کیا ہر انسان کے ساتھ اللہ رب العزت ایک شیطان کو بھی پیدا فرماتے ہیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کیا ہر انسان کے ایک شیطان ہوتا ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :
ہاں ہر انسان کے ایک قرین (یعنی شیطان ،جن ) ہوتا ہے
جسے "قرین " یعنی
ہم نشین کا نام دیا جاتا ہے اسکا وجود ہے جسے اللہ تعالی نے انسانوں میں سے ہر ایک کے ساتھ لگا رکھا ہے اور یہ وہی ہے جو اپنے ساتھی کو شر اور گناہ کی طرف دھکیلتا ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جس کا ذکر آئندہ چل کر آئے گا۔ ،اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
( قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلالٍ بَعِيدٍ . قَالَ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ . مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ ) سورۃ ق/27-29 .
ترجمہ : ("اسکا ہم نشین کہے گا (شیطان) اے ہماری رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں" (سورۃ ق27-29)
قال ابن كثير :
قال قرينه قال ابن عباس رضي الله عنهما ومجاهد وقتادة وغيرهم : هو الشيطان الذي وُكِّل به .
ربَّنا ما أطغيته أي : يقول عن الإنسان الذي قد وافى القيامةَ كافراً يتبرأ منه شيطانه ، فيقول : ربنا ما أطغيته أي : ما أضللتُه . ولكن كان في ضلالٍ بعيدٍ أي : بل كان هو في نفسه ضالاًّ قابلاً للباطل معانداً للحقِّ ، كما أخبر سبحانه وتعالى في الآية الأخرى في قوله وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ابراهيم/22 .
علامہ ابن کثیرؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہدؒ اور قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ (قرین )شیطان ہے جسے اس کام پر لگایا گیا ہے۔ یہ ساتھی یا قرین روز محشر کہے گا کہ
"ربنا ما اصغیتہ" یعنی ما اظللۃ میں نے انہیں گمراہ نہیں کیا۔ "
ولکن کان فی ضلال بعید" یعنی بلکہ وہ خود ہی گمراہ اور باطل کو قبول کرنے والا اور حق کا دشمن تھا جس طرح کہ اللہ تعالی نے دوسری آیات میں خبردی ہے۔
دوسری مقام پر ارشاد باری تعالی ہے۔
"اور جب معاملہ کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکی وعدہ خلافی کی ہے میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ہاں میں نے تمہیں نافرمانی کی صرف دعوت دی اور تم نے مان لی پس اب تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کرنے والا اور نہ تم میری فریاد تک پہنچنے والے میں تر سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقینا ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔"(سورہ ابراہیم 22 )
ارشاد باری تعالی ہے۔
( قال لا تختصموا لديَّ يقول الرب عز وجل للإنسي وقرينِه من الجن وذلك أنهما يختصمان بين يدي الحق تعالى فيقول الإنسي : يا رب هذا أضلَّني عن الذِّكر بعد إذ جاءني ، ويقول الشيطان ربَّنا ما أطغيتُه ولكن كان في ضلالٍ بعيدٍ أي : عن منهج الحق .
فيقول الرب عز وجل لهما : لا تختصموا لدي أي : عندي ، وقد قدمت إليكم بالوعيد أي : قد أعذرت إليكم على ألسنة الرسل ، وأنزلت الكتب ، وقامت عليكم الحجج والبينات والبراهين .
ما يبدل القول لديَّ قال مجاهد : يعني : قد قضيتُ ما أنا قاض .
وما أنا بظلاَّم للعبيد أي : لست أعذِّب أحداً بذنب أحدٍ ، ولكن لا أعذِّب أحداً إلا بذنبه بعد قيام الحجة عليه.
" تفسير ابن كثير " ( 4 / 227 ) .
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان "بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو" تو اللہ جل جلالہ انسان اور جنوں میں سے انکے قرین کو فرمائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے سامنے جھگڑا کررہے ہوں گے تو انسان کہے گا اے رب مجھے حق آجانے کے بعد اس نے گمراہ کیا تھا اور شیطان یہ کہے گا
"ربنا ما اطغیتہ ولکن کان فی ضلال بعید" (اے ہمارے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا) یعن منہج حق سے دور تھا۔
تو اللہ عزوجل فرمائے گا "
لا تختصموا لدی" (بس میرے سامنے جھگڑا مت کرو) یعنی میرے پاس "میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا" یعنی میں نے تمہارا یہ عذر رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے ختم کردیا اور تم پر حجت اور دلیل اور برہان قائم ہوچکا۔ "میرے ہاں بات بدلتی نہیں" مجاہد کہتے ہیں یعنی میں نے فیصلہ کرنا تھا وہ کرچکا۔ "اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں" یعنی میں کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کے بدلے میں عذاب نہیں دونگا لیکن ہر ایک پر حجت قائم ہونے کے بعد اسے اسکے گناہ کا عذاب ہوگا۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر (4/227)
وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما منكم من أحدٍ إلا وقد وكِّل به قرينه من الجن ، قالوا : وإياك يا رسول الله ؟ قال : وإياي ، إلا أن الله أعانني عليه فأسلم فلا يأمرني إلا بخير .
