• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرش عظیم اور محدثین کا غلو

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
پہلے تو ان صاحب سے ان سب دعووں کی دلیل مانگیں، بغیر حوالہ کے اڑتی باتیں کوئی قبول نہیں کرتا۔


اور فرمایا:


بھائی اس سائیٹ کا ایڈمن اللہ جانے کون ہے، مگر جو بھی ہے، کم از کم آنکھوں سے نہ سہی دل سے ضرور اندھا ہے۔ ویسے اس کمنٹ کے بعد آنکھوں پر بھی شک ہو رہا ہے مجھے۔
دوبارہ ملاحظہ کریں:
ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"

چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی

ابطال التاویلات "(ص،489)"

ان بھائی کو بتائیں کہ یہ المنجد کا قول نہیں، اور کتاب (ابطال التاویلات) کا حوالہ ایسے ہی بڑا کر کہ پیسٹ کریں وہاں۔

باقی ان کہ یہ اڑتی بات کہ :

"امام احمد نے مجاہد کے کون سے اثر کو ضعیف قرار دیا تھا کیا ان کے نزدیک مجاہد کے تمام اقوال ضعیف تھے اس کی کیا دلیل ہے اور اگر سارے نہیں تھے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ اس عرش والی بات کو رد کر رہے ہیں۔"

تو بھائی انکو بولو جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پڑھ لیں، اگر صرف "میں نہ مانوں" کی رٹ لگانی ہے تو اسکا کوئی حل نہیں۔ آپکی خدمت میں وہ صفحات حاظر ہیں، وہاں پیسٹ کر دیجیئے گا:




اور جن علماء نے اس قول کو اپنایا ہے، انہوں نے اسکی مندرجہ ذیل تاویلات کی ہیں:

"یقعدہ" معناہ یرفعہ ارفع المقاعد عندہ، وھو معہ بالنصرۃ و المعونۃ و المقاعد المقربۃ من اللہ تعالی کما قال : ” لا تحزن ان اللہ معنا “ التوبہ 40۔
بیٹھنا بمعنا بلند کرنا، اور عرش پر بیٹھنا بمعنا بہت ذیادہ بلند کرنا، مقرب ترین بنا لینا، جیسا فرمایا "غم نہ کرو اللہ تمہارے ساتھ ہے" معنا کہ اللہ اور تم ایک ساتھ عرش پر نہیں، بلکہ اللہ تمھاری نصرت فرمائے گا، غم نہ کرو۔
جب اہل سنت عرش پر اللہ کے مستوی ہونے کی کیفیت ہی بیان نہیں کرتے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر ہونے کی کیفیت صاحب مضمون خود ہی کیسے بیان کر کہ علماء کے متھے لگا رہے ہیں، اور اگر کسی نے ایسا مطلب لیا بھی ہے، تو ان میں امام احمد بن حنبل نہیں۔ واللہ اعلم۔

@اسحاق سلفی بھائی ان صفحات میں سے اہم عربی عبارات کا ترجمہ کر دیں جو اس موضوع سے مناسبت رکھتی ہوں تو کیا ہی بات ہے، جزاک اللہ۔


آپ کی پوسٹ کا یہ جواب دیا گیا ہے


لنک

http://www.islamic-belief.net/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو/#comment-3797

اگر کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) دلیل ہے تو پھر کتاب الاعتقاد کیوں نہیں جبکہ یہ دونوں ایک ہی شخص کی کتابیں ہیں

ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء


ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں


کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.


ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے


اگر ہم سب غلط کہہ رہے ہیں اور اس عقیدے کو محدثین کے سڑ منڈھ رہے ہیں تو کو چاہیے کتاب السنہ از ابو بکر الخلال دیکھیں جو اس سے پہلے کی ہے

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حنابلہ کے دو گروہ ہیں تو وہ آج بھی ہیں ایک میں المنجد ہیں جو اس عقیدے کو رد کر رہے ہیں اور دوسرے میں سابق مفتی سعودی ہیں لہذا تاریخی حقائق کو کبوتر کی طرح آنکھ بند کر کے نہ جھٹلائیں


لگتا ہے یہ صاحب عربی سے نا بلد ہیں اس لئے یہ کتاب ابطال التاویلات کا حوالہدیا ہے اس کے نیچے کیا لکھا ہے اس کو غور سے پڑھیں قاضی ابی یعلی اس کو رد کر رہے ہیں نہ کہ قبول

کہا جا رہا ہے کہ اس میں ترمذی جھمی ہے جو عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے جانے کا رد کر رہا ہے تو ابن تیمیہ کون ہے وہ بھی اس عقیدے کو رد کر رہا ہے

کیا سفاہت ہے خود غور کریں

پہلے کہتے ہیں یہ عقیدہ اہل سنت کے مطابق غلط ہے
پھر دوسرے سانس میں کہتے ہیں جو اس کو رد کرے جھمی ہے

ہم نے جو لکھا ہے کتابوں کی بیناد پر لکھا ہے جو خود ان کے نزدیک قابل قبول ہیں

افسوس اہل علم کا جب ایسا جال ہو تو الله ہی حافظ ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
سب سے پہلے سب بھائی اس بنیادی نکتے کو پیش نظر رکھیں :
کہ رحمن کا عرش کوئی چارپائی جتنا ،یا جیسا تو نہیں ہے ۔اور نہ کسی بادشاہ کے تخت جیسا ہے ۔
اس کی وسعت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئیے کہ ( وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ) اس کی کرسی نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہواہے‘‘
اور علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وَالصَّحِيحُ أَنَّ الْكُرْسِيَّ غَيْرُ الْعَرْشِ وَالْعَرْشَ أَكْبَرُ مِنْهُ، كَمَا دَلَّتْ عَلَى ذَلِكَ الْآثَارُ وَالْأَخْبَارُ))
کہ کرسی ،،عرش کے علاوہ اپنا وجود رکھتی ہے ،اور عرش اس سے بڑا ہے ۔
کرسی ،،زمین و آسمان سے بڑی ہے اور عرش اس سے بھی بڑا ۔۔کتنا بڑا اس اندازہ اور علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔
دوسری بنیادی اہم بات جو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ،کہ سلف میں کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں اللہ عزوجل عرش پر بیٹھا ،یا کھڑا ہے
بلکہ سلف کا اس بارے یہی مذہب منقول و مشہور ہے کہ ’‘ عرش پر مستوی ہے ،لیکن ہم کیفیت نہیں جانتے ۔
اس لئے عرش پر بٹھانے کے جملہ کو اگر اس تناظر میں رکھ کر سمجھا جائے ،تو سلف کے فہم و ادراک کی عظمت کا شاید اندازہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہی بات کہ ۔ترمذی۔ کون ۔۔تو عرض ہے کہ یہ کوئی غیر معروف شخص ہے۔جو یقینی جہمی ہے ،اور محدث بھی نہیں ۔کیونکہ
امام خلال کی کتاب ’‘ السنہ ’‘جہاں سے دشمنان محدثین نے کئی پیرائے نقل کئے ہیں وہیں ساتھ ہی یہ بات بھی موجود ہے
(فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُهُ عِنْدَ مُحَدِّثٍ، فَعَلَيْكُمْ رَحِمَكُمُ اللَّهُ بِالتَّمَسُّكِ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «لَا أَعْرِفُ هَذَا الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ، لَا نَعْرِفُهُ عِنْدَ مُحَدِّثٍ، وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِنَا،
ترجمہ : میں اس ترمذی کو جانتا تک نہیں،اور نہ میں نے اسے کسی محدث کے پاس بیٹھے دیکھا ہے ،
اور ابوبکر یحی کہتے ہیں کہ میں بھی اس جہمی ،عجمی ۔کو نہیں جانتا ،نہ ہی یہ کسی محدث کا شاگرد ہے۔
باقی شقوں پر اگلی پوسٹ میں عرض کریں گے ،ان شاء اللہ


ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں اسی کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ


الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا


الذہبی کتاب العرش میں اپنا خیال پیش کرتے ہیں


الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه

یہ الترمذي ، أبو عيسى نہیں جو صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے لیکن مشھور نہیں

اب یہ قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو عجیب بات ہے کہ اس عقیدے کے رد میں کوئی محدث نہیں ملتا

علی بن داود کہتے ہیں

أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ


اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر طعن کرو جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے اور اس روایت کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے


امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے بدعتی عقیدے والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں

فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ


پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص پر مسئلہ واضح کیا گیا پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے


کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق

وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش …….ہ


اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا


یہ قسم اٹھانے کا اس وقت کا انداز تھا کہ اس عقیدے پر اتنا ایمان تھا کہ تین طلاق تک کی قسم کھائی جا رہی ہے

مشھور امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ


الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے


الآجُرِّيُّ کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ) کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا اور ابن تیمیہ نے بھی رد کیا لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے استاد امام احمد دونوں اس قول کو مانتے تھے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم


الكتاب قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .
اور اس کو مانا ہے ائمہ کثیر نے جن کا نام الذہبی نے نہیں لیا ان میں ہیں محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد اور لإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) اور عبدللہ بن احمد بن حنبل
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
پہلے تو ان صاحب سے ان سب دعووں کی دلیل مانگیں، بغیر حوالہ کے اڑتی باتیں کوئی قبول نہیں کرتا۔


اور فرمایا:


بھائی اس سائیٹ کا ایڈمن اللہ جانے کون ہے، مگر جو بھی ہے، کم از کم آنکھوں سے نہ سہی دل سے ضرور اندھا ہے۔ ویسے اس کمنٹ کے بعد آنکھوں پر بھی شک ہو رہا ہے مجھے۔
دوبارہ ملاحظہ کریں:
ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"

چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی

ابطال التاویلات "(ص،489)"

ان بھائی کو بتائیں کہ یہ المنجد کا قول نہیں، اور کتاب (ابطال التاویلات) کا حوالہ ایسے ہی بڑا کر کہ پیسٹ کریں وہاں۔

باقی ان کہ یہ اڑتی بات کہ :

"امام احمد نے مجاہد کے کون سے اثر کو ضعیف قرار دیا تھا کیا ان کے نزدیک مجاہد کے تمام اقوال ضعیف تھے اس کی کیا دلیل ہے اور اگر سارے نہیں تھے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ اس عرش والی بات کو رد کر رہے ہیں۔"

تو بھائی انکو بولو جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پڑھ لیں، اگر صرف "میں نہ مانوں" کی رٹ لگانی ہے تو اسکا کوئی حل نہیں۔ آپکی خدمت میں وہ صفحات حاظر ہیں، وہاں پیسٹ کر دیجیئے گا:




اور جن علماء نے اس قول کو اپنایا ہے، انہوں نے اسکی مندرجہ ذیل تاویلات کی ہیں:

"یقعدہ" معناہ یرفعہ ارفع المقاعد عندہ، وھو معہ بالنصرۃ و المعونۃ و المقاعد المقربۃ من اللہ تعالی کما قال : ” لا تحزن ان اللہ معنا “ التوبہ 40۔
بیٹھنا بمعنا بلند کرنا، اور عرش پر بیٹھنا بمعنا بہت ذیادہ بلند کرنا، مقرب ترین بنا لینا، جیسا فرمایا "غم نہ کرو اللہ تمہارے ساتھ ہے" معنا کہ اللہ اور تم ایک ساتھ عرش پر نہیں، بلکہ اللہ تمھاری نصرت فرمائے گا، غم نہ کرو۔
جب اہل سنت عرش پر اللہ کے مستوی ہونے کی کیفیت ہی بیان نہیں کرتے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر ہونے کی کیفیت صاحب مضمون خود ہی کیسے بیان کر کہ علماء کے متھے لگا رہے ہیں، اور اگر کسی نے ایسا مطلب لیا بھی ہے، تو ان میں امام احمد بن حنبل نہیں۔ واللہ اعلم۔

