علامہ ابن خلدون کو کون نہیں جانتا ان کا نام لیتے ہی تاریخ کا ایک رئیس ذہن میں آجاتا ہے ابن خلدون نے اپنی تاریخ لکھنے سے پہلے مقدمہ لکہا تھا جو کہ ان کی شہرت کا زیادہ سبب بنا اس میں انہوں نے ہر پہلو سے تاریخ کے بابت بات کی ہے اور اکثر مورخین کو لکیر کے فقیر کہا ہے یعنی انہوں بغیر سوچے سمجھے کذب و دجال بھی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے
اسی بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑیں اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرض کہ تحقیق برائے نام بھی نہی کی گٰے او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"
مگر افسوس کہ ابن خلدون بھی لکیر کے فقیر ہی رہے اور انہوں نے بھی اقعات کا کوئی معقول جواب نہ دیا اور نہ ہی ان پر تحقیقی کی اور تقلید میں تو انہوں نے حد ہی کردی ۔ علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن ان کے دہرے معیار کی جہلک آپ یہاں اگلیں سطور میں دیکہیں گے۔۔
علامہ ابن خلدون ہارون رشید کے شراب پینے اور راگ سننے کے واقعات پر لکھتے ہیں
"یہ جو افسانہ تراشہ گیا ہے کہ رشید شراب کا بڑا شوقین تھا اور اپنے ہم مجلس رفقاء کے ساتھ شراب میں مخمور رہتا تھا تو حاشائ اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھیں بھلا رشید کو ان بے حیائیوں سے کیا واسطہ وہ منصب خلافت کے فرائض دینداری اور عدالت سے انجام دیتا تھا پھر اسے علماءاور اولیاء کی صحبت بھی میسیر تھی کہ اگر اس طرف جاتا بھی تو صحبت مانع تھی "
پھر لکھتے ہیں رشید عالم اور سادہ مزاج تھا کیوں کہ اس کا زمانہ سلف کے قریب تھا اور مزید اس کے اور اس کے دادا ابو جعفر منصور کے درمیان تھوڑہ سا زمانہ تھا
علم دین میں منصور عباسی کا مقام بتا کر پھر وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
" جب رشید کے دادا ابو جعفر اور اس کا زمانہ قریب کا ہے ان جیسے صاحب تقوی کی عادتوں پر تربیت ہوئی اور اس قسم کے مکارم اخلاق ان کے دل میں جڑ پکڑ گئے تو وہ کیسے کہلے عام شراب کی مجلسین کر سکتا ہے
عہد جاہلیت میں شرفاء شراب سے پرہیز کیا کرتے تھے اور انگور ان کے علائقہ میں پیدا ہی نہیں ہوتے تھے اور میخواری کو بہت سے عرب معیوب سمجھتے تھے رشید اور ان کے خاندان کے بزرگ دینی و دنیوی برائیوں سے پرہیز کرتے تھے ان میں پرہیز گاری کے رجحانات پائے جاتے تھے۔"
یعنی ابن خلدون ہارون رشید کے شرب کی مجلسوں سے ان بنیادوں پر انکار کرتے ہیں
ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے
اس کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے
رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی
ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اور عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے
علامہ ابن خلدون نے ہارون رشید کے ان واقعات اور ان کی بہن عباسہ کے واقعات کو من گہڑت ثابت کرنے کے لئے مقدمہ میں 4 صفحہ تک خرچ کئے ہیں ۔۔۔لیکن جب معاملہ یزید بن معاویہ کا آتا ہے تو وہ برملا کہ دیتے ہیں کہ وہ گانا سننے کا شوقین تھا فاسق تھا ۔۔۔۔۔
دیکھئے وہی تاریخیں رشید کے بارے میں کہتے ہیں تو غلط یزید کے بارے میں کہتی ہیں تو صحیح اور ابن خلدون نے رشید کو بچانے کے لئے جو باتیں بنیاد بنائیں ہیں ہم وہ چیزیں یزید کے بارے میں لکھتے ہیں کاش ابن خلدون یہاں مصلحت کے بجائے حقیقت لکھنے کی جرئت کرتے ۔
"ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے"
یزید بن معاویہ کو صحابہ کی صحبت حاصل تھی ان کی دربار میں صحابہ رہتے تھے حضرت نعمان بن بشیر سے وہ مشورہ کرتے تھے جس کا ثبوت تاریخ میں موجود ہے اور نعمان انہیں امیر المومنین کہتے تھے۔
"رشید کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے "
یزید کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریب ہے اور صحابہ کا زمانہ ہے
"رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی"
کہاں ابو جعفر منصور تو کہا ں یزید کے دادا ابو سفیان اور یزیدکے والد معاویہ رضی اللہ عنہیزید کی تربیت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ہوئی۔
"ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اورشرفاء عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے"
توپھر یزید بن معاویہ کا خاندان بھی تو ان میں سے تھا
اب اگر ہارون رشید ان وجوہات کے بنیاد شرابی و فاسق نہیں ہوسکتا تو ابن خلدون رحمہ اللہ کس بنیاد پر یزید بن معاویہ کو بلا دہڑک فاسق کہ دیتے ہیں
یاد رہے ابوجعفر منصور کے خلاف بھی مدینہ کے لوگوں نے خروج کیا تھا اور اس دفعہ اہل بیت کے لوگوں نے کیا تھا تواس نے مدینہ اپنی فوج بھیجی تھی اسی ہی حرہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی تھی اس میں حضرت ابو بکر، عمر ، عثمان ، علی رضوان اللہ اور بہت سے مہاجرین اور انصار کی اولاد ایرانی عجمی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریبن اولاد کو قید کردیا گیا تھا جہاں سے اکثر کی لاشین ہی نکلیں تھیں یہ سب باتیں علامہ کے زہن میں یقنن ہونگے۔۔۔۔۔
پھر علامہ موصوف لکھتے ہیں"
اس قسم کےاجتہادی اختلاف پر جو لڑائیاں اول اسلام میں چھڑیں وہ یہ ہیں حضرت علی اور معاویہ ، عائشہ ، زبیر ، طلحہ کی علی سے لڑائی یا وہ جنگ جو امام حسین اور یزید کے درمیان ہوئی اور وہ جنگ جو کہ ابن زبیر اور عبدالملک کے بیچ ہوئیں "
یعنی علامہ ابن خلدون کے مطابق یہ سب واقعات اجتھاد کے بنا پر ہوئی یعنی امام حسین و یزید کے درمیان جو ہوا وہ بھی اجتھاد ہی تھا دونوں طرف کا۔ (مدینہ کی جنگ کا زکر ابن خلدون نے نہیں کیا)
"پھر آگے لکھتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک نہ تو امام حسین کی جنگ یزید کے ساتھ جائز تھی اور نہ ہی یزید کی جنگ امام حسین کے ساتھ جائز تھی
پھر لکھتے ہیں علی اور معاویہ میں جو جنگیں ہوئیں ان میں علی حق پر اور معاویہ اجتھاد خطا پر تھے پھر ابن زبیر اور عبدالملک کے تنازع میں بھی عبدالملک کو خطا کار نہیں ٹھرا سکتے رہا یزید کا معاملہ تو وہان تو یزید کا فسق اسے خطاکار بنا رہا ہے "
یعنی علامہ موصوف کہ رہے ہیں کہ امام حسین کی یزید کے ساتھ جنگ صحیح نہیں تھی اور نہ ہی یزید کی امام کے ساتھ اس سب میں علی ، معاویہ ، امام حسین ، ابن زبیر ، عبدالملک سب کے سب مجتھد ہیں اور مغفور ہیں سواء یزید کے کیون کہ وہ فاسق تھا اس لئے اس کا اجتہاد لائق نہیں تھا
کمال کی بات ہے نہ عبدالملک مجتھد ہے لیکن یزید نہیں مجھے حیرت ہے ابن خلدون دوسروں کو لکیر کے فقیر کہنے والے ہیں لیکن خؤد بھی ویسے ہیں رہے
" علامہ پھر لکھتے ہیں
پھر عبدالملک تو سب لوگوں میں عدالت عظمی رکھتے تھے اس کا سبب یہ ہے امام مالک نے ان کے فعل کو حجت بنایا ہے ۔"
