محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
اللہ آپ کو خوش رکھے آمین۔جزاک اللہ خیرایہ بھی یاد رہے کہ یہ شرک کا مسئلہ ہے اس لئے اس میں ہم کسی کی طرح کی بھی مداہنت یا مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔
اللہ آپ کو خوش رکھے آمین۔جزاک اللہ خیرایہ بھی یاد رہے کہ یہ شرک کا مسئلہ ہے اس لئے اس میں ہم کسی کی طرح کی بھی مداہنت یا مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔
قران نے توحید کو نکتہ اشتراک بنایا ہے اور آپ شرک کو نکتہ اشتراک بنانا چاہئے۔یہ امت خرافات میں کھوگئی
حقیقت ’’روایات‘‘میں کھوگئی
یہ کہنے والے ہیں علامہ اقبال ۔علامہ اقبال کامطالعہ کافی وسیع تھا اورقوموں کے عروج وزوال پرگہری نگاہ تھی۔ یہاں عبداللہ حیدرصاحب نے بریلوی حضرات میں سے ایک صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیاجوبہت حد تک اسلامی تصورات سے ہم آہنگ یااس کے قریب قریب ہے۔مقصد یہ تھاکہ بڑے صغیرمیں تین بڑے اسلام دھڑوں کے مابین جواختلافات ہیں ان میں ان میں نکتہ اشتراک زیادہ سے زیادہ نکالاجائے۔
لیکن افسوس کہ اب عبداللہ حیدرصاحب کی ذات ہی ہدف تنقید بن گئی ہے اوران کو ہی ’’شرکیہ خیالات کے حامل ‘‘جیسے الفاظ سے خطاب مل رہاہے۔
میں نے عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان قرآن کریم میں موجودنکتہ اشتراک کی طرف توجہ دلائی تھی اورکہاتھاکہ اس وقت بھی ان کا تصورالہ صحیح نہیں تھا۔
کچھ حضرات نے اسی آیت کو مکمل صورت میں پیش کیاہے ۔لیکن میں نہیں سمجھتاکہ اس سے میری کہی ہوئی باتوں پر کوئی فرق پڑتاہے کیااسلامی تصورالہ صرف خدائے واحد کی عبادت اورپرستش تک ہی محدود ہے۔ عقائد کی کتابوں میں جو تفصیلات ہیں کیاوہ سب بیکار محض ہیں۔ امام طحاوی نے عقائد پر جوکتاب لکھی ہے اوراس میں تصورالہ کو تفصیل سے پیش کیاہے اوراسی طرح حضرت ابن تیمیہ اوردیگر علماء اسلام نے جوکچھ عقائد پر لکھاہے میراخیال ہے کہ جس نے بھی مطالعہ کیاہوگاوہ جانتاہے کہ اسلامی تصورالہ آیت میں پیش کردہ امور سے کہیں زائد ہے ۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ بنیادی بات آیت میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن تفاصیل سے صرف نظر کرلیاگیاہے۔
یہی توہم بھی کہناچاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے ایک بات کو مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان نکتہ اشتراک بنایا۔اوربقیہ تفاصیل کو ضروری نہیں سمجھا۔ اگرمخاطب اس حدتک مان لے تواس نے گویاآدھاپل پار کرلیا۔ اب محض تھوڑی کوشش کی ضرورت رہ جاتی ہے۔
مذکورہ عقیدہ ایک بریلوی عالم کا نہیں بلکہ پوری دنیائے بریلوت کا ہے اب تک جتنے بھی بریلوی اہل علم سے اس مسئلہ پر میری بات ہوئی ہے سب نے یہی وضاحت کی ہے کہ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کو بالذات نہیں بلکہ عطائی مانتے ہیں، اوربریلویوں کے احمد رضا صاحب نے بھی متعدد مقامات بالکل یہی بات کہہ رکھی ہے۔اب جب بریلویوں کے ایک مقتدر عالم نے یہ بات کھل کر کہی ہے کہ حضور بالذات اورمستقلاعالم الغیب نہیں تھے اورنہ ان کو بالذات اوراستقلالی طورپر علم غیب حاصل تھا توآدھی بات توانہوں نے طے کردی
جناب یہاں پر اختلاف ہی توحید و شرک کا آپ صاحبان جس نکتہ سے اتحاد کا اغاز کررہے ہیں ہمارے نزدیک وہیں سے شرک کا آغاز ہوتا ہے، ہمیں اس میں ذرا بھی شک نہیں لہٰذا ان خیالات کا حامل ہمارے نزدیک شرکیہ خیالات کا حامل ہے البتہ ہم اسے مشرک یا کافر نہیں کہتے یہ فرق اہل علم کے یہاں معروف ہے۔اسی کے ساتھ یہ کہنابھی ضروری ہے کہ جن کو ان خیالات سے اتفاق نہ ہو وہ علم اوردلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ کسی کو شرکیہ خیالات کاحامل قراردینا بڑی جرات کی بات ہے ۔اللہ ہم سب کو دین کے صحیح فہم اوراس پر عمل کی توفیق دے۔وماعلیناالاالبلاغ
