• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرش عظیم اور محدثین کا غلو

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جزاک اللہ جواد بھائی۔ بس ایک بات اور کہنا چاہونگا اس ضمن میں، کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء پر مجموعی فضیلت بھی حاصل ہے، جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے:

اللہ فرماتا ہے:
"اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (آل عمران -81)"

اس آیت میں اللہ نے تمام انبیا سے ایک نبی پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کا عہد لیا ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ یہ عہد انبیائے سابقین سے تو لیا گیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہیں لیا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی خصوصیت قرآن میں بیان ہوئی ہے کہ وہ " پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں"، اور اس کلام کے مخاطب بھی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

دوسرا یہ کہ مشہور واقعہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت کروائی، جو کہ ایک امام ہونے کی حیثیت سے آپ کی فضیلت ثابت کرتا ہے۔

تیسرا یہ کہ آپ سے اللہ تعالی نے مقام محمود کا وعدہ کیا جو کسی اور نبی سے نہیں کیا گیا۔

چوتھا کہ آپ کی تعلیمات اور عطا کی گئی کتاب کی خود حفاظت کی اللہ نے، اور آپ کو سب نبیوں میں آخری بنا کر بھیجا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث روایت کی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ :

رسولوں میں سب سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ پل صراط عبور کروں گا ۔کتاب الاذان حدیث نمبر 764

اس لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء پر مجموعی فضیلت حاصل ہے، مگر اس فضیلت کو دعوت کا مقصد نہیں بنانا چاھیئے، نہ ہی اس وجہ سے دوسرے انبیاء کی عزت اور فضیلت آپکی فضیلت کی وجہ سے کم ہوتی ہے۔

باقی جہاں پر بھی قرآن میں انبیاء میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے، وہاں فرق صرف ایمان کے لحاظ سے ہے، یعنی کسی پر ایمان لانا، اور کسی پر نہیں، یہ فرق اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اللہ کو نا پسند ہے۔

اس بارے میں شیخ صالح المنجد کی سائٹ پر ایک کتاب کا حوالہ موجود ہے: کتاب خصائص المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بین الغلو والجفاء ، تالیف محمد بن صادق
جزاک اللہ۔
جزاک الله -

جو فضیلتیں آپ نے بیان کی ہیں - یہ قرآن و صحیح احادیث نبوی سے ثابت ہیں - اور یہی ہمارا منشاء ہے کہ جو کچھ قرآن و صحیح احادیث نبوی سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے - البتہ یہ نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم کا عرش عظیم پر الله کے برابر بیٹھنا - آپ صل الله علیہ وآ له وسلم کی ذات میں غلو ہے- جو کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں - جیسا کہ تھریڈ کا اصل موضوع بھی یہی ہے -
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ویسے اس موضوع پر جتنی بھی روایات جمع کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی صحت کے درجے تک نہیں پہنچتی لہذا اس موضوع کو اس انداز میں بیان کرنا کہ محدثین پر طعن زنی کا پہلو سامنے آتا ہو قطعا مناسب نہیں ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اتفاق سے میں اس موضوع پر احادیث کا مطالعہ کر رہا تھا تو تمام روایات میں ضعف کا وجود ہے
دوسری بات اگر اسی طرح محض کسی مفسر کی رائے کو لے کر محدثین پر کلام کیا جائے تو پھر تو ایسے مسائل کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا مثال کے طور پر سورۃ البقرہ آیت نمبر 102 کا مطالعہ صرف تفسیر ابن کثیر اور تفسیر طبری میں کر لیں ۔
اور خضر حیات بھائی کے ابتدائی دو جواب کافی ہیں اس میں اضافہ کرنا بحث برائے بحث ہی محسوس ہو رہا ہے اور آیت یہ ہے:

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (102)


 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اتفاق سے میں اس موضوع پر احادیث کا مطالعہ کر رہا تھا تو تمام روایات میں ضعف کا وجود ہے
دوسری بات اگر اسی طرح محض کسی مفسر کی رائے کو لے کر محدثین پر کلام کیا جائے تو پھر تو ایسے مسائل کا شمار ہی نہیں کیا جا سکتا مثال کے طور پر سورۃ البقرہ آیت نمبر 102 کا مطالعہ صرف تفسیر ابن کثیر اور تفسیر طبری میں کر لیں ۔
اور خضر حیات بھائی کے ابتدائی دو جواب کافی ہیں اس میں اضافہ کرنا بحث برائے بحث ہی محسوس ہو رہا ہے اور آیت یہ ہے:

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (102)


جزاک الله -
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور سچ تو یہ ہے کہ عبداللہ بن سلام سے تو اس روایت کا ثبوت ہی نہیں ملتا اور مجاہد کے اس اثر کا انکار کیا گیا ہے
اور اس پورے موضوع میں کوئی صحیح روایت ہی نہیں ہے لہذا اب اس موضوع کی بال سے کھال نکالنا کہ رد کس نے کیا اور کس نے نہیں کیا ؟
کیا واقعی ہمارے پاس اتنا وقت ہوتا ہے؟
اور اگر ایک مسئلہ کو سمجھنا ہے تو اس تکلف محض کی ضرورت ہی کیا؟
 
Top