• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول و ضوابط

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(گیارہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

گزشتہ قسط میں مطلوبہ کتاب کے قلمی نسخوں کو جمع کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا تھا ۔ اس تحریر سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ مرحلہ بڑا کٹھن اور دشوار کن مرحلہ ہے۔ ایک محقق بسا اوقات اللہ کے فضل وکرم سے کئی قلمی نسخے جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جب کہ بسا اوقات ایک سے زائد نسخہ ان کے ہاتھ نہیں لگتا۔

اگر متعدد قلمی نسخے جمع کرنے میں وہ کامیاب ہو جائے تو انہیں اگلے مرحلے میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اور وہ (دوسرا مرحلہ) ہے:

مطلوبہ نسخوں کو جمع کرنے کے بعد ان کی مناسب ترتیب اور نسخۃ الاصل کا انتخاب:

مطلوبہ نسخے جمع کرنے کے بعد ان نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اور ان میں سے کسی ایک نسخے کو نسخۃ الاصل بنانا ہے۔

نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے مناسب ترتیب یہ ہوگی:

1 – مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ:

اگر ان میں سے کوئی مؤلف کتاب کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے تو اسے سب سے اوپر رکھا جائےگا اور اسے ہی نسخۃ الاصل بنایا جائےگا ۔ اسے نسخہ عالیہ اور نسخۃ الام بھی کہتے ہیں۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے یا نہیں اس کی پہچان کیسے ہو؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اسے پہچاننے کے کئی طریقے ہیں:
1- مخطوط کے پہلے اور آخری صفحے کو بغور پڑھے۔ یہ دونوں صفحے بڑے قیمتی ہیں۔ اگر مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہو تو اس میں غالبا مصنف کی تعریف وتوصیف والے علمی القاب نہیں ہوتے ۔ غالبا اس کے شروع میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں: "كتبها بيده العبد الفقير إلى ربه"، اور آخری صفحے پر بھی اسی طرح تواضع سے پر کلمات موجود ہوتے ہیں۔ نیز اس میں ان کا نام مع ولدیت اور سن کتابت بھی مرقوم ہوتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ سنہ ان کی سن وفات سے کئی سال پہلے کا ہوتا ہے۔
جب کہ اگر وہ کسی ناسخ (کاتب) کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہو تو اس میں مصنف کی تعریف وتوصیف سے پر علمی القابات ہوتے ہیں۔ مثلا: "قال الإمام الجليل العلامة فريد عصره ووحيد دهره"۔
مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ پہچاننے کی یہ ایک جوہری علامت ہے ۔

2- محقق کے پاس مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا کسی دوسری کتاب کا کوئی نسخہ ہو ۔ اس سے وہ دونوں نسخوں کے خطوط اور لکھنے کے طریقے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے یا نہیں۔

3- اس مخطوط کا بنظر غائر مطالعہ کرے۔ کسی کاتب کے نسخے میں بعض ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جو مصنف کتاب کے نسخے میں عموما نہیں ہوتیں۔ مثلا کسی جگہ سے ایک یا دو سطر ساقط ہونا، کئی جگہوں پر تصحیفات وتحریفات کا موجود ہونا، مشکل کلمات پر حرکات کا نہ ہونا یا کثرت سے حرکات کا موجود ہونا۔ کیونکہ کاتب سے نقل کرتے وقت سبقت نظرکی بنا پر ایک دو سطروں کا ساقط ہونا عام ہے۔ جب کہ مصنف اپنے ہاتھ سے لکھتے وقت ایسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مشکل الفاظ کا نہیں علم ہوتا ہے اور ان پر حرکات لگانے کا وہ اہتمام کرتے ہیں۔ جب کہ کاتب کے پاس یہ علم نہیں ہوتا۔

4- کاتب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میں جو تاریخ کتابت درج ہوتی ہے وہ عموما مصنف کی وفات کے بعد کی تاریخ ہوتی ہے۔ اگر مصنف کے وفات کے بعد کی تاریخ ہے تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ نہیں ہے۔

اگر یہ کنفرم ہو جائے کہ فلاں نسخہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے تو اسے نسخۃ الاصل بنانے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ ایسی صورت میں باقی دوسرے نسخے معاون ومددگار نسخے ہوں گے۔ اور بوقت ضرورت ان سے مدد لی جائےگی۔ مثلا : محقق کو مصنف کے لکھے ہوئے نسخے میں کسی کلمہ کو پڑھنے میں پریشانی ہو، یا اس میں کوئی کلمہ مٹا ہوا یا پھٹا ہوا ہونے کی وجہ سے پڑھنے کے قابل نہ ہو۔ یا کوئی صفحہ ساقط ہو، وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں معاون نسخوں سے مدد لی جائےگی اور اس کی تکمیل کی جائےگی۔

2 – وہ نسخہ جسے مؤلف کتاب نے املا کرایا ہے، یا ان پر وہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی اشاعت کی اجازت دی ہے:

اگر کوئی ایسا نسخہ دستیاب نہ ہو سکے جسے مؤلف کتاب نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا ہو (بلکہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے کی کتابوں میں شاذ ونادر ہی مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل پاتا ہے) تو پھر اس نسخے کو فوقیت حاصل ہوگی جسے انہوں نے املا کرایا ہے، یا ان کے سامنے وہ نسخہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی روایت (اشاعت) کی اجازت دی ہے تو یہ سب سے اعلی درجے کا نسخہ مانا جائےگا، اور اسے ہی نسخۃ الاصل کا درجہ حاصل ہوگا۔

اگر اس طرح کے ایک سے زائد نسخے ہوں تو اس نسخہ کو فوقیت حاصل ہوگی جسے مؤلف کتاب نے سب سے آخر میں منظر عام پر لایا ہے۔

3 – جسے مصنف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو:

اور اگر اس طرح کا بھی کوئی نسخہ دستیاب نہ ہو سکے تو ثانوی (دویم درجے کے) نسخوں کی طرف رجوع کیا جائےگا ۔ ان میں سب سے اوپر اسے جگہ ملے گی جسے مؤلف کے نسخے سے نسخ (نقل) کیا گیا ہو یا اس نسخے سے نقل کیا گیا ہو جو کہ مصنف کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے نقل شدہ ہے۔

4 - وہ نسخہ جسے کسی معروف عالم دین نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو گرچہ وہ مصنف کے نسخے سے نقل شدہ نہ ہو۔

5 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے میں لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع (مطلب شاگردوں نے استاد پر اسے پڑھا ہو) موجود ہو۔

6 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے کے بعد لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع موجود ہو۔

7 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے کے بعد لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع موجود نہ ہو۔

8 – جس نسخہ کی تاریخ کتابت کا علم نہ ہو۔

9 – جو نسخہ مختلف طرح کے آفات (جن میں سے بعض کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے) کا شکار ہو۔

نسخوں کی یہی ترتیب اصل ہے، لیکن بعض خاص قرائن کی بنیاد پر خلاف اصل کسی نسخے کو کسی نسخے پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ مثلا مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ تو موجود ہو لیکن اس میں کثرت سے سقط ہو۔ یا بعض صفحات ساقط ہوں، یا بعض جگہوں سے سیاہی مٹ گئی ہو، یا رطوبت کی وجہ سے پڑھنا ممکن نہ ہو، یا اس نسخے کے بعد انہوں نے اس میں حذف واضافہ کیا ہو اور یہ ان کے کسی شاگرد کے نسخے میں موجود ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ ضوابط کا تعلق اس حالت سے ہے جب محقق کے پاس کئی ایک قلمی نسخے ہوں۔ لیکن اگر محقق کو صرف ایک ہی قلمی نسخہ (جسے نسخۂ فریدہ کہا جاتا ہے) میسر ہو سکے تو اس صورت میں بھی -بطور استثناء- تحقیق کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے کچھ شروط وضوابط ہیں، جو درج ذیل ہیں:

1 - کتاب اپنے باب میں قیمتی اور بڑی اہمیت کی حامل ہو اور غالب گمان ہو کہ اس کا کوئی دوسرا نسخہ دنیا میں موجود نہیں ہے۔

2 - کتاب اب تک چھپی ہوئی نہ ہو ۔

3 – کتاب چھپی ہوئی تو ہو لیکن اس میں حد سے زیادہ غلطیاں ہوں۔

4 - محققِ کتاب کو مؤلف ِکتاب کے مصادر پر عبور حاصل ہو اور بوقت ضرورت وہ اصول کی طرف رجوع کر سکتا ہو۔

5 - اس زمانے کے مصنفین نے جن مصادر کی طرف کثرت سے رجوع کیا ہے محقق کو ان کی جانکاری ہو۔

6 - بعد میں آنے والے جن اہل علم نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کی عبارتیں نقل کی ہیں ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔

محقق اگر دیگر مصادر سے اس کی تلافی نہ کر سکے تو ایسی صورت میں انہیں متعینہ جگہ پر نقطے رکھ کر حاشیہ میں اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ بعض محققین ایسی صورت میں اجتہاد سے کام لیتے ہیں اور اسے متن کتاب میں ثابت کر دیتے ہیں جو کہ غیر مناسب ہے۔
(تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں: محاضرات فی تحقیق النصوص للدکتور احمد الخراط، ص34-47، وتحقیق نصوص التراث فی القدیم والحدیث للدکتور صادق عبد الرحمن الغریانی،ص74-77)

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(بارہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

اس قسط میں دو ایسے اہم مسئلوں پر بات کی جا رہی ہے جن کے متعلق بہت سارے حضرات کے ذہن میں بعض اشکالات ہوتے ہیں۔

پہلا مسئلہ ہے: کیا تحقیق کے لئے مطبوعہ نسخوں کی طرف رجوع کرنا صحیح ہے؟

اور دوسرا مسئلہ ہے: کیا متأخرین علمائے کرام (جن کی وفات تقریبا گزشتہ چالیس پچاس سے لے کر سو ڈیڑھ سو سال کے مابین ہوئی ہے) کی کتابوں کی تحقیق کی جا سکتی ہےجن کے مخطوطات کا کسی کو کوئی علم نہیں؟

محترم قارئین!
گزشتہ گیارہویں قسط میں آپ نے پڑھا کہ تحقیق کے لئے قلمی نسخوں کو ڈھونڈنا اور جمع کرنا ضروری ہے تاکہ ان پر اعتماد کرتے ہوئے محقق تحقیق کا کام انجام دے سکے۔ ان نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے مناسب ترتیب کا بھی ذکر کیا جا چکا ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کتاب پہلے سے چھپی ہوئی ہو تو کیا تحقیق کے لئے مطبوعہ نسخے کی طرف بھی رجوع کیا جائےگا؟
تو اس کے جواب میں بعض تفصیلات ہیں:
اگر اس کی طباعت کسی راسخ عالمِ فن کی زیر نگرانی ہوئی ہے توراجح قول کے مطابق اس مطبوعہ نسخہ کا بھی وہی مقام ومرتبہ ہے جو کسی قدیم قلمی نسخے سے نقل شدہ متأخر قلمی نسخے کا ہے۔
جس طرح قدیم قلمی نسخوں سے نقل شدہ متأخر قلمی نسخوں کی بھی علمی قیمت ہے۔ اور تحقیق کے لئے ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اسی طرح اس مطبوعہ نسخہ کا معاملہ ہے۔ اور اس سے اعلی کوالیٹی کا نسخہ نہ ملنے کی صورت میں اسی نسخے پر اعتماد کرتے ہوئے تحقیق کی جاسکتی ہے۔ یہ اس صورت میں ایک متأخر قلمی نسخے کے قائم مقام شمار کیا جائےگا۔ شیخ عبد السلام محمد ہارون نے "تحقیق نصوص التراث "( ص 31-32) میں بالتفصیل اس مسئلے کو ذکر کیا ہے۔

لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اس کی طباعت کسی عالمِ فن کی زیر نگرانی ہوئی ہو۔ جہاں تک تجاری طبعات (ایڈیشن) کی بات ہے جن میں تحقیق وامانت کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا اور حصول زر ہی جن کا عین مقصد ہوتا ہے تو تحقیق کے میدان میں ان کی کوئی علمی قیمت نہیں ہے اور ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائےگی۔

الحمد للہ ایسی بے شمار کتابیں ہیں جنہیں علمائے فن کی نگرانی میں طباعت کا شرف حاصل ہے۔ محقق کو چاہئے کہ تحقیق کے وقت ان سے صرف نظر نہ کرے الا یہ کہ ان کے پاس نسخۃ الام یا اس کا قائم مقام کوئی قلمی نسخہ موجود ہو۔
شیخ عبد السلام محمد ہارون فرماتے ہیں: "قدیم مصححین (تصحیح وتحقیق کا کام کرنے والے علما) نے جو کتابیں شائع کی ہیں مثلا علامہ نصر الہورینی اور شیخ قطہ العدوی، یا معتمد وموثوق مستشرقین کی بڑی (علمی) شخصیتیں جیسے:
ferdinand wustenfeld, Rudolf Geyer, Bevan, Charles lyall,
تو وہ ثانوی (دویم ) درجے کے اصول (مخطوط) بننے کے لائق ہیں۔ " (تحقیق النصوص ونشرہا ص 31-32)
نیز فرماتے ہیں: "جو طبعات تجارت کی غرض سے منظر عام پر لائی گئی ہیں، اور ان پر کسی امین محقق نے کام نہیں کیا ہےتو بلا شبہہ ان کی کوئی وقعت نہیں۔ امانتِ علمی وادائیگی کے ساتھ یہ کھلواڑ ہے کہ تحقیق میں ان پر اعتماد کیا جائے"۔ (تحقیق النصوص ونشرہا، ص32)

