• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صرف اللہ وارث

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے
بلاشک و شبہ آپ نے سچ کہا۔ اس میں کسی کو اختلاف ہو تو اپنے دین کی تجدید کو لازم پکڑے۔

مگر کیا مجازی معنی میں کوئی اللہ کا بندہ وارث ہوسکتا ہے آئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
النمل: 16
اور سلیمان (علیہ السلام ) داؤد (علیہ السلام ) کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے
مجازی وارث بھی ہوئے آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (مریم: 6)
(حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی ) وہ میرا وارث ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر
اس قرآنی آیات میں حضرت زکریا علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جس میں انھوں نے اللہ سے اپنے لئے وارث کی دعا کی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ وارث تو میں ہی ہوں تم ایسی بات کیوں کرتے ہو بلکہ فرمایا کہ
اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحیٰی ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا
مریم: 7
یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی وارث کے لئے دعا کو قبول کیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیا
اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کا بندہ بھی وارث ہوسکتا ہے
یہ بھی آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔

اگر آپ غور کریں تو

بعد میں آنے والا پہلے کا وارث ہوا۔ جیسا کہ آپ نے
والد (داوٗد علیہ السلام) کا ذکر کیا اور بیٹے (سلیمان علیہ السلام) کو وارث بتایا۔

اسی طرح آپ نے
والد (زکریا علیہ السلام) کا ذکر کیا اور بیٹے (یحیی علیہ السلام) کو وارث بتایا۔

آپ کی پیش کردہ دلیلوں سے بعد میں آنے والا تو وارث ثابت ہوتا ہےة جسے قبر میں دفنا دیا جائے اس کے لواحقین جو پیچھے رہ جاتے ہیں وہ اپنی مدت حیات تک اس کے وارث ہوتے ہیں۔

اختلاف یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جنہیں شہید کر دیا گیا وہ آج کے لوگوں کے وارث کیسے ہوئے؟

اللہ نے قرآن میں اپنے لئے ہی ہر چیز کی میراث کا جو ذکر کیا ہے تو اس لئے کہ
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (سورۃ الحدید:3)
وہی (اللہ سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اندر مذکورہ بالا صفات (الٰہیہ) ہیں ؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ اپنے دعوی وراثت میں سچے ہیں
اگر نہیں
تو مقام غور ہے۔
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر کیا مجازی معنی میں کوئی اللہ کا بندہ وارث ہوسکتا ہے آئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
النمل: 16
اور سلیمان (علیہ السلام ) داؤد (علیہ السلام ) کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
مریم: 6
(حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی ) وہ میرا وارث ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر
اس قرآنی آیات میں حضرت زکریا علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جس میں انھوں نے اللہ سے اپنے لئے وارث کی دعا کی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ وارث تو میں ہی ہوں تم ایسی بات کیوں کرتے ہو بلکہ فرمایا کہ
اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحیٰی ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا
مریم: 7

یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی وارث کے لئے دعا کو قبول کیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیا
اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کا بندہ بھی وارث ہوسکتا ہے
اللہ اعلم ورسولہ اعلم
ان سب کا آپس میں کیا رشتہ تھا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے
الانبیاء : 105 ( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
جن ''بندوں'' کا آپ ذکر کر رہے ہیں کیا وہ قبر میں دفن ہونے کے بعد بھی وارث ہوں گے؟؟؟؟

کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے؟

کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قبر میں دفن نہیں کیا گیا؟

کیا آپ کے ہم نواؤں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر پر مزار نہیں بنایا؟

آپ کے عقیدے کے مطابق یہ سب کام وقوع پذیر ہو چکے ہیں اور آپ کی زندگی سے پہلے ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے رب کے پاس نعمتوں کے باغوں میں جلوہ افروز ہو چکے ہیں۔

اُولٰىِٕكَ ھمُ الْوٰرِثُوْنَ ۔ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ (سورۃ المؤمنون:10-11)
یہ ہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں (یعنی) جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے

ایسی نعمتیں کہ پوری دنیا و ما فیہا جنت کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت کی قیمت نہیں ہو سکتی۔

تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم زبردستی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اعلی ترین نعمتوں کی وراثت کی بجائے دنیا کی ذلیل و حقیر چیزوں کی وراثت سونپنے چلے ہو؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے

الانبیاء : 105
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اگر اس آیت سے آپ یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنہ بھی وارث ہیں تو آپ بڑی گمراہی میں ہے- الله آپ کو ہدایت دے -

پہلی بات یہ کہ الله کی صفت رب ہونا بھی ہے - رب کا مطلب ہے پالنے والا - ہم کہتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو پالتے ہیں - کیا آپ نے کبھی اپنے والد یا والدہ کو رب کہا ؟؟؟- نہیں---- تو پھر کسی غیر الله کو وارث کہنا جسے "علی وارث" کہنا کس طرح جائز ہو سکلتا ہے ؟؟؟

