• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴۔علم غریب الحدیث:
غریب سے مراد حدیث کے غیر مانوس اور قلیل الاستعمال الفاظ ہیں۔ایسے الفاظ کا معنی ومفہوم چونکہ لوگوں پر مخفی ہوتا ہے اس لئے یہ شرح و تفسیر کے محتاج ہوتے ہیں۔حدیث فہمی کا یہی پہلا زینہ ہے تاکہ تفہیم حدیث کے ساتھ استنباط مسائل بھی صحیح ہوسکیں۔اس لئے جوحدیث با معنی بیان ہوتی ہے محدثین اس کے الفاظ پر خاص توجہ دیتے ہیں۔

وجوہات :
لوگوں کی اپنی عربی زبان بگڑتی یا عربی دانی کم ہوتی ہے تو ان پر ان الفاظ کا معنی و مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ یا ان الفاظ کا استعمال کم ہو تو سمجھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ایسے ا لفاظ کی شرح اور وضاحت گو دشوار کام ہے مگر پھر بھی درست معنی کی تلاش ضروری ہے جو غریب الحدیث کی قوامیس (Dictionaries) میں بآسانی مل جاتی ہے۔ محض ظن و تخمین کی بنیاد پر نبی کریمﷺ کے کلام کی تفسیر ووضاحت کی اجازت نہیں۔ غیر مانوس لفظ کی عمدہ ترین وضاحت وہ روایت ہوگی جس میں تفسیر مل جائے۔ اس علم نے استنباط واجتہاد کے دروازے بھی کھولے ہیں اور ذہنوںمیں دینی وفقہی وسعت پیدا کی ہے ۔قوامیس کو الفبائی ترتیب سے کس طرح مرتب کیا جائے اور تشکیل نہ ہونے کی صورت میں لفظ یا نام کے اعراب کو کیسے واضح کیا جائے یہی علم ہے جس نے ان مشکلات کا راستہ سہل بنا دیا۔ مشہور کتب درج ذیل ہیں۔

۱۔ مشارق الانوار از قاضی عیاض بن موسیٰ الیحصبی۔
۲۔ غریب الحدیث۔ از ابو عبید القاسم بن سلام۔
۳۔ النھایہ فی غریب الحدیث: از ابن الاثیر الجزری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۵۔ علم الرجال:
راوی حدیث کے حالات کا جائزہ اس علم میں اس طرح لیا جاتا ہے کہ راوی کا نام ،اس کی کنیت،نسبت اور لقب وغیرہ کیا ہیں۔ کس طبقے ومرتبے میں اس کا شمار ہوتاہے ؟اس کی پیدائش ،اساتذہ و تلامذہ کی تفصیل،طلب حدیث کے لئے اس کے اسفار، اس کی ثقافت و دیگر حالات زندگی نیز علمائے حدیث نے اس کی حدیث کو قبول یا رد کرنے میں کیا کیا جرح و تعدیل کی۔کون سی کتابیں لکھیں؟ ان میں وارد احادیث کا یا رواۃ کا علمی معیار کیا ہے؟ راوی خود کب اور کہاں فوت ہوا۔ راوی کے بارے میں ان تمام معلومات کو جمع کرنا۔علم الرجال کہلاتا ہے ۔گو حدیث کی روایت میں متمیز بچوں اور خواتین کا بھی خاصا حصہ ہے مگر چونکہ زیادہ تر کام مرد حضرات نے اس میدان میں کیا ہے ۔اس لئے اسے علم الصبیان یا علم النساء کہنے کی بجائے تغلیباً علم الرجال کہا گیا ۔ اس علم کے تعارف سے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے بے شمار رجال کار کے حالات زندگی محفوظ کر لئے۔ جو ایک بہت بڑا قیمتی سرمایہ اور قابل فخر اعزاز ہے ۔ اس علم کے کچھ اور نام بھی ہیں۔ مثلاً