وطن عزیز ہندوستان کے قدیم حجری طبعات پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں، اور عرب علما بھی بڑی قدر کی نگاہ سے انہیں دیکھتے ہیں، میں نے اپنے کئی عرب مشایخ کو ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان پایا ہے، کیونکہ ان میں سے بہت ساری کتابیں ممتاز علمائے کرام کی زیر نگرانی تحقیق وطباعت کے مراحل سے گزر کر منظر عام پر آئی ہیں۔

ہندوستان میں بے شمار ایسے قدیم بک ڈپوز اور پرنٹنگ پریسیز ہیں جہاں سے علمائے کرام کی نگرانی میں علمی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
کلکتہ کے مطابع سے سنہ 1793 ء میں السراجیہ فی الفرائض للسجاوندی ، سنہ 1807ء میں الہدایہ للمرغینانی، سنہ 1832ء میں الفصول الابقراطیہ، سنہ 1839 سے 1842 کے مابین الف لیلہ ولیلہ، سنہ 1853ء میں فہرست الطوسی، سنہ 1856ء میں تاریخ الخلفاء للسیوطی اور الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔
بڑے بڑے جلیل القدر علمائے کرام نے ان پر تصحیح وتعلیق کا کام کیا ہے، مثلا مولوی کبیر الدین احمد، مولوی سلیمان غلام مخدوم، مولوی عبد اللہ، مولوی عبد الحق، ومولوی غلام قادر وغیرہم ۔

دائرۃ المعارف النظامیہ ثم العثمانیہ حیدرآباد سے کون واقف نہ ہوگا۔ کسی زمانہ میں یہاں پر علمائے کرام کی ایک مکمل ٹیم مولانا محمد ہاشم ندوی کے اشراف میں کام کرتی تھی ۔ اس طرح اس مکتبہ نے بڑی نادر علمی کتابوں کا تحفہ عالم اسلام کو دیا ہے۔ علامہ عبد الرحمن بن یحی المعلمی کی نادر تحقیقات یہیں سے شائع ہوئی ہیں۔
(مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: "دور الہند فی نشر التراث العربی" میں مشہور محقق شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ کا مقالہ ، ص 71-72)

استاد محترم شیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ جب ہمیں سنن ابی داود پڑھا رہے تھے تب آپ نے فرمایا تھا کہ سنن ابی داود کا چھپا ہوا سب سے متقن نسخہ وہ نسخہ ہے جو عون المعبود کے ساتھ حجری ( طبعہ) میں ایک زمانہ پہلے ہندوستان میں چھپا ہے۔
شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے ( یعنی سنن ابی داود کو) شیخ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے گیارہ قلمی نسخوں پر اعتماد کرتے ہوئے بڑی محنت اور جانفشانی کے بعد تیار کیا تھا۔ آپ نے اس وقت تحفۃ الاشراف اور دیگر مصادر کے قلمی نسخوں سے لؤلؤی کی روایت کی دوسرے روات کی روایت سے تمییز کی تھی۔ پھر آپ نے عون المعبود کے نام سے متوسط انداز میں اس کی شرح لکھی تھی۔ آپ نے مطول انداز میں "غایۃ المقصود" کے نام سے اس کی ایک دوسری شرح لکھی تھی۔ جس کی پہلی جلد ہی ان کی زندگی میں شائع ہو پائی تھی، بعد میں اور دو جلدیں منظر عام آئی تھیں۔ اگر یہ شرح مکمل ہوتی تو بتیس (32) جلدوں تک پہنچتی۔ (دیکھیں : دور الہند فی نشر التراث العربی" میں آپ کا مقالہ ، ص 74)

خلاصۂ کلام یہ کہ اگر کوئی محقق ان جیسے چھپے ہوئے نسخوں پر اعتماد کرتے ہوئے تحقیق کا کام کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ تحقیق کے وقت اگر یہ شائع شدہ نسخے مل سکیں تو ان کی طرف بھی انہیں ضرور رجوع کرنا چاہئے۔ ان کی علمی قیمت کسی قلمی نسخے سے کم نہیں ہے۔

لیکن اگر کسی تجاری طبعہ پر اعتماد کرتے ہوئے تحقیق کریں تو یہ قطعا قابل قبول نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ایک مجلس میں شیخ طارق عوض اللہ حفظہ اللہ کی نیل الاوطار کی تحقیق پر بات چلی ، جس میں سابقہ طبعات کی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ پر -نعوذ باللہ- لعنت کی بد دعا (گرچہ اس پر محقق کا نوٹ اس سے ان کا عدم اتفاق کا پتہ دیتا ہے) موجود ہے۔ حالانکہ شیخ نے جن نفیس مخطوطات پر اعتماد کرتے ہوئے تحقیق کی ہےان میں یہ بد دعا کہیں بھی موجود نہیں ہے، جیسے کہ ان مخطوطات سے مذکورہ صفحہ کی تصویر کے ساتھ شیخ صبحی حسن حلاق رحمہ اللہ نے اپنی تحقیق میں اسے بیان کیا ہے۔ کسی نے ان کی طرف سے یہ اعتذار کیا (اور یہی یہاں پر محل شاہد ہے) کہ چونکہ قدیم طبعات میں یہ چیز موجود تھی اس لئے ان پر اعتماد کرتے ہوئے یہ چیز ان کی تحقیق میں آگئی ہوگی۔ اگر یہ بات مان لی جائے پھر بھی ان کے لئے یہ وجہ جواز نہیں ہوسکتا، کیونکہ شیخ طارق عوض اللہ نے خود اپنے مقدمۂ تحقیق میں ذکر کیا ہے کہ سابقہ تمام طبعات تجاری ہیں اور ان میں حد سے زیادہ تحریف وتصحیف موجود ہے۔ لہذا جب ان قدیم طبعات کی یہ حالت ہے تو ان پر کسی بھی طرح کا اعتماد کرنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے!!!!!!

دوسرا مسئلہ:
بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ایک سوال کھٹکتا ہے وہ یہ کہ کیا متأخرین علمائے کرام (جن کی وفات تقریبا گزشتہ چالیس پچاس سے لے کر سو ڈیڑھ سو سال کے مابین ہوئی ہے) کی کتابوں کی تحقیق کی جا سکتی ہےجن کے مخطوطات کا کسی کو کوئی علم نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر معاصر ومتأخر عالم دین کی کوئی کتاب اپنے باب میں بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس کی علمی خدمت نہیں ہوئی ہے، نیز اس میں بے شمار (کتابت وطباعت وغیرہ کی) غلطیاں موجود ہیں تو گرچہ اس کے قلمی نسخے موجود نہ ہوں، صرف مطبوعہ نسخے موجود ہوں پھر بھی ان کی تحقیق کی جا سکتی ہے۔
بطور مثال مرعاۃ المفاتیح ، تحفۃ الاحوذی اور عون المعبود کو لیں۔ یہ کتابیں اپنے باب کی نہایت ہی قیمتی کتابیں ہیں۔ بلکہ ان اصل متون کی موجودہ شروحات میں یہ سب سے عمدہ اور نفع بخش شروحات میں سے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اب تک ان کی مناسب علمی خدمت نہیں ہوئی ہے۔ کتابت وغیرہ کی بہ کثرت غلطیاں موجود ہیں۔ اسی طرح ان کے مصنفین نے جن مصادر سے استفادہ کیا ہے ان سے نقل کرنے میں بھی انہیں بہت ساری جگہوں پر وہم ہوا ہے، اور یہ ایک فطری چیز ہے جس سے کوئی بھی پاک نہیں۔

مرعاۃ کا ایک نیا ایڈیشن گرچہ تحقیق کے دعوے کے ساتھ مارکیٹ میں آیا ہے لیکن اس میں کتاب کی خدمت نہ کے برابر ہے۔ اسی طرح عون المعبود کا معاملہ ہے ، گرچہ مکتبۃ المعارف کا ایڈیشن قدرے بہتر ہے لیکن اس کی خدمت کا قرض اب بھی باقی ہے۔ اور تحفۃ الاحوذی پر تو کچھ بھی کام نہیں ہوا ہے۔

اگر کوئی ان کتب کی کما حقہ تحقیق کرے تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔ لیکن یہ کسی ایک باحث کے بس کی بات نہیں ہے، کسی ادارے کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔

ان جیسی کتابوں کی تحقیق کے وقت محقق کو چاہئے کہ متعدد طبعات میں سے سب سے قدیم و نفیس ایڈیشن کا انتخاب کرے۔
مصنف کے مصادر کی انہیں اچھی طرح جانکاری ہو۔ منقول ومستفاد معلومات کی توثیق کے لئے اصول کی طرف رجوع کرے اور اگر کاتب نسخہ سے کوئی واضح اور صریح چوک ہوئی ہے تو اس کا تدارک کرے اور بین المعقوفین ([] اس طرح کی علامت کو کہتے ہیں) اسے متن میں ذکر کرکے حاشیہ میں اس کا سبب بیان کرے۔

جہاں تک دوسری خدمات کی بات ہے تو عام کتابوں کی تحقیق میں محقق سے جو چیزیں مطلوب ہیں (جن کا بیان آگے آرہا ہے) اس طرح کی کتابوں میں بھی ان سے وہ چیزیں مطلوب ہیں۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(تیرہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

تیسرا مرحلہ: نسخۃ الاصل سے کتاب کے نص کو نسخ (نقل، کاپی) کرنا، پھر اس کا نسخۃ الاصل سے مقابلہ کرنا، پھر بقیہ نسخوں کے ساتھ اس کا مقارنہ کرنا۔

گزشتہ (گیارہویں) قسط میں بیان کیا گیا تھا کہ محقق موجودہ نسخوں میں سے سب سے قیمتی نسخے کو نسخہ الاصل بنائے۔
پھر نسخۃ الاصل سے اسے دقت وامانت کے ساتھ اپنے دفتر (یا کمپیوٹر) میں نسخ (یعنی نقل) کرے۔

نسخۃ الاصل سے نسخ کرتے وقت بعض چیزوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے:

(1) گرچہ کتاب مطبوع ہو یا اس کا لکٹرانک نسخہ (مثلا مکتبہ شاملہ وغیرہ ) موجود ہو قلمی نسخے سے اسے نسخ کرنا چاہئے۔ چاہے تو سب سے آخر میں مطبوعہ یا الکٹرانک نسخہ کو دیکھ سکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مطبوعہ نسخہ یا مکتبہ شاملہ سے نسخ کرنے کے بعد مخطوط سے ملانے کی شکل میں بعض کلمات اگر مطبوعہ نسخے میں غلط مرقوم ہیں تو محقق مخطوط کو اسی طرح پڑھتا ہے جس طرح وہ مطبوعہ نسخہ یا مکتبہ شاملہ میں موجود ہے۔ خصوصا جن کلمات کو پڑھنے میں پریشانی ہو۔ جب کہ مخطوط سے نسخ کرنے کی صورت میں اس کے ذہن میں پہلے سے کوئی خاکہ موجود نہیں ہوتا، پس وہ حتی الامکان وہی پڑھنے کی کوشش کرتا ہے جو مخطوط میں لکھا ہے۔

دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے مخطوط پڑھنے کی بہترین مشق ہو جاتی ہے۔ اور یہ ایک عظیم فائدہ ہے۔

(2) عصر حاضر میں جو عربی رسم الخط (املا) رائج ہے اس رسم الخط میں اسے نسخ کرے۔ بعض کلمات زمانہ قدیم میں کسی دوسرے رسم الخط میں لکھے جاتے تھے، لیکن عصر حاضر میں وہ رسم رائج نہیں ہے، اس کا املا بدل چکا ہے۔
بعض مخطوطات میں کلمہ کے آخر میں ہمزہ ہو تو ناسخ اسے نہیں لکھتے۔ مثلا دعاء ، اسماء، عطاء جیسے کلمات میں الف کے بعد والا ہمزہ عموما نہیں لکھتے۔ اسی طرح اگر ہمزہ بیچ میں ہو تو اسے یاء لکھتے ہیں ، مثلا عائشہ کو عایشہ ، صائم کو صایم لکھتے ہیں۔ محقق کو چاہئے کہ موجودہ زمانہ میں جو رسم رائج ہے (یعنی ہمزہ کے ساتھ) اسی رسم میں اسے لکھے۔

