• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ایک رائے یہ بھی ہے:
کہ معدوم اور غیر معین کو اجازت مرویات دینا درست ہے۔

مُجازلہ کی شرط یہ ہے کہ وہ واقعی اس کا اہل ہو۔ اور طالب علم کا نسخہ کتاب اپنے شیخ کی اصل کتاب سے مقابلہ شدہ بھی ہو۔ اس کتاب کی ادائیگی پھر ان الفاظ میں کرے: أَخْبَرَنِی فُلَا نٌ إِجَازَةً یا فِیْمَا أَجَازَنِی وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۴۔مناولہ:
(Granting books) یہ دو قسم کی ہے۔

مناولہ اجازہ کے ساتھ:
یعنی شیخ طالب علم کو کتاب دے اور اسے کہے : ھَذَا رِوَایَتِیْ عَنْ فُلَانٍ فَارْوِہِ عَنِّی۔ یہ میری فلاں سے روایات ہیں تم انہیں مجھ سے روایت کرو۔اس طرح کی اجازت محدثین کرام نے جائز قرار دی ہے۔جیسے امام زہریؒ (م:۱۲۴ھ) اپنی کتب شاگردوں کو تھماتے ہوئے فرماتے۔ جن میں امام الثوری، الاوزاعی اور عبید اللہ بن عمر جیسے نامی گرامی محدثین کرام ہیں۔یہی صحیح طریقہ تحمل ہے۔ دوسری صدی کے شروع میں یہ صورت بہت ہی نادر تھی۔

مناولہ بغیر اجازۃ کے :
یہ اس طرح کہ شیخ کتاب طالب علم کو دے اور کہے: یہ میرا سماع ہے۔کیا اس کتاب کی روایت جائز ہے؟ جمہور محدثین اور فقہاء کہتے ہیں کہ جائز نہیں مگر کچھ جوازکے قائل ہیں۔

الفاط اداء:
شیخ نے کتاب دیتے وقت اجازت بھی دی ہو تو ادائیگی کے وقت افضل ہے کہ طالب علم یوں کہے : فِیْمَا نَاوَلَنِی وَأَجَازَنِی۔ یعنی مناولہ اور اجازہ دونوں کو جمع کرلے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۵۔کتابہ:(Correspondence)
شیخ اپنے خط سے یا کسی کو کہہ کر اپنی احادیث یا اپنی مسموعات لکھ کر اپنے ثقہ طالب علم کو بھیجے اور اسے روایت کرنے کی اجازت دے ۔ اور یہ لکھے کہ کَتَبَہُ إلَیَّ فُلانٌ إجَازةً۔ فلان نے یہ اجازت لکھی ہے۔ یا فلان نے شیخ کی اجازت سے یہ لکھا ہے۔ ایسی صورت میں اس لکھے کی روایت بقول امام بخاریؒ بلا خلاف جائز ہوگی۔ورنہ نہیں۔

لفظ اداء:
طالب علم کے الفاظ ادائیگی پھریہ ہوں گے: کَتَبَ إِلَیَّ فُلانٌ۔ یا حَدَّثَنِی فُلَانٌ کِتَابَةً یا أَخْبَرَنِیِ فُلانٌ کِتَابَةً۔ اس عمل کو کتابت کہا گیا۔یہ فاصلاتی نظام تعلیم تھا جو دور بیٹھے طلبہ کے لئے پہلی صدی ہجری میں ہی وجود میں آیا۔

ابو طاہر السلفیؒ لکھتے ہیں:
کتابت اجازت کی دلیل یہ ہے: أَنَّ النَّبیَّ ﷺ کَتَبَ إِلٰی کِسْرٰی وَقَیْصَرَ…تو یہ ان کے حق میں آپ ﷺ کی اجازت ہے۔ (الوجیز) اور متعدد صحابہ ۔۔جن میں خلفاء اربعہ بھی شامل ہیں۔ ۔نے ایک دوسرے کو احادیث لکھ کر بھیجیں جو بعد میں روایت بھی ہوئیں۔