علم الرواۃ۔ علم الاسانید۔ علم اسماء الرجال۔ علم رجال الاثر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۶۔ علم جرح و تعدیل:
یہ وہ علم ہے جس میں راوی کی عدالت و ثقاہت یا اس کے معائب و ضعف سے متعلق مخصوص الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔اگر وہ لفظ جرح کے ہوں تو راوی مجروح ہوتا ہے اور اگر عدالت کے ہوں تو راوی عادل قرار پاتا ہے۔جو عالم راوی پر جرح کرتا ہے اسے جارح اور جو کسی راوی کو عادل قرار دیتا ہے اسے معدل کہتے ہیں۔ یہ علم، فن روایت حدیث کی اساس اور اس کی اولین بنیاد ہے اس لئے کہ اگر راوی ضعیف ہو تو روایت یادرایت کس کام کی؟اوراگر راوی ثقہ ہو تو ایسی حدیث رد کردینا کون سی دانش مندی ہے؟ محدثین نے جرح وتعدیل کے اصول قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ سے کشید کئے تاکہ صحیح حدیث کو برآمد کیا جاسکے۔ مثلاً یہ آیت:

{يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ}۔ الحجرات:۶۔ اے اہل ایمان! جب تمہارے پاس کوئی فاسق اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کئے پرتم پشیمان ہو۔

اورآپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی :
نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاھَا ثُم أَدَّاھا کَمَا سَمِعَھَا۔ اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات غور سے سنتا ہے اور پھر اسے بخوبی یاد کرتا ہے پھر اسے ویسے ہی آگے پہنچا دیتا ہے جس طرح اس نے اسے سنا ہوتا ہے۔

نیز آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی:
مَنْ تَعَمَّدَ عَلَیَّ کَذِبًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ جو بھی جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ آیات واحادیث علم جرح وتعدیل کی بنیاد بنیں۔ قرآن مجید نے افراد پر جرح کی اور ان کی تعدیل بھی۔ {كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ}کی جرح ہو یا {اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ}کی تعدیل۔ جرح سے قبل تحقیق کا بھی اسلوب دیا۔ {سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ} ہم دیکھیں گے کہ آیا تو اپنی بات میں سچا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔آپ ﷺ نے خود بھی تعدیل فرمائی اور جرح بھی کی۔ آپ ﷺ کی یہ تعدیل سیدنا فاروق اعظم کے بارے میں: لَو کَانَ بَعْدِیْ نَبِیًّا لَکَانَ عُمَرُ۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ اسی طرح یہ ارشاد: فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلَی الطَّعَامِ۔ ام المومنین عائشہ ؓ کو عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ہر قسم کے کھانے پرثرید کو۔ آپ ﷺ نے ابوجہمؓ کے بارے میں فرمایا: أمَّا أبُوجَھْمٍ فَضَرَّابُ النِّساءِ وفِی روایة: لَا یَضَعُ الْعَصَا عَنْ عَاتِقِہِ۔ رہے ابو جہم ! وہ تو عورتوں کو بہت مارتے ہیں ایک اور روایت میں ہے: وہ اپنی لاٹھی کو اپنے کندھوں سے نیچے نہیں رکھتے۔

ان آیات واحادیث میں غیبت نہیں بلکہ خیر خواہی مطلوب ہے۔روایت حدیث امت مسلمہ کے افادے کا نام ہے۔جس کے لئے زہد وعبادت نہیں بلکہ نقد وتجزیہ کی نصیحت ہی کارگر ہوتی ہے۔اسی طرح عدالت محض مجرم کی نماز یا روزہ وشکل وشباہت کو دیکھ کر بری الذمہ قرار نہیں دیتی بلکہ ایسے مواقع پر گواہی اور کھود کھدیڑ ہی جرم ثابت کرتی ہے ۔

یہ علم آج کئی لاکھ علماء حدیث اور دیگر رجال کے حالات کو اپنے ہاں قلم بند کرچکا ہے جس میں کنیت سے لے کر نسبت ، پیدائش ووفات کی تواریخ، طلب علم کے لئے ان کی سعی ومحنت اور اسفار، شاگردوں کے علاوہ اساتذہ کی معلومات اور ناقدین حدیث کا ان کے بارے میں بے لاگ تبصرہ، سب ایک تاریخ ہے۔ روایات کی صحت اوران کا ضعف پہچاننے میں بڑا معاون ہے۔

