مرکب اضافی میں عموما مضاف ’نکرہ ‘اور مضاف الیہ ’معرفہ ‘ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ضَوْءُ النَّہَارِ
تاہم بعض اوقات مضاف الیہ نکرہ بھی ہوتا ہے!!۔ ۔ ۔صُوْرَۃُُ مَسْجِدِِمضاف الیہ کے نکرہ ہونے کےباقاعدہ قواعد ہیں ؟؟
جلد جواب درکار ہے!!
کوئی بھائی عبده بھائی کو ٹیگ کر دے. موبائل سے نہیں هوا.
بہنا دو تین دن سے نیٹ استعمال نہیں کر سکا جس کی وجہ سے مجھے بلایا گیا مگر جواب نہ دے سکا ہمارے محترم استاد انس بھائی نے تو ٹو دی پوائنٹ جواب دے دیا اب کسی کی ضرورت ہو تو اپنے ناقص علم سے کچھ مزید بتا دیتا ہوں
اضافت ویسے دو قسم کی ہوتی ہے
1-اضافت معنوی
جس کے بارے اوپر بات ہو رہی ہے اسکا فرق بعد میں اضافت لفظی کو پڑھ کر سمجھ آئے گا
اسکے قواعد یہ ہیں کہ اسکے دو جز ہوتے ہیں پہلا مضاف (جسکی اضافت کی جاتی ہے) اور دوسرا مضاف الیہ (جسکی طرف اضافت کی جاتی ہے) اس پورے مرکب کو مرکب اضافی کہتے ہیں اور یہ ناقص ہوتا ہے جملہ نہیں ہوتا
بنانے کے قواعد
کسی مرکب کے مرکب اضآفی بننے کے لئے دو شرائط پوری ہونا لازمی ہوتا ہے
1-پہلا جز نکرہ ہونا چاہئے
2-دوسرا جز مجرور ہو
جس مرکب میں یہ دو شرائط پوری ہو جائیں تو وہ گرائمر کے لحاظ سے مرکب اضافی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے البتہ پھر معنی کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے گا کہ معنی عقل میں آتا ہے کہ نہیں
یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ موصوف صفت (حقیقی) میں چار چیزوں میں مطابقت دیکھی جاتی ہے یعنی اعراب، عدد، جنس، وسعت-
مگر مرکب اضافی میں یہ چار چیزیں نہیں دیکھتے بلکہ پہلا کا نکرہ ہونا لازمی ہے باقی اعراب اور جنس اور عدد جو مرضی ہو خیر ہے مثلا ھذا کتابُ زید او کتابا زید او کتب زید او دارُ زید اور دیارُ زید، رایتُ کتابَ زید او کتابی زید ----- ، مررتُ بکتابِ زید-------
اسی طرح دوسرے جز میں صرف اعراب مجرور ہونا چاہئے باقی جنس اور عدد اور وسعت(معرفہ نکرہ) جو مرضی ہو خیر ہے مثلا جاء غلامُ زید او غلامُ زیدان او غلامُ رجل او غلامُ رجال، رائتُ غلامَ زید------------ ، مررتُ بغلامِ زید-------
اضافت کا مضاف پر اثر
1-مضاف اور مضآف الیہ میں اتصال پیدا کرنے کے لئے مضاف کی تنوین یا قائم مقام تنوین(نون تنوین) گر جاتی ہے مثلا کتابُ رجل او کتابا رجل
2-نکرہ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے وہ معرفہ تو نہیں ہوتا مگر اس میں تخصیص پیدا ہو جاتی ہے جسکی وجہ سے وہ مبتدا بن سکتا ہے مثلا ولعبد مومن خیر من مشرک
3-معرفہ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی معرفہ ہو جاتا ہے مثلا کتاب اللہ، رسول اللہ البتہ کچھ الفاظ جن میں ابہام زیادہ ہوتا ہے وہ معرفہ کی طرف مضاف ہونے کے باوجود معرفہ نہیں بن سکتے مثلا مثل غیر وغیرہ- پس جب مثل کو کسی معرفہ کی طرف مضآف بنائیں گے تو مثل نکرہ ہی رہے گا چونکہ معرفہ کی اضافت سے معرفہ بننے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس معرفہ مضاف الیہ کی وجہ سے ہم اس نکرہ مضاف الیہ کو بھی آسانی سے پہچان سکتے ہیں مگر ان میں ابہام اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ معرفہ کی طرف اضافت کے باوجود بھی ہم انکو نہیں پہچان سکتے مثلا جب میں کہوں گا کہ کتاب تو پہچاننا مشکل ہو گا مگر کتاب زید کو زید کی وجہ سے پہچان لیں گے مگر مثل زید جب کہیں گے تو یہ ابہام ہے کہ زید کے شکل کی مثل یا اسکی تعلیم کی مثل یا اسکے جسم کی مثل وغیرہ جیسے میرا دوسری جگہ پر علی بہرام سے مباحثہ بھی چل رہا ہے کہ جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہماری مثل ہونا موضوع ہے پس قرآن میں آتا ہے کہ انا بشر مثلکم تو اس میں مثل اگرچہ کم ضمیر کی طرف مضاف ہے جو معرفہ ہے مگر مثل پھر بھی نکرہ ہی رہے گا ورنہ پھر یہ پیچھے بشر کی صفت نہیں بن سکتا اور دوسرا کوئی احتمال نہیں
2-اضافت لفظی
یہ اگلی پوسٹ میں ان شاءاللہ