@اسحاق سلفی بھائی ان صفحات میں سے اہم عربی عبارات کا ترجمہ کر دیں جو اس موضوع سے مناسبت رکھتی ہوں تو کیا ہی بات ہے، جزاک اللہ۔

پہلے کہتے ہیں یہ عقیدہ اہل سنت کے مطابق غلط ہے
پھر دوسرے سانس میں کہتے ہیں جو اس کو رد کرے جھمی ہے

ہم نے جو لکھا ہے کتابوں کی بیناد پر لکھا ہے جو خود ان کے نزدیک قابل قبول ہیں

افسوس اہل علم کا جب ایسا جال ہو تو الله ہی حافظ ہے

الذہبی کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں لکھتے ہیں

فَمِمَّنْ قَالَ أَن خبر مُجَاهِد يسلم لَهُ وَلَا يُعَارض عَبَّاس بن مُحَمَّد الدوري الْحَافِظ وَيحيى بن أبي طَالب الْمُحدث وَمُحَمّد بن إِسْمَاعِيل السّلمِيّ التِّرْمِذِيّ الْحَافِظ وَأَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عبد الْملك الدقيقي وَأَبُو دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث السجسْتانِي صَاحب السّنَن وَإِمَام وقته إِبْرَاهِيم بن إِسْحَاق الْحَرْبِيّ والحافظ أَبُو قلَابَة عبد الْملك بن مُحَمَّد الرقاشِي وحمدان بن عَليّ الْوراق الْحَافِظ وَخلق سواهُم من عُلَمَاء السّنة مِمَّن أعرفهم وَمِمَّنْ لَا أعرفهم وَلَكِن ثَبت فِي الصِّحَاح أَن الْمقَام الْمَحْمُود هُوَ الشَّفَاعَة الْعَامَّة الْخَاصَّة بنبينا صلى الله عَلَيْهِ وَسلم


الكتاب قمع الدجاجلة الطاعنين في معتقد أئمة الإسلام الحنابلة از المؤلف: عبد العزيز بن فيصل الراجحي
الناشر: مطابع الحميضي – الرياض الطبعة: الأولى، 1424 هـ

میں مولف ، الذہبی کی یہی بات نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں

وأثبتها أيضا أئمة كثير، غير من سمى الذهبي هنا، منهم:. محمد بن مصعب العابد شيخ بغداد.
. والإمام الحجة الحافظ أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (ت 241 هـ) ، إمام أهل السنة قاطبة.
. وعبد الله بن أحمد بن حنبل الحافظ (ت 290 هـ) .

ترجمہ اپ کسی عربی داں سے کرا لیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ایک اور نمونہ دشمنان محدثین کی جہالت کا پیش خدمت ہے ۔
لکھتے ہیں :

یہ ترجمہ اگر کوئی مبتدی بھی دیکھ لے تو (ان ہذا لشیء عجاب ) پڑھتا رہ جائے ،
ویسے یہاں تو محولہ عبارت بھی مکمل نہیں لکھی ۔بس جہاں عربی عبارت میں ۔العرش ۔ آیا ،وہیں فل سٹاپ لگادیا۔
عرض ہے کہ ۔لو ۔۔کا جواب بھی تو چاہئیے ،وہ کہاں ہے