محدثین نے جسے عادل قرار دیا وہ ہمیشہ کے لئے صحیح حدیث واسانید کی زینت بن گیا اور جس پر جرح کی اس کی سند وحدیث قابل ذکر وقابل اعتماد نہ ٹھہری۔ کنی واسماء، القاب وآباء اور انساب پر مشتمل امام مسلم، امام بخاری، خطیب بغدادی، ابن الجوزی، سمعانی ، ابن الاثیر اور ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ کی کتب اس علم کی پہچان ہیں۔

جرح وتعدیل کے اصول بھی آفاقی ہیں جس میں صرف راوی حدیث ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص زیر بحث آتا ہے جس نے دین کی کسی بھی بات کو کسی بھی سطح پر کہا ہو۔ فقہاء ومحدثین، مفسرین اور متکلمین وغیرہ میں کوئی بھی ان سے مبرا نہیں۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ نقد وجرح کا پیمانہ ایک خاص گروہ کے لئے تو ہو مگر دوسرے معصوم وپاک ٹھہریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۷۔ علم تخریج حدیث:
بعض مصنف حضرات، اپنی کتب میں کتب صحاح وسنن سے حدیث بیان کرکے اور ان کا حوالہ دے کر اسے تخریج کا نام دے دیتے ہیں۔ اور بعض اسے تحقیق بھی کہہ دیتے ہیں۔محدثین نے ان دو لفظوں کا مفہوم لکھا ہے:

تحقیق:
محدثین کے نزدیک تحقیق حدیث یہ ہے کہ صرف حدیث کے بارے میں یہ معلومات جمع کرلینا کہ کس کس کتاب میں اور کون کون سے باب میں اور کس نمبر کی یہ حدیث کیا نص رکھتی ہے۔

تخریج:
یہ ہے کہ حدیث کی تمام اسانید، کتب ِحدیث سے جمع کی جائیں۔ ہر حدیث کے رجال اورمتن کے الفاظ پر جرح و تعدیل کے قواعدمنطبق کئے جائیں۔ آخر میں یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ان احادیث میں کون سی حدیث، سند ومتن کے اعتبار سے صحیح ہے اور کون سی ضعیف و موضوع ۔ اسے تخریج کہتے ہیں۔اس سے بہتر یا قابل عمل طریقہ تخریج آج تک نہیں بتایا جاسکا۔ عموماً لوگ تخریج حدیث کرتے وقت اپنی سوچ یا اخباری عقل اور رجحان کو میزان بنالیتے ہیں مگرتخریج کے اصولوں کووہ نہیں مانتے۔ اور بظاہر کئی ہچیں نکال کرصحیح حدیث کو ضعیف یا موضوع کہہ دیتے ہیں۔ظاہر ہے علم حدیث مذہبی تعصب، یا انکار حدیث کی بیساکھیوں پر چلنے والا تو نہیں ۔ اس کے تو ماہرین ہیں جو جانتے ہیں کہ تخریج حدیث کیا ہوتی ہے اور تخریب حدیث کیا؟

عمل تخریج کا فائدہ یہ ہے کہ ہر حدیث کا اصل منبع یعنی اس کے تمام طرق اور مصادر معلوم ہوجاتے ہیں۔رجال حدیث کے احوال سے واقفیت پر علم جرح وتعدیل حرکت میں آتا ہے ۔مصطلح اور اس کے قواعدکی تطبیق سمجھ آتی ہے۔ نیز علل و شذوذ سے آگاہی ہوتی ہے۔اس طرح صحیح احادیث کو ضعیف و موضوع احادیث سے علیحدہ کرنے کا ملکہ بھی حاصل ہوتا ہے۔اس لئے تخریج و تحقیق کے درمیان تعریفی اعتبار سے فرق ہے مگر دونوں باہم مربوط بھی ہیں۔تحقیق کے عمل کو تخریج نہیں کہا جاسکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس تحقیق نے دیگر فنون اسلامیہ کے ریکارڈ کو درست کرنے اور تصنیف کتاب میں ثقاہت کو رواج دینے کا ڈھنگ سکھایا اور ثابت شدہ سند کو نقل وروایت کی صحت کیلئے علامت بنادیا۔مثلاًتاریخ، فقہ، سیرت یا کتب حدیث میں وارد احادیث کے بارے میں یہ معلومات اکٹھی کرنا: حدیث کا راوی کون ہے ؟ کس پائے کا ہے ؟اور حدیث کا مصدر کیا ہے ؟ اس سے ملتی جلتی احادیث کا احاطہ کرنا، ان تمام معلومات کے بعدیہ کہناکہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟ موضوع ہے یا مرسل وغیرہ۔یہ سب مکمل مگر دقیق معلومات چاہتا ہے ۔ان کی اسانید کے تمام رواۃ کا علمی و تحقیقی جائزہ لینا۔اورآخرمیں ایک جچی تلی علمی رائے دینا ایک مشکل اور تھکا دینے والا کام اگر نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں۔ یہ ایک مسلسل تحقیقی عمل ہے جس کے ذریعے ہر حدیث کا مقام و مرتبہ متعین کیا جاسکتا ہے ۔

