• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ ابن خلدون اور یزید بن معاویہ

شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
علامہ ابن خلدون کو کون نہیں جانتا ان کا نام لیتے ہی تاریخ کا ایک رئیس ذہن میں آجاتا ہے ابن خلدون نے اپنی تاریخ لکھنے سے پہلے مقدمہ لکہا تھا جو کہ ان کی شہرت کا زیادہ سبب بنا اس میں انہوں نے ہر پہلو سے تاریخ کے بابت بات کی ہے اور اکثر مورخین کو لکیر کے فقیر کہا ہے یعنی انہوں بغیر سوچے سمجھے کذب و دجال بھی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے

اسی بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑیں اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرض کہ تحقیق برائے نام بھی نہی کی گٰے او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"

مگر افسوس کہ ابن خلدون بھی لکیر کے فقیر ہی رہے اور انہوں نے بھی اقعات کا کوئی معقول جواب نہ دیا اور نہ ہی ان پر تحقیقی کی اور تقلید میں تو انہوں نے حد ہی کردی ۔ علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن ان کے دہرے معیار کی جہلک آپ یہاں اگلیں سطور میں دیکہیں گے۔۔

علامہ ابن خلدون ہارون رشید کے شراب پینے اور راگ سننے کے واقعات پر لکھتے ہیں

"یہ جو افسانہ تراشہ گیا ہے کہ رشید شراب کا بڑا شوقین تھا اور اپنے ہم مجلس رفقاء کے ساتھ شراب میں مخمور رہتا تھا تو حاشائ اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھیں بھلا رشید کو ان بے حیائیوں سے کیا واسطہ وہ منصب خلافت کے فرائض دینداری اور عدالت سے انجام دیتا تھا پھر اسے علماءاور اولیاء کی صحبت بھی میسیر تھی کہ اگر اس طرف جاتا بھی تو صحبت مانع تھی "

پھر لکھتے ہیں رشید عالم اور سادہ مزاج تھا کیوں کہ اس کا زمانہ سلف کے قریب تھا اور مزید اس کے اور اس کے دادا ابو جعفر منصور کے درمیان تھوڑہ سا زمانہ تھا

علم دین میں منصور عباسی کا مقام بتا کر پھر وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
" جب رشید کے دادا ابو جعفر اور اس کا زمانہ قریب کا ہے ان جیسے صاحب تقوی کی عادتوں پر تربیت ہوئی اور اس قسم کے مکارم اخلاق ان کے دل میں جڑ پکڑ گئے تو وہ کیسے کہلے عام شراب کی مجلسین کر سکتا ہے
عہد جاہلیت میں شرفاء شراب سے پرہیز کیا کرتے تھے اور انگور ان کے علائقہ میں پیدا ہی نہیں ہوتے تھے اور میخواری کو بہت سے عرب معیوب سمجھتے تھے رشید اور ان کے خاندان کے بزرگ دینی و دنیوی برائیوں سے پرہیز کرتے تھے ان میں پرہیز گاری کے رجحانات پائے جاتے تھے۔"

یعنی ابن خلدون ہارون رشید کے شرب کی مجلسوں سے ان بنیادوں پر انکار کرتے ہیں
ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے
اس کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے
رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی
ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اور عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے

علامہ ابن خلدون نے ہارون رشید کے ان واقعات اور ان کی بہن عباسہ کے واقعات کو من گہڑت ثابت کرنے کے لئے مقدمہ میں 4 صفحہ تک خرچ کئے ہیں ۔۔۔لیکن جب معاملہ یزید بن معاویہ کا آتا ہے تو وہ برملا کہ دیتے ہیں کہ وہ گانا سننے کا شوقین تھا فاسق تھا ۔۔۔۔۔

دیکھئے وہی تاریخیں رشید کے بارے میں کہتے ہیں تو غلط یزید کے بارے میں کہتی ہیں تو صحیح اور ابن خلدون نے رشید کو بچانے کے لئے جو باتیں بنیاد بنائیں ہیں ہم وہ چیزیں یزید کے بارے میں لکھتے ہیں کاش ابن خلدون یہاں مصلحت کے بجائے حقیقت لکھنے کی جرئت کرتے ۔

"ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے"

یزید بن معاویہ کو صحابہ کی صحبت حاصل تھی ان کی دربار میں صحابہ رہتے تھے حضرت نعمان بن بشیر سے وہ مشورہ کرتے تھے جس کا ثبوت تاریخ میں موجود ہے اور نعمان انہیں امیر المومنین کہتے تھے۔

"رشید کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے "

یزید کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریب ہے اور صحابہ کا زمانہ ہے

"رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی"

کہاں ابو جعفر منصور تو کہا ں یزید کے دادا ابو سفیان اور یزیدکے والد معاویہ رضی اللہ عنہیزید کی تربیت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ہوئی۔

"ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اورشرفاء عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے"

توپھر یزید بن معاویہ کا خاندان بھی تو ان میں سے تھا

اب اگر ہارون رشید ان وجوہات کے بنیاد شرابی و فاسق نہیں ہوسکتا تو ابن خلدون رحمہ اللہ کس بنیاد پر یزید بن معاویہ کو بلا دہڑک فاسق کہ دیتے ہیں

یاد رہے ابوجعفر منصور کے خلاف بھی مدینہ کے لوگوں نے خروج کیا تھا اور اس دفعہ اہل بیت کے لوگوں نے کیا تھا تواس نے مدینہ اپنی فوج بھیجی تھی اسی ہی حرہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی تھی اس میں حضرت ابو بکر، عمر ، عثمان ، علی رضوان اللہ اور بہت سے مہاجرین اور انصار کی اولاد ایرانی عجمی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریبن اولاد کو قید کردیا گیا تھا جہاں سے اکثر کی لاشین ہی نکلیں تھیں یہ سب باتیں علامہ کے زہن میں یقنن ہونگے۔۔۔۔۔
پھر علامہ موصوف لکھتے ہیں"
اس قسم کےاجتہادی اختلاف پر جو لڑائیاں اول اسلام میں چھڑیں وہ یہ ہیں حضرت علی اور معاویہ ، عائشہ ، زبیر ، طلحہ کی علی سے لڑائی یا وہ جنگ جو امام حسین اور یزید کے درمیان ہوئی اور وہ جنگ جو کہ ابن زبیر اور عبدالملک کے بیچ ہوئیں "

یعنی علامہ ابن خلدون کے مطابق یہ سب واقعات اجتھاد کے بنا پر ہوئی یعنی امام حسین و یزید کے درمیان جو ہوا وہ بھی اجتھاد ہی تھا دونوں طرف کا۔ (مدینہ کی جنگ کا زکر ابن خلدون نے نہیں کیا)

"پھر آگے لکھتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک نہ تو امام حسین کی جنگ یزید کے ساتھ جائز تھی اور نہ ہی یزید کی جنگ امام حسین کے ساتھ جائز تھی
پھر لکھتے ہیں علی اور معاویہ میں جو جنگیں ہوئیں ان میں علی حق پر اور معاویہ اجتھاد خطا پر تھے پھر ابن زبیر اور عبدالملک کے تنازع میں بھی عبدالملک کو خطا کار نہیں ٹھرا سکتے رہا یزید کا معاملہ تو وہان تو یزید کا فسق اسے خطاکار بنا رہا ہے "

