• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم اعجاز قرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
 نظم قرآن:
قرآن مجید کی سورتوں او رآیات کا باہم گہرا ربط نظم قرآن کہلاتا ہے۔ آیات وسورتیں ایک ہار کی طرح ،ایک دوسرے کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں جس میں ہر سورت و آیت موتی کی طرح نمایاں ہے۔ حالانکہ قرآن کی موجودہ ترتیب، ترتیب نزولی سے مختلف ہے اور موضوعات بھی مختلف ہیں۔ ایک موضوع کے ختم ہوتے ہی دوسرا موضوع شروع ہو جاتا ہے۔ کئی آیات میں تکرار بھی پائی جاتی ہے۔مگر ہر مقام پر ان آیات وسورتوں کا گہرا ربط عقل کو دنگ کردیتا ہے۔ مثلاً ارشاد باری تعالی ہے:
{نبئْ عِبَادِیْ أنِّيْ أنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمٌ¢ وَأنَّ عَذَابِيْ ھُوَ الْعَذَابُ الألِیْمُ¢}(الحجر: ۴۹،۵۰ )
اے پیغمبر! میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں بخشنے والا رحم کرنے والا ہوں۔ اور یہ کہ میرا عذاب دردناک عذاب ہے۔

اس کے فوراً بعد ارشاد ہے :
{ونَبِّئہُمْ عَنْ ضَیْفِ إبْرَاہِیْمَ }(الحجر: ۵۱)
اور انہیں سیدنا ابراہیم ؑ کے مہمانوں کے بارے میں بتائیے۔

بظاہر اس آیت کا سابقہ آیت سے کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا لیکن ذرا غور کیا جائے تو بعد کا جملہ پہلے جملے کی تائید کرتا ہے۔سیدنا ابراہیم ؑ کے پاس آنے والے فرشتے سیدنااسحاق ؑ کی پیدائش کی خبر لے کر آئے تھے۔ جو { أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ} (الحجر:۴۹)کا مظاہر ہ تھا۔ مزید برآں وہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے بھی آئے تھے۔ جو {أَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الأَلِیْمَ} (الحجر:۵۰)کی شہادت تھا۔ اس طرح یہ آیات باوجود بظاہر مختلف ہونے کے گہرا ربط رکھتی ہیں۔اس لئے قرآن میں ظاہری بے ربطی اور بے نظمی کا احساس درحقیقت ہماری حیرانی اور سرگشتگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پیشین گوئیاں اور انکشافات:

اعجاز قرآن کریم کی ایک اور دلیل اس میں پائی جانے والی پیشین گوئیاں ہیں جو صحیح ثابت ہوئیں ، ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ان پیشین گوئیوں کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔یہ غیب ماضی کا بھی ہوسکتا ہے اور حال ومستقبل کا بھی۔ کشتی نوح، فرعون کی لاش، آپ ﷺ کی زمانہ میں بعض واقعات وقوع پذیر ہوئے ۔ آپ خود وہاں موجود نہیں تھے نہ ہی حاضر مگر وحی الٰہی آپ کو ان واقعات سے آگاہ کرتے رہی۔ کفار آپ کی مؤثر دعوت کا جب ذکر کرتے تو ایک دوسرے کو یہ بھی کہتے کہ خاموش! آہستہ سے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ﷺ کے معبود اسے سن لیں اور پھر وہ انہیں ہمارے بارے میں آگاہ کردیں۔مگر اللہ تعالی وحی نازل فرما کے آپ کو آگاہ کردیتے۔

٭…روم کی فتح، ابو لہب وابوجہل کا برا انجام، ابو طالب کااسلام قبول نہ کرنا، فتح مکہ، فوج در فوج اسلام میں داخلہ ، یاجوج ماجوج کا خروج، دجال کا ظہوراور دابۃ الارض کا نکلناوغیرہ سب امور غیبی سے تعلق رکھتے ہیں۔فتح فارس کی خبر {سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ } (الفتح:۱۶) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں پوری ہوئی۔{وَیَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ}(النحل:۸) اور تمہارے لئے ایسی سواریاں پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔میں متعدد سفری سہولیات کی طرف اشارہ ہے۔

