• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہوتی !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
شہید کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہوتی !!!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے فرمایا کہ اللہ نے تمہارے شہید والد سےفرمایا کہ اے میرے بندے ! مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرو، میں تجھے عطا کروں گا انہوں نے کہا :اے میرے رب ! تو مجھے دوبارہ زندہ کر دے کہ میں دوبارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں ، اللہ تعالی نے فرمایا: اس با ت کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا نہیں جا ئے گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب! میرے پسما ندگان کو ( میر احال ) پہنچا دے، تو یہ آیت نازل ہوئی :

{وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا } (سورۃ آل عمران: ۱۶۹)
جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں


(سنن ابن ماجہ : 2800 ، ، صحیح ابن ماجہ : 2276)
10155570_612468435488096_248336897261804376_n (1).jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شہید کو (اپنے) قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے

(سنن ابن ماجہ : 2802 ، ،
صحيح الجامع : 5813 ،
السلسلة الصحيحة : 960)
10014628_612473945487545_1666677046121884509_n (1).jpg
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
قرآن کی آیت سے میت کی زندگی پہ غلط استدلال

سورہ آل عمران کی ایک آیت سے غلط استدلال کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سارے ولی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔ یہ قرآن کی آیت کا غلط معنی ہے ۔اس کا صحیح معنی و مطلب ذیل میں پیش کیا جاتا ہے ۔
آیت دیکھیں ۔
ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون ( آل عمران:169)
ترجمہ :جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوجائیں، انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم (اے انسانو) شعور نہیں رکھتے۔

یہ آیت عام لوگوں سے متعلق نہیں بلکہ صرف اور صرف شہیدوں سے متعلق ہے جو اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ۔

اورقرآن کی اس آیت میں شہید کو جو زندہ کہا گیا ہے وہ دنیاوی اعتبار سے نہیں بلکہ اخروی اعتبارسے ، یعنی شہیدوں کی زندگی دنیاوی نہیں ,اخروی زندگی ہے ۔ دنیاوی اعتبار سے شہید بھی وفات پا چکے ہیں ۔ قرآن و حدیث میں سیکڑوں دلیلیں ہیں جو یہ بتلاتی ہیں کہ دنیا کی ہرشی فانی ہے اور ہرنفس کو موت آئے گی ، کوئی بھی موت سے نہیں بچے گا خواہ نبی ہوں ، شہید ہو ں یا ولی ہوں۔

قرآن کی مذکورہ بالاآیت میں زندگی سے مراد آخرت والی زندگی ہے ، دنیاوی اعتبار سے شہید وفات پاچکے ہیں ۔ اس کی چند دلیل دیکھیں :

(1) لمَّا قُتِلَ عبدُ اللَّهِ ابن عَمرِو بنِ حرامٍ يومَ أُحُدٍ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ: يا جابرُ، ألا أخبرُكَ ما قالَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لأبيكَ؟ قلتُ: بلَى، قالَ: ما كلَّمَ اللَّهُ أحدًا إلَّا من وراءِ حجابٍ، وَكَلَّمَ أباكَ كِفاحًا فقالَ: يا عَبدي تمنَّ عليَّ أُعْطِكَ قالَ: يا ربِّ، تُحييني فأُقتَلُ فيكَ ثانيةً قالَ: إنَّهُ سبقَ منِّي أنَّهم إليها لا يرجِعونَ قالَ: يا ربِّ، فأبلِغْ مَن ورائي، فأنزلَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ هذِهِ الآيةَ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا الآيةَ كلَّها(ابن ماجہ:2800)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمر و بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کردیے گئے تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جا بر! اللہ تعالی نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتا ئوں ؟'' میں نے کہا:کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ ﷺنے فرمایا:'' اللہ تعالی نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اورکہا:اے میرے بندے !مجھ سے اپنیخو اہش کا اظہا ر کرو، میں تجھے عطا کر وں گا'' انہوں نے کہا :اے میرے رب ! تو مجھے دو بارہ زندہ کر دے کہ میں دو بارہ تیرے راستے میں مارا جاؤں، اللہ تعالی نے فرمایا: اس با ت کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لو ٹا یا نہیں جا ئے گا، انہوں نے کہا : اے میرے رب! میرے پسما ندگان کو( میر احال ) پہنچادے، تو یہ آیت نا زل ہوئی: {وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا } (سورۃ آل عمران: ۱۶۹) جولو گ اللہ کی راہ میں ما رے گئے انہیں تم مردہ مت سمجھو۔
٭ اس حدیث البانی ؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔(صحیح ابن ماجہ : 2276)

