• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرتِ عائشہ (رضی اللہ عنہا)

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عبادتِ الٰہی

عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہتیں ۔ چاشت کی نماز پڑھا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئے اور مجھ کو منع کرے تو میں باز نہ آؤں ۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرتیں تھیں ۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی اس قدر پابند تھیں کہ اگر اتفاق سے آنکھ لگ جاتی اور وقت پر نہ اٹھ سکتیں تو سویرے اٹھ کر نماز فجر سے پہلے تہجد ادا کر لیتیں ۔ ایک دفعہ اسی موقعہ پر ان کے بھتیجے قاسم پہنچ گئے تو انہوں نے دریافت کیا کہ پھوپھی جان یہ کیسی نماز ہے؟ فرمایا رات کو نہیں پڑھ سکی اور اب اس کو چھوڑ نہیں سکتی ہوں ۔ رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتی تھیں ۔ ذکوان نام کے انکے ایک خواندہ غلام تھے وہ امام ہوتے تھے۔ سامنے قرآن رکھ کر پڑھتے تھے اور یہ مقتدی ہوتیں ۔
اکثر روزہ رکھا کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ گرمی کے دنوں میں عرفہ کے روز روزے سے تھیں ۔ گرمی اور تپش اس قدر شدید تھی کہ سر پر پانی کے چھینٹے دیئے جاتے تھے۔ عبد الرحمن آپ کے بھائی، نے کہا کہ اس گرمی میں روزہ کچھ ضروری نہیں ، افطار کر لیجئے ۔ فرمایا کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانی یہ سن چکی ہوں کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنا سال بھر کے گناہ معاف کرا دیتا ہے تو میں روزہ توڑوں گی؟ حج کی شدت سے پابند تھیں کوئی ایسا سال بہت کم گزرتا تھا جس میں وہ حج نہ کرتی ہوں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
معمولی باتوں کا لحاظ

جو چیزیں منع ہیں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں تک سے بھی پرہیز کرتی تھیں ۔کبھی راستہ میں اگر ہوتیں اور گھنٹے کی آواز آتی تو ٹھہر جاتیں کہ کان میں اس کی آواز نہ آئے۔ انکے ایک گھر میں کچھ کرایا دار تھے جو شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ ان کو کہلا بھیجا کہ اگر اس حرکت سے باز نہ آؤ گے تو گھر سے نکلوا دوں گی۔
ایک دفعہ گھر میں ایک سانپ نکلا اس کو مار ڈالا۔کسی نے کہا آپ نے غلطی کی ممکن ہے کہ یہ کوئی مسلمان جن ہو۔ فرمایا اگر یہ مسلمان ہوتا تو امہات المومنین کے حجروں میں نہ آتا۔ اس نے کہا جب وہ آیا آپ ستر پوشی کی حالت میں تھیں ۔ یہ سُن کر متاثر ہوئیں اور اس کے فدیہ میں ایک غلام آزاد کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غلاموں پر شفقت

صرف ایک قسم کے کفارہ میں ایک دفعہ انہوں نے 40 غلام آزاد کئے۔ آپ کے کل آزاد کئے ہوئے غلاموں کی تعداد 67 تھی۔ تمیم کے قبیلہ کی ایک لونڈی انکے پاس تھی۔ ایک بار آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنا کہ یہ قبیلہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کی اولاد میں سے ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارہ سے اس کو آزاد کر دیا۔ بریرہ نام کی مدینہ میں ایک لونڈی تھی۔ ان کے مالکوں نے ان کو مکاتب کیا تھا یعنی یہ کہہ دیا تھا کہ اگر تم اتنی رقم جمع کر دو تو آزاد ہو۔ اس رقم کیلئے انہوں نے لوگوں سے چندہ مانگا۔ حضرت عائشہؓ نے سنا تو پوری رقم اپنی طرف سے ادا کر کے ان کو آزاد کر دیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فقراء کی ان کی حیثیت کے مطابق مدد