٭… ان غیبی خبروں میں نزول قرآن سے قبل کا زمانہ پیدائش آدم تارسول اکرم ﷺ تک آتا ہے یہ ایسی تاریخ ہے جسے اہل عرب کیا بعد کے لوگ بھی نہ جان سکے۔بنواسرائیل کے بارے میں ایسی تاریخی حقیقتیں قرآن نے منکشف کیں کہ بنو اسرائیل خود پکار اٹھے:
إِنَّ الْقُرْآنَ یَقُولُ لَنَا مَا لَمْ نَقُلْ فِی کُتُبِنَا وَلاَ فِی عَقَائِدِنَا۔
قرآن نے ہمیں وہ باتیں بتائی ہیں جو ہم اپنی کتب میں اور نہ عقائد میں کہہ سکے ۔
قرآن نے انہیں تفصیلاً بیان کرکے اپنا معجز ہونا ثابت کیا ہے۔بعد کے انکشافات اور تحقیقات پر قرآن کریم نے یہ عظیم الشان بیان دیا:
سنریہم آیاتنا فی الآفاق۔۔۔ ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں دکھاتے رہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…احسن سے افضل کلام کی طرف جانے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔لفظ۔ اس کا قائم معنی۔ لفظ اور معنی کا باہمی ربط۔یہ تینوں امور قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کے ساتھ وابستہ ہیں۔انتہائی فصیح، انتہائی رسیلے اور انتہائی مختصر الفاظ احسن طریقے سے جوڑ دئے گئے ہیں۔جن کے معانی کسی بھی صاحب عقل پر مخفی نہیں ہوسکتے۔جن میں نیکی وتقوی اور عمل صالح کے اعلی اور افضل درجات کی طرف تقدم اور ترقی پذیری ہے۔

علاوہ ازیں قرآن نے بہت سے علمی اور سائنسی انکشافات بھی کئے ہیں جونزول کے وقت غیر معلوم اور ناقابل تصور تھے۔ مثلاً: زمین کا بتدریج سکڑنا، ہر چیز کا جوڑوں میں ہونا، کائنات کا پھیلنا، BIG BANG سے یا LITTLE BANG سے کائنات کا وجود میں آنا، کائنات میں موجود ہر چیز کا گھومنا-یہ ایسے انکشافات ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثابت ہورہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تاریخ اعجاز قرآن :

اس موضوع کی داغ بیل اس وقت پڑی جب قرآن کے اسلوب کی خصوصیات معلوم کرنے اور اعجاز القرآن کو سمجھنے کی دل چسپی بڑھی۔ عمرو بن بحر ابو عثمان الجاحظ (م: ۲۲۵ھ) وہ اولین شخص ہیں جنہوں نے اپنی کتاب "نظم القرآن"میں اعجاز القرآن کو موضوع بحث بنایا اور اس پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ اس کا ذکرانہوں نے اپنی کتاب الحیوان میں کیا ہے ۔مثلاً وہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالی نے جنت کی شراب کا ذکر کیا ہے {لَا یُصَدَّعُونَ عَنْہَا وَلَا یُنزِفُونَ}(الواقعہ:۱۹) نہ اس سے ان کا سر پھرے گا اور نہ ہی وہ بہکی باتیں کریں گے۔ ان دونوں کلمات میں اللہ تعالی نے دنیا کی شراب کے تمام عیوب کھول کر رکھ دئے ہیں۔وغیرہ۔

ان کے بعد ابو عبد اللہ محمد بن یزید الواسطی (م:۳۰۶ھ) نے اس موضوع پر کچھ کام کیا۔ پھر ابوعیسیٰ علی بن عیسیٰ رمانی ؒ (م: ۳۸۲ھ) نے اپنی کتاب "النکت فی إعجاز القرآن" میں اعجاز القرآن کے سات وجوہ یا اسباب گنوائے۔ یہ رسالہ، دار المعارف قاہرہ میں "بیان القرآن للمعانی" کے حاشیہ پر چھپ چکا ہے۔ قاضی ابوبکر محمد بن الطیب بن محمد المعروف باقلانی ؒ (م: ۴۰۳ھ) نے اس موضوع پر قابل قدر کتابیں لکھیں۔ اپنی منفرد کتاب "إعجاز القرآن" میں قرآن کے شعرو سجع ہونے کے دعوے کو رد کیا ہے۔

