• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شريعت كا كمال اور بدعت كے خطرات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
الإبداع في بيان كمال الشرع و خطر الابتداع تأليف : فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
اردو ترجمہ بعنوان :​
شريعت كا كمال اور بدعت كے خطرات
پر​
ایک انوکھی تحریر
مترجم : حافظ خضر حيات ( متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ )
( نوٹ : ترجمہ کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے حوالہ جات وغیرہ بھی میری طرف سے اضافہ شدہ ہیں ۔ )
کتاب کا متن آئندہ سطور میں ملاحظہ فرمائیں :​
بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونتوب إليه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله .​
اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث فرمایا ہے چنانچہ آپ نے رسالت کی تبلیغ کی صورت میں جو امانت تھی اسے احسن اندازمیں ادا کرتے ہوئے امت کی مکمل خیر خواہی کردی اور اس سلسلے میں تادم زندگی سرتوڑ کوشش کرتے رہے ۔​
چنانچہ آپ نے امت کو بالکل واضح راستہ دکھادیا جو رات کے وقت بھی روز روشن کی طرح نمایاں رہتا ہے ۔ اور زندگی کے اندر پیش آنے والے تمام معاملات میں جس قدر رہنمائی کی ضرورت تھی اس کی بہترین وضاحت فرمادی ۔ حتی کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :​
«ما ترك النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طائرا يقلب جناحيه في السماء إلا ذكر لنا منه علما» .
[مسند الطيالسي برقم 1647و مسند أحمد برقم 21439و 40 و مسند البزار برقم 3897 وصححه الألباني في الصحيحة تحت رقم 1803]​
'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( سب کچھ اس قدر وضاحت سے بیان کردیا حتی کہ ) آسمان میں اڑنے والے پرندے کے بارے میں بھی ہمیں معلومات دیں ۔ ''
مشرکین میں سے ایک آدمی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو کہنے لگا :​
علمكم نبيكم حتى الخراءة -آداب قضاء الحاجة- قال: "نعم، لقد نهانا أن نستقبل القبلة بغائط أو بول، أو أن نستنجي بأقل من ثلاثة أحجار، أو أن نستنجي باليمين، أو أن نستنجي برجيع أو عظم» .
[صحيح مسلم برقم 262]​
'' کہ تمہارے نبی نے تمہیں سب کچھ ، حتی کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھایا ہے ؟​
حضرت سلمان کہنے لگے :​
ہاں ۔ آپ نے ہمیں بول و براز کرتے ہوئے قبلہ رخ ہونے سے منع فرمایاہے اور یہ کہا کہ استنجاء دائیں ہاتھ ، یا گوبر یا ہڈی سے نہیں کرنا ۔ ''
یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر دین کے اصول و فروع سب کو بیان کردیا ہے ، توحید اور اس کی اقسام کی وضاحت سے لے کر مجلس سے بیٹھنے اور اٹھنے تک کے آداب موجود ہیں اللہ کا ارشاد ہے :​
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ}( المجادلۃ 11 )​
''اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشادہ کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا ''
اسی طرح فرمایا :​
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} .( النور 27 ، 28 )​
''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کر لو یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاک تم نصیحت حاصل کرو
اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ۔ اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزہ ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔''
حتی کہ لباس کے احکامات موجود ہیں اللہ کا ارشاد ہے :​
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ} . ( النور 60 )​
'' بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اور خواہش ہی) نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں''
اسی طرح فرمايا :​
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} ( الأحزاب : 59 )​
'' اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ''
اور فرمايا:​
{وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ} ( النور : 31 )​
''اور عورتیں اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے''
اسی طرح ارشاد ہے :​
{وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا}( البقرة : 189 )​
'' اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں ، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو اور گھروں میں تو دروازوں میں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ''
اور اس کے علاوہ بہت ساری آیات دیکھنے سےواضح ہوتا ہے کہ اسلام ایک کامل و شامل دین ہے جس میں نہ نقص ہوسکتا ہے اور نہ کسی زیادتی کی ضرورت ہے ۔ اسی لیے اللہ نے قرآن مجید میں یہ فرمادیا ہے :​
{وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ}( النحل : 89 )​
''اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے ''
کہ ہم نے آپ پر '' کتاب '' نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے ۔ لہذا کوئی بھی ایسی چیز جس کی لوگوں کو دنیا یا آخرت میں ضرورت ہوسکتی ہے ہے اللہ نے اس کو قرآن کے اندر نص ، اشارۃ ، منطوق ، مفہوم میں سے کسی صورت میں بیان فرمادیا ہے ۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم بھائیو ! بعض لوگ قرآن کی آیت :
{وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ}( الأنعام : 38 )
''اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے ۔ ''
میں '' کتاب '' سے مراد صرف قرآن مجید لیتے ہیں ۔ جبکہ درست بات یہ ہے کہ یہاں کتاب سے مراد '' لوح محفوظ '' ہے ۔ ( ویسے بھی اس کی ضرورت نہیں ) کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی صفت تو اس سے بھی بلیغ الفاظ میں بیان کی ہے :
{وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ}( النحل : 89 )
یہ آیت اس آیت :
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ( الأنعام : 38 )
سے بھی زیادہ واضح اور بلیغ ہے ۔
اب یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ :
قرآن مجید کے اندر پانچ نمازوں اور ان کی رکعات کی تعداد کا ذکر کہا ں ہے ؟ اب ایک طرف قرآن کے بارے یہ کہاجارہا ہے:
{وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ} ( النحل : 89 )
کہ اس کے اندر ہر چیز کی وضاحت ہے اور دوسری طرف رکعات کی تعداد بھی نہیں مل رہی ؟
جواب یہ ہے کہ :
اللہ نے قرآن مجید کے اندر یہ بیان فرمادیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ کی بات اور رہنمائی پر چلنا ہمارے لیے ضروری ہے چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :
{مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ}( النساء : 80 )
''جس نے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اطاعت كی اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی''
اور :
{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا}( الحشر : 7 )
''اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ ''
لہذا سنت جن چیزوں کو بیان کرتی ہے وہ قرآن مجید کی دلالت کے تحت ہی آتی ہیں کیونکہ '' سنت '' وحی کی دو قسموں میں سے ایک قسم ہے جس کی تعلیم اور نزول اللہ کی طرف سے آپ پر ہوا ہے ۔ دلیل اس کی ارشاد باری تعالی ہے :
{وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ}( النساء : 113 )
''اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری ہے''
کہ ہم نےآپ پر '' کتاب '' اور '' حکمت '' کو نازل کیا ہے ۔
لہذا اس طرح جو چیز سنت کے اندربیان ہوئی وہ گویا قرآن مجید کے اندر ہی آ گئی ۔ ( کیونکہ قرآن وحی ہے تو جس کو قرآن وحی کہے وہ بھی وحی ہوگی )
محترم بھائیو !
جب یہاں تک سمجھ آگئی تو اگلا سوال یہ ہےکہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس حالت میں ہوگئی تھی کہ ابھی آپ نے دین کو مکمل بیان نہیں کیا تھا ؟
جواب : ہرگز ایسا نہیں ۔ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے مکمل دین کو بیان کردیا تھا یا تو قول کے ذریعے یا فعل کے ذریعے یا تقریر کے ذریعے یا کسی سوال کے جواب کے ذریعے ۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ایسے مسائل جو آپ کے پاس رہنے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان نہیں پوچھتے تھے اللہ تعالی کسی اعرابی کو بھیجتا اور وہ آپ سے یہ سوال پوچھ لیتا ۔
چنانچہ صحابہ کرام اس طرح کے لوگوں کے آنے پر بہت خوشی کا اظہار کرتےتھے ۔
اور یہ بات کہ '' اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات و معاملات اور گزر بسر کسی بھی معاملے کو بغیر وضاحت نہیں چھوڑا '' اس پر خود اللہ تعالی کا یہ ارشاد گواہ ہے :
{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}( المائدة : 3 )
''آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔ ''
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اے مسلمان !
اگر گزشتہ باتوں کی صحیح سمجھ آگئی ہے تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ ہر وہ چیز جو دین کے اندر ایجاد کرلی جائے چاہے اچھی نیت سے ہی کیوں نہ ہو وہ گمراہی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے دین کے اندر طعن اور اللہ کے اس فرمان کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔
کیونکہ شریعت کے اندر نیا کام ایجاد کرنے والا یہ بدعتی بزبان حال یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ دین ابھی مکمل نہیں ہوا بلکہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کی ایجاد کردہ '' بدعت '' کا اس میں شامل ہونا ابھی باقی ہے ۔
قابل تعجب بات یہ ہے کہ لوگ اللہ کی ذات ، اسماو صفات کے متعلق بھی من گھڑت باتیں کرتے ہیں ۔ اور پھر کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی بڑائی اور پاکی بلکہ اس ارشاد باری کی اتباع کررہے ہیں :
{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ}( المائدة : 3 )
اب سوائے تعجب ، او رکیا کیا جاسکتا ہے ایک آدمی ذات الہی سے متعلق ایسی باتیں کرنا شروع کردے جن کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہ ہو ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعوی کرے کہ میں تو اللہ کی بڑائی اور پاکی بلکہ اللہ کے فرمان کی پیروی کر رہا ہوں ۔ جو بھی اس کی مخالفت کرے گا وہ '' ممثلہ و مشبہ '' یا اس جیسے برے القابات کا مستحق ٹھہرے گا ۔
بالکل اسی طرح یہ بات بھی حیرانگی کا باعث ہے کہ کچھ لوگ '' ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم '' کے متعلق من گھڑت نظریات اپنا لیتے ہیں اور خود کو محبت رسول اور تعظیم رسول کے دعوے دار کہتے ہیں اور جو بھی ان کی بدعت میں ان کاساتھ نہ دے اسے '' گستاخ رسول '' جیسے برے القابات سے نوازتے ہیں ۔
ایک تو اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں بدعات کا شکار ہوتے ہیں دوسرا اللہ اور رسول کی تعظیم کا نعرہ ، عجیب ! ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس کے رسول کی لائی ہوئی شریعت میں اضافہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی جسارت کے مرتکب ہوجاتے ہیں ۔ فرمان بار ی تعالی ہے :
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} . ( الحجرات : 1 )
''اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ ''
بھائیو !
میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیے کر پوچھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جواب '' محبت بھرے جذبات '' اور '' اندھی تقلید '' کی بجائے آپ اپنے ضمیر سے پوچھ کر او ر دین کا تقاضا سمجھتے ہوئے دیں گے کہ :
کیا وہ لوگ بہتر ہیں جو اللہ کی ذات ، اسماء وصفات اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ سلم کے بارے میں '' جذبات '' کی رو میں بہہ جاتے یا اندھی تقلید کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر وہ لوگ حق پر ہیں جو شریعت کے معاملے میں ذرہ برابر بھی ادھر ادھر نہیں ہٹتے ۔ جو کام شریعت کے اندر آجائے اس کے بارے میں کہتے ہیں : ہم ایمان لے آئے ، تصدیق کردی اور اطاعت بجالائے ۔
اور جو چیز شریعت کے اندر موجود نہیں اس کے بار ے کہتے ہیں : ہم رک گئے اور ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھتے ہوئے دین میں ایسی بات کہیں جو دین کا حصہ نہیں ۔
ان دونوں گروہوں میں سے کون مستحق ہےکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کا محب اور تعظیم کرنے والا کہا جائے ؟
بلاشک وہ لوگ جو خود کو دین کا پابند کرلیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری یہ حیثیت اور منصب نہیں کہ ہم اللہ کے دین اور رسول کی شریعت میں نئی چیزیں ایجاد کرتے پھریں ۔
درحقیقت انہیں لوگوں نے اپنی اوقات کو پہچانا ہے اور اپنے خالق کے مرتبے کی قدر کی اور یہی لوگ اللہ اور رسول کی تعظیم کرنے والے ہیں اور انہیں لوگوں کی محبت سچی ہے ۔
نہ کے وہ لوگ جو دین کے اندر عقیدہ یا عمل یا قول کی صورت میں بدعات داخل کرتے ہیں ۔
حالانکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد جانتے ہیں :
«إياكم ومحدثات الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار»
(سنن أبي داؤد برقم 4607و البدع لابن الوضاح ص 57 برقم 56 وصححه الألباني في الصحيحة برقم 2735)
'' کہ دین میں نئی چیزیں شامل کرنے سے بچ جاؤ کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے اور ہر گمراہی جہنم میں داخلے کا سبب ہے ۔ ''
اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کا قول '' کل بدعة '' ایک کلی اور عمومی قاعدہ ہے جو عموم و شمول پر دلالت کرنے والے الفاظ میں سے سب سے قوی لفظ ( کل ) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔اور پھر اس قاعدہ کو بیان کرنے والی ذات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے معنی و مدلول کو بخوبی جانتےتھے اور امت کی خیر خواہی میں بھی وہ سب سے بڑھ کر ہیں ، جب انہوں نے یہ قاعدہ بیان فرمایا تو وہ جانتے تھے کہ اس کا کیا معنی و مفہوم ہے ۔ اور آپ کا یہ قاعدہ بیان کرنا امت کے لیے نصیحت و خیرخواہی کے جذبے سے ہی صادر ہوا ۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کلام میں یہ تین چیزیں پائی جارہی ہیں :
کمال خیرخواہی ، ایک خاص معنی کا ارادہ ،متکلم کا فصیح و بلیغ اور علم و معرفت میں کامل ہونا
تو پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قاعدہ '' ہر بدعت گمراہی ہے '' سے مراد وہی ہے جس معنی پر یہ دلالت کر رہا ہے ۔
اب اس قدر واضح اور دو ٹوک بیان کے بعد بھی کوئی گنجائش رہ جاتی ہےکہ ہم بدعت کی تین یا پانچ قسمیں بناتے رہیں ؟
ہر گز نہیں ۔
اور بعض علماء کا یہ دعوی کہ :
'' بدعت '' کی کوئی قسم '' حسنہ '' بھی ہوتی ہے ۔ تو یہ دو حال سے خالی نہیں :
یا تو وہ چیز درحقیقت بدعت ہے ہی نہیں بلکہ غلط فہمی کی وجہ سے اس کو بدعت سمجھ لیا گیا ہے ۔
یا پھر و ہ بدعت ہے اور بدعت سیئہ ہے لیکن اس کے '' سوء '' ( خرابی و گمراہی ) کا اس شخص کو علم نہیں ۔
بس ہر وہ بدعت جس کے '' حسنہ '' ہونےکا دعوی کیا جائے اس کا یہی جواب ہے ۔
کیونکہ جب تک ہمارے ہاتھوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان :
«كل بدعة ضلالة»
کی شکل میں ننگی تلوار موجود ہے کسی بدعتی کے لیے کوئی جواز نہیں کہ دین کے اندر '' بدعت حسنہ '' کے نام سے اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
(ايك اشكال دو جواب : )

مجھے محسوس ہورہا ہےکہ آپ کے ذہنوں میں یہ اشکال کھٹک رہا ہے کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہم کو باجماعت قیام رمضان کی ذمہ داری سونپنا اور پھر فرمانا :
" نعمت البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون ".