(3) زمانہ قدیم میں کسی خاص مقصد یا خوف سے بعض کلمات کسی دوسری طرح لکھے جاتے تھے۔ وہ خوف اب الحمد للہ زائل ہوچکا ہے اس لئے اس کا جو اصل رسم اور املا ہے اس میں اسے لکھنا چاہئے۔
مثلا: لفظ "مئۃ" کو مخطوطات میں میم کے بعد الف کے اضافے کے ساتھ اس طرح "مائۃ" لکھا جاتا تھا تاکہ وہ "منہ" یا "فیہ" یا اس سے قریب تر کسی دوسرے کلمہ سے نہ بدل جائے۔ واضح رہے کہ قدیم مخطوطات میں عموما نقطے اور حرکات نہیں ہوتے تھے۔
لیکن اب الحمد للہ کمپیوٹر کا زمانہ آنے کے بعد یہ خوف زائل ہوچکا ہے۔ اس لئے اسے اصل رسم (حذف الف) کے ساتھ لکھنا چاہئے۔
استاد محترم شیخ عبد العزیز البعیمی حفظہ اللہ (مدرس کلیۃ الحدیث ، جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ) ایسے طلبہ پر سخت ناراض ہوتے ہیں جو اب بھی اسے میم کے بعد الف کے اضافے کے ساتھ لکھتے ہیں۔ بلکہ شیخ ایسے طلبہ کو سو یا پانچ سو ریال نکال کر دکھاتے ہیں کہ دیکھو یہ کیسے لکھا ہوا ہے۔

(4) مخطوط میں بعض کلمات اشارات ورموز میں لکھے ہوتے ہیں جن کا قدرے مفصل بیان گزشتہ قسطوں میں گزر چکا ہے ۔ محقق کو چاہئے کہ ایسے کلمات کو مخفف (شارٹ کٹ) میں نہ لکھ کر مکمل لکھے تاکہ قارئین کو پڑھنے میں کسی طرح کی کوئی دشواری نہ ہو۔

(5) عربی املا میں بعض محققین سے بعض غلطیاں بہ کثرت ہوتی ہیں مثلا ہمزہ وصل وہمزہ قطع کے مابین فرق نہ کرنا،حالت نصب میں تنوین کو الف کے اوپر لکھنا، علي اور علٰى کے یاء میں فرق نہ کرنا، وغیرہ۔ محقق کو چاہئے کہ اس طرح کی املا کی غلطیوں سے کتاب حتی الامکان پاک وصاف ہو۔

(6) قرآن کریم اور اشعار کے رسم الخط میں بعض ایسی چیزیں جائز ہوتی ہیں جو عام رسم الخط واملا میں جائز نہیں ہے۔ اس لئے قرآن اور اشعار کے رسم واملا پر عام رسم کو قیاس نہیں کرنا چاہئے۔ مثلا قرآن میں لفظ "لشيء" کو سورۃ الکہف آیت نمبر 23 میں شین کے بعد الف کی زیادتی ہے ساتھ " لشايء " لکھا گیا ہے۔ یہ رسم قرآن کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے عام کتابت میں اسے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں : "خطان لا یقاسان:خط المصحف والخط العروضي"۔

(7) قرآن کی کوئی آیت ہو تو اسے مصحف عثمانی سے نقل کرنا چاہئے تاکہ کسی طرح کی کوئی غلطی نہ ہو۔

(8) اگر آیات قرآنیہ مخطوط میں حفص عن عاصم کی قرأت میں نہ ہوکر کسی دوسری مشہور قرأت میں لکھی ہو تو اسے حفص عن عاصم کی قرأت میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ یہی افضل ہے کیونکہ یہی قرأت عموما ہر جگہ متداول ہے۔ حرمین شریفین اور دوسری مشہور مساجد میں اسی قرأت پر ائمہ کرام نمازیں پڑھاتے ہیں۔
استاد محترم شیخ صالح بن عبد اللہ بن حمد العصیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی مثال شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب العقیدۃ الواسطیہ ہے۔ قدیم مخطوطات میں آیتیں ابو عمرو بن العلاء کی قرأت پر تھیں، کیونکہ شیخ الاسلام قرآن کریم حفص عن عاصم کی قرأت پر نہیں بلکہ ابو عمرو بن العلاء کی قرأت پر پڑھتے تھے ۔ لیکن جب یہ کتاب یہاں پر تحقیق ہوکر چھپی تو اسے لوگوں کی آسانی کے لئے حفص عن عاصم کی قرأت پر لکھا گیا۔

(9) مخطوط کے حاشیہ میں کوئی لحق ملے تو اسے متن کتاب میں اصل جگہ پر درج کرے۔ لیکن اگر وہ لحق نہ ہو بلکہ کسی کلمے کی تفسیر یا تشریح ہو تو اسے متن میں نہیں حاشیہ میں ذکر کرنا چاہئے۔

(10) اگر مخطوط میں کوئی کلمہ غلط لکھا ہوا ملے تو اسے اسی طرح من وعن نقل کرنا چاہئے۔ بعد میں تحقیق کے وقت پھر جوقواعد کی رو سے مناسب معلوم ہو ثابت کرنا چاہئے۔

اس طرح نسخۃ الاصل سے مکمل کتاب نسخ کر لینے کے بعد اسی نسخہ سے اس کا مقابلہ کرنا (ملانا) چاہئے تاکہ اگر نسخ کرتے وقت کوئی کلمہ چھوٹ گیا ہو تو اس کا تدارک ہو سکے۔

اس کے بعد دوسرے معتمد نسخوں سے اس کا مقارنہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مقارنہ سے پہلے تمام نسخوں کا مناسب رمز متعین کر لینا چاہئے جن کی طرف نسخوں کے مابین فروق ذکر کرتے وقت وہ احالہ کر سکیں۔ مثلا مکتبہ ظاہریہ کے نسخے کے لئے "ظ"، آیا صوفیا کے نسخے کے لئے "آ"، شہید علی پاشا کے نسخے کے لئے "ش" وہکذا۔
نیز چاہئے کہ اپنے مقدمۂ تحقیق میں پہلے ان تمام رموز کی خود ہی وضاحت کر دے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔

دوسرے نسخوں کے ساتھ مقارنہ کرتے وقت حاشیہ میں ہر طرح کے فروق کو اس کے رمز کے ساتھ نوٹ کرنا چاہئے۔ کسی بھی فرق کو چھوڑنا نہیں چاہئے ۔ پھر بعد میں تحقیق کے وقت جوقواعد کی رو سے مناسب معلوم ہو ثابت کرنا چاہئے۔

نسخۃ الاصل کا دوسرے نسخوں کے ساتھ مقارنہ کرنے کے دو طریقے ہیں:

پہلا طریقہ: از خود تمام نسخوں کے ساتھاس کا مقارنہ کرے۔ کسی کی مدد نہ لے۔ یہ طریقہ افضل ، قابل اطمئنان اور زیادہ ٹھوس ہے۔ اسے قاضی عیاض نے بعض محققین سے نقل کیا ہے۔ (دیکھیں: الالماع، ص159، وتدریب الراوی 1/509)

دوسرا طریقہ: مخطوط پڑھنے کا تجربہ رکھنے والے ساتھیوں کی مدد سے اسے انجام دیا جائے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لا يشترط مقابلته بنفسه بل تكفي مقابلة ثقة له"۔ (تدريب الراوي 1/ 509)
(بذات خود مقابلہ کرنا شرط نہیں ہے، بلکہ کوئی ثقہ –معتمد شخص- اس کے لئے مقابلہ کا کام کرے تو یہ کافی ہے۔)
اس میں وقت کی بھی کافی بچت ہوتی ہے۔
اس دوسری صورت کو ڈاکٹر احمد الخراط نے "محاضرات فی تحقیق النصوص" (ص52) میں جائز کہا ہے۔ لیکن اس کے لئے شیخ نے درج ذیل تفصیل ذکر کی ہے:
نسخوں کی تعداد کے حساب سے ساتھیوں کا انتخاب کیا جائے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک نسخہ تھمایا جائے۔ جس نسخہ میں نسخۃ الاصل سے کوئی فرق ملے حاشیہ میں اس کے رمز کے ساتھ اسے نوٹ کیا جائے۔ اس طرح شروع سے لے کر آخر تک پوری کتاب کا مقارنہ کیا جائے۔
پھر مزید تاکید کے لئے دوسری بار شروع سے آخر تک مقارنہ کیا جائے ، لیکن اس بارہر ایک نسخے بدل دئے جائیں، پس جن کے پاس پہلے مرحلہ میں نسخہ (الف) تھا اب انہیں نسخہ (ب) دیا جائے۔ وہکذا۔

جاری....
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(چودہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

چوتھا مرحلہ: عنوان الکتاب کی تحقیق:

کسی کتاب کا عنوان اس کی پہچان ہوتی ہے۔ اس کے بغیر کتاب شائع کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ایک محقق کو عنوان الکتاب پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کتاب کوئی دوسری ہو اور وہ کسی دوسرے نام سے چھپ جائے۔

پہلی قسط میں "محقَّق کتاب" کتاب کی تعریف میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کا قول گزر چکا ہے، فرماتے ہیں: "الكتاب المحقق هو الذي صح عنوانه، واسم مؤلفه، ونسبة الكتاب إليه، وكان متنه أقرب ما يكون إلى الصورة التي تركها مؤلفه".(تحقيق النصوص ونشرها، ص39)۔
(تحقیق شدہ کتاب وہ ہے جس کا عنوان درست ہو، اورمؤلف کا نام و مؤلف کی طرف کتاب کی نسبت ثابت ہو۔ مؤلف کتاب نے جس شکل وصورت میں وہ کتاب چھوڑی تھی اس کا متن اس سے قریب ترین حالت میں ہو۔ )

پس عنوان الکتاب کا درست ہونا اور کتاب کو اپنے صحیح عنوان سے منظر عام پر لانا تحقیق کا ایک اہم اور عظیم مقصد ہے، بلکہ تحقیق کے متفق علیہ چار ستونوں میں سے یہ پہلا ستون ہے۔ اگر کسی کتاب کا عنوان ہی درست نہ ہو اور محقق کتاب نے اس پر کوئی خاص دھیان نہ دیا ہو تو گویا کہ انہوں نے تحقیق کے پہلے ستون کو ہی منہدم کر ڈالا ہے۔

جس طرح مؤلف کی کتاب میں اصلاح اور تصرف کا حق محقق کو نہیں ہے اسی طرح عنوان الکتاب میں بھی تصرف کا ذرہ برابر حق انہیں نہیں پہنچتا۔ عنوان الکتاب کو بدلنا یا اس نام کی رعایت نہ کرنا جو مصنف کا وضع کردہ ہے یہ مصنف کے حق کی پامالی ہے۔ لہذا محقق کو مکمل امانت داری کے ساتھ اسی نام سے کتاب منظر عام پر لانی چاہئے جو مصنف کتاب نے اختیار کیا تھا۔

نظریاتی طور پر عموما محققین کو اس اصول سے کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن عملی میدان میں اس کی کافی مخالفتیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ بے شمار محقَّق کتابیں مصنفِ کتاب کے وضع کردہ نام کے علاوہ کسی دوسرے نام سے مطبوع ہیں۔

ذیل میں بطور مثال چند ایسی کتابوں کو ذکر کیا جا رہا ہے:
1 – مقدمۃ ابن الصلاح یا علوم الحدیث لابن الصلاح ۔
یہ کتاب اسی نام سے مطبوع ومشہور ہے۔ حالانکہ یہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا وضع کردہ نام نہیں ہے۔ حافظ ابن الصلاح نے کتاب کے مقدمہ میں اس کا جو نام ذکر کیا ہے وہ ہے "معرفۃ أنواع علم الحدیث"، اور یہی نام معتمد وموثوق قلمی نسخوں میں موجود ہے۔ اس لئے اسے اسی نام سے شائع کرنا چاہئے جو مصنف کتاب نے رکھا ہے۔ (مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: العنوان الصحیح للکتاب للشریف حاتم العونی، ص83-87)۔

2 – عربی ادب کی مشہور کتاب "البیان والتبیین" للجاحظ (متوفی 255ہجری)
یہ کتاب شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے اسی نام سے ایک دو بار نہیں بلکہ چار بار چھپ چکی ہے۔ حالانکہ اس کا صحیح نام ہے "البیان والتبیُّن" باء اور نون کے مابین صرف ایک یاء مشددہ کے ساتھ، دو یاء کے ساتھ نہیں۔ اس کا انکشاف بھی شیخ عبد السلام ہارون نے ہی خود کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: "سأعيد هذه التسمية الصحيحة إلى نصابها في الطبعة الخامسة إن شاء الله".
(ان شاء اللہ پانچویں ایڈیشن میں اس صحیح نام کو میں اس کا اصل مقام عطا کروں گا۔)
(مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: العنوان الصحیح للکتاب للشریف حاتم العونی، ص83)

3 - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی مشہور کتاب "التلخیص الحبير"۔
اس کتاب کا یہ اصل نام نہیں ہے۔ بعض ایڈیشنوں میں اسے "تلخیص الحبیر" کے نام سے شائع کیا گیا ہے، جو کہ اس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں "الحبیر" مصنف ِکتاب حافظ ابن حجر کی صفت ہوگی، اور یہ تصور تک نہیں کیا جا سکتا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے آپ کو "الحبیر" کہا ہو۔ اس کا اصل اور صحیح نام "التمييزفي تلخيص تخريج أحاديث شرح الوجيز "ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی سوانح پر لکھی گئی کتاب "الجواہر والدر فی ترجمۃ شیخ الاسلام ابن حجر (2/666) میں ان تلمیذ رشید حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
لیکن اکثر وبیشتر علما اور طلبہ علم اس کے صحیح نام سے اسے نہیں جانتے، کیونکہ کتاب اب تک اپنے صحیح نام سے چھپی ہی نہیں تھی، سابقہ طبعات میں اسے "التلخیص الحبیر" یا "تلخیص الحبیر" کے نام سے ہی موسوم کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر محمد الثانی بن عمر بن موسی الکنوی نے اس کی تحقیق کی اور اسے اپنی کھوئی ہوئی صحیح شناخت ملی، اوراپنے صحیح نام سے منظر عام پر آئی۔
ڈاکٹر محمد الثانی نے اپنے مقدمۂ تحقیق (1/27-33) میں اسے بالتفصیل بیان کیا ہے۔