السلام علیکم، فورمز پر لکھتے ہوئے چھے سات برس ہونے کو آئے ہیں۔ مختلف مواقع پر "وہابی"، دیوبندی اور اہل حدیث ہونے کے طعنےملتے رہے ہیں لیکن اپنوں کی کمین گاہ سے شرک و مشرک کے تیر پہلی دفعہ برسے ہیں :) ۔ آپ جو بھی کہہ لیں، غالب کے رقیب کی طرح ہم بھی گالیاں کھا کر بے مزہ ہونے والے نہیں ہیں ان شاء اللہ۔ تجربہ شاہد ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لوگ عموما مخلص لیکن تحمل کی صفت سے عاری ہوتے ہیں۔ :(جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
اگر یہی وضاحت عبداللہ حیدر بھائی کی طرف سے ہوجائے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!السلام علیکم،
علم الغیب عطا کرنے اور "علم الغیب میں سے کچھ" عطا کیے جانے میں فرق ہے۔
محترم اور عزیز بھائی!حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی صفت کسی مخلوق کو - محدود طور پر بھی - نہیں دی، بلکہ اللہ کی صفات خالق کی صفات ہیں اور ہماری مخلوق صفات۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ ... سورة القصصکہ ’’اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہے اور پسند فرماتا ہے ان (مخلوق) کا کچھ اختیار نہیں، پاکی اور برتری ہے اللہ کو ان کے شرک سے ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی قسم کا کوئی اختیار کسی مخلوق کو نہیں دیا، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے خواہ محدود طور پر ہی تو یہ شرک ہے، جیسے آیت کریمہ کے آخری حصّے سے معلوم ہو رہا ہے۔
مزید فرمایا: ﴿ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴾ ... سورة السجدةکہ ’’کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کی تدبیر آسمان سے لے کر زمین تک اکیلے کرتے ہیں، اس تدبیر میں مخلوق (فرشتوں یا انسانوں) کو شامل سمجھنے کا عقیدہ غلط ہے۔ البتہ مخلوق کی صفت بھی تدبیر ہے جو مخلوق صفت ہے جس کی اللہ کی تدبیر سے کوئی نسبت نہیں، وہ تدبیر تو اللہ تعالیٰ اکیلے فرماتے ہیں۔
مزید فرمایا: ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ﴾ ... سورة سبأکہ ’’تم فرماؤ پکارو انہیں جنہیں اللہ کے سوا سمجھے بیٹھے ہو وہ ذرہ بھر کے مالک نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کچھ حصہ اور نہ اللہ کا ان میں سے کوئی مددگار ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ کسی مخلوق (خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء واولیاء کرام) کے پاس زمین وآسمان میں ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں، اور نہ ہی کسی کا آسمان وزمین کی تخلیق میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی کوئی مخلوق کسی بھی کام میں اللہ کی مدد گار ہے، اللہ تعالیٰ اکیلے وحدہ لا شریک یہ معاملات سر انجام دے رہے ہیں۔ اور ان معاملات میں کسی کو بھی شریک سمجھنا - خواہ انتہائی محدود طور پر ہی - شرکِ اکبر ہے۔
مزید فرمایا: ﴿ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴾ ... سورة فاطرکہ ’’ رات لاتا ہے دن کے حصہ میں اور دن لاتا ہے رات کے حصہ میں اور اس نے کام میں لگائے سورج اور چاند ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے یہ ہے اللہ تمہارا رب اسی کی بادشاہی ہے، اور اس کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو دانہ خُرما کے چھلکے تک کے مالک نہیں ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘
ان تمام آیات بینات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو - خواہ کتنی ہی افضل کیوں نہ ہو - اپنی کوئی صفت - خواہ انتہائی محدود طور پر ہی - نہیں دی، اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے تو یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی صفات دوسروں کو دینے کا کیا فائدہ؟ (جو شرک ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے۔) فائدہ تو تب ہو جب (نعوذ باللہ) اللہ کیلئے یہ تمام کام اکیلے سنبھالنا مشکل ہو، یا اللہ تعالیٰ تھک جائیں، جو ممکن نہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ﴾ ... سورة قکہ ’’اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا، اور تکان ہمارے پاس نہ آئی ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘
وعلیکم السلامالسلام علیکم، فورمز پر لکھتے ہوئے چھے سات برس ہونے کو آئے ہیں۔ مختلف مواقع پر "وہابی"، دیوبندی اور اہل حدیث ہونے کے طعنےملتے رہے ہیں لیکن اپنوں کی کمین گاہ سے شرک و مشرک کے تیر پہلی دفعہ برسے ہیں :) ۔ آپ جو بھی کہہ لیں، غالب کے رقیب کی طرح ہم بھی گالیاں کھا کر بے مزہ ہونے والے نہیں ہیں ان شاء اللہ۔ تجربہ شاہد ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لوگ عموما مخلص لیکن تحمل کی صفت سے عاری ہوتے ہیں۔ :(
آپ کے یہ الفاظ اسی طرح چند دوسرے الفاظ نظر سے گذرے تو میں نے فورا جواب نہیں دیا کہ شاید اس میں ترمیم ہوجائے لیکن جب ایک طول عرصہ تک یہ الفاظ فورم کی زینت بنے رہے تب معلوم ہوا کہ ابھی مجھے سیکھنا پڑھے گا کہ طنزیہ عبارت کسے کہتے ہیں ، چونکہ ہمیں اعتراف ہے کہ ہمارے اندر طنزیہ عبارت اور شائستہ عبارت میں فرق کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے سردست آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔تجربہ شاہد ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لوگ عموما مخلص لیکن تحمل کی صفت سے عاری ہوتے ہیں۔ :(
آپ کے دل میں آپ کا اصل عقیدہ کیا ہے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے ، ہم صرف ظاہر ہی پر حکم لگاسکتے ہیں ، اورہمیں اپنے بارے میں آپ سے زیادہ فکرہے کہ بارگاہ الہی میں اپنے ایک ایک لفظ اورایک ایک حرف کا جواب دینا ہے، جس عقیدہ کو ہم شرک سمجھتے ہیں ہیں ، اور جس کے شرکیہ ہونے میں چودہ سو سالہ دور میں اہل سنت کے بیچ کوئی اختلاف نہیں پاتے ہیں ، ایسے شرکیہ عقیدہ کو ہم مصلحۃ کوئی اور نام نہیں دے سکتے، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں اورنہ ہی اس مسئلہ سے متعلق نصوص غیر واضح ہیں کہ اسے اجتہادی سمجھ لیا جائے ، علم غیب کسی بھی معنی میں غیر اللہ کو حاصل نہیں ہے یہ ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس پر دلالت کرنے والے نصوص صریح اورقطعی ہیں ان میں تاویل کی ذرا بھی گنجائش نہیں لہٰذا ہم اجتہاد کے نام پر اس شرکیہ عقیدہ کو الخلاف الجائز کے زمرے میں نہیں ڈال سکتے ۔میں اپنے عقیدے سے بخوبی واقف ہوں جس کی درستگی کی سند کے لیے مجھے آپ کو الفاظ واپس لینے پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ جو لکھتے ہیں اس کا حساب آپ نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دینا ہے۔
اس سے پہلے بھی بعض شخصیات کی عبارتیں آپ پیش کرچکے ہیں ، اور انہیں غلط معنی پہنایا ہے اورشیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی عبارت کا مفہوم بھی آپ کی نظر میں وہی ہو تو یہ حوالہ آپ کے عقیدہ کی عکاسی نہیں کرتا۔بہرحال، کسی بدگمانی سے بچنے کے لیے میں اپنا عقیدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
اولاتو علماء کے اقوال بطور حجت نہیں پیش کئے گئے ہیں ، ثانیا کیا یہ پہلا موقع ہے کہ علماء کے اقوال سامنے لائے گئے ہیں، ذرا ایک نظر اس موضوع کے پچھلے مراسلات پر ڈال لیں، تصور الہ والی بات کا جواب دیا جاچکا ہے۔یہ عجیب ماجرادیکھاگیاہے جب دلائل کی بات ہوتوکچھ لوگ شخصیات کو درمیان میں لے آتے ہیں اورجب شخصیات کی بات ہوتوپھردلائل کا نعرہ لگاتے ہیں۔