اصل معاملہ ہی یہاں پر ہے عبدالملک کیوں مجتھد ہیں کیوں کہ امام مالک نے اس سے روایت کی ہے اور ابن خلدون مالکی مذہب رکھتے تھے یعنی تقلید جس پر وہ شروع میں تنقید کر آئے تھے یہاں خود تقلیدی تعصب کا شکار ہوئے
یہی ابن خلدون کہتے ہیں کہ یزید امام حسین کے ساتھ جو ہوا اس کازمیدار ہے اور یہ اس کا گناھ ہے تو ابن زبیر کا قتل عبدالملک کا گناھ کیوں نہیں اور پھر ابن خلدون یہ کیوں بھول گئے کہ ابن زبیر کے قتل کا حکم وہ بھی حرم میں عبدالملک نے دیا تھا اور ان کے قتل پر خوش ہوا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے امام مالک کی عدالت پر حرف آتا ہے اس لئے ابن خلدون بات گول کر گئے اور عبدالملک پھر بھی ثواب کے مستحق اور یزید جس نے قتل حسین کا حکم نہیں دیا اور ان کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا وہ نہ تو مجتھد ہے بلکہ جھمنی ہے اصل ماجرا یہ ہے کہ اگر ابن زبیر اہل بیت سے ہوتے تو عبدالمالک بھی یزید کی طرح گالیاں ہی لیتا مگر بات یہ ہے کہ ایک تو ابن زبیر ابی بکر کے نواسے ہیں اور دوسرہ وہ زبیر رضہ کے فرزند ہیں جو کہ علی کے ساتھ لڑے تھے اس لئے ان کی سیرت پر وار کرنا راویوں کے لئے آسان ہے ان کے خلاف بہت سی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ۔۔۔ سمجھنے والے سمجھ جائین گے۔۔۔
"علامہ پھر لکھتے ہیں مزید یہ کہ ابن عباس ، ابن عمر ، نے ابن زبیر کو چھوڑ کر عبدالملک سے بیعت کی تواس وقت ابن زبیر حجاز میں موجود تھے ۔۔"
عبدالملک کی عدالت اگر اس لئے ہے کہ ان کی بیعت ابن عباس ، ابن عمر نے کی تھی تو ان لوگوں نے یزید کی بیعت بھی کی تھی ابن خلدون کیوں بھول گئے
"پھر علامہ لکھتے ہیں
۔۔ بھر حال دونوں طرف مجتھد تھے اور ابن زبیر بھی شہید و مستحق ثواب ہیں یہی وہ خیال ہے جو تمام سلف صالحین ، صحابی و تابعین کے بارے میں رکھتے آرہے ہیں یہی بزرگ امت کے برگزیدہ اشخاص شمار ہوتے ہیں اگر ہم انہیں ہم ہی نشانہ بنائیں تو امت میں عدالت کہاں ملی گی ادہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم مرتین اور ثلاثا ثم یفشو الکذب( میرہ زمانہ کے لوگ بہترین ہیں اور ان کے بعد وہ لوگ ہونگے جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر ان کے بعد وہ لوگ آئیں گے (تبع تابعین) پھر جھوٹ کا دور دورہ ہوگا۔"
یعنی ، علی رضہ ، طلحہ رضہ، زبیر رضہ ، عائشہ رضہ ، معاویہ رضہ، عمرو بن العاص رضہ ، امام حسین رضہ ، ابن زبیر رضہ ، مروان ، عبدالملک، ابوجعفر منصور ، ہارون رشید یہ سب لوگ ابن خلدون کے مطابق مسلمانوں کا خون بھانے اور ان کا خؤن مباح کرنے کے باوجود ثواب کے مستحق ہیں اور جنتی ہیں یقینن جنتی ہیں بس ان سب میں ایک اکیلا ایسا شخص ہے جو کہ علی کی سیرت پر عمل کرتا ہے لیکن وہ نہ تو مجتھد ہے نہ تو تابعی ہے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد خیر القرون میں داخل ہے اور پھر جھنم میں بھی جانے والا ہے وہ ہے یزید بن معاویہ۔۔۔
مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ ابن خلدون جیسا مورخ بھی جو غیر جانبداری کو تاریخ کے لئے ضروری سمجھتا ہے خود ہی اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی امام مالک کی تقلید ،مشہور باتوں کو ویسے ہی رہنے دینا انہیں چھیڑنے سے پرہیز کرنا اور ایک بادشاہ کے سامنے اس تاریخ کو پیش کرنا جو کہ ابن خلدون کے مطابق اہل بیت سے ہے۔۔۔ یہاں اہل بیت کی محبت ہی کار فرما ہے
