• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عزاداری امام حسین (ع) کی شرعی حیثیت

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
قرآن شریف کے نظام ہدایت میں "یاد" منانے کی اہمیت

قرآن شریف نے انسان کو جو نظام ہدایت عطا کیا ہے اس کے قیام و استحکام کی بنیاد اسی یاد پر رکھی گئی ہے .چنانچہ وہ انسان جو اللہ اور اس کے آخری رسول (ص) پر ایمان لاتا ہے وہ ہدایت الہیٰٰ کے ماضی اور مستقبل پر بھی ایمان لاتا ہے . قرآن میں اللہ فرماتا ہے

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

(البقرہ : ۴)


وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول) ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں

یہاں " آپ سے پہلے نازل کی گئی" کتابوں پر ایمان "یاد" کی بنیاد پر ایمان کا جزو لانیفک بن گیا ہے جب کہ مومن کا باقی زندگی میں اسی ہدایت کو "یاد رکھتے ہوئے" اور ہر قدم اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے گزارنا تکمیل ایمان کے لئے لازم ہے

ہمارے عقیدے ، باطنی ارتقاء اور روحانی زندگی کا انحصار ذکر یعنی یاد کرنے، یاد رکھنے اور یاد منانے پر ہے.ہمارے روز مرہ معاملات ، سر گرمیاں ، حرکات و سکنات ، گفتگو،سمجھ بوجھ ، پڑھنا لکھنا، میل ملاقات ، الغرض جملہ امور زندگی اس علم پر منحصر ہوتے ہیں جو ہم حاصل کرتے ہیں اور اپنی زندگی میں محفوظ ہوتی ہے.یہی یاد ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے ، سلیقے اور ہنر سکھاتی ہے . "یاد" کے بغیر گویا پوری زندگی دیوانگی ہے ، ہوش و خرد اسی یاد کے سہارے قائم ہے

ملت ابراہیمی

"سابقہ انبیاء کرام کی یاد منانا" اور ان کی نبوت و رسالت کا اقرار کرنا بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے. چنانچہ اسلام کو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر " ملت ابراہیمی کہا گیا ہے

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

البقرہ:١٣٠


ور کون ہے جو ملّت ابراہیم علیھ السّلام سے اعراض کرے مگر یہ کہ اپنے ہی کوبے وقوف بنائے . اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب قرار دیا ہے اور وہ آخرت میں نیک کردار لوگوں میں ہیں

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
البقرہ:١٣٥

اور یہ یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ تم لوگ بھی یہودی اورعیسائی ہوجاؤ تاکہ ہدایت پا جاؤ توآپ کہہ دیں کہ صحیح راستہ باطل سے کترا کر چلنے والے ابراہیم علیھ السّلام کا راستہ ہے کہ وہ مشرکین میں نہیں تھے

قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آل عمران:٩٥


پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ خدا سچاّ ہے .تم سب ملّت ابراہیم علیھ السّلام کا اتباع کرو وہ باطل سے کنارہ کش تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے

وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
النساء:١٢٥


اور اس سے اچھا دیندار کون ہوسکتا ہے جو اپنا رخ خد اکی طرف رکھے اور نیک کردار بھی ہو اور ملّت ابراہیم علیھ السّلام کا اتباع کرے جو باطل سے کترانے والے تھے اور اللہ نے ابراہیم علیھ السّلام کو اپنا خلیل اور دوست بنایا ہے

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
الانعام:١٦١


آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھے راستے کی ہدایت دے دی ہے جو ایک مضبوط دین اور باطل سے اعراض کرنے والے ابراہیم علیھ السّلام کا مذہب ہے اور وہ مشرکین میں سے ہرگز نہیں تھے

ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
النحل:١٢٣


اس کے بعد ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ابراہیم علیھ السّلام حنیف کے طریقہ کا اتباع کریں کہ وہ مشرکین میں سے نہیں تھے

وَجَاهِدُوا فِي اللَّـهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّـهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ
الحج:٧٨


اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے یہی تمہارے بابا ابراہیم علیھ السّلام کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی مسلم اور اطاعت گزار رکھا ہے تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو لہذا اب تم نماز قائم کرو زکوِٰ اداکرو اور اللہ سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہوجاؤ کہ وہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے

ان جملہ آیات میں ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے .حضرت یوسف (ع) قید خانہ میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر فرمانے سے پہیلے اپنے نین کی تبلیغ کرتے ہوئے فرماتے ہیں

وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ
(یوسف:۳۸)

میں اپنے باپ دادا ابراہیم -اسحاق اور یعقوب کے طریقے کا پیرو ہوں

ان آیات میں سابقہ انبیاء کی یاد کو دین کی بنیاد بنایا جا رہا ہے یعنی انبیائے سابقہ اور ان کی امتوں کے حالات کو یاد رکھتے ہوئے انبیاء کی سنت کی پیروی کرنا بھی سنت انبیاء ہے .ارشاد باری تعالیٰٰ ہوتا ہے

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ
(النساء:۱۶۳)


ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح علیھ السّلام اور ان کے بعد کے انبیائ کی طرف وحی کی تھی

سابقہ امتوں اور رسول محمد (ص) سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کرام کے احوال اور دین ابراہیم کے حوالے سے حاصل ہونے والا علم اھل ایمان کے قلوب میں یاد کی صورت میں منور ہوکر قدم قدم پر ہمارے لئے ہدایت کی روشنی مہیا کرتا ہے

یاد کا مضمون انتہائی وسیع ہے اور یہاں موضوع سے متعلقہ نکات ذہن نشین کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہم "یاد" کے قرآن حکیم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مطالعہ کریں. اس حوالے سے "ذکر" کا لفظ قرآن میں کم وبیش 267 مرتبہ استعمال ہوا ہے.اس کا مطلب ہے :یاد کر لینا، یاد دلانا، محفوظ کر لینا

اسی یاد کو برقرار رکھتے ہوئے ہم آل ابراہیم (ع) کی نشانی "امام حسین (ع) " کی یاد کو مناتے ہیں اور اس یاد کو منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ غم حسین (ع) کے ساتھ ساتھ فلسفہ حسینی (ع) کو بھی یاد رکھا جائے تاکہ حسین (ع ) کے عزادر وقت کے یزید لعین سے مقابلہ کر سکیں .عزاداری امام حسین (ع) کو منانا ، شعائز اسلامیہ میں ہے اور آج جو عزاداری کی مخالفت کرتا ہے وہ حقیقت میں اسلام دشمن اور یزید دوست انسان ہوتا ہے .مگر یہ یاد آل ابراہیمی ہے ، جس کو کوئی دشمن نہیں مٹاسکتا ،جتنا اس یاد حسین (ع) کو دبایا جائے گا ، یہ اُُسی قدر جوش وجذبہ سے بلند ہونگی اور آخرکار
ہر قوم پکار اُُٹھے گی کہ ہمارے ہیں حسین ع
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
عزاداری امام حسین (ع) سنت رسول (ص) اور سنت علی (ع) سے ثابت ہے​


امام حسین (ع) کی عزاداری میں خود رسول اللہ (ص) نے گریہ فرمایا ہے اور غم حسین (ع) میں رونا سنت رسول (ص) ہے ، امام حسین (ع) کی ولادت کے وقت اور مختلف اوقات میں فرشتے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر لاتے تھے اور خاک کربلا کو رسول اللہ (ص) کی خدمت میں پیش کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل صحیح روایات سے ثابت ہے

حدیث نمبر: ا

ام ُُ المومنین عائشہ یا ام المومنین ام سلمہ (رہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ (ص) آپ کا یہ بیٹا حسین (ع) قتل کیا جائے گا ،اگر آپ (ص) چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ (ص) کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسین (ع) قتل ہونگے.پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا : فرشتے میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی


محقق کتاب فضائل صحابہ ، کہتا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے

محقق کتاب فضائل صحابہ ڈاکڑ وصی اللہ بن محمد عباس کی تحقیق مزید


مندرجہ بالا روایت کے حاشیہ میں محقق کہتا ہے کہ اس روایت کی تخریج مسند احمد میں بھی ہے ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ احمد نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے رجال ، الصحیح کے رجال ہیں . طبرانی نے بھی اسے عائشہ سے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے .احمد نے بھی مسند میں نجی کے ساتھ اس کی اسناد صحیح کے ساتھ تخریج کی ہے اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں

فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص 770//حدیث:1357


مندرجہ بالا حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے ،ہم یہاں اس حدیث کی تحقیق پیش کر رہے ہیں جو کہ محقق مسند نے انجام دی ہے


محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث اپنے طریق کے ساتھ حسن کے درجہ کی ہے .اس کے بعد محقق کتاب نے اس حدیث کے شواھد ذکر کئے ہیں

احمد نے فضائل صحابہ میں ، طبرانی نے معجم کبیر میں ، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اور کہا ہے کہ اس کے رجال الصحیح کے رجال ہیں ،ابن طھمان نے مشیختہ میں ، عاصم نے 2 مختلف طریق سے احاد و المثانی میں ، طبرانی نے معجم میں 5 مختلف طریق سے ، حاکم نے مستدرک میں ، بیھقی نے 2 مختلف طریق سےدلائل میں ، ابن شیبہ نے مصنف میں، اور دارقطنی نے العل میں 2 مختلف طریق سے خبر شہادت امام حسین (ع) کو نقل کیا ہے

مسند احمد // احمد بن حنبل // تحقیق: شعیب الارنوط و دیگرمحقیقین// ج : 44// طبع بیروت موسستہ رسالہ،جز 50 // ص 143//حدیث:26524


علامہ ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں شہادت امام حسین (ع) سے متعلق تمام اخبار کو نقل کیا ہے اور جناب ام سلمہ (ع) والی مندرجہ بالا روایت کے متعلق کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں . اس کو احمد اودیگر کئی لوگوں نے روایت کیا ہے

تاریخ اسلام // محمد ذہبی // تحقیق: ڈاکٹر عمر عبدالسلام // ج: 5 حوادث : 61 ھجری // طبع اولیٰٰ 1410 ھ ،جز53، دارُُ الکتاب العربی // ص 104




حدیث نمبر: 2


انس بن مالک صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ (ص) کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی ، اور اس دن رسول اللہ (ص) جناب ام ُُ سلمہ (رہ) کے گھر تشریف فرما تھے،جناب رسول اللہ (ص) نے ام سلمہ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا،انس بن مالک کہتا ہے کہ ام سلمہٰ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی (ع)حجرے میں آگئے ،چنانچہ رسول اللہ (ص) نے امام حسین (ع) کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ (ص) ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ (ص) نے کہا: ہاں ،فرشتہ بولا کہ آپ (ص) کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ (ص) چاہے تو میں وہ زمین آپ (ص) کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا . رسول اللہ (ص) نے کہا کہ ہاں دیکھائو ،چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ ،رسول اللہ (ص) کو دیکھایا.وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی ،جو بعد میں ام سلمہ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی
ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی متی ہے


محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن

مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 6// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14، دار المامون التراث بیروت // ص 129 // حدیث:3402

حدیث نمبر : 3


انس بن مالک صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ (ص) کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی ، اور اس دن رسول اللہ (ص) جناب ام ُُ سلمہ (رہ) کے گھر تشریف فرما تھے،جناب رسول اللہ (ص) نے ام سلمہ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا،انس بن مالک کہتا ہے کہ ام سلمہٰ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی (ع)حجرے میں آگئےاور رسول اللہ (ص) کی پشت پر سوار ہوگئے ،چنانچہ رسول اللہ (ص) نے امام حسین (ع) کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ (ص) ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ (ص) نے کہا: ہاں ،فرشتہ بولا کہ آپ (ص) کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ (ص) چاہے تو میں وہ زمین آپ (ص) کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا . رسول اللہ (ص) نے کہا کہ ہاں دیکھائو ،چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ ،رسول اللہ (ص) کو دیکھایا.وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی ،جو بعد میں ام سلمہ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی
ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی متی ہے



محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے.اور اس نے دیگر کتب حدیث سے اس کی تخریج کی ہے

الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان// ابن حبان //محقق: شعیب الارنوط// ج 15// طبع الاولیٰٰ 1408ھ ، جز 18، موسستہ الرسالہ // ص 142// حدیث:6742

البانی نے صحیح ابن حبان کی تعلیقات میں مندرجہ بالا حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے

التعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان // ناصرالدین البانی // ج 9 //طبع دار با وزیر ، جز 12، ص 406//حدیث:6707



حدیث نمبر: 4


عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمبرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا

محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں
محقق کتاب کہتا ہے نینوی ، نبی یونس (ع) کا گائوں تھا ،موصل عراق میں اور یہ نینوی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسین (ع) شہید ہوئے تھے

مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363


نوٹ : انشاء اللہ ، اب ہم اھل سنت و سلفی علماء کی معتبر کتب سے احادیث کی تخریج کریں گے جس کو انھوں نے صحیح قرار دیا ہے
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
اخبار شہادت امام حسین (ع) کی تخریج کتب اھل سنت سے



علامہ ناصر الدین البانی اور اخبار شہادت امام حسین
(ع)

علامہ البانی نے اپنی کتب میں احادیث خبر شہادت امام حسین (ع) کو صحیح کہا ہے . چنانچہ اپنی کتاب صحیح جامع صغیر میں لکھتا ہے کہ

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسین (ع) کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے
علامہ بانی اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے

صحیح جامع الصغیر // ناصر الدین البانی // ج: 1 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ عرب،جز 2 // ص : 73// حدیث : 61

مندرجہ بالا روایت البانی اپنی کتاب سلسلتہ الصحیحہ میں بھی لکھتا ہے

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسین (ع) کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے

اس کو حاکم نے بھی لکھا ہے اور بیھقی اپنی دلائل میں بھی اس روایت کو اس طرح لے کر آیئں ہیں

ام الفضل بنت الحارث نے کہ وہ رسول اللہ (ص) کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ (ص) ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ (ص) نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ (ص) نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ (ص) کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے .تم نے اچھا خواب دیکھا ہے.حضرت فاطمہ (ص) بچے کو جنم دے گی ، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا.چنانچہ فاطمہ (ص) نے امام حسین (ع) کو جنم دیا .لہذٰٰا وہ میری گود میں آیاا جیسے رسول (ص) نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاسس گئی اور میں نے بچے کو حضور (ص) کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی .پھر جو دیکھا تو رسول اللہ (ص) کی آنکھیں آنسو ٹبکا رہی تھیں .کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نب (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی ، اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے


حاکم نے اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم ک شرط کے مطابق حدیث ہے

مگر ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے

مگر البابی یہاں ذہبی کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت سے شواھد موجود ہیں جواس کوصحیح قرار دیتے ہیں جن میں سے احمد بن حنبل نے بھی درج کئے ہیں اور ان میں سے ایک شواھد یہ ہے کہ

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ (ص) آپ کا یہ بیٹا حسین (ع) قتل کیا جائے گا ،اگر آپ (ص) چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ (ص) کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسین (ع) قتل ہونگے.پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا : فرشتے میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی


سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 2 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 464تا465//حدیث:821،822

ایک اور مقام پر البانی اخبار شہادت حسین کی تخریج اس طرح کرتا ہے

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ حسین (ع) کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا


احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ

عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمبرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتا ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے.نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے

مگر البانی کہتا ہے کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے ، اس طرح ابو یعلیٰٰ ، بزا اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں .اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے
البانی مزید کہتا ہے اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے.

نوٹ:اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227

اس کے بعد البانی نے شہادت امام حسین (ع) سے متعلق 6 طریق نقل کئے ہیں بطور شواھد جو کہ ا س حدیث کو قوی بنا دیتے ہیں
مختلف شواھد نقل کرنے کے بعد البانی کہتا ہے کہ

میں (البانی) ایک جملہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ حدیث اپنے مختلف معانی اور تفسیر کے ساتھ ،مختلف صحیح طریق نے اس کو صحیح بنا دیا ہے .اگر چہ کچھ رواۃ میں کمزوری ہے مگر بطور بجموعہ یہ احادیث صحیح اور حسن کے درجے کی ہیں


سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 3 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 159تا162//حدیث:1171
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
اخبار شہادت امام حسین (ع) اور حافظ ابن کثیر

حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مقتل حسین (ع) کے متعلق احادیث کو لکھا ہے.ابن کثیر اس طرح سُُرخی دیتا ہے

امام حسین (ع) کے قتل کے متعلق اخبار

ابن کثیر لکھتا ہے کہ حدیث میں امام حسین (ع) کے قتل کے متعلق بیان ہوا ہے

ابن کثیر پہلی روایت بارش کے فرشتے والی لے کر آیا ہے جو کہ انس بن مالک سے مروی ہے ،اس روایت کے مطابق ام سلمہ (رہ) نے خاک کربلا کو لے اپنے کپڑے کے پلو سے باندھ لیا