یعنی علامہ موصوف کہ رہے ہیں کہ امام حسین کی یزید کے ساتھ جنگ صحیح نہیں تھی اور نہ ہی یزید کی امام کے ساتھ اس سب میں علی ، معاویہ ، امام حسین ، ابن زبیر ، عبدالملک سب کے سب مجتھد ہیں اور مغفور ہیں سواء یزید کے کیون کہ وہ فاسق تھا اس لئے اس کا اجتہاد لائق نہیں تھا
کمال کی بات ہے نہ عبدالملک مجتھد ہے لیکن یزید نہیں مجھے حیرت ہے ابن خلدون دوسروں کو لکیر کے فقیر کہنے والے ہیں لیکن خؤد بھی ویسے ہیں رہے

" علامہ پھر لکھتے ہیں
پھر عبدالملک تو سب لوگوں میں عدالت عظمی رکھتے تھے اس کا سبب یہ ہے امام مالک نے ان کے فعل کو حجت بنایا ہے ۔"

اصل معاملہ ہی یہاں پر ہے عبدالملک کیوں مجتھد ہیں کیوں کہ امام مالک نے اس سے روایت کی ہے اور ابن خلدون مالکی مذہب رکھتے تھے یعنی تقلید جس پر وہ شروع میں تنقید کر آئے تھے یہاں خود تقلیدی تعصب کا شکار ہوئے

یہی ابن خلدون کہتے ہیں کہ یزید امام حسین کے ساتھ جو ہوا اس کازمیدار ہے اور یہ اس کا گناھ ہے تو ابن زبیر کا قتل عبدالملک کا گناھ کیوں نہیں اور پھر ابن خلدون یہ کیوں بھول گئے کہ ابن زبیر کے قتل کا حکم وہ بھی حرم میں عبدالملک نے دیا تھا اور ان کے قتل پر خوش ہوا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے امام مالک کی عدالت پر حرف آتا ہے اس لئے ابن خلدون بات گول کر گئے اور عبدالملک پھر بھی ثواب کے مستحق اور یزید جس نے قتل حسین کا حکم نہیں دیا اور ان کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا وہ نہ تو مجتھد ہے بلکہ جھمنی ہے اصل ماجرا یہ ہے کہ اگر ابن زبیر اہل بیت سے ہوتے تو عبدالمالک بھی یزید کی طرح گالیاں ہی لیتا مگر بات یہ ہے کہ ایک تو ابن زبیر ابی بکر کے نواسے ہیں اور دوسرہ وہ زبیر رضہ کے فرزند ہیں جو کہ علی کے ساتھ لڑے تھے اس لئے ان کی سیرت پر وار کرنا راویوں کے لئے آسان ہے ان کے خلاف بہت سی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ۔۔۔ سمجھنے والے سمجھ جائین گے۔۔۔

"علامہ پھر لکھتے ہیں مزید یہ کہ ابن عباس ، ابن عمر ، نے ابن زبیر کو چھوڑ کر عبدالملک سے بیعت کی تواس وقت ابن زبیر حجاز میں موجود تھے ۔۔"

عبدالملک کی عدالت اگر اس لئے ہے کہ ان کی بیعت ابن عباس ، ابن عمر نے کی تھی تو ان لوگوں نے یزید کی بیعت بھی کی تھی ابن خلدون کیوں بھول گئے

"پھر علامہ لکھتے ہیں
۔۔ بھر حال دونوں طرف مجتھد تھے اور ابن زبیر بھی شہید و مستحق ثواب ہیں یہی وہ خیال ہے جو تمام سلف صالحین ، صحابی و تابعین کے بارے میں رکھتے آرہے ہیں یہی بزرگ امت کے برگزیدہ اشخاص شمار ہوتے ہیں اگر ہم انہیں ہم ہی نشانہ بنائیں تو امت میں عدالت کہاں ملی گی ادہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم مرتین اور ثلاثا ثم یفشو الکذب( میرہ زمانہ کے لوگ بہترین ہیں اور ان کے بعد وہ لوگ ہونگے جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر ان کے بعد وہ لوگ آئیں گے (تبع تابعین) پھر جھوٹ کا دور دورہ ہوگا۔"

یعنی ، علی رضہ ، طلحہ رضہ، زبیر رضہ ، عائشہ رضہ ، معاویہ رضہ، عمرو بن العاص رضہ ، امام حسین رضہ ، ابن زبیر رضہ ، مروان ، عبدالملک، ابوجعفر منصور ، ہارون رشید یہ سب لوگ ابن خلدون کے مطابق مسلمانوں کا خون بھانے اور ان کا خؤن مباح کرنے کے باوجود ثواب کے مستحق ہیں اور جنتی ہیں یقینن جنتی ہیں بس ان سب میں ایک اکیلا ایسا شخص ہے جو کہ علی کی سیرت پر عمل کرتا ہے لیکن وہ نہ تو مجتھد ہے نہ تو تابعی ہے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد خیر القرون میں داخل ہے اور پھر جھنم میں بھی جانے والا ہے وہ ہے یزید بن معاویہ۔۔۔

مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ ابن خلدون جیسا مورخ بھی جو غیر جانبداری کو تاریخ کے لئے ضروری سمجھتا ہے خود ہی اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی امام مالک کی تقلید ،مشہور باتوں کو ویسے ہی رہنے دینا انہیں چھیڑنے سے پرہیز کرنا اور ایک بادشاہ کے سامنے اس تاریخ کو پیش کرنا جو کہ ابن خلدون کے مطابق اہل بیت سے ہے۔۔۔ یہاں اہل بیت کی محبت ہی کار فرما ہے
(یاد رہے کچھ لوگ سوچیں گے کہ اگر ایسا ہے تو انہوں نے عبدالملک کو کیوں بچایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں دو امر کار فرما ہیں ایک امام مالک کا اس سے روایت کرنا پھر عام لوگوں کو ابن زبیر اور عبدالملک سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن وہ کربلا کے معاملے میں حد سے حساس ہیں جو کوئی بولتا ہے اسے زندیقیت کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور حالات نہیں بدلے آج بھی ویسے ہی ہیں اور ابن خلدون کو اس بات کا احساس تھا اس لئے ان نے یزید کو ایک جگہ پر مجتھد کہتے ہوئے بھی اسے فاسق کہنا اپنی تاریخ کے لئے ضروری سمجھا۔)
لیکن اہل بیت سے محبت تو سب کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ دوسرے سے ناانصافی کی جائے۔۔

کاش ابن خلدون اپنی ہی کہی ہوئی اس بات یاد رکھتے
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد کے آنے ہوئے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑی اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرج کہ تحقیق برئے نام بھی نہی کی گٰئی او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"

علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن مجھے ان کا یہ معیار دوہری ہی لگا ہوسکتا ہے کچھ دوست اس کی مخالفت کریں یا ناراض ہوں تو ان سے پہلے ہی معزرت ہمارہ مقصد ابن خلدون کی شخصیت پر حملا کرنا نہیں بلکہ انہوں جو طریقہ اختیا ر کیا اس پر موقف دینا ہے جو کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس مین انہوں نے دوہرہ معیار اپنایا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علامہ ابن خلدون کو کون نہیں جانتا ان کا نام لیتے ہی تاریخ کا ایک رئیس ذہن میں آجاتا ہے ابن خلدون نے اپنی تاریخ لکھنے سے پہلے مقدمہ لکہا تھا جو کہ ان کی شہرت کا زیادہ سبب بنا اس میں انہوں نے ہر پہلو سے تاریخ کے بابت بات کی ہے اور اکثر مورخین کو لکیر کے فقیر کہا ہے یعنی انہوں بغیر سوچے سمجھے کذب و دجال بھی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے

اسی بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑیں اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرض کہ تحقیق برائے نام بھی نہی کی گٰے او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"

مگر افسوس کہ ابن خلدون بھی لکیر کے فقیر ہی رہے اور انہوں نے بھی اقعات کا کوئی معقول جواب نہ دیا اور نہ ہی ان پر تحقیقی کی اور تقلید میں تو انہوں نے حد ہی کردی ۔ علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن ان کے دہرے معیار کی جہلک آپ یہاں اگلیں سطور میں دیکہیں گے۔۔

علامہ ابن خلدون ہارون رشید کے شراب پینے اور راگ سننے کے واقعات پر لکھتے ہیں

"یہ جو افسانہ تراشہ گیا ہے کہ رشید شراب کا بڑا شوقین تھا اور اپنے ہم مجلس رفقاء کے ساتھ شراب میں مخمور رہتا تھا تو حاشائ اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھیں بھلا رشید کو ان بے حیائیوں سے کیا واسطہ وہ منصب خلافت کے فرائض دینداری اور عدالت سے انجام دیتا تھا پھر اسے علماءاور اولیاء کی صحبت بھی میسیر تھی کہ اگر اس طرف جاتا بھی تو صحبت مانع تھی "

پھر لکھتے ہیں رشید عالم اور سادہ مزاج تھا کیوں کہ اس کا زمانہ سلف کے قریب تھا اور مزید اس کے اور اس کے دادا ابو جعفر منصور کے درمیان تھوڑہ سا زمانہ تھا

علم دین میں منصور عباسی کا مقام بتا کر پھر وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
" جب رشید کے دادا ابو جعفر اور اس کا زمانہ قریب کا ہے ان جیسے صاحب تقوی کی عادتوں پر تربیت ہوئی اور اس قسم کے مکارم اخلاق ان کے دل میں جڑ پکڑ گئے تو وہ کیسے کہلے عام شراب کی مجلسین کر سکتا ہے
عہد جاہلیت میں شرفاء شراب سے پرہیز کیا کرتے تھے اور انگور ان کے علائقہ میں پیدا ہی نہیں ہوتے تھے اور میخواری کو بہت سے عرب معیوب سمجھتے تھے رشید اور ان کے خاندان کے بزرگ دینی و دنیوی برائیوں سے پرہیز کرتے تھے ان میں پرہیز گاری کے رجحانات پائے جاتے تھے۔"

یعنی ابن خلدون ہارون رشید کے شرب کی مجلسوں سے ان بنیادوں پر انکار کرتے ہیں
ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے
اس کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے
رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی
ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اور عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے

علامہ ابن خلدون نے ہارون رشید کے ان واقعات اور ان کی بہن عباسہ کے واقعات کو من گہڑت ثابت کرنے کے لئے مقدمہ میں 4 صفحہ تک خرچ کئے ہیں ۔۔۔لیکن جب معاملہ یزید بن معاویہ کا آتا ہے تو وہ برملا کہ دیتے ہیں کہ وہ گانا سننے کا شوقین تھا فاسق تھا ۔۔۔۔۔

دیکھئے وہی تاریخیں رشید کے بارے میں کہتے ہیں تو غلط یزید کے بارے میں کہتی ہیں تو صحیح اور ابن خلدون نے رشید کو بچانے کے لئے جو باتیں بنیاد بنائیں ہیں ہم وہ چیزیں یزید کے بارے میں لکھتے ہیں کاش ابن خلدون یہاں مصلحت کے بجائے حقیقت لکھنے کی جرئت کرتے ۔

"ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے"

یزید بن معاویہ کو صحابہ کی صحبت حاصل تھی ان کی دربار میں صحابہ رہتے تھے حضرت نعمان بن بشیر سے وہ مشورہ کرتے تھے جس کا ثبوت تاریخ میں موجود ہے اور نعمان انہیں امیر المومنین کہتے تھے۔

"رشید کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے "

یزید کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریب ہے اور صحابہ کا زمانہ ہے

"رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی"

کہاں ابو جعفر منصور تو کہا ں یزید کے دادا ابو سفیان اور یزیدکے والد معاویہ رضی اللہ عنہیزید کی تربیت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ہوئی۔

"ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اورشرفاء عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے"

توپھر یزید بن معاویہ کا خاندان بھی تو ان میں سے تھا

اب اگر ہارون رشید ان وجوہات کے بنیاد شرابی و فاسق نہیں ہوسکتا تو ابن خلدون رحمہ اللہ کس بنیاد پر یزید بن معاویہ کو بلا دہڑک فاسق کہ دیتے ہیں

یاد رہے ابوجعفر منصور کے خلاف بھی مدینہ کے لوگوں نے خروج کیا تھا اور اس دفعہ اہل بیت کے لوگوں نے کیا تھا تواس نے مدینہ اپنی فوج بھیجی تھی اسی ہی حرہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی تھی اس میں حضرت ابو بکر، عمر ، عثمان ، علی رضوان اللہ اور بہت سے مہاجرین اور انصار کی اولاد ایرانی عجمی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریبن اولاد کو قید کردیا گیا تھا جہاں سے اکثر کی لاشین ہی نکلیں تھیں یہ سب باتیں علامہ کے زہن میں یقنن ہونگے۔۔۔۔۔
پھر علامہ موصوف لکھتے ہیں"
اس قسم کےاجتہادی اختلاف پر جو لڑائیاں اول اسلام میں چھڑیں وہ یہ ہیں حضرت علی اور معاویہ ، عائشہ ، زبیر ، طلحہ کی علی سے لڑائی یا وہ جنگ جو امام حسین اور یزید کے درمیان ہوئی اور وہ جنگ جو کہ ابن زبیر اور عبدالملک کے بیچ ہوئیں "

یعنی علامہ ابن خلدون کے مطابق یہ سب واقعات اجتھاد کے بنا پر ہوئی یعنی امام حسین و یزید کے درمیان جو ہوا وہ بھی اجتھاد ہی تھا دونوں طرف کا۔ (مدینہ کی جنگ کا زکر ابن خلدون نے نہیں کیا)

