غامدی صاحب کی غلط عربی تحریر
یہاں موصوف کا وہی حال ہے جو انگریزی کے مشہور ناول ڈون کیخوت (صحیح اسپانی تلفظ یہی ہے) Don Quicchotte کے شہسوار ہیرو کا تھا جو ہوا میں خیالی دشمنوں پر تلوار چلاتا ہے۔ جناب ذرا یہ بھی تو بتا دیتے کہ وہ گرفتار وہم لوگ کون ہیں؟ جنھوں نے اس آیت میں واقع لفظ ’’المحصنات‘‘ سے ’’الحرائر‘‘ (آزاد عورتیں) مراد لیا ہے؟ عربی کے مفسرین میں سے امام طبریؒ ، امام فخرؒ الدین رازی، زمخشری، قرطبی، ابن کثیر اور اردو کے مترجمین و مفسرین شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا محمود الحسن، مولانا مودودی، مولانا فتح محمد جالندھریؒ ، مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ سب ہی نے پاک دامن عورتیں مراد لی ہیں۔ اختلاف، عربی تفاسیر میں، صرف اس بارے میں ہے کہ یہ آیت صرف حضرتِ عائشہؓ کی پاک دامنی کے بارے میں ہے، یا اس میں تمام پاک دامن عورتیں شامل ہیں، اور زیادہ تر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ تمام پاک دامن مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ افسوس ہے کہ موصوف نے
’’المحصنات ہذہ‘‘ غلط عربی لکھی ہے، ہذہ کی جگہ ’’ہنا‘‘ چاہیے۔
اس آیت کے ساتھ موصوف نے پاک دامن باندیوں پر اتہام لگانے والوں کے لیے برابر کی لعنت اور عذاب کا ذکر چھیڑ دیا ہے کہ ایسے لوگوں پر بھی ویسی ہی لعنت و عذاب ہوگا، یہ لعنت و عذاب تو آخرت کی بات ہے، لیکن وہ سزا جو باندیوں پر اتہام زنا لگانے والوں کی ہے، یعنی ۴۰ کوڑے، اگر سورہ النور کی آیت ۴ میں پاک دامن عورتوں پراتہام لگانے والوں کی سزا یعنی ۸۰ کوڑوں کی تصریح نہ ہوتی تو ’’باندیوں پرزنا کا اتہام لگانے والوں کی بھی یہی سزا ہوتی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں:
’’وأما فی الآیۃ التی سبقت لبیان عقوبۃ القذف، فیحتمل ان یختص بالحرائر منہن، لان العقوبۃ انما تزید و تنقص بحسب تغیرالازمنۃ والاحوال‘‘
یہ ہے وہ صریح مفہوم قرآنی کی تحریف جس کے لیے غامدی صاحب نے حصن اور محصنات کی ساری بحث چھیڑی ہے۔
عقوبۃ القذف (اتہام زنا) کی جس آیت کی طرف موصوف نے صرف اشارہ کیا ہے وہ ہے:
والذین یرمون المحصنت تم لم یاتوا باربعۃ شہداء فاجلدوہم ثما نین جلدۃ ولاتقبلوالہم شہادۃ أبداً (النور:۴)
موصوف کا اس آیت قذف کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں واقع ’’المحصنات‘‘ کے معنی (یحتمل) آزاد عورتیں (حرائر) ہو، کیونکہ سب علماء کا، جیسا کہ امام الجصاص حنفی (م۳۴۰ھ) نے کہا ہے، اتفاق ہے کہ اس سے مراد آزاد، مسلمان بالغ، عاقل، پاک دامن ہیں، خواہ عورتیں خواہ مرد، اور یہی بات امام رازی نے اس کی آیت کی تفسیر میں کہی ہے جو احادیثِ نبویہؐ اور اقوالِ صحابہؓ پر مبنی ہے۔
غامدی صاحب کے خیال میں ’’حد‘‘ کم اور زیادہ ہوسکتی ہے