تعجب کی بات یہ کہ الشریف حاتم العونی نے بھی العنوان الصحیح للکتاب (ص 90) میں "تلخیص الحبیر" پر رد کرتے ہوئے "التلخیص الحبیر " کو صحیح کہا ہے۔

کسی کتاب کو اس کے صحیح نام سے منظر عام پر لانے کی اہمیت کا اندازہ ڈاکٹر محمد بن مطر الزہرانی کے اس جملہ سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے مذکورہ ایڈیشن کی تقریظ میں لکھا ہے۔ اس ایڈیشن اور تحقیق کی اہمیت کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ويكفي أنه أحيا الاسم والعنوان الصَّحيح للكتاب كما سَمّاه مصنِّفه - رحمه الله –".
(اس کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ محقق نے اس کے صحیح نام اور عنوان کو زندہ کیا جیسے کہ اس کے مصنف رحمہ اللہ نے اس کا نام رکھا تھا۔)

4 – التاریخ الصغیر للامام البخاری
ایک زمانے تک اسی نام سے علمی حلقوں میں امام بخاری رحمہ اللہ کی ایک کتاب گردش کرتی رہی تھی۔ حالانکہ اس کا متن "التاریخ الاوسط" کا تھا، "التاریخ الصغیر" کا نہیں۔ پھر جب اس کی تحقیق ہوئی تو اسے صحیح شناخت ملی اور اپنی صحیح پہچان "التاریخ الاوسط" سے منظر عام پر آئی۔

اسی طرح کتابوں کی ایک معتد بہ تعداد اصل نام سے نہ چھپ کر ان کے وصفی ناموں سے مطبوع ومشہور ہیں۔ خصوصا احادیث کی امہات کتب کے ساتھ یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ ذیل میں بطور مثال بعض کو ذکر کیا جارہا ہے:

1- صحیح البخاری
اس کا اصل نام ہے : الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ
2- صحیح مسلم
اس کا اصل نام ہے: المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
3- جامع الترمذی یا سنن الترمذی
اس کا اصل نام ہے: الجامع المختصر من السنن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومعرفۃ الصحیح والمعلول وما علیہ العمل
4- السنن الصغری للنسائی
اس کا اصل نام ہے: المجتبی من السنن المسندہ
5- شرح مشکل الآثار
اس کا اصل نام ہے: بیان مشکل أحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واستخراج ما فیھا من الأحکام ونفي التضاد عنها
6- البحر الزخار
اس کا اصل نام ہے: المسند للبزار
7- صحیح ابن خزیمہ
اس کا اصل نام ہے: مختصر المختصر من المسند الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنقل العدل، عن العدل موصولا إليه صلى الله عليه وسلم من غير قطع في أثناء الإسناد ولا جرح في ناقلي الأخبار
8- صحیح ابن حبان
اس کا اصل نام ہے: المسند الصحیح علی التقاسیم والانواع من غیر وجود قطع فی سندھا ولا ثبوت جرح في ناقلیھا
9- شرح صحیح مسلم للنووی
اس کا اصل نام ہے: المنھاج في شرح صحيح مسلم بن الحجاج
10- تاریخ بغداد
اس کا اصل نام ہے: تاريخ مدينة السلام، وخبر بنائها، وذكر كبراء نزالها ووارديها، وتسمية علمائها.

اسی طرح بعض کتابوں کے صحیح ضبط اور تلفظ کے متعلق بعض طلبہ علم کو غلط فہمیاں ہوتی ہیں، اور وہ اس کے صحیح ضبط اور تلفظ کے متعلق کنفیوزن کے شکار رہتے ہیں، محقق کو چاہئے کہ اس کی تحقیق کرے اور صحیح ضبط اور تلفظ کے ساتھ اسے منظر عام پر لائے۔
مثلا:
1- ھُدَی الساري
یہ فتح الباری کے مقدمہ کا صحیح ضبط ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میں واضح طور ہر ھاء کے اوپر ضمہ موجود ہے۔ اس لئے اسے ھَدْيُ الساري نہ پڑھ کر ھُدَی الساري پڑھنا چاہئے۔

2- الدیباج المُذْهَب في معرفة أعيان علماء المذهب لابن فرحون
المُذْهَب ذال کے سکون اور ہاء کی تخفیف کے ساتھ إذھاب كا اسم مفعول ہے، تذھیب کا نہیں۔ بعض اسے تذھیب کا اسم مفعول سمجھ کر المُذَهَّب پڑھتے ہیں ۔

3- شجرة النَّوْر الزكية في طبقات المالكية لمحمد مخلوف
اس میں "النَّور" نون کے فتحہ کے ساتھ ہے، یہ ایک قسم کا درخت ہے، نون کے ضمہ کے ساتھ روشنی کے معنی میں نہیں ہے۔
وغیرہ۔

چونکہ کسی بھی کتاب کا عنوان اس کے پہلے صفحے پر ہوتا ہے، اس لئے اس کے ساقط ہونے کا ڈر بھی زیادہ رہتا ہے۔ یا بسا اوقات وہ مٹا ہوا ہوتا ہے۔ یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ناسخ المخطوط کا لکھا ہوا نہ ہو بعد میں فہرست بنانے والوں نے اپنی طرف سے لکھ دیا ہو۔ یا اس کے وصف اور موضوع کو ذکر کیا ہو اصل نام ذکر نہ کیا ہو۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے مسائل در پیش ہوتے ہیں جسے ایک محقق ہی زیادہ جانتا ہے۔

اگر مؤلفِ کتاب کے لکھے ہوئے نسخہ میں سرورق پر کتاب کا عنوان مل جائے تو اسے ثابت کرنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن اگر اس میں وہ مسائل در پیش ہوں جن کا ابھی اوپر ذکر کیا گیا تو اس کے متعدد حلول ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1- ہو سکتا ہے اس کتاب کے مقدمہ میں مصنف نے اس کے نام کی صراحت کی ہو۔ اس لئے اس کی طرف رجوع کیا جائے۔

2- ہو سکتا ہے اس کتاب کے اندر کسی جگہ مصنف نے اس کے نام کی صراحت کی ہو۔

3- بسا اوقات کتاب کے آخر میں بھی اس کے نام کی صراحت ہوتی ہے، مثلا یوں لکھا ہوتا ہے: "تم کتاب..."۔ اس لئے اسے بھی دیکھا جائے۔

4 - ہو سکتا ہے مصنف نے اپنی کسی دوسری کتاب میں اس کے نصوص نقل کئے ہوں اور اس کے نام کی صراحت کی ہو۔ اس لئے ان کی دوسری کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔

5- کتب الفہارس والمؤلفات کی طرف رجوع کیا جائے۔
کتب الفہارس میں کتابوں کے عناوین مذکور ہوتے ہیں۔ اس لئے عموما ان کی طرف رجوع کرنے سے رہنمائی مل جاتی ہے۔ ان کتابوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، ان میں سے چند مشہور کتابیں یہ ہیں: الفہرست لابن الندیم، فہرست ابن خیر الاشبیلی، المعجم المفہرس للحافظ ابن حجر،کشف الظنون لحاجی خلیفہ، ہدیۃ العارفین لاسماعیل البابانی، الرسالۃ المستطرفہ للکتانی، وغیرہ۔
ان میں سے ابن خیر الاشبیلی کی کتاب کافی اہم ہے کیونکہ اس میں انہوں نے دقت کے ساتھ کتاب کے عناوین کو مکمل ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

6– کتب التراجم کی طرف رجوع کیا جائے۔
اگر صاحب ترجمہ صاحب المؤلفات بھی ہے تو عموما کتب التراجم کے مؤلفین ان کی مؤلفات ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بعض کتابوں میں تو اس کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے، مثلا: إنباہ الرواۃ علی أنباہ النحاۃ للقفطی، معجم الأدباء للحموي، تاریخ الإسلام للذہبي، سیر أعلام النبلاء للذہبي، الأعلام للزرکلي، معجم المؤلفین لعمر رضا کحالہ، وغیرہ ۔

7 – وہ متأخر علما ئے کرام جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہو اور اس کے نصوص اور اقتباسات نقل کئے ہوں عموما وہ بھی اس کتاب کے عنوان کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے بھی اس کے عنوان کی تعیین میں مدد لی جا سکتی ہے۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(پندرہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

پانچواں مرحلہ: مؤلف کتاب کے نام کی تحقیق:

محقَّق کتاب کی تعریف میں گزرا کہ اس کا عنوان درست ہو، مؤلف کا نام و مؤلف کی طرف کتاب کی نسبت ثابت ہو۔ اور مؤلف کتاب نے جس شکل وصورت میں وہ کتاب چھوڑی تھی اس کا متن اس سے قریب ترین حالت میں ہو۔

مؤلف کتاب کے نام کی تعیین تحقیق کا ایک اہم رکن ہے۔ اور کتاب کے عنوان کی طرح ہی مؤلفِ کتاب کی معرفت بھی نہایت ہی ضروری ہے، بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے، کیونکہ یہ امت کسی مجہول شخص کی کتاب قبول نہیں کرتی۔ہمارا اصول ہے "إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم"۔
جن سے علم حاصل کریں ان کا سلیم المنہج ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر وہ بدعتی ہو ں توان کی کتابوں سے خود بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے۔ کیونکہ ہر کتاب قاری پر اپنا اثر چھوڑتی ہے۔ اگر اس میں اسلامی تعلیمات کے متعلق شکوک وشبہات ہوں تو پھر قاری کا ان کی کتاب پڑھ کر گمراہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اسی لئے بہت ساری کتابوں سے علمائے کرام نے تحذیر کی ہے۔

اس موقع پر مجھے استاد محترم شیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ کی ایک بات یاد آرہی ہے ، شیخ نے ایک دن دوران درس فرمایا تھا کہ میں نے مولانا مودودی کی زہر آلود کتاب "خلافت وملوکیت" کو طلبہ کی لائبریری سے نکال دیا ہے، اور اسے کبھی بھی اس میں داخل نہ کرنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ کیونکہ عقیدہ ومنہج میں غیر پختہ طلبہ کا ان کی یہ کتاب پڑھ کر گمراہ ہونے کا عین امکان ہے۔
لہذا کسی بھی کتاب کے پڑھنے سے پہلے اس کے مؤلف کی جانکاری ہونا لازمی شیئ ہے۔

پس اس مرحلہ میں محقق کو حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ کہیں غفلت میں ایسا نہ ہو کہ کتاب کسی دوسرے کی طرف منسوب ہو جائے۔ چنانچہ کتابوں کی ایک معتدبہ تعداد ایسی ہے جو غلطی سے کسی دوسرے مؤلف کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ مثلا : کتاب تفسیر الاحلام کی نسبت امام ابن سیرین کی طرف۔ حالانکہ یہ ابو سعید الواعظ کی کتاب ہے اور ابن سیرین کی طرف غلطی سے منسوب ہو گئی ہےجیسا کہ شیخ مشہور حسن سلمان نے اپنی کتاب "المقدمات الممہدات السلفیات" (ص25) میں ذکر کیا ہے۔

اسی طرح کتاب "غراس الاساس" کو بعض لوگ حافظ ابن حجر کی تالیف سمجھتے ہیں حالانکہ صحیح یہ ہے کہ یہ زمخشری کی کتاب ہے، حافظ ابن حجر نے اسے صرف اپنے ہاتھ سے نسخ کیا تھا ، یہ ان کی تالیف نہیں تھی جیسے کہ حافظ سخاوی نے الجواہر والدرر (2/714) میں بیان کیا ہے۔

اسی طرح "احکام تمنی الموت" کی نسبت امام الدعوہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی طرف غلط ہے جیسے کہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے"الرد على فيصل مراد علي رضا فيما كتبه عن شأن الأموات وأحوالهم" (ص4) میں بیان کیا ہے۔

اسی طرح علامہ عظیم آبادی کی شرح عون المعبود ہے۔ بہت سارے اہل علم اسے مولانا شرف الحق محمد اشرف ڈیانوی کی تصنیف سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ صاحب بذل المجہود خلیل احمد سہارنپوری، ابو الحسن علی ندوی، صاحب معجم المطبوعات العربیہ ، اور بعض عرب مشایخ وغیرہ نے لکھا ہے۔ حالانکہ یہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی ہی تصنیف ہے، مولانا شرف الحق محمد اشرف اور دیگر علمائے کرام نے فقط غایۃ المقصود سے اسے اختصار کرنے میں ان کی مدد کی تھی ۔ اسی لئے مولانا شمس الحق نے دل جوئی کے لئے پہلی اور دوسری جلد میں اپنے بھائی مولانا شرف الحق کا نام لکھوا دیا تھا۔ اسی سے بعض لوگوں کو التباس ہو گیا کہ یہ مولانا شمس الحق کی تصنیف نہیں ہے۔ (تفصیلات کے لئے دیکھیں: شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ کی کتاب "علامہ شمس الحق عظیم آبادی حیات وخدمات، ص 76-79)

