• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صاحب جامع المسانید کون ہیں ؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
(بطور مثال مصنف ابن ابی شیبہ کو ہی لے لیں) اور ناقلین اور صاحب کتاب کے درمیان کے رواۃ کے اول تو نام ہی معلوم نہیں ہیں اور اگر معلوم ہیں تو ان کے بارے میں کوئی تعریف نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود کتاب مقبول ہوتی ہے (سچی بات ہے کہ مجھے ابھی تک اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ بس محققین اور علماء حدیث کی تقلید ہے صرف)۔
یہ بات میرے لیے معلوماتی ہے ۔
تو اس وجہ سے میں اس نتیجے کے قائم کرنے میں متردد ہوں کہ امام کو فقہ میں ماہر امام اور حدیث میں ضعیف کہا جا سکے۔
خیر مجھے تو اس سلسلے میں کوئی تردد نہیں ، کیونکہ یہ رائے ہم نے ظن و تخمین کی بنیاد پر قائم نہیں کی کہ اس کے مقابلے میں کسی ظن و تخمین سے ڈگمگا جائے ، ائمہ حدیث اور جرح و تعدیل کے ماہرین کا یہ فیصلہ ہے ، جن کے پیش نظر یہ سب چیزیں تھیں ۔
لیکن ذہبی کے ہی ایک قول سے یہ نتیجہ خراب ہوجاتا ہے کہ فقہ کی یہ امامت تب تک حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کسی شخص کو حدیث پر مہارت نہ ہو (یہ ذہبیؒ کے قول کا مفہوم ہے)۔
علامہ ذہبی کی عبارت نقل کرسکتے ہیں تو ضرور فرمائیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ بات میرے لیے معلوماتی ہے ۔
اس کے لیے جن محققین نے مصنف کی تحقیق کی ہے ان کے مقدمات دیکھیے جو نسخوں کے بارے میں ہیں۔

خیر مجھے تو اس سلسلے میں کوئی تردد نہیں ، کیونکہ یہ رائے ہم نے ظن و تخمین کی بنیاد پر قائم نہیں کی کہ اس کے مقابلے میں کسی ظن و تخمین سے ڈگمگا جائے ، ائمہ حدیث اور جرح و تعدیل کے ماہرین کا یہ فیصلہ ہے ، جن کے پیش نظر یہ سب چیزیں تھیں ۔
میں اس سلسلے میں مسلکی بحث کی خاطر یہ بات نہیں کر رہا اس لیے آپ کا کوئی رد نہیں کروں گا۔ ایک علمی رائے پیش کر رہا ہوں صرف۔

علامہ ذہبی کی عبارت نقل کرسکتے ہیں تو ضرور فرمائیں ۔
تتمة الحكاية: قال: قلت: فإن سمعت الحديث وكتبته حتى لم يكن في الدنيا أحفظ مني؟
قالوا: إذا كبرت وضعفت، حدثت، واجتمع عليك هؤلاء الأحداث والصبيان، ثم لم تأمن أن تغلط، فيرموك بالكذب، فيصير عارا عليك في عقبك.
فقلت: لا حاجة لي في هذا.
قلت: الآن كما جزمت بأنها حكاية مختلقة، فإن الإمام أبا حنيفة طلب الحديث، وأكثر منه في سنة مائة وبعدها، ولم يكن إذ ذاك يسمع الحديث الصبيان، هذا اصطلاح وجد بعد ثلاث مائة سنة، بل كان يطلبه كبار العلماء، بل لم يكن للفقهاء علم بعد القرآن سواه، ولا كانت قد دونت كتب الفقه أصلا.