آخر میں موصوف نے جو یہ کہا ہے کہ سزا (یعنی حد کہ اسی کا یہاں ذکر ہے) ’’زیادہ اور کم بھی ہوسکتی ہے، زمانوں اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘‘۔ یہ بات قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ حدود (قرآنی سزائیں) جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، ان میں کوئی کمی بیشی کسی زمانے اور صورتِ حال میں نہیں ہوسکتی، البتہ بیماری یا حمل کی صورت میں مؤخر ہوسکتی ہیں۔ غامدی صاحب کے بیان کردہ قاعدہ کو بہانہ بنا کر کہا جاسکتا ہے کہ عصر حاضر میں شادی شدہ زانی کی سزا رجم، اور غیر شادی شدہ کی ۱۰۰ کوڑے اور تہمت زنا پر اسی کوڑے مناسب نہیں، ان میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے یا اس کو جیل کی سزا سے بدلا جاسکتا ہے۔ تعزیر میں تو یہ ہوسکتا ہے لیکن یہاں ذکر حد قذف کا ہے تو اس مقام پر سزائے حد میں کمی بیشی کی رائے دینا بہت بڑی جسارت ہے، بلکہ یہ حدود اللہ میں تحریف کے مصداق ہے۔
اس کے فوراً بعد انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب بھرتی ہے۔ اس موقع پر ان کا یہ کہنا کہ عہد جاہلی میں اکثر باندیاں (الاماء) پیشہ ور بدکار (بغایا) عورتیں تھیں بالکل غلط ہے۔ بہت کم اور صرف وہ باندیاں بدکار پیشہ ور تھیں جن سے ان کے کچھ مالکین پیشہ کراتے تھے، اور قرآن میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصّنا لتبتغوا عرض الحیٰوۃ الدنیا (النور:۳۳) مکہ و طائف کی سوسائٹی میں پیشہ ور عورتیں معروف تھیں، جو اپنے گھروں پر ایک علامتی جھنڈا لگائے رکھتی تھیں۔
’’سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں وارد:
’’والمحصنات من المؤمنات‘‘ کی تفسیر میں جن عورتوں سے نکاح حلال قرار دیا گیا ہے، وہ ہیں:
ای العفائف من المؤمنات والعفائف من الذین اوتو الکتاب (یعنی پاک دامن مسلمان اور پاک دامن کتابی (یہودی و نصرانی) عورت سے شادی تمھارے لیے حلال کر دی گئی ہے) یہی وہ معنی ہیں جو مفسر امام طبریؒ ، قرطبیؒ ، ابن کثیرؒ وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں مختلف صحابہؓ و تابعینؒ سے نقل کیے ہیں اور یہی مفہوم اردو کے مترجمین و مفسرین شاہ عبدالقادر دہلویؒ ، مولانا محمود الحسن، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا مودودیؒ ، مولانا فتح محمد جالندھریؒ اور مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ نے مختلف الفاظ (پاک دامنوں، پارسا عورتوں، محفوظ عورتوں) میں ادا کیا ہے۔ امام طبریؒ نے دونوں اقوال نقل کیے ہیں، وہ
’’المحصنات من المؤمنات من الذین اوتوا الکتاب‘‘ کی شرح ساتھ ساتھ کرتے ہیں، اور اسی لیے مسلمان اور اہل کتاب کی آزاد و شریف عورتوں کی اجازت نکاح کا بیان کیا ہے، کیونکہ مسلمان باندیوں سے نکاح اور اس کی شرائط کا ذکر سورہ النساء کی آیت ۲۵ میں ہے اور کتابی باندیوں سے نکاح کرنے کی اجازت بہت سے فقہاء کے نزدیک نہیں ہے کیونکہ وہ عفت کے مفہوم سے ناآشنا ہوتی ہیں۔
یہاں ایک اہم امر کی طرف اشارہ ضروری ہے جو یہ ہے کہ ’’حرۃ‘‘ (آزاد شریف زادی) کے معنی میں عفیفہ ہونے کا مفہوم پنہاں ہے، اس کی دلیل کتب حدیث و سیرت میں ہند زوجۂ ابوسفیان کے اس قول میں ہے جو اس نے اس وقت کہا تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بیعۃ النساء لی تھی جس کا ذکر سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر ۱۲ میں ہے اور چھ ممنوعات کے ضمن میں یہ بھی ہے کہ ’’وہ زنا نہیں کریں گی‘‘ (ولا یزنین)، ہند نے اس موقع پر حیرانگی کے ساتھ برجستہ کہا تھا ’’اوتزنی، الحرۃ‘‘ کیا آزاد شریف زادی بھی زنا کرسکتی ہے!