محدثین کرام تخریج حدیث مختلف انداز سے کرتے آئے ہیں۔مثلاً راوی کے نام سے تخریج کرتے وقت انہوں نے کتب مسانید، معاجم، کتب الاطراف اور الجوامع کو زیر مطالعہ رکھا۔ موضوع ِحدیث کو دیکھ کر انہوں نے تخریج کی تو اس میں مددگار کتب مستخرج ،مستدرک، زوائد، مجامیع ،سنن، موطآت ومصنفات اور اجزاء وترغیب وترہیب تھیں۔ حدیث کے ابتدائی کلمات سے بھی تخریج کا طریقہ انہوں نے نکالا جسے بڑی عرق ریزی سے تحفة الاشراف، موسوعة أطراف الحدیث ، المقاصد الحسنة، الجامع الصغیر جیسی کتب میں جمع کیا ہے۔ نیز کسی بھی موضوع پر کتب یا ان کی فہارس سے بھی کام لیا۔ اسی طرح سند ومتن کے ذریعے بھی تخریج کرڈالی ۔متن میں موضوع حدیث، یا اس کے الفاظ یا معنی حدیث کو نوٹ کیا، اگر وہ قرآنی مفہوم کے خلاف یا رکاکت لفظی رکھتی تو پھر کتب موضوعات ، ضعاف وغیرہ سے مدد لی ورنہ سنن وصحاح یا المعجم المُفَھْرَسُ جیسی کتب کافی رہیں۔ سند میں راوی کے لطائف، ارسال، تسلسل اور ضعف کو دیکھ کربھی تخریج کی۔لیکن اگر متن وسند میں یہ تمام صفات اکٹھی نظر آئیں تو پھرکتب علل حدیث، الاسماءُ المُبْہَمَةُ وغیرہ کتب سے مستفید ہوئے۔

اس علم کو متعارف کرانے کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ بعض مشہور کتب،تفسیر،حدیث،فقہ او ر تصوف میں بیشتر ایسی احادیث در آئیں جو ضعیف اورموضوع تھیں مگر عامۃ الناس اور واعظ حضرات کے لئے ان میں آسانی اور کشش تھی۔یہ روایات علماء حدیث کے قائم کردہ علمی واصولی معیار پر پورا نہ اترتی تھیں۔ اس لئے مشہور و متداول کتب میں وارد احادیث کی تخریج علمائے حدیث کو کرنا پڑی تا کہ حدیث کی حقیقت حال کا علم ہو۔ فقہ اسلامی کو صحیح رخ دیا جاسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۸۔علم فقہ الحدیث:
یہ حدیث کا درایتی واستنباطی فہم وعلم ہے جو اس اعتبار سے زیادہ اہم ہے کہ قرآن کریم کے بعد ایک طالب علم اس سے آگاہ ہوکر فقہی اختلافات کو غیر اہم سمجھتا ہے اور اسے ہی دینی میراث سمجھتا ، رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتااور اپنی دینی بنیادکو استوارکرتا ہے۔ اسی میزان کے عطا ہوجانے کے بعد وہ فقہاء کے مابین ہونے والے اختلاف کے دلائل اور ان کی صحت وکمزوری سے واقف ہوتا ہے۔اگرفقہی ، اصولی، اور مسلکی مسائل کو پہلے سکھا دیا جائے تو حدیثی ذوق تو کجا صحیح نصوص سے استنباط کا ملکہ بھی حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے دینی ارتقاء کا سفر رک کر مذہبی فقہ تک محدود ہوجاتا ہے ۔فقہ کی مشکل اور مختلف اقوال وابحاث کی نمائندہ کتب کی عبارت کو سمجھنے میں ہی پھنس جاتا ہے ۔ایسا طالب علم ہر حدیث کو پھر اپنے مسلک اور اصول کی عینک سے دیکھتا اور اس کے تابع کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔جو دینی فہم کی صحیح بنیاد نہیں۔