امام مالک ؒفرماتے ہیں:
یحییٰ بن سعید جب عراق جانے لگے تو مجھے انہوں نے کہا: الْتَقِطْ لِی مِائَۃَ حَدیثٍ مِنْ حَدیثِ ابْنِ شِھَابٍ حَتّٰی أَرْوِیَھَا عَنْكَ۔ میرے لئے ابن شہابؒ کی احادیث میں سے سو احادیث چن کر لکھ بھیجیں تاکہ میں انہیں آپ سے روایت کروں۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: فَکَتَبْتُھَا ، ثُمَّ بَعَثْتُھَا إِلَیہِ۔ پھر میں نے انہیں لکھا اور ان کی طرف یہ سو احادیث بھیج دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۶۔ اعلام الشیخ: (Announcement)
جس سے مراد یہ ہے کہ شیخ اپنے شاگردوں یا طلبہ کو یہ بتائے کہ میں نے فلاں سے یہ حدیث سنی تھی۔یا یہ کتاب ہے اور اس کی روایت کی اجازت میرے پاس اس کے مصنف کی طرف سے ہے۔ لہٰذا تم : اِرْوِہِ عَنِّیْ: تم اسے مجھ سے روایت کرو۔ اس صورت میں اس کتاب یا حدیث کی روایت بلاخلاف محدثین، فقہاء اور اصولیین کے نزدیک جائز ہے بشرطیکہ اصل کتاب مصنف کے دستخط اور اجازہ سرٹیفکیٹ کے ساتھ میسر ہو۔ورنہ نہیں۔
لفظ اداء:
شاگردادائیگی کے وقت یوں کہے : فِیْمَا أَعْلَمَنِی شَیْخِی أَنَّ فُلانًا حَدَّثَہُ۔ میرے شیخ نے مجھے اطلاع دی کہ فلاں نے اسے یہ احادیث بیان کیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۷۔ وصیۃ: (Bequest of books)
یہ ہوتی ہے کہ شیخ اپنے سفر سے یا اپنی موت سے قبل کسی ثقہ طالب علم کو اپنی کتاب تھماتے ہوئے یہ وصیت کرے کہ وہ اسے روایت کردے یا کسی کے لئے لکھ دے۔
ابوقلابہ (م:۱۰۴ھ)جب شام میں فوت ہوئے تو اپنی کتب کی وصیت ایوب کے لئے کرگئے۔ کجاوے کے برابر یہ کتب جب ان کے پاس پہنچیں تو ایوب کہتے ہیں میں نے محمد بن سیرین سے کہا: میرے پاس ابوقلابہ کی کتب پہنچی ہیں کیا میں ان سے حدیث بیان کروں۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر فرمانے لگے: نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے روکتا ہوں۔اس لئے اگر طالب علم کے پاس اس شیخ کی اجازت حدیث پہلے سے ہی ہے تو وہ ایسی کتب کو روایت کرسکتا ہے ۔ورنہ نہیں۔علماء نے اسے مناولہ یا اعلام سے ملتی جلتی صورت قرار دے کر جائز کہا ہے۔
لفظ اداء:
جسے وصیت کی گئی ہے وہ بعد میں یوں اداکہے: فِیْمَا أَوْصٰی إِلٰی فُلانٍ بِکِتَابِ کَذَا، أَخْبَرَنِی فُلانٌ وَصِیَّةً۔ فلاں نے مجھے اس کتاب کے بارے میں وصیت کی تھی۔ یا فلاں نے مجھے وصیت کرتے ہوئے اس حدیث یا کتاب کی وصیت کی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۸۔ وجادۃ: (Discovery of books)
یہ ہے کہ کسی معروف شخص کے ہاتھ کی لکھی کتاب حدیث کوئی پائے جس کا نہ تو اس نے سماع کیا ہو، نہ اجازت لی ہو، اور نہ ہی مناولۃً حاصل کی ہو۔ تو کیا وہ ایسی احادیث کو روایت کرسکتا ہے؟ کیونکہ یہ حدیث سیکھنے کا طریقہ نہیں۔
لفظ اداء:
جمہور محدثین کہتے ہیں کہ جو ان احادیث یا کتب کو روایت کرنا چاہتا ہے اسے دوٹوک اور واضح الفاظ میں کہنا چاہئے: وَجَدْتُّ فِی کِتَابِ فُلانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَانٌ۔ میں نے فلاں کی کتاب میں پایا کہ ہمیں حدیث بیان کی فلاں نے۔تو پھر کوئی معیوب بات نہیں۔لیکن اگرصرف حَدَّثَنَا کہے گا تو پھر ناجائز ہوگااور معیوب بات ہوگی۔ ایسی کتاب یا احادیث کی ادائیگی کے وقت یوں کہے: وَجَدْتُّ فِی کِتَاب أو بِخَطِّ فُلانٍ۔ میں نے فلاں کی کتاب میں پایا۔