فہم قرآن کا انحصار ارشادات نبوی، فقہائے صحابہ و تابعین پر یا لغت جاہلی پر
اس آیت کی تفسیر میں غامدی صاحب کا یہ اصرار بے جا ہے کہ ’’والمحصنات‘‘ سے یہاں مراد صرف عفائف (پاک دامن عورتیں) ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی فہم کے لیے وہ صرف لغت اور جاہلی اشعار پر اعتماد کرتے ہیں، جب کہ صحیح اور منطقی بات یہ ہے کہ فہم قرآن کے لیے ارشادات نبویؐ اور فقہائے صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمۃ سلفؒ کے اقوال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج، انفاق وغیرہ کتنے ہی الفاظ ہیں جو اسلام سے پہلے عربی زبان میں موجود تھے۔
الفاظ کے نئے معنیٰ: شرعی معانی
لیکن اسلام نے ان کے نئے معانی مقرر کیے جو شرعی معانی کہلاتے ہیں اور وہی مستند ٹہرے۔
امام ابوبکر الجصاص نے اپنی کتاب احکام القرآن (ج۳، ص۹۳، ۹۴) میں لفظ احصان (جس سے المحصنات ہے) پر بہت عمدہ بحث کی ہے کہ لغت میں تو بے شک اس کے معنی عفت کے ہیں، جو ’’المحصنات الغافلات‘‘ میں ہے، لیکن شریعت میں اس کا اطلاق ان مختلف معانی پر ہوتا ہے جو لغت میں نہیں۔ انھیں معانی میں سے ایک اسلام ہے، دوسرا تزویج ہے (شادی) اور یہ کہ پھر شرعی احصان سے متعلق دو حکم ہیں:
۱۔ زنا کا الزام لگانے والے پر حد جاری کرنے کے لیے پانچ یہ شرائط ہیں: پاک دامنی، آزادی، اسلام، عقل، بلوغ، تو جس مقذوف میں یہ صفات نہ ہوں اس کے قاذف پر حد جاری نہ ہوگی، یعنی زانی، غلام، کافر، پاگل اور بچے پر تہمت زنا لگانے والے پر حد جاری نہ ہوگی۔
۲۔ دوسرا حکم حد رجم سے متعلق ہے۔ اس سزا کا مستحق وہ ہوگا جس میں یہ شروط پائی جاتی ہوں: اسلام، عقل، بلوغ، آزادی اور نکاح صحیح، کہ ان چار شروط کے ساتھ وہ دونوں مباشرت کرچکے ہوں۔ اگر ان صفات میں سے کوئی صفت نہ ہو تو وہ رجم کا مستحق نہ ہوگا / نہ ہوگی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں ’’پاک دامنی‘‘ کی شرط نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لفظ ’’المحصنات‘‘ پر جو سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۵ میں اور پھر سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں ہے۔ فقہاء تابعین اور أئمہ تفسیر و ائمہ فقہ کے درمیان اختلاف ہے جیسے دیگر فقہی مسائل میں ہے لیکن سلف میں سے کسی نے دوسرے کو اس طرح مطعون نہیں کیا ہے جس طرح غامدی صاحب نے کیا ہے۔
امام فخر الدین رازی کو دیکھیے کہ انھوں نے سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں واقع ’’المحصنات‘‘ کی تفسیر میں دو قول بیان کیے ہیں: ۱۔ الحرائر (آزاد شریف زادیاں) ۲۔ العفائف (پاک دامن عورتیں) اور پہلے مفہوم الحرائر کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاک دامن معنی لینے کی صورت میں باندیوں سے نکاح جائز ہوگا، جب کہ یہ ان کے نزدیک سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۵:
ومن لم یستطع منکم طولا۔۔۔ الخ کے بموجب صحیح نہیں کیونکہ اس کی دو شروط ہیں کہ (۱) آدمی کے پاس مالی استطاعت نہ ہو (عدم الطول) (۲) اور حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، دوسری بات یہ کہ آیت مذکورہ میں مہر انہی کو دینے کا حکم ہے جب کہ باندی چونکہ اپنے آقا کی ملکیت ہوتی ہے اس لیے آقا کو دیا جانا چاہیے اور ایسا کیا گیا تو حکم قرآنی کی مخالفت ہوگی، تیسرے یہ کہ اس صورت میں زانیہ عورت سے نکاح جائز نہ ہوگا اور ثابت یہ ہے کہ وہ حرام نہیں ہے اگر توبہ کرلے، چوتھے یہ کہ احصان کا اشتقاق تحصُّن سے ہے اور تحصن کا ثبوت باندی کے مقابلے میں آزاد عورت کے لیے زیادہ ہے، خواہ باندی پاک دامن ہی ہو، کیونکہ وہ آزاد (شریف زادیوں) کے برخلاف اکثر باہر جاتی اور لوگوں سے ملتی ہے، ان تمام وجوہ کے پیش نظر ان (امام رازی) کے نزدیک یہاں المحصنات کے معنی ’’حرائر‘‘: آزاد شریف زادیوں کے ہیں۔