فقراء اور اہلِ حاجت کی مدد ان کے حسب حیثیت کرنا چاہئے۔ اگر کسی نیچے طبقہ کا آدمی تمہارے پاس آتا ہے تو اس کی حاجت پوری کر دینا کافی ہے لیکن اگر کسی بلند درجہ کا آدمی ہے تو وہ اس کے ساتھ کسی قدر عزت و تعظیم کا بھی مستحق ہے۔حضرت عائشہ اس نکتہ کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں ۔ ایک دفعہ ایک معمولی سائل آیا۔ اس کو روٹی کا ٹکڑا دے دیا وہ چلا گیا۔اس کے بعد ایک اور شخص آیا جو کپڑے و پڑے پہنے تھا اور کسی قدر عزت دار معلوم ہوتا تھا۔ اس کو بٹھا کر کھانا کھلایا اور پھر رخصت کیا۔ لوگوں نے عرض کی کہ ان دونوں آدمیوں کے ساتھ دو قسم کے برتاؤ کیوں کئے گئے؟ فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے حسبِ حیثیت برتاؤ کرنا چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پردہ کا اہتمام

پردہ کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ آیت حجاب کے بعد تو تاکیدی فرض تھا۔ جن ہونہار طالب علموں کا اپنے یہاں بے روک ٹوک آنا جانا روا رکھنا چاہتی تھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک خاص حدیث کے مطابق اپنی کسی بہن یا بھانجی سے ان کو دودھ پلوا دیتی تھیں اور اس طرح ان کی رضاعی خالہ یا نانی بن جاتی تھیں اور ان سے پھر پردہ نہیں ہوتا۔ ورنہ ہمیشہ طالب علموں کے اور ان کے درمیان پردہ پڑا رہتا تھا۔ ایک دفعہ حج کے موقع پر چند بیویوں نے عرض کی کہ ام المومنین چلئے حجر اسود کو بوسہ دے لیں ۔ فرمایا تم جا سکتی ہو،میں مردوں کے ہجوم میں نہیں جا سکتی۔ کبھی دن کو طواف کا موقع پیش آتا تو خانۂ کعبہ مردوں سے خالی کر لیا جاتا تھا۔ اسحٰق تابعی نا بینا تھے۔ وہ خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے ان سے پردہ کیا۔ وہ بولے کہ مجھ سے کیا پردہ میں تو آپ کو دیکھتا نہیں ۔ فرمایا تم مجھے نہیں دیکھتے تو میں تو تمہیں دیکھتی ہوں ۔ مُردوں سے شریعت میں پردہ نہیں لیکن ان کا کمالِ احتیاط دیکھئے کہ وہ اپنے حجرہ میں حضرت عمرؓ کے دفن ہونے کے بعد بے پردہ نہیں جاتی تھیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مناقب


انا تارک فیکم الثقلین اولھا کتاب اللہ واھل بیتی:
’’میں تمہارے درمیان دو عظیم الشان چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اہلِ بیت۔‘‘
مقصد یہ ہے کہ کتاب الٰہی گو اپنی سہولت بیان کے لحاظ سے ہر عملی مثال سے بے نیاز ہے۔ تاہم دنیا میں ہمیشہ ایسے اشخاص کی ضرورت رہے گی جو اس کے اسرار و رموز کو حل کر سکیں اور ان کی علمی و عملی تعبیر بتا سکیں ۔ آپ کے بعد ان اشخاص کو آپ کے اہل بیت میں تلاش کرنا چاہئے۔
اس قدر شناسی کے لحاظ سے جو آپ حضرت عائشہ کے بابت فرماتے تھے ، اس صحبت و تعلیم کی بناء پر جو ان کو میسر آتی تھی اور اس فطری جو ہر اور صلاحیت کے لحاظ سے جو قدرت کاملہ نے ان کو عطا کی تھی، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا کہ اہلِ بیتِ نبوی میں حضرت عائشہؓ کو خاص مرتبہ حاصل تھا۔ اس بناء پر کتاب اللہ کا ترجمان، سنتِ رسول کا معتبر اور احکام اسلامی کا معلّم ان سے بہتر کون ہو سکتا تھا۔ اور لوگ پیغمبر کو صرف جلوت میں دیکھتے تھے اور یہ خلوت و جلوت دونوں میں دیکھتی تھیں ۔
خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچے خواب نے ان کے حرمِ نبوی میں ہونے کی خوش خبری سنائی۔حضرت عائشہؓ کے بستر کے سوا کسی دوسری ام المومنین کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی۔ جبرئیل امین نے ان کے آستانہ پر اپنا سلام بھیجا۔ 2 بار جبرئیل امین کو اِن آنکھوں نے دیکھا۔ وحی الٰہی نے ان کی عفت و عصمت پر شہادت دی۔ نبوت کے الہام صادق نے ان کو آخرت میں پیغمبر کی چہیتی بیویوں میں ہونے کی بشارت سنائی۔
حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ میں فخر نہیں کرتی بلکہ بطور واقعہ کے کہتی ہوں کہ خدا نے مجھ کو 9 باتیں ایسی عطا کی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی اور کو نہیں ملی۔ خواب میں فرشتے نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے میری صورت پیش کی، جب میں 7 برس کی تھی تو آپؐ نے مجھ سے نکاح کیا، جب میرا سن 9 برس کا ہوا تو رخصتی ہوئی، میرے سوا کوئی اور کنواری بیوی آپؐ کی خدمت میں نہ تھی، آپؐ جب میرے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی، میں آپؐ کی محبوب ترین بیوی تھی، میری شان میں قرآن کی آیتیں اتریں ، میں نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپؐ نے میری ہی گود میں سر رکھے ہوئے وفات پائی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علم و اجتہاد

