• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت اور ترقی

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی غیر ضروری شمولیت نے جہاں سماجی اور اخلاقی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ وہاں عالمی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ عالمی معیشت کو دو واضح خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یعنی مینوفیکچرنگ اور سروسز(اشیاء سازی اور خدمات) گذشتہ پندرہ بیس برسوں میں عالمی معیشت میں سروس سیکٹر کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی ۷۰ فیصد معیشت سروس سیکٹر پرمشتمل ہے۔ سروس سیکٹر کے پھلنے پھولنے کی ایک اہم وجہ لیبر فو رس میں عورتوں کے تناسب میں اضافہ بھی ہے۔ ہوٹل، بنک، جنرل سٹور، کمپیوٹر، اور دیگر خدمات بہم پہنچانے وا لے اداروں میں عورتوں کی ملازمتوں کا تناسب بہت ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں ہر سال جو نئی ملازمتیں نکل رہی ہیں، ان میں عورتوں کی کھیپ مردوں سے زیادہ ہے۔ سروسز سیکٹر میں اضافے سے خام قومی پیداوار میں تو بظاہر اضافہ ہوا ہے لیکن بالآخر اس کے نتائج حقیقی ترقی کے لئے ضرر رَساں ثابت ہوں گے کیونکہ فقط خدمات ،اشیاء سازی کے بغیر قومی ترقی میں اضافہ نہیں کرسکتیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تحریک ِآزادی ٔ نسواں اور مساوی حقوق کے فتنہ نے امریکہ، یورپ اور بالخصوص سکنڈے نیویا کے ممالک کی فلاحی ریاست کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں ان ممالک میں جس طرح ریاست کے وسیع فلا حی منصوبے سامنے آئے تھے، ان میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے یہ صورت ہوگئی ہے کہ برطانیہ، ناروے، سویڈن وغیرہ ویلفیئر پر اٹھنے والے اخراجات میں مسلسل کمی کر رہے ہیں کیونکہ ان اخراجات کی وجہ سے ان کے بجٹ خسارے میں جارہے ہیں۔ یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان ممالک کے فلاحی اخراجات کا بیشتر حصہ عورتوں پر خرچ ہوتا ہے۔ سکنڈے نیویا کے ممالک میں فلاحی اخراجات کی سب سے بڑی مد بچوں کے Day-Careمراکز کا قیام، اور بے نکاحی مائوں کی مالی امداد کے متعلق ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں علاج و صحت ِعامہ کی بہتر سہولیات کی وجہ سے شہریوں کی اَوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پنشنرزکی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہوگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چونکہ عورتوں کی اَوسط عمر میں اضافہ مردوں کی نسبت زیادہ ہوا ہے، اسی لئے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات کا زیادہ حصہ بھی عورتوں پر ہی خرچ ہوتا ہے۔ ان معاشروں میںجنسی بے راہروی کا تناسب خطرناک حد تک زیادہ ہے، جس نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی صحت پر زیادہ منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اسقاط ِحمل اور مانع حمل ادویات سے عورتوں کی صحت متاثر ہوئی ہے، مزید برآں زچگی کے دوران بھی ریاست فلاحی ضرورتوں کی کفالت کرتی ہے۔ لائف انشورنس کے لئے ریاست کو عورتوں پر نسبتاً زیادہ خرچ برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سکنڈے نیویا میں عورتوں پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات کا حجم قومی ترقی میں ان کے شراکتی حصہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ورکنگ ویمن اپنی آمدنی کے علاوہ مردوں کی آمدنی کا بھی خاصا حصہ خرچ کر ڈالتی ہیں۔ ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ کسی تعمیری کام میں لگنے کی بجائے بنائو سنگھار اور نمودونمائش میں ہی خرچ ہوتا ہے۔ اکانومسٹ کے سروے کے مطابق سکنڈے نیویا میں سنہری دور کا خاتمہ ہونے کو ہے…علامہ اقبالؒ نے آج سے ستر برس قبل یورپ کے متعلق کہا تھا:
یہی ہے فرنگی معاشرے کا کمال … مرد بے کار و زَن تہی آغوش​