"پھر آگے لکھتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک نہ تو امام حسین کی جنگ یزید کے ساتھ جائز تھی اور نہ ہی یزید کی جنگ امام حسین کے ساتھ جائز تھی
پھر لکھتے ہیں علی اور معاویہ میں جو جنگیں ہوئیں ان میں علی حق پر اور معاویہ اجتھاد خطا پر تھے پھر ابن زبیر اور عبدالملک کے تنازع میں بھی عبدالملک کو خطا کار نہیں ٹھرا سکتے رہا یزید کا معاملہ تو وہان تو یزید کا فسق اسے خطاکار بنا رہا ہے "

یعنی علامہ موصوف کہ رہے ہیں کہ امام حسین کی یزید کے ساتھ جنگ صحیح نہیں تھی اور نہ ہی یزید کی امام کے ساتھ اس سب میں علی ، معاویہ ، امام حسین ، ابن زبیر ، عبدالملک سب کے سب مجتھد ہیں اور مغفور ہیں سواء یزید کے کیون کہ وہ فاسق تھا اس لئے اس کا اجتہاد لائق نہیں تھا
کمال کی بات ہے نہ عبدالملک مجتھد ہے لیکن یزید نہیں مجھے حیرت ہے ابن خلدون دوسروں کو لکیر کے فقیر کہنے والے ہیں لیکن خؤد بھی ویسے ہیں رہے

" علامہ پھر لکھتے ہیں
پھر عبدالملک تو سب لوگوں میں عدالت عظمی رکھتے تھے اس کا سبب یہ ہے امام مالک نے ان کے فعل کو حجت بنایا ہے ۔"

اصل معاملہ ہی یہاں پر ہے عبدالملک کیوں مجتھد ہیں کیوں کہ امام مالک نے اس سے روایت کی ہے اور ابن خلدون مالکی مذہب رکھتے تھے یعنی تقلید جس پر وہ شروع میں تنقید کر آئے تھے یہاں خود تقلیدی تعصب کا شکار ہوئے

یہی ابن خلدون کہتے ہیں کہ یزید امام حسین کے ساتھ جو ہوا اس کازمیدار ہے اور یہ اس کا گناھ ہے تو ابن زبیر کا قتل عبدالملک کا گناھ کیوں نہیں اور پھر ابن خلدون یہ کیوں بھول گئے کہ ابن زبیر کے قتل کا حکم وہ بھی حرم میں عبدالملک نے دیا تھا اور ان کے قتل پر خوش ہوا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے امام مالک کی عدالت پر حرف آتا ہے اس لئے ابن خلدون بات گول کر گئے اور عبدالملک پھر بھی ثواب کے مستحق اور یزید جس نے قتل حسین کا حکم نہیں دیا اور ان کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا وہ نہ تو مجتھد ہے بلکہ جھمنی ہے اصل ماجرا یہ ہے کہ اگر ابن زبیر اہل بیت سے ہوتے تو عبدالمالک بھی یزید کی طرح گالیاں ہی لیتا مگر بات یہ ہے کہ ایک تو ابن زبیر ابی بکر کے نواسے ہیں اور دوسرہ وہ زبیر رضہ کے فرزند ہیں جو کہ علی کے ساتھ لڑے تھے اس لئے ان کی سیرت پر وار کرنا راویوں کے لئے آسان ہے ان کے خلاف بہت سی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ۔۔۔ سمجھنے والے سمجھ جائین گے۔۔۔

"علامہ پھر لکھتے ہیں مزید یہ کہ ابن عباس ، ابن عمر ، نے ابن زبیر کو چھوڑ کر عبدالملک سے بیعت کی تواس وقت ابن زبیر حجاز میں موجود تھے ۔۔"

عبدالملک کی عدالت اگر اس لئے ہے کہ ان کی بیعت ابن عباس ، ابن عمر نے کی تھی تو ان لوگوں نے یزید کی بیعت بھی کی تھی ابن خلدون کیوں بھول گئے

"پھر علامہ لکھتے ہیں
۔۔ بھر حال دونوں طرف مجتھد تھے اور ابن زبیر بھی شہید و مستحق ثواب ہیں یہی وہ خیال ہے جو تمام سلف صالحین ، صحابی و تابعین کے بارے میں رکھتے آرہے ہیں یہی بزرگ امت کے برگزیدہ اشخاص شمار ہوتے ہیں اگر ہم انہیں ہم ہی نشانہ بنائیں تو امت میں عدالت کہاں ملی گی ادہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم مرتین اور ثلاثا ثم یفشو الکذب( میرہ زمانہ کے لوگ بہترین ہیں اور ان کے بعد وہ لوگ ہونگے جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر ان کے بعد وہ لوگ آئیں گے (تبع تابعین) پھر جھوٹ کا دور دورہ ہوگا۔"

یعنی ، علی رضہ ، طلحہ رضہ، زبیر رضہ ، عائشہ رضہ ، معاویہ رضہ، عمرو بن العاص رضہ ، امام حسین رضہ ، ابن زبیر رضہ ، مروان ، عبدالملک، ابوجعفر منصور ، ہارون رشید یہ سب لوگ ابن خلدون کے مطابق مسلمانوں کا خون بھانے اور ان کا خؤن مباح کرنے کے باوجود ثواب کے مستحق ہیں اور جنتی ہیں یقینن جنتی ہیں بس ان سب میں ایک اکیلا ایسا شخص ہے جو کہ علی کی سیرت پر عمل کرتا ہے لیکن وہ نہ تو مجتھد ہے نہ تو تابعی ہے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد خیر القرون میں داخل ہے اور پھر جھنم میں بھی جانے والا ہے وہ ہے یزید بن معاویہ۔۔۔

مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ ابن خلدون جیسا مورخ بھی جو غیر جانبداری کو تاریخ کے لئے ضروری سمجھتا ہے خود ہی اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی امام مالک کی تقلید ،مشہور باتوں کو ویسے ہی رہنے دینا انہیں چھیڑنے سے پرہیز کرنا اور ایک بادشاہ کے سامنے اس تاریخ کو پیش کرنا جو کہ ابن خلدون کے مطابق اہل بیت سے ہے۔۔۔ یہاں اہل بیت کی محبت ہی کار فرما ہے
(یاد رہے کچھ لوگ سوچیں گے کہ اگر ایسا ہے تو انہوں نے عبدالملک کو کیوں بچایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں دو امر کار فرما ہیں ایک امام مالک کا اس سے روایت کرنا پھر عام لوگوں کو ابن زبیر اور عبدالملک سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن وہ کربلا کے معاملے میں حد سے حساس ہیں جو کوئی بولتا ہے اسے زندیقیت کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور حالات نہیں بدلے آج بھی ویسے ہی ہیں اور ابن خلدون کو اس بات کا احساس تھا اس لئے ان نے یزید کو ایک جگہ پر مجتھد کہتے ہوئے بھی اسے فاسق کہنا اپنی تاریخ کے لئے ضروری سمجھا۔)
لیکن اہل بیت سے محبت تو سب کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ دوسرے سے ناانصافی کی جائے۔۔

کاش ابن خلدون اپنی ہی کہی ہوئی اس بات یاد رکھتے
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد کے آنے ہوئے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑی اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرج کہ تحقیق برئے نام بھی نہی کی گٰئی او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"

علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن مجھے ان کا یہ معیار دوہری ہی لگا ہوسکتا ہے کچھ دوست اس کی مخالفت کریں یا ناراض ہوں تو ان سے پہلے ہی معزرت ہمارہ مقصد ابن خلدون کی شخصیت پر حملا کرنا نہیں بلکہ انہوں جو طریقہ اختیا ر کیا اس پر موقف دینا ہے جو کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس مین انہوں نے دوہرہ معیار اپنایا
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اپریل 28، 2018
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
36
علامہ ابن خلدون کو کون نہیں جانتا ان کا نام لیتے ہی تاریخ کا ایک رئیس ذہن میں آجاتا ہے ابن خلدون نے اپنی تاریخ لکھنے سے پہلے مقدمہ لکہا تھا جو کہ ان کی شہرت کا زیادہ سبب بنا اس میں انہوں نے ہر پہلو سے تاریخ کے بابت بات کی ہے اور اکثر مورخین کو لکیر کے فقیر کہا ہے یعنی انہوں بغیر سوچے سمجھے کذب و دجال بھی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے

اسی بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑیں اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرض کہ تحقیق برائے نام بھی نہی کی گٰے او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"

مگر افسوس کہ ابن خلدون بھی لکیر کے فقیر ہی رہے اور انہوں نے بھی اقعات کا کوئی معقول جواب نہ دیا اور نہ ہی ان پر تحقیقی کی اور تقلید میں تو انہوں نے حد ہی کردی ۔ علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن ان کے دہرے معیار کی جہلک آپ یہاں اگلیں سطور میں دیکہیں گے۔۔

علامہ ابن خلدون ہارون رشید کے شراب پینے اور راگ سننے کے واقعات پر لکھتے ہیں

"یہ جو افسانہ تراشہ گیا ہے کہ رشید شراب کا بڑا شوقین تھا اور اپنے ہم مجلس رفقاء کے ساتھ شراب میں مخمور رہتا تھا تو حاشائ اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھیں بھلا رشید کو ان بے حیائیوں سے کیا واسطہ وہ منصب خلافت کے فرائض دینداری اور عدالت سے انجام دیتا تھا پھر اسے علماءاور اولیاء کی صحبت بھی میسیر تھی کہ اگر اس طرف جاتا بھی تو صحبت مانع تھی "

پھر لکھتے ہیں رشید عالم اور سادہ مزاج تھا کیوں کہ اس کا زمانہ سلف کے قریب تھا اور مزید اس کے اور اس کے دادا ابو جعفر منصور کے درمیان تھوڑہ سا زمانہ تھا

علم دین میں منصور عباسی کا مقام بتا کر پھر وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
" جب رشید کے دادا ابو جعفر اور اس کا زمانہ قریب کا ہے ان جیسے صاحب تقوی کی عادتوں پر تربیت ہوئی اور اس قسم کے مکارم اخلاق ان کے دل میں جڑ پکڑ گئے تو وہ کیسے کہلے عام شراب کی مجلسین کر سکتا ہے
عہد جاہلیت میں شرفاء شراب سے پرہیز کیا کرتے تھے اور انگور ان کے علائقہ میں پیدا ہی نہیں ہوتے تھے اور میخواری کو بہت سے عرب معیوب سمجھتے تھے رشید اور ان کے خاندان کے بزرگ دینی و دنیوی برائیوں سے پرہیز کرتے تھے ان میں پرہیز گاری کے رجحانات پائے جاتے تھے۔"

یعنی ابن خلدون ہارون رشید کے شرب کی مجلسوں سے ان بنیادوں پر انکار کرتے ہیں
ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے
اس کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے
رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی
ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اور عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے

علامہ ابن خلدون نے ہارون رشید کے ان واقعات اور ان کی بہن عباسہ کے واقعات کو من گہڑت ثابت کرنے کے لئے مقدمہ میں 4 صفحہ تک خرچ کئے ہیں ۔۔۔لیکن جب معاملہ یزید بن معاویہ کا آتا ہے تو وہ برملا کہ دیتے ہیں کہ وہ گانا سننے کا شوقین تھا فاسق تھا ۔۔۔۔۔

دیکھئے وہی تاریخیں رشید کے بارے میں کہتے ہیں تو غلط یزید کے بارے میں کہتی ہیں تو صحیح اور ابن خلدون نے رشید کو بچانے کے لئے جو باتیں بنیاد بنائیں ہیں ہم وہ چیزیں یزید کے بارے میں لکھتے ہیں کاش ابن خلدون یہاں مصلحت کے بجائے حقیقت لکھنے کی جرئت کرتے ۔

"ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے"

یزید بن معاویہ کو صحابہ کی صحبت حاصل تھی ان کی دربار میں صحابہ رہتے تھے حضرت نعمان بن بشیر سے وہ مشورہ کرتے تھے جس کا ثبوت تاریخ میں موجود ہے اور نعمان انہیں امیر المومنین کہتے تھے۔

"رشید کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے "

یزید کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریب ہے اور صحابہ کا زمانہ ہے

"رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی"

کہاں ابو جعفر منصور تو کہا ں یزید کے دادا ابو سفیان اور یزیدکے والد معاویہ رضی اللہ عنہیزید کی تربیت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ہوئی۔

"ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اورشرفاء عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے"

توپھر یزید بن معاویہ کا خاندان بھی تو ان میں سے تھا

اب اگر ہارون رشید ان وجوہات کے بنیاد شرابی و فاسق نہیں ہوسکتا تو ابن خلدون رحمہ اللہ کس بنیاد پر یزید بن معاویہ کو بلا دہڑک فاسق کہ دیتے ہیں

یاد رہے ابوجعفر منصور کے خلاف بھی مدینہ کے لوگوں نے خروج کیا تھا اور اس دفعہ اہل بیت کے لوگوں نے کیا تھا تواس نے مدینہ اپنی فوج بھیجی تھی اسی ہی حرہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی تھی اس میں حضرت ابو بکر، عمر ، عثمان ، علی رضوان اللہ اور بہت سے مہاجرین اور انصار کی اولاد ایرانی عجمی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریبن اولاد کو قید کردیا گیا تھا جہاں سے اکثر کی لاشین ہی نکلیں تھیں یہ سب باتیں علامہ کے زہن میں یقنن ہونگے۔۔۔۔۔
پھر علامہ موصوف لکھتے ہیں"
اس قسم کےاجتہادی اختلاف پر جو لڑائیاں اول اسلام میں چھڑیں وہ یہ ہیں حضرت علی اور معاویہ ، عائشہ ، زبیر ، طلحہ کی علی سے لڑائی یا وہ جنگ جو امام حسین اور یزید کے درمیان ہوئی اور وہ جنگ جو کہ ابن زبیر اور عبدالملک کے بیچ ہوئیں "

یعنی علامہ ابن خلدون کے مطابق یہ سب واقعات اجتھاد کے بنا پر ہوئی یعنی امام حسین و یزید کے درمیان جو ہوا وہ بھی اجتھاد ہی تھا دونوں طرف کا۔ (مدینہ کی جنگ کا زکر ابن خلدون نے نہیں کیا)