نوٹ: بغور دیکھا جائے تو یہ ایک پورا تعلیمی وتربیتی نظام ہے جس میں کلاس روم، استاذ وشاگرد کی موجودگی، علم حاصل کرنے کے مختلف طریقے، استاد کی مجلس حدیث اور حدیث کی روایت جسے شاگرد لکھتے جائیں یا شاگرد پڑھے اور استاد سنتا جائے اور تصحیح کرتا جائے۔ قلم و دوات، کاغذ، کتابت کے اصول، املاء شیخ، مستملی، بعد از مجلس کتابت کی غلطیوں کی اصلاح ، پروف ریڈنگ، نسخوں کا باہم مقابلہ، اور پھر کتاب کے ختم ہوتے ہی ہزاروں نسخوں کا وجود میں آجانا، سرٹیفیکیٹ لکھنے کا طریقہ، اس کا حصول، استاد کی وضاحت، تصدیق اوردستخط، اس کے حصول پر شاگردوں کی خوشی، بڑے عالم یا امام سے سرٹیفیکیٹ کے حصول کے بعد اس کا مقام، شاگردوں کا اسے حاصل کرکے پھر اپنے اپنے علاقوں میں جاکر اسے آگے پھیلانا، سند سسٹم کا بن جانا۔فاصلاتی نظام تعلیم،استاذ وشاگرد کا گہرا تعلق، اور ایک دوسرے پر فخر وخوشی۔ مسلمانوں نے ہی اس کو متعارف کرایا جو آج بھی تعلیم کے جدید طریقوں کے لئے اجنبی نہیں ہے بلکہ یہی قابل قبول ہے۔صرف زبانی روایت کا الزام درست نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رموز حدیث:
تحمل حدیث کے بعد محدثین نے ادائیگی حدیث کے لئے کچھ کلمات بطور اصطلاح متعارف کرادئے ہیں جن کا جاننا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ عبد السلام ہارون لکھتے ہیں:
وھُنَاكَ رُمُوزٌ وَاخْتِصاراتٌ لِبَعضِ الکلماتِ أَوِ العِباراتِ نَجِدُھا فِی الْمَخطوطاتِ الْقَدیمةِ وَلَا سِیَّمَا فِی کُتُبِ الحدیثِ، وَھَذا مِمَّا سَبَقَ بِہِ أَسْلافُنَا الْعَرَبُ ۔۔۔ وَقَلَّدَھُمْ فِی ذَلِكَ الْفَرَنْجَةُ۔ قدیم مخطوطات بالخصوص حدیث کے مخطوطات میں کچھ ایسی عبارات اور کلمات کو مختصر رمزی صورت میں لکھا گیا ہے جسے ہمارے اسلاف علماء عرب نے استعمال کیا اور جسے آج فرنگی اپنا چکا ہے۔(تحقیق النصوص ونشرہا:۵۲)
یہ اختصارات دو قسم کے ہیں:

۱۔ کسی بھی علم کے معروف عام اختصارات۔
۲۔ خاص کتاب میں مؤلف کے اپنے اختصارات
محدثین نے کتاب میں بیان کردہ اسانید میں بکثرت آنے والے کلمات کو مختصر کردیا ہے اور کچھ کو حذف بھی کیا ہے تاکہ باربار کہنے یا لکھنے کی زحمت طالب علم کو نہ اٹھانی پڑے۔بہرحال یہ مختصر اور مکسر عبارات ہیں جن سے کیفیت کتابت حدیث اور ان کے طریق تعلیم وتعلم کا علم ہوتاہے۔یہ اصطلاحات اب ایک فن کی صورت اختیار کر گئی ہیں اور نوواردوں کے لئے ان کا علم حد درجہ ضروری ہے۔اگرچہ محدثین کی کتابت حدیث میں عام ریت تو یہی نظر آتی ہے کہ وہ حَدَّثَنَا وَأَخْبَرَنَا جیسے الفاظ کو مکمل لکھتے ہیں مگر کہیں کہیں رموز مزید مختصر کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کلمات :
حدثنا، حدثنی، أخبرنا ، أخبرنی، أنبانا، أنبأنی اور ح وغیرہ ہیں جنہیں محدثین عموماً اس ترتیب سے لکھتے ہیں:

…وہ حدثنا کو ثنا لکھتے ہیں۔ اور کبھی وہ ثاء کو بھی حذف کردیتے ہیں اور صرف نا لکھتے ہیں اور کبھی وہ دال کا اضافہ کردیتے ہیں۔ جیسے دثنا … اسی طرح وہ حدثنی کو ثنی یا دثنی لکھتے ہیں۔ اور کچھ أرنا بھی راء کے ساتھ اس لئے لکھتے ہیں کہ کہیں اسے کوئی أنبأنا کا اختصار نہ سمجھ لے۔ اور أنبأنا کو أنبأ لکھتے ہیں۔

متقدمین میں امام بخاریؒ سمیت حَدَّثَنِی اور أَخْبَرَنِی میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ مگر متاخرین میں امام مسلم رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ حدیث حَدَّثَنِی اور أَخْبَرَنِی میں فرق کرتے ہیں۔جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے۔اسی طرح سَمِعَ، عَنْ یاکچھ اور صیغے بھی محدثین کے استعمال میں ہیں جنہیں ہم نے تحمل حدیث کی اقسام کی تعریفات میں بیان کردیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
متعدد اسانید کے رمز:
محدثین نے ایک اور قدم یہ اٹھایاکہ ایک ہی متن والی حدیث کی اگر دو یا دو سے زیادہ اسانیدہوں تو وہ انہیں ایک ہی متن میں جمع کردیتے ہیں۔اور دوسری سند کی مستقل پہچان کے لئے ح کا حرف لکھ دیتے ہیں جس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ وہی حدیث اب ایک سند سے دوسری سند کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ اسے حاء تحویل کہتے ہیں۔اس طرح وہ ایک ہی حدیث کی متعدد اسانید کو ایک ہی جگہ جمع کردیتے ہیں۔اس لئے کہ جب متن ایک ہی ہو اور اسانید مختلف تو ایک ہی متن کا بار بار تذکرہ کرنے کی بجائے اسے اختصار دینا زیادہ مفید اور علمی ہے۔ چنانچہ ایسے متعدد مقاصد کے لئے وہ سند کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اوراپنے مختلف شیوخ ، مختلف شہروں میں رحلہ اور عَنْعَنَہْ کو متصل ثابت کرنے کے لئے متعدد اسانید کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ح جو تحویل کا اختصار ہے۔ لکھ کر محدثین تحویل سند کا اشارہ دے دیتے ہیں کہ یہاں آکر میں ان دونوں اسانید کے ذریعے اس اوپر والے شیخ سے مل گیا ہوں۔یہ سب اس لئے بھی لکھا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والا یہ وہم نہ کرے کہ شاید سند میں سقوط آگیا ہے یا وہ ایک سند کو دوسری سند کے ساتھ ملا کر اسے ایک ہی سند نہ بنالے۔اس لئے سند پڑھنے والاجب اس مقام پر پہنچے تویایوں کہے: حاء۔ یا کہے: تَحوِیل۔ اس رمز کے بارے میں علماء کے چار اقوال ہیں:

۱۔ یہ ح حائل سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ دو اسنادوں کے درمیان تحول پھیرنے کی ہے یہ حدیث میں شامل نہیں۔
۲۔ یہ حدیث سے ماخوذ ہے کیونکہ یہی ہمارے لفظ حدیث کا رمز بھی ہے۔
۳۔ یہ تحویل سے ماخوذ ہے کیونکہ یہ ایک اسناد سے دوسری اسناد کی طرف پھرنے کا بتاتی ہے۔
۴۔ ابنؒ الصلاح نے لکھا ہے اور امام نووی ؒنے بھی بعض حفاظ حدیث مثلاً ابومسلم لیثی اور ابو عثمان الصابونی کی تحریر میں ح کی جگہ صَحَّ کو لکھا پایا ۔ ابنؒ الصلاح کہتے ہیں: یہ بہت ہی عمدہ انداز ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حدیث کی سند میں کوئی سقوط ہوگیا ہے یااس لئے بھی تاکہ دوسری اسناد کو پہلی اسناد کے ساتھ ملا کر ایک ہی اسناد نہ بنادی جائے۔باقی اس رمز ح کو کیسے پڑھنا ہے؟ علماء کے چار اقوال ہیں:

۱۔ جب قاری اس رمز تک پڑھتے ہوئے پہنچ جائے توکچھ نہ پڑھے بلکہ معمولی سکتہ دے کر اگلی سند پڑھنا شروع کردے۔
۲۔ جب قاری اس رمز تک پہنچے تو کہے : الحدیثَ۔ یہ انداز اہل مغرب کا ہے۔
۳۔ جب قاری اس رمز تک پہنچے تو رمز حا کہے اور آگے چلتا جائے۔یہ طریقہ امام ابن الصلاح اور امام نووی کا پسندیدہ ہے ۔ ان تینوں اقوال کو ابن الصلاح اور نووی دونوں نے بیان کیا ہے۔
۴۔ قاری جب اس رمز حتک پہنچے تو کہے: تحویل۔ علامہ قاسمی لکھتے ہیں: بعض مسند مشایخ جب دوران قرائت حدیث حا تک پہنچتے تو کہا کرتے: تحویل۔ مجھے ان کی یہ بات بہت بھلی اور مناسب حال لگی۔(قواعد التحدیث: ۱۹۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
محذوفہ کلمات:
رجال سند کے درمیان (قال) اور (أنہ) جیسے کلمات کو تکرار کی وجہ سے محدثین نہیں لکھتے مگر قاری کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ ان پوشیدہ کلمات کو پڑھے۔رجال سند میں حذف کلمات کی مثال یہ سند حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا الشَّافِعِیُّ، أنا مَاِلكٌ۔ ہے مگر یہ عبارت پڑھی اس طرح جائے گی: (قَالَ حَدَّثنا أحْمدُ، قَالَ حَدَّثَناَ الشافِعِیُّ قَالَ حَدَّثَنَامَالِكٌ)۔اسی طرح (قُرئَ عَلَی فُلَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَانٌ) کو (قُرِئَ عَلَی فُلَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَانٌ) پڑھیں گے۔یعنی ان پوشیدہ کلمات کا پڑھنا ضروری ہے۔ تکرار کلمات کے حذف کی مثال: (حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَالَ الشَّعْبِیُّ) کو یوں پڑھا جائے گا (قَالَ حَدَّثَنَا صَالِحٌ قَاَل قَالَ الشَّعْبِیُّ) ابنؒ الصلاح لکھتے ہیں: ان دونوں کلمات میں سے ایک کو خط میں یعنی لکھنے میں حذف کردیتے ہیں اور قاری کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ ان سب کا تلفظ کرے۔

رہا لفظ (أَنَّہُ) اسے بھی محدثین نہیں لکھتے بلکہ پڑھتے ہیں۔ مثلاً: (حَدَّثَنِی عَبدُ اللہِ عَن عُمَرَ عَنْ رسولِ اللہِ ﷺ قَاَل) مگر اسے یوں پڑھیں: (حَدَّثَنِی عَبدُ اللہ بْنُ عُمَرَ عَنْ رسولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ) دوسری مثال: (قَالَ البُخاریُّ: حدَّثَنا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَاحِ سَمِعَ جَعْفَرَ بْنَ عَونٍ) مگر یوں پڑھا جائے گا: (حَدَّثنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَاحِ أَنَّہُ سَمِعَ جَعْفَرَ بْنَ عَونٍ)۔

…اسی طرح ایک اور مصطلح مِثلَہُ یا نَحْوَہُ۔بھی ہے ۔ محدث ، حدیث کو روایت کرتے ہیں پھر اس کے پیچھے ہی ایک اور سند لگا دیتے ہیں اور پھر سند کے اختتام پر یہ کہہ دیتے ہیں: جس سے وہ پہلی حدیث مراد لیتے ہیں۔( الکفایۃ:۳۱۹)اسی طرح محدثین کی اصطلاح میں یہ الفاظ۔۔ وَبِہِ قَالَ حَدَّثَنَا ۔۔ کے بارے میں امام قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