(یاد رہے کچھ لوگ سوچیں گے کہ اگر ایسا ہے تو انہوں نے عبدالملک کو کیوں بچایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں دو امر کار فرما ہیں ایک امام مالک کا اس سے روایت کرنا پھر عام لوگوں کو ابن زبیر اور عبدالملک سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن وہ کربلا کے معاملے میں حد سے حساس ہیں جو کوئی بولتا ہے اسے زندیقیت کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور حالات نہیں بدلے آج بھی ویسے ہی ہیں اور ابن خلدون کو اس بات کا احساس تھا اس لئے ان نے یزید کو ایک جگہ پر مجتھد کہتے ہوئے بھی اسے فاسق کہنا اپنی تاریخ کے لئے ضروری سمجھا۔)
لیکن اہل بیت سے محبت تو سب کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ دوسرے سے ناانصافی کی جائے۔۔
کاش ابن خلدون اپنی ہی کہی ہوئی اس بات یاد رکھتے
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد کے آنے ہوئے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑی اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرج کہ تحقیق برئے نام بھی نہی کی گٰئی او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"
علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن مجھے ان کا یہ معیار دوہری ہی لگا ہوسکتا ہے کچھ دوست اس کی مخالفت کریں یا ناراض ہوں تو ان سے پہلے ہی معزرت ہمارہ مقصد ابن خلدون کی شخصیت پر حملا کرنا نہیں بلکہ انہوں جو طریقہ اختیا ر کیا اس پر موقف دینا ہے جو کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس مین انہوں نے دوہرہ معیار اپنایا
اسی بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد میں آنے والے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑیں اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرض کہ تحقیق برائے نام بھی نہی کی گٰے او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"
مگر افسوس کہ ابن خلدون بھی لکیر کے فقیر ہی رہے اور انہوں نے بھی اقعات کا کوئی معقول جواب نہ دیا اور نہ ہی ان پر تحقیقی کی اور تقلید میں تو انہوں نے حد ہی کردی ۔ علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن ان کے دہرے معیار کی جہلک آپ یہاں اگلیں سطور میں دیکہیں گے۔۔
علامہ ابن خلدون ہارون رشید کے شراب پینے اور راگ سننے کے واقعات پر لکھتے ہیں
"یہ جو افسانہ تراشہ گیا ہے کہ رشید شراب کا بڑا شوقین تھا اور اپنے ہم مجلس رفقاء کے ساتھ شراب میں مخمور رہتا تھا تو حاشائ اللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھیں بھلا رشید کو ان بے حیائیوں سے کیا واسطہ وہ منصب خلافت کے فرائض دینداری اور عدالت سے انجام دیتا تھا پھر اسے علماءاور اولیاء کی صحبت بھی میسیر تھی کہ اگر اس طرف جاتا بھی تو صحبت مانع تھی "
پھر لکھتے ہیں رشید عالم اور سادہ مزاج تھا کیوں کہ اس کا زمانہ سلف کے قریب تھا اور مزید اس کے اور اس کے دادا ابو جعفر منصور کے درمیان تھوڑہ سا زمانہ تھا
علم دین میں منصور عباسی کا مقام بتا کر پھر وہ لکھتے ہیں ۔۔۔
" جب رشید کے دادا ابو جعفر اور اس کا زمانہ قریب کا ہے ان جیسے صاحب تقوی کی عادتوں پر تربیت ہوئی اور اس قسم کے مکارم اخلاق ان کے دل میں جڑ پکڑ گئے تو وہ کیسے کہلے عام شراب کی مجلسین کر سکتا ہے
عہد جاہلیت میں شرفاء شراب سے پرہیز کیا کرتے تھے اور انگور ان کے علائقہ میں پیدا ہی نہیں ہوتے تھے اور میخواری کو بہت سے عرب معیوب سمجھتے تھے رشید اور ان کے خاندان کے بزرگ دینی و دنیوی برائیوں سے پرہیز کرتے تھے ان میں پرہیز گاری کے رجحانات پائے جاتے تھے۔"
