• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرحِ صدر کے اَسباب

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شرحِ صدر کے اَسباب

فضیلہ الشیخ عبد العزیز سدحان
مترجم: اَبو القاسم سیاف​
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کیلئے اسباب اور مُسبّبات پیدا کئے جو اس کی قلبی وبدنی زندگی کی اصلاح کے ضامن ہیں۔ دُنیا میں انسان کو ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں کشادگی وفراوانی پر خوش ہوتا ہے وہاں اسے تنگی ترشی میں اپنے نفس کو راضی کرنا پڑتا ہے اس طرح انسان مسلسل مختلف حالات کا مقابلہ کرتا رہتا ہے، ارشادِ باری ہے:
{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِی کَبَدٍ } [البلد: ۴]
’’دَر حقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا۔‘‘
کہیں تو وہ اپنے نفس کے ساتھ برسرِپیکار ہوتا ہے، کہیں اسے شیطانی وساوِس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورکبھی وہ زندگی کے مصائب اور ہولناکیوں سے نبرد آزما ہوتا ہے، اسی کشمکش میں کبھی وہ غالب ہوتا ہے تو کبھی مغلوب، کبھی خوش ہوتاہے تو کبھی غمگین اور کبھی ہنستا ہے تو کبھی روتا ہے۔ اسی حالت میں اس کے شب وروز گزر جاتے ہیں۔ گمراہ لوگ سستی کا راستہ اَپناتے ہیں اور سمجھدار لوگ اپنے نفسوں پر مجاہدے کی بدولت دوسروں پر سبقت لے جاتے ہیں۔
زندگی کی انہیں حالتوں میں سے ایک حالت ایسی بھی ہے جس سے اکثر لوگ دوچار ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی بھی شخص اس کیفیت سے محفوظ نہیں ہے تو بے جا نہ ہوگا، اور وہ سینے کی تنگی ہے۔ یہ دلی تنگی اور بے چینی جو کبھی بے خوابی تک پہنچ جاتی ہے، ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہم میںسے ہر ایک کو لاحق ہوتا ہے، کچھ لوگ لمبی مدت اس کے گھیرے میں رہتے ہیں اور کچھ تھوڑی مدت کیلئے۔ جب کبھی بندے کو یہ حالت لاحق ہوتی ہے تو وہ غمگین اور مایوس نظر آتا ہے، اس کی حالت یکسر بدل جاتی ہے، اس کا دل بے چین ہو جاتا ہے، کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، روتا ہے اور اُداس، وحشت زدہ اور پریشان ہوجاتا ہے اور وہ ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے نفس کو مشقت میں ڈالنے کی بجائے جس مجلس یا محفل میں بیٹھتا ہے اپنا گریبان چاک کرتا ہے۔ اُس کا ہم نشین اور اس کو دیکھنے والا ہر شخص اس پر رنج واَلم کا لبادہ محسوس کرتا ہے، جو اللہ ہی جانتا ہے۔ وہ اپنے تمام تر اِحساسات کے ساتھ شیطان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے تو وہ اس کے سامنے کشادگی اور خوشحالی کے دروازے بند کردیتاہے اور نا اُمیدی، مایوسی اور شکوے اس پر مسلط کردیتا ہے۔ بعض شیطان کے دھوکے کی دلدل میں زیادہ دھنس جاتے ہیں، اور قریب ہوتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی چالوں، مثلاً بیوی کو طلاق دینا، اس کا نفقہ بند کرنا اور اپنی منزل کو چھوڑ دینا وغیرہ، میں پھنسا کر اس کی زندگی کے دھارے کو ہی بدل ڈالے، حتیٰ کہ بعض اوقات اُس کا معاملہ خودکشی تک پہنچ جاتا ہے جو شیطان کے سنگین دھوکے پر دلالت کرتا ہے۔
اس غم کے حسی اور معنوی اسباب ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اَوقات یہ غم انسان پر اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں کہ اسے ان کے اسباب بھی معلوم نہیں ہوتے۔