سیراعلام النبلاء 6۔396 ط رسالہ

یہ جو ذہبی نے کہا ہے کہ فقہاء کے لیے قرآن کے بعد حدیث کے سوا کوئی علم ہی نہیں تھا اور نہ ہی کتب فقہ کو کسی صورت مدون کیا جا سکتا تھا (یعنی حدیث کے بغیر)، یہ بات ایک سیدھی سی عقل میں آنے والی بات ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک فقیہ ہوں اور نہ صرف فقیہ بلکہ اجتہاد مطلق کے درجے پر ہوں اور میرے سامنے ایک مسئلہ آتا ہے۔ میں قرآن کریم میں تلاش کرتا ہوں، نہیں ملتا تو مجھے حدیث نہیں یاد اس لیے میں قیاس کر لیتا ہوں۔ تو ایک آدھ مسئلے میں تو یہ ہو سکتا ہے لیکن کیا بارہ ہزار (تعداد بطور مثال) مسائل میں یہ ممکن ہے؟ اور اگر بالفرض میں بارہ ہزار مسائل میں یہ کر دوں تو اس میں کیا صرف چند سو مسائل غلط ہوں گے اور باقی سب پر بعد میں دلائل مل جائیں گے؟ یہ تو دوسرے لفظوں میں علم الغیب والی کہانی ہو جائے گی۔
دوسری بات قرآن کریم میں آیات احکام صرف پانچ سو ہیں۔ ان میں بھی احکام مکرر ہیں۔ تو ان پر بھلا کتنے مسائل کو قیاس کیا جا سکتا ہے؟ لازمی سی بات ہے کہ قیاس کے لیے بھی ہمیں علت احادیث سے ہی ڈھونڈنی پڑے گی۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اجتہاد کیا ہوگا کیوں کہ ایک تو اجتہاد اصول فقہ میں کم از کم درجے میں قیاس کو ہی کہتے ہیں اور اس سے اصول فقہ پڑھنے والے واقف ہیں۔ صرف سوچ کر بغیر کسی حوالے کے کوئی مسئلہ نہیں نکلتا۔ دوسری بات پھر وہی ہے کہ آخر اتنے مسائل میں اجتہاد مکمل درست کیسے ہو سکتا ہے؟
ایک ایسا فقیہ ہو جس کے مسائل کی تعداد ڈیڑھ دو سو ہو تو ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس نے اجتہاد اور قیاس سے کام لیا ہوگا اور شاید درست بھی ہو گیا ہو لیکن اتنی بڑی تعداد میں اس کا امکان نہیں ہے۔

ہم یہاں ایک اور تعبیر کر سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے پاس احادیث کا ذخیرہ یادداشت میں تو تھا لیکن وہ آگے روایت کرنے میں ضعیف تھے۔ اس صورت میں چونکہ یادداشت میں احادیث یا ان احادیث سے نکلنے والا حکم موجود ہوتا تھا اس لیے انہوں نے فقہ کا یہ استنباط کر لیا۔
لیکن اس میں پھر ایک مسئلہ ہے کہ قوت بیان ان کی مسلم ہے۔ تو ایسا شخص یادداشت میں موجود حدیث کو بیان کرنے میں کیسے لڑکھڑا سکتا ہے؟ اور فقہ بھی ان کا مسلم ہے تو اگر روایت بالمعنی کریں تو وہ تو قبول ہے ہی۔
تو یہ مسائل ہیں یہ کہنے میں کہ وہ امام فقہ تو تھے لیکن حدیث میں ضعیف تھے۔ اگر ان کا کوئی حل آپ کے ذہن میں ہو تو ارشاد فرمائیے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک عام آدمی تو جو کچھ علماء جرح و تعدیل نے کہا اور کسی نے ان متفرق اقوال کا نتیجہ نکال لیا اسے آنکھیں بند کرکے تقلیدا قبول کر لیتا ہے۔ لیکن ہم تو ان چیزوں کو چھلنی سے گزار سکتے ہیں تو ہم اپنی عقل کو بند کیوں کریں؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
پنجابی زبان بعض فضول مثالیں اکثر لوگ بیان کرتے ہیں ۔بعض اوقات ان کا بیان کرنا عجیب لگتا ہے ۔لیکن کیا کیا جائے اور کوئی تعبیر فوری طور پہ ذہن میں نہیں آئی ۔اس لئے پیشگی معذرت ۔
ان کے پاس احادیث کا ذخیرہ یادداشت میں تو تھا لیکن وہ آگے روایت کرنے میں ضعیف تھے
کیا آپ نے دوسرے لفظوں میں یہ نہیں کہا ۔۔مویا نہیں آکڑیا اے۔۔۔اگر آپ پنجابی نہیں سمجھتے تو اردو میں
’’یار سردی تو بالکل نہیں ہے بس کمبخت کپکپی مارے جارہی ہے ‘‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس کے لیے جن محققین نے مصنف کی تحقیق کی ہے ان کے مقدمات دیکھیے جو نسخوں کے بارے میں ہیں۔
مصنف ابن شیبہ کے راوی تو مشہور معروف ہیں ، شیخ محمد عوامہ کا مقدمہ طائرانہ نظر سے دیکھا انہوں نے بھی یہ ہی لکھا ہے ۔ کتب الفہارس و الأثبات میں بھی ائمہ نے متصل اسانید ذکر کی ہیں ، اور سند میں موجود جتنے لوگ ہیں ، سب کے تراجم متوفرو میسر ہیں ، بطور مثال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی المعجم المفہرس سے سند ملاحظہ فرمائیں :
أنبأنا أبو علي الفاضلي عن يونس بن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن مكي عن أبي القاسم بن بشكوال أنبأنا عبد الرحمن بن محمد بن عتاب أنبأنا أبو عمر بن عبد البر أنبأنا أبو عمر أحمد بن عبد الله الباجي عن أبيه عن عبد الله ابن يونس القبري عن بقي بن مخلد عن أبي بكر بن أبي شيبة ( المعجم المفہرس ص 50 ، 51 )
بقی بن مخلد ، ابن عبد البر ، ابن بشکوال جیسے ائمہ اعلام تو بالکل واضح ہیں لیکن ان سے ہٹ کر بھی میں نہیں سمجھتا کوئی ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ نہیں ملتا ۔
میں اس سلسلے میں مسلکی بحث کی خاطر یہ بات نہیں کر رہا اس لیے آپ کا کوئی رد نہیں کروں گا۔ ایک علمی رائے پیش کر رہا ہوں صرف۔
ہم بھی اپنے تئیں تو علمی ہی پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ و اللہ الموفق
بل لم يكن للفقهاء علم بعد القرآن سواه، ولا كانت قد دونت كتب الفقه أصلا.
