت عثمان کے قاتلوں کا گروہ شامل تھا ، اور حضرت عائشہؓ کی طرف کچھ اموی تھے ، حضرت عثمان کے قاتل اور سبائی سمجھے کہ اگر یہ مصالحت کامیاب ہو گئی ، تو ان کی خیر نہیں ، اس لئے انہوں نے رات کی تاریکی میں حضرت عائشہؓ کی فوج پر شبخون مارا ۔ گھبراہٹ میں فریقین نے یہ سمجھ کر کہ دوسرے فریق نے دھوکا دیا ، ایک دوسرے پر حملہ شروع کر دیا۔ ( خلفاء راشدین )
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جنگ جمل

حضرت علیؓ مدینہ منورہ سے 7 سو آدمی لے کر چلے تھے۔ کوفہ سے 7 ہزار آدمی ان کے ساتھ ہوئے اور بصرہ پہنچتے پہنچتے 20 ہزار کی جمعیت ہو گئی۔ادھر عائشہؓ کے ساتھ تیس 30 ہزار آدمی تھے۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے آ کر میدان جنگ میں خیمہ زن ہوئیں ۔ ہر قبیلہ خود اپنے قبیلہ کا مخالف بن کر اترا۔
یہ دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی تھیں ۔ ہر مسلمان کا دل خون تھا کہ کل تک جو تلواریں دشمنوں کے سر اُڑاتی تھیں ، اب وہ خود دوستوں کے سر و سینہ کو زخمی کریں گی۔ حضرت زبیر نے اس منظر کو دیکھا تو فرمایا، ’’آہ مسلمان جب زور و قوت میں پہاڑ بن گئے تو خود ٹکرا کر چور چور ہو جانا چاہتے ہیں ۔‘‘
تاہم دونوں طرف لوگوں کو یقین تھا کہ معاملہ جنگ تک طول نہ کھینچے گا بلکہ باہمی صلح سے طے ہو جائے گا۔چند نیک لوگوں نے صلح کی کوشش کی اور حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کو صلح پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اب ہر فریق مطمئن ہو گیا۔ جنگ و جدل کا خیال دلوں سے نکل گیا۔ صلح کے استحکام اور دیگر معاملات کے بہ آسانی طے ہو جانے میں کو ئی شک نہ رہا لیکن عثمانؓ کے قاتلوں کا جو فاسد عنصر ادھر شامل تھا یعنی سبائی فرقہ اس نے دیکھا کہ اگر حقیقت میں صلح ہو گئی تو ہم محفوظ نہیں رہ سکتے اور پھر ہماری برسوں کی محنت اکارت چلی جائے گی۔ دونوں فریق رات کے پچھلے پہر جب آرام کی نیند سو رہے تھے تو ان لوگوں نے پیش دستی کر کے شبخون مارا۔ دفعۃً ان چند شراروں نے ہر جگہ آگ لگا دی۔ حضرت علی لوگوں کو روک رہے تھے مگر کوئی نہیں سنتا تھا۔ ہر شخص بد حواس ہو کر ہتھیار کی طرف جھپٹ رہا تھا۔ہر فریق کے رئیس یہ سمجھے کہ دوسرے نے غفلت پا کر بد عہدی کی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صبح تک یہ ہنگامہ برپا رہا۔ شور و غل سُن کر عائشہؓ نے پوچھا کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ لوگوں نے جنگ شروع کر دی۔ بصرہ کے قاضی کعب بن سور نے حضرت عائشہ سے آ کر عرض کی کہ آپ سوار ہو کر چلیں شاید آپ کے ذریعہ سے لوگ صلح کر لیں ۔ وہ آہنی ہودج میں اونٹ پر سوار ہو کر اپنی فوج کے قلب میں آئیں ۔ کعب بن سور کو حضرت عائشہؓ نے اپنا قرآن دیا کہ لوگوں کو یہ دکھا کر صلح کی دعوت دو۔ وہ قرآن کھول کر دونوں صفوں کے درمیان کھڑے ہوئے۔ شریروں نے ایسا تیر مارا کہ جاں بحق ہو گئے۔انہیں ظالموں نے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو بھی دھوکے سے قتل کر دیا۔

