محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,861
- ری ایکشن اسکور
- 41,093
- پوائنٹ
- 1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا ایک سوال ہے یہاں پر ایک واقعہ بیان ہوا اور پوسٹ نمبر (5) میں ایک بھائی نے اس کی سند کے ضعف کو کچھ اس طرح واضح کیا ہے:
لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا عام واقعات کی سند کی تحقیق بھی علوم حدیث کے اصولوں پر کی جائے گی، اگر ایک راوی حافظے کے لحاظ سے کمزور ہے اور روایت کی سند میں اس کا نام ہونے کی صورت میں روایت نہیں لی جاتی ، کیا عام امتیوں کے واقعات میں بھی اسی راوی کی صورتحال یہی رہے گی۔
میرا ایک سوال ہے یہاں پر ایک واقعہ بیان ہوا اور پوسٹ نمبر (5) میں ایک بھائی نے اس کی سند کے ضعف کو کچھ اس طرح واضح کیا ہے:
یہاں ایک جملہ لکھا ہوا ہے کہ "اس کی سند میں عبداللہ بن وہب راوی مدلس ہے اور سماع کی صراحت نہیں" میرے خیال سے یہ جملہ یا اس طرح کی تحقیق پر مبنی باتیں تب لکھی جاتی ہیں جب کسی حدیث کی سند بیان کرنا مقصود ہو، کیونکہ احادیث کے متعلق تو احتیاط کی حد درجے ضرورت ہے کہ ایک حدیث کا مفہوم ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بوجھ کر جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے (رواہ البخاری)حافظ محمد انوار زاہد حفظہ اللہ نے اس واقعے کو اپنی کتاب ضعیف اور من گھڑت واقعات میں نقل کرکے لکھا ہے :
اسنادہ ضعیف۔سیر اعلام النبلاء للذھبی(٢٣٣ / ٤)ترجمہ:سعید بن مسیب،وحلیۃ الاولیاء لابی نعیم اصفھانی(١٦٧ / ٢)اس کی سند میں عبداللہ بن وہب راوی مدلس ہے اور سماع کی صراحت نہیں۔
(ضعیف اور من گھڑت واقعات،جلد سوم،ص ٥٦-٥٧)
لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا عام واقعات کی سند کی تحقیق بھی علوم حدیث کے اصولوں پر کی جائے گی، اگر ایک راوی حافظے کے لحاظ سے کمزور ہے اور روایت کی سند میں اس کا نام ہونے کی صورت میں روایت نہیں لی جاتی ، کیا عام امتیوں کے واقعات میں بھی اسی راوی کی صورتحال یہی رہے گی۔
نوٹ: جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے اور جھوٹے واقعات بیان کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے، ایسے جھوٹے واقعات کا رد کرنا اور ان کا جھوٹ واضح کرنا ضروری ہے لیکن میرا سوال اس نوعیت سے ذرا مختلف ہے۔ شکریہ