• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ المقری علامہ علی محمد الضبّاع

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ المقری علامہ علی محمد الضبّاع

ڈاکٹر یاسر ابراہیم مزروعی ، الشیخ عمر مالم أبہ
نظرثانی: الشیخ ابراہیم علی شحاتہ السمَنُّودی
ترتیب واِضافہ جات: محمد فاروق حسینوی​
شیخ القراء علامہ علی محمدالضباع﷫ بیسویں صدی عیسویں میں جمہوریہ مصر کے مایہ ناز قراء میں سے ایک تھے۔ اس دور میں دنیا بھر کے مشائخ ِقراء ات کی قیادت آپ کے ہاتھ میں رہی اور اِس صدی کے جمیع اساطین فن علمی طور پر آپ ہی سے فیض یاب تھے۔ آج دنیا بھر میں علم قراء ات کی جو اسانید رائج ہیں، اکثر آپ ہی کی واسطے سے رسول اللہ ﷺتک پہنچتی ہیں۔ اپنی زندگی میں جہاں آپ نے ہزاروں تلامذہ پیدا کیے، وہاں ان کے قلم سے سینکڑوں تصنیفات وتحقیقات بھی منصہ شہود پر موجود ہیں۔ جس طرح سعودی عرب وغیرہ میں’مفتی اعظم‘ کا تقرر باقاعدہ حکومت کی طرف سے ہوتا ہے، اسی طرح جمہوریہ مصر میں ’شیخ المقاری‘ کا تعین بھی حکومتی قیادت ہی کرتی ہے، جس کا تقرر تو بظاہر حکمرانوں کے ہاتھوں ہوتا ہے لیکن ایسا شخص دراصل ماہرین فن اور عوام الناس کے اعتماد کی ایک واضح علامت ہوتا ہے۔ اپنے زمانہ میں جمہوریہ مصر میں حکومتی سطح پر ان کو اس جلیل القدر منصب پر فائز کرکے شیخ القراء والمقاری المَصْریَّۃ کا لقب عطا کیا گیا۔ غالبا آپ پہلے شخص ہیں، جنہیں عوامی اعتماد کی بنا پر یہ لقب عطا کیا گیا۔ان کے بعد اب یہ منصب مسلسل منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔
علامہ الضبَّاع﷫کی حالات زندگی پر مشتمل مضمون کو مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے رکن محمد فاروق حسینوی﷾ نے ڈاکٹر یاسر ابراہیم مزروعی﷾ کی کتاب أحسن الأثر فی ترجمۃ إمام القرآء والمقرئین بمصر اور معروف مصری محقق قاری الشیخ عمر مالم أَبَہْ ﷾ کے مختصر بلُوغ الأمنیَّۃ اَز شیخ الضبَّاع﷫کی تحقیق کے مقدمہ میں ان کے حالات زندگی کی روشنی میں مرتب کرکے پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر یاسر مزروعی﷾ کی کتاب کی نظرثانی عالم اسلام کے جلیل القدر عالم ِقراء ات الشیخ ابراہیم علی الشحاتہ السمنُّودی﷫ نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل فرما دی تھی، زیر نظر مضمون بھی چونکہ بنیادی طور پر اِسی کتاب سے ماخوذ ہے، چنانچہ ہم اِسے موصوف کی نظر ثانی کے عنوان سے پیش کررہے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نام و نسب
آپ﷫ کا پورا نام علی بن محمد بن حسن بن ابراہیم بن عبداللہ نور الدین الشافعی ہے اور آپ﷫ الضبَّاع کے لقب سے مشہور ہوئے۔اس لقب سے مشہور ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ﷫ کے جداعلیٰ ضباع کا شکار کرتے تھے جس کی بدولت ضباع کے لقب سے مشہور ہوگئے۔بعدازاں آپ﷫ علامہ کبیر اور علم تجوید و قراء ات، رسم عثمانی اور ضبط المصاحف میں شہرت آفاقی کے حامل ٹھہرے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پیدائش
