اللہ تعالیٰ کے صفت علو،استوا اور معیت پر ایمان
ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے اپنے بندوں سے بلند تر ہے۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا درج ذیل ارشاد گرامی ہے:
وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ﴿255﴾
ترجمہ: اور وہی سب سےبرتر عظمت والا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 255)
مزید ارشاد ہے:
وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِۦ ۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ ﴿18﴾
ترجمہ: اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ دانا اور خبردار ہے (سورۃ الانعام،آیت 18)
اور ہم اس بات کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے (سورۃ یونس،آیت3)
اور اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا مطلب،اس کا اپنی ذات کے ساتھ ایک خاص اور شایان شان طریقے سے عرش پر بلند ہونا ہے،جس کی کیفیت و حالت اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اور ہم اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش بریں پر ہوتے ہوئے اپنے بندوں کے احوال سے پوری طرح واقف ہے،ان کی باتوں کو سنتا اور ان کے اعمال کو دیکھتا ہے ور ان کے معاملات کو نظم و تدبیر سے چلاتا ہے ،فقیر کو رزق دیتا ہے۔ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے،جس کو چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے ،جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے،جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے،جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔اسی ذات پاک کے ہاتھ میں ساری بھلائی کی چیزیں ہیں اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔
جو ذات پاک ایسی شان و صفت کے ساتھ آراستہ ہو وہ واقعی (علم و قدرت کے ساتھ) ہر لمحہ اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتی ہے،اگرچہ وہ حقیقی طور پر ان کے اوپر عرش پر ہی متمکن و مستوی ہے۔ارشاد ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۭ ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ﴿١١﴾
ترجمہ: کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے (سورۃ الشوری،آیت 11)