محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
بلاشک و شبہ آپ نے سچ کہا۔ اس میں کسی کو اختلاف ہو تو اپنے دین کی تجدید کو لازم پکڑے۔حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے
مجازی وارث بھی ہوئے آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔مگر کیا مجازی معنی میں کوئی اللہ کا بندہ وارث ہوسکتا ہے آئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
النمل: 16
اور سلیمان (علیہ السلام ) داؤد (علیہ السلام ) کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے
یہ بھی آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (مریم: 6)
(حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی ) وہ میرا وارث ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر
اس قرآنی آیات میں حضرت زکریا علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جس میں انھوں نے اللہ سے اپنے لئے وارث کی دعا کی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ وارث تو میں ہی ہوں تم ایسی بات کیوں کرتے ہو بلکہ فرمایا کہ
اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحیٰی ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا
مریم: 7
یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی وارث کے لئے دعا کو قبول کیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیا
اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کا بندہ بھی وارث ہوسکتا ہے
اگر آپ غور کریں تو
بعد میں آنے والا پہلے کا وارث ہوا۔ جیسا کہ آپ نے
والد (داوٗد علیہ السلام) کا ذکر کیا اور بیٹے (سلیمان علیہ السلام) کو وارث بتایا۔
اسی طرح آپ نے
والد (زکریا علیہ السلام) کا ذکر کیا اور بیٹے (یحیی علیہ السلام) کو وارث بتایا۔
آپ کی پیش کردہ دلیلوں سے بعد میں آنے والا تو وارث ثابت ہوتا ہےة جسے قبر میں دفنا دیا جائے اس کے لواحقین جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ اپنی مدت حیات تک اس کے وارث ہوتے ہیں۔
اختلاف یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جنہیں شہید کر دیا گیا وہ آج کے لوگوں کے وارث کیسے ہوئے؟
اللہ نے قرآن میں اپنے لئے ہی ہر چیز کی میراث کا جو ذکر کیا ہے تو اس لئے کہ
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (سورۃ الحدید:3)
وہی (اللہ سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اندر مذکورہ بالا صفات (الٰہیہ) ہیں ؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ اپنے دعوی وراثت میں سچے ہیں
اگر نہیں
تو مقام غور ہے۔