• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت اور ترقی

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عورت اور ترقی

محمد عطاء اللہ صدیقی​
بیسویں صدی کے دوران مغرب نے قوموں کی ترقی کے لئے جس سماجی فلسفہ کو آگے بڑھایا اس کا ایک بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ترقی کے عمل میں عورتوں کی شرکت کے بغیر خاطر خواہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ فقرہ تو تقریباً ضرب ُالمثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
درحقیقت اس طرح کے نعرے تحریک آزادیٔ نسواں کے علمبرداروں کی طرف سے شروع میں انیسویں صدی کے آغاز میں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بے حد مقبولیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں عورتوں کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری تک محدود تھا اور عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کی خاندانی اقدار میں کنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی اورعورت کا بنیادی فریضہ گھریلو اُمور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔ تحریک ِآزادیٔ نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کی ’’حاکمیت‘‘ اور عورت کی بدترین ’غلامی‘ سے تعبیر کیا اور عورتوں کے اس استحصال کے خاتمے کے لئے یہ حل پیش کیا کہ انہیں بھی گھر کے باہر کی زندگی کے عشرت انگیز دائروں میں شریک ہونے کا موقع ملنا چاہئے۔ معاشرت، تعلیم، سیاست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبے میں عورت کی شرکت کو مرد کی حاکمیت او ر غلامی سے چھٹکارا کے لئے ذریعہ سمجھا گیا۔ ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ تحریک ِآزادی ٔ نسواںکا آغاز ہوا۔ آج بیسویں صدی کے اختتام تک صورتحال یہ ہے کہ مغرب میں خاندانی ادارہ اور سماجی اَقدار زوال کا شکار ہوگئی ہیں،مرد اور عورت کے فرائض اور دائرہ کار آپس میں خلط ملط ہوگئے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تحریک ِآزادیٔ نسواں کے زیادہ تر مطالبات مساوی تعلیم کے مواقع اور عورتوں کو ووٹ کے حقوق دینے تک ہی محدود تھے۔ لیکن آج مغرب میں مساوی حقوق کا نعرہ ایک بہت بڑے فتنہ کا روپ دھار چکا ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام دائروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امریکہ اور یورپ نے گذشتہ دو صدیوں کے درمیان جو محیرالعقول سائنسی ترقی کی ہے، اس میں عورتوں کے حصے کو اَصل تناسب سے کہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ محدود دائروں میں عورتوں کے کردار اور حصہ سے انکار ممکن نہیں ہے۔ البتہ مغربی معاشرے کی اجتماعی ترقی کامعروضی جائزہ لیا جائے تو تحریک ِآزادی ٔ نسواں کے علمبرداروں کے دعویٰ مبالغہ انگیز نظر آتے ہیں۔ مغرب کی مادّی اور سائنسی ترقی کے پس پشت کار فرما دیگر عوامل مثلاً جارحانہ مسابقت، مادّی ذرائع پر قبضہ کی ہوس، طبیعاتی قوانین کو جاننے کا جنون، مغربی استعمار کو نو آبادیات پر مسلط رکھنے کا عزم، ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں پر قبضے کی جدوجہد، مغرب کی نشاۃ ِثانیہ کے بعد مغربی معاشرے میں علوم و فنون میں آگے بڑھنے کا جذبہ، سرمایہ دارانہ نظام میں کام کی بنیاد پر ترقی کی ضمانت، مندی کی معیشت وغیرہ جیسے عوامل نے جو کردار ادا کیا ہے ، اس کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قومی ترقی کے لئے کیا عورتوں کا ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ناگزیرہے؟ اس اہم سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دینا بے حد مشکل ہے۔ اگر عورت اپنے مخصوص خاندانی فرائض کو نظر انداز کرکے زندگی کے ہر میدان میں شرکت کرے گی تو خاندانی ادارہ عدمِ استحکام کا شکار ہوجائے گا اور خاندانی ادارے کے عدمِ استحکام میں آنے کے منفی اثرات زندگی کے دیگر شعبہ جات پر بھی پڑیں گے۔ مغرب میں یہ نتائج رونما ہوچکے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اکیسویں صدی میں انسانی تہذیب کو جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ان میںFeminism کا فتنہ اپنے وسیع اثرات اور تباہ کاریوں کی بنا پر سب سے بڑا فتنہ ہے۔ مغرب میں عورتوں کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں جس تناسب اور شرح سے شریک کر لیا گیا ہے، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو دنیا ترقی کی موجودہ رفتار کو ہرگز برقرار نہیں رکھ سکے گی بلکہ اگلے بیس سالوں پر انسانی دنیا زوال اور انتشار میں مبتلا ہوجائے گی۔ جو لوگ عورت اور ترقی کو باہم لازم وملزوم سمجھتے ہیں، انہیں یہ پیش گوئی مجذوب کی بڑ، رجعت پسندی اور غیر حقیقت پسندانہ بات معلوم ہوگی، لیکن بیسویں صدی کے خاتمہ پر انسانیت جس سمت میں جاررہی ہے، بالآخر اس کی منزل یہی ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہئے کہ مغرب کی اندھی تقلید میں خاندانی اداروں کوتباہ کر لینے کے باوجود وہ اُن کی طرح مادی ترقی کی منزلیںطے نہیں کرسکتے۔ مزید برآں مغربی ممالک کی سائنسی و صنعتی ترقی عورتوں کی شرکت کی مرہونِ منت کلیتاً نہیں ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی، ہالینڈ، پرتگال، سپین اور دیگر یورپی ممالک اس وقت بھی سائنسی ترقی کے قابل رشک مدارج طے کرچکے تھے جب ان ممالک میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ملا تھا۔ ۱۸۵۰ء تک صنعتی انقلاب نے پورے یورپی معاشرے میں عظیم تبدیلی برپا کر دی تھی۔ ۱۹۰۰ء تک مذکورہ بالا یورپی اقوام نے افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ جنگ ِعظیم دوم سے پہلے ان ممالک میں عورتوں کا ملازمتوں میں تناسب قابل ذکر نہیں تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جنگ ِعظیم دوم میں مرنے والے کروڑوں مردوں کے خلاء کو پر کرنے کیلئے یورپی معاشرے میں عورتوں کے بادلِ نخواستہ باہر نکلنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ آج کے دور میں جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جاپان کی صنعتی ترقی اور انڈسٹری نے امریکہ اور یورپ کو منڈی کی معیشت میں عبرت ناک شکستیں دیں۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے جاپان کی اشیاء نے امریکہ اور یورپ کی منڈی کو اپنے شکنجہ میں کسا ہوا تھا۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے تک جاپانی معاشرہ مغرب کی Feminism تحریک کے اثرات ِفاسدہ سے محفوظ تھا۔ حیران کن صنعتی ترقی کے باوجود جاپـانی معاشرے نے اپنی قدیم روایات اور خاندانی اَقدار کو قابل رشک انداز میں برقرار رکھا۔ امریکہ اور یورپی ممالک جاپان کے ’’مینجمنٹ‘‘ کے اصولوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی نصابی کتب میں جاپان کے اُصولوں کو شامل کیا۔ امریکہ اور یورپ کے صنعت کار جب جاپانی صنعت کاروں کا مقابلہ نہ کرسکے تو بالآخر انہوں نے جاپانی معاشرے کی ثقافت اور اَقداری نظام کو بدلنے کی سازش تیار کی۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں مغربی میڈیا نے جاپانی ثقافت پر مغربی تہذیب کی یلغار شروع کی۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے جاپان کوopen کرنے کے لئے مسلسل جاپانی حکومتوں پر دبائو ڈالے رکھا۔ صدر ریگن اور جارج بش نے جاپانی راہنمائوں سے ہر ملاقات میں اس شرط کو دہرایا کہ جاپان سے ہر سال ایک مخصوص تعداد میں اَفراد امریکہ اور یورپی ممالک کی سیر کریں۔ جاپانی سینمائوں اور ٹیلی ویژن پر امریکی فلمیں اور ثقافتی پروگرام شروع کرنے کا دبائو بھی ڈالا گیا۔ جاپان کی معروف صنعتی فرموں کو مجبور کیا گیا کہ و ہ اپنے ایزیگٹوز کو یورپ اور امریکہ کی سیر پر جانے کی ترغیب دیں۔ اس طرح کے سینئر مینیجرزکو دیگر سفری الائونس کے ساتھ ایک نوجوان دوشیزہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے الائونس بھی منظو رکرائے گئے۔ امریکی ہوٹلوں نے جاپانی سیاحوں کو رعایتی نرخ پر سہولیات اور شباب و کباب کی تعیشات مہیا کیں۔ امریکیوں نے ملازمتوں میں مساوی حقوق کی شرط بھی جاپان سے منوائی۔ جاپان میں عورتوں کو غیر پیداواری سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۲ء میں ہفت روزہ ’ٹائم‘ میں ٹویوٹا کمپنی کے چیئرمین کا انٹرویو راقم الحروف کی نگاہ سے گزرا تھا جس میں امریکی صحافی نے ٹویوٹا میں عورتوں کی تعداد نہایت کم ہونے کی وجہ دریافت کی تھی۔ اس کے جواب میں ٹویوٹا کے چیئرمین کا جواب نہایت دلچسپ تھا اس نے کہا تھا:
We have already enough decoration flowers in our company
’’یعنی ہمارے ہاں پہلے ہی سجاوٹی پھول کافی ہیں‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
۱۹۹۰ء کے بعد جاپانی معاشرے پر مغربی تہذیب اورFeminism کے اثرات جس تناسب سے بڑھے ہیں، اُسی رفتار سے ان کی صنعتی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج جاپان، جو ماضی قریب میں بہت بڑاصنعتی دیو سمجھا جاتا تھا، ا س کے بارے میں پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ اس کی معیشت مستقبل قریب میں شدید بحران کا شکار ہوجائے گی۔ اس کی بنکوں کی صنعت آج کل بحران سے گزر رہی ہے۔ اس کی کمپیوٹر کی صنعت جس نے امریکی صنعت کاروں کے ہوش اڑادیئے تھے، آج کل سست رفتاری کا شکار ہے۔ جاپان کی مایہ ناز ثقافتی اَقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔ نوجوانوں میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ معاشرہ سخت کشمکش سے دوچار لگتا ہے۔ جاپان کی نوجوان نسل میں حد درجہ اور محنت کی بجائے فیشن پرستی، آزاد روی اور آوارگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
گذشتہ دنوں جاپان کے متعلق ایک تعجب انگیز خبر پڑھنے کو ملی تھی۔ وہ یہ کہ جاپانی حکومت اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے ان عورتوں پر بھی ٹیکس لگانے کا قانون بنا رہی ہے جو اب تک گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ IMF اور مغرب کے معاشی جادوگر پریشان حال جاپانیوں کو یہ پٹی پڑھا رہے ہیں کہ اگرتم اپنی معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہو تو اپنی عورتوں کو گھروں سے باہر نکالو۔ بے حد تعجب ہے ،جاپانی قیادت اُن کے اس فریب کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ادھر سکنڈے نیویا کے ممالک جہاں سیاست اور ملازمت میں عورتوں کا تناسب پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے، وہاں خاندانی اَقدار کی تباہی نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ وہاں عورتیں گھر کو’جہنم‘ سمجھتی ہیں، ماں بننے سے گریز کرتیں اور بچوں کی نگہداشت پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔انہیں گھر سے باہر کی زندگی کا ایسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کو اَپنانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بے نکاحی مائوں اور حرامی بچوں کا سب سے زیادہ تناسب سکنڈے نیویا میں ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے شہرئہ آفاق ہفت روزہ ’اکانومسٹ‘ نے ۲۳ جنوری ۱۹۹۹ء کی اشاعت میںA Survey of Nordic Countries کے عنوان سے سکنڈے نیویا کے پانچ ممالک ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ کے متعلق ایک تفصیلی جائزہ شائع کیا ہے۔ یہ ممالک جو Feminismتحریک کے بہت زیادہ زیر اَثر ہیں اور جہاں عورتوں اور مردوں کی مساوات کو بے حد مضحکہ خیز طریقہ سے قائم کرنے کی صورتیں نکالی جاتی ہیں، ان کے متعلق بعض حقائق بے حد تعجب انگیز اور عبرت ناک ہیں۔مثلاً اکانومسٹ کے مذکورہ سروے، میں ناروے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہاں کی حکومت جوان لڑکیوں کو ’’ماں‘‘ کی ترغیب دینے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے مالی فوائد Incentivesبہم پہنچانے کے لئے قانون پارلیمنٹ میں پیش کرچکی ہے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد اِن عورتوں کو گھر میں بیٹھنے کی ترغیب اور حوصلہ افزائی بتایا گیا ہے۔ اس قانون کی مخالفت محض انتہا پسندوں کی ایک اقلیت کر رہی ہے۔ جن کا زیادہ تر تعلق لیبر پارٹی سے ہے۔ وہ اسے صنفی مساوات کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہیں۔ ناروے کے بارے میں ایک اور بات بھی تعجب سے کم نہیں کہ اس ملک کے موجودہ وزیراعظم Bendevic جن کا تعلق کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، جو ماضی میں پادری رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے آزادئنسواں کے اِن جنونی علمبرداروں کو ناروے کی مثال پر غور کرنا چاہئے جو عورتوں کو گھر میں بٹھانے کی ہر بات کو رجعت پسند ملا کی ناروا ہدایت سمجھ کر مسترد کر دیتے ہیں۔
 
Top