• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علوم قرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسباب نزول پر ایک کتاب سیدنا ابن عباسؓ کے شاگرد، سیدنا عکرمہؒ مولیٰ ابن عباسؓ (م: ۱۰۷ھ) نے لکھی۔علم القراء ت پر حسن بصریؒ(م:۱۱۰ھ) نے اور غریب القرآن پر عطاء بن ابی رباح ؒ(م: ۱۱۴ھ) نے اور الناسخ والمنسوخ پر قتادہ بن دعامہ السدؒوسی (م:۱۱۷ھ) نے کتب لکھیں۔ ابان بن تغلبؒ (متوفی:۱۵۱ھ) نے بھی قرآن کے غریب الفاظ کو جمع کیا اور غریب القرآن کتاب تصنیف کی۔ اس صدی میں مشہور مفسر اور فقیہ خراسان مقاتل بن سلیمانؒ (متوفی :۱۵۰ھ) اور علامہ حسین بن واقد المروزیؒ (متوفی: ۱۵۷ھ) نے قرآن کے ناسخ و منسوخ پر قلم اٹھایا اور کتاب لکھی۔ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن عیسیٰؒ (متوفی: ۱۶۰ھ) نے غریب القرآن پر چھ جلدوں پر مشتمل نہایت جامع کتاب لکھی۔ نقط مصاحف پر امام لغت خلیل بن احمد بصریؒ (متوفی:۱۷۰ھ) نے کتاب لکھی۔قراء ت کے موضوع پر أبو عمرو بن العلا ء ؒنے کتاب القراء ت تصنیف کی۔امام ابو الحسن بن حمزہ کسائیؒ (متوفی:۱۸۹ھ) نے بھی سب سے پہلے متشابہ آیات پر کتاب علم آیات المتشابھات لکھی۔ اعراب و معانی قرآن پر سب سے پہلے ابو عبیدہ معمر بن المثنیؒ نے لکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تیسری صدی ہجری :
اس صدی میں علم القراء ت اور الناسخ والمنسوخ پر ابو عبیدالقاسم بن سلام ؒ(متوفی :۲۲۴ھ) نے کتب لکھیں۔ اعراب و معانی قرآن پر بھی جامع کتاب ان کی ہے۔امام علی بن المدینیؒ (م: ۲۳۴ھ) نے اسباب النزول اور ابن قتیبۃؒ (م:۲۷۶ھ) نے تأویل مشکل القرآن اور تفسیر غریب القرآن پر کتب لکھیں۔ تیسری صدی ہجری کے اختتام پر مشہور نحوی محمد بن یزید الواسطیؒ (م:۳۰۶ھ) نے إعجاز القرآن في نظمہ کے نام سے قرآن کے اعجاز پرکتاب تصنیف کی جو بہت مشہور ہے۔

الغرض تیسری صدی ہجری تک قرآن کے مختلف علوم پر بکثرت کتابیں لکھی گئیں اور پھر اس میں ترقی ہوتی گئی۔ اگرچہ ابتدائی دور کی اکثر تصانیف آج ناپید ہیں لیکن وہ کتب جو عہد قریب میں لکھی گئیں ان میں بہت سا سرمایہ ان کتب کا آگیا ہے۔ علوم ِ قرآن پر کام آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن ابتدا ئی تین صدیوں کی تصنیفات کا مقابلہ بعد کی کتب نہیں کرسکتیں۔

یہ تو تھی ایک مختصر تاریخ جس میں بتدریج ایک ایک موضوع پرعلمی و فکری آراء ا آتی گئیں جنہیں بعد میں یکجا کرکے علوم القرآن کا عنوان دیا گیا۔ ایک رائے یہی ہے کہ لفظ علوم القرآن کاسب سے پہلے استعمال محمد بن خلف بن المرزبانؒ(۳۰۹ھ) نے الحاوی فی علوم القرآن رکھ کر کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چوتھی صدی ہجری میں بھی اکثر علماء نے علوم القرآن پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ جن میں:

۱۔ ابوبکر محمد بن قاسم الانباری ؒ (م:۳۲۸ھ)عجائب علوم القرآن کے مصنف ہیں۔ اپنی اس کتاب میں فضائل قرآن، حروف سبعہ، کتابت المصاحف، تعداد سور، آیات اور کلمات جیسے مباحث پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

