- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
نظم قرآن:
قرآن مجید کی سورتوں او رآیات کا باہم گہرا ربط نظم قرآن کہلاتا ہے۔ آیات وسورتیں ایک ہار کی طرح ،ایک دوسرے کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں جس میں ہر سورت و آیت موتی کی طرح نمایاں ہے۔ حالانکہ قرآن کی موجودہ ترتیب، ترتیب نزولی سے مختلف ہے اور موضوعات بھی مختلف ہیں۔ ایک موضوع کے ختم ہوتے ہی دوسرا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ کئی آیات میں تکرار بھی پائی جاتی ہے۔مگر ہر مقام پر ان آیات وسورتوں کا گہرا ربط عقل کو دنگ کردیتا ہے۔ مثلاً ارشاد باری تعالی ہے:
{نبئْ عِبَادِیْ أنِّيْ أنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمٌ¢ وَأنَّ عَذَابِيْ ھُوَ الْعَذَابُ الألِیْمُ¢}(الحجر: ۴۹،۵۰ )
اے پیغمبر! میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں بخشنے والا رحم کرنے والا ہوں۔ اور یہ کہ میرا عذاب دردناک عذاب ہے۔
اس کے فوراً بعد ارشاد ہے :
{ونَبِّئہُمْ عَنْ ضَیْفِ إبْرَاہِیْمَ }(الحجر: ۵۱)
اور انہیں سیدنا ابراہیم ؑ کے مہمانوں کے بارے میں بتائیے۔
بظاہر اس آیت کا سابقہ آیت سے کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا لیکن ذرا غور کیا جائے تو بعد کا جملہ پہلے جملے کی تائید کرتا ہے۔سیدنا ابراہیم ؑ کے پاس آنے والے فرشتے سیدنااسحاق ؑ کی پیدائش کی خبر لے کر آئے تھے۔ جو { أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ} (الحجر:۴۹)کا مظاہر ہ تھا۔ مزید برآں وہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے بھی آئے تھے۔ جو {أَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الأَلِیْمَ} (الحجر:۵۰)کی شہادت تھا۔ اس طرح یہ آیات باوجود بظاہر مختلف ہونے کے گہرا ربط رکھتی ہیں۔اس لئے قرآن میں ظاہری بے ربطی اور بے نظمی کا احساس درحقیقت ہماری حیرانی اور سرگشتگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
قرآن مجید کی سورتوں او رآیات کا باہم گہرا ربط نظم قرآن کہلاتا ہے۔ آیات وسورتیں ایک ہار کی طرح ،ایک دوسرے کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں جس میں ہر سورت و آیت موتی کی طرح نمایاں ہے۔ حالانکہ قرآن کی موجودہ ترتیب، ترتیب نزولی سے مختلف ہے اور موضوعات بھی مختلف ہیں۔ ایک موضوع کے ختم ہوتے ہی دوسرا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ کئی آیات میں تکرار بھی پائی جاتی ہے۔مگر ہر مقام پر ان آیات وسورتوں کا گہرا ربط عقل کو دنگ کردیتا ہے۔ مثلاً ارشاد باری تعالی ہے:
{نبئْ عِبَادِیْ أنِّيْ أنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمٌ¢ وَأنَّ عَذَابِيْ ھُوَ الْعَذَابُ الألِیْمُ¢}(الحجر: ۴۹،۵۰ )
اے پیغمبر! میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں بخشنے والا رحم کرنے والا ہوں۔ اور یہ کہ میرا عذاب دردناک عذاب ہے۔
اس کے فوراً بعد ارشاد ہے :
{ونَبِّئہُمْ عَنْ ضَیْفِ إبْرَاہِیْمَ }(الحجر: ۵۱)
اور انہیں سیدنا ابراہیم ؑ کے مہمانوں کے بارے میں بتائیے۔
بظاہر اس آیت کا سابقہ آیت سے کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا لیکن ذرا غور کیا جائے تو بعد کا جملہ پہلے جملے کی تائید کرتا ہے۔سیدنا ابراہیم ؑ کے پاس آنے والے فرشتے سیدنااسحاق ؑ کی پیدائش کی خبر لے کر آئے تھے۔ جو { أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ} (الحجر:۴۹)کا مظاہر ہ تھا۔ مزید برآں وہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے بھی آئے تھے۔ جو {أَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الأَلِیْمَ} (الحجر:۵۰)کی شہادت تھا۔ اس طرح یہ آیات باوجود بظاہر مختلف ہونے کے گہرا ربط رکھتی ہیں۔اس لئے قرآن میں ظاہری بے ربطی اور بے نظمی کا احساس درحقیقت ہماری حیرانی اور سرگشتگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