’’یعنی مرد بے کار پھر رہے ہیں اور عورتوں کی گود خالی ہے کیونکہ وہ ماں بننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ’اکانومسٹ‘ نے ’’عورت اور کام‘‘ کے عنوان سے مفصل سروے شائع کیا تھا۔ اس سروے میں امریکہ کے مختلف شہروں کے متعلق عورتوں کی ملازمت کے اعدادوشمار دیئے گئے تھے۔ اس سروے میں یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا تھاکہ گذشتہ تین برسوں میں جو نئی آسامیاں نکلی ہیں، ان کا تعلق سروس سیکٹر سے ہے جن میں زیادہ تر عورتوں کو ملازمتیں ملی ہیں۔ اس سروے کے مطابق ملازم عورتوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے مردوں کی بے روزگاری میں خطرناک اِضافہ ہوگیاہے۔ عورتوں کے متعلق یہ دلچسپ صورت بھی بیان کی گئی تھی کہ وہ دفتروں میں کام کے لئے جو سویرے نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ان کے خاوند بچوں کی دیکھ بھا ل کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اِسی سروے میں ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں گھر کی دہلیز پر ایک عورت اپنا بچہ اپنے خاوند کے حوالے کر رہی ہے اور خود اس دہلیز کے باہر قدم رکھ رہی ہے۔ اس سروے میں ایک اور بات بھی قابل ذکر تھی کہ جس محلہ کی عورتیں کام کو سدھار جاتی ہیں تو پیچھے اُن کے مرد گھر پر بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں اور اس محلہ کے بچوں میں جرائم کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ جس طرح مائیں بچوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی ہیں، مرد وہ توجہ نہیں دے پاتے۔ مختصراً یہ کہ اگر عورتوں کی ملازمت کے نتیجے میں مردوں میں بے روزگاری پھیلتی ہے، تو یہ کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ملک کی آبادی سو فیصد تعلیم یافتہ تو ہوسکتی ہے لیکن سو فیصد تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر تمام تعلیم یافتہ خواتین و حضرات اپنا مقصد ِتعلیم حصولِ ملازمت بنا لیں، تو ان کی اچھی خاصی تعداد کو بے روزگار رہنا پڑے گا۔ اس کے مقابلے میں اگر خواتین تعلیم کو حاصل کریں، مگر اپنے گھر کے نظم و نسق اور بچوں کی پیدائش و نگہداشت سے رُوگردانی نہ کریں، گھر سے باہر کے معاملات مردوں کے لئے چھوڑ دیں، تو اس صورت میں اس قوم کا خاندانی شیرازہ بھی قائم رہے گا اور پڑھے لکھے افراد میں ملازمت کا توازن بھی متاثر نہیں ہوگا۔ عورتوں کی ملازمتوں میں برابری پر زور دینے کی بجائے اگر مردوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے تو یہ معاملہ پہلے سے کہیں بہتر ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں مغرب کے اتباع میں ،مساوات ِمرد و زن کی غلط تعبیر کے نتیجے میں قومی دولت کا کثیر سرمایہ غیر پیداواری مدات میں خرچ ہو رہا ہے۔ چند سال پہلے لاہور ہائیکورٹ نے میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کے لئے مخصوص کوٹہ کو مساوات کے اُصول کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا حکم صادر کیا۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ بعض کالجوں میں طلبہ کی نسبت طالبات کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔ مثلاً علامہ اقبال میڈیکل کالج میں باوجودیکہ طالبات کے لئے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی سہولت الگ سے موجود ہے۔ ہائیکورٹ کو طالبات کے لئے الگ کالج کی سہولت میں تو ’عدمِ مساوات‘ کی بات دکھائی نہ دی البتہ دیگر مخلوط کالجوں میں ان کی عدمِ مساوات کا خاص خیال رکھا گیا۔ پاکستان کے معروضی حالات میں طالبات کی نسبت میڈیکل کے طلبہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ میڈیکل کی طالبات کی اکثریت فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملازمت نہیںکرتی۔ اگر کوئی خاتون ڈاکٹر ملازمت اختیار بھی کر لے تو لاہور، ملتان اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں سے باہر تعیناتی کے لئے بھی تیار نہیں ہوتیں۔ پنجاب میں ایک بھی بنیادی ہیلتھ مرکز نہیں ہے جہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر کام کر رہی ہو۔ لاہور میں میو ہسپتال، جناح ہسپتال اور سروسز ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹرز کی بھرمار ہے۔ جہاں ایک کی ضرورت ہے وہاں کم از کم چار کام کر رہی ہیں۔ گویا چار کی تنخواہ لے رہی ہیں اور کام ایک کے برابر کر رہی ہیں۔ ان کی اکثریت چونکہ غیر پیداواری ہے، اسی لئے وہ قومی خزانہ پر بوجھ ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں کو میڈیکل کالج میں لڑکیوں کے لئے ’اوپن میرٹ‘ کا تصور قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمتوں میں ان کی تعیناتی کے متعلق مساوات کو بھی یقینی بنایا چاہئے۔بڑے شہروں سے باہر ملازمت نہ کرنے کے لئے وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکیلی عورت ناسازگار ماحول میں بغیر کسی محرم مرد کے کس طرح کام کرے گی؟ یہ گویا بالواسطہ اعتراف ہے اس بات کا کہ عورتیں وہ سب کام نہیں کرسکتیں جو مرد سرانجام دے سکتے ہیں۔ مگر کھلے لفظوں میں کوئی بھی خاتون یہ اعتراف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ اسے وہ اپنی شکست سمجھتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