۲۔ المحتزن في علوم القرآن امام ابو الحسن الاشعریؒ (م: ۳۲۴ھ) کی یہ خاصی ضخیم تصنیف ہے جو علوم القرآن کے مختلف مباحث پر مشتمل ہے۔ (الدیباج: ۱۹۵)

۳۔ ابوبکر السجستانی ؒ (م:۳۳۰ھ) ’’ غریب القرآن‘‘ کے مؤلف ہیں۔ اس کتاب کی تالیف پر انہوں نے اور ان کے استاد ابوبکر بن الانباریؒ نے پندرہ سال صرف کئے۔

۴۔ ابو محمد القصاب محمد بن علی الکرخی ؒ (م:۳۶۰ھ) کی تألیف ’’نکت القرآن‘‘ہے۔ اس میں قرآن مجید کے مختلف علوم، احکام اور اختلافی نکات کی وضاحت کی گئی ہے۔

۵۔ ابوعبید اللہ بن جرو اسدیؒ(م: ۳۸۷ھ) نے الأمدفی علوم القرآن اور محمد بن علی الأدفوی (۳۸۸ھ) نے کتاب الاستغناء فی علوم القرآن تصنیف کیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہی سلسلہ پانچویں صدی ہجری میں بھی جاری رہا۔ جس میں سب سے پہلی عمدہ اور جامع مرتب کتاب جو منظر عام پر آئی وہ علی بن ابراہیم الحوفیؒ(م:۴۳۰ھ) کی تھی۔ جس کا نام انہوں نے’’البرھان في علوم القرآن‘‘رکھا۔ اسی طرح انہوں نے ’’إعراب القرآن‘‘نامی ایک کتاب بھی تصنیف کی(حسن المحاضرۃ :۲؍۲۲۸)۔ بعد کی صدیوں میں اعراب القرآن پر بہت سی کتب لکھی گئیں۔ جن میں امام ابو عمرو الدانیؒ (متوفی:۴۴۴ھ) کی تصنیف لاجواب ٹھہری۔ جس کا نام ’’التیسیر فی القرائات السبع‘‘اور ’’الحکم فی النقط‘‘ہے۔دسویں صدی ہجری کے آغاز میں سابقہ تمام علوم قرآنی کی ایک جامع و شامل کتاب لکھنے کا شرف امام جلال الدین سیوطیؒ (متوفی:۹۶۱ھ) کو حاصل ہوا۔ جس کا نام انہوں نے ’’الإتقان في علوم القرآن‘‘رکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
چودھویں صدی ہجری میں بہت سے علماء نے علوم قرآن پر کام کیا۔ جن میں جمال الدین القاسمیؒ (م:۱۳۳۰ھ) کی کتاب ’’محاسن التأویل‘‘ محمد عبد العظیم الزرقانی ؒکی کتاب’’مناھل العرفان‘‘، مصطفی صادق الرافعی ؒ کی کتاب ’’إعجاز القرآن‘‘، سید قطبؒ کی کتاب ’’التصویر الفني في القرآن‘‘اور عبد اللہ درازؒ کی کتاب ’’ النبأ العظیم‘‘قرآنی مکتبہ میں ایک عظیم اضافہ ہیں۔

آج سے تقریباً دو صدی قبل برصغیر میں ممتاز محدث وفقیہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اصول تفسیر پر فارسی زبان میں ایک انتہائی جامع ومختصر کتاب لکھی جس میں انہوں نے قرآن کریم کے تمام مباحث سے ہٹ کر مضامین قرآن پر اپنی ایک وقیع رائے پیش کی ہے جس کا تذکرہ طلبہ کے لئے خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مضامین قرآن :
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۱۱۵ھ؁-۱۱۷۶ھ؁) نے اصول تفسیر کے ضمن میں بعض علوم کا خلاصہ مضامین قرآن کے نام سے اپنی معروف کتاب الفوز الکبیر میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے کل چار ابواب ہیں۔ جن میں علوم القرآن اور مطالعہ قرآن کے مختلف پہلوؤں پر ایک جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔الفوز الکبیر کے پہلے باب میں قرآن مجید کے مضامین کو شاہ صاحبؒ نے پانچ علوم میں تقسیم کیا ہے۔جو ان کے نزدیک قرآن مجید کا لب لباب ہیں۔ یہ علوم انہیں کے متعین کردہ ہیں جودرج ذیل ہیں:

