• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے اہم شرعی مسائل

شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
جزاك الله خيراً شاکر بہائی
میرا آپ بہائیو سے سوال ہے
میرے یہاں طلاق کا مسئلہ ہے
ایک بہائی نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اور طلاق کو ایک سال ہو گیا ہے
کیا پہر نکا ہو سکتا ہے
لڑکے والے کہتے ہیں ہم دوبارہ نکاح
کرکے لے جائے گے اور لڑکی والے کہتے ہیں ایسا نہیں ہو گا. مینے شیخ توصیف رحمن رشدی سے پوچھا تھا اوس نے کہا نکاح ہو سکتا ہے
آپ لوگوں کی کیا رائے ہے
میں جواب کا انتظار کرو گا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اسلامی شریعت نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ سنن نسائی کتاب الطلاق ج۲، ص ۸۹ میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں، تو آپ نے اظہار ناراضگی فرمایا اور فرمایا کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے۔ جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔
غور طلب امور
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں طلاق کا یہ واحد واقعہ ہؤا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید ناراضگی کا اظہار کیوں کیا؟
اسے کتاب اللہ کے ساتھ استہزاء کے ساتھ کیوں منصوب کیا؟

محترم! ان سوالات پر غور فرمائیے گا اور شافی جواب عنایت فرمائیے گا۔ اس بات کو بھی مدِّ نظر رکھئے گا کہ آپ نے کہا ہے؛
ایک ہی لفظ میں تینوں طلاقیں کو دے دینا یعنی طہر واحد میں کلمہ واحدہ کے ساتھ تینوں طلاقیں دے دی جائیں۔ مثلاشوہر بیوی سے کہے میں نے تجھے تین طلاقیں دیں، یا دس طلاقیں دی یا یوں کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق ،یا طلاق ،طلاق، طلاق۔ ان سب الفاظ سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو رجعت کا پورا پورا اختیار ہے دور حاضر میں اہل سنت والجماعت کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

طلاق دی ہے شائد نامکمل ہے، جس بھائی نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے اس پر اگر تھوڑی تفصیل بھی بیان کریں تو مشائخ کرام کو سوال سمجھے اور جواب دینے میں آسانی ہو گی، طلاق کس طرح دی؟ کتنی مرتبہ دی یا ایک مرتبہ اگر 3 مرتبہ طلاق دی تو ایک ساتھ یا وقفوں کے ساتھ وغیرہ۔

والسلام
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کیا عدت ختم ہونے کے بعد بیوی سے رجوع کرسکتا ہے

اگر خاونداور بیوی کے درمیان طلاق کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ جدائي رہے توکیا وہ دوبارہ آپس میں شادی کرسکتےہیں ؟

Published Date: 2004-02-14

الحمدللہ

جب خاوند اپنی بیوی کوپہلی یا دوسری طلاق دے اوراس کی عدت ختم ہوجاۓ توبیوی اس سے جدا ہوجاتی ہے اوروہ بائن ہونے کی وجہ سے اجنبی بن جاۓ گی جس کی وجہ سے وہ اپنے خاوند کے پاس نہیں آسکتی لیکن ایک شرط پر ہوسکتا ہے :

یہ کہ نکاح دوبارہ کیا جاۓ اوراس نکاح میں سب شرعی شروط کا ہونا ضروری ہے ، آپ اس کی تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 2127 ) کا مطالعہ کریں ۔

لیکن اگر خاوند اپنی بیوی کوتیسری طلاق بھی دے دے تو وہ اپنے پہلے خاوند پر حرام ہوجاتی ہے لیکن اگر وہ کسی اورشخص سے شرعی نکاح ( حلالہ نہیں ) کرے اوروہ اپنی مرضي سے اسے کسی وقت طلاق دے دے تووہ پھر اگر وہ چاہے تو اپنے پہلے خاوند سے شادی کرسکتی ہے ۔