غامدی صاحب: اسالیب عربی سے لاعلم عجمی جو ایک پیراگراف صحیح نہیں لکھ سکتا حضرت عمرؓ پر طنز کرتا ہے
لیکن انھوں نے اپنے مخالفین احناف پر جو ’’المحصنات‘‘ کے معنی اس آیت مائدہ میں ’’پاک دامن عورتیں‘‘ لیتے ہیں وہ طنز نہیں کیا جو غامدی صاحب نے ان مفسرین و فقہاء پر کیا ہے جو اس لفظ کے معنی ’’آزاد‘‘ عورتیں مراد لیتے ہیں، اور اس کے لیے استدلال سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴
(ومن لم یستطع منکم طولا۔۔۔ الخ) سے کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے موصوف کے طنزیہ الفاظ ہیں:
’’فقد استدل بمالم تکن علیہ فی فحوی الآیۃ من الدلالۃ، فان الآیۃ لیس فیہا شئ بدل علی حظر نکاح الاماء فمن مارس لغۃ القرآن و نظر فی اسالیبہ علم انہ لوکان کذلک لوجب التصریح‘‘۔
آپ کو معلوم ہے کہ غامدی صاحب کی اس تغلیط اور طنز کی ضرب کس پر پڑتی ہے؟ حضرت عمرؓ پر اور حضرت ابنؓ عباسؓ کے مشہور شاگرد اور مفسر قرآن مجاہد پر اور ان کے بعد امام طبری پر جن کی ۳۰ جلدوں کی تفسیر سے ۱۲ سو سال سے مسلمان فیض یاب ہو رہے ہیں۔ کیا ان مقدس اور معتبر عرب ہستیوں کو لغت (زبان) قرآن کی فہم نہ تھی؟ اور وہ اس کے اسالیب بیان سے لاعلم تھے؟ کہ آج ایک عجمی کو جو عربی زبان کا ایک پیراگراف بھی صحیح نہیں لکھ سکتا اور اپنی عربی تحریر میں املاء اور نحوی اغلاط کا مرتکب ہوتا ہے اس کو یہ جرأت ہو کہ ان عظیم اسلاف پر طنز کرے جن کی عمریں قرآن کی شرح و بسط میں گزریں۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ امام طبری نے سورۂ مائدہ کی اس آیت میں واقع جملوں
’’والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من اہل الکتاب‘‘ کی تفسیر میں مشہور تابعی مفسر قرآن کا مجاہد قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد ’’الحرائر‘‘ (آزاد شریف زادیاں) ہیں۔ اور ساتھ ہی مختلف اسناد سے اس یمنی عورت کا قصہ دہرایا ہے، جو زنا کی غلطی کی مرتکب ہوئی تھی، پھر اس نے توبہ کرلی تھی، اور بہت نیک ہوگئی تھی لیکن اس کے اہل خانہ اس کی شادی کرانے سے خائف تھے کہ پتہ چل گیا تو کیا ہوگا، وہ اپنی مشکل حضرت عمرؓ کے پاس لے کر آئے، حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ کوئی نیک آدمی اس سے شادی کا پیغام دے تو اس سے شادی کردو، ساتھ ہی انھوں نے اس کے والد یا چچا کو جو یہ مشکل ان کے سامنے لے کر آیا تھا دھمکی دی، کہ ’’جس بری بات کی اللہ نے ستر پوشی کی تھی اس کو میرے سامنے ظاہر کرنے آئے ہو۔ خدا کی قسم تم نے اگر کسی کو اس لڑکی کے اس گناہ کی بات بتائی جس سے وہ توبہ کرچکی ہے، تو میں تمہیں ایسی سخت سزا دوں گا کہ تم یاد کرو گے، بس ایک مسلمان پاک دامن عورت کی طرح اس کی شادی کردو‘‘۔
اس کے بعد انھوں نے بعض دوسرے ان تابعی مفسرین کی رائے نقل کی ہے جو اس آیت میں واقع لفظ ’’المحصنات‘‘ کے معنی پاک دامنوں (عفائف) کے لیتے ہیں اور اس سب کے بعد وہ پہلے قول کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس سے مراد مسلمانوں اور اہل کتاب کی آزاد (آزاد منش نہیں) عورتیں ہیں اور انھوں نے اس کے لیے دلیل یہ دی ہے کہ اللہ تعایٰ نے باندیوں سے اسی صورت میں شادی کی اجازت دی ہے جب وہ مسلمان ہوں