لیکن ذہبی کے ہی ایک قول سے یہ نتیجہ خراب ہوجاتا ہے کہ فقہ کی یہ امامت تب تک حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کسی شخص کو حدیث پر مہارت نہ ہو (یہ ذہبیؒ کے قول کا مفہوم ہے)۔
دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ۔
دوسری بات آپ نے جو فہم اخذ کیا ہے ، اس سے کوئی یہ بھی مرا د لے سکتا ہے کہ امام صاحب کو فقہ کا بھی علم نہیں تھا ، کیونکہ حدیث کے بغیر فقہ ممکن نہیں ، اور حدیث امام صاحب کے پاس تھی نہیں ۔
جس طرح یہ نتیجہ عجیب سے لگتا ہے اسی طرح وہ بھی عجیب ہے جس تک آپ پہنچے ہیں کہ امام صاحب نے چونکہ مسائل میں رائے رکھتے تھے ، اور یہ حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ، لہذا ثابت ہوا کہ امام صاحب حدیث کا علم رکھتے تھے ۔
گویا کسی مسئلہ کی صحت کے لیے کہا جاتا ہے کہ ضرور امام صاحب کے پاس حدیث پہنچنی ہوگی ، اور محدث ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ امام صاحب صاحب مسائل تھے ۔
میں نے اسی لیے پہلے گزارش کی تھی اس طرح کے ظن و تخمین کی ضرورت تب پڑے ، جب امام صاحب کے متعلق واضح اور صریح اقوال موجود نہ ہوں ۔
آپ جس انداز سے غور و فکر کر رہے ہیں ، اس سے امام صاحب کی امامت حدیث تو ثابت ہونے نہیں والی ، الٹا ان کی فقاہت پر کلام کرنے والوں کا موقف مضبوط ہوگا ۔ حالانکہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ۔
ہم یہاں ایک اور تعبیر کر سکتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے پاس احادیث کا ذخیرہ یادداشت میں تو تھا لیکن وہ آگے روایت کرنے میں ضعیف تھے۔ اس صورت میں چونکہ یادداشت میں احادیث یا ان احادیث سے نکلنے والا حکم موجود ہوتا تھا اس لیے انہوں نے فقہ کا یہ استنباط کر لیا۔
لیکن اس میں پھر ایک مسئلہ ہے کہ قوت بیان ان کی مسلم ہے۔ تو ایسا شخص یادداشت میں موجود حدیث کو بیان کرنے میں کیسے لڑکھڑا سکتا ہے؟ اور فقہ بھی ان کا مسلم ہے تو اگر روایت بالمعنی کریں تو وہ تو قبول ہے ہی۔
تو یہ مسائل ہیں یہ کہنے میں کہ وہ امام فقہ تو تھے لیکن حدیث میں ضعیف تھے۔ اگر ان کا کوئی حل آپ کے ذہن میں ہو تو ارشاد فرمائیے گا۔
جی وہ تو میں نے عرض کردیا ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں جو نصوص ان کے سامنے ہوتی تھیں ، ان میں تفقہ کے اعتبار سے یکتا تھے ، البتہ روایت حدیث میں ضعیف تھے ۔
ایک عام آدمی تو جو کچھ علماء جرح و تعدیل نے کہا اور کسی نے ان متفرق اقوال کا نتیجہ نکال لیا اسے آنکھیں بند کرکے تقلیدا قبول کر لیتا ہے۔ لیکن ہم تو ان چیزوں کو چھلنی سے گزار سکتے ہیں تو ہم اپنی عقل کو بند کیوں کریں؟
آپ چھلنی سے گزار لیں ، لیکن منکرین حدیث کی طرح نہیں ، محققین کی طرح ۔ متقدم کے قول کی غلطی واضح کریں ، متقدم کے قول پر تنقید کے لیے یہ کافی نہیں کہ میری عقل یا معلومات اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ۔
متقدمین نے امام صاحب کو قلیل الحدیث یا ضعیف الحدیث کہا ہے ، آپ ان کی سند سے مرویات کثیرۃ پیش کرسکتے ہیں ، امام صاحب کے معاصرین کی متابعات سے ان کی صحت روایت کو بھی دلیل بنا سکتے ہیں ۔ وغیرہ ۔
پھر کچھ چیزوں کا تعلق خبر او رمشاہدے سے ہوتا ہے ، صدیوں بعد آنے والی چھلنی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کی بیان کردہ خبر یا مشاہدے کو بلا کسی حجت و برہان رد کردے۔
