• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
042) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ ابْنَ صَيَّادٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ فَقَالَ دَرْمَكَةٌ بَيْضَائُ مِسْكٌ خَالِصٌ

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سفید خالص ،مشک کی طرح خوشبودار۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(2043) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ الدَّجَّالُ فَقُلْتُ أَتَحْلِفُ بِاللَّهِ ؟ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ يُنْكِرْهُ النَّبِيُّصلی اللہ علیہ وسلم

محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ کو (اس پر)قسم کھاتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہاکہ تم اللہ کی قسم کھاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھارہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہ کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2044) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ حَتَّى وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَ قَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِابْنِ صَيَّادٍ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ فَرَفَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَ بِرُسُلِهِ ۔ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَاذَا تَرَى ؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَ كَاذِبٌ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ هُوَ الدُّخُّ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ ۔فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ ۔ وَ قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الأَنْصَارِيُّ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّخْلَ طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَ هُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنَ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ يَا صَافِ وَ هُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ
قَالَ سَالِمٌ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ وَ قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ وَ لَكِنْ أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلاً لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ أَعْوَرُ وَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيُّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَوْمَ حَذَّرَ النَّاسَ الدَّجَّالَ إِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ يَقْرَؤُهُ مَنْ كَرِهَ عَمَلَهُ أَوْ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ قَالَ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ حَتَّى يَمُوتَ


سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتی کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا۔ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا ۔اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا : ’’ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟‘‘ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امیین کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے علم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا: ’’ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :’’ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟‘‘ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرا کام گڑبڑ ہو گیا۔‘‘ (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لیے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔‘‘ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے؟‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! مجھے چھوڑیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ سیدنا سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے سنا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں گھسے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد کو دھوکا دے کراس کی کچھ باتیں سن سکیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دیکھا :’’ وہ ایک بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ نافہم باتیں گنگنا رہا تھا ۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں چھپ رہے تھے کہ اس کی ماں نے آپ کو دیکھ کر اسے پکارا۔کہ اے صاف! (اور صاف ابن صیاد کا نام تھا) یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اگر وہ اس کو ایسا ہی رہنے دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا۔ (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر) ۔سالم نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو لائق ہے، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو ،یہاں تک کہ نوح علیہ السلام نے بھی (جن کا دور بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو اس سے ڈرایا لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائی، تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا بلند، کانا نہیں ہے۔ (معاذ اللہ ! کاناپن ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک عیب سے پاک ہے)۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا تھا، یہ بھی فرمایا: ’’اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً ک۔ ف۔ر ۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اورشرارت نمایاں ہو گی) جس کو ہر وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو برا جانے گا یا اس کو ہر ایک مومن پڑھ لے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے ہر گز نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(2045) عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ كَانَ نَافِعٌ يَقُولُ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَقِيتُهُ مَرَّتَيْنِ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ لِبَعْضِهِمْ هَلْ تَحَدَّثُونَ أَنَّهُ هُوَ ؟ قَالَ لاَ وَاللَّهِ قَالَ قُلْتُ كَذَبْتَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بَعْضُكُمْ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالاً وَ وَلَدًا فَكَذَلِكَ هُوَ زَعَمُوا الْيَوْمَ قَالَ فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ قَالَ فَلَقِيتُهُ لَقْيَةً أُخْرَى وَ قَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ قَالَ فَقُلْتُ مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى ؟ قَالَ لاَ أَدْرِي قَالَ قُلْتُ لاَ تَدْرِي وَ هِيَ فِي رَأْسِكَ قَالَ إِنْ شَائَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ قَالَ فَنَخَرَ كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ سَمِعْتُ قَالَ فَزَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِيَ حَتَّى تَكَسَّرَتْ وَ أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ قَالَ وَ جَائَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَحَدَّثَهَا فَقَالَتْ مَا تُرِيدُ إِلَيْهِ ؟ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا يَبْعَثُهُ عَلَى النَّاسِ غَضَبٌ يَغْضَبُهُ