۱۔ احکام۔
۲۔ مخاصمات یعنی علم مناظرہ۔
۳۔ تذکیر بآلاء اللہ۔ نعمتوں کے ذریعے یاددہانی
۴۔ تذکیر بأیام اللہ۔ گذشتہ واقعات کے ذریعے یاددہانی
۵۔ علم تذکیر بالموت ومابعد الموت۔( موت یا بعد ازموت پیش آنے والی حالتوں کے ذریعے یاددہانی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احکام:
احکام کے بارے میں وہ پہلی اہم بات یہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ ملت ابراہیمی پر مبعوث ہوئے۔اس لئے اس ملت کے احکام اور طریقوں کو باقی رکھا گیاہے۔قرآن مجید نے اس ضمن میں بعض احکام کی چھان پھٹک بھی کی اور بعض کی اصلاح کرکے ملت ابراہیمی کو اصل صورت میں پیش کیا۔

قرآنی احکام کے ذیل میں اوامر و نواہی بھی آتے ہیں۔جن میں کچھ مجمل ہیں جن کی تفصیل جناب رسالت مآب ﷺ پر چھوڑ دی گئی۔ مثلاً: قرآن مجید کا حکم ہے۔ أقیموا الصلاۃ نماز قائم کرو۔ آنحضور ﷺ نے اس کی وضاحت عمل اور قول دونوں سے کر دی۔ اسی طرح روزہ، زکوٰۃ، طہارت وغیرہ کے احکام بھی ہیں۔قرآن کے بعض احکام عام طرز خطاب میں اور بعض اشارۃً ہیں۔ مثلاً: مومنوں کے کام کی تعریف کردی تو حکم دیا کہ اس قسم کے کام کرنے چاہئیں۔
{لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ } (الصافات:۶۱)
اورمنافقوں کو اگر کسی بات پر توبیخ کی تو اشارہ یہ دیا کہ مسلمان ایسے کاموں سے بچ کر رہیں۔

نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ کے بارے میں مختصر احکام دے کر رہبانیت سے ہمیں روکا ہے۔ جن میں عبادات اور معاملات دونوں شامل ہیں۔

تدبیر منزل میں نکاح، طلاق، زوجین، والدین و اولاد کے حقوق و فرائض، یتیموں کی پرورش، غلاموں ، رشتہ داروں، ہمسایوں سے حسن سلوک اور وراثت وغیرہ کے احکام و دیگر خاندانی مسائل کو قانونی اور اخلاقی شکل دے دی۔یہ عائلی قوانین کہلاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
معاملات میں تجارت، خریدو فرخت، تبادلے، ناپ تول، اقرار نامے، دستاویزات، شہادت، صدقہ وخیرات ، وغیرہ انفاق فی سبیل اللہ کے احکام فرما کر کاروبار اور باہمی تعاون کی سبیل نکالی۔ جنہیں موجودہ اصطلاح میں دیوانی قانون عدل کہا جاتا ہے۔

سیاست مدنی میں عدل کے قیام کے لئے حدود وتعزیرات مثلا قصاص ، دیت، چوری، راہزنی، زنا، قذف وغیرہ کی سزائیں بیان کرکے شہریت اور تمدن کی حفاظت فرمائی۔ یہ اسلام کا فوجداری قانون ہے۔

آداب معیشت میں حلال و حرام اشیاء کا تذکرہ کرکے کسب معاش کی حد بندی فرمائی اور آداب معاشرت میں پردہ، استئذان، وغیرہ واضح کرکے شرم و حیاء کی حد ود مقرر کیں۔ اور اسلام کی تبلیغ اور جہاد کے احکام دے کر نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی۔