یعنی ابن خلدون ہارون رشید کے شرب کی مجلسوں سے ان بنیادوں پر انکار کرتے ہیں
ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے
اس کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے
رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی
ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اور عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے
علامہ ابن خلدون نے ہارون رشید کے ان واقعات اور ان کی بہن عباسہ کے واقعات کو من گہڑت ثابت کرنے کے لئے مقدمہ میں 4 صفحہ تک خرچ کئے ہیں ۔۔۔لیکن جب معاملہ یزید بن معاویہ کا آتا ہے تو وہ برملا کہ دیتے ہیں کہ وہ گانا سننے کا شوقین تھا فاسق تھا ۔۔۔۔۔
دیکھئے وہی تاریخیں رشید کے بارے میں کہتے ہیں تو غلط یزید کے بارے میں کہتی ہیں تو صحیح اور ابن خلدون نے رشید کو بچانے کے لئے جو باتیں بنیاد بنائیں ہیں ہم وہ چیزیں یزید کے بارے میں لکھتے ہیں کاش ابن خلدون یہاں مصلحت کے بجائے حقیقت لکھنے کی جرئت کرتے ۔
"ہارون رشید کو علماء اور اولیاء کی صحبت تھی یعنی وہ اس کی دربار میں رہتے تھے"
یزید بن معاویہ کو صحابہ کی صحبت حاصل تھی ان کی دربار میں صحابہ رہتے تھے حضرت نعمان بن بشیر سے وہ مشورہ کرتے تھے جس کا ثبوت تاریخ میں موجود ہے اور نعمان انہیں امیر المومنین کہتے تھے۔
"رشید کا زمانہ اور سلف صالحین کا زمانہ (یعنی صحابہ و تابعین ) قریب ہے "
یزید کا زمانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے قریب ہے اور صحابہ کا زمانہ ہے
"رشید کا دادا ابو جعفر منصور بہت ہی پرہیزگار تھا اور رشید کی تربیت ان کی نگرانی میں ہوئی"
کہاں ابو جعفر منصور تو کہا ں یزید کے دادا ابو سفیان اور یزیدکے والد معاویہ رضی اللہ عنہیزید کی تربیت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں ہوئی۔
"ہارون رشید کا خاندان شرافاء میں سے تھا اورشرفاء عرب جاہلیت میں بھی شراب سے پرہیز کرتے تھے"
توپھر یزید بن معاویہ کا خاندان بھی تو ان میں سے تھا
اب اگر ہارون رشید ان وجوہات کے بنیاد شرابی و فاسق نہیں ہوسکتا تو ابن خلدون رحمہ اللہ کس بنیاد پر یزید بن معاویہ کو بلا دہڑک فاسق کہ دیتے ہیں
یاد رہے ابوجعفر منصور کے خلاف بھی مدینہ کے لوگوں نے خروج کیا تھا اور اس دفعہ اہل بیت کے لوگوں نے کیا تھا تواس نے مدینہ اپنی فوج بھیجی تھی اسی ہی حرہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی تھی اس میں حضرت ابو بکر، عمر ، عثمان ، علی رضوان اللہ اور بہت سے مہاجرین اور انصار کی اولاد ایرانی عجمی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوئی تھی اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریبن اولاد کو قید کردیا گیا تھا جہاں سے اکثر کی لاشین ہی نکلیں تھیں یہ سب باتیں علامہ کے زہن میں یقنن ہونگے۔۔۔۔۔
پھر علامہ موصوف لکھتے ہیں"
اس قسم کےاجتہادی اختلاف پر جو لڑائیاں اول اسلام میں چھڑیں وہ یہ ہیں حضرت علی اور معاویہ ، عائشہ ، زبیر ، طلحہ کی علی سے لڑائی یا وہ جنگ جو امام حسین اور یزید کے درمیان ہوئی اور وہ جنگ جو کہ ابن زبیر اور عبدالملک کے بیچ ہوئیں "
یعنی علامہ ابن خلدون کے مطابق یہ سب واقعات اجتھاد کے بنا پر ہوئی یعنی امام حسین و یزید کے درمیان جو ہوا وہ بھی اجتھاد ہی تھا دونوں طرف کا۔ (مدینہ کی جنگ کا زکر ابن خلدون نے نہیں کیا)
