• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :لَوْ لاَ حَوَّائُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا
اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کی (کبھی) خیانت نہ کرتی​
(846) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْلاَ بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْبُثِ الطَّعَامُ وَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ وَ لَوْلاَ حَوَّائُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اگر بنواسرائیل نہ ہوتے تو (کبھی) کوئی کھانا اور گوشت خراب نہ ہوتا اور اگر حواء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر کی کبھی خیانت نہ کرتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :مَنْ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَلاَ يَعْجَلْ بِالدُّخُوْلِ إِلَى أَهْلِهِ كَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ
جو (لمبے) سفر سے آئے تو گھر میں جلدی داخل ہونے کی کوشش نہ کرے تاکہ (اس کی) عورت بالوں (وغیرہ) کو سنوار لے​
(847) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزَاةٍ فَلَمَّا أَقْبَلْنَا تَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ لِي قَطُوفٍ فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ خَلْفِي فَنَخَسَ بَعِيرِي بِعَنَزَةٍ كَانَتْ مَعَهُ فَانْطَلَقَ بَعِيرِي كَأَجْوَدِ مَا أَنْتَ رَائٍ مِنَ الْإِبِلِ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَا يُعْجِلُكَ يَا جَابِرُ ؟ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ فَقَالَ أَ بِكْرًا تَزَوَّجْتَهَا أَمْ ثَيِّبًا ؟ قَالَ قُلْتُ بَلْ ثَيِّبًا قَالَ هَلاَّ جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَ تُلاَعِبُكَ ؟ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ فَقَالَ أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلاً أَيْ عِشَائً كَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَ تَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ قَالَ وَ قَالَ إِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے پھر جب واپس آ رہے تھے تو میں اپنے اونٹ کو جو کہ بڑا سست تھا جلدی جلدی چلا رہا تھا کہ ایک سوار میرے پیچھے سے آیا اور میرے اونٹ کو اپنی چھڑی سے ایک کونچا دیا، جو ان کے پاس تھی اور میرا اونٹ ایسے چلنے لگا کہ جیسے تم کوئی (بہت اچھا) اونٹ دیکھتے ہو۔ میں نے مڑکر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے جابر! تمہیں کیا جلدی ہے؟'' میں نے کہا کہ یارسول اللہ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' باکرہ سے یا ثیبہ سے؟'' میں نے کہا ثیبہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی؟ '' پھر جب ہم مدینہ آئے اور گھر داخل ہونے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ٹھہر جاؤ ! یہاں تک کہ رات آجائے یعنی عشاء کا وقت، تاکہ پریشان بالوں والی سر میں کنگھی (وغیرہ)کر لے اور جس کا شوہر باہر گیا ہوا ہو وہ زیر ناف بال صاف کر لے۔'' پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جب گھر جاؤ تو سمجھداری سے کام لینا۔'' (یہ نہ ہو کہ عورت ایام حیض میں ہو اور تم اتنے دنوں بعد آئے ہو اور صبر نہ کرسکو وغیرہ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ الطَّلَاقِ

طلاق کے مسائل​
بَابٌ :فِيْ الرَّجُلِ يُطّلِّقُ امْرَأَتَهُ وَ هِيَ حَائِضٌ
مرد کا حیض کی حالت میں اپنی عورت کو طلاق دینے کا بیان​
(848) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَ هِيَ حَائِضٌ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ قَالَ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَ هِيَ حَائِضٌ يَقُولُ أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا وَ أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلاَثًا فَقَدْ عَصَيْتَ رَبَّكَ فِيمَا أَمَرَكَ بِهِ مِنْ طَلاَقِ امْرَأَتِكَ وَ بَانَتْ مِنْكَ
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق استفسار کیا۔ آپ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ اسے ایک حیض کی مہلت دو۔ پھر مہلت دو کہ (وہ اس حیض سے) پاک ہو جائے، پھر (اگر طلاق دینا چاہے تو) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے اور یہ کہ یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ راوی (نافع) نے کہا کہ پھر جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے ایسے آدمی کے متعلق پوچھا جاتا کہ جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہوتی تو وہ یہی کہتے کہ اگر تو نے ایک یا دو (رجعی) طلاقیں دی ہیں تو اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ پھر اسے ایک حیض اور حیض سے پاکیزگی حاصل کرنے کی مہلت دے اور پھر اسے (پاکیزگی کی حالت میں) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے اور اگر تم نے اسے تین طلاق (یعنی طلاق بائنہ جس میں رجوع نہیں) دی ہے تو تم نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے معاملہ میں اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور تمہاری بیوی تم سے بائنہ ہو گئی۔
(849) عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ مَكَثْتُ عِشْرِينَ سَنَةً يُحَدِّثُنِي مَنْ لاَ أَتَّهِمُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلاَثًا وَ هِيَ حَائِضٌ فَأُمِرَ أَنْ يُرَاجِعَهَا فَجَعَلْتُ لاَ أَتَّهِمُهُمْ وَ لاَ أَعْرِفُ الْحَدِيثَ حَتَّى لَقِيتُ أَبَا غَلاَّبٍ يُونُسَ بْنَ جُبَيْرٍ الْبَاهِلِيَّ وَ كَانَ ذَا ثَبَتٍ فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَحَدَّثَهُ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَ هِيَ حَائِضٌ فَأُمِرَ أَنْ يُرَاجِعَهَا قَالَ قُلْتُ أَ فَحُسِبَتْ عَلَيْهِ ؟ قَالَ فَمَهْ أَوَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ
ابن سیرین کہتے ہیں کہ بیس برس تک مجھ سے ایک شخص جس کو میں متہم نہ جانتا تھا ،روایت کرتا تھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اپنی عورت کو حالت حیض میں تین طلاقیں دیں تھیں اور ان کو رجوع کرنے کا حکم ہوا تھا۔ میں اس کی اس روایت کو متہم نہ کرتا تھا اور نہ حدیث کو بخوبی جانتا تھا (کہ صحیح کیا ہے)، یہاں تک کہ میں ابوغلاب یونس بن جبیر باہلی سے ملا اور وہ پکے آدمی تھے۔ پس انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق حیض کی حالت میں دی تو مجھے رجوع کا حکم دیا گیا۔ راوی نے کہا پھر میں نے پوچھا کہ وہ طلاق بھی ان پر شمار کی گئی؟ (یعنی اگر دو طلاق دو تو وہ ملا کر تین پوری ہو جائیں) انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں کی۔ اگر وہ عاجز ہو گیا یا احمق ہو گیا (یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو خود کہا) یعنی اگر اس طلاق کو نہ گنوں تو حماقت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :اَلطَّلاَقُ الثَّلاَثُ فِيْ عَهْدِ رَسُوْلِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں تین طلاق کا بیان​
(850) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ الطَّلاَقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ سَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی (پہلے) دو برس تک ایسا تھا کہ جب کوئی یکبارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس بات میں لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی ۔جس میں انہیں مہلت ملی ہے، پس اگر ہم اس کو جاری کر دیں تو مناسب ہے۔ پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی یہ حکم دے دیا کہ جو کوئی یکبارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو جائیں گی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :فِيْ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَاَتَهُ فَتَتَزَوَّجُ غَيْرَهُ وَ لاَ يَدْخُلُ بِهَا فَلَيْسَ لَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى الأَوَّلِ
کسی آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی، وہ عورت دوسرے سے شادی کر لیتی ہے اور اس دوسرے نے دخول نہیں کیا تو ایسی حالت میں یہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہے​
(851) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَبَتَّ طَلاَقَهَا فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَائَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ رِفَاعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلاَثِ تَطْلِيقَاتٍ فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مَعَهُ إِلاَّ مِثْلُ الْهُدْبَةِ وَ أَخَذَتْ بِهُدْبَةٍ مِنْ جِلْبَابِهَا قَالَ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ضَاحِكًا فَقَالَ لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لاَ حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَ تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَ أَبُو بَكْرِ نِالصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَالِسٌ بِبَابِ الْحُجْرَةِ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ قَالَ فَطَفِقَ خَالِدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُنَادِي أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلآ تَزْجُرُ هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا رفاعہ القرضی نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (یعنی بائنہ غیر رجعی) دے دی تو اس نے سیدنا عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر استفسار کیا کہ یارسول اللہ! میں رفاعہ ( رضی اللہ عنہ ) کے عقد (نکاح) میں تھی کہ اس نے مجھے تین میں سے آخری طلاق دے دی تو میں نے عبد الرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا اور اپنی چادر کا ایک پلو پکڑ کر کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم ! ان کے پاس تو کپڑے کے اس پلو کی طرح ہی ہے۔ راوی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (اس کی بات سن کر) مسکرا دیے اور فرمایا:'' شاید تم پھر رفاعہ( رضی اللہ عنہ ) کے پاس لوٹنا چاہتی ہو، نہیں ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمہاری لذت نہ چکھ لے اور تم اس کی لذت نہ چکھ لو (یعنی جماع نہ کر لو)۔'' (اس وقت) سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خالد ابن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ حجرے کے دروازے پر اجازت کے منتظر تھے۔ راوی کہتا ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آواز دی کہ آپ اس عورت کو ڈانٹتے کیوں نہیں ہو کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا کہہ رہی ہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :فِي الْحَرَامِ وَ قَوْلِهِ زَّوَجَلَّ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمَ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} (التحريم:1) وَالإِخْتِلاَفِ فِيْهِ
(کسی چیز کو)حرام کہنے اور اللہ تعالیٰ کے قول { يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمَ ...}کے متعلق اور اس میں اختلاف کا بیان​
(852) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ إِذَا حَرَّمَ الرَّجُلُ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ
فَهُوَ يَمِينٌ يُكَفِّرُهَا وَ قَالَ { لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ }
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو کہے تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم ہے، اس میں کفارہ دینا ضروری ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ بے شک تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ میں بہتر نمونہ ہے۔