[مؤطا مالك ص 114 ت فواد عبد الباقي و صححه الألباني في صلاة التراويح ص 49 برقم 15 ط المعارف]
کہ یہ اچھی بدعت ہے اور جو لوگ اس وقت سو رہے ہیں ( اور آخری رات میں قیام کریں گے )وہ قیام کرنے والوں سے بہتر ہیں ۔
اس کا کیا مطلب ہے ؟
تو اس کا جواب دو طرح سے ہے :
پہلی بات :
کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے مقابلے میں کسی امتی کی بات کو پیش کرے چاہے وہ ابو بکر ، عمر ، عثمان ، علی رضی اللہ عنہم ہی کیوں نہ ہوں جو علی الترتیب ساری امت سے افضل ہیں کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے :
{فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} ( النور : 63 )
'' سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔''
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"پتہ ہے یہاں فتنے سے کیا مراد ہے ؟ یہاں مراد شرک ہے کہ ممکن ہےجب کوئی شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو رد کرے تو بطور سزا کے اس کے دل میں یہ ٹیڑھا پن پیدا کردیا جائے جو اس کی ہلاکت کے لیے کافی ہو ۔ " [الإبانة الكبرى لابن بطة 1/ 260]
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء، أقول: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وتقولون: قال أبو بكر وعمر! ".
[زاد المعاد 2 / 182 ، 191 و ينظر : مسند أحمد برقم 3121]
مجھے خطرہ کہ ابھی تم پر آسمانوں سے پتھر نازل ہو جائیں گے . میں تمہیں کہتا ہوں : اللہ کے رسول نے فرمایا ہے ۔ تم کہتے ہو : ابو بکر و عمر کا قول یہ ہے ۔
دوسری بات :
یہ بات قطعی طور پر معلوم ہےکہ امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی بات کی تعظیم سب سے زیادہ کرتے تھے ، اللہ کی حدود سے عد م تجاوز کرنے میں وہ مشہور معروف تھے بلکہ '' وقاف عند کلام اللہ '' ( اللہ کی بات کے سامنے سر تسلیم خم کرکےرک جانے والا ) ان کا لقب ہے ۔
اور وہ عورت والا مشہور قصہ - اگرچہ اس کی صحت میں تامل ہے - جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حق مہر کی خاص مقدار متعین کرنے پر ٹوک دیا تھا اور کہا اللہ کا ارشاد ہے :
{وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا} ( النساء : 20 )
''اور ان میں کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو''
تو حضرت عمر فورا اپنے فیصلہ کی تنفیذ سے رک گئے تھے ۔
[سنن سعيد بن منصور 1 / 195 برقم 598 ، ضعفه الألباني بل حكم عليه بالنكارة في إرواء الغليل 6 / 378]
اب یہ قصہ اگر درست ہو تو یہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عمر کس قدر شرعی پابندیوں کا خیال رکھتے تھے ۔
پس حضرت عمر جیسے شخص کے بارے میں یہ کیسے خیال کیا جاسکتا ہے کہ سید البشر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی مخالفت کرتے ہوئے کسی بدعت کے بارے میں یہ کہیں کہ
"نعمت البدعة هذه"
اور مراد اس سے وہ بدعت ہو جس کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے «كل بدعة ضلالة»کے تحت بیان فرمادیا ہو ۔
تو درحقیقت یہاں حضرت عمر کی مراد متفرق لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کرنا ہے ، باقی اصل ِقیام رمضان ( باجماعت ) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیساکہ صحیحین کے اندر حضرت عائشہ سےمروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تین راتیں قیام کروایا پھر چوتھی رات آپ جان بوجھ کر لیٹ ہوگئے اور کہا :
«إني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها»
[صحيح البخاري برقم 1129 و صحيح مسلم برقم 761 وبقية الستة]
"مجھے خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز آجاؤ ۔ "
پس قیام رمضان باجماعت '' سنت رسول '' ہے اور عمر رضی اللہ عنہ کا اس کو '' بدعت '' کا نام دینا اس اعتبار سے ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مذکورہ خدشے سے ) اس کو ترک کردیا اور ہر آدمی بنفس نفیس یا چند لوگوں سے مل کر الگ الگ ٹولیوں میں قیام کرنے لگے تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے فہم صحیح کے مطابق غور و فکر کرتےہوئے لوگوں کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردیا ، پس یہ فعل لوگوں کے پہلے عمل (متفرق ٹولیوں میں قیام کرنا ) کے اعتبار سے ایک نیا کام تھا یعنی یہ ایک مخصوص وقت کے اعتبار اور نسبتا بدعت تھا نہ کہ مطلقا ہی یہ عمل بدعت تھا جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دین کے اندر داخل کیا کیونکہ یہ طے شدہ ہےکہ یہ سنت عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھی لیکن پھر ( ایک خاص مصلحت کی وجہ سے ) ترک کردی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( جب و ہ مصلحت پوری ہوگئی تو ) اس کا دوبارہ احیاء کردیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو مذکورہ وضاحت اور تفصیل سے سمجھ لیا جائے تو پھر اہل بدعت کو اپنے بدعی امور کے رواج کے لیے یہاں سے کوئی دلیل نہیں ملے گی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
يہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ :
بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو عہد نبوی میں معروف نہیں تھیں لیکن آج کل مسلمانوں کے ہاں وہ رواج پاگئی ہیں مثلا مدارس کا قیام کتابیں تصنیف کرنا ،اب یہ بھی بدعت ( نئی چیز ) ہیں لیکن ان کو سب ہی اچھا سمجھتے اور ان پر عمل کرتے ہیں بلکہ بہترین کام سمجھتے ہیں ۔
تو کیا مسلمانوں کے اس عمل ، جو قریب قریب ایک اجماعی مسئلہ ہے ( یعنی ان چیزوں کو باوجود بعد میں ایجاد شدہ ہونے کے اچھا سمجھنا ) ، اور مسلمانوں کے قائد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول '' کل بدعۃ ضلالۃ '' میں تعارض نہیں ؟
جواب :
امر واقع یہ ہےکہ یہ بدعت نہیں کیونکہ یہ بھلائی کا کام کرنے کا ایک وسیلہ ہے ، وسائل وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتےرہتے ہیں ۔ جبکہ طے شدہ قاعدہ بھی ہے کہ '' وسائل مقاصد کے حکم میں ہوتے ہیں '' چنانچہ کسی شرعی کام کا وسیلہ بھی مشروع ہوگا جیساکہ غیر شرعی کام کا وسیلہ بھی غیر مشروع ہوگا بلکہ حرام کا وسیلہ حرام کہلائےگا اور اگر کوئی اچھی چیز وسیلہ شر بن جائے تو وہ بھی شر ہی کہلائے گی چنانچہ اللہ کافرمان ہے :
{وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ} ( الأنعام 108 )
''اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ جاہلانہ ضد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے ''
اب یہاں مشرکین کے معبودان باطلہ کو برا بھلا کہنا یہ بذات خود کوئی برائی نہیں لیکن اللہ رب العالمین کو سب وشتم کرنا یہ زیادتی و ظلم ہے لیکن چونکہ مشرکین کے باطل الہوں کو سب و شتم کرنا یہ اللہ رب العالمین کی توہین کا سبب بن سکتا تھا لہذا اس کو حرام اور ممنوع قرار دے دیا گیا ۔
اس آیت سےثابت ہوتا کہ '' وسائل مقاصد کے حکم میں ہوتے ہیں '' لہذا تعمیرِ مدارس ، تصنیفِ علم اور تالیف ِکتب اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں زمانے میں موجودہ شکل میں نہ پائےجانے کے اعتبار سے '' بدعت '' ہیں لیکن چونکہ یہ بذات خود مقصد نہیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں لہذا ان کا بھی وہی حکم ہوگا جو ان سے مطلوبہ مقاصد کا ہے ۔
اب اگر کوئی شخص حرام و غلط علم کی تعلیم کے لیے مدرسہ کھول لے تو وہ حرام اور اگر مدرسہ کی بناء کا مقصد علم ِشرعی کی تعلیم و ترویج ہو تو یہ مدرسہ بنانا بھی مشروع و جائزہوگا ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ :
آپ اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
«من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة»
[صحيح مسلم برقم 1017]
'' جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے اس کو اپنا بھی اور بعد میں قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا ''
کی کیا توجیہ کریں گے ، یہاں '' سن '' بمعنی '' شرع '' ہے ؟
جواب :
جس نے «من سن في الإسلام ...» کہا ہے وہی «كل بدعة ضلالة» کا قائل ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صادق و مصدوق ہیں ان کا ایک قول دوسرے کی تکذیب کرر ہا ہو ، حضور کے فرامین میں تناقض ممکن ہی نہیں ، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں متناقض ہیں اسے اپنے فہم کی نظر ثانی کرنا چاہیے کیونکہ اس کا سبب اس کا اپنا قصور اور تقصیر ہے اللہ اور اس کے رسول کی باتیں اس خامی سے بالکل پاک ہیں ۔
جب حقیقت یہ ہے تو پھر ان دونوں احادیث کا صحیح مفہوم ، کہ جس سے تعارض و تناقض بالکل پیدا نہیں ہوتا ، اس طرح ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یوں ہے کہ : «من سن في الإسلام ...» یعنی جو اسلام کے اندر اچھے طریقے کو جاری کرتا ہے ۔۔۔ اور بدعت تو سرے سے اسلام ہے ہی نہیں چاہے اس کے ساتھ '' حسنہ '' کا اضافہ ہی کیوں نہ کرلیا جائے ۔ گویا '' سنت پر عمل کرنے '' اور '' بدعت ایجاد کرنے '' میں فرق ہے ۔
یہاں ایک اور جواب بھی ہوسکتا ہے کہ :
'' سنت جاری کرنا '' سے مراد '' احیاء سنت '' ہے یعنی ایک بات سنت سےثابت ہے لیکن مرور زمانہ کی وجہ سے اس پر عمل چھوڑ دیا گیا ہو ۔ پھر کسی شخص نے اس پر عمل کرکے اس کو دوبارہ زندہ کردیا ۔
ایک تیسرا جواب وہ بھی ہوسکتا ہے جس کی وضاحت اس حدیث کے سبب ورود کے قصہ سے ہوتی ہے کہ :
ایک وفد آپ کےپاس آیا جو بہت تنگی اور بے سرو سامانی کی حالت میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ تعاون کرنے کو کہا تو ایک انصاری صحابی چاندی سے بھری ایک وزنی تھیلی لے کر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا :
«من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة»
'' جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے اس کو اپنا بھی اور بعد میں قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا ''
[صحيح مسلم برقم 1017 كما تقدم]