ایک شخص نے کسی بات پر قسم اٹھائی اور اس کو اس عقیدے کا اتنا یقین ہے کہ اس پر قسم اٹھا رہا ہے قسم کس بات پر اس کے کھائ یہ بحث میں ہے ہی نہیں تو کیوں پیش کیا جائے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
سب سے پہلے سب بھائی اس بنیادی نکتے کو پیش نظر رکھیں :
کہ رحمن کا عرش کوئی چارپائی جتنا ،یا جیسا تو نہیں ہے ۔اور نہ کسی بادشاہ کے تخت جیسا ہے ۔
اس کی وسعت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئیے کہ ( وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ) اس کی کرسی نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہواہے‘‘
اور علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وَالصَّحِيحُ أَنَّ الْكُرْسِيَّ غَيْرُ الْعَرْشِ وَالْعَرْشَ أَكْبَرُ مِنْهُ، كَمَا دَلَّتْ عَلَى ذَلِكَ الْآثَارُ وَالْأَخْبَارُ))
کہ کرسی ،،عرش کے علاوہ اپنا وجود رکھتی ہے ،اور عرش اس سے بڑا ہے ۔
کرسی ،،زمین و آسمان سے بڑی ہے اور عرش اس سے بھی بڑا ۔۔کتنا بڑا اس اندازہ اور علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔
دوسری بنیادی اہم بات جو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ،کہ سلف میں کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں اللہ عزوجل عرش پر بیٹھا ،یا کھڑا ہے
بلکہ سلف کا اس بارے یہی مذہب منقول و مشہور ہے کہ ’‘ عرش پر مستوی ہے ،لیکن ہم کیفیت نہیں جانتے ۔
اس لئے عرش پر بٹھانے کے جملہ کو اگر اس تناظر میں رکھ کر سمجھا جائے ،تو سلف کے فہم و ادراک کی عظمت کا شاید اندازہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہی بات کہ ۔ترمذی۔ کون ۔۔تو عرض ہے کہ یہ کوئی غیر معروف شخص ہے۔جو یقینی جہمی ہے ،اور محدث بھی نہیں ۔کیونکہ
امام خلال کی کتاب ’‘ السنہ ’‘جہاں سے دشمنان محدثین نے کئی پیرائے نقل کئے ہیں وہیں ساتھ ہی یہ بات بھی موجود ہے
(فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُهُ عِنْدَ مُحَدِّثٍ، فَعَلَيْكُمْ رَحِمَكُمُ اللَّهُ بِالتَّمَسُّكِ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «لَا أَعْرِفُ هَذَا الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ، لَا نَعْرِفُهُ عِنْدَ مُحَدِّثٍ، وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِنَا،
ترجمہ : میں اس ترمذی کو جانتا تک نہیں،اور نہ میں نے اسے کسی محدث کے پاس بیٹھے دیکھا ہے ،
اور ابوبکر یحی کہتے ہیں کہ میں بھی اس جہمی ،عجمی ۔کو نہیں جانتا ،نہ ہی یہ کسی محدث کا شاگرد ہے۔
باقی شقوں پر اگلی پوسٹ میں عرض کریں گے ،ان شاء اللہ


اپ کی بات کا کتاب ابطال التاویلات ھی میں رد موجود ھے البتہ ھم اپ سے متفق ھین

رھی یہ بات کہ ترمذی جھمی ھے اور اس کا عقیدہ بھی ھمارے اپ کے جیسا ھے منسب بات نہیں اس بات پر بلاگ میں الذھبی کی رائے کا بھی اضافہ کر دیا ھے جو ھمارے بات کے رد میں ھے لیکن ھمارے مقصد تمام پہلو دیکھانا ھے اور تحقیق ھے نہ کہ تلبیس
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اگر کسی پر شک ہے کہ وہ حوالہ جات میں ڈنڈی مارتا ہے۔ یا جیسے کہ اسحاق سلفی بھائی نے کہا کہ اسکین کے بغیر جواب دینے والا مشکل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور موضوع بھی حساس ہے تو بجا ہے کہ اعتراض کرنے والے سے اسکین کا مطالبہ کیا جائے، اگر ہو تو مہیا کر دے نہ ہو تو انٹرنیٹ سے ڈھونڈ کر لگا دے۔ اس سے فائدہ ہی متوقع ہے ان شاءاللہ
سکین پسند حضرات بھی دیکھیں



آگے لکھتے ہیں




شیخ صالح بن فوزان ، عبد العزیز بن فیصل کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

عرش کی اصل حقیقت کو تو الله ہی جانتا ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ سلام کے فضائل میں ایک صحیح حدیث مروی ہے - جس میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ سلام الله کے عرش کو پکڑے ہوے ہونگے -