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
دوسری بات آپ نے جو فہم اخذ کیا ہے ، اس سے کوئی یہ بھی مرا د لے سکتا ہے کہ امام صاحب کو فقہ کا بھی علم نہیں تھا ، کیونکہ حدیث کے بغیر فقہ ممکن نہیں ، اور حدیث امام صاحب کے پاس تھی نہیں ۔ جس طرح یہ نتیجہ عجیب سے لگتا ہے اسی طرح وہ بھی عجیب ہے جس تک آپ پہنچے ہیں کہ امام صاحب نے چونکہ مسائل میں رائے رکھتے تھے ، اور یہ حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ، لہذا ثابت ہوا کہ امام صاحب حدیث کا علم رکھتے تھے ۔
اس مضحکہ خیز طرز استدلال پر تعجب ہوتا ہے! یہ عجیب و غریب تفریع تو آپ ہی کے دعوی پر مرتب ہو رہی ہے تو اس کا الزام آپ دوسروں پر کیسے ڈال رہے ہیں!! آپ کا دعوی ہے کہ "امام صاحب حدیث سے تہی دست، فقہ میں امام تھے!"۔ اثبات دعوی کیلئے آپ نے "دلائل کے انبار" لگادیئے تو مخالف نے علی سبیل التنزل کہا کہ چلو مان لیا کہ آپ کا دعوی ٹھیک ہے لیکن اس کو ماننے کی صورت میں ایک دوسری بات بھی ماننی پڑے گی یعنی "امام فقہ میں بھی کورے تھے!"۔ دلیل یہ ہے کہ چونکہ حدیث ان کے پاس تھی نہیں اور فقہ کا علم قرآن و حدیث پر مبنی ہے تو خالی قرآن سے وہ آ نہیں سکتا اور قیاس کو ہر جگہ دخل ہو نہیں سکتا اور نہ ہر جگہ درست ہو سکتا ہے لہذا ثابت ہوا کہ امام فقاہت میں بھی کمزور تھے۔
اب آپ ایک طرف دعوی یہ کر ہے ہیں کہ امام حدیث میں ضعیف ہیں اور دوسری طرف انکار کر ہے ہیں کہ فقہ میں امامت کے منصب پر فائز ہیں۔ ضدین کا اجتماع کیسی معصومیت سے تسلیم کر کے اپنے ہی موقف کا خون کر ہے ہیں اور الزام عائد کر رہے ہیں دوسروں پر! یہی الزام ہم آپ کو دے رہے ہیں، آپ اس کا صحیح اور تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔
ہمارا موقف تو بڑا بے غبار ہے کہ امام صاحب اعلی درجہ کے فقیہ جمع محدث تھے۔ یہاں محدث کا لفظ اس میں مکرر اور تحصیل حاصل ہے کیونکہ پچھلے زمانے میں علم اور فقاہت کا اعتبار ایک ہی چیز پر ہوتا تھا یعنی قرآن و حدیث اور یہی مطلب قرآن و حدیث میں لفظ فقہ اور تفقہ کا ہوتا ہے۔ پھر جب علم حدیث کا چرچا ہوا تو علم کا اطلاق خاص محدثین کے ہاں علم حدیث پر ہونے لگا۔ اسی لئے امام صاحب سے فقہ کی جو تعریف عامۃ الکتب میں منقول ہے وہ ہے:
معرفة النفس ما لها وما عليها
نفس یعنی انسان کا یہ جاننا کہ کون سی چیز اس کے (اخروی) فائدے کی ہے اور کون سی نقصان کی۔
یہاں کل شریعت کے علم کے طور پر فقہ کی تعریف کی گئی ہے۔ یہ جو اصطلاحات "فقہ اکبر"، "فقہ اوسط" اور"فقہ اصغر" کی ہیں، اس کی تفصیل بھی اسی حقیقت پر مبنی ہے کہ فقہ اکبر علم عقائد کا دوسرا نام تھا، اسی سے امام صاحب کی ایک کتاب کا یہی نام پڑا۔ فقہ اوسط اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کا نام تھا جس کا بعد میں اصطلاحی نام تصوف پڑا۔ فقہ اصغر وہی تھا جس کو آج کل ہم تم "فقہ" کہتے ہیں۔
یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، اب واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں۔ باقی امام کا شہرہ حدیث کے ضمن میں نہیں ، کیوں؟ اس لئے کہ درس و روایت حدیث امام کا ہمہ وقتی شغل نہیں تھا بلکہ استنباط احکام و مسائل ان کا عمری وظیفہ تھا، حدیث کی روایت بھی کسی فقہی مسئلہ کے ضمن میں کرتے۔ اگر درس حدیث کیلئے بیٹھ جاتے تو کو‏‏ئی وجہ نہیں کہ جس طرح فقہ میں آپ کو انہیں امام تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں، حدیث میں بھی آپ ان کو امام تسلیم نہ کرتے (خیر اہل علم اب بھی کرتے ہیں، آپ کی تسلیم کیا اعتبار!) امام کی محدثیت کی تو یہ عقلی توجیہ تھی جس کو اصول درایت سے جانچا گیا اور جس میں آپ لوگ ڈگمگار ہے ہیں۔ باقی نقل کی بات تو اس پر ایک الگ موضوع میں بات ہو سکتی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مصنف ابن شیبہ کے راوی تو مشہور معروف ہیں ، شیخ محمد عوامہ کا مقدمہ طائرانہ نظر سے دیکھا انہوں نے بھی یہ ہی لکھا ہے ۔ کتب الفہارس و الأثبات میں بھی ائمہ نے متصل اسانید ذکر کی ہیں ، اور سند میں موجود جتنے لوگ ہیں ، سب کے تراجم متوفرو میسر ہیں ، بطور مثال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی المعجم المفہرس سے سند ملاحظہ فرمائیں :
أنبأنا أبو علي الفاضلي عن يونس بن أبي إسحاق عن عبد الرحمن بن مكي عن أبي القاسم بن بشكوال أنبأنا عبد الرحمن بن محمد بن عتاب أنبأنا أبو عمر بن عبد البر أنبأنا أبو عمر أحمد بن عبد الله الباجي عن أبيه عن عبد الله ابن يونس القبري عن بقي بن مخلد عن أبي بكر بن أبي شيبة ( المعجم المفہرس ص 50 ، 51 )
بقی بن مخلد ، ابن عبد البر ، ابن بشکوال جیسے ائمہ اعلام تو بالکل واضح ہیں لیکن ان سے ہٹ کر بھی میں نہیں سمجھتا کوئی ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ نہیں ملتا ۔
شاید میں آپ کو اپنی بات سمجھا نہیں سکا۔
مثال دیتا ہوں: ایک نسخہ ہے مصنف ابن ابی شیبہ کا جسے مرتضی زبیدی کا نسخہ کہا جاتا ہے اور شیخ عوامہ نے ت کے رمز سے ذکر کیا ہے۔ اس کے ناسخ ہیں یوسف بن عبد اللطیف بن عبد الباقی الحرانی۔ کیا ان کی تفصیل اور جس نسخے سے یا سند سے انہوں نے نقل کیا ہے اس کی تفصیل کہیں ملتی ہے؟
یہی حالت تمام نسخوں میں ہے۔ اس کے باوجود مصنف ابن ابی شیبہ موجود ہے۔
باقی جو بات آپ کر رہے ہیں اس طرح تو آپ کی اور میری اسناد بھی موجود ہیں۔ لیکن کیا ہماری اسناد سے کتاب کو کوئی فائدہ ہوتا ہے؟

دونوں باتوں میں بہت فرق ہے ۔
دوسری بات آپ نے جو فہم اخذ کیا ہے ، اس سے کوئی یہ بھی مرا د لے سکتا ہے کہ امام صاحب کو فقہ کا بھی علم نہیں تھا ، کیونکہ حدیث کے بغیر فقہ ممکن نہیں ، اور حدیث امام صاحب کے پاس تھی نہیں ۔
جس طرح یہ نتیجہ عجیب سے لگتا ہے اسی طرح وہ بھی عجیب ہے جس تک آپ پہنچے ہیں کہ امام صاحب نے چونکہ مسائل میں رائے رکھتے تھے ، اور یہ حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ، لہذا ثابت ہوا کہ امام صاحب حدیث کا علم رکھتے تھے ۔
گویا کسی مسئلہ کی صحت کے لیے کہا جاتا ہے کہ ضرور امام صاحب کے پاس حدیث پہنچنی ہوگی ، اور محدث ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ امام صاحب صاحب مسائل تھے ۔
میں نے اسی لیے پہلے گزارش کی تھی اس طرح کے ظن و تخمین کی ضرورت تب پڑے ، جب امام صاحب کے متعلق واضح اور صریح اقوال موجود نہ ہوں ۔
آپ جس انداز سے غور و فکر کر رہے ہیں ، اس سے امام صاحب کی امامت حدیث تو ثابت ہونے نہیں والی ، الٹا ان کی فقاہت پر کلام کرنے والوں کا موقف مضبوط ہوگا ۔ حالانکہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ۔