علامہ علی محمدالضبَّاع﷫ ۷ ؍ربیع الاوّل ۱۳۰۷ھ بمطابق ۱۰ نومبر ۱۸۸۶ء کو قاہرہ میں پیداہوئے۔
تعلیمی آغاز و اِرتقاء
انسان درحقیقت مدنی الطبع اور معاشرت پسند تخلیق کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اَفراد خانہ اور اپنے معاشرہ میں سکون محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح علامہ علی محمدالضبَّاع﷫ نے اپنا بچپن اور سن بلوغت سے قبل کے اَیام نہایت مشفق اور حد سے زیادہ محبت کرنے والے افراد خانہ اور اپنے صحت مند معاشرہ میں بسر کئے۔
علامہ﷫ کی عمر جب پانچ سال ہوئی توآپ کے والدین نے آپ کو حصولِ علم کے لیے روانہ کردیا تاکہ حفظ قرآن کے بعدمصرکے بڑے بڑے علماء اورقراء سے علوم قرآن، قراء اتِ قرآنیہ اور دیگر شرعی علوم پڑھ کر نامور اور جید عالم دین اور ماہر قرآن بن سکیں۔
آپ﷫ نے دوہی برس میں قرآن کریم حفظ کر لیا تھااور اسی دوران آپ کو قرآن سے ایک خاص تعلق بھی پیدا ہوگیا تھا۔لہٰذاآپ﷫ نے علوم قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ موصوف کی ذہانت و فطانت دورانِ حفظ نمایاں ہوچکی تھی اسی وجہ سے شیخ محمد بن احمدالمتولی﷫ نے ان کے سسرالشیخ العلامہ حسن بن یحییٰ الکتبی﷫ کو وصیت کی کہ آپ اپنے ذہین و فطین بیٹے علی محمدالضبَّاع﷫ کو علوم قرآن اور قراء ات قرآنیہ کی تعلیم سے بہرور فرمائیں تاکہ میری وفات کے بعد لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے اس کی طرف رخ کریں۔
اسی وصیت کے پیش نظر علامہ نے قرآن، علوم قرآن اور قراء اتِ قرآن میں خوب محنت کی اور اپنے زمانہ میں قرآن، علوم قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ کے سب سے بڑے ماہر ثابت ہوئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ القراء کا عملی دور
آپ چونکہ قرآن، علوم قرآن بالخصوص قراء ات قرآن کے علامہ تھے۔ اسی لیے علوم قرآن بالخصوص قراء ات قرآن کی نشرواشاعت میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔
آپ مسجد حسن قاہرہ کے شیخ اکبر مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ مسجد رقیہ رضی اللہ عنہا اور مسجد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا میں علامہ شیخ محمد بن علی بن خلف الحسینی﷫ کے ساتھ امام مقرر ہوئے۔آپ کی خدمات کی وجہ سے مصر کے بادشاہ ’الملک فاروق‘ آپ سے اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کو۱۹۴۹ء میں مصر کاشیخ القراء مقرر کردیا۔آپ اس منصب پرفائز ہونے کے بعد علوم قرآن اور قراء ات قرآن کی نشرواشاعت کے لیے پہلے سے زیادہ کوشاں ہوگئے۔
آپ اپنی خدمات کی بدولت مصر کے تمام قراء کے والی اور امیرمقرر ہوئے۔ آپ سیبے شمار لوگوں نے حصول علم کیا۔آپ ہر وقت طلباء کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھتے تھے۔