نوٹ : واضح رہے کہ بارش کے فرشتے والی روایت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے


اس کے بعد ایک روایت ابن کثیر نقل کرتا ہے کہ

حضرت ام سلمہ (رہ) بیان کرتی ہیں کہ رسول (ص) ایک روز پہلو کے بل لیٹے تھے،آپ (ص) بیدار ہوئے ،تو آپ (ص) حیران تھے،پھر لیٹے تو سو گئے ،پھر بیدار ہوئے تو پہلی بار کے مقابلہ میں کم حیران تھے ،پھر لیٹے اور بیدار ہوئے تو آپ (ص) کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی ،جسے آپ (ص) الٹ پلٹ رہے تھے،میں نے پوچھا یارسول اللہ (ص) یہ مٹی کیسی ہے? فرمایا جبرئیل نے مجھے بتایا ہے کہ یہ سر زمین عراق میں حسین (ع) کے قتل ہونے کی جگہ ہے ،میں نے کہا اے جبرئیل ! مجھے اس زمین کی مٹی دکھائیے جہاں حسین (ع) قتل ہونگے پس یہ اس زمین کی مٹی ہے

اس کے بعد ابن کثیر نے ام الفضل بنت حارث والی روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ (ص) نے شہادت حسین (ع) کی خبر پر گریہ فرمایا

نوٹ: ہم مندرجہ بالا سطور میں ام الفضل اور بارش کے فرشتے والی روایت نقل کر آئیں ہیں اس لئے ان کی تکرار نہیں کی


البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:9//ص 234//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت //باب:اخبار مقتل حسین
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
پہلی بات تو یہ ھے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک حضرت امام حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی ایک شرعی حیثیت ہے وہ یہ ہے کہ :
الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنۃ
کہ حسن وحسین(رضی اللہ عنہما) جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں ۔
لہٰذا حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی فضیلت اہل السنۃ والجماعۃ سے وابستہ افراد کے عقائد کا حصہ ہے ۔ اور جو کوئی بھی حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی صحیح احادیث میں بیان کردہ فضیلت سے انحراف کرتا ہے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اہل السنۃ والجماعۃ ایسے افراد سے براءت کرتے ہیں ۔
رہی دوسری بات کہ جو شیعہ فرقے کے لوگ اس بارے میں لغویات اور مفتریات کے مرتکب ہیں اہل السنۃ والجماعۃ ایسی لغویات اور مفتریات سے براءت کرتے ہیں ۔ ان لغویات اور مفتریات کا قرآن وسنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ حضرت امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے بہادر بیٹوں حضرت امیر المومنین حسن اور ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج وبغاوت کی علامت سید الشہداء حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے متعلق جو باتیں شیعہ کتب میں منسوب کی جاتی ہیں وہ کسی صحیح اور مستند ماخذسے ثابت نہیں ہیں ۔ ان کا ماخذ صرف ابومخنف یحییٰ بن لوط شیعی کی کتاب مقتل حسین ہے ۔ جو کہ کذب اور مفتریات کا خزانہ ہے ۔ اس کذب اور مفتریات کو جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا ۔ ان شاء اللہ
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
آپ کی دوسری بات کا جھاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ کو اوپر دی گئی قرآنی آیات و احادیث میں اپنا جواب مل جائے گا بغور مطالعہ کیجئیے۔ اوپر دی گئی احادیث کہ جن کی آپ نے تائید بھی کی ہے سے یہ بات واضح ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا یزید کے خلاف اقدام میں اللہ کی رضا شامل تھی اور اسے بغاوت کہنا خود آپ کے بیان کئیے گئے عقیدہ پر سوالیہ نشان ہے۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ شیعہ کی عقیدت تو آپ کو لغویات لگتی ہیں لیکن ایسے الفاظ کہ جن سے خانوادہ اہلبیت علیہالسلام کی توہین لازم آتی ہے، کا استعمال آپ بڑے شد و مد سے کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ اہلبیت کی محبت کے دعویدار بھی ہیں۔۔۔۔
 