علمی حیثیت سے حضرت عائشہؓ کو نہ صرف عام عورتوں پر نہ صرف امہاتؓ المونین پر نہ صرف خاص خاص صحابیوں پر ، بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ پر فوقیت عام حاصل تھی۔ حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی کہ جس کو ہم نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں ۔
امام زہری جو تابعین کے پیشوا تھے اور جنہوں نے بڑے بڑے صحابہ کے آغوش میں تربیت پائی تھی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں ۔ بڑے بڑے صحابہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔
ایک دن امیر معاویہؓ نے ایک درباری سے پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے، اس نے کہا ’’امیر المومنین آپ ہیں ‘‘۔انہوں نے کہا نہیں میں قسم دیتا ہوں سچ سچ بتاؤ۔اس نے کہا ’’اگر یہ ہے تو عائشہؓ‘‘۔
یہ حضرت عائشہ کا رتبہ علم کتاب و سنت اور فقہ و احکام میں اس قدر بلند ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ ، علیؓ مرتضی، عبد اللہؓ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباسؓ کے ساتھ بے تکلف ان کا نام لیا جا سکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علم قرآن

سب کو معلوم ہے کہ قرآن مجید 23 سال کے اندر نازل ہوا ، حضرت عائشہؓ نبوت یا نزول کے چودہویں سال 9 برس کی عمر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں آئیں ، اس لئے ان کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ رہنے کا زمانہ تقریباً 10 سال ہے ، اس سے ظاہر ہو گا کہ نزول قرآن کا آدھا حصہ ان کے ابتدائے ہوش سے پہلے کا واقعہ ہے، لیکن اس غیر معمولی دل و دماغ کی ہستی نے اس زمانہ کو بھی جو عموماً طفلانہ بے خبری کھیل کود زمانہ کاہے، رائگاں نہیں کیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) روزانہ بلا ناغہ حضرت صدیقؓ کے گھر تشریف لاتے تھے، حضرت صدیق نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنا لی تھی اس میں بیٹھ کر نہایت رقت اور خشوع کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے ، ناممکن ہے کہ ان موقعوں سے حضرت عائشہؓ کے فو ق الفطرۃ حافظہ نے فائدہ نہ اٹھایا ہو، فرماتی تھیں کہ جب یہ آیت اترتی تھی:
’’بَلِ السَّاعَۃُ مَوعِدُہُم و السَّاعَۃُ اَدھٰی وَ اَمَرّ‘‘
’’بلکہ قیامت کا روز ان کے وعدہ کا دن ہے، وہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہو گی۔‘‘
تو میں کھیل رہی تھی۔
حضرت عائشہؓ کو 13، 14 برس کے سن تک ( 5 ھ تک) قرآن زیادہ یاد نہ تھی، خود اس کا اقرار کرتی ہیں :
واناجاریۃ حدیثۃ السن لا اقرء من القرآن کثیراً۔ ’’میں اس وقت کمسن تھی، زیادہ قرآن پڑھی ہوئی نہیں تھی۔‘‘
لیکن اس عالم میں بھی وہ قرآن ہی کا حوالہ دیتی تھیں ۔
ابو یونس حضرت عائشہؓ کے ایک غلام تھے، جو لکھنا جانتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے اُن کے ہاتھ سے اپنے لئے قرآن لکھوایا تھا۔
عراق کے ایک صاحب ان سے ملنے آئے ، تو درخواست کی کہ ام المومنین! مجھے اپنا قرآن دکھائیے، وجہ دریافت کی تو کہا ہمارے ہاں قرآن اب تک لوگ بے ترتیب پڑھتے ہیں ، چاہتا ہوں کہ اپنے قرآن کی ترتیب آپ ہی کے قرآن کے مطابق کر دوں ، فرمایا سورتوں کے آگے پیچھے ہونے میں کوئی نقصان نہیں پھر اپنا قرآن نکال کر ہر سورہ کی سرِ آیات پڑھ کر لکھوا دیں ۔
عادت یہ تھی کہ جس آیت کریمہ کا مطلب سمجھ میں نہ آتا ، خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کر لیتیں ، چنانچہ صحیح حدیثوں میں متعدد آیتوں کی نسبت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان کاسوال مذکور ہے، امہات المومنین کو خدا کی طرف سے حکم تھا۔
واُذْ کُرْنَ ما یُتْلٰی فِی بُیوتِکُنَّ مِن آیاتِ اللہِ وَالْحِکْمَۃ (احزاب۔4)
’’تمہارے گھروں میں خدا کی جو آیت اور حکمت کی جو باتیں پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں ان کو یاد کرو۔‘‘
اس حکم کی تعمیل بھی ضروری تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) تہجد میں قرآن مجید کی بڑی بڑی سورتیں نہایت غور و فکر اور خشوع و خضوع سے تلاوت فرماتے۔ حضرت عائشہؓ ان نمازوں میں آپؐ کے پیچھے ہوتیں ۔ فرماتی ہیں کہ سورہ بقرہ اور سورہ نساء اتری تو میں آپؐ کے پاس تھی، غرض یہ اسباب و مواقع ایسے تھے کہ عائشہؓ کو قرآن مجید کی ایک ایک آیت کی طرزِ قرأت اور معانی پر عبور کامل ہو گیا تھا، وہ ہر مسئلہ کے جواب کے لئے پہلے عموماً قرآن پاک کی طرف رجوع کرتی تھیں ، عقائد و فقہ و احکام کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اخلاق و سوانح کو بھی جو ان کے سامنے کی چیزیں تھیں ، وہ قرآن ہی کے حوالہ کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ چند صاحب زیارت کو آئے ، عرض کیا کہ ام المومنین! حضور انور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کچھ اخلاق بیان فرمائے ، بولیں کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ، آپؐ کا اخلاق سر تا پا قرآن تھا، پھر دریافت کیا کہ آپؐ کی عبادتِ شبانہ کا کیا طریقہ تھا، فرمایا ، کیا سورۂ مزمل نہیں پڑھا؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چند ایسی آیتوں کی تفسیر جس میں خاص نکتہ ہے نیچے درج کی جاتی ہیں :