یہاں پراس کی کوئی ضرورت نہیں بنتی کہ علماء دیوبند یاعلماء اہل حدیث کے اقوال پیش کئے جائیں۔
میں نے محض ایک چھوٹاساسوال پوچھاتھاکہ عیسائیوں سے جس نکتہ اشتراک کی قرآن نے دعوت دی تھی۔ اس وقت عیسائیوں کا تصور الہ کیااسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا اورکیاآیت میں جتنی بات کہی گئی ہے اسلامی تصورالہ اسی قدر ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے؟
محترم بھائی! اسی تھریڈ کی پوسٹ نمبر 24 میں پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے ’عقیدۂ تثلیث‘ کو نہیں بلکہ قرآن کریم کے ’عقیدۂ توحید‘ کو نکتۂ اشتراک بنایا ہے، جو قرآن کریم میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے تین نکات ﴿ أن لا نعبد إلا الله، ولا نشرك به شيئا، ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله ﴾ میں بیان فرمایا ہے، گویا انہی تین نکات کو نکتۂ اشتراک بنایا گیا ہے اور بس!میں نے محض ایک چھوٹا سا سوال پوچھا تھا کہ عیسائیوں سے جس نکتہ اشتراک کی قرآن نے دعوت دی تھی۔ اس وقت عیسائیوں کا تصور الٰہ کیااسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا اور کیا آیت میں جتنی بات کہی گئی ہے اسلامی تصورالہ اسی قدر ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے؟
اور اسی کے مطابق علم الغیب کا فیصلہ بھی کر لیں! کیا خیال ہے آپ کا؟!!اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
میرے بھائی! میں نے بھی کوئی نیا عقیدہ بیان نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدے کی وضاحت کے لیے شیخ الاسلام جیسے جید عالم کے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ آسانی کی خاطر دوبارہ اقتباس دے دیتا ہوں۔ اس کے ایک ایک جز کا ترجمہ کیجیے اور اس میں موجود "شرک" اور "مشرکانہ عقیدے" کا بدلائل رد فرمائیے کیونکہ یہ ناقص العلم اس میں شرک کی بو پانے سے معذور ہے۔وعلیکم السلام
آپ کے دل میں آپ کا اصل عقیدہ کیا ہے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے ، ہم صرف ظاہر ہی پر حکم لگاسکتے ہیں ، اورہمیں اپنے بارے میں آپ سے زیادہ فکرہے کہ بارگاہ الہی میں اپنے ایک ایک لفظ اورایک ایک حرف کا جواب دینا ہے، جس عقیدہ کو ہم شرک سمجھتے ہیں ہیں ، اور جس کے شرکیہ ہونے میں چودہ سو سالہ دور میں اہل سنت کے بیچ کوئی اختلاف نہیں پاتے ہیں ، ایسے شرکیہ عقیدہ کو ہم مصلحۃ کوئی اور نام نہیں دے سکتے، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں اورنہ ہی اس مسئلہ سے متعلق نصوص غیر واضح ہیں کہ اسے اجتہادی سمجھ لیا جائے ، علم غیب کسی بھی معنی میں غیر اللہ کو حاصل نہیں ہے یہ ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس پر دلالت کرنے والے نصوص صریح اورقطعی ہیں ان میں تاویل کی ذرا بھی گنجائش نہیں لہٰذا ہم اجتہاد کے نام پر اس شرکیہ عقیدہ کو الخلاف الجائز کے زمرے میں نہیں ڈال سکتے ۔
میں اپنا عقیدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
وهو سبحانه قال { قل لا يعلم من } ولم يقل " ما " فإنه لما اجتمع ما يعقل وما لا يعقل غلب ما يعقل وعبر عنه بـ " من " لتكون أبلغ فإنهم مع كونهم من أهل العلم والمعرفة لا يعلم أحد منهم الغيب إلا الله . وهذا هو الغيب المطلق عن [ جميع المخلوقين ] الذي قال فيه { فلا يظهر على غيبه أحدا } . [ والغيب المقيد ما علمه ] بعض المخلوقات من الملائكة أو الجن أو الإنس وشهدوه فإنما هو غيب عمن غاب عنه ليس هو غيبا عمن شهده . والناس كلهم قد يغيب عن هذا ما يشهده هذا فيكون غيبا مقيدا أي غيبا عمن غاب عنه من المخلوقين لا عمن شهده ليس غيبا مطلقا غاب عن المخلوقين قاطبة . وقوله : { عالم الغيب والشهادة } أي عالم ما غاب عن العباد مطلقا ومعينا وما شهدوه فهو سبحانه يعلم ذلك كله .
والسلام علیکم