سبائیوں کا ارادہ تھا کہ اگر حضرت عائشہؓ ہاتھ آ گئیں تو وہ سخت تحقیر کے ساتھ پیش آئیں گے۔ چنانچہ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کے بعد اہلِ کوفہ صرف اُن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے۔مگر ان کے طرفداروں نے ہر طرف سے سمٹ سمٹ کر ان کو اپنے حلقہ میں لیا۔ یہ لوگ مادر اسلام کی عزت و احترام کے لئے اپنی اپنی جانیں نثار کر رہے تھے۔ جوش کا یہ عالم تھا کہ بنو ضبّہ کا ایک ایک آدمی آگے بڑھتا اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر کھڑا ہو جاتا ، وہ کام آتا تو دوسرا اس فرض کو انجام دینے کو آگے بڑھتا ، وہ مارا جاتا تو تیسرا دوڑ کر نکیل تھام لیتا اسی طرح ستر آدمیوں نے اپنی جانیں دیں ۔

بنو ضبّہ کے کچھ لوگ ادھر بھی شریک تھے۔یہ دیکھ کر کہ اونٹ اگر ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا تو ہمارا قبیلہ اسی طرح کٹ کٹ کر مر جائے گا ۔ ایک اجنبی پیچھے سے آیا اور اونٹ کے پچھلے پاؤں پر ایسی تلوار ماری کہ اونٹ دھم سے گر پڑا۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اور محمد بن ابی بکرؓ نے دوڑ کر ہودج کو سنبھالا۔ محمد بن ابی بکرؓ نے اندر ہاتھ لے جا کر دیکھنا چاہا کہ کہیں زخم تو نہیں آیا۔ حضرت عائشہؓ نے ڈانٹا کہ یہ کس ملعون کا ہاتھ ہے۔ محمد بن ابی بکرؓ نے کہا ’’تمہارے بھائی کا‘‘ بہن! کوئی چوٹ تو نہیں آئی۔ فرمایا تم محمد نہیں مذمم ہو۔ اتنے میں حضرت علیؓ پہنچے انہوں نے خیریت دریافت کی۔حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ’’اچھی ہوں ‘‘۔
محمد بن ابی بکر حضرت ابوبکر کے چھوٹے صاحب زادے اور حضرت عائشہؓ کے علّاتی بھائی تھے ان کی ماں حضرت ابوبکر کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں تھیں ، اس لئے حضرت علیؓ ہی کی آغوش میں انہوں نے تربیت پائی تھی اور حضرت علیؓ بھی ان کو بیٹوں کیطرح چاہتے تھے۔
حضرت علیؓ نے حضرت عائشہؓ کو ان کے طرفدار رئیس کے گھر میں اتارا۔اس کے بعد بحرمت تمام محمد بن ابی بکر کی نگرانی میں 40 معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو حجاز کی طرف رخصت کیا۔ عام مسلمانوں نے اور خود حضرت علیؓ دور تک ساتھ گئے۔ امام حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی میلوں تک ساتھ گئے۔ چلتے وقت تمام مجمع کے سامنے حضرت عائشہؓ نے اقرار کیا کہ مجھ کو علیؓ سے نہ کسی قسم کی کدورت تھی اور نہ اب ہے۔ ہاں ساس داماد میں کبھی کبھی جو بات ہو جایا کرتی ہے اس کی نفی نہیں کرتی ۔ حضرت علیؓ نے بھی اسی قسم کے الفاظ فرمائے۔اس کے بعد یہ مختصر قافلہ حجاز کی طرف روانہ ہوا۔
حج کے چند مہینے باقی تھے۔ اتنے عرصے تک حضرت عائشہؓ نے مکہ معظمہ میں بسر کیا۔ پھر وہ بدستور روضۂ نبوی کی مجاور تھیں اور اپنی اس اجتہادی غلطی پر کہ اصلاح کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا تھا وہ کہاں تک مناسب تھا انکو عمر بھر افسوس رہا۔
وفات کے وقت انہوں نے وصیّت کی کہ مجھے روضۂ نبوی میں آپؐ کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بقیع میں اور ازواج کے ساتھ دفن کرنا۔ میں نے آپؐ کے بعد ایک جرم کیا ہے۔ جب وہ یہ آیت پڑھتی تھیں :
وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنًّ (احزاب۔4)
’’ اے پیغمبر کی بیویو! اپنے گھروں میں ٹھہری رہو‘‘ تو اس قدر روتی تھیں کہ آنچل تر ہو جاتا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حضرت معاویہؓ کا زمانہ