فقہ الحدیث کو اولیت واہمیت اس لئے بھی حاصل ہے کہ سبھی ائمہ فقہاء ایک دوسرے کے علم سے مستفید ہوئے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اگر امام زہری رحمہ اللہ کی شاگردی اختیار کی تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے مسجد نبوی میں ان کے حلقہ درس میں بیٹھ کر حدیث رسول سنی ۔ اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے امام مالک سے موطا سنی اورامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے علم حدیث اور اصول فقہ کا علم حاصل کیا۔ مگر باوجود ایک دوسرے کے شاگرد ہونے کے کوئی کسی کا مذہب اختیار نہ کرسکا۔ وجہ یہی تھی کہ فقہ الحدیث ان کی تعلیم کی ابتدا تھی۔جس نے انہیں یہ مقام دلایا۔سنن، صحیح اور مصنفات کی کتب اس علم کے مآخذ ہیں۔ نیز ان پر لکھی گئی شروحات بھی اس فقہی ذخیرہ کو سموتی ہیں۔

٭٭٭٭٭​

علماء حدیث کی تعدیل وتجریح اور تضعیف وتصحیح ایسی نیک کوشش ہے جس پر آنے والی انسانیت ان کی شکر گذار ہے ۔کہ جو بھی حفاظت دین کے اسباب ہوسکتے تھے اور افتراء پردازوں کی کذب بیانی سے بچاؤ اور تحفظ کے جو اقدام ہوسکتے تھے وہ انہوں نے اٹھائے۔ ان کے بھی درجات ہیں: ان میں سے کچھ نے محض نقل وروایت پر اکتفاء کیا، کچھ نے حدیث کی معرفت اور اس کی درایت کا حق ادا کیا اور کچھ نے اس کی فقہ اور معانی کی معرفت میں اپنا حصہ ڈالا۔ نبی محترم ﷺ نے افراد امت کو حکم دیا ہے کہ جو موجود ہے وہ آپ ﷺ کی احادیث کو ان تک پہنچائے جو غائب ہے۔اور ایسے مبلغین کے لئے آپ ﷺ نے ایسی دعاء فرمائی جو قبولیت کا شرف پاچکی ہے۔ حدیث صحیح میں ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَةً، وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارٍ۔ (صحیح بخاری، ۳۴۶۱، ترمذی: ۲۶۶۹، مسند احمد: ۲؍۱۵۹، ۲۰۲)

آپ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں یہ بھی فرمایا:
أَلَا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔ (صحیح بخاری: ۱۷۴۱)

آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی کتب حدیث میں موجود ہے:
نَضَّرَ اللہُ امْرَاءً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَبَلَّغَہُ إِلٰی مَنْ یَسْمَعُہُ ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہً إِلٰی مَنْ ھُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ، ثَلَاثٌ لَا یُغَلُّ عَلَیْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلہِ، وَمُنَاصَحَةُ وُلَاةِ الاَمْرِ، وَلُزُوْمُ جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَإِنَّ دَعْوَتَھُمْ تُحِیْطُ مَنْ وَرَائَھُمْ۔(ترمذی:۲۶۵۸)

آپ ﷺ کی یہ دعا اس مبلغ حدیث کے لئے بھی ہے جو خواہ فقیہ نہ ہو اور اس مبلغ کے لئے بھی جودوسرے کو حدیث رسول سنواتا ہو اور وہ اس سے زیادہ فقیہ ہو۔تبھی تو مبلغ یہ تروتازگی عطا کئے جاتے ہیں۔
اسی لئے امام سفیانؒ بن عیینہ کہا کرتے:
اہل الحدیث میں تم کسی ایسے شخص کو نہ پاؤگے کہ جس کے چہرے پر اس قسم کی تازگی نہ ہو۔جو صرف رسول محترم کی دعا کی وجہ سے ہوتی ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
باب۹
علم جرح و تعدیل