دوسری بات- اگر تھوڑی دیر کے لئے (نعو ز و باللہ میں ذالک) ہم یہ سوچ بھی لیں کہ علی وارث کہنا صحیح ہے تو - سوال ہے کہ محمّد صل الله علیہ وسلم کی پھر کیا حثیت رہ جاتی ہے؟؟؟ یعنی نبی کریم صل الله علیہ وسلم درجے میں حضرت علی رضی الله عنہ سے کہیں زیادہ بلند تھے تو پھر "محمّد وارث " کیوں نہیں ؟؟؟ علی وارث کیوں؟؟؟ اور پھر کس وقت کس حاجت کے لئے کس انسان کو پکارا جائے یا وارث سمجھا جائے - حضرت علی رضی الله عنہ کو یا محمّد صل الله علیہ وسلم کو یا حضرت حسین رضی الله کو یا عبدلقادر جیلانی رحمللہ وغیرہ کو؟؟؟


يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ۚ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ سوره یوسف٣٩-٤٠


اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے - تم اس کے سوا کچھ نہیں پوجتے مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے مقرر کر لیے ہیں الله نے ان کے متعلق کوئی سند نہیں اتاری- حکومت سوا الله کے کسی کی نہیں ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے-
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ ہے میری پہلی پوسٹ اس دھاگہ میں
حقیقی وارث تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر کیا مجازی معنی میں کوئی اللہ کا بندہ وارث ہوسکتا ہے آئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ
النمل: 16
اور سلیمان (علیہ السلام ) داؤد (علیہ السلام ) کے وارث ہوئے اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
مریم: 6
(حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی ) وہ میرا وارث ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر
اس قرآنی آیات میں حضرت زکریا علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جس میں انھوں نے اللہ سے اپنے لئے وارث کی دعا کی اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ وارث تو میں ہی ہوں تم ایسی بات کیوں کرتے ہو بلکہ فرمایا کہ
اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحیٰی ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا
مریم: 7
یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی وارث کے لئے دعا کو قبول کیا اور اس وارث کا نام بھی خود ہی تجویز کیا
اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کا بندہ بھی وارث ہوسکتا ہے
اللہ اعلم ورسولہ اعلم
اور یہ ہے اس پر شاکر صاحب کا جواب
شاید کل کو آپ یہ بھی کہنے لگ جائیں کہ حقیقی معنوں میں تو اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے۔ لیکن مجازی معنوں میں تو کوئی بھی بندہ معبود ہو سکتا ہے ۔
حقیقی معنوں میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی اور رسول ہیں، لیکن مجازی معنوں میں تو کوئی بھی نبی اور رسول ہو سکتا ہے۔
آپ نے قرآن کی جو آیات پیش کی ہیں، ان سے مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ کوئی ایسی قرآن کی آیت بتا دیجئے جس میں وارث بننے والا کوئی مردہ شخص ہو۔ یا بعد کے زمانے والا پچھلے زمانے والے کسی شخص کو وارث قرار دیتا ہو۔ جائیداد یا علم کی وراثت تو نسلاً بعد نسلٍ آگے کی جانب منتقل ہوتی ہے، ، اس میں تو کسی غیر مسلم سے بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یعنی حقیقی اور مجازی کے فرق کا مطلقا انکار اس پر بات آگے بڑھی لیکن پھر کچھ لوگوں نے اعتراف کیا کہ ہاں حقیقی وارث اللہ تعالیٰ ہی ہے اور مجازی معنوں میں اللہ کے بندے بھی وارث ہوسکتے ہیں اس اعترف کے بعد یہ بحث اپنے منطقی انجام پر پہنچ گئی ہے اب اس بحث میں تقدیم اور تاخیر کی وراثت کی بحث لانا مناسب نہیں !
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بہرام اور اس کے بزرگ جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ، ان کے خاندان اور اہل خانہ رضی اللہ عنہم کو دھوکہ دیتے رہے مثلاً

سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے شیعوں کو بد دعا دیتے ہوئے فرمایا:
اے اللہ !اگر ان کو دنیا میں کچھ مہلت دے تو ان کو گروہوں میں بانٹ دے اور ان کو مختلف راستوں پر چلنے والا بنا دے۔ بے شک یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے ہماری مدد کرنے کے دعوے سے بلایا، پھر ہمارے دشمن ہو گئے اور ہمیں شہید کرنے کے درپے ہوگئے۔ (الارشاد للمفید، صفحہ 241 )

ایک اور موقع پر ان پر بد دعا کرتے ہوئے امام حسین رضی اللہ عنہ اس طرح مخاطب ہوئے:

تم نے ہماری بیعت کرنے میں پرندوں کی طرح جلدی کی اور تم نے ہمارے گرد ایسے گھیرا ڈال لیا جیسے پروانے شمع کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن پھر تم نے حماقت اور بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بیعت کو توڑ دیا اور ہمارے خلاف محاذ آرا ہو گئے، خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (الاحتجاج،24/2)

سید محسن امین نے کہا تھا:

بیس ہزار عراقیوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کی، پھر ان کے ساتھ دھوکہ کیا، ان کے خلاف خروج کیا اور اس حال میں کہ ان کی بیعت ان کی گردنوں میں تھی انہوں نے ان کو شہید کردیا۔ (اعیان الشیعہ/ القسم الاول،صفحہ ،34 )
تو، صدیوں پرانی دھوکہ دہی کی ''وراثت '' میں ملی ہوئی آزمودہ عادت آج انہوں نے پھر آزمانے کی کوشش کی مثلاً لکھتے ہیں:

یہ بحث اپنے منطقی انجام پر پہنچ گئی ہے اب اس بحث میں تقدیم اور تاخیر کی وراثت کی بحث لانا مناسب نہیں !
اگر بہرام کا قرآن کی صداقت پر ایمان ہو تو اللہ تعالی کا یہ فرمانِ عالی شان پڑھ لے:

كُلَّمَآ اَضَاۗءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِيْہِ۝۰ۤۙوَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَيْہِمْ قَامُوْا۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ۝۲۰ۧ [٢:٢٠]
جب بجلی ان پر روشنی ڈالی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر الله چاہتا تو ان کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل کر دیتا ہے۔ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے۔

چنانچہ بزعم خود جب بہرام نے دیکھا کہ روشنی ملی ہے تو اس میں بھاگ پڑا اور جب وراثت میں تقدیم و تاخیر والی بات میں اندھیرا پایا تو وہیں کھڑا ہو گیا اور دہائی دینے لگا کہ

یہ بحث اپنے منطقی انجام پر پہنچ گئی ہے اب اس بحث میں تقدیم اور تاخیر کی وراثت کی بحث لانا مناسب نہیں !
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
چنانچہ بزعم خود جب بہرام نے دیکھا کہ روشنی ملی ہے تو اس میں بھاگ پڑا اور جب وراثت میں تقدیم و تاخیر والی بات میں اندھیرا پایا تو وہیں کھڑا ہو گیا اور دہائی دینے لگا کہ
نہیں بلکہ اس طرح ہونا چاہئے کہ بندوں کے وارث ہونے کا پہلے مطلقا انکار جب قرآن ہی سے ثابت کردیا کہ اللہ کے بندے بھی وارث ہوتے ہیں تو پھر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے چیلوں کو آگے کردیا
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
میرے رب نے کم بیش ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی یہ خبر ارشاد فرما دی تھی:

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَنْ لَّنْ يُّخْرِجَ اللہُ اَضْغَانَہُمْ (سورۃ محمد)
کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ اللہ ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟

اللہ احکم الحاکمین نے یہ آج ہمارے سامنے اس کی سچائی بہرام کے تحریر کردہ الفاظ سے ظاہر فرما دی۔

اللہ تعالی نے اسی لئے فرمایا تھا:

وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِيْ لَحْنِ الْقَوْلِ۝۰ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ اَعْمَالَكُمْ (سورۃ محمد)
اور تم انہیں (ان کے) انداز گفتگو ہی سے پہچان لو گے۔

میرے رب نے بہرام کو موقعہ دیا ہے کہ وہ اپنے دل کی باتیں باہر نکالے۔ جب یہ نکل جائیں گی تو اللہ اکیلے احکم الحاکمین سے امید واثق ہے کہ بہرام کے دل میں اللہ تعالی، اس کی نازل کردہ کتابوں، اس کے رسولوں، خصوصاً رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دیگر اہل ایمان کی محبت گھر کر جائے گی۔ اور انشراح صدر کے ساتھ بہرام کو ‘‘وراثت’’ کی سمجھ بھی آئے گی جس کے بعد وہ ‘‘صرف اللہ وارث’’ ہی پکارے گا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قبر میں دفن نہیں کیا گیا؟
کیا آپ کے ہم نواؤں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر پر مزار نہیں بنایا؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا کسی کو علم نہیں۔۔۔
جہاں مزار بنایا گیا ہے وہ بھی ان سے منسوب ہے۔۔۔
وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جسد خاکی نہیں ہے۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا کسی کو علم نہیں۔۔۔
جہاں مزار بنایا گیا ہے وہ بھی ان سے منسوب ہے۔۔۔
وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جسد خاکی نہیں ہے۔۔۔
جزاک الله - صحیح فرمایا آپ نے -

مصنف محمود احمد عباسی بھی اپنی کتاب "تحقیق سیّد و سادات" میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون پیش کرچکے ہیں- تا حال حضرت علی رضی الله عنہ کی قبر ایک معمہ ہے - (واللہ عالم)
 
Top