ابن عون نافع سے روایت کرتے ہیں کہ نافع ابن صیاد کا ذکر کرتے تھے کہ انھوں نے کہا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما کہتے تھے کہ میں ابن صیاد سے دو بار ملاہوں، ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم! میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا ،تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔کہتے ہیں کہ جب میں دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہاکہ یہ تیری آنکھ کا کیا حال ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں ؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے نکالتا ہے۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ام المومنین (حفصہ رضی اللہ عنھا )کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اوّل چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2046) عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ مَعَهُ نَهْرَانِ يَجْرِيَانِ أَحَدُهُمَا رَأْيَ الْعَيْنِ مَائٌ أَبْيَضُ وَ الآخَرُ رَأْيَ الْعَيْنِ نَارٌ تَأَجَّجُ فَإِمَّا أَدْرَكَنَّ أَحَدٌ فَلْيَأْتِ النَّهْرَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا وَ لْيُغَمِّضْ ثُمَّ لْيُطَأْطِئْ رَأْسَهُ فَيَشْرَبَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مَائٌ بَارِدٌ وَ إِنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ وَ غَيْرِ كَاتِبٍ

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ بہتی ہوئی دو نہریں ہوں گی، ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی او ردوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی۔پھر جو کوئی یہ موقع پائے ، وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہے اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پیے ،وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی اس پر ایک موٹی پھلی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
(2047) عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى جُفَالُ الشَّعَرِ مَعَهُ جَنَّةٌ وَ نَارٌ فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَ جَنَّتُهُ نَارٌ

