• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے اہم شرعی مسائل

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
عدت کا بیان


غیر مدخولہ عورت( یعنی وہ عورت جس سے نکاح کے بعد شوہر نے وطی نہ کی ہو) اس پر کوئی عدت نہیںَ وہ طلاق واقع ہوتے ہی فوراً بائنہ ہو جاتی ہے اور دوسرے نکاح کے لائق ہو جاتی ہے۔ یعنی دوسرا نکاح مدت کے انتظار کے بغیر ہو سکتا ہے۔ اور یہ دوسرا نکاح طلاق دینے والے شوہر کے ساتھ بغیر حلالہ کے ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:

’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا ‘‘ (الاحزاب:۳۹)
’’اے ایمان والو!تم جن منکوحہ عورتوں کو وطی سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہارے لئے عدت کی پابندی نہیں ہے‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مدخولہ عورت کے لئے عدت کی پابندی کاحکم نہیں بلکہ عدت کی پابندی کا حکم مدخولہ عورتوں کے لئے خاص ہے، اور مدخولہ عورت کے لئے طلاق کے بعد رجوع کی مدت مندرجہ ذیل آیت میں اس طرح ہے:

’’وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَء ٍ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذَلِکَ ‘‘ (البقرۃ:۲۲۸)
’’یعنی مطلقہ عورتیں اپنے کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں اور اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لئے حلال نہیں کہ ان کے رحم میں جو چیز اللہ نے پیدا کر رکھی ہے اسے چھپائیں اور تین حیض کی اس مدت انتظار میں ان کے شوہر ان سے رجوع کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو طلاق رجعی دی گئی ہو( پہلی طلاق دی گئی ہو یا دوسری طلاق) ایسی عورت کے شوہر کو رجوع کرنے کے حق کی مدت تین حیض ہے۔ اگر اس مدت کے اندر شوہر نے رجوع نہ کیا تو مطلقہ عورت بائنہ ہو جائے گی، پھر وہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے ۔ اگر دونوں میاں بیوی راضی ہوں اور یکجا رہنا چاہیں تو اس طلاق دینے والے شوہر سے بھی نکاح کے ساتھ عورت دوبارہ بغیر حلالہ کے لوٹائی جا سکتی ہے۔

اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت میں فرمایا ہے:
’’وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَن یَنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَیْنَہُم بِالْمَعْرُوفِ ‘‘ (البقرۃ:۲۳۲)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی مدت پوری کر چکیں تو تم ان کو ان کے خاوندوں سے جب وہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکا کرو‘‘
لیکن جن عورتوں کو حیض نہیں آتا کسی بیماری کی وجہ سے یا بڑھاپا یا کم سنی کی وجہ سے یا جو عورتیں حاملہ ہوں ان کے لئے مدت انتظار دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمائی ہے:
’’وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ‘‘
’’(یعنی کبر سنی و صغر سنی کی وجہ سے) جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ان کی عدت تین مہینہ ہے اور حاملہ عورت کی اجل یعنی عدت وضع حمل ہے‘‘
اس آیت میں صراحت کی گئی ہے کہ کبر سنی و صغر سنی یا کسی وجہ سے حیض نہ آنے والی عورتوں کو پہلی مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کرنے کی جو مدت شریعت نے مقرر کی ہے وہ تین مہینہ ہے اور حاملہ سے رجوع کرنے کی عدت وضع حمل ہے۔ اس مدت کو اس آیت میں ’’عدت‘‘ اور’’اجل‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس سے پہلے والی اور بعد والی آیت میں اسی عدت و اجل کو’’مدت تربص‘‘ یعنی مدت انتظار کہا گیا ہے۔ یعنی زمانہ رجوع کا نام اصطلاح شریعت میں عدت ،اجل، اور مدت تربص ہے۔

لیکن جن عورتوں کے خاوند فوت ہو جائیں ان کی عدت اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
’’ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ (البقرۃ:۳۳۴)
’’جو لوگ مرتے ہوئے اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وہ چار مہینے دس دن بیٹھا کریں، پھر جب اپنی مدت پوری کر چکیں تو جو کچھ وہ اپنے حق میں موافق دستور کریں تو تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘
اس آیت شریفہ میں اس عورت کی عدت جس کا شوہر فوت ہوگیا ہے اللہ تعالیٰ نے چار ماہ دس دن مقرر فرمائی ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مطلقہ کی اولاد کی پرورش