کتابوں کے بعض نام مشترک ہیں یعنی ان پر متعدد علمائے کرام نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلا "المغنی" کے نام سے کئی کتابیں موجود ہیں۔ "الأشباہ والنظائر" کے نام سے مقاتل بن سلیمان، سیوطی اور ابن نجیم نے کتابیں لکھی ہیں۔
"المذکر والمؤنث" کے نام سے ابو بکر الانباری اور ابن التستری الکاتب دونوں نے کتاب لکھی ہے۔ "المقصور والممدود" کے نام سے کئی علمائے کرام کی کتابیں ہیں مثلا: ابن ولاد، ابو علی القالی، ایک کتاب ابو عمر الزاہد کی طرف منسوب ہے، اسی طرح سے ابن جابر اندلسی کا اس نام سے ایک منظومہ ہے۔ "فتح البار ی" کے نام سے صحیح بخاری کی دو شرحیں ہیں ایک حافظ ابن رجب کی اور ایک حافظ ابن حجر کی۔"السنن"، "الثقات"، "الضعفاء"، "النکت"، کے نام سے متعدد علمائے کرام نے کتابیں تالیف کی ہیں جو کہ علوم حدیث کے طلبہ کے نزدیک معروف ہیں۔ ایسے عناوین والی کتابوں کی تحقیق کے وقت محقق کو مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ غلطی سے کسی کی کتاب کسی دوسرے کی طرف منسوب نہ ہو جائے۔

استاد محترم شیخ مصلح حارثی حفظہ اللہ کے اشراف (زیر نگرانی) میں کلیہ کے مرحلہ میں جب میں امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب "فض الوعاء فی احادیث رفع الایدی فی الدعاء" کی تحقیق کر رہا تھا تو شیخ نے اسی طرح کا ایک قصہ "إکمال تہذیب الکمال" کے بارے میں سنایا تھا۔ اس عنوان سے علامہ مغلطائی اور علامہ ابن الملقن دونوں نے کتاب تالیف کی ہے۔ جامعہ کے اندر کسی طالب نے اس کی تحقیق کی تھی اور غلطی سے ایک کی کتاب دوسرے کی طرف منسوب ہو گئی تھی، جس کی پہچان مناقشہ کے وقت علامہ حماد انصاری رحمہ اللہ نے کی تھی۔ شیخ مخطوطات کے بڑے ماہر تھے، شیخ عزیر شمس اور ان کے فرزند شیخ عبد الباری حفظہما اللہ وغیرہ نے انہیں سے مخطوطات کا علم سیکھا تھا۔ اس انکشاف کے بعد طالب کو نئے سرے سے پوری کتاب میں جہاں بھی مؤلف کا نام آیا تھا تعدیل کرنی پڑی تھی۔

اس لئے محقق کو چاہئے کہ مؤلف کتاب کی تعیین میں انتہائی دقت سے کام لیں۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(سولہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

چھٹا مرحلہ: مؤلف کی طرف کتاب کی نسبت کی تحقیق:

کتاب کے سر ورق پر محقق نے جس مؤلف کی طرف اس کی نسبت کی ہے اس کی توثیق نہایت ہی ضروری امر ہے۔ محقق کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی نسبت مؤلف کتاب کی طرف صحیح ہے، اور ان سے اس نسبت میں کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے۔

کسی مؤلف کی طرف کسی کتاب کی نسبت ثابت کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، مثلا:

1 – کتاب کے غلاف پر مؤلف کا نام موجود ہو۔

2 – مؤلف نے اپنی دوسری کتابوں میں اپنی اس تالیف کا ذکر کیا ہو اور اس کے اقتباسات نقل کئے ہوں۔

3 – اس پر عرض و سماع موجود ہو۔ مؤلف کتاب کے شاگردوں نے ان سے یہ کتاب سنی ہو یا ان پر پڑھی ہو اور ان کے نام اس میں درج ہوں۔

4 – کتب الفہارس میں اسے ان کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔ (کتب الفہارس کی تفصیلات سابقہ قسطوں میں گزر چکی ہیں)

5 – کتب التراجم میں ان کے ترجمہ میں اس تالیف کا ذکر یا وصف موجود ہو۔ (کتب التراجم کی تفصیلات بھی سابقہ قسطوں میں گزر چکی ہیں)

6 – ان کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف اسے کسی نے منسوب نہ کیا ہو۔ یعنی جب بھی اس کتاب کا ذکر آئے تو بالاتفاق علما اسے ان کی طرف منسوب کرتے ہوں۔

7- مؤلف کتاب کے معاصرین نے اس کی صراحت کی ہو۔

8 – ان کے بعد آنے والے علمائے کرام نے اس سے اقتباسات نقل کئے ہوں اور ان کی طرف احالہ کیا ہو۔

عموما کسی کتاب کی اس کے مؤلف کی طرف نسبت کرنے میں یہ امور معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن ان قرائن میں بھی وہم کا احتمال موجود ہوتا ہے۔
نیز ان کے علاوہ بھی کسی خاص کتاب میں کوئی خاص قرینہ موجود ہو سکتا ہے جس سے بوقت ضرورت استدلال یا استئناس کیا جا سکتا ہے۔
کسی کتاب کی نسبت میں جتنے زیادہ قرائن پائے جائیں گے وہ اس کی صحتِ نسبت کی اتنی ہی پختہ دلیل مانی جائےگی۔

خلاصۂ کلام یہ کہ جس مؤلف کی طرف محقق نے کتاب کی نسبت کی ہے، اسے ثابت کرنے کی بھی انہیں ضرورت ہے، کیونکہ بلا دلیل کسی کی بات قبول نہیں کی جا سکتی چاہے وہ محقق کتاب ہی کیوں نا ہوں۔

چنانچہ بہت ساری ایسی کتابیں معرض وجود میں آئی ہیں جنہیں بعض مشہور علما کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ ان کی تصنیفات نہیں ہیں۔

ابھی حال ہی میں امام عبد الرزاق صنعانی کی طرف ایک جزء کی نسبت کا معاملہ سوشل میڈیا میں کافی گرم تھا۔ محقق کتاب عیسی الحمیری کا دعوی ہے کہ وہ مصنَّف عبد الرزاق کا مفقود حصہ ہے، لیکن ان کا یہ دعوی بلا دلیل اور کذب وزور پر مبنی ہونے کی ہونے کی وجہ سے علما نے قبول نہیں کیا ہے۔ اور علما کی ایک جماعت نے امام عبد الرزاق کی طرف اس نسبت کی نفی کی ہے۔ میں نے اپنے ایک مضمون میں اس پر مفصل روشنی ڈالی ہے اور ان اسباب کو بیان کیا ہے جن کی وجہ سے محقق کا مذکورہ دعوی قابل قبول نہیں ہے۔ اس لنک پر کلک کرکے آپ اسے پڑھ سکتے ہیں:
https://www.facebook.com/farooque.abdullah.75/posts/2041113212672322

اس طرح کی اور بھی بہت ساری کتابیں ہیں جنہیں بعض ائمہ اور علما کی کی طرف منسوب کیا گیا ہے لیکن وہ نسبت صحیح نہیں ہے۔ بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:

1 – أخبار النساء :
اس کتاب کو علامہ ابن القیم الجوزی کی طرف منسوب کرکے مطبعۃ التقدم العلمیہ نے سنہ 1319 میں شائع کیا تھا۔ حالانکہ علامہ ابن القیم کی طرف اس کی نسبت غلط ہے۔ یہ علامہ ابو الفرج ابن الجوزی کی کتاب ہے۔ (دیکھیں: شیخ محمد منیر الدمشقی کی کتاب " نموذج من الأعمال الخیریہ في إدارة الطباعة المنيرية "، ص 78، اور شیخ بکر بن عبد اللہ ابو زید کی کتاب"ابن القیم الجوزیہ حیاتہ آثارہ مواردہ ، ص 202)۔

2 – تنبیہ الملوک والمکاید
اس کتاب کی نسبت مشہور ادیب جاحظ کی طرف کی گئی ہے۔ دار الکتب المصریہ کے قلمی نسخے میں اس پر جاحظ کا نام درج ہے۔لیکن اس کی نسبت جاحظ کی طرف صحیح ہو ہی نہیں سکتی، کیونکہ اس میں "نکت من مکاید کافور الإخشیدي" اور "مکیدۃ توزون بالمتقي لله" جیسے ابواب اس کی غلط نسبت پر بین دلیل ہیں۔ کافور الإخشیدي کی پیدائش سنہ 292 کو ہوئی ہے، جب کہ متقی باللہ کی پیدائش 297 کو ہوئی ہے اور جاحظ کی وفات ان کی پیدائش سے کافی سالوں پہلے سنہ 255 کو ہو چکی تھی، لہذا یہ ممکن ہی نہیں کہ جاحظ اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے شخصیات کے حالات قلمبند کریں۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا للشیخ عبد السلام محمد ہارون، ص 46)۔

3 – هدية الإخوان فيما أبهم على العامة من ألفاظ القرآن
یہ مصطفی افندی کی کتاب ہے۔ مطبعۃ الجریدۃ بیروت سے سنہ 1307 ہجری اور 1331 ہجری کوچھپی تھی۔ اس کے بہت سارے نسخے مصر بھیجے گئےتھے، یہ کافی مقبول ہوئی، جب اس کے نسخے ختم ہوگئے تو بعض کتاب کے سوداگروں نے اس کا نام بدل کر "غریب القرآن" کر دیا اور اس پر ایک مصری ادیب کا نام لکھ دیا۔ اور اس طرح وہ کئی مرتبہ چھپتی رہی۔ (دیکھیں: نموذج من الأعمال الخیریہ في إدارة الطباعة المنيرية ، ص 80)
وغیرہ وغیرہ۔

شیخ محمد منیر عبدہ آغا الدمشقی نے اپنی کتاب" نموذج من الأعمال الخیریة في إدارة الطباعة المنيرية" میں اس کے بہت سارے نمونے ذکر کئے ہیں۔ مزید مثالوں کے لئے ان کی کتاب کی طرف رجوع مفید ہوگا۔

اس کے بر عکس کچھ ایسی بھی کتابیں ہیں جن کا بعض لوگوں نے ان کے مشہور مصنفین کی طرف نسبت سے انکار کیا ہے ۔ حالانکہ ان کی طرف یہ نسبت صحیح ہے، مثلا کتاب الرد علی الزنادقہ والجہمیہ للإمام أحمد۔

محترم قارئین!
اوپر آپ نے کتاب "أخبار النساء" کی نسبت میں ملاحظہ کیا کہ ابن الجوزی کی کتاب ابن القیم الجوزی کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔
ہو سکتا ہے "الجوزی" کی نسبت کی وجہ سے یہ وہم اور التباس ہوا ہو۔ بعض لوگ ان دونوں کو ایک ہی سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ الگ الگ زمانے میں یہ دو الگ الگ عالم دین گزرے ہیں۔ ابو الفرج ابن الجوزی یہ متقدم ہیں ، ان کی وفات سنہ 597 ہجری کو ہوئی ہے۔ جب کہ ابن قیم الجوزیہ یہ متأخر ہیں، ان کی وفات 751 ہجری میں ہوئی ہے۔ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد تھے۔ ان کے والد محترم المدرسۃ الجوزیۃ کے قیم (اِس زمانے میں عمید اور مدیر کے مشابہ) تھے، اسی وجہ سے انہیں ابن قیم الجوزیہ کہا جاتا تھا۔

اگر اس طرح مصنفین کے نام میں مشابہت ہو تو محقق کو مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ وہم اور التباس کے شکار نہ ہو جائیں۔

اسی قبیل سے امام ابن حزم الظاہری کی طرف "کتاب الناسخ والمنسوخ" کی نسبت کا معاملہ ہے۔ اس کتاب کے مؤلف ابن حزم مشہورابو محمد علی بن حزم الظاہری (متوفی 456)نہیں بلکہ ابو عبد اللہ محمد بن حزم (متوفی 320) ہیں۔ (دیکھیں: نظرات لاھثۃ لابن عقیل، ص 35، اسی طرح جمہرۃ أنساب العرب کے شروع میں شیخ عبد السلام محمد ہارون کا مقدمہ، ص 11)۔

اس طرح بہت سارے مصنفین ہیں جن کے نام سے بعض طلبہ علم کو وہم ہو جاتا ہے، اور وہ مشہور مؤلف کو ہی صاحب کتاب سمجھتے ہیں یا دونوں میں تفریق نہیں کر پاتے۔

بعض مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

1 - حمیدی دو ہیں: ایک امام بخاری کے استاد جن کی کتاب "المسند" ہے۔ اور دوسرے متأخر ہیں، 488 میں ان کی وفات ہے، ان کی کتاب کا نام ہے "الجمع بین الصحیحین"۔