اس کی دلیل قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ طلاق دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائي سے روکنا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے اورتمہارے لیے حلال نہیں کہ تم نے جوکچھ انہیں دے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو، ہاں یہ اوربات ہے کہ دونوں کواللہ تعالی کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو ، اس لیے اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ تعالی کی حدیں قائم نہ رکھ سکيں گے توعورت رہائي پانے والےکے لیے کچھ دے ڈالے ، اس میں دونوں پر گناہ نہيں یہ اللہ تعالی کی حدود ہیں ، خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اورجو لوگ اللہ تعالی کی حدوں سےتجاوز کرجائيں وہ ظالم ہيں ۔

پھر اگر اس کو ( تیسری بار ) طلاق دے دے تواب اس کے لیے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا کسی اورسے نکاح نہ کرے ، پھر اگر ۔۔۔ } البقرۃ ( 229 - 230 )

توسب اہل علم کے ہاں اس آیت میں آخری طلاق سے مراد تیسری طلاق ہے ۔

اورسنت نبویہ میں بھی اس کے دلائل ملتے ہيں صحیحین میں مندرجہ ذیل حدیث مروی ہے :

عروۃ بن زبیر بیان کرتے ہيں کہ انہیں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ رفاعۃ القرظی کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی کہ رفاعہ نےمجھے طلاق بتہ دے دی تومیں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیررضي اللہ تعالی عنہ سے شادی کرلی اورمسئلہ یہ ہے کہ عبدالرحمن کے پاس توبے جان سی چيز ہے

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

شائد تودوبارہ رفاعۃ کے پاس جانا چاہتی ہے ، لیکن یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تیرا اورتو اس سے ذائقہ چکھ نہ لے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4856 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2587 ) ۔

( بت طلاقی ) حدیث میں اس لفظ کا معنی ہے کہ مجھے اس نے طلاق دی جس کی بنا پر میرا اس سے علیحدہ ہونا حلال ہوگیا یعنی تیسری طلاق دے دی۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( حتی تذوقی عسیلتہ و یذوق عسیلتک ) یہ الفاظ جماع سے کنایہ ہیں کہ جب تک وہ تجھ سے جماع نہيں کرلیتا ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ جس عورت کوتین طلاق ہوچکی ہوں وہ اپنے اس خاوند کے لیے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ کسی اورشخص سے نکاح نہ کرلے اورپھر وہ شخص اس سےجماع کرے اورطلاق دے اوریہ عورت ( اس دوسرے نکاح ) کی عدت سے فارغ ہو جاۓ ( تو پھر وہ اپنے پہلے خاوند سے شادی کرسکتی ہے )

لیکن صرف عقد نکاح کرلینا ہی کافی نہیں اورنہ ہی اس کی وجہ وہ اپنے پہلے خاوند کےلیے حلال ہوجاتی ہے ۔

صحابہ کرام اورتابعین عظام اوران کے بعد آنے والے اکثر علماء کرام کا بھی یہی مسلک ہے ۔ دیکھیں شرح مسلم للنووی ( 10 / 3 ) ۔

سب سے زيادہ علم تو اللہ عزوجل کے پاس ہی ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرماۓ ۔ آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .



Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اگر خاوند اپنى بيوى كو موبائل ميسج ميں لكھے كہ تجھے طلاق اور پھر كہے ميرا مقصد طلاق نہ تھا تو كيا اس سے طلاق واقع ہو جائيگى يا نہيں ؟

Published Date: 2010-10-21

الحمد للہ:

اول:

فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ لكھنے سے طلاق واقع ہو جاتى ہے كيونكہ كتابت حروف ہيں جن سے طلاق كى سمجھ آتى ہے اس ليے يہ نطق اور بولنے كے مشابہ ہوئے؛ اور اس ليے بھى كہ كتابت كاتب كے قول كے قائم مقام ہے.

اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رسالت كى تبليغ كرنے كے مامور تھے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى قول كے ساتھ تبليغ كى اور كبھى لكھ كر، جس كتابت كے ساتھ طلاق واقع ہو جاتى ہے وہ واضح كتابت ہے مثلا كسى كاغذ پر لكھنا يا زمين اور ديوار پر اس طرح لكھنا كہ اسے پڑھا اور سمجھا جا سكے.