اگر عورت کو طلاق رجعی دی گئی ہے تو عدت کے اندر عورت کا نان و نفقہ اور مسکن شوہر کے ذمے ہے۔ ہر صورت میں اولاد کی پرورش کی ذمہ داری مرد پر عائدہوتی ہے۔ بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا تمام بار اپنی حیثیت کے مطابق مرد پر ہوگا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَن یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالاً عَن تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُواْ أَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُم مَّا آتَیْتُم بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ ‘‘ (۲۳۳)
’’جو مائیں اپنے بچے کو پوری مدت دودھ پلانا چاہیں وہ پورے دو برس پلائیں اور ان کا کھاناکپڑا موافق دستور باپ کے ذمے ہے ہر ایک نفس کو اس کی ہمت کے موافق حکم ہوا کرتا ہے۔ نہ تو ماں اپنے بچے کی وجہ سے ضرر پہنچائے اور نہ باپ اپنے بچے کے سبب سے تکلیف دے اور اسی قدر وارثوں کے ذمہ ہے پھر اگر وہ دونوں اپنی مرضی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور اگر اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تمہیں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جو کچھ تم نے دینا چاہا ہے دستور کے موافق دیا کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

اس آیت میں صراحتاً مذکور ہے کہ پوری مدت رضاعت دو سال ہے ،دو سال سے زیادہ نہیں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

’’وَفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْنِ‘‘ (لقمان:۱۴)
یعنی بچے کا دودھ چھڑانا دو سال کے اند رہے۔
بچے کو دودھ پلانے کے زمانے میں اور مدت حمل کے دوران اگر عورت مطلقہ ہے تب بھی عورت کا خرچہ بچہ کے والد کے ذمے ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ أَسْکِنُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنتُم مِّن وُجْدِکُمْ وَلَا تُضَارُّوہُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْہِنَّ وَإِن کُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَیْہِنَّ حَتَّی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ وَأْتَمِرُوا بَیْنَکُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہُ أُخْرَی (6) لِیُنفِقْ ذُو سَعَۃٍ مِّن سَعَتِہِ وَمَن قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللَّہُ لَا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْساً إِلَّا مَا آتَاہَا سَیَجْعَلُ اللَّہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْراً‘‘ (الطلاق:۷،۶)
’’ان مطلقہ عورتوں کو اپنی مقدور کے موافق وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو، ان کو تکلیف نہ دینا تاکہ ان کو تنگ کرو، اور اگر وہ حاملہ ہیں تو ان کے وضع حمل تک ان کو خرچ دیا کرو پھر اگر وہ تمہاری اولاد کو دودھ پلائیں ان کی اجرت دیا کرو اور باہمی مشورہ کے ساتھ نیک دستور کے موافق کار بند ہوا کرو، اگر تم مضائقہ سمجھو تو اس مرد کی ذمہ داری پر اس کے لئے کوئی اور عورت بچے کو دودھ پلائے۔ جو وسعت والا ہے وہ اپنی وسعت وسے خرچ کرے اور جس کا رزق تنگ ہے وہ بھی اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرے، اللہ تعزلیٰ ہر شخص کو اتنا ہی حکم دیتا ہے جتنی اس کو طاقت دی ہے۔ اللہ تنگی کے بعد آسانی دے گا۔‘‘
جن عورتوں کو طلاق رجعی دی گئی ہو ان کا نان و نفقہ اور مسکن شوہر کے ذمہ ہے جیسا کہ مذکورہ آیات سے پتہ چلتا ہے لیکن جن عورتوں کو تین طلاقیں الگ الگ تین طہروں میں دی گئی ہوں ان کا نفقہ اور مسکن شوہر کے ذمہ نہیں ،جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے:
’’عن فاطمۃ بنت قیس قالت طلقنی زوجی ثلاثا فلم یجعل لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکنی ولا نفقۃ‘‘(مسلم،ج۱ص۴۸۴،طبع رشیدیہ دھلی)
’’فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں (تین طہروں میں الگ الگ) دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے( شوہر کے ذمہ) نہ رہنے کی جگہ رکھی اور نہ نفقہ٭‘‘

٭اگر حاملہ ہو تو پھر( اس دوران )نفقہ دینا ہوگا۔(ابو دائود ،۲۲۹۰طبع دارالسلام)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بچوں کی پرورش کا حقدا ر کون؟