وضاحت : یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ شہید بھی وفات پاچکے ہیں ، شہیداللہ سے دوبارہ زندگی مانگتے ہیں مگر وفات پانے کے بعد دوبارہ کوئی دنیا میں نہیں آسکتا۔

(2) عَنْ أَبِي هُرَ يْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ " مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنَ الْقَتْلِ إِلا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مِنَ الْقَرْصَةِ "۔(ابن ماجہ :2802)
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے۔

* اسے شیخ البانی ؒ نے حسن صحیح کہا ہے ۔ (صحیح ابن ماجہ : 2278)

وضاحت : اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ شہید کو قتل کے ذریعہ جب وفات ہوتی ہے تو انہیں چیونٹی کاٹنے کے برابر تکلیف ہوتی ہے ۔

(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
مَن قُتِلَ في سبيلِ اللَّهِ فَهوَ شَهيدٌ ، ومن ماتَ في سبيلِ اللَّهِ فَهوَ شَهيدٌ ، ومَن ماتَ في الطَّاعونِ فَهوَ شَهيدٌ ، ومَن ماتَ في البَطنِ فَهوَ شَهيدٌ (مسلم :1915)
جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے،اورجو اللہ کی راہ میں نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا ، یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور اُس دوران )مر گیا وہ بھی شہید ہے ، اور اور جو طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اورجو پیٹ (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے۔

وضاحت : اس حدیث میں اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو کہا گیا جو اللہ کی راہ میں مر جاتے ہیں وہ شہید ہیں ۔

مذکورہ بالا نصوص سے پتہ چلا کہ قرآن کی آیت میں مذکور " اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو مردہ مت کہو" آخرت کی زندگی ہے ، اور شہداء بھی قتل ہونے سے وفات پاجاتے ہیں ۔ اس لئے صوفیوں اور بریلویوں کا اس آیت سے ولیوں کےاپنی قبروں میں زندہ ہونے پہ استدلال کرنا غلط ہے۔ باختصار چند اسباب ذکر کرتا ہوں ۔

٭ قرآن کی آیت شہید کے لئے خاص ہے ، اس لئے "اولیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں" کہنا خلاف شرع ہے ۔
٭شہید بھی قتل ہونے سے وفات پاجاتے ہیں ، ورنہ ان کی تدفین نہ کی جاتی ؟ جب شہید بھی وفات پاتے ہیں تو اولیاء بدرجہ اولی ۔
٭ آیت میں ذکر ہے شہیدوں کو روزی ,اللہ کے پاس دی جاتی ہے ، اس لئے دنیاوی زندگی مراد لینا غلط ہے ۔
٭ سورہ آل عمران کی مذکورہ بالاآیت کی مزید وضاحت سورہ بقرہ کی ِآیت نمبر 154 سے ہوتی ہے۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔(البقرہ:154)
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔
یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ شہید کی زندگی برزخی ہے جس کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں ۔
٭ اگر انبیاء ، شہداء اور اولیاء وغیرہ زندہ ہوتے، ہماری بات سنتے، ہماری مدد کرتے تو دین و دنیا کا کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا، اور خاص طور سے دین میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ لوگ ہربات نبی سے یا اولیاء سے پوچھ لیتے اور وہ لوگ اپنی قبروں سے صحیح جواب دے دیتے مگر ایسا نہیں ہوتا۔
٭انبیاء بھی وفات پاتے ہیں جیساکہ قرآن وحدیث میں بہت سارے دلائل موجود ہیں ۔ جب انبیاء کو موت آتی ہے تو پھر دیگر لوگوں کو بدرجہ اولی موت آئے گی ۔

اس لئے یہ کہنا کہ " اولیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں" غلط ہے البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اولیاء کو قبروں میں برزخی زندگی ملی ہے مگر اس زندگی کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں جیساکہ قرآن بتلاتا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شہید کو (اپنے) قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے

(سنن ابن ماجہ : 2802 ، ،
صحيح الجامع : 5813 ،
السلسلة الصحيحة : 960)


6253 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام علیکم !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی کیا یہ حدیث صحیح ہے
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
200037: شرح حديث: ( مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ، إِلَّا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مَسِّ الْقَرْصَةِ )


السؤال :
أعتقد أنني قرأت في كتاب ما حديثا لرسول الله ، صلى الله عليه وسلم ، يقول فيه : "إنه لا يجد الشهيد من ألم الموت إلا قرصة كقرصة النملة .

فهل هذا صحيح ؟

وما معنى ذلك الحديث؟

الجواب :
الحمد لله
روى الإمام أحمد (7953) ، والترمذي (1668) ، والنسائي (3161) ، وابن ماجة (2802) ، وابن حبان (4655) ، والبيهقي (18525) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ( مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ، إِلَّا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مَسِّ الْقَرْصَةِ ) وصححه الترمذي ، وصححه الألباني في " صحيح الترمذي " وغيره ، وكذا صححه السيوطي ، وأحمد شاكر ، وغيرهم .
وله شاهد يرويه الطبراني في " المعجم الأوسط" (280) من حديث أَبِي قَتَادَةَ .
وشاهد آخر من حديث ابن عباس يرويه ابن أبي عاصم في "الجهاد" (192).
وبوب له ابن حبان : " ذِكْرُ وَصْفِ مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنْ أَلَمِ الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَلَّ وَعَلَا " .
ومعنى الحديث : أن المجاهد في سبيل الله إذا أراد الله به الكرامة فقتل في سبيله شهيدا ، فإنه لا يجد من ألم القتل ومعالجة الموت إلا كما يجد أحدنا من ألم القرصة ، والقرص كما في "القاموس المحيط" (ص 626) :
" أخْذُكَ لَحْمَ الإِنْسَانِ بإصْبعَيْكَ حتى تُؤْلِمَهُ " .
وقيل : مثل عض النملة .
قال ابن القيم رحمه الله :
" لا يجد الشهيد من الألم إلا مثل ألم القرصة، فليس في قتل الشهيد مصيبة زائدة على ما هو معتاد لبنى آدم ؛ فمن عد مصيبة هذا القتل أعظم من مصيبة الموت على الفراش : فهو جاهل، بل موت الشهيد من أيسر الميتات ، وأفضلها وأعلاها "
انتهى من "إغاثة اللهفان" (2/ 194) .
وقال المناوي رحمه الله :
" يعني أنه تعالى يهون عليه الموت ويكفيه سكراته وكربه ، بل رب شهيد يتلذذ ببذل نفسه في سبيل الله طيبة بها نفسه ؛ كقول خبيب الأنصاري حين قتل :
ولست أبالي حين أقتل مسلما ** علي أي شق كان لله مصرعي
انتهى من "فيض القدير" (4/ 182) .
وقال أيضا :
" وهذه تسلية لهم عن هذا الحادث العظيم والخطب الجسيم ، وتهييج الصبر على وقع السيوف واقتحام الحتوف " انتهى من "فيض القدير" (4/ 182) .
وقال ابن علان رحمه الله :
" (ما يجد الشهيد من مس القتل) وألمه (إلا كما يجد أحدكم من مس القرصة) أي: قرصة نحو النملة من كل مؤلم ألماً خفيفاً، سريع الانقضاء لا يعقب علة، ولا سقماً . قال العاقولي: القرص الأخذ بأطراف الأصابع، وأدخل عليها أداة الحصر؛ دفعاً لما يتوهم أن ألمه أعظم من ألمها " انتهى من "دليل الفالحين" (7/ 124) .
راجع لمعرفة فضل الشهادة في سبيل الله جواب السؤال رقم : (8511) ، (114908) .
والله تعالى أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/200037
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شہید کو (اپنے) قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے

(سنن ابن ماجہ : 2802 ، ،
صحيح الجامع : 5813 ،
السلسلة الصحيحة : 960)


6253 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
http://kitabosunnat.com/kutub-library/sunan-ibne-maja-4
 
Top