2 - ابن الأثیر الجزری تین ہیں: ایک "النہایہ فی غریب الحدیث "اور "جامع الأصول " وغیرہ کے مصنف جن کی وفات 606 میں ہے، ان کی کنیت ابو السعادات ہے۔
دوسرے " أسد الغابہ" اور "الکامل فی التاریخ" وغیرہ کے مصنف جن کی وفات 630 میں ہے۔ان کی کنیت ابو الحسن ہے ۔
اور تیسرے ہیں "الجامع الكبير في صناعة المنظوم من الكلام والمنثور" اور "المثل السائر في أدب الكاتب والشاعر" وغیرہ کے مصنف۔ جن کی وفات 637 میں ہے۔ یہ ابن الأثیر الکاتب سے بھی معروف ہیں۔ ان کی کنیت ہے ابو الفتح، اور لقب ہے ضیاء الدین۔

3 - بغوی دو مشہور ہیں: ایک ابو القاسم البغوی" معجم الصحابہ" والے، جوکہ متقدم ہیں، 317 میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اور دوسرے ابو محمد البغوی "تفسیر بغوی"، "مصابیح السنہ" اور "شرح السنہ" والے۔ یہ متأخر ہیں اور ان کی وفات 516 کو ہوئی ہے۔

4 - قرطبی دو مشہور ہیں: ایک شرح مسلم (المفہم) والے جن کی وفات 656 کو ہوئی ہے۔ "تفسیر قرطبی" (الجامع لأحکام القرآن) ان کی تصنیف نہیں ہے جیسا کہ بعض طلبہ سمجھتے ہیں، وہ دوسرے ہیں ، ان کی وفات 671 میں ہوئی ہے۔

5 – ابن حجر دو ہیں: دونوں کا نام احمد ہے ، دونوں مذہب شافعی کے کبار فقہا میں سے ہیں، اور دونوں مصر ی ہیں۔ ایک ابن حجر العسقلانی صاحبُ فتحِ الباری، جو کہ متقدم ہیں، 852 میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اور دوسرے ہیں ابن حجر الہیتمی جن کی وفات 974 کو ہوئی ہے۔ یہ بھی بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔

اس طرح ایک لمبی لسٹ ہے ایسے مصنفین کی جن کے نام سے بعض طلبہ کو وہم اور التباس ہوجاتا ہے۔ اس لئے ایسے مصنفین کی طرف کتاب کی نسبت کرنے میں محقق کو حد درجہ چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ بعض سابقین کو جو وہم ہوا ہے انہیں نہ ہو جائے۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(سترہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

ساتواں مرحلہ: متن کتاب کی تحقیق:

گزشتہ چھ مراحل سے گزرنے کے بعد ایک محقق اصل نص (متن کتاب) کی تحقیق کے مرحلے میں قدم رکھتا ہے۔ یہ مرحلہ سب سے اہم اور تحقیق کے باب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

تیسرے مرحلہ (اس مقالہ کی تیرہویں قسط) میں بیان کیا گیا تھا کہ محقق نسخۃ الاصل سے کتاب کے نص کو نقل کریں گے، پھر نقل کرنے کے بعد نسخۃ الاصل سے اس کا مقابلہ کریں گے تاکہ نقل کرنے میں کوئی غلطی نہ رہ جائے، پھر دوسرے نسخوں سے اس کا مقارنہ کریں گے۔
یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ مقارنہ کے وقت نسخوں کے مابین جو بھی فروق (اختلافات) ملیں گے انہیں محقق کو حاشیہ میں درج کرنا ہے۔
اب اس مرحلہ میں ان فروق کے مابین نقد وتمحیص (چھان پھٹک) کا کام شروع ہوگا۔
کس فرق کو حاشیہ میں باقی رکھنا ہے ، کسے نہیں ، نیز ان فروق میں سے کس فرق کو متن میں ثابت کرنا ہے اور کسے حاشیہ میں، ان تمام امور پر محقق کو حد درجہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ مرحلہ گزشتہ تمام مراحل میں سے سب سے اہم، نازک اور مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اسی مرحلہ میں محقق کی علمی لیاقت ، کتاب وفن سے معرفت اور عمومی فہم وبصیرت کی پہچان ہوتی ہے۔

اس مرحلہ میں محقق کی مکمل توجہ نص کتاب کو اس قریب ترین صورت میں ثابت کرنے پر ہونی چاہئے جس پر غالب گمان ہو کہ مصنف نے اسے چھوڑا تھا۔ یہی اس باب کا اصول وضابطہ ہے۔

محقق کے ہاتھ میں جو قلمی نسخے ہیں ان کی علمی قیمت سے وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مصنف کی اصل عبارت کیا رہی ہوگی۔ اس لئے نسخوں کے مابین فروق (اختلافات) ملنے پر متن کتاب میں کیا ثابت کرنا ہے اور کیا نہیں اس کا مکمل دار ومدار نسخوں کی علمی قیمت پر ہے۔

اگر ان کے پاس نسخہ عالیہ موجود ہو یعنی مصنف کتاب کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ، یا وہ نسخہ جسے انہوں نے املا کرایا ہے، یا ان کے سامنے وہ نسخہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی روایت (نشر واشاعت) کی اجازت دی ہے تو اسے اسی طرح ثابت کرنا ضروری ہے جس طرح وہ قلمی نسخہ میں ہے سوائے چند خاص امور کے جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اگر دوسرے معاون نسخوں میں کچھ اضافے ہوں تو انہیں محقق کو نظر انداز کرناچاہئے۔ الا یہ کہ نسخہ عالیہ میں کہیں پر کوئی لفظ مٹا ہوا ہویا بعض صفحات ساقط ہوں یا فوٹو گرافی کی وجہ سے بعض حروف تصویر سے غائب ہو گئے ہوں تو ایسی صورت میں معاون نسخوں کی مدد سے ان کی تکمیل کی جائےگی۔ ورنہ نسخہ عالیہ میں عموما کسی طرح کا کوئی تصرف نہیں کیا جائےگا۔

اگر مصنف کے نسخے میں کوئی غلطی ہو یا ان کا اسلوب دلکش، جاذب نظر وبلند پایہ کا نہیں ہو تو اسے نکھارنے، بدلنے اور اس کی اصلاح کرنے کا اختیار محقق کو نہیں ہے۔ الا یہ کہ وہ غلطی درج ذیل امور کے متعلق ہو تو ایسی صورت میں مصنف کے نسخے کی رعایت نہیں کی جائےگی اور متن کتاب میں اس کی اصلاح کی جائےگی اور حاشیہ میں اس کے اسباب کی طرف اشارہ کیا جائےگا:

1 – اگر قرآنی آیات میں کوئی غلطی ہو تو متن کتاب میں اسے غلط ہی نہیں ثابت کیا جائےگا۔ کیونکہ قرآن کریم کا معاملہ دوسری چیزوں سے بالکل مختلف ہے۔ جان بوجھ کر کلام اللہ کو غلط لکھنا یا پڑھنا کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔ لیکن قرآنی آیات میں مصنف کے نقل کو غلط کہنے سے پہلے قرأت کے اختلاف کو دیکھنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے جسے محقق غلط سمجھ رہے ہوں وہ کسی مشہور یا شاذ قرأت میں موجود ہو۔ ایسی صورت میں محقق حفص عن عاصم کی قرأت کو ثابت تو کر سکتے ہیں لیکن مصنف کے نقل کو غلط نہیں کہہ سکتے، نیز انہیں چاہئے کہ حاشیہ میں اس کی طرف ضرور اشارہ کر دیں۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا للشیخ عبد السلام ہارون، ص48-49، اور محاضرات فی تحقیق المخطوطات للدکتور احمد الخراط، ص52)

2 – کوئی فحش نحوی غلطی ہو جس کی مصنف سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ ظن غالب ہو کہ یہ سبقت قلم کا نتیجہ ہے ہے۔ مثلا "وفي المسألة قولين". (دیکھیں: محاضرات فی تحقیق المخطوطات للدکتور احمد الخراط، ص52)

3 - ایسی غلطی جس میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا کہ یہ سہو اور چوک کا نتیجہ ہے۔ مثلا "ابو حیان" میں نون چھوٹ جائے اور "ابو حیا" ہو جائے۔ عبد اللہ بن مسعود میں "بن" چھوٹ جائے۔ وغیرہ۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا، ص 79، و محاضرات فی تحقیق المخطوطات للدکتور احمد الخراط، ص52)
ماجستیر کے رسالے (ارشاد الساری للقسطلانی کے بعض کتب کی تحقیق) میں اسی طرح کی ایک غلطی مجھے ملی تھی۔ قلمی نسخے میں "إن الله رفيق يحب الرفق" میں "رفیق" کے فاء پر دو نقطے موجود تھے۔ اس طرح کی غلطیوں میں کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ یہ محض چوک اور سہو کا نتیجہ ہے۔ مصنف نے قصدا یہ نہیں لکھا ہے۔

4 - اگر مصنف نے کسی سابقہ کتاب سے کوئی اقتباس نقل کیا ہو اور دوران نقل ایک دو کلمات ان سے ایسے چھوٹ گئے ہوں جن کے از قبیل سہو ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔ اور ان کے بغیر معنی بھی مکمل نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں مصنف کے نسخے کے باوجود متن میں اصلاح کی جائےگی اور حاشیہ میں اس کی وضاحت کر دی جائےگی۔ (دیکھیں: محاضرات فی تحقیق المخطوطات للدکتور احمد الخراط، ص52)

اس کے علاوہ باقی چیزوں میں محقق کو مصنف کے نسخے میں تبدیلی اور اصلاح کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر کوئی کہے کہ غلط معلومات کتاب میں آخر کیسے باقی رکھی جا سکتی ہیں، یہ تو قارئین کے ساتھ نا انصافی ہوگی کہ انہیں غلط معلومات فراہم کی جائیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر محقق کو ایسی کوئی علمی غلطی نظر آتی ہے تو حاشیہ میں ضرور اس پر تعاقب کریں، قطعا مصنف کے احترام میں خاموش نہ رہیں، کیونکہ علم کی خدمت اور حق کا احترام مصنف کے احترام سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس طرح وہ امانت کی ادائیگی اور حق کی نشر واشاعت دونوں فریضے بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا للشیخ عبد السلام محمد ہارون، ص 48)۔

لیکن اگر محقق کے پاس نسخہ عالیہ موجود نہیں ہے تو گزشتہ تفصیل (جو کہ گیارہویں قسط میں بیان کی گئی ہے) کے مطابق باقی نسخوں کی ترتیب دی جائےگی اور علمی اعتبار سے سب سے عمدہ نسخے کو نسخۃ الاصل بنایا جائےگا۔ لیکن اس کا وہ مقام ومرتبہ اور احترام نہیں ہوسکتا جو مصنف کے نسخے کا تھا۔ بلکہ اگر اب نسخۃ الاصل میں کوئی غلطی نظر آتی ہے، یا اس میں بعض کلمات ساقط ہیں تو دوسرے نسخوں سے اس کی اصلاح اور تلافی کی جائےگی۔ نیز یہ کوشش کی جائےگی کہ ان نسخوں کے مابین مصنف کے اسلوب سے جو سب سے قریب تر کلمات ہوں انہیں متن میں جگہ دی جائے، اور دوسرے اختلافات کا ذکر حاشیہ میں کیا جائے۔ (دیکھیں: محاضرات فی تحقیق النصوص، ص 53)

اس منہج کو منہج التلفیق بھی کہتے ہیں۔ اسے بعض محققین معیوب سمجھتے ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ بعض صورتوں میں جائز ہے، بعض صورتوں میں نہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

اگر محقق کے پاس نسخہ عالیہ موجود ہو تو تلفیق جائز نہیں۔

اگر نسخہ عالیہ موجود نہ ہو لیکن باقی نسخوں سے نسخۃ الاصل اپنی گوناگوں خوبیوں کی بنا پرممتاز وبرتر ہو تو غلطی اور سقط کی صورت میں ہی دوسرے نسخوں سے تلفیق درست ہے، صرف زیادہ مناسب اور بہتر کلمہ کی تلاش میں تلفیق صحیح نہ ہوگی۔
ڈاکٹر ایاد خالد الطباع فرماتے ہیں:
"والنهج الأمثل يقتضي أن يلجأ إلى التلفيق إلا في حدود ضيقة وعند الضرورة القصوى, وفي غياب النسخة المعتمدة التي لها من المقومات ما يؤهلها لأن تكون أصلًا". (منهج تحقيق المخطوطات, ص 54-55)
(مثالی منہج کا تقاضہ یہ ہے کہ محدود دائرے، ناگزیر حالات اور اصل بننے کی اہلیت رکھنے والا معتمد نسخہ موجود نہ ہونے کی صورت میں ہی تلفیق کی راہ اختیار کی جائے۔)

اور اگر دویم درجے کے تمام قلمی نسخوں میں طرح طرح کی کمیاں موجود ہوں، اور تقریبا سبھی کی علمی قیمت برابر ہو تو ایسی صورت میں تلفیق ہی بہتر منہج ہے۔