عبد القاہر بن عبد الرحمن الجرجانی ؒ(م: ۴۷۱ھ) نے علم اعجاز القرآن کے اصول و قوانین مدون کئے اور دو اہم کتابیں"دلائل الإعجاز"اور "أسرار البلاغہ" تصنیف کیں۔ جار اللہ زمخشری ؒ نے تفسیر "کشاف"میں قرآنی آیات کے وجوہ اعجاز بیان کئے۔ پھر فخر الدین رازی ؒ (م:۶۰۶ھ) نے جرجانیؒ کی دونوں کتابوں سے استفادہ کر کے "نہایۃ الإعجاز" لکھی۔ اسی طرح سراج الدین ابو یعقوب بن محمد السکاکی ؒ کی کتاب "مفتاح" کا ایک حصہ علم البیان پر مشتمل ہے۔مفسر استاذ محمد بن محمد مصطفی ابو السعود ؒ کو دوسرے مفسرین پر ترجیح اس لئے حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر"إرْشَادُ الْعَقْلِ السَّلِیْمِ إِلٰی مَزَایَا الْکِتٰبِ الْکَرِیْمِ" میں قرآن کے اعجاز اور بلاغت کے پہلو کو خصوصی طور پر اجاگر کیا۔مصطفی صادق رافعی (م: ۱۳۵۶ھ) نے بھی اعجاز القرآن نام کی کتاب لکھی۔الغرض قرآن کا اعجاز اس کے نزول کی نسبت آج زیادہ واضح ہے۔ اور جیسے جیسے علم انسانی ترقی کرے گا قرآن کا اعجاز واضح تر ہوتا چلا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن کا چیلنج :
قرآن مجید کے الفاظ و مضامین نے مجموعی طور پر اس میں وہ خوبی پیدا کر دی جس نے کلام پاک کو بے مثال بنا دیا۔ زمانہ جاہلیت کے اہل عرب فصاحت و بلاغت میں دنیا کی دیگر قوموں سے ممتاز تھے۔ خطابت و شاعری ، فصاحت وبلاغت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی۔ انہیں اپنی زبان دانی پر اس قدر نازتھا کہ وہ اپنے سوا تمام لوگوں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔ اس کے باوجود قرآن نے انہیں چیلنج دیا کہ اگر تم نہیں مانتے تو اس جیسی ایک کتاب لے آؤ۔
{فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ }
اگروہ سچے ہیں تو اس جیسا کلام لے آئیں۔

جب وہ بھر پور کوشش کے بعد پورے قرآن کی نظیر لانے سے قاصر رہے تو انہیں کہا گیا۔
{ قُلْ فاْْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَں} ( ہود:۱۳)
اس جیسی دس گھڑی ہوئی سورتیں لے آؤ اور اللہ کے سوا جس کو بھی بلاسکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔

ولید بن مغیرہ نے-جو مکہ کا رئیس آدمی تھا، جناب رسالت مآب ﷺسے آیت إن اللہ یأمربالعدل۔ بیشک اللہ انصاف کرنے کا حکم دیتاہے۔ پڑھتے ہوئے سن کر کہا::
وَاللّٰہِ إِنَّ لِقَوْلِہِ لَحَلاَوَۃٌ، وإِنَّ عَلَیہِ لَطَلاَوَۃٌ، وَإِنَّہُ لَمُثْمِرٌ أَعْلاَہُ، مُغْدِقٌ أَسْفَلُہُ، وَإِنَّہُ لَیُحَطِّمُ مَا تَحْتَہُ، وَإِنَّہُ لَیَعْلُو وَمَا یُعْلٰی۔فَقَالَ أَبوجَہْلٍ: وَاللّٰہِ مَا یَرْضَی عَنْکَ قَوْمُکَ حَتّٰی تَقُولَ فِیہِ قَولاً۔ قَالَ: فَدَعْنِی أُفَکِّرْ، فَلَمَّا فَکَّرَ قَالَ: ہَذَا سِحْرٌ یُّؤثَرُ، یَأثِرُہُ عَنْ غَیْرِہِ۔ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہِ بِہَذَا القَولِ الآثِمِ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ قَولَہ تَعَالٰی: {إنہ فکر وقدر، فقتل کیف قدر ثم قتل کیف قدر، ثم نظر، ثم عبس وبسر ، ثم أدبر واستکبر، فقال إن ہذا إلا سحر یؤثر}
بخدا اس میں بڑی مٹھاس ہے اور اس پر ایک تازگی ورونق ہے، اس کا زیریں حصہ پانی میں ڈوبا ہوا اور بالائی حصہ پھولوں سے لدا ہوا ہے ۔یہ تو اپنے نیچے والے کا سر پھوڑتا ہے اور اپنے طرز ادا میں بھی غالب آتا ہے نہ کہ مغلوب ہوتا ہے۔ ابوجہل نے اسے کہا: ولید تمہاری اس بات سے قوم خوش نہیں ہوگی جب تک تم اس کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا: اچھا مجھے پھر سوچنے کا موقع دو۔ جب اس نے غور وفکر کیا تو کہہ دیا : یہ بڑا مؤثر جادو ہے جو دوسروں سے اثرات لاتا ہے۔ یہ سوچتے ہی وہ لوگوں کے سامنے آیا اور پھر یہی غلط بات کہہ دی۔ اللہ تعالی نے اس کے بارے میں یہ آیات نازل فرمائیں۔ (مستدرک حاکم: ۲/۵۰۶، السیرۃ النبویۃ ۱/۷۲، ۷۸، الاتقان از سیوطی: ۲/۱۰۰۴)