"پھر آگے لکھتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک نہ تو امام حسین کی جنگ یزید کے ساتھ جائز تھی اور نہ ہی یزید کی جنگ امام حسین کے ساتھ جائز تھی
پھر لکھتے ہیں علی اور معاویہ میں جو جنگیں ہوئیں ان میں علی حق پر اور معاویہ اجتھاد خطا پر تھے پھر ابن زبیر اور عبدالملک کے تنازع میں بھی عبدالملک کو خطا کار نہیں ٹھرا سکتے رہا یزید کا معاملہ تو وہان تو یزید کا فسق اسے خطاکار بنا رہا ہے "
یعنی علامہ موصوف کہ رہے ہیں کہ امام حسین کی یزید کے ساتھ جنگ صحیح نہیں تھی اور نہ ہی یزید کی امام کے ساتھ اس سب میں علی ، معاویہ ، امام حسین ، ابن زبیر ، عبدالملک سب کے سب مجتھد ہیں اور مغفور ہیں سواء یزید کے کیون کہ وہ فاسق تھا اس لئے اس کا اجتہاد لائق نہیں تھا
کمال کی بات ہے نہ عبدالملک مجتھد ہے لیکن یزید نہیں مجھے حیرت ہے ابن خلدون دوسروں کو لکیر کے فقیر کہنے والے ہیں لیکن خؤد بھی ویسے ہیں رہے
" علامہ پھر لکھتے ہیں
پھر عبدالملک تو سب لوگوں میں عدالت عظمی رکھتے تھے اس کا سبب یہ ہے امام مالک نے ان کے فعل کو حجت بنایا ہے ۔"
اصل معاملہ ہی یہاں پر ہے عبدالملک کیوں مجتھد ہیں کیوں کہ امام مالک نے اس سے روایت کی ہے اور ابن خلدون مالکی مذہب رکھتے تھے یعنی تقلید جس پر وہ شروع میں تنقید کر آئے تھے یہاں خود تقلیدی تعصب کا شکار ہوئے
یہی ابن خلدون کہتے ہیں کہ یزید امام حسین کے ساتھ جو ہوا اس کازمیدار ہے اور یہ اس کا گناھ ہے تو ابن زبیر کا قتل عبدالملک کا گناھ کیوں نہیں اور پھر ابن خلدون یہ کیوں بھول گئے کہ ابن زبیر کے قتل کا حکم وہ بھی حرم میں عبدالملک نے دیا تھا اور ان کے قتل پر خوش ہوا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سے امام مالک کی عدالت پر حرف آتا ہے اس لئے ابن خلدون بات گول کر گئے اور عبدالملک پھر بھی ثواب کے مستحق اور یزید جس نے قتل حسین کا حکم نہیں دیا اور ان کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا وہ نہ تو مجتھد ہے بلکہ جھمنی ہے اصل ماجرا یہ ہے کہ اگر ابن زبیر اہل بیت سے ہوتے تو عبدالمالک بھی یزید کی طرح گالیاں ہی لیتا مگر بات یہ ہے کہ ایک تو ابن زبیر ابی بکر کے نواسے ہیں اور دوسرہ وہ زبیر رضہ کے فرزند ہیں جو کہ علی کے ساتھ لڑے تھے اس لئے ان کی سیرت پر وار کرنا راویوں کے لئے آسان ہے ان کے خلاف بہت سی غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ۔۔۔ سمجھنے والے سمجھ جائین گے۔۔۔
"علامہ پھر لکھتے ہیں مزید یہ کہ ابن عباس ، ابن عمر ، نے ابن زبیر کو چھوڑ کر عبدالملک سے بیعت کی تواس وقت ابن زبیر حجاز میں موجود تھے ۔۔"
عبدالملک کی عدالت اگر اس لئے ہے کہ ان کی بیعت ابن عباس ، ابن عمر نے کی تھی تو ان لوگوں نے یزید کی بیعت بھی کی تھی ابن خلدون کیوں بھول گئے
"پھر علامہ لکھتے ہیں
۔۔ بھر حال دونوں طرف مجتھد تھے اور ابن زبیر بھی شہید و مستحق ثواب ہیں یہی وہ خیال ہے جو تمام سلف صالحین ، صحابی و تابعین کے بارے میں رکھتے آرہے ہیں یہی بزرگ امت کے برگزیدہ اشخاص شمار ہوتے ہیں اگر ہم انہیں ہم ہی نشانہ بنائیں تو امت میں عدالت کہاں ملی گی ادہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم مرتین اور ثلاثا ثم یفشو الکذب( میرہ زمانہ کے لوگ بہترین ہیں اور ان کے بعد وہ لوگ ہونگے جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر ان کے بعد وہ لوگ آئیں گے (تبع تابعین) پھر جھوٹ کا دور دورہ ہوگا۔"