حضرت علیؓ کی خلافت کی مدّت 4 برس ہے۔ اس کے بعد امیر معاویہؓ نے تختِ حکومت پر قدم رکھا اور تقریباً 20 برس پوری اسلامی دنیا کے اکیلے فرماں روا رہے۔ ان کی حکومت کے اختتام سے 2 برس پہلے حضرت عائشہ نے وفات پائی۔ اس حساب سے امیر معاویہؓ کی حکومت میں انہوں نے اپنی زندگی کے 18 سال بسر کئے اور یہ پورا زمانہ حضرت عائشہؓ نے جزئی اوقات کے سوا خاموشی میں گزارا۔
ایک دفعہ امیر معاویہؓ مدینہ منورہ آئے تو حضرت عائشہ سے ملنے گئے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا ’’تم اس طرح بے خطر تنہا میرے گھر آ گئے، ممکن تھا کہ میں کسی کو چھپا کر کھڑا کر دیتی کہ جیسے ہی تم آتے وہ تمہارا سر اڑا دیتا‘‘ امیر معاویہ نے کہا یہ دار الامن ہے یہاں آپ ایسا نہیں کر سکتی تھیں ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ایمان قتل ناگہانی کی زنجیر ہے۔ پھر دریافت کیا میرا برتاؤ آپ کے ساتھ کیسا ہے؟ بولیں ’’ ٹھیک ہے‘‘۔امیر معاویہ نے کہا کہ پھر میرا اور ان کا (بنو ہاشم) معاملہ چھوڑ دیجئے، خدا کے یہاں سمجھا جائیگا۔

امیر معاویہ نے ایک دفعہ ان کو خط لکھا کہ مجھ کو مختصر سی نصیحت کیجئے۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں لکھا ’’سلام علیکم، اما بعد میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کہتے سنا ہے کہ جو شخص انسانوں کی نا رضا مندی کی پرواہ نہ کر کے خدا کی رضا مندی چاہے گا خدا انسانوں کی نا رضا مندی کے نتائج سے اس کو محفوظ رکھے گا اور جو خدا کو نا رضا مند کر کے انسانوں کی رضا مندی کا طلب گار ہو گا، خدا اس کو انسانوں کے ہاتھ میں سونپ دے گا۔ والسلام علیک‘‘۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وفات

امیر معاویہؓ کی خلافت کا آخری حصہ حضرت عائشہؓ کی زندگی کا اخیر زمانہ ہے۔ اس وقت ان کی عمر 67برس کی تھی۔ 58 ھ میں رمضان کے زمانے میں بیمار پڑیں ، چند روز تک علیل رہیں ۔ کوئی خیریت پوچھتا فرماتیں اچھی ہوں ۔ جو لوگ عیادت کو آتے، بشارت دیتے۔ فرماتیں ’’اے کاش میں پتھر ہوتی ، اے کاش میں کسی جنگل کی جڑی بوٹی ہوتی‘‘ ۔
مرض الموت میں وصیّت کی کہ اس حجرہ میں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ مجھے دفن نہ کرنا۔ مجھ کو دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں دفن کرنا اور رات ہی کو دفن کر دی جاؤں ، صبح کا انتظار نہ کیا جائے۔ 58 ھ تھا اور رمضان کی17 تاریخ مطابق جون 678ء تھی کہ نماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔ ماتم کا شور سن کر انصار اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنا مجمع نہیں دیکھا گیا۔ حضرت امِّ سلمہؓ نوحہ اور ماتم سن کر بولیں کہ عائشہؓ کے لئے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سب سے پیاری بیوی تھیں ۔