ایک بدوی کسی شخص کو آیت فاصدع بما تؤمر۔۔۔۔یعنی آپ کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کا کھل کر اعلان کرو۔تلاوت کرتے ہوئے سن کر سجدہ میں گر گیا اور کہا: "میں اس کی فصاحت کے سامنے سجدہ کر رہا ہوں"۔

عتبہ بن ربیعہ آپ سے ملنے کے بعد واپس آیا تو اس کا کہنا تھا:
إِنِّی سَمِعْتُ قَولاً، وَاللّٰہِ مَا سَمِعْتُ بِمِثْلِہٰ قَطُّ، وَاللّٰہِ مَا ہُوَ باِلشِّعْرِ وَلاَ بِالسِّحْرِ، وَلاَ بِالْکَہَانَۃِ۔ فَقَالَ لَہُ الْقَوْمُ: سَحَرَکَ وَاللّٰہِ یَا أبَا الوَلِیدِ بِلِسَانِہِ۔ قَالَ: ہٰذَا رَأیِیْ فِیُہِ، فَاصْنَعُوا مَا بَدَا لَکُمْ۔
میں نے ایک ایسی بات سنی ہے جو بخدا میں نے اس جیسی کبھی نہیں سنی۔ واللہ! وہ نہ تو شعر ہے اور نہ ہی جادو وکہانت۔ لوگوں نے اسے کہا: ابو الولید! اس نے تم پر اپنی زبان کا جادو کردیا ہے۔ اس نے کہا: یہ میری ان کے بارے میں ایک رائے ہے باقی تم جو چاہو کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چیلنج کاجواب :
علامہ جرجانیؒ لکھتے ہیں : مخالفین نے قرآن کریم میں الفاظ کی ترتیب، آیات کا غیر معمولی آغازاور اختتام، الفاظ کی روانی، واقعات کا بیان، اسلوب نصیحت اور یاددہانیوں اور دلائل کو خوب دیکھا اور اس کی ہرسورت اور ا ٓیت پر غور کیا۔ مگر ایک لفظ بھی نہ پایا جو اپنی جگہ غیر موز وں ہو یا جس پر اعتراض کر کے ترمیم کی جا سکتی ہو۔ ان خصوصیات کی وجہ سے کسی شخص کو اس کی مثال لانے کی ہمت نہ پڑی۔ تاہم اس چیلنج کا جواب دینے کے لئے کچھ لوگ میدان میں اترے جن میں سے چند بطور مثال درج ذیل ہیں۔

مسیلمہ کذاب
اس شخص نے سیدنا ابوبکرؓ کے زمانے میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور قرآن کے مقابلے میں مندرجہ ذیل جملوں کو اپنی وحی قرار دیا۔اور یہ دعوی کیا کہ رحمان نامی فرشتہ اس پر وحی نازل کرتا ہے۔

"یَا ضفّْدَعُ بِنْتُ ضَفْدَعَیْنِ ، نَقِّیْ مَا تُنَقِّیْنَ، نِصْفُکِ فِي الْمَائِ وَنِصْفُکِ فِي الطِّیْنِ، لاَ الْمَائَ تَکْدَرِیْنَ وَلاَ الشَّارِبَ تَمْنَعِیْنَ "

اے مینڈک !بیٹی دو مینڈکوں کی! تو صاف ستھری ، کیا ہی تو صاف ستھری ہے۔ تیرا آدھا دھڑ پانی میں اور آدھا مٹی میں ہے۔ نہ تو پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ پینے والے کو روکتی ہے۔