راقم الحروف نے سیکرٹریٹ اور دیگر محکمہ جات میں درجنوں خواتین کو کام کرتے دیکھا ہے، ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جو پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے مرد ملازمین کے برابر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہو۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جن کی خانگی زندگی بری طرح متاثر نہ ہوئی ہو۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کے نوجوان بے روزگاری کے بحران سے دو چار ہوں، وہاں ایسے شعبہ جات میں عورتوں کی تعیناتی جہاں مرد بھی کام کرسکتے ہوں، قوم کے معاشی مسائل میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ ایک لڑکے کا بے روز گار رہنا لڑکی کے بے روزگار رہنے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ لڑکے پر مستقبل میں ایک پورے کنبہ کی کفالت کا بوجھ پڑنا ہوتا ہے۔ جبکہ خاندان کی معاشی کفالت عورت کی سرے سے ذمہ داری ہی نہیں ہے۔
عورتوں کی ملازمت کے متعلق ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ آج کل مہنگائی کے دور میں میاں بیوی دونوں کابرسر روزگار ہونا خاندان کے مجموعی وسائل میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ بعض استثنائی صورتوں میں تو شاید یہ بات درست ہو لیکن مجموعی اعتبار سے یہ مفروضہ مغالطہ آمیز ہے۔ ایک ملازم خاتون اپنی تنخواہ سے کہیں زیادہ یا کم از کم اِس کے قریب قریب اپنے لباس کی تیاری، میک اَپ، ٹرانسپورٹ، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے آیا کے بندوبست، گھر میں نوکرانی کی تنخواہ وغیرہ پر خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایک سترہ گریڈ کے افسر کی ماہانہ تنخواہ چار ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جبکہ مذکورہ اخراجات اس سے کہیں زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں عدمِ سکون، بے برکتی اور بدنظمی کا سامنا الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک ملازم پیشہ عورت خود بھی پریشان ہوتی ہے اور اپنے خاوند اور بچوں کو بھی پریشان کرتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ قومی ترقی میں کوئی مثبت کردار کیسے ادا کرسکتی ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ ملازم عورتیں اپنے خاوندوں کا بہت سارا وقت برباد کر دیتی ہیں۔ وہ دعویٰ تو ’برابری‘ کا کریں گی، لیکن انہیں دفتر لے جانے اور لے آنے کی ذمہ داری ان کے خاوند ہی کو نبھانے پڑے گی۔ گویا اُن کی ملازمت کی وجہ سے اُن کے خاوند بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ترقی یافتہ معاشروں میں معاشی ترقی کی رفتار میں ٹھہرائو یا کمی آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی اِفرادی قوت میں نوجوان طبقہ کی تعداد میں کمی و اقع ہوگئی ہے۔ کام کے قابل افرادی قوت میں کمی کا سبب وہاں کی عورتوں میں بچے پیدا نہ کرنے کا رحجان ہے۔ پاکستان میں ۴۵ فیصد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مبنی ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بوڑھوں کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب اگر وہ نئی صنعتیں قائم کرنا چاہیں، نئے منصوبہ جات لگانا چاہیں تو ان کے پاس مطلوبہ افرادی قوت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، کینڈا اور دیگر ممالک ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو درآمد کرتے ہیں اگر ان ممالک سے ایشیائی اور افریقی محنت کشوں کو نکال دیا جائے تو یہ سخت معاشی بحران سے دو چار ہوجائیں گے۔ یہ ایک تناقض فکر ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک میں آبادی کے اضافہ کے رحجان پر سخت تشویش میں مبتلا رہتے ہیں، لیکن ان ترقی پذیر ممالک کی اضافی آبادی ہی ہے جو اُن کی معیشت کو سنبھالے ہوئے ہے۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top