یعنی ، علی رضہ ، طلحہ رضہ، زبیر رضہ ، عائشہ رضہ ، معاویہ رضہ، عمرو بن العاص رضہ ، امام حسین رضہ ، ابن زبیر رضہ ، مروان ، عبدالملک، ابوجعفر منصور ، ہارون رشید یہ سب لوگ ابن خلدون کے مطابق مسلمانوں کا خون بھانے اور ان کا خؤن مباح کرنے کے باوجود ثواب کے مستحق ہیں اور جنتی ہیں یقینن جنتی ہیں بس ان سب میں ایک اکیلا ایسا شخص ہے جو کہ علی کی سیرت پر عمل کرتا ہے لیکن وہ نہ تو مجتھد ہے نہ تو تابعی ہے نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد خیر القرون میں داخل ہے اور پھر جھنم میں بھی جانے والا ہے وہ ہے یزید بن معاویہ۔۔۔
مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ ابن خلدون جیسا مورخ بھی جو غیر جانبداری کو تاریخ کے لئے ضروری سمجھتا ہے خود ہی اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی امام مالک کی تقلید ،مشہور باتوں کو ویسے ہی رہنے دینا انہیں چھیڑنے سے پرہیز کرنا اور ایک بادشاہ کے سامنے اس تاریخ کو پیش کرنا جو کہ ابن خلدون کے مطابق اہل بیت سے ہے۔۔۔ یہاں اہل بیت کی محبت ہی کار فرما ہے
(یاد رہے کچھ لوگ سوچیں گے کہ اگر ایسا ہے تو انہوں نے عبدالملک کو کیوں بچایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں دو امر کار فرما ہیں ایک امام مالک کا اس سے روایت کرنا پھر عام لوگوں کو ابن زبیر اور عبدالملک سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن وہ کربلا کے معاملے میں حد سے حساس ہیں جو کوئی بولتا ہے اسے زندیقیت کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور حالات نہیں بدلے آج بھی ویسے ہی ہیں اور ابن خلدون کو اس بات کا احساس تھا اس لئے ان نے یزید کو ایک جگہ پر مجتھد کہتے ہوئے بھی اسے فاسق کہنا اپنی تاریخ کے لئے ضروری سمجھا۔)
لیکن اہل بیت سے محبت تو سب کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہے کہ دوسرے سے ناانصافی کی جائے۔۔
کاش ابن خلدون اپنی ہی کہی ہوئی اس بات یاد رکھتے
"
ہمارے بڑے بڑے اسلامی مورخین نے تاریخیں لکھیں اور واقعات پورے پورے کلمبند کردئے لیکن بعد کے آنے ہوئے بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹ اور خود ساختہ افسانے ملادئے اوہام خیالات بھر دئے اور کمزور منقولہ اور خود تراشہ روایات سے بھر دئے پھر بعد میں اآنے والے لکیر کے فقیر بن کر ان کے راستے پر چل پڑے جو واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلا کم ہم تک پھنچا دئے انہوں نے واقعات کے اسباب پر غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان کی رعایت مدنظر رکھی اور بے بنیاد اور اڑائی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑی اور نہ ان کا معقول جواب دیا غرج کہ تحقیق برئے نام بھی نہی کی گٰئی او غلط خبرین میں اغلاط اوہام خبروں کے ہم نسب ہم دم ہم قدم ہیں تقلید انسانوں کی طبیعتوں میں راسک ہوگئی اور اپنی جڑین پلا چکی ہے"
علامہ ابن خلدون بہت بڑے مورخ ہیں لیکن مجھے ان کا یہ معیار دوہری ہی لگا ہوسکتا ہے کچھ دوست اس کی مخالفت کریں یا ناراض ہوں تو ان سے پہلے ہی معزرت ہمارہ مقصد ابن خلدون کی شخصیت پر حملا کرنا نہیں بلکہ انہوں جو طریقہ اختیا ر کیا اس پر موقف دینا ہے جو کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس مین انہوں نے دوہرہ معیار اپنایا