"اَلْفِیُلَ وَمَاالْفِیْلُ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْفِیْلُ، لَہُ ذَنَبٌ دَبِیْلٌ وَخُرْطُوْمٌ طَوِیْلٌ" ہاتھی! کیا ہے، ہاتھی! اور کیا معلوم تجھے کہ ہاتھی کیا ہے۔اس کی ایک سخت دم ہے اور ایک لمبی سونڈ ہے۔

قرآن مجید کی سورۃالعادیات عمدہ ترنم میں لاجواب اور حقیقت آراء سورت ہے۔ مسیلمہ کذاب نے اس کی طرز پر یوں طبع آزمائی کی۔

"وَاْلمُبْدِیَاتِ زَرْعًا، وَالْحَاصِدَاتِ حَصْدًا، وَالذَّارِیَاتِ قَمْحًا، وَالطَّاحِنَاتِ طَحْنًا، وَالْعَاجِنَاتِ عَجْنًا، وَالْخَابِزَاتِ خُبْزًا، وَالثَّارِدَاتِ ثَرْدًا، وَاللاَّقِمَاتِ لُقْمًا، إِھَالَۃً وَسَمْنًا، لَقَدْ فُضِّلْتُمْ عَلٰی أَھْلِ الْوَبَرِ، وَمَا سَبَقَکُمْ عَلٰی الْمَدَرٍِ " قسم ہے کھیتی ظاہرکرنے والیوں کی، اور گیہوں پھٹکنے والیوں کی اور پسائی کرنے والیوں کی، اور آٹا گوندھنے والیوں کی، اور ثرید پکانے والیوں کی، اور گھی کے ساتھ پے درپے لقمے توڑنے والیوں کی، کہ اے میرے قبیلہ والو! تمہیں صحرا نشینوں پر فضیلت دی گئی ہے اور شہریوں پر تمہیں کیا ہی سبقت حاصل ہے۔