وفي رواية : " … وقد وكِّل به قرينُه من الجنِّ وقرينُه من الملائكة
" .
رواه مسلم ( 2814 ) .
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر اسکے ساتھ ایک جنوں میں سے ہم نشین لگایا گیا ہے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟ تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ بھی لیکن یہ اللہ تعالی نے اس پر میری مدد کی ہے تو وہ فرمانبردار ہوگیا ہے اور مجھے سےصرف نیکی کی بات ہی کرتا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک ہم نشین جنوں میں سے اور ایک فرشتوں میں سے۔
اسے مسلم نے (2814) روایت کیا ہے۔
وبوَّب عليه النووي بقوله : باب تحريش الشيطان وبعثه سراياه لفتنة الناس وأن مع كل إنسان قريناً .
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب یہ باندھا ہے ( باب : شیطان کے برانگیختہ کرنےاور دھوکہ دینے اور اپنے لشکر کو لوگوں میں فتنہ میں ڈالنے کے لئے روانہ کرنا اور ہر انسان کے ساتھ ایک ہم نشین (قرین) ہے۔
قال النووي :
" فأسلم " برفع الميم وفتحها ، وهما روايتان مشهورتان ، فمن رفع قال : معناه : أسلم أنا من شرِّه وفتنته ، ومَن فتح قال : إن القرين أسلم ، من الإسلام وصار مؤمناً لا يأمرني إلا بخير .
یعنی امام نووی کہتے ہیں کہ (فاسلم) میم کو فتح اور ضمہ کے ساتھ اور یہ دونوں روایتیں مشہور ہیں تو جو رفع پڑھے گا اسکا معنی ہوگا کہ میں اس کے فتنہ اور شر سے محفوظ ہوگیا ہوں۔ اور جو فتح کے ساتھ پڑھتا ہے تو اسکا معنی یہ ہوگا کہ وہ قرین مسلمان اور مومن ہوگیا تو مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔
واختلفوا في الأرجح منهما فقال الخطابي : الصحيح المختار الرفع ، ورجح القاضي عياض الفتح ، وهو المختار ؛ لقوله : " فلا يأمرني إلا بخير " ، واختلفوا على رواية الفتح ، قيل : أسلم بمعنى استسلم وانقاد ، وقد جاء هكذا في غير صحيح مسلم " فاستسلم " ، وقيل : معناه صار مسلماً مؤمناً ، وهذا هو الظاهر ، قال القاضي : واعلم أن الأمَّة مجتمعة على عصمة النَّبي صلَّى الله عليه وسلم من الشيطان في جسمه وخاطره ولسانه،وفي هذا الحديث : إشارة إلى التحذير من فتنة القرين ووسوسته وإغوائه ، فأعلمنا بأنه معنا لنحترز منه بحسب الإمكان .
اور (اسلم ) کے دونوں صیغوں راجح کے متعلق اختلاف ہے۔ خطابی کا قول ہے کہ صحیح اور مختار یہی ہے کہ رفع (پیش) پڑھا جائے اور قاضی عیاض نے فتح کو راجح قرار دیا ہے اور وہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔ اور فتح کی روایت پر معنی میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسلم تسلم اور انقاد کے معنی میں ہے یعنی میرا مطیع ہوگیا ہے اور یہ مسلم کی روایت کے علاوہ روایات میں لفظ بھی آئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ اسکا معنی یہ ہے کہ وہ مسلمان اور مومن ہوگیا ہے اور یہی ظاہر ہوتا ہے قاضی کا کہنا ہے کہ " امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی محفوظ و مامون کردیئے گئے ہیں۔
تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اسکے اغوا کے متعلق تخدیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔
دیکھیں شرح مسلم (17/157-180)
وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " إذا كان أحدكم يصلِّي فلا يدع أحداً يمرُّ بين يديه ، فإن أبى فليقاتلْه فإن معه القرين " . رواه مسلم ( 506 ) .
اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر کوئی آپ میں نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اسے مسلم نے (506) روایت کیا ہے۔
قال الشوكاني :
قوله " فإن معه القرين " في القاموس : " القرين " : المقارن ، والصاحب ، والشيطان المقرون بالإنسان لا يفارقه ، وهو المراد هنا . " نيل الأوطار " ( 3 / 7
) .
علامہ محمد بن علی شوکانی کا قول ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اور قاموس میں ہے کہ القرین۔ المقارن (ساتھ ملے ہوئے ) اور" الصاحب " ( ہم نشین )کو کہتے ہیں اور شیطان انسان کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا اور یہاں سے مراد بھی یہی ہے دیکھیں نیل الاوطار (3/7)
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
ـــــــــــــــــــــــــــ