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا ،گھنے بالوں والا ہوگا،اس کے ساتھ باغ ہو گااور آگ ہو گی۔ پس اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔ (علماء نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے ایک آزمائش ہے تاکہ حق کو حق کر دے اور جھوٹ کو جھوٹ ۔پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2048) عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَ رَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ؟ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَ رَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَ أَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَ إِنْ يَخْرُجْ وَ لَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَ الْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَ عَاثَ شِمَالًا ۔ يَا عِبَادَ اللَّهِ ! فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَ مَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَ يَوْمٌ كَشَهْرٍ وَ يَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَ سَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ ۔ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلاَةُ يَوْمٍ ؟ قَالَ لاَ اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَ مَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ ؟ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَ يَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَائَ فَتُمْطِرُ وَ الْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَ أَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَ أَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَ يَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَائِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَ اضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَ إِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ فَلاَ يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَ نَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَ يُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لاَ يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَ يَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ { وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ } (الانبياء : 69) فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَ يَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَائٌ وَ يُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ فَلاَ يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَ نَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَ أَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَائَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لاَ يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَ لاَ وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَ رُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ وَ يَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَ يُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ وَ اللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنَ النَّاسِ وَ اللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنَ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ كُلِّ مُسْلِمٍ وَ يَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) ،یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ پھر جب شام کے وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، جب ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ!آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا ،یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو گیا کہ دجال ان کھجور کے درختوں میں موجود ہے(یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے دجال کے سوا اور باتوں کا تم پر خوف زیادہ ہے (یعنی فتنوںکا اور آپس کی لڑائیوں کا) اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کا مقابل ہوںگا(یعنی اس سے لڑائی کروں گا)اور تمہیں اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد (مسلمان) اپنی طرف سے اس سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہو گا ، البتہ دجال تو جوان، گھونگھریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ پاتا ہوں پس تم میں سے جو شخص دجال کو پائے ،اس کو چاہیے کہ سورئہ کہف کی ابتدائی آیتیں اس پر پڑھے۔ یقینا وہ شام اور عراق کے درمیان کی راہ سے نکلے گا تو اپنے دائیں بائیں ہاتھ فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔‘‘ صحابہ بولے کہ یا رسول اللہ ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چالیس دن تک، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا ،ایک دن ایک مہینے کے برابر ،ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔‘‘ (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے اور چودہ دن تک رہے گا) صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہ میں ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! تم اس دن میں (سال کی نمازوں کا)اندازہ کر لینا۔‘‘ (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی نے کہا کہ اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا کافی ہوتیں ،کیونکہ ہر دن رات میں خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں ، جو کہ خط استواء سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے، چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے، پس اگر بالفرض انسان وہاں پہنچ جائے اور زندہ رہے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی)۔ صحابہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! اس کی چال زمین میں کیسی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس بادل کی طرح جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو دعوت دے گا،وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے۔پس وہ آسمان کو حکم کرے گا تو وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا تو گھاس اور اناج اگا دے گی۔ شام کو ان کے جانور آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے زیادہ لمبے ہوں گے ،تھن کشادہ ہوں گے اور کوکھیں تنی ہوئی ہوں گی(یعنی خوب موٹی ہو کر)۔ پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا ،ان کو بھی دعوت دے گا ،لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا اور ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں سے کچھ نہ رہے گا اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا کہ اے زمین! اپنے خزانے نکال، تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس ایسے جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں سردارمکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار مارکر دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسے نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے، پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا، پس وہ جوان دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا سامنے آئے گا۔ سو دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے، وہ زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینا ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافرتک عیسیٰ علیہ السلام کے دم کی خوشبو پہنچ گئی ،وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو باب لد (نامی پہاڑ جوکہ شام میں ہے) پر موجود پا کرقتل کردیں گے۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچایا ہوگا پس شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو ان درجوں کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کے لیے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں،تم تو میرے مسلمان بندوں کو طور (پہاڑ) کی طرف پناہ میں لے جاؤ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک اونچی جگہ سے نکل پڑیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی لیں گے۔ پھر ان میں سے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کہ کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ (پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے کہ البتہ ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے، اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا، وہ یہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے) اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے اصحاب بند رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر تمہاری آج کی سو اشرفی سے افضل ہو گا۔(یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی)۔ پھراللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے، پس اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا تو ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان کی سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی)پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر پرندے بھیجے گا ، وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ جس سے زمین اور مٹی کے گھر اور چمڑے کے خیمے، سب کچھ شیشے کی طرح صاف ہو جائیں گے۔پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دودھ والی گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دودھ والی بکری ایک پورے خاندان کو کفایت کرے گی۔ پس لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ یکایک اللہ تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا، وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی تو ہرمومن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بد ذات لوگ باقی رہ جائیں گے ،وہ گدھوں کی طرح سرعام عورتوں سے جماع کریں گے،ان پر قیامت قائم ہوگی۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2049) عَنْ أَبِيْ سَعِيدِ نِالْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ يَأْتِي وَ هُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِي إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَ تَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟ فَيَقُولُونَ لاَ قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ قَالَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلاَ يُسَلَّطُ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ذکر میں ایک لمبی حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بیان کیا :’’ اس پر مدینہ کی گھاٹی میں گھسنا حرام ہو گا اور وہ مدینہ کے قریب ایک پتھریلی زمین پر آئے گا ۔پھر اس کے پاس ایک شخص جائے گا جو سب لوگوں میں بہتر ہو گا، وہ کہے گا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کا ذکر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں کیا ہے۔ دجال لوگوں سے کہے گا کہ بھلا اگر میں اس کو مار ڈالوں، پھر زندہ کر دوں تو کیا تمہیں اس بارے میں کچھ شک رہے گا؟ وہ کہیں گے کہ نہیں۔ دجال اس شخص کو قتل کرے گااور پھر اس کو زندہ کردے گا ۔پس جب وہ اس کو زندہ کرے گا توکہے گا کہ اللہ کی قسم !مجھے پہلے تیرے بارے میں اتنا یقین نہ تھا جتنا اب ہے۔ (یعنی اب تو یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے) پھر دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن قتل نہ کر سکے گا۔‘‘ راوی ابو اسحاق نے کہا کہ یہ آدمی خضرعلیہ السلام ہیں۔(لیکن یہ ثابت نہیں ہے بلکہ دلائل اس پر شاہد ہیں کہ خضرعلیہ السلام وفات پا چکے ہیں)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2050) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فَيَتَوَجَّهُ قِبَلَهُ رَجُلٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَتَلْقَاهُ الْمَسَالِحُ مَسَالِحُ الدَّجَّالِ فَيَقُولُونَ لَهُ أَيْنَ تَعْمِدُ ؟ فَيَقُولُ أَعْمِدُ إِلَى هَذَا الَّذِي خَرَجَ قَالَ فَيَقُولُونَ لَهُ أَوَ مَا تُؤْمِنُ بِرَبِّنَا فَيَقُولُ مَا بِرَبِّنَا خَفَائٌ فَيَقُولُونَ اقْتُلُوهُ فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَلَيْسَ قَدْ نَهَاكُمْ رَبُّكُمْ أَنْ تَقْتُلُوا أَحَدًا دُونَهُ ؟ قَالَ فَيَنْطَلِقُونَ بِهِ إِلَى الدَّجَّالِ فَإِذَا رَآهُ الْمُؤْمِنُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ! هَذَا الدَّجَّالُ الَّذِي ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَيَأْمُرُ الدَّجَّالُ بِهِ فَيُشَبَّحُ فَيَقُولُ خُذُوهُ وَ شُجُّوهُ فَيُوسَعُ ظَهْرُهُ وَ بَطْنُهُ ضَرْبًا قَالَ فَيَقُولُ أَوَ مَا تُؤْمِنُ بِي ؟ قَالَ فَيَقُولُ أَنْتَ الْمَسِيحُ الْكَذَّابُ قَالَ فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُؤْشَرُ بِالْمِئْشَارِ مِنْ مَفْرِقِهِ حَتَّى يُفَرَّقَ بَيْنَ رِجْلَيْهِ قَالَ ثُمَّ يَمْشِي الدَّجَّالُ بَيْنَ الْقِطْعَتَيْنِ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ قُمْ فَيَسْتَوِي قَائِمًا قَالَ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ أَتُؤْمِنُ بِي ؟ فَيَقُولُ مَا ازْدَدْتُ فِيكَ إِلَّا بَصِيرَةً قَالَ ثُمَّ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ! إِنَّهُ لاَ يَفْعَلُ بَعْدِي بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ قَالَ فَيَأْخُذُهُ الدَّجَّالُ لِيَذْبَحَهُ فَيُجْعَلُ مَا بَيْنَ رَقَبَتِهِ إِلَى تَرْقُوَتِهِ نُحَاسًا فَلاَ يَسْتَطِيعُ إِلَيْهِ سَبِيلاً قَالَ فَيَأْخُذُ بِيَدَيْهِ وَ رِجْلَيْهِ فَيَقْذِفُ بِهِ فَيَحْسِبُ النَّاسُ أَنَّمَا قَذَفَهُ إِلَى النَّارِ وَ إِنَّمَا أُلْقِيَ فِي الْجَنَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَهَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دجال نکلے گا اور مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا تو راستے میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے۔ وہ اس سے پوچھیں گے کہ تو کہاں جاتا ہے؟ وہ بولے گا کہ میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے کہ تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا کہ ہمارا مالک چھپا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے کہ اس کو مار ڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے کہ ہمارے مالک نے تو کسی کو مارنے سے منع کیا ہے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں، پھر اس کو دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب وہ دجال کو دیکھے گا تو کہے گاکہ اے لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ دجال اپنے لوگوں کو حکم دے گا تو اس کی پیٹھ اور پیٹ پر مارا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا کہ اس کو پکڑو اور اس کا سر پھوڑ دو۔ پھر دجال اس سے پوچھے گا کہ تو میرے اوپر (یعنی میری خدائی پر) یقین نہیں کرتا؟ وہ کہے گا کہ تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال حکم دے گا تو وہ آرے سے سر سے لے کر دونوں پاؤں تک چیرا جائے گا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ پھر دجال ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں جائے گا اور کہے گا کہ اٹھ کھڑا ہو۔ وہ شخص (زندہ ہو کر سیدھا) اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا ۔پھر اس سے پوچھے گا کہ اب تو میرے اوپر ایمان لایا؟ وہ کہے گا کہ مجھے تو اور زیادہ یقین ہوا کہ تو دجال ہے۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ اے لوگو! اب دجال میرے سوا کسی اور سے یہ کام نہ کرسکے گا (یعنی اب کسی کو زندہ نہیں کرسکتا)۔ پھر دجال اس کو ذبح کرنے کے لیی پکڑے گا تو اس کے گلے سے لے کر ہنسلی تک تانبے کا بن جائے گا اور وہ اسے ذبح نہ کر سکے گا۔ پھر اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ اس کو آگ میں پھینک دیا حالانکہ وہ جنت میں ڈالا جائے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ شخص سب لوگوں میں اللہ رب العالمین کے نزدیک بڑا شہید ہے۔‘‘
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604

(2051) عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُ قَالَ وَ مَا يُنْصِبُكَ مِنْهُ إِنَّهُ لاَ يَضُرُّكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَ الْأَنْهَارَ ؟ قَالَ هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا ۔(حتی کہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تو کیوں فکر کرتا ہے؟ دجال تجھے نقصان نہ پہنچائے گا۔‘‘ میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور نہریں ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ پر تو اس سے زیادہ آسان ہے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بھی زیادہ اختیار دے سکتا ہے، اس پر کیا مشکل ہے یعنی جو اس کے پاس ہو گا وہ اس سے مومنوں کو گمراہ نہ کر سکے گا)۔
 
Top