محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
3خلافت راشدہ میں خلیفہ کے انتخاب کے طریقے کو جمہوری قرار دینا
جمہوریت کے دلدادہ لوگ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا دور سب سے زیادہ جمہوری دور تھا۔خلفائے راشدین کا انتخاب بھی جمہوری طریقے سے ہواتھااور تمام عوام نے بیعت کرکے ان چاروں کو خلیفہ مقرر کیاتھا ۔چناچہ جمہوریت اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔بلکہ بعض لوگ یہ کہنے کی جسارت کر بیٹھتے ہیں مغرب میں رائج جمہوری نظام دراصل خلافت راشدہ میں رائج جمہوری نظام سے اخذ کردہ ہے۔انا للہ والیہ راجعون۔ حالانکہ یہ بات قطعاً غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔چناچہ اس شبہ کو رد کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ہم خلفائے راشدین کے طریقہ ٔ انتخاب کا مختصراً جائزہ لینا پڑے گا تاکہ اصل صورتحال معلوم ہوسکے :
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب:
جمہوریت کے دلدادہ لوگ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا دور سب سے زیادہ جمہوری دور تھا۔خلفائے راشدین کا انتخاب بھی جمہوری طریقے سے ہواتھااور تمام عوام نے بیعت کرکے ان چاروں کو خلیفہ مقرر کیاتھا ۔چناچہ جمہوریت اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔بلکہ بعض لوگ یہ کہنے کی جسارت کر بیٹھتے ہیں مغرب میں رائج جمہوری نظام دراصل خلافت راشدہ میں رائج جمہوری نظام سے اخذ کردہ ہے۔انا للہ والیہ راجعون۔ حالانکہ یہ بات قطعاً غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔چناچہ اس شبہ کو رد کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ہم خلفائے راشدین کے طریقہ ٔ انتخاب کا مختصراً جائزہ لینا پڑے گا تاکہ اصل صورتحال معلوم ہوسکے :
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب:
جمہوریت کے شیدائی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنائے جانے والے واقعے کو توڑ مروڑ کر جمہوریت کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ
’’سقیفہ بنی ساعدہ‘‘اس وقت کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا۔مہاجرین و انصار کے تمام قبائلی سرداروں جوکہ اپنے قبیلوں کے نمائندے تھے ،انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔لہذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کثرت رائے یعنی جمہوری طریقہ سے خلیفہ بنایا گیا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ محض قبیلہ خزرج کی ایک ذیلی شاخ بنو ساعدہ کے شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا تھا اور یہ بیٹھک یا سائبان ان ہی کے مکان سے ملحق تھا۔فراغت کے اوقات میں روزمرہ کی عام گفتگوکے لئے چند لوگ جمع ہوتے تھے۔یہ نہ تو کوئی ایسا مقام تھا جو مدینہ بھر کے معززین کے لئے مخصوص ہو یا اس جگہ اتنے آدمی اس چھپر کے سائے میں بیٹھ سکیں ۔یہ کوئی انتخابی مرکز بھی نہ تھا کہ کسی کو خیال آتا کہ انتخاب کے لئے یہ جگہ موضوع رہے گی۔
مزید یہ کہ سقیفہ بنی ساعدہ پر موجود زیادہ تعداد بنو ساعدہ کے انصار کی تھی اور باقی اڑھائی سو انصار کے قبیلوں کے لوگ اور ان کے سردار بھی موجود نہ تھے۔مہاجرین میں سے کل چار یا پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے۔جن میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے دس مشہور خاندانوں میں سے نہ تھااور یہاں صرف قریش کے دوقبیلوں کے سردار موجود تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ۔
چناچہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ انصار کہ کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ہیں ۔لہذا یہ دونوںوہاں پہنچ گئے۔انصار کے کچھ لوگوں نے کہا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہیے ۔لیکن جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا اللہ کے رسول ﷺنے تمہارے موجودگی میں یہ نہیں فرمایا تھا کہ ’’قریش امرِ خلافت کے والی ہیں ۔ان کے نیک نیکوں کی اور فاجر فاجروں کی اتباع کریں گے‘‘۔تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’آپ نے سچ فرمایا ۔چناچہ ہم وزیر ہوں گے اور آپ امیر‘‘۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں میں سے (یعنی حضرت عمرفاروقt اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ)میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔‘‘۔لیکن دونوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا ۔حضرت عمرفاروق ر ضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ اٹھائیے ،انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی ،اس طرح بیعت انعقاد خلافت ہوگئی۔اس کے بعد تمام حاضرین مجلس نے بیعت کی ۔یہ حضور ﷺکی وفات والے دن ،پیر ظہر کی نماز سے پہلے ہوا۔دوسرے دن یعنی منگل کوحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مسجدِ نبوی ﷺمیں لوگوں سے خطاب کیا اور اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور لوگوں سے کہا کہ ان سے بیعت کریں تو عوام الناس سب نے ان سے بیعت کی اور اس طرح یہ بیعت عامہ ہوئی ۔
حضور ﷺکی وفات کے وقت محتاط اندازے کے مطابق مسلمانوں کی تعداد تیرہ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔اگر سرداروں کو نمائندہ مان لیا جائے تو کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ تیرہ لاکھ مسلمانوں کے نمائندوں کو چار گھنٹوں میں اطلاع بھی مل گئی ہوگی اور ان چار گھنٹوں میں مدینہ پہنچ کر سقیفہ بنی ساعدہ کے اجلاس میں شرکت کی ہوگی؟چنا چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے باحیثیت ’’امیر المومنین‘‘کے چناؤکو موجودہ نمائندہ پارلیمانی نظام سے مماثلت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جوکہ بالکل خلافِ واقعہ ہے اور صریح جھوٹ ہے۔