مزید برآں آپ نے علوم قرآن بالخصوص قراء اتِ قرآن پر اس قدر لکھا کہ دیکھنے اور پڑھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ تدریس کے ساتھ ساتھ ایک شخص اس قدر کام کرگیاہے۔ اس کے علاوہ آپ نے قراء ات قرآنیہ پر معترضین کے اعتراضات کا تعاقب اور ان کی تردید کرتے ہوئے، انہیں انجام کارتک پہنچایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عادات و خصائل
آپ نیک طبع انسان تھے۔زہدو تقویٰ آپ کی شخصیت میں رچ بس گیاتھا۔ علامہ موصوف عاجزی وانکساری کے پیکر، عبادت گزار،ریا کاری سے اجتناب کرنے والے اور جھوٹی شہرت سے کوسوں دور رہنے والے تھے۔ آپ اَخلاق حسنہ کے مالک اور فرشتہ سیرت انسان تھے۔ آپ ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا قرآن کریم سے اس قدر لگاؤ اور تعلق تھا کہ ہر وقت آپ کی زبان تلاوت کلام پاک سے تر رہتی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَساتذہ کرام
آپ نے بے شمار جلیل القدر اور ثقات قراء کرام سے علم قراء ات میں استفادہ فرمایا، لیکن چند ایک شیوخ سے بالخصوص پڑھا۔جن کاذیل میں مختصر تذکرہ کیا جاتاہے:
(١) العلامۃ الشیخ أحمد بن محمد الشکری﷫
ان سے آپ نے بروایت حفص عن عاصم بطریق شاطبیہ قرآن کریم حفظ کیا اورعلامہ شیخ احمد بن محمد الشکری﷫ کو مکمل قرآن کریم سنایا۔
(٢) الأستاذ الکبیر الشیخ المقری عبد الرحمن بن حسین الخطیب الشعار﷫
(٤) العلامۃ الشیخ المقری حسن بن یحییٰ الکتبي﷫
آپ نے مذکورہ بالا دونوں شیوخ سے مکمل قراء ات سبعہ بطریق شاطبیہ پڑھی اور قراء ات سبعہ کی سند اِجازہ بھی حاصل کی۔اس کے بعد مذکورہ دونوں شیوخ سے قراء ات عشرہ صغریٰ و کبریٰ، علم الرسم، علم الضبط، عدالآیو دیگر علوم قرآن سیکھے۔
یاد رہے کہ دونوں شیوخ علامہ الشیخ محمد بن احمد بن حسن بن سلیمان﷫ المعروف بالمتولی کے تلامذہ ہیں۔
(٥) الشیخ محمود عامر مراد الشبینی الشافعی﷫(م ۱۳۳۶ھ)
موصوف نے ان سے قراء ات عشرہ بطریق طیبۃ النشر پڑھیں۔آپ کو قراء ات عشرہ میں روایت حفص کی طرح عبور حاصل تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ علی محمدالضبَّاع﷫ کی عملی زندگی اور تدریسی خدمات
آپ نے۱۵ سال کی عمر میں تدریس کاآغاز کیا اور اپنی جوانی میں علم قراء ات کی اشاعت کے لیے مستعد ہوگئے۔آپ اپنی تدریسی اور عملی زندگی میں طلبا اور اپنے معاصرین میں انتہائی لائق، ذہین و فطین اورایک کامیاب استاد کے طور پرمعروف ہوئے۔ اس لیے الملک فاروق نے آپ کو مصر کا شیخ المقاری مقرر کردیا۔آپ کی مجلس ’خدمۃ الدعوۃ الإسلامیۃ‘میں خدمات بطورِ ’’شیخ المقاری‘‘ مصر اس قدر تھیں کہ ان کی بناء پرآپ کے تلامذہ نے آپ کو علامہ کالقب دیا، جولقب ماہرفن اور متبحر فی العلم کو دیا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
موصوف کے نامور تلامذہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوقات میں بے بہا برکت رکھی تھی۔اس لیے آپ سے علم تجوید و قراء ات میں عربی وعجمی، مصر اور دیگر ممالک کے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا جن کااحاطہ کرنا ناممکن ہے۔آپ کی جہاں بھی تشریف آوری ہوئی تو آپ کو بڑی شان و شوکت اور رفعت و بلندی سے نوازا گیا۔ذیل میں آپ کے نامورتلامذہ کے نام اور ان کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصری تلامذہ