(853) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلاً قَالَتْ فَتَوَاطَيْتُ أَنَا وَ حَفْصَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ أَيَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ؟ فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ بَلْ شَرِبْتُ عَسَلاً عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَ لَنْ أَعُودَ لَهُ فَنَزَلَ { لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ} إِلَى قَوْلِهِ { إِنْ تَتُوبَا } لِعَائِشَةَ وَ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا {وَ إِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا } (التحريم:1) لِقَوْلِهِ بَلْ شَرِبْتُ عَسَلاً
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرا کرتے اور ان کے پاس شہد پیا کرتے تھے۔ پس ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اور ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایکا کیا کہ جس کے پاس بھی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرے کہ میں آپ کے پاس سے مغافیر کی بدبو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر (ایک قسم کا گوند جس کی بو ناپسندیدہ تھی) کھایا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک کے پاس آئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''بلکہ میں نے تو زینب رضی اللہ عنہا کے پاس شہد پیا ہے اور اب کبھی نہ پیوں گا۔'' پھر یہ آیت اتری کہ ''اے نبی ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے...... اگر وہ دونوں توبہ کریں۔'' یعنی ام المومنین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا:''نبی نے ایک بات چپکے سے اپنی ایک بیوی سے کہی۔'' (التحریم:۱۔۳) تو اس بات سے وہی بات مراد ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :'' میں نے شہد پیا ہے۔ ''
(854) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُحِبُّ الْحَلْوَائَ وَ الْعَسَلَ فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ فَقِيلَ لِي أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْهُ شَرْبَةً فَقُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا وَ قُلْتُ إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ فَقُولِي لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ لاَ فَقُولِي لَهُ مَا هَذِهِ الرِّيحُ ؟ وَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ فَقُولِي لَهُ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ وَ سَأَقُولُ ذَلِكِ لَهُ وَ قُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ تَقُولُ سَوْدَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي وَ إِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ؟ قَالَ لاَ قَالَتْ فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ ؟ قَالَ سَقَتْنِي حَفْصَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا شَرْبَةَ عَسَلٍ قَالَتْ جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ بِمِثْلِ ذَلِكَ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَلآ أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ لاَ حَاجَةَ لِي بِهِ قَالَتْ تَقُولُ سَوْدَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ قَالَتْ قُلْتُ لَهَا اسْكُتِي
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد بہت پسند تھا (اور آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھ چکتے تو اپنی ازواج مطہرات کے پاس آتے اور ہر ایک سے قریب ہوتے۔ پس ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں اور دنوں سے زیادہ ٹھہرے تو میرے، اس کا سبب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت کے پاس سے ان کے پاس شہد کی ایک کپی ہدیہ میں آئی تھی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا ہے۔ پس میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم ان سے ایک تدبیر کریں گے۔ میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا اور ان سے کہا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور تم سے قریب ہوں تو تم کہنا کہ یارسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے نہیں ،تو تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا کہ پھر یہ بدبو کیسی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بہت نفرت تھی کہ آپ سے بدبو آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں گے کہ مجھے حفصہ رضی اللہ عنہا نے شہد پلایا ہے، تب تم آپ سے کہنا کہ شاید اس کی مکھی نے عرفط کے درخت سے رس چوس لیا ہے (عرفط اسی درخت کا نام ہے جس کی گوند مغافیر ہے) اور میں بھی ان سے ایسا ہی کہوں گی اور اے صفیہ! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی کہنا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس اللہ کی کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں! میں قریب تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باہر نکل کر وہی بات کہوں جو تم نے (اے عائشہ!) مجھ سے کہی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر تھے اور میرا کہنے میں اس طرح جلدی کرنا تمہارے ڈر سے تھا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزدیک ہوئے تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں۔'' پھر انہوں نے کہا کہ یہ بدبو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مجھے حفصہ رضی اللہ عنہا نے شہد کا شربت پلایا ہے۔'' تب انہوں نے کہا کہ مکھی نے عرفط کا رس چوس لیا ہے (اس لیے اس کی بو شہد میں آ گئی ہے) پھر جب میرے پاس آئے تو میں (عائشہ رضی اللہ عنہا ) نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا۔ پھرصفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی کہا تو جب دوبارہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میں اس میں سے آپ کے لیے شہد لاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔'' ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سبحان اللہ! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پینے سے روک دیا تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ چپ رہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : تَخْيِيْرُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ
مرد کا اپنی بیوی کو اختیار دینا​
(855) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَأْذِنُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَوَجَدَ النَّاسَ جُلُوسًا بِبَابِهِ لَمْ يُؤْذَنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ قَالَ فَأُذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَدَخَلَ ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَوَجَدَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم جَالِسًا حَوْلَهُ نِسَاؤُهُ وَاجِمًا سَاكِتًا قَالَ فَقَالَ لَأَقُولَنَّ شَيْئًا أُضْحِكُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ رَأَيْتَ بِنْتَ خَارِجَةَ سَأَلَتْنِي النَّفَقَةَ فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَوَجَأْتُ عُنُقَهَا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ هُنَّ حَوْلِي كَمَا تَرَى يَسْأَلْنَنِي النَّفَقَةَ فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى عَائِشَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهَا يَجَأُ عُنُقَهَا فَقَامَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى حَفْصَةَ يَجَأُ عُنُقَهَا كِلاَهُمَا يَقُولُ تَسْأَلْنَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا لَيْسَ عِنْدَهُ فَقُلْنَ وَاللَّهِ لاَ نَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شَيْئًا أَبَدًا لَيْسَ عِنْدَهُ ؟ ثُمَّ اعْتَزَلَهُنَّ شَهْرًا أَوْ تِسْعًا وَ عِشْرِينَ ثُمَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الآيَةُ { يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ} حَتَّى بَلَغَ { لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا } (الاحزاب: 28 - 29) قَالَ فَبَدَأَ بِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ يَا عَائِشَةُ ! إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْرِضَ عَلَيْكِ أَمْرًا أُحِبُّ أَنْ لاَ تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَشِيرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ وَ مَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَلاَ عَلَيْهَا الآيَةَ قَالَتْ أَفِيكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْتَشِيرُ أَبَوَيَّ بَلْ أَخْتَارُ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ وَ أَسْأَلُكَ أَنْ لاَ تُخْبِرَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِكَ بِالَّذِي قُلْتُ قَالَ لاَ تَسْأَلُنِي امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ إِلاَّ أَخْبَرْتُهَا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا وَ لاَ مُتَعَنِّتًا وَ لَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور لوگوں کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوئی۔ راوی نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی تو اندر چلے گئے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت چاہی تو انہیں بھی اجازت مل گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں کہ غمگین چپکے بیٹھی ہوئی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں ضرور کوئی ایسی بات کہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں۔ پس انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ! کاش! آپ دیکھتے کہ خارجہ کی بیٹی کو (یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں) کہ اس نے مجھ سے خرچ مانگا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کا گلا گھونٹنے لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے اور فرمایا:'' یہ سب بھی میرے گرد ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور مجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں۔'' پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر عائشہ رضی اللہ عنہا کا گلا گھونٹنے لگے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اور دونوں (اپنی اپنی بیٹیوں سے) کہتے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہے؟ اوروہ کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم! ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز نہ مانگیں گی جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن جدا رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری کہ ''اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو ...سے ... اجر عظیم ہے'' تک (احزاب:۲۹۔۲۸)۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا:'' اے عائشہ! میں تم پر ایک چیز پیش کر رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اس میں جلدی نہ کرو جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ لے لو۔'' انہوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! وہ کیا بات ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ آیت پڑھی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ!کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرتی ہوں اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کو میرے اس جواب کی خبر نہ دیں جو میں نے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ان میں سے جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے فوراً خبر کر دوں گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تنگی اور سختی کرنے والا نہیں بلکہ آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ''