المختصر یہ کہ دل کی تنگی انسان کو بعض اوقات اندیشوں اور وسوسوں میں مبتلا کردیتی ہے نتیجتاً یہ بے چارہ شیطان کے فریب کا اَسیر ہو کر رہ جاتا ہے اور شیطان کے زبردست دھوکے اور اس کے بالمقابل اپنی کمزور جد وجہد کی وجہ سے اُس کا قیدی بن جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مسلمانوں کامعاشرہ
اکثر مسلمانوں کو جب یہ حالات دَر پیش ہوتے ہیں تو اُن کی عبادات اور اخلاقیات پر اَثر انداز ہوتے ہیں۔ بہت موزوں ہے کہ اُن اسباب پر بحث وتحقیق کی جائے جو شرحِ صدر کیلئے ممد ومعاوِن ثابت ہوں اور گمراہیوں کے پردے کو چاک کرتے ہوئے انسان کو قلبی اطمینان اور روحانی تسکین کا احساس دِلائیں۔ تو ہم اللہ رب العزت کی توفیق سے کلام کاآغاز کرتے ہیں:
شرحِ صدر کے اَسباب تو بہت زیادہ ہیں، لیکن ان میں سے یہاں صرف آٹھ پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ باقی اسباب بھی انہی میں مُتضمّن ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1 قوتِ توحید
بلاشک وشبہ شرحِ صدر اور غموں سے چھٹکارے کیلئے بڑے اسباب میں سے، بلکہ سب سے اہم اور روشن سبب قوتِ توحید اور اللہ کو اپنا معاملہ سپرد کرنا ہے، یعنی انسان کو پورا یقین ہو اور اس میں کوئی شک وتردّد نہ ہو کہ صرف اللہ عز وجل ہی وہ ذات ہے جو نفع عطا کرتی اور ضرر کو روکتی ہے اور یہ کہ کوئی اس کے فیصلے کو روکنے والا نہیں اور نہ کوئی اس کے حکم کو ٹالنے والا ہے، اس کے فیصلے میں عدل ہوتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے عدل سے روک کر آزماتا ہے: { وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ } تو بندے پر بھی لازم ہے کہ وہ ان اعتقادات اور ان کے لوازمات کے ساتھ اپنے دل کو آباد کرنے کی تگ ودَو کرے، جب وہ ایسا کرے گا تو اللہ عز وجل اس کے غم دور کردے گا اور اس کے خوف کو اَمن میں بدل دے گا، امام ابن القیم رح فرماتے ہیں:
’’اللہ سے محبت، اس کی معرفت، اس کا ہمیشگی سے ذکر کرنا، اسی سے سکون واطمینان حاصل کرنا، اسی سے محبت رکھنا، اسی سے ڈرنا، اسی سے امیدیں وابستہ کرنا، اسی پر توکل کرنا اور اپنے معاملات میں اسی کو ہی مدنظر رکھنا - کیونکہ وہ اکیلا ہی بندوں کے غموں، ارادوں اور عزائم پر غالب ہے - دُنیا میں جنت کے مترادف ہے، یہی وہ نعمت ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں اور یہ محبت کرنیوالوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور اہل معرفت کیلئے حیات۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2 اللہ تعالیٰ سے حُسنِ ظن
اللہ سے حُسنِ ظن، اس طرح کہ آپ کو اس با ت کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی آپ کو پریشانیوں سے نکالنے والا ہے اور وہی آپ کو غموں سے نجات دینے والا ہے، تو یقینا جب بندے کا اپنے رب کے بارے میں اتنا اچھا گمان ہوجائے تو پھر اللہ اس پر وہاں سے برکات نازِل کرتا ہے کہ جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔
اے اللہ کے بندے! تیرے لئے ضروری ہے کہ تو اپنے رب کے بارے میں اَچھا گمان رکھ تاکہ تو انعاماتِ الٰہی کا مشاہدہ کر سکے۔
سیدنا اَبو ہریرہ﷜ نبی ٔ کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ عز وجل نے فرمایا:
" أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، إِنْ ظَنَّ خَیْرًا فَلَہٗ، وَإِنْ ظَنَّ شَرًّا فَلَہٗ " [مسند أحمد: ۲۷۳۹۵ وابن حبّان]
’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اگر وہ اچھا گمان کرے تو اس کیلئے ہی بہتری ہے، اور اگربُرا گمان کرے تو اس میں اس کا ہی نقصان ہے۔‘‘
لہٰذا تو اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھ اور اپنی اُمیدیں اسی سے وابستہ کر اور اللہ کے بارے میں بُرے گمان سے بچ! کیونکہ یہ بہت بُری اور تباہ کن چیز ہے، ارشادِ باری ہے:
{ الظَّآنِّیْنَ بِاﷲِ ظَنَّ السَّوْئِ عَلَیْھہمْ دَاؓئِرَة السَّوْئِ وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھہمْ وَلَعَنَھُمْ وَاَعَدَّلَھُمْ جَھَنَّمَ وَسَاؓئَ تْ مَصِیْرًا } [الفتح: ۶]
’’اللہ تعالیٰ کے بارے میں بد گمانیاں رکھنے والے ہیں، (در اَصل) انہیں پر برائی کا پھیرا ہے، اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کیلئے دوزخ تیار کی اور وہ (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔کثرتِ دُعا
تیسرا سبب اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ اور مسلسل دُعا کرنا ہے۔
اے تنگ دل اور پریشان حال انسان! اپنے ہاتھوں کو اپنے مالک کے سامنے اُٹھا اور گڑگڑا کر آنسو بہا اور اس کے سامنے اپنی شکایات اور پریشانیاں پیش کر۔ اللہ سبحانہ تجھ پر رحم فرمائے! اس بات کو اچھی طرح جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر تیرے والدین، تیری اولاد اور تیرے ساتھیوں کے ذریعے رحم فرمایا۔
سیدنا عمر بن خطاب﷜ سے مروی ہے کہ آپﷺ پر قید ی پیش کئے گئے ان میں سے ایک عورت تھی جس کے سینے سے دودھ بہہ رہا تھا جب اس عورت نے ان قیدیوں میں ایک بچہ دیکھا تو اس کو پکڑ لیا اور اس کو اپنے سینے سے لپٹا کر دودھ پلانا شروع کر دیا تو نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
’’ أَتَرَوْنَ ھٰذِہِ طَارِحَة وَلَدِھَا فِي النَّارِ؟ " قُلْنَا: لَا وَھِيَ تَقْدِرُ عَلَیٰ أَنْ لَا تَطْرَحَہٗ، قَالَ: " لَلّٰہُ أَرْحَمْ بِعِبَادِہٖ مِنْ ھٰذِہٖ بِوَلَدِھَا ‘‘ [صحیح البخاری: ۵۹۹۹]
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ نہیں اگر وہ اس کو بچانے کی استطاعت رکھتی ہو تو نہیں پھینکے گی، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحیم ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔ گناہ کو ترک کرنے میں جلدی کرنا
چوتھا سبب نفس کو مات دینے اور معصیت کو ترک کرنے میں جلدی کرنا ہے۔
اے انسان! کیا تو گناہوں کی وادی سے نکلنا چاہتا ہے؟ تجھ پر تعجب ہے کہ تو اپنے گناہوں کو تو بھلا دیتا ہے اور اپنی دِلی خواہشات کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے؟ اللہ تجھے ہدایت دے کیا تو نہیں جانتا کہ گناہ ایک ایسا بڑا دروازہ ہے کہ جس سے بندے پر مصیبتیں آتی ہیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیْبَة فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ } [الشوریٰ: ۳۰]
’’اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ ارشادِ گرامی ہے:
{ اَوَ لَمَّا اَصَابَتْکُمْ مُصِیْبَة قَدْ اَصَبْتُمْ مِثْلَیْھَا قُلتُمْ اَن ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ } [آل عمران : ۱۶۵]
’’(کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپﷺ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہارے اعمال کے سبب سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
سیدنا عباس بن عبد المُطلب﷜ نے بارش کیلئے یوں دُعا کی:
اللّٰھُمَّ إِنَّکَ لَمْ تَنْزِلْ بَلَائً إِلَّا بِذَنْبٍ وَلم تَکْشِفُہٗ إِلَّا بِتَوْبَة۔[الاستیعاب: ۲/۸۱۴]
’’تو صرف گناہ کی وجہ سے عذاب نازِل کرتا ہے اور توبہ کی بدولت اُسے دور کرتا ہے۔‘‘
امام ابن قیم الجوزیہ رح الوابل الصّیب: ص ۱۰۴ پر فرماتے ہیں:
’’تھوڑی سی بھی حس اور بیداری رکھنے والا شخص اس بات میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں کر سکتا کہ گناہگار کو تنگی ٔ صدر، دل کی سختی، گمراہی، غم، حزن، پریشانی اور خوف دیاجاتا ہے بلکہ غم، پریشانی، حزن، تنگی صدر فوری ملنے والی دُنیا کی سزا اور موجودہ جہنم ہے۔ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے پیش کردینا، اس کی طرف رجوع کرنا، اسی سے راضی ہونا اور اس کو راضی کرنا، اللہ کی محبت سے دل کو بھر لینا او راللہ کے ذکر کے ساتھ چمٹے رہنا اور ا س کی معرفت سے خوشی اور سرور محسوس کرنا، یہ فوری اَجر اور دنیا کی جنت ہے اور یہ ایسی زندگی ہے کہ جس کے سامنے بادشاہت کی زندگی ہیچ ہے۔‘‘
اللہ تیری حفاظت کرے! تو اپنے نفس کا صدق واِنصاف کے ساتھ محاسبہ کرنے میں جلدی کر، ایسا محاسبہ جس سے اللہ کی رضا اور نفس کی بہتری حاصل ہو۔ اگر تو اپنی صلوٰۃ وزکوٰۃ اور اُن اَوامر کو ترک کرنے والا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تجھ پر واجب کیا یا ایسے کاموں میں مبتلا ہے جو اللہ کی طرف سے ممنوع ہیں یا گناہوں میں اُلجھ چکا ہے تو ان اَوامر کی اصلاح میں جلدی کر اور اس کیلئے اپنے نفس سے مجاہدہ کر، تو عنقریب دیکھے گا کہ کس طرح اللہ سبحانہ تیرے سینے کو کشادہ کرتا اور تیرے معاملات میں آسانی فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبَلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ المُحْسِنِینَ} [العنکبوت: ۶۹]
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقینا انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
{ وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہٗ مَخْرَجًا - وَیَرْزُقہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ … وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا } [ الطّلاق: ۲،۳،۴ ]
{ وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّئَاتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗ اَجْرًا } [ الطّلاق: ۵ ]
’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے ۱ اللہ اس کیلئے (مشکلات سے ) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رِزق دے گا جہاں سے اس کا وہم وگمان بھی نہ ہوگا۔ جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کیلئے اس کے کام میں آسانی کردیتا ہے۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ اس کی برائیوں کو دور کردیتا ہے او راسے بڑا اَجر دیتا ہے۔‘‘
اللہ تجھے ہدایت دے! تو خشیت ِالٰہی، اللہ کیلئے تقویٰ اختیار کرنے میں جلدی کر، تو اللہ کے حکم سے اپنے معاملات میں آسانی پائے گا۔ امام ابن جوزی رح فرماتے ہیں:
’’میں ایک معاملہ میں اُلجھ گیا جس نے مجھے مستقل بے چینی میں مبتلا کر دیا، میں نے اپنی ہر حالت میں یعنی بے فکری اور فکر میں، ہر جہت اور ہر حیلے سے ان پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن میں کوئی نجات کا راستہ تلاش نہ کرسکا تو میری راہنمائی اس آیت سے ہوئی:
{ وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہٗ مَخْرَجًا } [ الطلاق: ۲ ] ’’اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردیتا ہے۔‘‘
تو میں نے جان لیا کہ ہر غم سے نکلنے کا راستہ ’تقویٰ‘ ہے، لہٰذا جب بھی میں پریشان ہوتا ہوں تو اس سے نکلنے کی راہ تقویٰ ہی میں پاتا ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5 فرائض کی اَدائیگی اور اس پر دَوام
ادائیگی ٔ فرائض کی حفاظت، اس پر دوام اور نفلی صلوٰۃ وصیام اور صدقات ونیکی وغیرہ میں کثرت، کیونکہ فرائض کی اَدائیگی پر دوام اور نوافل کی کثرت اللہ کی اپنے بندے سے محبت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ سیدنا اَبوہریرہ﷜ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