میں اوپر یہی سمجھا رہا تھا کہ بغیر حدیث کے علم کے اتنے مسائل میں فقہ ہونا ممکن نہیں۔ جبکہ فقہ مسلم ہے۔ اس لیے ہمیں ذرا روایت کو درایت اور نقل کو عقل کے سانچے سے گزار کر جرح اور تعدیل کو دیکھنا چاہیے۔
باقی امام صاحب کے علم حدیث کے بارے میں یہ باتیں میں نے تو نہیں کہیں۔ ذہبی اور صاحب عقود الجمان نے کہی ہیں۔ اوپر موجود فقہاء کے بارے میں قول ذہبی کا ہے۔ اور اس سے پہلے کثرت حدیث کا قول بھی انہی کا ہے۔
البتہ طلب حدیث اور روایت حدیث دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ امام کا مشغلہ روایت حدیث نہیں تھا اس لیے وہ اس کے امام نہیں ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ حدیث کے بھی امام بخاری کی طرح امام ہیں تو یہ بات بھلا کیسے درست ہو سکتی ہے۔ ہاں اس حدیث سے مسئلہ نکالنے کے وہ امام تھے اور اس کے لیے طلب اور حفظ صحیح دونوں ضروری ہیں۔ لیکن اس سے ضعف فی الحدیث تو ثابت نہیں ہوتا۔

جی وہ تو میں نے عرض کردیا ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں جو نصوص ان کے سامنے ہوتی تھیں ، ان میں تفقہ کے اعتبار سے یکتا تھے ، البتہ روایت حدیث میں ضعیف تھے ۔
جو نصوص سے آپ کی مراد صرف قرآن کریم ہے یا احادیث بھی؟ اور ان کے سامنے ہونے سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ طلب حدیث کے دور میں دوران درس تفقہ کرتے تھے؟ ایسا تو نہیں ہے۔ ان کی الگ مجلس درس تھی جو ظاہر ہے کہ طلب حدیث کے بعد تھی۔ یہ بھی کہیں سے نہیں ثابت کہ امام صاحب اپنی کتابیں لے کر بیٹھ کر تفقہ کرتے تھے۔ تو اگر آپ کی مراد صرف نصوص قرآنی ہیں تو ان سے یہ تعداد مسائل ناممکن ہے اور نہ ہی سب کی بنیادیں ان میں موجود ہیں۔ اور اگر آپ کی مراد نصوص حدیث بھی ہیں تو اس سے حفظ ثابت ہوتا ہے۔

آپ چھلنی سے گزار لیں ، لیکن منکرین حدیث کی طرح نہیں ، محققین کی طرح ۔ متقدم کے قول کی غلطی واضح کریں ، متقدم کے قول پر تنقید کے لیے یہ کافی نہیں کہ میری عقل یا معلومات اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں ۔
متقدمین نے امام صاحب کو قلیل الحدیث یا ضعیف الحدیث کہا ہے ، آپ ان کی سند سے مرویات کثیرۃ پیش کرسکتے ہیں ، امام صاحب کے معاصرین کی متابعات سے ان کی صحت روایت کو بھی دلیل بنا سکتے ہیں ۔ وغیرہ ۔
پھر کچھ چیزوں کا تعلق خبر او رمشاہدے سے ہوتا ہے ، صدیوں بعد آنے والی چھلنی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کی بیان کردہ خبر یا مشاہدے کو بلا کسی حجت و برہان رد کردے۔
کمال ہے۔
بہر حال قلیل الحدیث تو جرح ہی نہیں ہے۔ اور ضعیف الحدیث کے بارے میں جوابات دیتے دیتے کئی لوگ گزر گئے ہیں۔ کیا ہم انہی ابحاث کو شروع کر دیں جنہیں پہلے کرچکے ہیں؟ ابن معین، ابن عبد البر، ذہبی، ابن حجر ہیثمی، ابن تیمیہ رحمہم اللہ کے اقوال نقل کرنا شروع کر دیں؟ دار قطنی، ابن الجوزی اور خطیب پر تشدد کی جروحات کریں؟ امام احمد کے اقوال کے زمانے الگ الگ ثابت کریں؟
سب تو آپ جانتے ہیں۔ کیا فائدہ دوبارہ ان باتوں کے کرنے کا؟

میں تو صرف غور کے لیے اور جرح کو ایک اور زاویہ سے دیکھنے کے لیے ایک پوائنٹ دے رہا ہوں۔ اس لیے نقل پر بحث نہیں کر رہا۔ اس میں آپ سمجھتے ہیں کہ میں غلطی پر ہوں تو وہ نکتہ بیان کیجیے جہاں مجھے ٹھوکر لگ رہی ہے۔ میں ایک طالب علم ہوں اور یقین جانیے میں سمجھ میں آنے پر آپ کا شکر گزار ہوں گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
