پہلا اصول
(خلافت وامارت دین اسلام کے ساتھ لازم ملزوم نہیں)
خلاف و امارت اسلام کے ساتھ لازم ملزوم نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کے بغیر اسلام کا تصور نہیں یا اس کے بنا دین پرعمل یا اس کی تبلیغ ممکن نہیں یا یہ کہ یہ نظام تسلسل کے ساتھ ہردور میں موجود ہوگا ۔
بلکہ بعض صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت امارت کبھی رہے گی اورکبھی نہیں رہے گی اورنہ رہنے کی صورت میں بھی دین اسلام اپنے اصلی شکل میں موجودرہے گا ۔
عن حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ قال: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ» قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ، دُعَاةٌ إِلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا؟ فَقَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا، وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلاَ إِمَامٌ؟ قَالَ «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكَكَ المَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ»[صحيح البخاري: 4/ 199 رقم 3606]۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر و برکت (اسلام کی) عطا فرمائی، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔ میں نے سوال کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جوان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیجئیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و مذہب کے ہوں گے۔ ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا، پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو۔ آپ نے فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو (تو یہ تیرے حق میں ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہو گا)۔
اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ کبھی ایسا دور بھی آسکتاہے جب نہ تو مسلمانوں کی کوئی حقیقی جماعت یعنی خلافت وامارت ہوگی اورنہ ہی ان کا کوئی شرعی خلیفہ و امیر۔
اور ایسے دور میں اگربعض لوگ غیرشرعی امارتوں کی بناد رکھیں تو اس طرح کی تمام خود ساختہ امارتوں اورتمام غیر شرعی امیروں سے علحدگی ضروری ہے۔
ایک اورحدیث ملاحظہ ہو:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا فِي فی مسجد رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَكَانَ بَشِيرٌ رَجُلاً يَكُفُّ حَدِيثَهُ ، فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ ، فَقَالَ : يَا بَشِيرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فِي الأُمَرَاءِ ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ : أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ ، فَجَلَسَ أَبُو ثَعْلَبَةَ ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ خِلاَفَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا ، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ، ثُمَّ تَكُونُ خِلاَفَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ ثُمَّ سَكَتَ.[مسند أحمد موافقا لثلاث طبعات 4/ 273 رقم 18406]۔
نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہم سب مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے اور(میرے والد) بشیر حدیث روک کررکھتے تھے، اتنے میں ابوثعلبہ الخشنی آئے اورکہا اے بشیر ! کیا امراء کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمہیں یاد ہے ؟ توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یادہے ، پھرابوثعلبہ بیٹھ گئے اورحذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اسے اٹھا لے گا اس کے بعد تمارے درمیان خلافت علی منہاج النبوت قائم ہوگی یہ جب تک اللہ چاہے گا باقی رہے گی پھرجب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا، اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشات قائم ہوگئی اوریہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی پھر اللہ تعالی اسے اٹھا لے، اس کے بعد ظلم کی بادشاہت قائم ہوگی اورجب تک اللہ چاہے گا رہے گی پھر اللہ اسے جب چاہے گا اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر خلافت نبوی منہاج پرقائم ہوگی ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
نوٹ: (١) : اصل الفاظ ہیں :
كُنَّا قُعُودًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ ، لیکن لگتاہے کہ یہ کسی راوی کا وھم ہے اور صحیح الفاظ یوں ہونے چاہئیں
: کنا قعودا فی مسجد رسول اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ بزار کے الفاظ اسی مفہوم کو بیان کرتے ہیں چنانچہ بزار کے الفاظ ہیں:
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ كَانَ مَعَ أَبِيهِ بَشِيرِ بْنِ سَعْدٍ، فِي الْمَسْجِدِ فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ [مسند البزار 7/ 223]. ترجمہ اسی اعتبارسے کیا گیا ہے۔
اس حدیث سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ خلافت وامارت مسلمانوں کے ساتھ ہمشہ رہنے والی چیز نہیں ہے ۔
جبکہ دین اسلام قیامت تک ہمیشہ اپنے اصلی شکل میں محفوظ رہے گا، جیساکہ حدیث ہے:
عَنِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ»[صحيح البخاري: 9/ 101 رقم 7311]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا (اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے) یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے۔