" مَنْ عَادَیٰ لِي وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ، وَمَا یَزَالُ عَبْدِي یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّیٰ أُحِبَّہٗ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِي یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِي یُبْصِرُ بِہٖ، وَیَدَہُ الَّتِي یَبْطِشُ بِھَا، وَرِجْلَہُ الَّتِي یَمْشِي بِہَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِیَنَّہٗ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَ نِي لَأُعِیذَنَّہٗ " [صحیح البخاری: ۶۰۲۱]
’’جس نے میرے دوست سے دشمنی کی تو بلا شبہ میں اسے دعوتِ جنگ دیتا ہوں اور بندے کا کسی بھی چیز کے ساتھ میرے قرب کا حصول مجھے اتنا محبوب نہیں جتنا کہ میرے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ہے۔ اور بندہ مسلسل نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اسے محبت شروع کردیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں، جس کے ذریعے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکا پائوں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آنا چاہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6۔نیک لوگوں کی مجلس
چھٹا سبب نیک لوگوں کی محفل میں جمع ہونا، ان کی باتوں کو سننا، ان کی کلام کے موتیوں سے اور ان کی توجیہات سے استفادہ کرنا ہے کیونکہ ان مجالس میں بیٹھنا رحمن کی رضا اور شیطان کی ناراضگی کا سبب ہے، لہٰذا آپ ان کے ساتھ ضرور بیٹھیں، ان کی محفلیں میں جائیں اور ان سے نصیحتیں حاصل کریں تو آپ اپنے سینے میں کشادگی اور تروتازگی محسوس کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ تنہائی سے بھی بچیں اور اس حالت سے ڈریں کہ آپ تنہا ہوں اور آپ کے ساتھ کوئی جاننے والا یا ہم نشین نہ ہو، خاص طور پر اُس وقت جب آپ پر کوئی آفت یا مصیبت آن پڑے، کیونکہ جب بندہ اکیلا ہوتا ہے تو شیطان اس کو پست ہمت کر دیتا ہے۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہ کریں کہ شیطان اکیلے بندے کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور دو سے کچھ دور ہوتا ہے اور تین کے ساتھ بالکل نہیں ہوتا، اسکی مثال اس طرح ہے جیسے بھیڑیا ریوڑ سے جدا ہونے والی اکیلی بکری کو ہی شکار بناتا ہے۔
المختصر یہ کہ - اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے! - آپ اِس بات کی حرص کریں کہ آپ تنہا نہ ہوں، اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کریں اور اپنی تنہائی کو اہل خیر واِصلاح کے ساتھ مل کر اور ان لوگوں کی محفلوں، ان کے دروس کی طرف میلان سے اور علما وطلبائے علم کی زیارت کر کے ختم کریں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ میں ہمدردی اور ایمان بڑھا دیں گے اور آپ کو علم کے ذریعہ نفع عنایت فرمائیں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
7۔قرآن کی تلاوت
قرآن کی تلاوت اور اس میں غور وفکر غموں کا مداوا اور رنج وپریشانیوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ ہے، گویا قرآن کی تلاوت بندے کو دِلی اطمینان اور شرحِ صدر سے نوازتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ الَّذِیْنَ ئَ امَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکرِ اللّٰہِ اَلَا بِذِکرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوْبُ } [ الرّعد: ۲۸ ]