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۱۳۵/ حدیث مرفوع
۶۱۳۵۔ حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَةً لَهٗ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا کَرِهَهٗ أَوْ لَمْ يَرْضَهُ شَکَّ عَبْدُالْعَزِيزِ قَالَ لَا وَالَّذِي اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام عَلَی الْبَشَرِ قَالَ فَسَمِعَهٗ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَلَطَمَ وَجْهَهٗ قَالَ تَقُولُ وَالَّذِي اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام عَلَی الْبَشَرِ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَالَ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلٰی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ لِي ذِمَّةً وَعَهْدًا وَقَالَ فُلَانٌ لَطَمَ وَجْهِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهٗ قَالَ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ وَالَّذِي اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام عَلَی الْبَشَرِ وَأَنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتّٰی عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهٖ ثُمَّ قَالَ لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللہِ فَإِنَّهٗ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآءَ اللہُ قَالَ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرٰی فَأَکُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ أَوْ فِي أَوَّلِ مَنْ بُعِثَ فَإِذَا مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام آخِذٌ بِالْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهٖ يَوْمَ الطُّورِ أَوْ بُعِثَ قَبْلِي وَلَا أَقُولُ إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتّٰی عَلَيْهِ السَّلَام۔


زہیر بن حرب، حجین بن مثنی، عبدالعزیز بن عبد اللہ بن ابوسلمہ، عبد اللہ بن فضل ہاشمی، عبدالرحمٰن الاعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی اپنا کچھ سامان بیچ رہا تھا، جب اس کو اس کے سامان کی کچھ قیمت دی گئی تو اس نے اسے ناپسند کیا یا وہ اس قیمت پر راضی نہ ہوا، راوی عبد العزیز کو شک ہے، یہودی نے کہا نہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی! انصار کے ایک آدمی نے جب یہودی کی یہ بات سنی تو اس نے یہودی کو چہرے پر تھپڑ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ قسم اس ذات کی جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی، حلانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان موجود ہیں، وہ یہودی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور عرض کرنے لگا: اے ابا القاسم! بیشک میں ذمی ہوں اور مجھے امان دی گئی ہے اور اس نے کہا کہ فلاں آدمی نے میرے چہرے پر تھپڑ مارا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے فرمایا تو نے اس کے چہرے پر تھپڑ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس یہودی نےیہ کہا تھا کہ اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی جبکہ آپؐ ہمارے درمیان موجود ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آ گئے یہاں تک کہ غصہ کے آثار آپ کے چہرے میں پہچانے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلت نہ دو، کیونکہ جس وقت صور پھونکا جائے گا تو تمام آسمانوں اور زمین والوں کے ہوش اڑ جائیں گے، سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے، پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں ہوں گا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو میں دیکھوں گا کہ وہ عرش کو پکڑے ہوئے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ طور کے دن کی بیہوشی میں ان کا حساب لیا گیا یا وہ مجھ سے پہلے اٹھائے گئے اور میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی آدمی بھی حضرت یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام و علیکم و رحمت الله -

عرش کی اصل حقیقت کو تو الله ہی جانتا ہے لیکن حضرت موسیٰ علیہ سلام کے فضائل میں ایک صحیح حدیث مروی ہے - جس میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ سلام الله کے عرش کو پکڑے ہوے ہونگے -

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۱۳۵/ حدیث مرفوع
۶۱۳۵۔ حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَةً لَهٗ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا کَرِهَهٗ أَوْ لَمْ يَرْضَهُ شَکَّ عَبْدُالْعَزِيزِ قَالَ لَا وَالَّذِي اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام عَلَی الْبَشَرِ قَالَ فَسَمِعَهٗ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَلَطَمَ وَجْهَهٗ قَالَ تَقُولُ وَالَّذِي اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام عَلَی الْبَشَرِ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَالَ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلٰی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ لِي ذِمَّةً وَعَهْدًا وَقَالَ فُلَانٌ لَطَمَ وَجْهِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهٗ قَالَ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ وَالَّذِي اصْطَفٰی مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام عَلَی الْبَشَرِ وَأَنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتّٰی عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهٖ ثُمَّ قَالَ لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللہِ فَإِنَّهٗ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَآءَ اللہُ قَالَ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرٰی فَأَکُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ أَوْ فِي أَوَّلِ مَنْ بُعِثَ فَإِذَا مُوسٰی عَلَيْهِ السَّلَام آخِذٌ بِالْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهٖ يَوْمَ الطُّورِ أَوْ بُعِثَ قَبْلِي وَلَا أَقُولُ إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتّٰی عَلَيْهِ السَّلَام۔