ان تمام احکامات کو قرآن مجید نے اصولوں کی شکل میں منضبط کیا اور ان کی پوری حد بندی فرمادی۔مگر اس کے اجمال کی تفصیل رسول اکرمﷺ کے قول و عمل اور تقریر پر چھوڑ دی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مخاصمات(علم مناظرہ) :
مشرکین، منافقین، یہودو نصاریٰ کے متعلق مختلف انداز سے قرآن کریم میں گفتگو کی گئی ہے۔انہیں قائل کرنے کے لئے جن دلائل کا سہارا لیا گیا ہے انہیں علم المخاصمات یا علم الجدل کہتے ہیں۔چونکہ انسانی فطرت میں کثرتِ جدال ہے اس لئے قرآن کریم نے جدال کی تین اقسام بیان کی ہیں:
جدال محمود:
جیسے اللہ تعالی کا یہ ارشاد:
{ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ۔۔۔} (النحل:۱۲۵)
اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعے دعوت دو اور ان سے مجادلہ بھی احسن طریقے سے کرو۔
اسی طرح یہ ارشاد:
{ وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ۔۔۔}(العنکبوت:۴۶)
اور اہل کتاب سے مجادلہ صرف احسن طریقے سے ہی کرو۔

جدال مباح:
جیسے: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَکِیْٓ اِلَی اللّٰہِِ۔۔۔ } ( المجادلۃ:۱)
یقیناً اللہ نے سن لی اس خاتون کی بات جو آپ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑا کررہی تھی۔اور اللہ سے اپنی شکایت بھی۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں: { فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ إِبْرَہِیْمَ الرَّوْعُ وَجَائَ تْہُ الْبُشْرَی یُجٰدِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطِ ں} (ہود:۷۴)
جب ابراہیم علیہ السلام کا خوف ختم ہوا تو وہ ہم سے قوم لوط کے بارے میں لگے جھگڑنے۔ اور یہ ارشاد
{ یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِہَا } (النحل:۱۱۱)
جس دن ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں جھگڑے گا۔

جدال مذموم: جیسے:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ۔۔۔} (الحج:۳)
کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کی ذات کے بارے میں بغیر کسی علم کے جدال کرتے ہیں۔
یا
{ مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔۔۔}( غافر:۴)
اللہ تعالی کی آیات میں صرف کفار ہی جھگڑا کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جدال کے ان آداب وقواعد کو پیش نظر رکھ کر قرآن چند اہم باتوں کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ طلب حق کی غرض سے مجادلہ کرنے والا تعصب سے آزاد ہوکر دوسرے کا نکتہ نظر سنے۔نیز طعن وتشنیع سے دور رہ کر نرم انداز کو اپنائے۔ دلیل کو وزن دے اور اس کا صحیح ہونا مانے۔کبر ونخوت اس کے آڑے نہ آئے۔قرآن کریم میں اولاًمختلف فرقوں کے بنیادی عقائد کو کھل کربیان کیاگیاہے۔ مثلاً:مشرکین کی بت پرستی، مختلف توہمات، منافقین کا دو رخا پن، یہود کا نظریہ کہ ہم دین ابراہیمی کے متبع ہیں اور برگزیدہ قوم ہیں، اور نصاریٰ کا عقیدہ تثلیث وغیرہ اور دونوں کا متشابہات میں پڑنا مگر محکمات سے گریز کرنا ۔ ان عقائد کو بیان کرنے کے بعد قرآن حکیم نے ان کے باطل ہونے کے دلائل دیے ہیں ۔ایسے جھوٹ اور فساد کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کی گئی ہے۔ اورجابجا ان فرقوں کو مخاطب کرکے ٹھوس دلائل و شواہد کے ساتھ ان کے غلط عقائد کی نشان دہی کی ہے۔ اس ضمن میں تورات و انجیل کا حوالہ بھی دیاگیاہے۔ قرآن ہی ہے جس نے سب سے پہلے اس حقیقت پر روشنی ڈالی اور کہا: یہ دونوں کتابیں اب اپنی اصلیّت کھو بیٹھی ہیں اور ان کے پیروکاروں نے ان میں کیا کیا من مانی تبدیلیاں کرڈالی ہیں۔اسی طرح قرآن مجید نے ان تمام فرقوں کے شکوک و شبہات اور دین اسلام پر کئے گئے اعتراضات کا ذکر کیا ہے۔ اور ان کا شافی جواب جدل محمود سے دے کر بھر پور خطابت کے ساتھ اپنی دلائل سے اسلام کا دفاع کیا ہے۔
 
Top