قرآن مجید کی ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے:
’’صفا اور مروہ کی پہاڑیاں ، شعائرِ الٰہی میں سے داخل ہیں ، پس جو خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے کچھ مضائقہ نہیں ، اگر ان کا بھی وہ طواف کرے۔‘‘
عروہ نے کہا خالہ جان ! اس کے تو یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی طواف نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں ، فرمایا، بھانجے! تم نے ٹھیک نہیں کہا ، اگر آیت کا مطلب وہ ہوتا ، جو تم سمجھے ہو تو خدا یوں فرماتا اگر ان کا طواف نہ کرو کچھ حرج نہیں ، اصل میں یہ آیت انصار کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ اوس و خزرج اسلام سے پہلے مناۃ کو پکارا کرتے مناۃ مشلل میں نصب تھا، اس لئے صفا اور مروہ کا طواف بُرا جانتے تھے۔اسلام لائے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے، اب کیا حکم ہے؟ اس پر خدا نے ارشاد فرمایا کہ ’’صفا مروہ کا طواف کرو، اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں ‘‘ اس کے بعد انہوں نے کہا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صفا و مروہ کا طواف فرمایا ہے۔ اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا حق نہیں ۔
ان کو حضرت عائشہؓ کی یہ تقریر معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا ’’علم اس کو کہتے ہیں ‘‘۔
جس آیت پاک میں چار بیویوں تک کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :
واِنْ خِفْتُم الاّ تُقْسِطُوا فِی الْیَتَمٰی فَانْکِحُوا مَاطَابَ لَکُم مِن النِّسَاٰءِ مَثنٰی وثُلٰثَ ورُبٰعَ(نساء۔1)
’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں تم انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے دو2 دو2 ،تین3 تین 3 ، چار4 چار 4 سے نکاح کر لو اگر عدل نہ ہو تو 1۔‘‘
بظاہر آیت کے پہلے اور پچھلے ٹکڑوں میں باہم ربط نہیں معلوم ہوتا ، یتیموں کے حقوق میں عدم انصاف اور نکاح کی اجازت میں باہم کیا مناسبت ہے؟ ایک شاگرد نے ان کے سامنے اس اشکال کو پیش کیا، فرمایا ’’ آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ بعض لوگ یتیم لڑکیوں کے ولی بن جاتے ہیں ، ان سے موروثی رشتہ داری ہوتی ہے، وہ اپنی ولایت کے زور سے چاہتے ہیں کہ اس سے نکاح کر کے اس کی جائداد پر قبضہ کر لیں اور چونکہ اس کی طرف سے کوئی بولنے والا نہیں ہے، اس لئے مجبور پا کر اس کو ہر طرح دباتے ہیں ۔ خدائے پاک ان مردوں کو خطاب کرتا ہے کہ تم ان یتیم لڑکیوں کے معاملہ میں انصاف سے پیش نہ آ سکو تو ان کے علاوہ اور عورتوں سے2، 3، 4 نکاح کر لو ، مگر ان یتیم لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لے کر اپنے بس میں نہ لے آؤ۔‘‘
عورت کو اگر اپنے شوہر سے شکایت ہو تو اس موقع کی آیت ہے:
وَاِنْ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِن بَعْلِھَا نُشُوزاً اَو اِعرَاضاً فلَا جُنَاحَ عَلَیھِما اَن یُّصلِحَا بَینَھُمَا صُلحاً و الصُّلحُ خَیر(نساء ۔19)
’’اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے نا رضامندی اور اعراض کا خوف ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کر لیں اور صلح تو ہر حال میں بہتر ہے‘‘۔
ناراضی دور کرنے کے لئے صلح کر لینا تو بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے، اس کے لئے خدائے پاک کو اس خاص حکم کے نزول کی کیا ضرورت تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’آیت اس عورت کی شان میں ہے، جس کا شوہر اُس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں یا بیوی سن سے اتر گئی ہے اور شوہر کی خدمت گزاری کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس خاص حالت میں اگر بیوی طلاق لینا پسند نہ کرے اور بیوی رہ کر شوہر کو اپنے حق سے سبکدوش کر دے تو باہمی مصالحت بُری نہیں ، بلکہ قطعی علیحدگی سے یہ صلح بہتر ہے،غرض اس طرح کے بہت سارے تفسیری نکتے ہیں جسے حضرت عائشہؓ نے اپنے خدا داد فہم سے واضح فرمایا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علمِ حدیث