ليكن غير واضح لكھائى مثلا ہوا اور فضاء پر يا پھر پانى پر لكھنا، يا كسى ايسى چيز پر جس سے سمجھنا اور پڑھنا ممكن نہ ہو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، كيونكہ يہ كتابت و لكھائى تو اس كى زبان كى گنگناہٹ كى طرح ہے جو سنائى نہ دے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 12 / 217 ).

دوم:

جب خاوند اپنى بيوى كو ميسج يا ليٹر ميں " تجھے طلاق " كے الفاظ لكھے چاہے وہ اى ميل ہو يا موبائل ميسج يا ڈاك ليٹر تو اس ميں لكھائى كے وقت خاوند كى نيت كو ديكھا جائيگا، اگر تو وہ طلاق كا عزم ركھتا تھا تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے لكھتے وقت طلاق كى نيت نہ كى تھى بلكہ اس نے بيوى كو پريشان كرنا چاہا تھا يا اس كا كوئى اور مقصد تھا تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" طلاق كے الفاظ كے بغير صرف دو جگہوں پر طلاق واقع ہو گى ايك تو يہ كہ: جو شخص كلام كى استطاعت نہ ركھتا ہو، مثلا گونگا جب اشارہ سے طلاق دے دے تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى، امام مالك، امام شافعى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے، ان كے علاوہ ہم كسى كا اختلاف نہيں جانتے...

دوسرى جگہ: جب طلاق كے الفاظ لكھے اگر تو اس نے طلاق كى نيت كى تو اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى، امام شعبى اور نخعى، زہرى، حكم، اور امام ابو حنيفہ، امام مالك كا يہى قول ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ سے بيان كردہ ہے...

ليكن اگر وہ طلاق كى نيت كيے بغير طلاق لكھتا تو بعض علماء كرام جن ميں شعبى، نخعى اور زہرى، حكم شامل ہيں كہتے ہيں كہ طلاق واقع ہو جائيگى.

اور دوسرا قول يہ ہے كہ نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہو گى، امام ابو حنيفہ، امام مالك كا يہى قول ہے، اور امام شافعى سے منصوص ہے؛ كيونكہ كتاب ميں احتمال پايا جاتا ہے، كيونكہ اس سے قلم كا تجربہ بھى ہو سكتا ہے، اور يہ خوشخطى كے ليے بھى ہو سكتا ہے، اور بغير نيت كے گھر والوں كے غم كے ليے بھى " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 373 ).

اور مطالب اولى النھى ميں درج ہے:

" اگر طلاق لكھنے والا كہے كہ ميں نے تو يہ كلمات خوشخطى كے ليے لكھے تھے، يا پھر اس سے ميں اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا چاہتا تھا، تو اس كى بات قبول كى جائيگى؛ كيونكہ وہ اپنى نيت كو زيادہ جانتا ہے، اور اس نے جو نيت كى تھى طلاق كے علاوہ كسى اور چيز كى بھى محتمل ہے.....

جب وہ اپنى بيوى كو پريشان كرنا چاہتا ہو اور حقيقت ميں نہيں بلكہ طلاق كا وہم دلانا چاہتا ہو تو اس سے طلاق كى نيت والا نہيں بن جائيگا " انتہى

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 346 ).