شیخ عبد السلام ہارون فرماتے ہیں کہ اگر ثانوی درجے کے بعض نسخوں میں بعض نسخوں پر کچھ اضافے ہوں اور جانچ پڑتال کے بعد وہ صحیح معلوم ہوتے ہوں تو انہیں متن میں جگہ دی جائےگی۔ اسی طرح اگر بعض نسخوں کی بعض عبارتوں میں کوئی عیب ونقص ہو مثلا نحوی یا لغوی غلطی ہو، یا اس کے معنی ومفہوم کا درست ہونا نا ممکن ہو، یا وہ واضح نہ ہوں، جب کہ بعض دوسرے نسخوں میں یہ عیوب نہ ہوں تو متن میں انہیں ہی جگہ دی جائیں گی جو ان عیوب سے پاک ہوں۔
آگے فرماتے ہیں: بسا اوقات تحقیق تلفیق کا تقاضہ کرتی ہے کہ دو روایتوں میں آدھا صحیح اور آدھا غلط ہو تو دونوں کو ملا کر صحیح عبارت ثابت کی جائے۔ اور حاشیہ میں تمام روایتوں کو ذکر کیا جائے۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا، ص72-73)۔

اور شیخ احمد الخراط فرماتے ہیں: "لا يجوز للباحث أن يعتمد على شخصيته العلمية فيسمح لنفسه أن يكتب كلمة لم يجدها في مجموع النسخ, إنما يجوز له أن يلفق بين هذه النسخ لاختيار ما يراه مناسبًا للوصول إلى النص السليم, فيختار هذه الكلمة من (د), وهذه الكلمة من (ع) وهكذا". (محاضرات فی تحقیق النصوص، ص 53)۔
(اپنے علمی قد پر بھروسہ کرتے ہوئے باحث (محقق) کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی ایسا کلمہ اضافہ کر دے جو تمام نسخوں میں ندارد ہے۔ ہاں صحیح سالم نص تک پہنچنے کے لئے موجودہ نسخوں کے مابین تلفیق کرکے مناسب کلمہ کو اختیار کرنا جائز ہے۔ مثلا ایک کلمہ نسخہ دال سے اور دوسرا کلمہ نسخہ عین سے اختیار کرے، اور اس طرح پوری کتاب تیار کرے۔)

شیخ احمد الخراط نے جس چیز سے منع کیا ہے اسے منہج الاصلاح کہتے ہیں۔ یہ منہج اختیار کرنا محقق کے لئے جائز نہیں ہے یعنی یہ جائز نہیں کہ تمام نسخوں میں کوئی غلطی ہو یا کوئی کلمہ ساقط ہو تو محقق اسے اپنی طرف سے لکھ دے۔ یہ علمی امانت کے خلاف ہے۔

" محقق کے اخلاقی صفات" میں گزر چکا ہے کہ علمی امانت سے متصف ہونا محقق کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔ بعض محققین کے یہاں یہ خلل اپنے خاص مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے ہوتا ہے تو بعض کے یہاں حسن قصد کی بنا پر، جیسا کہ تقریب التہذیب کی تحقیق میں شیخ ابو الاشبال صغیر احمد شاغف پاکستانی نے جن روات کے سوانح میں جرح وتعدیل کے متعلق حافظ ابن حجر کا کوئی حکم نہیں پایا ہے وہاں پر دوسرے مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے بین المعقوفین متن کتاب کے اندر ان کا مقام ومرتبہ ذکر کردیا ہے۔ ان کا یہ عمل علما و محققین کے نزدیک قطعا قابل قبول نہیں ہے۔ اگر یہی کام وہ متن میں نہ کرکے حاشیہ میں کرتے تو یہ قابل تعریف تھا۔

نسخوں کے مابین فروق (اختلافات) کو ہمیشہ حاشیہ میں ذکر کرنا چاہئے، متن میں نہیں۔ نیز جس لفظ پر اختلاف ہوا ہے اگر دوسرے نسخوں سے اس کی اصلاح ناگزیر نہ ہو تو اسے بین المعقوفین لکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ صرف نوٹ چڑھا کر حاشیہ میں اس کی طرف اشارہ کر دے۔

لیکن اگر اس کی اصلاح یا تلافی ضروری معلوم ہوئی تو اس کلمہ کو متن میں بین المعقوفین اس طرح [ ] لکھا جائےگا، اور حاشیہ میں اس کا مصدر اور سبب ذکر کیا جائےگا۔

نسخوں کے مابین اختلافات کو ذکر کرنے کے بھی کئی مناہج ہیں۔ بعض محققین ہر طرح کے فروق کو ذکر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مستشرقین کے یہاں یہ منہج کچھ زیادہ ہی رائج ہے، جب کہ بعض محققین صرف ایسے فروق کو ذکر کرنا پسند کرتے ہیں جن سے معنی پر کوئی اثر پڑے۔ یہی منہج زیادہ بہتر ہے۔

اسی طرح اگر یہ واضح ہو کہ ناسخ سے سبقت قلم کی بنا پر کتابت کی غلطی ہوئی ہے تو ایسے فروق کی طرف اشارہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مثلا کسی کلمہ میں نقطے کی کمی وبیشی ہو جائے، لفظ"ہذا"سے کسی جگہ نقطہ غائب ہو جائے، اور لفظ "غیر" "عیر" ہو جائے تو اس طرح کے فروق کو ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ارشاد الساری کی تحقیق کے وقت ایک بار میں نے شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ سے اس کے متعلق پوچھا تھا۔ شیخ کا کہنا تھا کہ یہ "منہج عیر وغیر" ہے، اور مستشرقین کے نزدیک رائج ہے۔ یہ طریقہ مناسب نہیں۔

ڈاکٹر عبد المجید دیاب فرماتے ہیں: ایسی تمام غلطیوں کو قلمبند کرنا جن کے متعلق محقق کو پتہ ہو کہ یہ ناسخ کے سبقت قلم کا نتیجہ ہے درست نہیں۔ مثلا کسی نسخے میں عبد اللہ بن عمر کی جگہ غین معجمہ کے ساتھ "غمر" ہوجائے تو اسے بھی ذکر کرنا، یہ مستشرقین کا منہج ہے جن کے پاس عربی زبان کی باریکیوں اور اسرار کا ذوق سلیم نہیں ہوتا۔ (دیکھیں: تحقیق التراث العربی منھجہ وتطورہ للدکتور عبد المجید دیاب، ص 254)

نسخوں کے مابین اختلاف کے وقت کیا منہج اپنایا جائے اس مسئلہ میں محققین کے یہاں بعض اختلافات ہیں۔ میں نے ان کی کتابوں ، بعض علمی دوروں اور مشایخ سے استفسارات کے بعد حتی الامکان رائج منہج کو قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیز یونیورسیٹیوں کے اکیڈمک شعبوں میں غالبا یہی منہج رائج العمل ہے۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(اٹھارہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

کسی کتاب کی تحقیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد الخراط فرماتے ہیں: "ليست الغاية من التحقيق تحسين أسلوب المؤلف وتصحيح أخطائه أو أخطاء عصره, وإنما الغاية –كما قلنا- عرض الكتاب كما يريده مؤلفه ثم خدمة نصه بشرح غامضه والتعريف به وتخريجه وفهرسته". (محاضرات في تحقيق النصوص, ص49).
(تحقیق کا مقصد مؤلف کے اسلوب کو نکھارنا یا اس کی اور اس کے زمانے کی غلطیوں کو سدھارنا نہیں ہے، بلکہ تحقیق کا مقصد کتاب کو اس کے مؤلف کی منشا کے مطابق پیش کرنا، پھر مشکل اور پیچیدہ امور کی تشریح کرکے، اس کی تعریف، تخریج اور فہرست تیار کرکے خدمت کرنا ہے۔)

پتہ چلا کہ نص کتاب کی علمی خدمت تحقیق کا اہم مقصد ہے۔ صرف کتاب کو قلمی نسخے سے مؤلف کتاب کےوضع کردہ قریب ترین صورت میں منتقل کردینے سے محقق کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہو جاتیں، بلکہ اس کے بعد بھی ان پر کافی ذمہ داریاں باقی رہتی ہیں۔ یہ خدمات عین تحقیق کا حصہ ہیں۔ البتہ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ محقق صرف ضروری تعلیقات (نوٹس) پر ہی اکتفا کریں، غیر ضروری تعلیقات سے حواشی کو بوجھل کرنا تحقیق نہیں کہلاتی، نیز یہ ان سے مطلوب بھی نہیں ہے۔ محقق کو ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہئے کہ وہ کتاب کے محقق ہیں، شارح نہیں۔

محقق مؤلف اور قاری کے مابین ایک واسطہ ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ سابقہ کام کرنے کے بعد نص کتاب کی مختلف زاویوں سے خدمت کراسے قارئین کے لئے حتی الامکان آسان کر دیں۔ وہ خدمات درج ذیل ہیں:

(1) علامات ترقیم (رموز اوقاف) کا اہتمام:

کسی عبارت میں علامات ترقیم کی وہی اہمیت ہے جو کھانے میں نمک کی ہوتی ہے۔ اگر علامت ترقیم کا مناسب استعمال نہ کیا جائے تو پورا معنی ہی بدلنے کا خوف ہوتا ہے۔ اس لئے ان کا مناسب استعمال ضروری ہے۔
شیخ عبد السلام محمد ہارون فرماتے ہیں: "وللترقيم منزلة كبيرة في فهم النصوص وتعيين معانيها, فرب فصلة يؤدي فقدها إلى عكس المعنى المراد, أو زيادتها إلى عكسه أيضًا, ولكنها إذا وضعت موضعها صح المعنى واستنار وزال ما به من الإبهام".
(نصوص کو سمجھنے اور اس کے معانی کی تعیین میں رموز اوقاف کا بہت بڑا رول ہے۔ بسا اوقات ایک فاصلہ (کوما) کی کمی یا زیادتی سے معنی مراد بدل جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کا مناسب استعمال کیا جائے تو معنی میں درستگی اور چمک پیدا ہو جاتی ہے اور اس کا ابہام بھی دور ہو جاتا ہے۔)
تقریبا اسی طرح کی بات شیخ ایاد خالد الطباع نے منہج تحقیق المخطوطات (ص74) میں کی ہے۔

بعض علامات ترقیم کا استعمال قدیم مخطوطات میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ مثلا دو حدیثوں کے مابین محدثین کرام ایک گول دائرہ اس طرح (o) بنا دیتے تھے ۔ یہ آج کے دور کے فل اسٹاپ کی طرح ہوتا تھا۔ پھر جب دوسری بار اس کا مقارنہ کرتے تو اس دائرے کے بیچ میں ایک نقطہ رکھ دیتے تھے۔ یہ نقطہ اس بات کی علامت ہوتی کہ اس مخطوط کا لکھنے کے بعد مقارنہ بھی کیا گیا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میں یہ دائرہ دیکھا ہے۔ (الباعث الحثیث، ص135)۔

علامات ترقیم کے استعمال کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ دور میں جو علامات ترقیم رائج ہیں ان کا استعمال کیا جائے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔

تمام زبانوں کے رموز اوقاف یکساں نہیں ہیں، بعض امور میں ان میں فرق پایا جاتا ہے۔ مثلا نقطہ (فل اسٹاپ) جو کہ جملہ مکمل ہونے کے بعد استعمال کیا جاتا ہےعربی میں صرف ایک نقطہ (.) اس طرح استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اردو میں اسے اس طرح (۔) لکھتے ہیں۔
یہ علامت (!) عربی میں تعجب، خوشی، غم، خوف، استغاثہ وغیرہ کے موقع پر استعمال کی جاتی ہے جب کہ اردو میں نداکے لئے اس کا استعمال عام ہے۔
چونکہ یہاں پر عربی کتابوں کی تحقیق کی بات چل رہی ہے اس لئے محقق کو چاہئے کہ عربی زبان کے رموز اوقاف کی مکمل معرفت حاصل کریں تاکہ ان کا صحیح استعمال کر سکیں۔

قواعد الاملاء پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں اس کی اچھی رہنمائی موجود ہے۔ان میں سے دو عمدہ کتابیں شیخ عبد السلام ہارون کی "قواعد الإملاء" اور احمد زکی پاشا کی "الترقیم وعلاماتہ في اللغۃ العربیۃ" ہیں۔

جاری.....
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(انیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(2) نص کتاب کی مناسب فقرات (پیراگرافس) میں ترتیب وتنسیق۔

کسی فقرے کی مناسب تنظیم وتنسیق محقق کی نصِّ کتاب کے حسن فہم کی دلیل ہوتی ہے۔
مخطوطات میں بظاہر پیراگرافس کی تنظیم وتنسیق نہیں ہوتی۔ اگر وسط سطر کسی باب یا کتاب کا اختتام ہو تو وہیں سے نئے باب اور کتاب کی ابتدا ہو جاتی ہے، گرچہ وہ صفحے کا آخری سطر ہی کیوں نہ ہو ۔ عصر حاضر میں اسے "عشوائیت" اور "بد ذوقی" سے تعبیر کی جاتی ہےاور اسے علمی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس لئے مناسب فقرات میں نص کتاب کی تنظیم وتنسیق ضروری ہے۔

در اصل مخطوطات میں بھی ایک حد تک فقرات کی تنسیق ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ نئے پیراگراف سے جس کلمہ کی ابتدا ہو اس کے اوپر ایک لکیر کھینچ دیتے ہیں، یا اسے دوسرے رنگ میں لکھتے ہیں، یا اسے موٹے حرفوں میں لکھ کر دوسرے کلمات سے ممیز (ہائی لائٹ) کر دیتے ہیں۔ نیز اس کے علاوہ بھی بعض دوسری علامات موجود ہوتی ہیں۔محقق کو چاہئے کہ ایسے کلمات سے نئے فقرے کی ابتدا کریں۔