"پھر آگے لکھتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک نہ تو امام حسین کی جنگ یزید کے ساتھ جائز تھی اور نہ ہی یزید کی جنگ امام حسین کے ساتھ جائز تھی
پھر لکھتے ہیں علی اور معاویہ میں جو جنگیں ہوئیں ان میں علی حق پر اور معاویہ اجتھاد خطا پر تھے پھر ابن زبیر اور عبدالملک کے تنازع میں بھی عبدالملک کو خطا کار نہیں ٹھرا سکتے رہا یزید کا معاملہ تو وہان تو یزید کا فسق اسے خطاکار بنا رہا ہے "

یعنی علامہ موصوف کہ رہے ہیں کہ امام حسین کی یزید کے ساتھ جنگ صحیح نہیں تھی اور نہ ہی یزید کی امام کے ساتھ اس سب میں علی ، معاویہ ، امام حسین ، ابن زبیر ، عبدالملک سب کے سب مجتھد ہیں اور مغفور ہیں سواء یزید کے کیون کہ وہ فاسق تھا اس لئے اس کا اجتہاد لائق نہیں تھا
کمال کی بات ہے نہ عبدالملک مجتھد ہے لیکن یزید نہیں مجھے حیرت ہے ابن خلدون دوسروں کو لکیر کے فقیر کہنے والے ہیں لیکن خؤد بھی ویسے ہیں رہے

" علامہ پھر لکھتے ہیں
پھر عبدالملک تو سب لوگوں میں عدالت عظمی رکھتے تھے اس کا سبب یہ ہے امام مالک نے ان کے فعل کو حجت بنایا ہے ۔"

اصل معاملہ ہی یہاں پر ہے عبدالملک کیوں مجتھد ہیں کیوں کہ امام مالک نے اس سے روایت کی ہے اور ابن خلدون مالکی مذہب رکھتے تھے یعنی تقلید جس پر وہ شروع میں تنقید کر آئے تھے یہاں خود تقلیدی تعصب کا شکار ہوئے

یہی ابن خلدون کہتے ہیں کہ یزید امام حسین کے ساتھ جو ہوا اس کازمیدار ہے اور یہ اس کا گناھ ہے تو ابن زبیر کا قتل عبدالملک کا گناھ کیوں نہیں اور پھر ابن خلدون یہ کیوں بھول گئے کہ ابن زبیر کے قتل کا حکم وہ بھی حرم میں عبدالملک نے دیا تھا اور ان کے قتل پر خوش ہوا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے امام مالک کی عدالت پر حرف آتا ہے اس لئے ابن خلدون بات گول کر گئے اور عبدالملک پھر بھی ثواب کے مستحق اور یزید جس نے قتل حسین کا حکم نہیں دیا اور ان کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا وہ نہ تو مجتھد ہے بلکہ جھمنی ہے اصل ماجرا یہ ہے کہ اگر ابن زبیر اہل بیت سے ہوتے تو عبدالمالک بھی یزید کی طرح گالیاں ہی لیتا مگر بات یہ ہے کہ ایک تو ابن زبیر ابی بکر کے نواسے ہیں اور دوسرہ وہ زبیر رضہ کے فرزند ہیں جو کہ علی کے ساتھ لڑے تھے اس لئے ان کی سیرت پر وار کرنا راویوں کے لئے آسان ہے ان کے خلاف بہت سی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ۔۔۔ سمجھنے والے سمجھ جائین گے۔۔۔

"علامہ پھر لکھتے ہیں مزید یہ کہ ابن عباس ، ابن عمر ، نے ابن زبیر کو چھوڑ کر عبدالملک سے بیعت کی تواس وقت ابن زبیر حجاز میں موجود تھے ۔۔"

عبدالملک کی عدالت اگر اس لئے ہے کہ ان کی بیعت ابن عباس ، ابن عمر نے کی تھی تو ان لوگوں نے یزید کی بیعت بھی کی تھی ابن خلدون کیوں بھول گئے

"پھر علامہ لکھتے ہیں
۔۔ بھر حال دونوں طرف مجتھد تھے اور ابن زبیر بھی شہید و مستحق ثواب ہیں یہی وہ خیال ہے جو تمام سلف صالحین ، صحابی و تابعین کے بارے میں رکھتے آرہے ہیں یہی بزرگ امت کے برگزیدہ اشخاص شمار ہوتے ہیں اگر ہم انہیں ہم ہی نشانہ بنائیں تو امت میں عدالت کہاں ملی گی ادہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم مرتین اور ثلاثا ثم یفشو الکذب( میرہ زمانہ کے لوگ بہترین ہیں اور ان کے بعد وہ لوگ ہونگے جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر ان کے بعد وہ لوگ آئیں گے (تبع تابعین) پھر جھوٹ کا دور دورہ ہوگا۔"

یعنی ، علی رضہ ، طلحہ رضہ، زبیر رضہ ، عائشہ رضہ ، معاویہ رضہ، عمرو بن العاص رضہ ، امام حسین رضہ ، ابن زبیر رضہ ، مروان ، عبدالملک، ابوجعفر منصور ، ہارون رشید یہ سب لوگ ابن خلدون کے مطابق مسلمانوں کا خون بھانے اور ان کا خؤن مباح کرنے کے باوجود ثواب کے مستحق ہیں اور جنتی ہیں یقینن جنتی ہیں بس ان سب میں ایک اکیلا ایسا شخص ہے جو کہ علی کی سیرت پر عمل کرتا ہے لیکن وہ نہ تو مجتھد ہے نہ تو تابعی ہے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد خیر القرون میں داخل ہے اور پھر جھنم میں بھی جانے والا ہے وہ ہے یزید بن معاویہ۔۔۔

مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ ابن خلدون جیسا مورخ بھی جو غیر جانبداری کو تاریخ کے لئے ضروری سمجھتا ہے خود ہی اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی امام مالک کی تقلید ،مشہور باتوں کو ویسے ہی رہنے دینا انہیں چھیڑنے سے پرہیز کرنا اور ایک بادشاہ کے سامنے اس تاریخ کو پیش کرنا جو کہ ابن خلدون کے مطابق اہل بیت سے ہے۔۔۔ یہاں اہل بیت کی محبت ہی کار فرما ہے
(یاد رہے کچھ لوگ سوچیں گے کہ اگر ایسا ہے تو انہوں نے عبدالملک کو کیوں بچایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں دو امر کار فرما ہیں ایک امام مالک کا اس سے روایت کرنا پھر عام لوگوں کو ابن زبیر اور عبدالملک سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن وہ کربلا کے معاملے میں حد سے حساس ہیں جو کوئی بولتا ہے اسے زندیقیت کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور حالات نہیں بدلے آج بھی ویسے ہی ہیں اور ابن خلدون کو اس بات کا احساس تھا اس لئے ان نے یزید کو ایک جگہ پر مجتھد کہتے ہوئے بھی اسے فاسق کہنا اپنی تاریخ کے لئے ضروری سمجھا۔)
لیکن اہل بیت سے محبت تو سب کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ دوسرے سے ناانصافی کی جائے۔۔