بچوں کی پرورش کی زیادہ حقدار ان کی ماں ہے جب تک کہ وہ نکاح نہ کرے، ابو داؤد مسند احمد میں ہے کہ:
’’ان امرأۃ قالت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ابنی ھذا کان بطنی لہ وعاء وثدیی لہ سقاء وحجری لہ حواء وان اباہ طلقنی واراد ان ینزعہ منی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انت احق بہ مالم تنکحی‘‘(رواہ احمد و ابوداؤد بحوالہ مشکوۃ، ص۲۹۳،بلوغ الصغیر وحضانتہ کتب خانہ رشیدیہ دھلی)
’’ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یہ میرا بیٹا ہے اس کے واسطے میرا پیٹ برتن تھا اور اس کے واسطے میری چھاتی مشک تھی اور میری گود اس کے لئے گھری ہوئی رہی اس کے والد نے مجھ کو طلاق دے دی ہے، اور اب و ہ اسے مجھے سے لینے کا ارادہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تو اس کی پرورش کرنے کی زیادہ حق دار ہے جب تک کہ تو کسی سے نکاح نہ کرے‘‘
جب بچے سمجھدار ہو جائیں تو ان کو اختیار ہے چاہے ماں کے پاس رہیں یا باپ کے پاس رہیں۔ ابو داؤد نسائی اور دارمی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’قال جاء ت امرأۃ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت ان زوجی یرید ان یذھب بابنی وقد سقانی ونفعنی فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ھذا ابوک وھذہ امک فخذ بید ایھما شئت فاخذ بید امہ فانطلقت‘‘
(رواہ ابو داؤد والنسائی والدارمی،بحوالہ مشکوۃ ص۲۹۳)

’’ایک عورت نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کیا کہ میرا شوہر میرے بیٹے کو لے جانا چاہتا ہے جب کہ وہ مجھے پانی پلاتا ہے اور مجھے فائدہ پہنچاتا ہے ۔نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے سے فرمایا کہ یہ تیرے والد ہیں اور یہ تیری والدہ ہیں تو دونوں میں سے جس کا چاہے ہاتھ پکڑ لے اس لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا وہ اس کو لے گئی۔
جب تک بچے بالغ نہ ہوجائیں ان کا خرچ باپ کے ذمہ ہے اور باپ کے انتقال کے بعد ان کے خرچ کی ذمہ داری دوسرے ورثاء پر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ ‘‘ (البقرۃ:۲۳۳)
’’اور بچے کے باپ پر ان کا کھانا کپڑا ہے دستور کے موافق کسی شخص کو اس کی گنجائش سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے گی نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان دیا جائے گا نہ باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے اور( اگر بچے کا باپ نہ ہو تو باپ کے) وارث پر ایسا ہی(کھانا ،کپڑا ) ہے۔‘‘
بہت سے مسلم گھرانوں میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جب ان میں طلاق کا معاملہ پیش آتا ہے اور بیوی کے گھر والوں کی طرف سے مہر وغیرہ کا مطالبہ ہوتا ہے تو شوہر کے گھر والے مہر کے بدلے میں بیوی کو بچے دیدیتے ہیں۔

یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے۔ مہر کی رقم کا بدل بچے نہیں ہوسکتے، شوہر پر مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ بچے ماں کے پاس رہیں یا باپ کے دونوں صورتوں میں بچوں سے باپ کا تعلق بہر حال باقی رہتا ہے اور ان کے خرچ کی ذمہ داری بھی باپ ہی پر عائدہوتی ہے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہوجائیں۔

وآخر د عوانا ان الحمدللہ رب العالمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین​


-------------------------------ختم شد -------------------------------​
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,977
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
میں نے کچھ عرصہ قبل شیخ عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ کو طلاق کے موضوع پر ان کی اس کتاب کی محدث فورم پر اشاعت کی خبر دی تھی جس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے طلاق کے موضوع پر ایک کتاب لکھی تو ہے لیکن انہوں نے ابھی تک وہ کتاب کسی کو دی نہیں تو پھر وہ کتاب کیسے نیٹ پر آگئی؟ آج شیخ نے اس کتاب کو دیکھنے کے بعد کہا ہے کہ یہ انکی تصنیف کردہ کتاب نہیں ہے بلکہ ان کا گمان ہے کہ شاید یہ ابوجابرعبداللہ دامانوی حفظہ اللہ کے قلم سے سرزد ہوئی ہے۔ آپ لوگ مصنف کے حوالے سے تصحیح کرلیں۔شکریہ
 

عمیراشرف

مبتدی
شمولیت
جولائی 30، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
0
سلام وعلیکم، بھائی جان میری شیخ عبدالوکیل ناصر صاحب سے بات ہوئی ہے، یہ جو طلاق کا مضمون آپ نے پوسٹ کیا ہے یہ ان کا نہیں ہے۔جزاک اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
شیخ عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ کا نام ہٹا دیا ہے۔ دراصل یہ مضمون صراط الہدیٰ سے کاپی کیا گیا تھا اور وہاں یہی نام درج تھا۔ جب تک تصدیق نہ ہو جائے کہ یہ ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ کا مضمون ہے، ان کا نام لگانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
جزاک اللہ خیرا
بہت عمدہ اور مبسوط تحریر تھی علم میں اضافہ ہوا.
 
Top