تو یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں '' سن '' سے مراد کسی نیک کام کی تنفیذ ہے نہ کہ مستقلا تشریع ۔ تو حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ '' جس نے کسی دینی کام کے شروع کرنے میں ابتداء کی '' نہ کہ یہ مراد ہوگا کہ '' جس نے شریعت سازی کرتے ہوئے دین کے اندر کسی غیر موجود کام کی داغ بیل ڈالی '' کیونکہ بفرمان رسول :'' کل بدعۃ ضلالۃ '' شریعت سازی قطعا ممنوع ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بھائیو :
ایک اہم بات یہ بھی جان لینی چاہیے کہ کوئی بھی عمل اتباع رسول کے مطابق اسی وقت ہوگا جب اس کے اندر پائے جانے والے چھ اوصاف شریعت سے ثابت ہوں :
اول : سبب ( اس عبادت کا سبب شریعت سے ثابت ہونا چاہیے )
اگر کوئی انسان اللہ کی عبادت کسی ایسے سبب کی بناء پر کرتا ہے جو غیر شرعی ہے تو وہ عبادت بدعت اور مرودو ہے ۔
مثال : بعض لوگ رجب کی ستائیسویں رات کو جاگتے ( اور قیام کرتے )ہیں کہ اس رات میں اللہ کے رسول کو معراج کرایا گیا تھا ۔ اب تہجد پڑھنا تو عبادت ہے لیکن جب اس کا سبب ایسا بنالیا گیا جو شریعت سے ثابت نہیں تو یہ عبادت بھی بدعت میں تبدیل ہوجائے گی ۔
اس وصف ۔ یعنی عبادت سبب میں بھی شریعت کے مطابق ہو ۔ سے بہت ساری بدعات واضح ہوجاتی ہیں جن کو لوگوں نے سنت کا نام دے رکھا ہے ۔
دوم : جنس
ضروری ہےکہ عبادت کی جنس شریعت سے ثابت ہو ، چنانچہ اگر کوئی انسان ایسی عبادت کرتا ہے جس کی جنس مشروع نہیں تو تو عبادت غیر مقبول ہے ۔
مثال : کوئی آدمی گھوڑے کی قربانی کردے تو اس کی یہ قربانی قابل قبول نہیں کیونکہ قربانی کے لیے اللہ نے اس جنس کو مقرر ہی نہیں کیا بلکہ قربانی صرف چوپایوں میں سے اونٹ ، گائے اور بھیڑ ،بکری کی ہوتی ہے ۔
سوم : مقدار
پس اگر کوئی انسان فرض نمازوں میں ایک نماز کا اضافہ کرلے تو ہم کہیں گے کہ یہ اضافہ بدعت ہے کیونکہ شریعت نے جو فرض نمازوں کی جو تعداد مقرر کی ہے یہ اس سے زائد ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی نماز مثلا ظہر کی چار کی بجائے پانچ رکعتیں ادا کرے تو اس کی نماز بالاتفاق درست نہیں ہوگی ۔
چہارم : کیفیت
اگر کوئی انسان وضو ،پاؤں دھونے سے شروع کرے ، پھر سر کا مسح ،پھر ہاتھ ، پھر منہ ، تو ہم کہیں گے کہ اس کا وضو باطل ہے کیونکہ یہ شریعت کی بتائی ہوئے کیفیت کے مطابق نہیں ۔
پنجم : وقت ( یعنی عبادت کا وقت شریعت کےمطابق اختیار کیا جائے )
اگر کوئی انسان ذو الحجہ کے پہلے دن ہی قربانی کردے تو اس کی قربانی قابل قبول نہیں ہوگی کیونکہ یہ ایسے وقت میں کی گئی جو شریعت نے قربانی کے لیے مقرر ہی نہیں کیا ۔
میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ رمضان کے مہینے میں بھیڑ بکریاں ایک خاص عبادت سمجھتے ہوئے ذبح کرتے ہیں اب یہ عمل اس صورت میں بدعت ہے کیونکہ بطور عبادت کے ذبح کردہ چیزوں کی صرف تین قسمیں ہیں :
عیدالأضحی کی قربانی ، حج کی قربانی ، عقیقہ کی قربانی ۔
رہا رمضان کے اندر ذبح کرنا خاص اجر کی نیت سے جیسا کہ عید الأضحی کے موقعہ پر کیا جاتا ہے تو یہ بدعت ہے ، ہاں اگر ویسے گوشت وغیرہ حاصل کرنے کی نیت سے کیا جائے تو جائز ہے ۔
ششم : جگہ ( عبادت کے لیے جگہ کا اختیار بھی شریعت کی بنیاد پر ہو )
اگر کوئی شخص مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف کرنا چاہے توا س کا اعتکاف درست نہیں ہوگا کیونکہ اعتکاف کے لیے شریعت نے جو جگہ مقرر کی ہے وہ صرف مساجد ہیں ۔اگر کوئی عورت کہے کے میں گھر میں نماز پڑھنے والی جگہ پر اعتکاف کرلوں تو وہ بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ اس جگہ کو شریعت نے اعتکاف کے لیے مقرر نہیں کیا ۔
اس کی مزید ایک مثال یوں ہے کہ اگر کوئی آدمی بیت اللہ کا طواف کرنا چاہ رہا ہے لیکن مطاف کے اندر اور ارد گرد جگہ کی تنگی کے سبب وہ باہر جاکر مسجد کے گرد چکر لگانا شروع کردیتا ہے تو اس کا طواف درست نہیں ہوگا کیونکہ شریعت کی طرف سے طواف کے لیے مقرر کردہ جگہ '' بیت اللہ '' ہے جیساکہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا :
{وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ} (الحج 26 )
میرے گھر کو طواف کرنے والون کے لیے پاک صاف رکھو ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خلاصہ یہ کہ :
کسی بھی عبادت کے قابل قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر دو شرطیں پائی جائیں :
اول : اخلاص ، یعنی پختہ نیت یہ ہو کے عبادت صرف اللہ ہی کےلیے ہے ۔
دوم : اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یعنی عبادت سنت رسول کے مطابق ہو ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہےجب اس کے اندر مذکورہ چھے اوصاف موجود ہوں ۔
میں ان سب لوگوں سے گزارش کرتا ہوں جو بدعات میں مبتلا ہیں ( ممکن ہے ان کی نیت درست ہو اور وہ اپنے تیئں نیکی کررہے ہوں ) اگر آپ نیکی کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ۔
میرے بھائیو !