کاش ابن خلدون اپنی ہی کہی ہوئی اس بات یاد رکھتے
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد کے آنے ہوئے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑی اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرج کہ تحقیق برئے نام بھی نہی کی گٰئی او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"

علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن مجھے ان کا یہ معیار دوہری ہی لگا ہوسکتا ہے کچھ دوست اس کی مخالفت کریں یا ناراض ہوں تو ان سے پہلے ہی معزرت ہمارہ مقصد ابن خلدون کی شخصیت پر حملا کرنا نہیں بلکہ انہوں جو طریقہ اختیا ر کیا اس پر موقف دینا ہے جو کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس مین انہوں نے دوہرہ معیار اپنایا
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
اس قسم کے موضوعات جن سے اختلافی بحث و مباحث شروع ہو جائیں میرے خیال سے اس سے گریز کرنا چاہیے یزید عبدالملک بن مروان اور اس قسم کے دیگر لوگ مثلا ابن زیاد، مروان،حجاج بن یوسف یہ جمہور امت بلکہ اجماعی طور پر فاسق و فاجر ہی مانے جاتے ہیں اور اس بارے میں امت کے اکابرین کے کثیر اقوال ہیں اس لئے ان کو ہیرو بنا کر پیش نہ ہی کریں تو میرے خیال سے بہتر ہے کیونکہ اس سے پر ایک کثیر اختلافی بحث چھڑ جاتی ہےاللہ رحم کرے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اس قسم کے موضوعات جن سے اختلافی بحث و مباحث شروع ہو جائیں میرے خیال سے اس سے گریز کرنا چاہیے یزید عبدالملک بن مروان اور اس قسم کے دیگر لوگ مثلا ابن زیاد، مروان،حجاج بن یوسف یہ جمہور امت بلکہ اجماعی طور پر فاسق و فاجر ہی مانے جاتے ہیں اور اس بارے میں امت کے اکابرین کے کثیر اقوال ہیں اس لئے ان کو ہیرو بنا کر پیش نہ ہی کریں تو میرے خیال سے بہتر ہے کیونکہ اس سے پر ایک کثیر اختلافی بحث چھڑ جاتی ہےاللہ رحم کرے
اس قسم کے موضوعات کو "اختلافی رنگ" دینے والے درحقیقت میں یا تو خود رافضی ہیں یا ان سے بھی بڑھ کر رافضی نما اہل سنّت کے عوام و علماء ہیں- تاریخ کا مسلمہ اصول ہے کہ جب
راوی جانبدار ہو اور ہم مسلک ہو تو اس کی روایت اس مسلک سے متعلق قابل قبول نہیں ہو گی - دوسری اور تیسری صدی ہجری میں عباسی خلفاء کے چہیتوں نے ایسی روایات ایسے اندز میں گھڑیں کہ زمانے میں اس کو خوامہ خواہ "اجتماعیت" حاصل ہو گئی- اور کہا جانے لگا کہ "جب جمہور امت اجماعی طور پر یزید رحم الله اور اس کے ساتھ دوسرے وزراء اور حاکموں کو فاسق و فاجر کہتی ہے تو ہم کیوں نہ کہیں" اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ خلافت کے معملات و جھگڑے میں ایک فریق اہل بیعت سے تھا- لوگ قاتلین عثمان رضی اللّہ عنہ کو بھول کر قاتلین حسین رضی الله عنہ کے افسانے پڑھنے لگے-

حقیقی اہل سنّت میں سے کوئی ایسا نہیں جو یزید بن معاویہ رحم الله کو حسن و حسین رضی الله عنہ اور اہل بیعت سے برتر سمجھتا ہو اور میرے خیال میں یہ جائز بھی نہیں - ان کا اپنا ایک بلند مقام ہے- لیکن تاریخ کے مسخ حقائق کو بنیاد بنا کر یزید بن معاویہ رحم الله اور ان کے آباواجداد اور خاندان بنو امیہ کو فاسق و فاجر قرار دینا انتہا درجے کی زیادتی اور تعصب پسندی ہے - اس کو مان لینے سے دیگر اصحاب کرام رضوان الله اجمعین کے کرداروں پر ضرب پڑتی ہے کہ جو نفوس امر بلمروف و نہی عن منکر کے پیکر تھے- وہ اس وقت کہاں تھے جب ان کو معلوم تھا کہ یزید بن معاویہ موسیقی سنتا گانے بجاتا اور عورتوں سے زنا کرتا ہے ؟؟ کیا دیگر اصحاب کرام کے مقابلے میں صرف حسین رضی الله عنہ کی غرت جاگی جو وہ یزید بن معاویہ سے نبرد آزما ہوے ؟؟ کسی اور جلیل القدر ہستی نے حسین رضی الله عنہ کا (اس نام و نہاد جہاد عظیم) میں ساتھ کیوں نہ دیا؟؟ - یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ان منگھڑت قصّوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے پاس سے اب تک نہ مل سکے ہیں اور شاید کبھی نہ مل سکیں-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
دوسری اور تیسری صدی ہجری میں عباسی خلفاء کے چہیتوں نے ایسی روایات ایسے اندز میں گھڑیں کہ زمانے میں اس کو خوامہ خواہ "اجتماعیت" حاصل ہو گئی-
لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَة اَبَداً،وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة " (المستدرک الحاکم۱؍۱۱۶ح۳۹۹ وسندہ صحیح)
اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔
محترم ،
محمد علی جواد صاحب اس حدیث کے مطابق امت کا اجماع حجت ہے اور امت بلا وجہ یا بقول آں جناب کے خوامہ خواہ اجماع نہیں کریں گی یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ امت غلط بات پر اجماع نہیں کرسکتی یزید پر بھی امت جمع ہے کہ وہ فاسق ہے اور اس پر اہل علم کے اقوال موجود ہیں
امام ابن تیمیہ نے اس کو فاسق کہا ہے
شاہ ولی اللہ نے اس پر اجماع لکھا ہے
ابن حجر الھثیمی نے اجماعی فاسق کہا ہے
اور کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں یزید کو معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے فاسق اور شرابی کہا ہے یہ روایت پیش ہے اس کی سند کو بھی اچھی طرح چیک کر لیں



قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
[FONT=Nassim, IE Nassim]تاریخ الاسلام للذہبی ۵/۱۵۴

