- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,396
- پوائنٹ
- 891
(ابو دائود ،ابن ماجہ، مستدرک حاکم، براویت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے انتہائی نا پسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘
’’ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ‘‘ (البقرۃ ۲۲۸)
ترجمہ:’’جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ایسے ہی عورتوں کے بھی ان پر دستور کے موافق حقوق ہیں‘‘
’’وَعاَشِرُوْھنُ َّبِالْمَعْرُوْفِ‘‘ (النساء :۱۹)
’’عورتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کا سلوک کرو‘‘
’’ مَتَاعاً بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (البقرۃ :۲۳۶)
’’نیک لوگوں پر حق ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں‘‘
’’ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لِّتَعْتَدُواْ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ ‘‘ (البقرۃ :۲۳۱)
’’پس ان کو بھلے طریقے سے رکھ لو یا شریفانہ طرز سے چھوڑ دو اور دکھ دینے کے لئے ان کو مت روکنا کہ ظلم کرنے لگو اور جو کوئی یہ کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا‘‘
’’ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ‘‘ (البقرۃ :۲۲۹)
’’اگر رکھو تو اچھی طرح رکھو اور اگر نباہ نہ ہو تو تفریق کر لو لیکن ہر حالت میں حسن سلوک کو مد نظر رکھو کسی پر ظلم نہ کرو‘‘
رحمۃ للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ ‘‘ (الطلاق:۲)
’’پس ان کو بھلے طریق سے رکھ لو یا شریفانہ طرز سے علیحدہ کردو‘‘
’’عن معاویۃ القشیری قال قلت یا رسول اللہ ما حق زوجۃ احدنا علیہ قال ان تطعمھا اذا طعمت وتکسوھا اذا اکتسیت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت ‘‘ (احمد، ابو داؤد ، ابن ماجہ)’’عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی کا زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہوتا ہے پھر اگر تم اس کے سیدھاکرنے کا ارادہ کرو گے تو اس کو توڑ ڈالو گے اور اگر اسی حالت میں چھوڑ دیا تو پسلی ٹیڑھی حالت پر باقی رہے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کو قبول کرو‘‘
’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یفرک مؤمن مؤمنۃ ان کرہ فیھا خلقا رضی منھا آخر‘‘’’معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم پر ہماری عورتوں کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم کھانا کھائو تو انہیں بھی کھلائو اور جب کپڑا پہنو تو انہیں بھی کپڑے پہنائو ، اور ان کے چہرے پر طمانچہ نہ مارو اور نہ انہیں برا بھلا کہو اور گھر کے علاوہ انہیں اکیلی نہ چھوڑو‘‘
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایماندار خاوند ایماندار بیوی سے بغض نہ رکھے اگر کسی عادت سے ناراض ہوتا ہے تو دوسری خصلت سے خوش ہوگا‘‘
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔
’’نفقہ الرجل علی اھلہ صدقۃ ‘‘ (ترمذی ج۳ ، تحفۃ الاحوذی طبعی دھلی)
’’عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ‘‘ (ترمذی تحفۃ الاحوذی ج۳، ص۳۵۶،طبع دھلی)ایک اور روایت میں ہے سب سے افضل وہ دینار ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔
’’افضل الدینار دینار ینفقہ الرجل علی عیالہ ‘‘ (ترمذی مع تحفۃ الاحوذی طبع دھلی ج۳،ص۳۵۶)
’’عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واستوصوا بالنساء فانکم اخذتموھن بامانۃ اللہ واستحللتم فروجھن بکلمۃ اللہ ‘‘ (رواہ مسلم)’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان والوں میں ایماندار وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ مہربانی اور بھلائی کرنے والا ہے‘‘۔
’’سیدنا جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت قبول کر لو کیوں کہ اللہ کی امان میں تم نے ان کو اپنے قبضے میں لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔‘‘
اگر ناچاقی میاں بیوی میں دونوں کی طرف سے ہو اور دونوں قصوروار ہوں تو ایک(پنچ )مرد کی طرف سے ایک حکم( پنچ )عورت کی طرف سے مقرر کئے جائیں اور وہ مصالحت پوری پوری کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً ‘‘ (النساء :۳۴)
’’اور جن عورتوں کی تم شرارت معلوم کر کے ان کو سمجھائو اور شب باشی میں ان کو علیحدہ کردو اور مارو تم ان کو پھر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو بے جا الزام لگانے کی فکر نہ کرو‘‘
اگر پنچ سے فیصلہ نہ ہو سکے تو اس قضیئے کو علماء کے سپرد کر دیا جائے تاکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کوئی بہترین حل پیش کر سکیں۔’’وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْنَہُمَا ‘‘ (النسائ: ۳۵)
’’اور اگر شوہر بیوی میں مخالفت پائو تو ایک منصف مرد کے کنبہ سے تجویز کرو اور ایک عورت کے کنبہ سے اگر وہ دونوں صلح کرانی چاہیں گے تو اللہ بھی ان کو صلح کی توفیق دے گا‘‘
’’ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ‘‘ ( ابو داؤد مع عون المعبود ج۱ ،ص۲۲۱، طبع انصاری دھلی)
’’حلال چیزوں میں سے سب سے مبغوض ترین چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے‘‘
(سنن نسائی،ج۲،ص۸۰)’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : مسنون طلاق یہ ہے کہ طہر (پاکی) کی حالت میں بغیر ہم بستری کئے ایک طلاق دے ،پھر ماہواری کے بعد پاکی میں دوسری طلاق دے اور پھر اسی طرح تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے‘‘۔