(856) عَنْ مَسْرُوقٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا أُبَالِي خَيَّرْتُ امْرَأَتِي وَاحِدَةً أَوْ مِائَةً أَوْ أَلْفًا بَعْدَ أَنْ تَخْتَارَنِي وَ لَقَدْ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَتْ قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَ فَكَانَ طَلاَقًا ؟
مسروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے کچھ خوف نہیں اگر میں اختیار دوں اپنی بیوی کو ایک بار یا سو بار یا ہزار بار جب وہ مجھے پسند کرچکی ہے اور میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا:'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا یہ طلاق ہو گئی؟ (یعنی نہیں ہوئی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى: { وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}
اللہ تعالیٰ کے فرمان {وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ }کے متعلق​
(857) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَكَثْتُ سَنَةً وَ أَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ فَلاَ تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ قَالَ وَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَائِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَ قَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَ كَذَا فَقُلْتُ لَهَا وَ مَا لَكِ أَنْتِ وَ لِمَا هَاهُنَا وَ مَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ ؟ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَ إِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْتُ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ ؟ فَقَالَتْ حَفْصَةُ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَ غَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ لاَ تَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَ حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِيَّاهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْئٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ ؟ قَالَ فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَ كَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَ إِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَ نَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدِ امْتَلأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَأَتَى صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ وَ قَالَ افْتَحِ افْتَحْ فَقُلْتُ جَائَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَ غُلاَمٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ هَذَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأُذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ إِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَهُ شَيْئٌ وَ تَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَ إِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُورًا وَ عِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْكِيكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّ كِسْرَى وَ قَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَ لَكَ الآخِرَةُ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں ایک سال تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کے رعب کی وجہ سے نہ پوچھ سکا، یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا۔ پھر واپسی میں تھے کہ (سیدنا عمر) ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف کسی حاجت کو جھکے اور میں ان کے لیے ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں ان کے ساتھ چلا اور میں نے کہا کہ اے امیر المومنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی ازواج میں سے زور ڈالا۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم! میں آپ سے اس بارے میں ایک سال سے پوچھنا چاہتا تھا اور آپ کی ہیبت سے نہ پوچھ سکا تھا تو انہوں نے کہا کہ نہیں ایسامت کرو جو بات تمہیں خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو ،میں اگر جانتا ہوں تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہتے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کو کچھ اہمیت نہ دیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو کہ اتارا اور ان کے لیے باری مقرر کی جو مقرر کی (یعنی ان کے حقوق مقرر کر دیے)۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھاکہ میری بیوی نے کہا کہ تم اس طرح کرتے تو خوب ہوتا، تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل؟ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تجھے اس سے کیا سروکار؟ تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تعجب ہے تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تمہیں جواب ہی نہ دے حالانکہ تمہاری صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ رہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں اپنی چادر لے کر گھر سے نکلا اور حفصہ ( رضی اللہ عنہا ) پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں؟ تو حفصہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو ان کو جواب دیتی ہوں۔ پس میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں۔ اے میری بیٹی! تم اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز کرتی ہیں (یعنی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا )۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس قرابت کے سبب جو مجھے ان کے ساتھ تھی پر داخل ہوا اور میں نے ان سے بات کی۔ ام اسلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تم پر تعجب ہے کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دو؟ اور مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا، جس نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کرنا چاہتا تھا اور میں ان کے پاس سے چلا آیا اور انصار میں سے میرا ایک دوست تھا کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اور احادیث کی) خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اس کو خبر دیتا تھا اور ہم ان دنوں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا خوف رکھتے تھے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کاارادہ رکھتاہے اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران میرے دوست نے آ کر دروازہ بجایا اور کہا کہ کھولو کھولو! میں نے کہا کہ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی ایک بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی ناک میں خاک آلود ہو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لیے اور نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالاخانے میں تھے کہ اس کے اوپر کھجور کی ایک جڑ سے چڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ پس میں نے کہا کہ یہ عمر ہے اور میرے لیے اجازت دی گئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا اور جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تھے کہ ان کے اور چٹائی کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے عمر! تمہیں کس بات نے رلا دیا؟'' میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسول ! بے شک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کے لیے دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ العِدَّۃِ
عدت کے مسائل

بَابٌ :فِي الْحَامِلِ تَضَعُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا
حاملہ عورت اپنے خاوند کی وفات کے (تھوڑے عرصے) کے بعد بچہ جنے (تو اس کی عدت کا بیان)​
(858) عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الأَسْلَمِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَيَسْأَلُهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَ عَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حِينَ اسْتَفْتَتْهُ فَكَتَبَ عُمَرُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدُ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ فِي بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَ كَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَ هِيَ حَامِلٌ فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ فَقَالَ لَهَا مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً ؟ لَعَلَّكِ تَرْجِينَ النِّكَاحَ ؟ إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَ عَشْرٌ قَالَتْ سُبَيْعَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي وَ أَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِي قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَلاَ أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ وَ إِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا غَيْرَ أَنَّه لاَ يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم الزہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کی حدیث کے متعلق پوچھیں کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا تھا؟ تو عمر بن عبداللہ نے ان کو لکھا کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ خبر دی ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جو قبیلہ بنی عامر بن لؤی سے تھے اور غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے اور حجۃ الوداع میں انہوں نے وفات پائی تو اس وقت یہ حاملہ تھیں پھران کی وفات کے کچھ ہی دیر بعد وضع حمل (یعنی ولادت)ہو گیا۔ جب اپنے نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے منگنی کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا۔ ابوالسنابل جو قبیلہ بنی عبد الدار سے تعلق رکھتے تھے، ان کے پاس آئے اور کہا کہ کیا سبب ہے کہ میں تمہیں سنگار کیے ہوئے دیکھتا ہوں؟ شاید تم نکاح کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور اللہ کی قسم !تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم پر چار مہینے اور دس دن نہ گزر جائیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب انہوں نے مجھ سے یوں کہا تو میں اپنی چادر اوڑھ کر شام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فتویٰ دیا :'' میری عدت اسی وقت پوری ہو چکی تھی جب میں نے وضع حمل کیا ۔'' اور اگر میں چاہوں تو مجھے نکاح کی اجازت ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں جانتا کہ کوئی عورت بعد وضع کے اسی وقت نکاح کرے اگرچہ وہ ابھی خون نفاس میں ہو مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا شوہر اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بَابٌ :فِي الْمُطَلَّقَةِ تَخْرُجُ لِجِدَادِ نَخْلِهَا
مطلقہ عورت اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کے لیے (باہر) جا سکتی ہے​
(859) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی اور انہوں نے چاہا کہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لیں تو ایک شخص نے ان کے باہر نکلنے پر انہیں جھڑکا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''کیوں نہیں! تم جاؤ اور اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لو، اس لیے کہ شاید تم اس میں سے صدقہ دو (تو اوروں کا بھلا ہو) یا اور کوئی نیکی کرو (کہ تمہارا بھلا ہو)۔ ''
 
Top