درحقیقت اس طرح کے نعرے تحریک آزادیٔ نسواں کے علمبرداروں کی طرف سے شروع میں انیسویں صدی کے آغاز میں لگائے گئے تھے جو رفتہ رفتہ بے حد مقبولیت اختیار کر گئے۔ اس زمانے میں عورتوں کا دائرہ کار گھر کی چار دیواری تک محدود تھا اور عورت کا اصلی مقام اس کا گھر ہی سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کی خاندانی اقدار میں کنبے کی معاشی کفالت کی اصل ذمہ داری مرد پر تھی اورعورت کا بنیادی فریضہ گھریلو اُمور کی انجام دہی، بچوں کی نگہداشت اور اپنے خاوندوں کے آرام و سکون کا خیال اور فارغ وقت میں عمومی نوعیت کے کام کاج کرنے تک محدود تھا۔ تحریک ِآزادیٔ نسواں کے علمبرداروں نے اس صورتحال کو مرد کی ’’حاکمیت‘‘ اور عورت کی بدترین ’غلامی‘ سے تعبیر کیا اور عورتوں کے اس استحصال کے خاتمے کے لئے یہ حل پیش کیا کہ انہیں بھی گھر کے باہر کی زندگی کے عشرت انگیز دائروں میں شریک ہونے کا موقع ملنا چاہئے۔ معاشرت، تعلیم، سیاست، صنعت و حرفت، ملازمت، غرض ہر شعبے میں عورت کی شرکت کو مرد کی حاکمیت او ر غلامی سے چھٹکارا کے لئے ذریعہ سمجھا گیا۔ ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ تحریک ِآزادی ٔ نسواںکا آغاز ہوا۔ آج بیسویں صدی کے اختتام تک صورتحال یہ ہے کہ مغرب میں خاندانی ادارہ اور سماجی اَقدار زوال کا شکار ہوگئی ہیں،مرد اور عورت کے فرائض اور دائرہ کار آپس میں خلط ملط ہوگئے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تحریک ِآزادیٔ نسواں کے زیادہ تر مطالبات مساوی تعلیم کے مواقع اور عورتوں کو ووٹ کے حقوق دینے تک ہی محدود تھے۔ لیکن آج مغرب میں مساوی حقوق کا نعرہ ایک بہت بڑے فتنہ کا روپ دھار چکا ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام دائروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