زہیر بن حرب، حجین بن مثنی، عبدالعزیز بن عبد اللہ بن ابوسلمہ، عبد اللہ بن فضل ہاشمی، عبدالرحمٰن الاعرج، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی اپنا کچھ سامان بیچ رہا تھا، جب اس کو اس کے سامان کی کچھ قیمت دی گئی تو اس نے اسے ناپسند کیا یا وہ اس قیمت پر راضی نہ ہوا، راوی عبد العزیز کو شک ہے، یہودی نے کہا نہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی! انصار کے ایک آدمی نے جب یہودی کی یہ بات سنی تو اس نے یہودی کو چہرے پر تھپڑ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ قسم اس ذات کی جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی، حلانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان موجود ہیں، وہ یہودی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور عرض کرنے لگا: اے ابا القاسم! بیشک میں ذمی ہوں اور مجھے امان دی گئی ہے اور اس نے کہا کہ فلاں آدمی نے میرے چہرے پر تھپڑ مارا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے فرمایا تو نے اس کے چہرے پر تھپڑ کیوں مارا ہے؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس یہودی نےیہ کہا تھا کہ اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت عطا فرمائی جبکہ آپؐ ہمارے درمیان موجود ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آ گئے یہاں تک کہ غصہ کے آثار آپ کے چہرے میں پہچانے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلت نہ دو، کیونکہ جس وقت صور پھونکا جائے گا تو تمام آسمانوں اور زمین والوں کے ہوش اڑ جائیں گے، سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے، پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں ہوں گا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو میں دیکھوں گا کہ وہ عرش کو پکڑے ہوئے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ طور کے دن کی بیہوشی میں ان کا حساب لیا گیا یا وہ مجھ سے پہلے اٹھائے گئے اور میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی آدمی بھی حضرت یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔

جی عرش کی اصل حقیت الله ہی جانتا ہے اور یہ صحیح کی روایت ذکر کرنے کا شکریہ اس میں صاف موسی علیہ السلام کی فضلیت کا ذکر ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم بھی ہے کہ مجھے دیگر انبیا سے فضیلت نہ دو جبکہ بعض محدثین نے غلو میں ان کو عرش پر ہی بٹھا دیا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جی عرش کی اصل حقیت الله ہی جانتا ہے اور یہ صحیح کی روایت ذکر کرنے کا شکریہ اس میں صاف موسی علیہ السلام کی فضلیت کا ذکر ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم بھی ہے کہ مجھے دیگر انبیا سے فضیلت نہ دو جبکہ بعض محدثین نے غلو میں ان کو عرش پر ہی بٹھا دیا ہے
جزاک الله - متفق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
اس معاملے کے تین پہلو ہیں :
اول :
’’ اللہ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھانا ‘‘ یہ بات ثابت ہے کہ نہیں ؟ نہ قرآن کے اندر اس کا ذکر ہے نہ حدیث کے اندر ، اور اس طرح کے معاملات جاننے کے لیے صرف انہیں دو مصدروں پر اعتماد کرنا ازبس ضروری ہی نہیں بلکہ ہماری مجبوری ہے ، کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معلومات نہیں ۔ لہذا ہم کہتے ہیں کہ اقعاد علی العرش کا اثبات کرنا بلا دلیل ہے ۔
دوم :
جن لوگون نے اس کا اثبات کیا ہے ، ہمارے علم کے مطابق انہوں نے مجاہد بن جبر المکی رحمہ اللہ کے قول پر اعتماد کیا ہے ، اسی طرح اہل سنت والجماعت میں سے ایک کثیر تعداد کا یہ موقف ہے ، اس لیے وہ اس بنیاد پر اس قول کے قائل ہیں ۔ یہ ان لوگوں کے قول کی توجیہ ہے نہ کہ ان کے موقف کی صحت کے لیے استدلال ۔ یہ موقف درست نہیں ہے ۔ عصر حاضر میں بھی جن لوگوں نے اس کا دفاع کیا ، اس کا بنیادی محرک یہی تھا کہ پہلے کبار علماء اس موقف کو اختیار کرچکے ہیں ۔
لیکن : اس پر نقد اس کے ثبوت کے اعتبار سے ہے ، اور اسی اعتبار سے نقد کرنا چاہیے ، اس پر عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ، کیونکہ اگر یہ استنادی حیثیت سے ثابت ہو تو ہم اسے اسی طرح مان لیں گے جس طرح اللہ کی ذات کے بارے میں ایسی ثابت شدہ چیزوں پر ایمان لاچکے ہیں ۔ وللہ الحمد
سوم :
جن لوگوں نے مجاہد بن جبر کے قول کا انکار کیا ہے ؟ وہ کس بنیاد پر کیا ہے ؟ اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں :
پہلی وجہ : مجاہد کا قول قرآن وسنت نہیں ، اور نہ ہی قرآن وسنت سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ یہ بہت سارے محدثین کا موقف ہے ۔
دوسری وجہ : مجاہد کے قول سے اللہ کی ذات کا ’’ حد ‘‘ ، ’’ ہیئت ‘‘ ، ’’ کیفیت ‘‘ وغیرہ وغیرہ لازم آتی ہے ۔ لہذا ایسے لوگ مجاہد کا قول کیا قرآن وسنت کی واضح نصوص کو بھی رد (یا تأویل کہہ لیں)کردیتے ہیں جن میں اللہ تعالی کی اس طرح کی صفات بیان ہوئی ہیں ، لہذا قرآن کی آیت الرحمن علی العرش استوی سے اللہ کے لیے مستوی عرش ہونا ثابت ہوتاہے لیکن یہ عقلی گھوڑے دوڑانے والے اس کو نہیں مانتے ۔ ان لوگوں کو اہل سنت نے جہمیہ قرار دیا ہے ۔
محدثین امام احمد وغیرہ نے جو سخت الفاظ استعمال کیے ہیں ، مجھے تویہی لگتا ہےکہ انہوں نے مجاہد کے قول کو رد کرنے والوں کے معاملے کو دوسری وجہ پر محمول کیا ہے ۔ قرینہ اس کا یہ ہے کہ کتاب السنۃ وغیرہ میں بار بار جہمیہ کا ذکر ہے ۔ اہل سنت کے کسی بھی قابل قدر محدث کا اس سلسلے میں تذکرہ نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
رہا یہ کہ ’’ الجہمی الترمذی ‘‘ کو معروف امام ترمذی کہنا تو یہ اہل علم کے حالات سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے ۔ جہاں ذہبی جیسے علم الرجال سے واقف کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی نا معلوم ترمذی ہے تو پھر اس کے خلاف موقف رکھنے کے لیے صرف ’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ نہیں چلے گا بلکہ قوی دلائل یا قرائن پیش کرنے پڑیں گے ۔
گزارش : اس طرح کی توجیہات کی بنیاد کسی واضح اور صریح نص پر تو ہوتی نہیں ، ان کا محرک ائمہ سے حسن ظن ہی ہوتا ہے ، اور دیگر مسائل میں ان کا اہل سنت سے متفق ہونا بھی ایک قرینہ ہوتا ہے ۔ لہذا جس کو ائمہ کے بارے میں حسن ظن ہے وہ محتمل چیزوں میں سے بہترین توجیہ کرے گا جس کو کسی سے سوء ظن ہے وہ ان کے بارے میں غلط توجیہ کی طرف میلان رکھے ۔
 
Top