سنت رسول پر سختی سے کاربند ہوکر سلف صالحین کے طریقہ پر چلو ۔ پھر دیکھنا کہ اس چیز کا تمہیں کوئی نقصان ہوا ہے ؟
میں ایک بات کہناچاہتا ہوں ۔ اور اللہ کی پناہ مانگتاہوں ایسی بات کہنے سے جس کا مجھے علم نہیں ۔ کہ ان بدعات کو دین کے نام پر رواج دینے والے بہت سارے لوگ شرعی اور سنت سے ثابت شدہ کاموں میں سستی و کاہلی کا شکار ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ عموما بدعات میں لگے رہتے ہیں اور سنتوں پر عمل کرنے کی انہیں صحیح طرح سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بدعات دل پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ بدعتیں جس طرح دین کے لیے بہت خطرنا ک ہیں اسی طرح قلوب واذہان پر بھی بہت برے اثرات مرتب کرتی ہیں ۔
بعض سلف صالحین اور اہل علم سے مذکور ہے کہ جب بھی کوئی قوم دین کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس طرح کی یا اسے بھی بڑی کوئی سنت ان سے ضائع ہوجاتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان یہ بات ذہن نشین کر لیتا ہے کہ اس کی ذمہ داری شریعت کی پیروی ہے نہ کہ خود شریعت سازی تو اس وقت وہ صحیح طریقہ سے شریعت پر عمل پیرا اور اللہ رب العالمین کی کما حقہ عبادت و فرمانبرداری اور امام المتقین ، سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی مکمل اتباع میں آتا ہے ۔
میں اپنے ان تمام مسلمان بھائیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں جنہوں نے مختلف قسم کی بدعات کو نیکی سمجھ لیا ہے چاہے ان کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی ذات سے ہی ہے ، کہ اللہ سے ڈر تے ہوئے ان سے باز آجائیں اور ان معاملات کو بدعت کی بجائے سنت ، شرک کی بجائے للہیت ، شیطان کی خوشنودی کی بجائے اللہ کی خوشنودی کی بنیاد پر سر انجام دیں ۔ اور پھر دیکھیں کہ ان کے قلوب و اذہان کس طرح زندہ و منور ہوتے ہیں ،سلامتی ، اطمینان اور راحت محسوس کرتے ہیں ۔
میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں ہدایت یافتہ اور نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا بنادے ۔ اور ہمارے دلوں کو علم و ایمان سے روشن فرمادے اور علم کو ہمارے لیے وبال نہ بنائے ۔ اور ہمیں اپنے مومن بندوں کے رستے پر چلائے اور کامیاب و پرہیز گار اولیاء کے گروہ میں شامل فرمائے ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ و أجمعین ۔
 
شمولیت
فروری 19، 2014
پیغامات
91
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
83
خلاصہ یہ کہ :
کسی بھی عبادت کے قابل قبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر دو شرطیں پائی جائیں :
اول : اخلاص ، یعنی پختہ نیت یہ ہو کے عبادت صرف اللہ ہی کےلیے ہے ۔
دوم : اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یعنی عبادت سنت رسول کے مطابق ہو ۔اور یہ اسی وقت ممکن ہےجب اس کے اندر مذکورہ چھے اوصاف موجود ہوں ۔
میں ان سب لوگوں سے گزارش کرتا ہوں جو بدعات میں مبتلا ہیں ( ممکن ہے ان کی نیت درست ہو اور وہ اپنے تیئں نیکی کررہے ہوں ) اگر آپ نیکی کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ۔
میرے بھائیو !