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك شخص اپنى بہن اور بيوى كے ساتھ بيٹھا ہوا تھا تو بہن كو كہنے لگا جاؤ كاغذ اور قلم لاؤ، تو اس نے كاغذ پر " طلاق طلاق " كے الفاظ لكھے اور اسے كسى كى طرف بھى مضاف نہ كيا، تو اس كى بہن كو غصہ آيا اور اس نے قلم لے كر تين بار " طلاق طلاق طلاق لكھا اور كاغذ اپنى بھابھى كى طرف پھينك ديا اور كہنے لگى:

ديكھو ميں نے جو لكھا كيا وہ صحيح ہے ؟

خاوند ان الفاظ سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا ارادہ نہيں ركھتا تھا، تو كيا طلاق ہو جائيگى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر وہ طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا تھا بلكہ صرف لكھنا چاہتا تھا، يا پھر اسكى نيت ميں طلاق كے علاوہ كچھ اور تھا تو مذكورہ عورت كويہ طلاق نہيں ہوئى.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے ...... " الحديث.

اكثر اہل علم كا يہى قول ہے، بلكہ بعض نے تو اسے جمہور كا قول بيان كيا ہے، اس ليے كہ كتابت كنايہ كے معنى ميں ہے، علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق كتابت و لكھائى سے اس وقت طلاق واقع ہوگى جب وہ طلاق كى نيت كرے.

ليكن اگر لكھائى و كتابت كے ساتھ كوئى ايسا قرينہ پايا جائے جو طلاق واقع كرنے پر دلالت كرتا ہو تو اس صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى.

اور اس مذكورہ حادثہ ميں كوئى ايسى چيز نہيں جو اس پر دلالت كرتى ہو كہ اس نے طلاق دينے كا ارادہ كيا تھا، اصل ميں نكاح باقى ہے اور اس كى نيت پر عمل كيا جائيگا " انتہى

شيخ محمد بر ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہم تك آپ كا سوال پہنچا ہے كہ ايك شخص نے اپنى بيوى فلانہ بنت فلاں كوايك طلاق لكھى اور نيچے اپنا نام لكھ كر دستخط بھى كيے ليكن وہ اس سے بيوى كو طلاق دينے كا ارادہ نہيں ركھتا تھا بلكہ اس نے بيوى كو دھمكانے كے ليے يہ كاغذ لكھا تھا تا كہ وہ دوبارہ خاوند كے ساتھ برا سلوك نہ كرے كيا مذكورہ شخص كى جانب سے اس كى بيوى كو طلاق ہو گئى ہے يا نہيں ؟

جواب:

الحمد للہ:

اگر تو معاملہ يہى ہے جو آپ نے بيان كيا ہے كہ وہ اس كتاب و لكھائى سے صريح طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا تھا بلكہ اس كى نيت بيوى كو ڈرانا اور دھمكانا تھى تا كہ وہ خاوند كے سا تھ برا سلوك كرنے سے باز آ جائے، اور طلاق مقصد نہ تھا اور نہ مطلقا طلاق كى نيت تھى تو پھر مذكورہ طلاق واقع نہيں ہوگى اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 11 ) سوال نمبر ( 3051 ).

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا كہ:

ايك شخص نے اپنى بيوى كو طلاق كا كاغذ لكھا اور اس كى نيت اپنے گھر والوں كو دھمكانا اور پريشان كرنا تھى تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى بلكہ اس نے تو اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا چاہا تھا، علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ اگر كسى شخص نے طلاق كى لكھائى اور كتابت سے خوشخطى، يا پھر اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا مقصود لى ہو تو اس كا يہ مقصد قبول كيا جائيگا، اور يہ طلاق واقع نہيں ہو گى.

ديكھيں: شرح زاد المستقنع ( 3 / 3050 ).

جس كسى نے بھى اپنى بيوى كو صريح طلاق كے الفاظ لكھے تو يہ واقع ہو جائيگى چاہے اس نے نيت نہ بھى كى ہون، كيونكہ يہ طلاق ميں صريح تھى؛ اور اگر كوئى كہے:

ميں تو اس خوشخطى يا پھر اپنے گھر والوں كو پريشان كرنا چاہتا تھا " اھـ

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى محمد بن ابراہيم ( 11 ) سوال نمبر ( 3050 ).

واللہ اعلم .




Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس پوسٹ کو پہلی پوسٹ کے ساتھ ملا کر پڑھئے گا
سيدنا رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)
 
Top