حدیث کا معاملہ خاص نبیؐ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے فطری طور پر جو سب سے زیادہ آپؐ کی صحبت میں رہا اس نے زیادہ حدیث سیکھی۔ابھی اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت عائشہؓ کو نہ صرف دیگر صحابہ کرام بلکہ خود دیگر ازواج مطہرات کے مقابلے سب سے زیادہ فیض حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ نہ صرف ازواج مطہرات ، نہ صرف عام عورتوں بلکہ مردوں میں بھی 4، 5 کے سوا کوئی ان کے برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
نام تعداد روایات
۱۔ حضرت ابو ہریرۃؓ 5364
۲۔ حضرت ابنِ عمرؓ 2630
۳۔ حضرت انسؓ 2286
۴۔ حضرت عائشہؓ 2210
۵۔ حضرت ابنِ عباسؓ 1660
۶۔ حضرت جابرؓ 1540
۷۔ حضرت ابو سعید خدریؓ 1170
معلوم ہوا کہ کثرتِ روایت میں حضرت عائشہؓ کا چوتھا نمبر ہے، جن لوگوں کا نام اُن سے اوپر ہے ان میں سے اکثر ام المومنین کے بعد بھی زندہ رہے ہیں اور ان کی روایت کا سلسلہ چند سال اور جاری رہا ہے، اس کے بعد حضرت عائشہؓ کی نسبت اگر یہ بھی لحاظ رہے کہ وہ ایک پردہ نشین خاتون تھیں اور اپنے مرد معاصرین کی طرح نہ وہ ہر مجلس میں حاضر رہ سکتی تھیں اور نہ مسلمان طالبینِ علم ان تک ہر وقت پہنچ سکتے تھے اور نہ ان بزرگوں کی طرح ممالک اسلامیہ کے بڑے بڑے شہروں میں ان کا گزر ہوا، تو ان کی حیثیت ان سبع سیاروں میں سب سے زیادہ روشن نظر آئے گی۔
 
Top