’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں، یاد رکھو! دِل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘
امام ابن کثیررح فرماتے ہیں:
’’دل اللہ کی جانب خوشی اور سکون محسوس کرتا ہے، اللہ کے ذکر سے راحت حاصل کرو اور اسی کے مولیٰ اور مددگار ہونے پر راضی ہو جائو، اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: { اَلَا بِذِکرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوْبُ} ‘‘
اللہ آپ کا محافظ ہو! آپ رات کی گھڑیوں اور دن کی اطراف میں کثرتِ تلاوت کا شوق کریں اور اس کے ساتھ اپنے رب سے یہ دُعا بھی کریں کہ یہ تلاوت آپ کے شرحِ صدر کا سبب بنے۔ جب بندہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ عز وجل اُس پر برکات کے عظیم دروازے کھول دیتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاؓئَ تْکُمْ مَوْعِظَة مِنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَاؓئٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَھُدًی وَرَحْمَة لِّلمُؤمِنِیْنَ } [یونس: ۵۷]
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے جو دِلوں کے امراض کی شفا بھی ہے اور جو اُسے قبول کر لیںان کیلئے راہنمائی اور رحمت ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
{ وَنُنَزِّلُ مِنَ القُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَاؓئٌ وَرَحْمَة لِّلمُؤمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّاخَسَارًا } [بنی إسرائیل: ۸۲]
’’اور ہم اس قرآن سے وہ کچھ نازل کر رَہے ہیں جو ماننے والوں کیلئے تو شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کو خسارے کے سوا اورکسی چیز میں نہیں بڑھاتا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
8۔صبح وشام کے اَذکار
صبح وشام کے اذکار، سونے کے اذکار اور دیگر اذکار پر ہمیشگی کرنا۔ جب بندہ ان کے معنی ومفہوم پر غور کر کے اور ان کے نتائج وثمرات پر یقین رکھتے ہوئے ان کو کرتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان کو شیاطین اور جن واِنس کے شر سے محفوظ رکھتے ہیں اور بندے کی ظاہری اور باطنی قوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ آپ ضرور ان اَذکار کی حرص کریں کہ جس میںرنج واَلم کی جلا اور مداوا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس﷜ سے مروی ہے کہ رسولِ مکرم ﷺمصیبت کے وقت یہ دُعا فرماتے تھے:
’’ لَا إِلَہَ إِلَّا اﷲُ الْعَظِیمُ الْحَلِیمُ، لَا إِلَہَ إِلَّا اﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ، لَا إِلَہَ إِلَّا اﷲُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ ‘‘ [صحیح البخاري: ۵۸۶۹، صحیح مسلم: ۴۹۰۹]
’’نہیں ہے کوئی معبودِ برحق مگر عظیم اور بردبار اللہ تعالیٰ، نہیں ہے کوئی معبودِ برحق مگر عرشِ عظیم کا رب اللہ ، نہیں ہے کوئی معبودِ برحق مگر آسمانوں وزمین اور بزرگی والے عرش کا رب اللہ!‘‘
اسی طرح سیدنا انس﷜ راوی ہیں کہ رسولِ مکرمﷺ کثرت سے یہ دُعا فرماتے:
’’ اللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحَزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَة الرِّجَالِ ‘‘ [صحیح البخاري: ۲۶۷۹]
’’اے اللہ تعالیٰ! میں رنج واَلم، کمزوری وکاہلی، بزدلی وبخل، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔‘‘
سیدنا ابن مسعود﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ غم وپریشانی میں یہ فرمایا کرتے:
’’ یَا حَيُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیثُ ‘‘ [صحیح سنن الترمذي: ۳۵۲۴]
’’اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے! میں تیری رحمت کے ساتھ فریاد کرتا ہوں۔‘‘
سیدنا اَبو بکر﷜ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ مصیبت زَدہ کی دُعا یہ ہے:
’’ اللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلا تَکِلْنِي إِلَیٰ نَفْسِي طَرْفَة عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي کُلَّہٗ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ ‘‘ [صحیح سنن أبي داؤد: ۵۰۹۰]
’’اے اللہ! میں صرف تیری رحمت کی اُمید کرتا ہوں پس تو مجھے ایک لمحہ کیلئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور اس کے (نفس) تمام کام درست کردے صرف تو ہی معبودِ برحق ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود﷜ نبی کریم ﷺ روایت کرتے ہیں کہ جب بھی بندے کو غم وپریشانی لاحق ہو تو کہے:
’’ اللّٰھُمَّ إِنِّي عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ، نَاصِیَتِي بِیَدِکَ، مَاضٍ فِيَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَآؤُکَ، أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ، سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ، أَوْ عَلَّمْتَہٗ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، أَوْ أَنْزَلْتَہٗ فِي کِتَابِکَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِي عِلْمِ الْغَیْبِ عَنْدَکَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي، وَجَلَائَ حُزْنِي وَذَھَابَ ہَمِّي ‘‘ [مسند أحمد: ۳۷۰۴]
’’اے اللہ! میں تیراغلام، تیرے غلام کا بیٹا، تیری لونڈی کا بیٹا، میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے، مجھ پر تیرا حکم جاری ہے، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل والا ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطہ سے، جو تیرا ہے جس سے تو نے اپنے آپ کو پکارا ہے، یاجو تو نے اپنی مخلوق میںسے کسی ایک کو سکھلایا ہے، یا جو تو نے اپنی کتاب میں اُتارا، یا اپنے علم غیب میں تو نے جسے اپنے لئے مخصوص فرمایا ہے، یہ درخواست کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور، میرے غموں کا مداوا، اور میری فکر وپریشانی کا علاج بنا دے۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ اس کے غم وپریشانی دور کردے گا اور ان کو فرحت و سرور سے بدل دیگا۔
آخر میں، میں اللہ جل شانہ کی بارگاہِ عالیہ میں یہ دُعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! ہم تیرے غلام، تیرے غلاموں کا بیٹے، تیری لونڈیوں کا بیٹے، ہماری پیشانی تیری مٹھی میں ہے، ہم پر تیرا حکم جاری ہے، ہمارے بارے میں تیرا فیصلہ عدل والا ہے، ہم تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطہ سے جو تیرا ہے، جس سے تو نے اپنے آپ کو پکارا ہے، یاجو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی ایک کو سکھلایا ہے، یا جو تو نے اپنی کتاب میں اُتارا، یا اپنے علم غیب میں تو نے جسے اپنے لئے مخصوص فرمایا ہے، درخواست کرتے ہیں کہ قرآن عظیم کو ہمارے دل کی بہار، سینے کا نور، غموں کا مداوا، اور ہماری فکر وپریشانی کا علاج بنا دے۔
اے اللہ! ہمارے سینے کھول دے، ہمارے معاملات کو آسان فرما دے اور ہمارے معاملہ کی راہنمائی فرما۔
وصلی اﷲ وسلم علی نبینا محمد ﷺ وآلہ وصحبہ أجمعین ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدّین۔​
 
Top