إِذَا قَرَاءَ الْمُحَدِّثُ إِسْنَادَ شَیْخِہِ الْمُحَدِّثِ أَوَّلَ الشُّرُوعِ وَانْتَھَی، عَطَفَ عَلَیہِ بِقَولِہِ فِی أوَّلِ الَّذِی یَلِیْہِ ۔۔ وَبِہِ قَال حَدَّثَنَا۔۔ لِیَکُونَ کَأَنَّہُ أَسْنَدَہُ إِلٰی صَاحِبِہِ فِی کُلِّ حَدیثٍ، أَیْ لِعَوْدِ ضَمیرِ (وبِہِ) عَلَی الْسَنَدِ المَذْکورِ، کَأَنَّہُ یَقَولُ: (وِبِالسَّنَدِ المَذْکورِ قَاَل) أَیْ صَاحِبُ السَّنَدِ لَنَا فَھَذَا مَعْنَی قَولِھِمْ: (وَبِہِ قَالَ)۔ جب محدث اپنے محدث شیخ کی سند کواول تا آخر تک پڑھے، تو اس کے شروع میں یہ کہتے ہوئے عطف کرے: وبہ قال حدثنا۔ تاکہ وہ یوں ہوجائے گویا کہ اس نے ہر حدیث کی نسبت اپنے شیخ کی طرف کردی۔ یعنی وبہ کی ضمیر کو سند مذکورکی طرف لوٹا کر۔گویا کہ وہ یوں کہہ رہا ہے: وبِالسَّنَدِ الْمَذْکورِ قال۔ یعنی سند والے نے ہمیں یہ کہا۔ محدثین کے اس قول وبہ قال کا یہی معنی ہے۔


امہات کتب کے قاری کے لئے ان رموز کا سمجھناضروری ہے تاکہ وہ اصل عبارت سمجھ پائے۔ مگر بولتے وقت اس اختصار کو مکمل لفظ میں پڑھی۔اسی طرح تحریر میں بھی جو مستور ہے ۔اسے بھی پڑھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اختصار حدیث:
راوی حدیث یا اس کا ناقل، اگرحدیث سے کچھ الفاظ حذف کردے تو حدیث مختصر ہوجاتی ہے۔ مگرکیا ایسا کرنا جائز ہوگا؟ محدثین نے اس کے جواز کے لئے پانچ شرطیں بیان کی ہیں۔

۱۔ اختصاروہ درست و جائز ہوگا جس سے معنی حدیث متاثر نہ ہو اور حدیث کی اصل باقی رہے۔ جیسے استثناء ، غایت، حال اور شرط کو عبارت سے حذف کردی جائے۔ مثلاً:

لَا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ إِلَّا مَثَلًا بِمَثَلٍ۔ یا لَا تَبِیعُوا الثَّمْرَ حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہُ، یا لَا یَقْضِیَنَّ حَکَمٌ بَینَ اثْنَینِ وَھُوَ غَضْبَانُ، یا نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ۔ جو آپ نے خاتون کے سوال پر فرمایا۔ یا لَایَقُلْ أحَدُکُمْ : اللھُمَّ اغْفِرْلِی إِنْ شِئْتَ۔ یا الْحَجُّ مَبْرُورٌ لَیسَ لَہُ الْجَزَاءُُ إِلَّا الجَنَّةُ۔

ان احادیث میں ہر حدیث کا آخری حصہ اگر گرادیا جائے۔مثلاً: إِلّْا مَثَلًابِمَثَلٍ کو، یا حَتّٰی یَبْدُوَ صَلَاحُہ کو، یا وَہُوَ غَضْبَانُ کو ، یا إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ، یا إِنْ شِئْتَ کو، یا مَبْرُور وغیرہ کو حذف کردیا جائے تونہ حدیث سمجھ آئے گی اور نہ ہی کوئی علمی فائدہ ہوگا۔

۲۔ اختصار کے وقت ایسے الفاظ قطعاً حذف نہ کئے جائیں جن کے لئے حدیث بیان کی گئی ہو۔جیسے:
سمندری پانی کے بارے میں آپﷺ کایہ فرمانا: ھُوَ الطَّھُورُ مَاءُہُ وَالْحِلُّ مَیْتَتُہُ۔ اس میں راوی یا ناقل ھُوَ الطَّھُورُ کو حذف کردے۔

۳۔ایسا حذف بھی نہ ہو جس میں کسی قولی یا فعلی عبادت کی صفت بیان کی گئی ہو۔جیسے: حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں آپ ﷺ نے تشہد میں یہ دعا پڑ ھنے کی تاکیدفرمائی:

التَّحِیَّاتُ لِلہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ أَیَّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبادِ اللہِ الصَّالِحِینَ۔ أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہَ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

ایسے شرعی اوصاف سے مملو ذکر میں کسی قسم کے حذف کی اجازت نہیں۔

۴۔ یہ اختصار ایسے عالم کی طرف سے ہو جوحدیث کے الفاظ کے مفاہیم کو بخوبی جانتا ہو تاکہ وہ سمجھ جائے کہ کس لفظ کے حذف سے معنی میں خلل آتا ہے اور کس میں نہیں۔ورنہ غیر عالم کے حذف سے معنی میں خلل آسکتا ہے۔

۵۔ راوی پر جھوٹ کا الزام نہ ہو ورنہ حدیث میں اس کا اختصار تردد پیدا کردے گا کہ اس نے حدیث مکمل روایت بھی کی یا اس میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ کردیا؟ غیر معروف کتب کے مطالعہ میں یہ تردد پایا جاتا ہے جسے اصل کتب کی طرف رجوع کرکے دور کیا جاسکتا ہے۔

جب یہ پانچوں شرطیں موجود ہوں توحدیث میں اختصار جائز ہوگا۔ بالخصو ص مناسب حال مقام پر حدیث کے ٹکڑے سے احتجاج لینے کے لئے حدیث کی تقطیع بھی جائز ہوگی جسے بہت سے محدثین اور فقہاء نے اپنایا ہے۔امام ابن حجرؒ (فتح الباری ۱؍۱۱۴) باب کُفْرَانِ الْعَشِیرِ ، وَکُفْرٌ دُونَ کُفْرٍ کی شرح میں لکھتے ہیں:

أَنَّ البُخارِیَّ یَذْھَبُ إِلٰی جَوَازِ تَقْطیعِ الْحَدیثِ، إِذَا کَانَ مَا یَفْصِلُہُ مِنْہُ لَا یَتَعَلَّقُ بِمَا قَبْلَہُ وَلَا ھِمَا بَعْدَہُ، تَعَلُّقًا یُفْضِی إِلٰی فَسادِ الْمَعْنَی، فَصَنِیْعُہُ کَذَلِكَ یُوھِمُ مَنْ لَا یَحْفَظُ الْحَدیِثَ أَنَّ الْمُخْتَصَرَ غَیْرُ التَّامِ، لَا سِیَّمَا إَذَا کَانَ ابْتِدَاء ُالْٰمُخْتَصَرِ مِنْ أَثْنَاءِ التَّامِ کَمَا وَقَعَ فیِ الْحَدیثِ فَإِنَّ أَوَّلَہُ ھُنَا قَولُہُ ﷺ: أُرِیْتُ النَّارَ۔۔ إِلٰی آخِرِ مَا ذَکَرَ مِنْہُ، وَأَوَّلُ التَّامِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَی عَھْدِ ۔۔ فَذَکرَ قِصَّةَ صَلاةِ الْخُسُوفِ ثُمَّ خُطْبَةَ النَّبِیِّ ﷺ وَفِیھَا الْقَدَرُ الْمَذْکُورُ ھُنَا۔ بخاری محترم حدیث کی تقطیع کو اس وقت جائز سمجھتے ہیں جب وہ جملہ حدیث سے الگ ہو اور اپنے ماقبل یا مابعدسے اس کا ایسا تعلق نہ ہو جو معنوی خرابی پیدا کردے۔امام محترم کے ایسا کرنے سے غیر حافظ شخص کو وہم ہوجاتا ہے کہ یہ مختصر حدیث نامکمل سی ہے۔ بطور خاص جب مختصر ٹکڑے کی ابتداء مکمل حدیث کے اثناء میں سے ہو۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہوا ہے۔کیونکہ یہاں جملے کی ابتداء آپ ﷺ کے اس ارشاد أریت النار سے ہورہی ہے جبکہ مکمل حدیث کی ابتداء سیدنا ابن عباس سے مروی حدیث کی اس جملے سے ہورہی ہے: خَسَفَتِ الشَّمْسُ۔۔۔۔

بہتر یہی ہے کہ اختصار حدیث کے وقت یہ کہتے ہوئے یا لکھتے ہوئے اشارہ کردیا جائے: إلی آخِرِ الحدیثِ۔ جس کا مختصر الخ ہے یا ذَکَرَ الحدیثَ کہے۔
 
Top