اس علم میں مخصوص الفاظ کے ذریعے راوی کی عدالت و ثقاہت یا اس کے معائب و ضعف زیربحث آتے ہیں کہ آیا ان کی روایات کوقبول کیا جائے یا رد۔
وجوہ واسباب:
محدثین نے جرح وتعدیل کے اصول اس لئے بنائے کہ صحیح حدیث برآمد ہو۔ جن کا مصدر قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول ﷺ ہیں۔
مثلاً یہ آیت:
{يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ}۔ (الحجرات:۶) اہل ایمان جب تمہارے پاس کوئی فاسق اہم خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر تم اپنے کئے پر پشیمان ہو۔
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاھَا ثُمَّ أَدَّاھَا کَمَا سَمِعَھَا۔ (سنن ترمذی: ۲۶۵۶) اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات (حدیث) کو غور سے سنتا ہے اور پھر اسے بخوبی یاد کرتا ہے اور پھر اسے ویسے ہی آگے پہنچا دیتا ہے جس طرح اس نے اسے سنا ہوتا ہے۔
نیز آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی:
مَنْ تَعَمَّدَ عَلَیَّ کَذِبًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ (صحیح بخاری: ۱۰۸) جو بھی جان بوچھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔
قرآن مجید نے بھی افراد پر جرح کی اور ان کی تعدیل بھی۔ {كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ} کی جرح ہو یا {اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ} کی تعدیل۔ تحقیق بھی کی: {سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ} ہم دیکھیں گے کہ آیا تو اپنی بات میں سچا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔آپ ﷺ نے خود بھی تعدیل فرمائی اور جرح بھی کی۔ آپ ﷺ کی یہ تعدیل سیدنا فاروق اعظم کے بارے میں: لَو کَانَ بَعْدِیْ نَبِیًّا لَکَانَ عُمَرُ۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔ اسی طرح یہ ارشاد: فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلَی الطَّعَامِ۔ ام المومنین عائشہ ؓ کو عورتوں پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے ہر قسم کے کھانے پرثرید کو۔ سیدنا معاذ ؓ بن جبل سے آپ ﷺ کا یہ فرمانا: الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُولَ رَسولِ اللہِ ﷺ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے رسول اللہ کے قاصد کو فہم کی یہ توفیق بخشی۔ آپ ﷺ نے ابوجہمؓ کے بارے میں فرمایا: أَمَّا أَبوجَھْمٍ فَضَرَّابُ النِّساءِ وَفِی رِوَایَةٍ: لَا یَضَعُ الْعَصَا عَنْ عَاتِقِہِ۔ رہے ابو جہم تو وہ تو عورتوں کو بہت مارتے ہیں ایک اور روایت میں ہے: کہ وہ اپنی لاٹھی کو اپنے کندھوں سے نیچے نہیں رکھتے۔