سنت رسول پر سختی سے کاربند ہوکر سلف صالحین کے طریقہ پر چلو ۔ پھر دیکھنا کہ اس چیز کا تمہیں کوئی نقصان ہوا ہے ؟
میں ایک بات کہناچاہتا ہوں ۔ اور اللہ کی پناہ مانگتاہوں ایسی بات کہنے سے جس کا مجھے علم نہیں ۔ کہ ان بدعات کو دین کے نام پر رواج دینے والے بہت سارے لوگ شرعی اور سنت سے ثابت شدہ کاموں میں سستی و کاہلی کا شکار ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ عموما بدعات میں لگے رہتے ہیں اور سنتوں پر عمل کرنے کی انہیں صحیح طرح سے فرصت ہی نہیں ملتی ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب بدعات دل پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ بدعتیں جس طرح دین کے لیے بہت خطرنا ک ہیں اسی طرح قلوب واذہان پر بھی بہت برے اثرات مرتب کرتی ہیں ۔
بعض سلف صالحین اور اہل علم سے مذکور ہے کہ جب بھی کوئی قوم دین کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو اس طرح کی یا اسے بھی بڑی کوئی سنت ان سے ضائع ہوجاتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان یہ بات ذہن نشین کر لیتا ہے کہ اس کی ذمہ داری شریعت کی پیروی ہے نہ کہ خود شریعت سازی تو اس وقت وہ صحیح طریقہ سے شریعت پر عمل پیرا اور اللہ رب العالمین کی کما حقہ عبادت و فرمانبرداری اور امام المتقین ، سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی مکمل اتباع میں آتا ہے ۔
میں اپنے ان تمام مسلمان بھائیوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں جنہوں نے مختلف قسم کی بدعات کو نیکی سمجھ لیا ہے چاہے ان کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی ذات سے ہی ہے ، کہ اللہ سے ڈر تے ہوئے ان سے باز آجائیں اور ان معاملات کو بدعت کی بجائے سنت ، شرک کی بجائے للہیت ، شیطان کی خوشنودی کی بجائے اللہ کی خوشنودی کی بنیاد پر سر انجام دیں ۔ اور پھر دیکھیں کہ ان کے قلوب و اذہان کس طرح زندہ و منور ہوتے ہیں ،سلامتی ، اطمینان اور راحت محسوس کرتے ہیں ۔

میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں ہدایت یافتہ اور نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا بنادے ۔ اور ہمارے دلوں کو علم و ایمان سے روشن فرمادے اور علم کو ہمارے لیے وبال نہ بنائے ۔ اور ہمیں اپنے مومن بندوں کے رستے پر چلائے اور کامیاب و پرہیز گار اولیاء کے گروہ میں شامل فرمائے ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ و أجمعین ۔
پھر ہم نے ان رسولوں کے نقوش قدم پر (دوسرے ) رسولوں کو بھیجا اورہم نے ان کے پیچھے عیسی ابن مریم کو بھیجا اورہم نے انہیں انجیل عطا کی اور ہم نے ان لوگوں کے دلوں میں جو ان کی (یعنی عیٰسی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کردی۔ اور رہبانیت ( یعنی عبادت الٰہی کے لیے ترک دنیا اور لذتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی ، اسے ہم نے ان پر فرض نہیںکیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کر سکے ( یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)، سو ہم نے ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے ( اور بدعت و رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، ان کا اجرو ثواب عطا کردیا اور ان میں سے اکثر لوگ ( جو اس کے تارک ہو گئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں۔ سورۃ الحدید 57 پارہ 27
اس آیہ کریم میں قرآن وسنت کے کسی حکم کے بغیر از خود کسی بدعت کو ایجاد کرنا، اس پر عمل پیرا ہونا اورپھر عند اللہ اس کے مقبول ہو جانے کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں
آیت کے الفاظ ابتد عو ھا بدعت سے مشتق ہیں ۔ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ دین عیسوی میں اصلا رہبانیت فرض نہ تھی ۔ اس کا تعلیمات مسیح میں سرے س کوئی زکر ہی نہ تھا ۔ بعد کے لوگوں نے از خود وصول الی اللہ اور قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہو ئے بدعت کے طور پر ایجاد کر لیا تھا۔ رہبانیت بھی اللہ کا حکم نہ ہونے کے باوجود دین عیسوی میں بدعت حسنہ ہونے کی وجہ سے شریعیت میں داخل ہو گئی لہذا اس پر اجرو ثواب متحقق ہو گیا۔
پس ثابت ہو ا کہ اگر کوئی عمل فی نفسہ بدعت ہی ہو وہ پھر بھی رضائے الہی کے حصول کا باعث بن سکتا ہے اور نیک نیتی کی وجہ سے عمل مقبول ہو سکتا ہے یہہی سے بدعت حسنہ کا تصور ابھرتا ہے

جن لوگوں نے اس آیت کے مطابق فاتینا الذین امنو منھم اجرھم بد عت حسنہ ( رہبانییت ) کے تقاضوں کو پورا کیا اللہ تعالٰی نے ان کی محنت قبول کی اور انہیں اجر و ثواب سے نوازا۔ اگر دین عیسوی میں رہبانیت کی بدعت فی نفسہ ناجائز ہوتی تو کبھی بھی اللہ کی طرف سے اس پر اجرو ثواب عطا نہ کیا جاتا۔
اگر رضائے الٰہی کے خاطر کوئٰی نیاکام جسے عرف عام میں بدعت کہتے ہیں کیا جائے جو جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہے ۔ امر متحسن کے طور پر اس کام پر اجرو ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں ۔ ایسے امور شریعت میں مشروع حیثیت رکھتےہیں ان کو مطلقا ناجائز سمجھنا زیادتی ہے۔ ۔
 
Top