لفظی خامیوں کے علاوہ اس نے ہر جگہ واؤ کا بے دریغ استعمال کیا ہے حالانکہ سورہ العادیات میں ف اور إن کا استعمال بھی ہے۔ پھر جو کام مردوں کے تھے یا مرد اور عورت کے مشترک تھے ان کو بھی صرف عورتوں کا بنادیا۔ یہ ایسا نمونہ ہے جو کسی عربی ماہر نے قابل تذکرہ ہی نہیں سمجھا۔نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے جھوٹے اور نام نہادنبی پر شیطان اپنا احمقانہ کلام کس طرح القاء کرتا ہے۔اسی لئے سیدنا عمرو بن العاص جو اس کے قدیم دوست تھے جب انہوں نے ایسی وحی سنی جس میں اس نے کہا: یا وَبَر یَاوَبَر إنَّمَا أَنْتَ أُذُنَانِ وَصَدْرٌ وَسَائِرُکَ حَفْرٌ نَقْرٌ۔ اے وبر اے وبر! (لبنان کا جانور جو نیولے اور خرگوش سے ملتا جلتا ہے)تیرے صرف دو کان اور سینہ ہے اور باقی تو مٹی اور لاغری ہے۔تو مسیلمہ نے پوچھا: عمرو! کیا کہتے ہو اس وحی کے بارے میں؟ سیدنا عمرو نے مسکراتے ہوئے اسے کہا: وَاللّٰہِ إِنَّکَ لَتَعْلَمُ أَنِّیْ أَعْلَمُ أَنَّکَ تَکْذِبُ۔ بخدا تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں واقعی یہ جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
 ابو منصور حلاج
یہی وہ شخص ہے جس نے وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا یعنی اس نے خالق اور مخلوق کو ایک دوسرے میں ضم کردیا۔خطیب بغدادی لکھتے ہیں: دینور میں ایک شخص اپنے سامان سمیت پکڑا گیا۔ اس کی تلاشی لی گئی تو اس میں ایک خط برآمد ہوا جس میں لکھا تھا: مِنَ الرّحْمٰنِ الرّحِیم ِإلیٰ فُلانَ بْنِ فُلاَنٍ۔قاضی بغداد کے سامنے حلاج کو پیش کیا گیااس نے اعتراف کیا کہ یہ خط اسی کا لکھا ہوا ہے۔ قاضی نے پوچھا: پہلے تو تم نبوت کا دعوی کرتے رہے اب ربوبیت کا بھی دعوی ہے؟ حلاج نے جواب میں کہا: میں ربوبیت کا دعوی نہیں کرتا مگر یہ میرے نزدیک عین الجمع ہے ۔ کیا کاتب اللہ کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ میں اور میرا ہاتھ تو صرف ایک آلہ ہے۔(تاریخ بغداد ۸، ۱۳۷)ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے: مشہور بزرگ ابوعمرو بن عثمان مکی ایک بار حلاج کے قریب سے گذرے پوچھا : کیا لکھ رہے ہو؟ حلاج نے جواب دیا: قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان نے بددعا دی جس کے نتیجہ میں حلاج قتل کردیا گیا۔ یہ کتاب کتاب" الطواسین" تھی جس میں قرآن جیسی عبارت پیش کرنے کی اس نے جسارت کی۔ اس نے لکھا: "طاسین، السِّرَاجُ طَاسِیْن، اَلْفَھْمُ طَاسِیْن، اَلصَّفَا طَاسِین" ۔اس میں نہ قرآن جیسی بلاغت ہے نہ حکمت۔ اس کے عجیب و غریب دعوے سن کر عام وخاص بہکے ۔کیمیا گر تھا اور عام آدمیوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے صوفیوں جیسے طریقے اختیار کرلئے تھے۔ اس کاکہنا تھاکہ اللہ تعالیٰ بندوں بلکہ درندوں میں بھی حلول کر جاتا ہے۔کسی شے کی حقیقت کے بارے میں ہم نہیں جانتے، ہوسکتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ حلول کئے ہوئے ہو۔جب انسان اپنے رب سے وصال کرجائے تو اس پر شریعت کی پابندی ہے اور نہ عبادت کرنا ضرور ی ہے ۔ مریدوں کے پاس ہوتا تو خدائی کا دعوی کرتا اور کہتا کہ خدا مجھ میں حلول کرگیا ہے اور جب سلاطین کے پاس جاتا تو کہتا :میں شیعہ مذہب کا آدمی ہوں۔ اور عوام سے کہتا : میں ایک صوفی ہوں۔ انتہائی گمراہ کن باتوں اور نظریات کی وجہ سے ۳۰۹ھ؁ میں حامد بن عباس وزیر نے خلیفہ وقت کی اجازت سے اورمفتیان وقت کے مصدقہ فتوی سے اسے پھانسی پر لٹکا دیا۔(معارف : حسین بن حلاج کی تاریخی شخصیت از سید سلیمان ندوی، ج ۲، شمارہ ۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عبد اللہ بن مقفع
یہ عربی ادب کا ایک بڑا فصیح و بلیغ ادیب تھا۔ اس نے جب قرآن کا چیلنج سنا تو سوچا کہ کیوں نہ طبع آزمائی کی جائے اور اپنی منفرد تحریر اس کے مقابلے میں پیش کی جائے۔ اس نے اپنی عمر کا ایک حصہ قرآن کے مقابلہ میں کتاب لکھنے پر وقف کیا۔ لیکن ایک دفعہ راستے سے گذرتے ہوئے کسی بچے کے منہ سے یہ آیت سنی۔
{وَقِیْلَ یَا أرْضُ ابْلَعِيْ مَائَکِ وَیَا سَمَائُ أقْلِعِيْ} (ھود: ۴۴ )
اور کہا گیا اے زمین! اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان! تھم جا۔

تو پکار اٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ کلام الٰہی ہے اور اس کا مقابلہ ناممکن ہے۔

فیضی نے بغیر نقطوں کے ایک تفسیر سَوَاطِعُ الإِلْہَامِ لکھی ۔ جسے ایک بہت بڑا معجزہ قرار دیا جاتا تھا جب کہ وہ خوداپنی تفسیر کو قرآن کا توڑ نہیں سمجھتا اور نہ ہی یہ دعویٰ کرتا ہے بلکہ آخری زندگی تک وہ قرآن مجید کے اعجاز کا قائل رہا۔ اپنی اسی تفسیر میں قرآن کے اعجاز اور تعریف کو پُرزور الفاظ میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:

کَلاَمُ اللّٰہِ لاَحَدَّ لِمَحَامِدِہِ وَلاَ عُدَّ لِمَکَارِمِہِ وَمَائٌ لاَ سَاحِلَ لَہُ"۔ قرآن اللہ کا کلام ، جس کی تعریفوں کی انتہاء نہیں اور جس کے فضائل شمار میں نہیں آ سکتے ، وہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا ساحل نہیں-

٭٭٭٭٭​

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Top