محدثین کرام نے اپنی ان کوششوں کا آغاز عہد خلافت راشدہ میں ہی کردیا تھا۔ صحابہ کرام میں ابن عباسؓ، اور تابعین میں امام شعبیؒ شامل تھے جنہوں نے راویوں کی جرح وتعدیل کی ۔ شہادت ذوالنورینؓ مسلمانوں کے لئے ایک عظیم المیہ اور فتنہ تھا اسی دور میں انہوں نے کسی بھی راوی حدیث کے لئے اس اصول کوہمیشہ پیش نظر رکھا کہ تم نے ہمیں حدیث تو سنا دی اب سَمُّوا لَنَا رِجَالَکُمْ۔ جس سے تم نے یہ حدیث سنی ہے اس کا نام بتاؤ؟ اگر وہ فتنہ زدہ ہوتا تو اس کی حدیث کو پرے رکھ دیتے اور اگر محفوظ ہوتا تو اس کی حدیث قبول کرلیتے۔(مقدمہ صحیح مسلم)
نوٹ: اس علم کوروایت حدیث کے فن کا نچوڑ اور اس کی پہلی سیڑھی قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے کہ اگر راوی ضعیف ہو تو روایت کس کام کی؟اوراگر راوی ثقہ ہوں تو ایسی حدیث رد کردینا کون سے دانش مندی ہے؟ اور اس کی لاعلمی میں حدیث سے استخراج واستنباط کون سی فقاہت ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جرح یا غیبت:
بعض سادہ لوگ نیکی کے غلبہ کی وجہ سے راوی حدیث پر جرح کو غیبت سمجھتے ہیں۔ گو کسی کے عیوب بیان کرنا غیبت ہے مگر ایسی غیبت کی اجازت محدثین کرام نے اس حدیث کی روشنی میں اس مقصد کے تحت دی ہے کہ صرف حدیث رسول ﷺ کو ہر قسم کے غیر ثقہ راویوں سے پاک رکھا جائے۔جرح کو اس لئے جائز قرار دیا گیا ہے تاکہ حقیقت حال واضح ہوجائے۔ اسے علماء نے غیبت شمار نہیں کیا۔بلکہ اسے دین اور اہل دین کے لئے نصیحت قرار دیا ہے۔جج حضرات بھی گواہوں پر جرح کرتے ہیں اور انہیں خوب کھدیڑتے ہیں حتی کہ بعض اوقات شرم وحیا کے تقاضوں کو بھی اس کرید میں انہیں چھوڑنا پڑتا ہے۔اس لئے کہ اس جرح کے بغیر وہ صحیح فیصلہ تک نہیں پہنچ سکتے۔اس سلسلے میں اپنے والد یا بیٹے کو بھی اگر ضعیف کہنا پڑا تو دینی فریضہ سمجھتے ہوئے کہہ دیا۔سب سے پہلے جس نے جرح وتعدیل میں علماء کے کلام اور ان کی جرح وتعدیل کی آراء کو جمع کیا وہ امام یحییؒ بن سعید القطان (م:۱۸۹ھ) تھے۔انہی سے کسی نے کہا:

أَمَا تَخْشَی أَنْ یَکُونَ ھٰؤُلاءِ الَّذِینَ تَرَکْتَ حَدِیثَھُمْ خُصَمَاؤُكَ عِنْدَ اللہ ِعَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ: لَأنْ یَکُونَ ھٰؤُلاءِ خُصَمَائِی أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکونَ النَّبِیُّﷺ خَصْمِیْ، یَقولُ لِی: لِمَ لَمْ تَذُبَّ الْکَذِبَ عَنْ حَدِیْثِیْ؟

کیا آپ کو خوف نہیں آتا جن کی احادیث آپ نے ایک طرف کردیں کہ وہ لوگ کل اللہ کے ہاں آپ کے دشمن بن جائیں؟ فرمانے لگے: ان لوگوں کا میرا دشمن بننا مجھے زیادہ عزیز ہے بہ نسبت اس کے کہ اللہ کے رسول میرے دشمن کل بنیں کہ وہ مجھے فرمائیں: تم نے میری حدیث سے جھوٹ کو دور کیوں نہیں کیا تھا۔(تحذیر الخواص از ابن جوزی :۱۷۵)

ہاں کسی کے ذاتی رنجش یا تعصب کی بنا پر عیب تلاش کرنا ، تجسس کرنا ، یا اس کی عزت اچھالنا قطعاً جائز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تعدیل:
ماہرین حدیث کی طرف سے کسی راوی کو عادل قرار دینا ۔یعنی اسے روایت میں قابل اعتماد سمجھنا اور باور کرانا۔یہ عمل بھی خاصی تحقیق کے بعد کیا جاتا۔ظاہر ہے نہ علماء فرشتے ومعصوم تھے اور نہ ہی راوی۔ مگر اپنی بساط بھر کوشش کے بعد جو وہ کسی کے بارے میں دیانت داری سے کہہ سکے انہوں نے کہہ دیا۔ دنیا کے معاملات ایسے ہی چلتے ہیں اور قابل اعتماد لوگوں کی تلاش مسلسل رہتی ہے۔معاملات سے یامعتمد لوگوں سے پوچھ گچھ سے ہی فرد کی تصدیق ہوتی ہے۔
 
Top