امام مالک ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، شافعی ، احمد وغیرہ سب فقہ کے بھی امام تھے ، لیکن فقہ میں مشغولیت ان کی محدثانہ شان پر اثرا انداز نہ ہوئی ، البتہ یہ کمال ہوا کہ امام ابو حنیفہ کی فقہ میں مشغولیت ان کو حدیث میں ضعف کے درجہ تک لے گئی ، اور صورت حال یہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تک تانیب الخطیب میں خطیب کا بہانہ بناکر صحابہ سے لیکر علماء عظام پر لعن طعن نہ کیا جائے ، امام صاحب کی محدثانہ شان کا اظہار نہیں ہوتا ۔
نعمانی صاحب اور اشماریہ صاحب آپ کے اور ہمارے درمیان محل نزاع ہی یہ ہے کہ آپ قیاس اور رائے وہاں وہاں استعمال کرتے ہیں ، جہاں جہاں ہمارے نزدیک اس کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔
اہل رائے اور اہل حدیث کا یہ اختلاف پرانے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔ و للناس فیما یعشقون مذاہب ۔
گزارش کروں گا کہ اگر مسانید ابی حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق آپ کے پاس کوئی مفید مواد ہو تو ضرور عنایت فرمائیں ۔ خاص کر عبد الرشید نعمانی صاحب کے مقدمہ کی طرف ایک بھائی نے اشارہ کیا ہے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
امام مالک ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، شافعی ، احمد وغیرہ سب فقہ کے بھی امام تھے ، لیکن فقہ میں مشغولیت ان کی محدثانہ شان پر اثرا انداز نہ ہوئی ، البتہ یہ کمال ہوا کہ امام ابو حنیفہ کی فقہ میں مشغولیت ان کو حدیث میں ضعف کے درجہ تک لے گئی
خیر یہ چاشنی تو آپ پلاتے ہی رہتے ہیں، ذرا انٹرنیٹ پر سرف کرکے دیکھے، آپ لوگ ان لوگوں پر کیا کیچڑ اچال رہے ہیں! عرض گزار ہوں کہ آپ کم از کم وہاں عقل و قیاس کو دخل دیا کریں جہاں اس کی ضرورت ہو۔ میں نے کہا تھا:
باقی امام کا شہرہ حدیث کے ضمن میں نہیں ، کیوں؟ اس لئے کہ درس و روایت حدیث امام کا ہمہ وقتی شغل نہیں تھا بلکہ استنباط احکام و مسائل ان کا عمری وظیفہ تھا، حدیث کی روایت بھی کسی فقہی مسئلہ کے ضمن میں کرتے۔ اگر درس حدیث کیلئے بیٹھ جاتے تو کو‏‏ئی وجہ نہیں کہ جس طرح فقہ میں آپ کو انہیں امام تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں، حدیث میں بھی آپ ان کو امام تسلیم نہ کرتے (خیر اہل علم اب بھی کرتے ہیں، آپ کی تسلیم کاکیا اعتبار!)
آپ وہی پرانا وظیفہ جھاپ رہے ہیں کہ "امام شافعی وغیرہ کو فقہ نے ضعیف نہیں بنایا تو امام صاحب کو کیوں بنادیا"۔ میں کہتا ہوں کہ ایسا دعوی کون احمق کر رہا ہے کہ امام فقہ کی مشغولیت سے ضعیف ہوگئے، میں نے تو کہا کہ وہ کبھی حدیث کی روایت کیلئے بطور خاص بیٹھے نہیں، اس لئے ان کی شہرت بطور محدث کے نہیں ہوئی۔ اب ایسا نہ کرنے سے کسی کو ضعیف بنایا جاسکتا ہو تو آپ ہی کی عقل سے یہ امید ہوسکتی ہے۔ اچھا اگر آپ کی پیش کردہ فہرست کو دیکھیں تو اس میں جس جس کی شہرت بطور محدث کے ہوئی ہے، ان کا فقہ میں کیا مقام ہے! ہاں مانتا ہوں کہ امام مالک اور امام شافعی بھی فقیہ اور مجتہد ہیں لیکن فقہ میں انہماک کا عیب جتنا ناجائز طور پر امام ابو حنیفہ کے حصے میں آیا شاید باقی کے حصے میں نہیں آیا یہاں تک کہ امام احمد کے اجتہاد کو بعض نے اقل قلیل او بعض نے کالمعدوم قرار دیا! حافظ ابن عبد البر نے "الانتقاء في فضائل الثلاثة الائمة الفقهاء" میں صرف امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کا بطور فقیہ ذکر کیا ہے اور امام احمد کا ذکر باکل چھوڑ دیا ہے۔ تو غالبا آپ کے اصول پر اس کا یہ مطلب لینا چاہئے کہ وہ فقہ سے بالکل کورے تھے اور ان کی رائے اس میں مجتہدانہ نہیں تھی، حالانکہ میں اس کو بالکل لغو سمجھتا ہوں کیونکہ وہ مجتہد مطلق تھے لیکن ان کا کام ، انہماک اورذوق حدیث سے زیادہ مناست تھا اس لئے ان کی خدمات اور توانائیاں بھی زیادہ تر اسی کیلئے وقف تھیں اور اجتہاد شاذ و نادر ہی کیا کرتے تھے۔
آخری بات! رد تقلید اور انتصار مذہب کے بے پناہ شوق نے آپ لوگوں کے مونہوں سے نہ جانے کیا کچھ نکلوادیا۔ کچھ خدا کا خوف کریں اور اپنے غلط دعووں پر نظر ثانی کریں اور اس میں تقلید کو چھوڑ دیں۔ محض تقلیدا سارے ایک راگ الاپ رہے ہیں اور دوسرے ان کے ساتھ ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ خضر صاحب، معذرت کے ساتھ! آپ کو جو یہ جملہ ازبر سا ہوگیا ہے "امام ابوحنیفہ فقہ میں امام، حدیث میں ضعیف ہیں" گو آب حیات سے کم نہیں لیکن پتہ ہے کہ یہ محض جہل کی راگنی ہے جس پر آپ خود کو اور لوگوں کو ٹرخا رہے ہیں۔ آپ کو پھر چاہئے کہ بالکلیہ انکار کردیں کہ امام ابوحنیفہ کا دین میں کوئی حصہ نہیں (جیسا کہ آپ کر بھی رہے ہیں، خطیب اور ابن احمد بن حنبل کی روایتیں تو اسی فورم پر میں بارہا دیکھ چکا ہوں) چہ جائیکہ اس پر تقیہ کا شامیانہ کس کر بظاہر ان کو فقیہ فقیہ کہہ دیں اور حقیقت میں ان کو حدیث میں نااعتبار ٹھہرا کر خود ان کو بھی ضعیف و مردود بنادیں اور ان کے مذہب و مسلک کو بھی اور ان اربوں ائمہ اور عامۃ الناس کو بھی جو ان کے پیرو ہوئے اور ان کی فقہ کو چہار دانگ عالم میں عام کیا۔ یہ جن لوگوں کے آپ شعوری یا لا شعوری طور پر آلہ کار بن رہے ہیں، کچھ پتہ ہے ان جیسے دعووں سے آپ اسلام اور مسلمانوں سےکس سمت نکل رہے ہیں!! اہل اسلام کو پتہ ہے کہ اس دین کی دو بنیادیں قرآن اور حدیث ہیں۔جس چیز کی بنیاد ان دونوں پر کامل طور پر نہ ہو وہ چیز دین ہوسکتی ہے؟؟؟!! یہی کچھ آپ عوام کو پڑھا رہے ہیں اور کیسی معصومیت اور منظم پروپیگنڈے سے کہ اجی کیا بات کرتے ہیں ہم تو ان کو فقہ میں امام تسلیم کر رہے ہیں لیکن حدیث میں ضعیف کہہ رہے ہیں۔ کوئی پوچھ سکتا کہ میاں یہ فقہ کس بلا کا نام ہے! کیا امام صاحب پر فقہ کا نزول آسمان سے ہوتا تھایا وہ اپنی عقل لڑایا کرتے تھے۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے، مذہب حنفی یا فقہ حنفی بلکہ تمام ائمہ کی فقہوں کو اسلام کے خلاف ایک سازش ماننا پڑے گا۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
تانیب الخطیب میں خطیب کا بہانہ بناکر صحابہ سے لیکر علماء عظام پر لعن طعن نہ کیا جائے ، امام صاحب کی محدثانہ شان کا اظہار
کیا اسی طرح ہر آدمی کو حزب میں بند کر کے آگے جانا مناسب ہے ۔ چودہویں صدی میں لکھی گئی تانیب کا کیا ہر حنفی ذمہ دار ہے ۔یا اس کا وکیل ہے ۔ یا اس کے مصنف کا وکیل ہے ۔یہ عجیب فلسفہ ہے ۔
فلاں دیوبندی یہ کہتا ہے ۔ تو جائیں اُس سے پوچھیں
الکوثریؒ نے یہ کہا ۔ تو پوچھیں ان سے یا ان کے وکیل سے جا کے ۔
کیا آپ ذمہ دار ہیں ہر اہلحدیث عالم کے ہر قول کے ۔ ہر کتاب کے ۔
کیا ان کی محدثانہ شان صرف تانیب میں بند ہے ۔
خضر بھائی یہ تو مناسب نہیں ۔
 
Top