(١) الشیخ إبراہیم عطوۃ عوض ﷫
انہوں نے موصوف سے ’’قراء ات عشرۃ من طریق الشاطبیۃ والدرۃ والطیبۃ‘ پڑھی۔ یہ ازھر شریف میں مدرسین کی کمیٹی میں شامل تھے اور’المجلس الأعلی للشؤون الإسلامیۃ‘ کے رکن اور قاہرہ میں مسجد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے امام اور شیخ القراء تھے۔انہوں نے آپ کی کتب کی تحقیق بھی کی ہے۔
(٢)الشیخ العلامۃ المقری أحمد بن عبد العزیز بن أحمد بن محمد الزیات ﷫
انہوں نے موصوف سے قاہرہ میں چار قراء ات جو عشرہ سے اوپر ہیں، پڑھیں۔
(٣)المقری الشیخ عبد الحلیم بن بدر بن أحمد بن عطاء اﷲ السیفی المتوفی المصری﷫
انہوں نے آپ سے قرآن کریم کا کچھ حصہ بروایت حفص عن عاصم بطریق الشاطبیۃ پڑھا۔ آپ نے ان کے حسن ادا اور قراء ات اور تجوید کے اُصولوں کو سمجھنے پر ان کی بہت زیادہ تعریف کی اورحوصلہ افزائی فرمائی۔
(٤) الشیخ العلامہ إبراہیم علي السمنودی﷫
آپ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی،کیونکہ علامہ ابراہیم علی السمنودی﷫ آپ کے پاس باربار آتے تھے۔ آپ کے بارے انہوں نے ایک قصیدہ بھی لکھا۔جسے آپ کی مدح کے ضمن میں پیش کیاگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
غیر مصری تلامذہ
(١) الشیخ المحقق عبد العزیز بن الشیخ محمد بن علی عیون السود﷫ (مدیر دارالافتاء مدینہ)
انہوں نے آپ سے قراء اتِ عشرہ بطریق الشاطبیۃ ، الدرۃ والطیبۃ پڑھی۔ قراء اتِ عشرہ کے بعد والی چار قراء ات کی آپ پر تلاوت فرمائی۔ اس کے علاوہ آپ سے علم رسم اور عد الآی کے متون پڑھے۔آپ نے موصوف سے علم تجوید و قراء ات میں بہت زیادہ استفادہ کیا۔ مزید شیخ عبدالعزیز بن الشیخ محمد علی عیون السعود﷫ کے لیے اعزاز کی بات یہ ہے کہ انہیں علامہ علی محمدالضبَّاع﷫ نے سند اِجازہ عطا فرمائی۔
(٢)الشیخ محمد أحمد ھانی﷫ (جوکہ مسجد زینب کے شیخ اور امام ہیں)
انہوں نے آپ سے استفادہ اس طرح کیاکہ جب مجلہ کنوز الفرقان کی کتابت ہوتی تو اس میں الشیخ محمد احمد ھانی﷫ شریک ہوتے ان دنوں مدیر و رئیس التحریر شیخ علی محمد الضبَّاع﷫ تھے۔
(٣) الشیخ المحقق المدقق المقری الکبیر أحمد بن حامد بن عبد الرزاق بن عشری بن عبد الرزاق بن حسین بن عشری الحسینی الریدی التیجی المدنی﷫(جو کہ مکہ مکرمہ میں شیخ القراء ہیں)
انہوں نے آپ سے۱۳۴۴ھ میں قراء اتِ عشرہ طیبہ کے طریق سے پڑھی اور اس کے بعد مزید چار قراء ات۱۳۴۵ھ میں پڑھیں۔ آپ نے انہیں۱۳۶۰ھ کو سند اجازہ بھی مرحمت فرمائی۔
(٤) الشیخ أحمد مالک حماد الفوتی السنغالی القاہری الازہری﷫ انہوں نے حصول علم کے لیے بے شمار شہروں اور ملکوں کی طرف سفر کئے۔بعدازاں انہوں نے قاہرہ کی طرف سفر کیا تاکہ مزید حصولِ علم کے ساتھ ساتھ سابقہ پڑھے ہوئے علوم میں پختگی ہوجائے تو اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ۱۹۴۹ء میں اَزھر شریف قاہرہ میں قدم رکھے اور علامہ علی محمدالضبَّاع﷫ سے علم رسم اور علم ضبط میں استفادہ کیا۔
 
Top