حضرت ابوہریرہؓ ان دنوں مدینہ کے قائم مقام حاکم تھے۔ انہوں نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر ، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرؓ ، عبداللہ بن ابی بکرؓ ، عبد اللہ بن عتیق ، عروہ بن زبیرؓ اور عبد اللہ ابن زبیرؓ بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا اور حسبِ وصیّت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔ مدینہ میں قیامت برپا تھی کہ آج حرمِ نبوت کی ایک اور شمع بجھ گئی۔ ایک مدنی سے لوگوں نے پوچھا کہ حضرت عائشہؓ کی وفات کا غم اہلِ مدینہ نے کتنا کیا، جواب دیا جس جس کی وہ ماں تھیں (یعنی تمام مسلمان) اسی کو ان کا غم تھا۔
حضرت عائشہؓ نے اپنے بعد کچھ متروکات چھوڑے جن میں ایک جنگل بھی تھا۔ یہ ان کی بہن حضرت اسماءؓ کے حصہ میں آیا۔ امیر معاویہؓ نے تبرّکاً اس کو ایک لاکھ درہم میں خریدا۔ حضرت اسماء نے یہ کثیر رقم عزیزوں میں تقسیم کر دی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اخلاق و عادات

حضرت عائشہؓ ان لڑکیوں میں تھیں جو جسمانی طور پر بہت جلد بڑھ جاتی ہیں ۔9 دس برس میں وہ اچھی خاصی بالغ ہو گئی تھیں ۔ لڑکپن میں وہ دبلی پتلی چھریری سی تھیں ۔جب سن کچھ زیادہ ہوا تو کسی قدر بدن بھاری ہو گیا تھا۔ رنگ سرخ و سفید تھا اور وہ نہایت خوبصورت تھیں ۔
ام المومنین حضرت عائشہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لئے آئی تھی اور جس کے اخلاق کو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن میں اخلاق کا سب سے اونچا مرتبہ قرار دیا ہے۔ رسول اللہ کی تربیت نے ازواج مطہرات کو حسن اخلاق کے اس رتبہ تک پہنچا دیا تھا جو انسانیت کی روحانی ترقی کی آخری منزل ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہؓ صدیقہ کا اخلاقی مرتبہ کافی بلند تھا۔ وہ نہایت سنجیدہ ، سخی، قناعت پسند ، عبادت گزار اور رحم دل تھیں ۔ انہوں نے اپنی ازدواجی زندگی جس تنگی اور فقر و فاقہ میں بسر کی ۔لیکن وہ کبھی شکایت کا کوئی حرف زبان پر نہ لائیں ۔ بیش بہا لباس ، گراں قیمت زیور ، عالیشان عمارت ، لذیذ الوانِ نعمت ، ان میں سے کوئی چیز شوہر کے یہاں ان کو حاصل نہیں ہوئی اور دیکھ رہی تھیں کہ فتوحات کا خزانہ سیلاب کی طرح ایک طرف سے آتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے۔ تاہم کبھی ان کی طلب بھی ان کو دامن گیر نہیں ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد ایک دفعہ انہوں نے کھانا طلب کیا پھر فرمایا میں کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتی کہ مجھے رونا نہ آئے۔ ان کے ایک شاگرد نے پوچھا یہ کیوں ؟ فرمایا مجھے وہ حالت یاد آتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا چھوڑا۔ خدا کی قسم دن میں 2 دفعہ کبھی سیر ہو کر آپؐ نے روٹی اور گوشت نہیں کھایا۔
 
Top