دور حاضر کا عرف عام یہ ہے کہ ہر نیا پیراگراف نئے سطر سے شروع ہوگا۔ اور سطر کے شروع میں ایک دو کلمہ کے برابر جگہ چھوڑی جائےگی۔
اسی طرح نئے باب، فصل اور مطلب وغیرہ کو نئے صفحے سے شروع کیا جائےگا۔ یا کم از کم دو ابواب کے مابین مناسب فاصلہ رکھا جائےگا۔
محقق کے ذوق سلیم کی پہچان یہ ہے کہ کسی نئے عنوان کو صفحے کے آخری سطر میں نہ لکھیں۔

بسا اوقات مناسب پیراگرافس میں کلمات اور جملوں کی سیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے معنی بدلنے کا ڈر رہتا ہے یا نفس پر بڑاں گراں گزرتا ہے۔ قدیم علما نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ مصطلح الحدیث کی اکثر کتابوں میں یہ مسئلہ ہمیں نظر آتا ہے۔

امام سیوطی رحمہ اللہ تدریب الراوی (1/502-503) میں فرماتے ہیں: "(ويكره في مثل عبد الله وعبد الرحمن بن فلان) وكل اسم مضاف إلى اسم الله تعالى: (كتابة عبد آخر السطر واسم الله مع ابن فلان أول الآخر)، وأوجب اجتناب مثل ذلك ابن بطة والخطيب، ووافق ابن دقيق العيد على أن ذلك مكروه لا حرام.
(وكذا يكره) في رسول الله أن يكتب (رسول آخره والله مع صلى الله عليه وسلم أوله وكذا ما أشبهه) من الموهمات والمستشنعات، كأن يكتب قاتل من قوله: «قاتل ابن صفية في النار»، في آخر السطر وابن صفية في أوله، أو يكتب فقال، من قوله في «حديث شارب الخمر فقال عمر: أخزاه الله ما أكثر ما يؤتى به» ، آخره، وعمر وما بعده، أوله.
ولا يكره فصل المتضايفين إذا لم يكن فيه مثل ذلك كسبحان الله العظيم، يكتب سبحان آخر السطر والله العظيم أوله، مع أن جمعهما في سطر واحد أولى".
(عبد اللہ اور عبد الرحمن بن فلان اور ہر وہ نام جو اللہ تعالی کے ناموں کی طرف مضاف ہوں ان میں لفظ "عبد" کو سطر کے آخر میں اور اللہ کے نام کے ساتھ "ابن فلان" کو دوسرے سطر کے شروع میں لکھنا مکروہ ہے۔ ابن بطہ اور خطیب بغدادی نے اس سے اجتناب واجب قرار دیا ہے، اور ابن دقیق العید نے ان کی اس بات پر موافقت کی ہے کہ یہ مکروہ ہے حرام نہیں۔
اسی طرح لفظ "رسول اللہ" میں "رسول" کو سطر کے آخر میں اور "اللہ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم" کو دوسرے سطر کے شروع میں لکھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح دوسرے وہ جملے اور کلمات جن سے غلط گمان پیدا ہوتا ہو دو الگ الگ سطروں میں آدھا آدھا لکھنا مکروہ ہے۔ جیسے کہ جملہ "قاتل ابن صفیۃ في النار" میں لفظ "قاتل" کو سطر کے آخر میں اور "ابن صفیۃ في النار" کو دوسرے سطر کے شروع میں لکھا جائے۔ یا جملہ «حديث شارب الخمر فقال عمر: أخزاه الله ما أكثر ما يؤتى به» میں پہلے سطر کے آخر میں "فقال" تک لکھا جائے اور "عمر" ومابعدہ کو دوسرے سطر کے شروع سے لکھا جائے۔
لیکن اگر دو اضافت والے کلمات کو الگ الگ لکھنے میں فساد معنی کا وہم نہ پیدا ہوتا ہو تو انہیں الگ الگ سطروں میں تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسے کہ جملہ "سبحان اللہ العظیم" ہے، اس میں "سبحان" کو سطر کے آخر میں اور "اللہ العظیم" کو دوسرے سطر کے شروع میں لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، حالانکہ ایک ہی سطر میں پورے جملہ کو لکھنا زیادہ بہتر ہے۔)

امام سیوطی رحمہ اللہ نے جن مثالوں سے اس مسئلہ کو بہترین انداز میں سمجھایا ہے اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ لکھنے میں جملوں اور کلمات کی مناسب سیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے قاری غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے اور ایسے معانی اخذ کر سکتا ہے جنہیں مصنف نے مراد نہیں لیا ہے۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
(بیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(3) جن کلمات کے ضبط (اعراب لگانے) کی ضرورت ہو ان کو مناسب حرکات کے ساتھ ضبط کرنا۔

تحقیقی کتب میں یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے جس کا بعض محققین خاص خیال نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے بعض کلمات کو صحیح حرکت کے ساتھ پڑھنے میں قارئین کو کافی پریشانی ہوتی ہے، خصوصا نام، لقب اور کنیت وغیرہ میں اشتباہ ہو تو حرکات کے ساتھ انہیں ضبط کرنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ ان چیزوں میں کوئی قیاس اور قاعدہ کام نہیں کرتا۔

أبو إسحاق النجيرمي فرماتے ہیں : "أولى الأشياء بالضبط أسماء الناس; لأنه لا يدخله القياس، ولا قبله ولا بعده شيء يدل عليه". (تدريب الراوي 1/ 497)
(لوگوں کے ناموں میں حرکت لگانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ ان میں کوئی قاعدہ کام نہیں کرتا، اور نہ سیاق وسباق سے کوئی رہنمائی ملتی ہے۔)
عبد اللہ بن ادریس فرماتے ہیں کہ مجھے شعبہ نے الحسن بن علی سے حوراء والی حدیث بیان کی۔ آپ نے بعدہ لفظ "حوراء" کے نیچے "حور عین" لکھا تاکہ پڑھنے والا غلطی سے اسے جیم اور زاء کے ساتھ "الجوزاء" نہ پڑھے۔ (تدريب الراوي 1/ 497)

سلَّام اور سلَام، عَقیل اور عُقیل جیسے بے شمار نام ایسے ہیں جن میں حرکت کے ذریعہ ہی فرق کیا جا سکتا ہے۔ عُسیلہ والی حدیث میں اکثر طلبہ عبد الرحمن بن الزَّبیر کو زاء کے ضمہ کے ساتھ زُبَیر پڑھتے ہیں جوکہ غلط ہے، اس کا صحیح ضبط زاء کے فتحہ کے ساتھ "زَبِیر" ہے جیسے کہ ابن ماکولا وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ (دیکھیں: الإکمال 4/166-167)

بہت سارے علما نے اس موضوع پر بہت ہی نادر اور قیمتی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لہذا ایسے ناموں کے ضبط کے وقت اس فن کی خاص کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور صحیح حرکات کے ساتھ ان ناموں کو ضبط کرنا چاہئے۔ مثلا :
1- المؤتلف والمختلف للدار قطنی
2- المتفق والمفترق للخطیب البغدادی
3- تلخیص المتشابہ فی الرسم للخطیب البغدادی
4- تالی التلخیص للخطیب البغدادی
5- الإکمال لابن ماکولا
6- تہذیب مستمر الأوھام لابن ماکولا
7- تقیید المہمل وتمییز المشکل للجیانی
8- توضیح المشتبہ لابن ناصر الدین الدمشقی
9- تبصیر المنتبہ بتحرير المشتبه لابن حجر وغیرہ۔
یہ تمام کتابیں الحمد للہ مطبوع ہیں۔ ان میں سے ابن ماکولا کی الإکمال، حافظ ابن حجر کی تبصیر المنتبہ اور ابن ناصر الدین الدمشقی کی توضیح المشتبہ اس باب کی سب سے اہم ترین کتابیں ہے۔
ان کتب کا تعلق شخصیات کے ضبط کے ساتھ ہے۔
اسی طرح دیگر فنون کا معاملہ ہے۔ مثلا:
احادیث نبویہ کے لئے کتب غریب الحدیث مثلا مشارق الأنوار للقاضی عیاض اور النہایہ لابن الأثیر وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

فقہی اصطلاحات کے لئے نسفی کی طلبۃ الطلبہ، امام نووی کی تہذیب الاسماء واللغات اور فیومی کی المصباح المنیر وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

لغوی مباحث کے لئے کتب المعاجم مثلا البارع لأبی علی القالی، تہذیب اللغۃ للأزہری، الصحاح للجوہری، المخصص اور المحکم لابن سیدہ، مختار الصحاح لزین الدین الرازی، لسان العرب لابن منظور، القاموس المحیط للفیروز آبادی وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

قبائل اور بلدان کے لئے معجم ما استعجم لأبی عبید البکری، معجم البلدان لیاقوت الحموی، مراصد الاطلاع لصفی الدین البغدادی وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

بعض کلمات اپنے غلط ضبط کے ساتھ معاشرے میں مشہور ہوجاتے ہیں جنہیں تحقیقی کتب میں صحیح ضبط کے ساتھ لکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ بطور مثال لفظ "خِطَّة" ہی لیں، استاد محترم شیخ عبد الباری بن حماد انصاری اور کلیۃ الحدیث جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کے دیگر اساتذہ نے کئی بار کلاس میں اس لفظ پر ہمیں تنبیہ کی ہے۔ شیخ عبد الباری حفظہ اللہ نے اس لفظ کی تحقیق میں ایک مقالہ بھی تحریر فرمایا ہے۔
اکثر باحثین اسے خاء کے ضمہ ساتھ "خُطہ" پڑھتے ہیں جو کہ وجیہ نہیں ۔ خِطہ یہ تخطیط کے معنی میں ہے۔ مکانات کی تعمیر کے لئے ایک انجنئر جو نقشے تیار کرتا ہے اسے خِطہ کہتے ہیں۔ اور یہی لفظ ہم علمی بحوث کی تخطیط کے لئے استعمال کرتے ہیں، لہذا یہ خاء کے کسرہ کے ساتھ خِطہ ہے، ضمہ کے ساتھ خُطہ نہیں۔ (دیکھیں: الصحاح للجوہری 3/260، تہذیب اللغہ للأزہری 6/559 وغیرہ)۔
اسی ضبط کے ساتھ بہت ساری کتابوں کے نام بھی موجود ہیں، مثلا: خِطط مصر للقضاعي، الخِطط للمقریزي، الخِطط التوفیقیہ لعلي پاشا مبارک، خِطط الشام لمحمد کرد علي۔

اور جہاں تک لفظ خُطہ کی بات ہے تو وہ عربی زبان میں "الأمر العظيم, الأمر, القصة, الحال, الخصلة من الخصال" کے معنی میں مستعمل ہے۔ (دیکھیں: الصحاح للجوہری 3/260، مقاییس اللغۃ لابن فارس 2/154، مشارق الانوار للقاضی عیاض 1/471، عمدۃ القاری للعینی 14/7، وغیرہ)
احادیث کے اندر بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے جسے قاضی عیاض، حافظ ابن حجر اور عینی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔

بعض باحثین نے خاء کے ضمہ کے ساتھ "خُطۃ البحث" بھی کہا ہے لیکن دلائل خاء کے کسرہ والے ضبط کی ہی تائید کرتے ہیں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ ایسے کلمات جو مختلف ضبط کے ساتھ الگ الگ معانی میں مستعمل ہیں انہیں مناسب حرکات کے ساتھ لکھنا نہایت ہی ضروری ہے۔

قلمی نسخوں میں بھی بسا اوقات بعض کلمات پر بعض حرکات موجود ہوتے ہیں۔ ان حرکات کو من وعن نقل کرنا علمی امانت کا تقاضہ ہے۔
بعض حروف پر ایک سے زائد حرکات ہوتے ہیں، انہیں بھی اسی طرح نقل کرنا ضروری ہے۔
اگر بعض مشکل کلمات پر مخطوط میں حرکات موجود نہ ہوں تو کتاب میں دوسری جگہوں پر دیکھنا چاہئے کہ مصنف نے اسے کیسے ضبط کیا ہے، اگر وہ کلمہ فی نفسہ ایک سے زائد حرکات کے ساتھ پڑھنا جائز ہو تو متن میں وہی حرکت لکھنی چاہئے جو مصنف نے دوسری جگہوں پر اختیار کیا ہے۔
اور اگر کتاب میں کہیں بھی اس پر حرکت موجود نہ ہو تو معتبر معاجم (ڈکشنریوں) سے اسے ضبط کرنا چاہئے۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا، ص 80-81)
(ان شاء اللہ شرح الغریب والی قسط میں ان معاجم پر روشنی ڈالی جائےگی)

" کن کلمات پر حرکات لگائی جائیں" زمانہ قدیم سے اس میں علما کا اختلاف رہا ہے۔ بعض علما ہر ہر حرف پر حرکت لگانے کو مستحسن قرار دیتے ہیں۔ جب کہ بعض علما صرف جن کلمات میں اشکال کا خوف ہو ان پر حرکت لگانے کی بات کرتے ہیں۔ یہی دوسرا منہج اقرب الی الصواب ہے۔ واللہ اعلم (تفصیل کے لئے دیکھیں: تدریب الراوی 1/492)
البتہ جہاں التباس کا خوف ہو وہاں بالاتفاق حرکت لگانا ضروری ہے۔

جاری...
 
Top