(ومن لم یستطع منکم طولاً ان ینکح المحصنات المؤمنات فمّما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات) اور اگر یہاں دونوں جگہ المحصنات سے مراد پاک دامن عورتیں ہوں تو ان کی پاک دامن باندیاں بھی اس میں شامل ہو جائیں گی اور غیر پاک دامن آزاد اہل کتاب کی عورتیں اور آزاد مسلمان عورتیں اس سے (شادی کی اجازت سے) خارج ہوجائیں گی جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وانکوا الأیامیٰ منکم و الصالحین من عباد کم و اِمائکم‘‘۔ اپنے مجرد اشخاص (خواہ عورت خواہ مرد) کی شادی کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور نیک باندیوں کی بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر عفیف مرد و عورت کی شادی بھی کرائی جانی چاہیے لیکن غلاموں اور باندیوں میں سے صرف ان کی جو پاک دامن ہوں۔
غامدی صاحب کا اس موقع پر
’’ومن لم یسطع منکم طولا ان ینکح المحصنات‘‘ (اور تم میں سے جس کے پاس مالی استطاعت نہ ہو کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرسکے) کی تفسیر میں یہ کہنا کہ اس سے پاک دامن عورتیں ہی مراد ہیں۔ بالکل غلط ہے، کیونکہ یہاں ’’المحصنات‘‘ کے مقابلے میں
فممّا ملکت ایمانکم من فتیانکم المؤمنات‘‘ (تو ایسی صورت میں مسلمان باندیوں سے جو تمہاری مملوکہ ہوں شادی کرلو) آیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ باندیوں کے مقابل (opposit) آزاد عورتیں ہی ہوسکتی ہیں، پاکدامن نہیں۔
غامدی صاحب کی ناقص زبان دانی صرفی و نحوی اغلا
جاوید احمد غامدی صاحب کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی ناقص زبان دانی اور جاہلی اشعار کے حفظ پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور متقدمین مفسرین امام طبری، امام رازی اور حافظ ابن کثیر وغیرہ کی تفاسیر سے رجوع نہیں کرتے اور اس کے نتیجہ میں ایسے دعوے کرتے ہیں جو سراسر غلط ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی وہ تنقید اسلاف کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان کی تفاسیر پڑھتے ہیں تو یہ ان کا جبن ہے کہ وہ ان صحابہ، تابعین اور قدمائے مفسرین کا نام نہیں لیتے جن پر وہ طنز کرتے ہیں۔ ہم حسن ظن رکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس موقع کے لیے انھوں نے تفسیر طبری سے رجوع ہی نہیں کیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ غامدی صاحب کے بر خلاف جن ائمہ تفسیر نے سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں واقع لفظ ’’المحصنات‘‘ سے وہی معنی مراد لیے ہیں جو سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۵ میں واقع اس لفظ کے ہیںیعنی آزاد مسلمان اور آزاد اہل کتاب خواتین انہی کی رائے صحیح ہے۔اور ان میں امام شافعی بھی شامل ہیں ابو بکر الجصاص الحنفی نے اپنی کتاب ’احکام القرآن نکاح الاماء (ج ۳، ص ۱۰۹) میں سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں محصنات سے آزاد عورتیں مراد لی ہیں۔
باندیوں سے متعلق غیر ضروری اور بے فائدہ بحث کے بعد غامدی صاحب واپس سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ کی طرف آتے فرماتے ہیں:
’’فالمعنی: انہّ لماَبین ماحرم نکاحہ من النساء وکرہ وما لم بجزا کُلہ من الطعامُ احل الطیبات من الطعام والعفائف من النساء المؤمنات ومن اہل الکتاب‘‘۔
موصوف نے اپنی اس رائے کے لیے اس سے مراد پاک دامن عورتیں ہی ہیں، سورۂ مائدہ کی اس آیت کے پہلے لفظ الیوم کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ صراحۃً غلط ہے کیونکہ امام رازی کے بقول وہ لفظ الیوم سابقہ آیت
الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ میں لفظ نعمت کی تفسیر ہے کہ جس طرح میں نے روحانی نعمت کی تکمیل اسلام کو تمہارے لیے پسند یدہ قرار دے کر کردی ہے تمہاری بدنی نعمت کی تکمیل کے لیے آج سے تم کو آزاد مسلمان اور کتابی عورتوں سے شادی کی اجازت دے کر کردی ہے۔
اس عبارت پر دو اعتراضات ہیں : ایک تو یہ کہ آیت
اُحل لکم الطیبات ۔۔۔الخ‘‘ سے پہلے حرام کھانوں اور حرام جانوروں کا تو سورۂ مائدہ میں ذکر ہے۔ لیکن یہاں جن عورتوں سے نکا ح حرام ہے ان کا کوئی ذکر نہیں ان کا ذکر بہت پہلے سورۂ نساء کی آیت ۲۳ و ۲۴ میں ہے۔ دوسرے یہ کہ
’’ماحرم نکاحہ من النساء‘‘ رکیک اور غیر واضح عربی ہے صاف الفاظ میں ہونا چاہیے:
لمّا تقدم ذکر ا لنساء اللاتی حرم نکاحھّن ۔۔۔ الخ یا ایسا ہی کچھ اور۔
غامدی صاحب نے یہاں باندیوں سے نکاح کا ذکر کیا ہے جو بے سود ہے، کیونکہ اب باندیوں کا دنیا میں وجود نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ سلف میں سورۂ مائدہ کی زیر بحث آیت سے مراد: آزاد شریف عورتیں اور پاکدامن عورتیں دونوں ہیں۔ ہر فریق کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ یہی بات ہمارے مفسرین متقدمین طبری،جصاص، زمخشری، قرطبی وغیرہ نے کہیں اختصار اور کہیں تفصیل کے ساتھ کہی ہے۔ جصاص کی احکام القرآن کی تیسری جلد میں باب المتعہ، باب نکاح الاماء اور نکاح الاماء الکتابیات میں بڑی تفصیل ہے۔
باندیوں کے نکاح سے متعلق آیت پر بحث سے ہم یہاں صرف نظر کرتے ہیں، جو بے سود اور ضیاع وقت ہے کہ اب باندیوں کا وجود ہی نہیں۔
البتہ ہم یہ وضاحت کرنا چاہیں گے کہ قرآن میں لفظ المحصنات (ص پر فتحہ) صرف آٹھ مرتبہ آیا ہے۔ ایک مرتبہ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں اور تین مرتبہ اسی سورہ کی آیت نمبر ۲۵ میں اور دو مرتبہ سورہ مائدہ آیت نمبر ۵ میں اور دو مرتبہ سورۂ نور آیت اور آیت ۲۳ میں۔
یہ لفظ ان آیات میں تین مختلف معانی میں آیا ہے۔(۱)شادی شدہ عورتیں۔ (۲)آزاد عورتیں (باندی کے مقابلے میں) ۔ (۳)پاکدامن عورتیں۔
سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں یہ بالاتفاق شادی شدہ عورتوں کے لیے آیا ہے کہ ایسی عورتوں سے شادی کرنا حرام ہے۔ اور آیت نمبر ۲۵ میں یہ دوبار آزاد شریف عورتوں کے لیے آیا ہے۔
ومن لم یستطع منکم طولاً ان ینکح المحصنات فمما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المومنات اور اسی آیت میں آگے:
فاذا اتین بفاحشۃ فعلھن نصف ما علی المحصنات من العذاب۔
سورۂ نور کی آیت نمبر ۴ :
والذین یرمون المحصنات ثم لم یا توا باربعۃ شہداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ اور آیت نمبر ۲۳:
والذین یرمون المحصنات الغافلات المومنات لُعنوا فی الدنیا والآخرۃ میں المحصنات بالاتفاق پاکدامن عورتوں کے لیے آیا ہے۔
لیکن سورۂ نساء کی آیت کے اس جملہ:
وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات میں بعض کے نزدیک محصنات یہاں پاکدامن عورتوں کے لیے ہے اور بعض کے نزدیک اس کے معنی ہیں کہ ان سے نکاح کیا جائے جو زنا اور آشنائی نہیں چاہتیں۔ علی الاعلان زنا کرنے والیوں اور آشنائی کرنے والیوں کے مقابل میں منکوحات ہی ہوتی ہے۔ ایسا ہی اختلاف سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذین اوتو الکتاب کے بارے میں ہے سلف میں سے ایک فریق اس کے معنی آزاد شریف عورتوں کے لیتا ہے۔