ان الفاظ کو پڑھ لیں اس میں صاف معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے یزید کو فاسق اور شرابی کہا ہے
[/FONT]
نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ
[FONT=Nassim, IE Nassim]انتظامیہ سے گزارش ہے کہ محمد علی جواد صاحب نے اس بحث کو شروع کیا ہے اس لئے مجھے بھی پورا موقعہ دیا جائے [/FONT]
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَة اَبَداً،وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة " (المستدرک الحاکم۱؍۱۱۶ح۳۹۹ وسندہ صحیح)
اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔
محترم ،
محمد علی جواد صاحب اس حدیث کے مطابق امت کا اجماع حجت ہے اور امت بلا وجہ یا بقول آں جناب کے خوامہ خواہ اجماع نہیں کریں گی یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ امت غلط بات پر اجماع نہیں کرسکتی یزید پر بھی امت جمع ہے کہ وہ فاسق ہے اور اس پر اہل علم کے اقوال موجود ہیں
امام ابن تیمیہ نے اس کو فاسق کہا ہے
شاہ ولی اللہ نے اس پر اجماع لکھا ہے
ابن حجر الھثیمی نے اجماعی فاسق کہا ہے
اور کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں یزید کو معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے فاسق اور شرابی کہا ہے یہ روایت پیش ہے اس کی سند کو بھی اچھی طرح چیک کر لیں



قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ عَوَانَةَ، وَأَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
[FONT=Nassim, IE Nassim]تاریخ الاسلام للذہبی ۵/۱۵۴

ان الفاظ کو پڑھ لیں اس میں صاف معقل بن سنان رضی اللہ عنہ نے یزید کو فاسق اور شرابی کہا ہے

[/FONT]
نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ
[FONT=Nassim, IE Nassim]انتظامیہ سے گزارش ہے کہ محمد علی جواد صاحب نے اس بحث کو شروع کیا ہے اس لئے مجھے بھی پورا موقعہ دیا جائے [/FONT]
لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَة اَبَداً،وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَة " (المستدرک الحاکم۱؍۱۱۶ح۳۹۹ وسندہ صحیح)


یہ روایت اور اس طرق کی باقی روایات "ضعیف" ہیں - امام بخاری ، امام عقیلی ، امام ابن ابی حاتم رحم الله وغیرہ نے ان روایات کو "ضعیف و منگھڑت قرار دیا ہے -جن میں ہے کہ "میری امّت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی"- اگر ایسا ہوتا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کبھی یہ نہ فرماتے کہ ١-امّت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا حتیٰ کہ قیامت قائم ہو گی (دیگر گروہ زمانے کے ساتھ گمراہ ہوتے رہینگے) ٢-میری امّت میں ٧٣ فرقے ہونگے سواے ایک کے تمام جہنم میں جائیں گے - ٣ قرب قیامت دین اسلام اجنبی ہو جائے گا وغیرہ -

موجودہ دور میں امّت کی اکثریت شرک و بدعات میں ملوث ہے - تو کیسے کہا جائے کہ امّت گمراہی پر جمع نہیں ہے- بلکہ معامله تو اس کے برعکس ہے - اکثریت
گمراہی کا شکار ہے-؟؟

باقی رہا یزید بن معاویہ رحم الله کا معامله- تو ان کے کردار کے حوالے سے یہ روایات بھی پڑھ لیں - شاید کہ آپ کی تسلی و تشفیع ہو جائے ؟؟

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]
ترجمہ:
جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمد بن حنفیہ (حضرت علی رضی الله عنہ کے فرزند) نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزید شراب پیتا ہے ، نماز یں چھوڑتا ہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمد بن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیسا تم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکا ہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیرکا متلاشی ، علم دین کاطالب پایا -

صحیح بخاری کی حدیث ہے

باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ
ترجمہ:
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گاڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
یہ روایت اور اس طرق کی باقی روایات "ضعیف" ہیں - امام بخاری ، امام عقیلی ، امام ابن ابی حاتم رحم الله وغیرہ نے ان روایات کو "ضعیف و منگھڑت قرار دیا ہے -جن میں ہے کہ "میری امّت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی"- اگر ایسا ہوتا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کبھی یہ نہ فرماتے کہ ١-امّت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا حتیٰ کہ قیامت قائم ہو گی (دیگر گروہ زمانے کے ساتھ گمراہ ہوتے رہینگے) ٢-میری امّت میں ٧٣ فرقے ہونگے سواے ایک کے تمام جہنم میں جائیں گے - ٣ قرب قیامت دین اسلام اجنبی ہو جائے گا وغیرہ -

موجودہ دور میں امّت کی اکثریت شرک و بدعات میں ملوث ہے - تو کیسے کہا جائے کہ امّت گمراہی پر جمع نہیں ہے- بلکہ معامله تو اس کے برعکس ہے - اکثریت
گمراہی کا شکار ہے-؟؟
محترم، محمد علی جواد
آپ خود اپنا لکھا بھول جاتے ہیں میں یاد دلا دیتا ہوں آپ نے اجتماعیت فرمایا تھا جمہور یا اکثریت نہیں اور میں نے اجماع کی ہی دلیل دی تھی جمہور یا اکثریت کی نہیں اپ نے جس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اس کو امت کے محدثین صحیح اور حسن فرما رہے ہیں اور اس کی سند بھی صحیح ہے شیخ زبیر علی زئی نے اس پر پوری تحقیق پیش کی ہے جو اس فورم پر موجود ہے لنک پیش ہے
دوسری بات اپ نے جو حدیث میرے رد میں پیش کی ہے وہ میری ہی زبردست دلیل ہے کیونکہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی یعنی بحثیت مجموعی امت کبھی گمراہ نہیں ہو گی اور امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا تو امت کی اکثریت گمراہ ہو سکتی ہے مگر مجموعی امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی کیونکہ ایک گروہ حق پر رہے گا۔
الجھا ہے پاوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]

موصوف صحابی کے ذاتی مشاہدے کے مقابلے پر تابعی کی بات کا اعتبار کر رہے ہیں جس بات پر معقل بن سنان بیعت توڑنے کو تیار ہو گئے اور یزید کے خلاف جنگ شروع کی ہے اب اپ کی اس روایت کی اسنادی حیثیت دیکھ لیتے ہیں ذرا امام المدائنی کا ترجمہ جاکر پڑھ امام حدیث کے علم کے حصول کے لئے بغداد سے باہر ہی نہیں گئے اور صخر بن جویریہ اپنے آخری ایام میں مدینہ سے باہر ہی نہیں گئے تو یہ روایت کب بیان ہوئی یہ ہے اپ کی پیش کردہ روایت کی حیثیت اور اس کے مقابلے پر صحابی رسول کا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے جس کی بنیاد پر وہ یزید کو فاسق اور شرابی فرما رہے ہیں اور صحابی کل عدول یہ اصول ہے تابعی کل عدول یہ کوئی اصول نہیں اس لئے یہ قول اگر ثابت بھی ہو تو صحابی رسول کے مقابلے بیت العنکبوت ہے
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
اب ذرا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حوالے سے بات کرتے ہیں یہ سب جاتنے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہ شروع سے یزید کی بیعت پر راضی ہی نہیں تھے جب سب نے بیعت کر لی تو انہوں نے بھی کر لی اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد ان سے متفق نہیں تھے اس لئے وہ واقعہ حرہ میں شہید بھی ہوئے مثلا۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابوبکر ابن عبداللہ بن عمر نے یزید کی بیعت توڑدی تھی اور اسی واقعہ حرہ میں شہید ہوئے تھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی اور ان کی زوجہ یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بہن یہ دونوں بیعت توڑنے والوں میں شامل تھے۔
 
Top