سپاہ محمد

مبتدی
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
0
اوپر بیان کی گئی روایات کہ جن کا انکار آپ نہیں کر سکتے اور یقینا نہیں کر سکتے سے یہ بات واضح ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے سب سے پہلے عزادار خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی تھے۔
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
آپ کی دوسری بات کا جھاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ کو اوپر دی گئی قرآنی آیات و احادیث میں اپنا جواب مل جائے گا بغور مطالعہ کیجئیے۔ اوپر دی گئی احادیث کہ جن کی آپ نے تائید بھی کی ہے سے یہ بات واضح ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا یزید کے خلاف اقدام میں اللہ کی رضا شامل تھی اور اسے بغاوت کہنا خود آپ کے بیان کئیے گئے عقیدہ پر سوالیہ نشان ہے۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ شیعہ کی عقیدت تو آپ کو لغویات لگتی ہیں لیکن ایسے الفاظ کہ جن سے خانوادہ اہلبیت علیہالسلام کی توہین لازم آتی ہے، کا استعمال آپ بڑے شد و مد سے کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ اہلبیت کی محبت کے دعویدار بھی ہیں۔۔۔۔
دیکھو مسٹر سپاہ محمد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان الفاظ کو استعمال کرنا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ظالم حکمران یزید کے خلاف بغاوت کی یا خروج کیا ان الفاظ میں تحسین ہے ۔ توہین نہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حیثیت سیدالشہداء کی ہے۔اور اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک جن احادیث میں صحیح اسناد سے حضرت حسین رضی عنہ کی شہادت کی خبر دی گی ہے وہ تلقی بالقبول ہیں ۔ اور ہمیں حضرات حسنین رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے کے لیے کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اہل السنۃ والجماعۃ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں ۔ اور جو شیعہ محرم کے مہینے میں لغویات کرتے ہیں ۔ ایسا کرنا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی ائمہ اہل البیت رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ۔ تمام قسم کی لغویات کا منبع شیعہ کی کتابیں ہیں ۔ الحمد للہ اہل السنۃ والجماعۃ کی کتابیں ان لغویات سے پاک وصاف ہیں ۔
نوٹ : کسی بدعتی فرقے کی کتابوں سے ہم پر الزامی جواب دینے کی ضرورت نہیں ۔ ہمیں تو صرف اہل السنۃ والجماعۃ کی معتبر ترین کتابوں سے حوالہ جات چاہئیں ۔جس وقت آپ حوالہ پیش کریں گے تو اس کا جائزہ لیا جائے گا ان شاء اللہ ۔
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
آپ کی دوسری بات کا جھاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں آپ کو اوپر دی گئی قرآنی آیات و احادیث میں اپنا جواب مل جائے گا بغور مطالعہ کیجئیے۔ اوپر دی گئی احادیث کہ جن کی آپ نے تائید بھی کی ہے سے یہ بات واضح ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا یزید کے خلاف اقدام میں اللہ کی رضا شامل تھی اور اسے بغاوت کہنا خود آپ کے بیان کئیے گئے عقیدہ پر سوالیہ نشان ہے۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ شیعہ کی عقیدت تو آپ کو لغویات لگتی ہیں لیکن ایسے الفاظ کہ جن سے خانوادہ اہلبیت علیہالسلام کی توہین لازم آتی ہے، کا استعمال آپ بڑے شد و مد سے کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ اہلبیت کی محبت کے دعویدار بھی ہیں۔۔۔۔
السلام و علیکم،
بھائی یہ آپ نےکہاں سےفرض کر لیاہے کہ آپ کی عبارت"جن سے خانوادہ اہلبیت علیہالسلام کی توہین لازم آتی ہے، کا استعمال آپ بڑے شد و مد سے کرتے ہیں" بھائی آپ ثابت کر کے دکھائیں کہ جہاں اہل البیت اطہار پر کسی اہل السنہ نے کوئی اعتراض کیا ہو؟؟لعن طعن یا اس طرح کی گندی حرکتیں تو رافضی کرتے ہیں اہل السنہ کا ہر گزشیوہ نہیں۔وہ شخص اہل السنہ سے خارج ہے جو ناصبی یا رافضی نظریات رکھتا ہو۔ ان کے اصل وارث تو اہل السنہ ہیں، آپ تو ان کے نام کو بیچ کر کھارہے ہیں۔
مستند اہل السنہ کی کتب سے ثبوت کا انتظار رہے گا۔
جزاک اللہ
 
Top